اے ٹی ایم کارڈ (ATM Card) کا استعمال

فقہ وفتاویٰ

مفتی محمد جعفر صاحب ملیؔ رحمانیؔ     

صدر دار الافتاء-جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا

مسئلہ:    آج کل بینکوں کی طرف سے ایک اور کارڈ جاری ہوتا ہے، جسے اے ٹی ایم کارڈ (Automated Transfer Machine) کہتے ہیں،یعنی مشین کے ذریعے رقم وصول کرنایامنتقل کرنا، یہ مشینیں بذاتِ خود بہت قیمتی ہوتی ہیں، پھر ان کی تنصیب اور حفاظت وغیرہ پر بھی کثیر اخراجات لگائے جاتے ہیں، بعض دفعہ اس کارڈ کا وجود ڈیبٹ کارڈ کے ضمن میں بھی ہوتا ہے، مثلاً: ایس بی آئی بینک (SBI Bank) نے جو کارڈ جاری کیا ہے، اس کی پشت پر لکھا ہے ڈیبٹ اینڈ شاپنگ کارڈ (Debit & Shopping Card) ، یعنی جہاں اس ڈیبٹ کارڈ میں رقم نکالنے کی سہولت موجود ہوتی ہے، وہیںیہ ڈیبٹ کارڈ، اے ٹی ایم کارڈ بھی ہوتا ہے(۱)،اس کا حکم یہ ہے کہ اس کو استعمال کرنے پر اگر متعین رقم مشین کے استعمال کی اُجرت کے طور پر اِدارہ وصول کرے، جو مقدارِ رقم سے قطعِ نظر ہو، تو جائز ہے، لیکن اگر اِدارہ رقم کو بنیاد بناکر اس پر کچھ وصول کرے، تو یہ جائز نہیں، بلکہ سود ہوگا(۲)، البتہ ادارہ کارڈ جاری کرنے کی فیس وصول کرسکتا ہے۔(۳)

الحجۃ علی ما قلنا :

(۱) ما في ’’ ہامش فتاوی عثماني ‘‘ : في المعاییر الشرعیۃ : خصائص بطاقۃ الحسم الفوري : ۱ – تصدر ہذہ البطاقۃ من المؤسسۃ لمن لہ رصید في حسابہ ۔ ۲ – تخول ہذہ البطاقۃ لحاملہا السحب ، أو تسدید أثمان السلع والخدمات بقدر رصید المتاح ، ویتم الحسم منہ فورًا ، ولا تخولہ الحصول علی ائتمان ۔ ۳ – لا یتحمل العمیل رسومًا مقابل استخدامہ ہذہ البطاقۃ غالبًا إلا في حال سحب العمیل نقدًا ، أو شرائہ عملتہ أخری عن طریق مؤسسۃ أخری غیر المؤسسۃ المصدرۃ للبطاقۃ ۔ ۴ – تصدر ہذہ البطاقۃ برسم أو بدونہ ۔ (۳/۳۵۵ ، کتاب الربا والقمار والتأمین ، فصل في البطاقات وأحکامہا- کریڈٹ کارڈ اور اس کی مختلف قسموں کے احکام)

وما في ’’ ہامش فتاوی عثماني ‘‘ : یجوز للمؤسسات إصدار بطاقۃ الحسم الفوري ما دام حاملہا یسحب من رصیدہ ولا یترتب علی التعامل بہا فائدۃ ربویۃ ۔

(۳/۳۵۵ ، الحکم الشرعي لأنواع البطاقات ، ط : کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)

(۲) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {أحل اللّٰہ البیع وحرّم الربوا} ۔ [سورۃ البقرۃ :۲۷۵] ۔ وقولہ تعالی : {یا أیہا الذین اٰمنوا لا تأکلوا الربوٰٓا أضعافاً مضاعفۃ} ۔ (سورۃ آل عمران : ۱۳)

ما في ’’ صحیح البخاري ‘‘ : عن عون بن أبي جحیفۃ قال : رأیتُ أبي اشتری عبدًا حجامًا فأمر بمحاجمہ فکُسرتْ فسألتہ ، فقال : ’’ نہي النبي ﷺ عن ثمن الکلب وثمن الدم ونہی عن الواشمۃ والموشومۃ ، وآکل الربا وموکلہ ، ولعن المصور ‘‘ ۔ (۱/۲۸۰ ، کتاب البیوع ، باب موکل الربا ، رقم :۲۰۸۶)

ما في ’’ صحیح مسلم ‘‘ : عن جابر قال : ’’ لعن رسول اللّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال : ہم سواء ‘‘ ۔ (۲/۲۷ ، کتاب المساقات والمزارعۃ ، باب لعن آکل الربا)

ما في ’’ سنن ابن ماجۃ ‘‘ : عن عبد اللّٰہ بن مسعود عن أبیہ قال : ’’ لعن رسول اللّٰہ ﷺ آکل الربوا وموکلہ وشاہدیہ وکاتبہ ‘‘ ۔ (۱/۱۶۵، سنن أبي داود :۲/۳۷۴ ، باب في اکل الربوا)

ما في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘ : الربا شرعًا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضۃ ۔ ’’ تنویر ‘‘ ۔ (۷/۳۹۸ – ۴۰۱)

ما في ’’ موسوعۃ الاقتصاد الإسلامي في المصارف والنقود والأسواق المالیۃ ‘‘ : ومن ضمن أبواب العمل في مؤسسات الإقراض الربوي ؛ لأن رسول اللّٰہ ﷺ لعن الآکل والمؤکل والشاہد والکاتب وقال : ’’ ہم سواء ‘‘ ۔ (۱/۲۱۶ ، ل – الأجر الحرام ، تألیف : أ۔ د۔ رفعت السید العوضي)

(۳) ما في ’’ اللباب في شرح الکتاب ‘‘ : الإجارۃ عقد علی المنافع بعوض ، ولا تصح حتی تکون المنافع معلومۃ والأجرۃ معلومۃ ۔ (۲/۲۸ ، کتاب الإجارۃ ، ط: قدیمي کتب خانہ کراچي) (فتاویٰ دار العلوم دیوبند، رقم الفتویٰ: ۱۷۴۳۵، المسائل المہمۃ فیما ابتلت بہ العامۃ: ۱۰/۲۰۰، مسئلہ نمبر: ۱۳۵، بینک کا سروِس چارج وصول کرنا) 

(فتاویٰ دار العلوم زکریا افریقہ: ۵/۳۸۸، بینک کارڈ کی اقسام اور اُن کا شرعی حکم، ط: زمزم پبلی شرز ،کراچی)

(حاشیہ فتاویٰ عثمانی: ۳/۳۵۵، کریڈٹ کارڈ کاحکم)