اے میرے ہندستانی بھائیو! دستور مخالف قوانین کے خلاف لوہے کی دیوار بنے رہو!

اداریہ:

مولانا حذیفہ بن مولانا غلام محمد صاحب وستانوی

ہندستان کی بد قسمتی :

            الحمدللہ ! دیر سے ہی سہی ! ہم ہندستانیوں کو سمجھ میں آیا ہے کہ آزادی کے بعد سے لے کر اب تک ہمیں کوئی ایک ایسی حکومت میسر نہ ہوسکی ، جو پورے خلوص کے ساتھ ہندستان کی بقا اس کی سالمیت اور اس کی ترقی کے لیے فکر مند اور سنجیدہ ہو؛ اگر کسی پارٹی نے تھوڑا بہت کیا بھی ہے تو ستر سال کی طویل مدت میں اسے کسی شمار میں نہیں لایا جاسکتا ، اب اگر کسی پارٹی نے دس بیس فیصد کام کیا اور بعد میں چل کر آنے والی پارٹی نے اس پر صرف پانی ہی نہیں پھیر دیا؛ بل کہ اگلے بیس سال کے لیے ملک کو پیچھے ڈھکیل دیا ہوتو ؛ہمارے اس عظیم ملک کے لیے اس سے بڑی اور کیا بد قسمتی ہوسکتی ہے ؟!

ہندستانی سیاست اور منافرت کی گرم بازاری :

            آزادی کے بعد ہی سے ملک میں مذہبی منافرت کا ایسا بیج بویا گیا، جس کے سہارے اب تک تمام سیاسی پارٹیاں اپنی روٹیاں سینک رہی ہیں ؛مگر تکلیف اس بات سے زیادہ ہوتی ہے کہ وہ ملک جو دنیا میں علم اور ذہانت کے میدان میں مشہور مانا جاتا ہے؛ وہاں کے باشندے بلا سوچے سمجھے اس گندی سیاست کا شکار کیسے ہوتے چلے آرہے ہیں ؟ کیا انہیں اتنا بھی شعور نہیں کہ یہ سیاست داں جماعتیں، کس طرح ہمیں بے وقوف بناکر اپنی کرسی بچارہے ہیں اور کس طرح ملک کو لوٹ رہے ہیں؟ اب بھی موقع ہے ، بل کہ اس وقت یہ گولڈن چانس ہے کہ ملک کے تمام باشندے بلا تفریق ایک پلیٹ فارم پر آکر ان دھوکہ باز منتریوں سے جان چھڑانے کے لیے اپنی پوری صلاحیت جھوکنے کو تیار ہوجائیں ؛ ورنہ یہ عظیم ملک یا تو بکھر جائے گا یا کنگال ہوجائے گا ۔ سب کے لیے دشواریاں ہوں گی ، اس کی زد کسی ایک طبقے کے لیے محدود نہیں ہوگی ۔ تو آئیے ایک ہندستانی شہری ہونے کے ناطے ؛میں آپ کو چند تجاویز پیش کرنے کی کوشش کروں گا ، جو ملک کو سالمیت کی طرف لے جائے گی ان شاء اللہ !

سیاہ قانون کی مخالفت اور دستور کے بقا کے لیے فوری تجاویز:

            ۱- اس وقت کا جو سب سے زیادہ اہم اور ترجیحی کام ہے ، جس کی ذمہ داری تمام باشندگانِ ہند پر عائد ہوتی ہے ، وہ یہ ہے کہ اپنے دستوری اور جمہوری حق کو استعمال کرتے ہوئے سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کی مکمل مخالفت میں جو لوگ احتجاج کررہے ہیں، ان کا مکمل تعاون اور ان کی حوصلہ افزائی کریں ۔

            حکومت نے یہ سوچ رکھاہے کہ یہ مظاہرہ کریں گے ،تو کہاں تک کریں گے ؟ دو چار ماہ کے بعد ٹھنڈے ہوکر بیٹھ جائیں گے؛لہٰذا اس تصور کے برخلاف تمام ہندستانیوں کو کمر بستہ ہوجانا چاہیے ، چاہے جو ہونا ہو …ہو ۔

            ۲- اس احتجاج اور مخالفت میں ایکتا کا مکمل مظاہرہ کیاجائے ، نفرت آمیز سازشوں سے ہوشیار رہ کر کام کیا جائے ۔ اور سیاسی افراد کو اس سے دور رکھا جائے ؛اس لیے کہ ہمیں ان سے کوئی توقع نہیں ہے ۔ عام طور پر یہ لوگ صرف اپنا الو سیدھا کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں ؛لہٰذا اگریہ نفرت پر مبنی بیان بازی کریں ،تو ہندو مسلم سب مل کر اس کو مسترد کردیں ، چاہے وہ بیان کرنے والا مسلمان یا ہندو یا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو ؛بل کہ ایسوں کے خلاف قانونی کار روائی کریں اور ان کا مکمل بائیکاٹ کریں ۔

            ۳- حکومت کے کسی بھی فریب میں نہ آئیں، اس لیے کہ مکرنا اس حکومت کی امتیازی شان اور پہچان ہے ، بس اس پر ڈٹے رہیں کہ اس وقت ہم کسی بھی قسم کی مردم شماری کے حق میں بھی نہیں ہیں۔

            ۴- حکومت دھوکہ دہی کرکے مردم شماری کے نام پر این پی آر کرانے کے چکر میں ہے ، بل کہ اس کی تیاری بھی کرچکی ہے ، تو ہر محلہ ، ہر گاوٴں اور ہر ضلع اور اسٹیٹ میں ایک ایک کمیٹی بنائیں کہ اگر حکومت نے کسی کو مردم شماری کے لیے بھی ہمارے گھروں پر بھیجا تو ہم متحدہ طور پر اس کو نکار دیں گے۔اور نہ فارم بھرنے دیں گے اور نہ کوئی اپنے کاغذات دیں گے اور نہ کوئی ریکارڈ بتائیں گے۔ اپنے اپنے علاقے میں جتنے مذاہب کے ماننے والے بااثر لوگ ہیں جن کا کسی پارٹی سے تعلق نہ ہو ، جو سنجیدہ اور پڑھے لکھے ہوں، جن کا کریکٹر اچھا ہو،ان کے ساتھ مل کر کمیٹی بنائیں ۔ ان شاء اللہ ہم ایک ویب سائٹ یا سافٹ ویئر بنارہے ہیں ، اس پر اپنی کمیٹی کا نام ڈال دیں اور قانونی رہبری حاصل کریں، جس کے لیے ہم آپ کو تفصیلات فراہم کریں گے ان شاء اللہ !

            ۵- ملک میں اب الحمدللہ ! خوف اور نفرت کا ماحول کم ہوا ہے ، لہٰذا تمام ملکی باشندے یہ طے کرلیں کہ اگر حکومت نے کوئی این پی آرکا اقدام اٹھایا اور لوگوں کو بھیجا تو گاوٴں کے افراد بڑے چھوٹے سب سڑکوں پر آجائیں گے اور ان آنے والوں سے صاف کہہ دیں گے کہ جب تک تم واپس نہیں جاوٴگے ہم سڑکوں پر ہی رہیں گے؛ البتہ ان کے ساتھ کوئی بد تمیزی نہ کریں ، بل کہ سمجھا کر انہیں واپس جانے کو کہیں ۔

            ۶- NO CAA, NO NRC, NO NPR اسٹیکر بناکر اپنے گھروں کے دروازے پر اور مختلف عوامی راہ گز ر پر لگادیں اور اپنی شدید ناراضگی اور مخالفت کا اندراج کروائیں۔

            ۷- اپنے محلہ ، گاوٴں اور علاقے کی جو ” تحریک عدم تعاون“ کمیٹی بنے، وہ ایک میمورنڈم تیار کرکے سرکاری محکمہ کلکٹر ،ایس پی وغیرہ کو سب گاوٴں والوں کی دستخط کے ساتھ دے کہ ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں اور حکومت نے اگر کوئی قدم اٹھایا تو ہم بالکل تعاون نہیں کریں گے۔

            یہ ہمارا آئینی، دستوری اور جمہوری وانسانی حق ہے۔

            ۸- ایسے میڈیا چینلوں سے دوری بنائے رکھیں ،جو حکومت کی ہاں میں ہاں ملائے اور ان کا بائیکاٹ کریں اور ان کے کسی بھی پروپیگنڈے سے بالکل متاثر نہ ہوں؛ اسی طرح سوشل میڈیا پر جولوگ دستور مخالف اس سیاہ قانون کی حمایت میں کام کررہے ہیں ، ان سے بھی بچ کر رہیں۔

            ۹- کسی بھی قسم کی افواہ پر کان نہ دھریں ، کوئی بھی خوف زدہ کرنے یا دباوٴ لانے والی خبر آئے تو اس کی مکمل تحقیق اور چھان بین کرلیں اور اس سے نہ گھبرائیں ؛اگر ہم سب متحد رہے،توان کی تمام تدبیریں ناکام ہوجائیں گی۔

            ۱۰- مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے سے تعلقات قائم رکھیں اور اپنے مذہب کی جو امن و سلامتی کی تعلیمات ہیں اس پر عمل کریں ۔ کوئی مذہب بلا وجہ بگاڑ اور فساد پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا، مذاہب کی تعلیمات میں سے ایک بنیادی تعلیم امن قائم کرنا ہے ۔ یہ تو بے دینوں نے دنیا میں انسان کو خود غرض بناکر ،فساد عام کردیا ہے اور پھر مذاہب کو خواہ مخواہ بدنام کردیا ہے۔ اس اصول کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں۔

            یہ تو ہوئے وہ تجاویز جو فی الفور سیاہ قانون کو روکنے کے لیے باشندگان ہند کو انجام دینے ہیں ۔

 سیاسی ،اقتصادی وتعلیمی بحران سے نکلنے کی تجاویز:

            اب چند ایسی تجاویز پیش ِخدمت ہیں، جو ملک کو دائمی طور پر نفرت سے نکال کر محبت کی فضا میں لے جانے اور سیاسی ،اقتصادی وتعلیمی بحران سے ملک کونکال کر ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں لا کھڑا کرنے کے لیے ضروری ہیں۔       ۱- ملک کے تمام باشندے یہ طے کرلیں کہ وہ سب مل کر ایک ایسا سیاسی پلیٹ فارم بنائیں گے، جس میں تعلیم یافتہ اور سنجیدہ وخدمت گزار ملک کے لیے قربانی دینے والے بے لوث افراد شامل ہوں ۔ عیاش، منافرت پھیلانے والے، جرائم پیشہ کوئی فرد نہ ہو ،سب مل کر ایسے شخص کوہی منتخب کریں گے اور مفاد پرستوں سے ملک کو نجات دلائیں گے، تو ہمیشہ کی تکلیف دور ہوگی اور ملک ترقی کرے گا۔

            ۲- ملک میں تعلیم اور صحت کے شعبہ کو سب سے زیادہ مستحکم کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔ صرف کاغذ پر نہیں ، بل کہ عملی طور پر تعلیم و تربیت کے نظام کو درست کیا جانا چاہیے اور پڑھنے پڑھانے کا ماحول ہونا چاہیے۔ ایک سروے کے مطابق ہمارے یہاں ریسرچ کی صورتِ حال یہ ہے کہ ایک ملین افراد میں سے صرف ۲۱۶/ افراد حصہ لیتے ہیں ، ہم اس میدان میں پاکستان سے بھی پیچھے ہیں ۔ Warld Bank کے سروے کے مطابق جو اس نے The world index پر نشرکیاہے ،کہ ہم اٹھارہ نمبر اور پاکستان ۱۷/ نمبر پر ہے ۔ جب کہ پاکستان ہم سے سات گنا چھوٹا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تحقیق وریسرچ پر کوئی توجہ نہیں دیتے؛ جب تک ہم اپنے بچوں کو مطالعہ اور تحقیق کے عادی نہیں بنائیں گے ترقی نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں نیٹ فری کی ضرورت نہیں؛ بل کہ کتاب فری اور معیاری تعلیم ، کتب خانوں اور ریسرچ سینٹروں کی ضرورت ہے ۔

            ۳- ملک کے دستور میں C.A.Aکی نہیں ؛بل کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ الیکشن میں کھڑے ہونے والے امید واروں کا کرائٹیریا متعین کیا جائے کہ وہ تعلیم میں P.H.Dہو ں، اچھے اخلاق والے ہوں ، ایمان دار ، خدمت گزار اور جرائم پیشہ نہ ہوں۔

            ۴-نظام تعلیم کو نئے سرے سے موجودہ ضرورتوں کو پیش ِنظررکھ کر تیار کرنے کی سخت ضرورت ہے ، اس لیے کہ آزادی سے پہلے برٹش گورنمنٹ نے جو نظام تعلیم چھوڑا تھا، اس میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں کی گئی ، بہت سی چیزیں ہمارے نو نہالوں کو ایسی پڑھائی جاتی ہیں، جو یا تو غلط ہے یا موجودہ دور میں اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ نصابی کتابوں کی تیاری اور اس کی طباعت کا معیار بھی انتہائی درجہ گرا ہوا ہے ، آج کا دور آئی لرننگ کا دور ہے یعنی آنکھ سے دیکھ کر سیکھنے سکھانے کا دور ہے ، لہٰذا تعلیمی اداروں میں اسمارٹ بورڈ یا پروجیکٹ کا استعمال ضروری ہونا چاہیے۔ اسی طرح تحقیق اور ریسرچ کے لیے لیبوریٹیاں معیاری ہونی چاہیے ، سرکاری اسکولوں اور تعلیم گاہوں کا بہت برا حال ہے، اساتذہ نہ پڑھاتے ہیں نہ طلبہ پر کسی طرح کی محنت کرتے ہیں ، ان کی گرفت کا کوئی قابل ذکر نظام نہیں، اگر یہی صورت ِحال رہی تو ہمارا ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا ۔

            ۵- ملک میں ٹیکس کا نظام بے حد غیر مرتب ہے ، ایک طرف ملک کے باشندوں سے بڑے پیمانے پر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور دوسری طرف وہ ٹیکس کہاں جاتا ہے اس کا کوئی حساب نہیں۔ بدستور ملک کی سڑکوں ، سرکاری ہسپتالوں اور محکموں کا برا حال ہے۔ سڑکیں انتہائی درجہ خستہ ہیں ، آخر کب اس کی طرف توجہ دی جائے گی؟؟!!

            ۶- ملک میں جتنے قسم کے کورٹ ہیں ان کا بھی برا حال ہے ، جج حضرات اپنی ڈیوٹی کو جس طرح نبھانا چاہیے نہیں نبھاتے ، رشوت کا بازارگرم ہے ، پیسے دے کر جو جب چاہے جیسا چاہے فیصلہ حاصل کرلیتا ہے، فیصلوں میں بڑی تاخیر ہوتی ہے مہینوں نہیں بل کہ سالوں گزر جاتے ہیں ، وکیل حضرات بھی جی بھر کر لوگوں کو لوٹتے ہیں ، عوام کا کوئی پرسان حال نہیں،لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی اصلاح کی جائے ۔

            ۷- ملک کے لیے سب سے بڑا مسئلہ رشوت کی گرم بازاری ہے ، کوئی کام سرکاری محکموں میں بغیر رشوت کے انجام نہیں پاتے ، جس کی وجہ سے ہر میدان میں لوگ اپنی من مانیاں چلاتے ہیں گویا ملک کے قانون اور دستور کا پیسوں کے بل بوتے پر مذاق اڑا یا جاتا ہے ۔ ایک اینٹی کرپشن ایسی کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے ، جو امانت دار اور دیانت دار افراد پرمشتمل ہو، رشوت خوروں کو پکڑے اور ان پر سخت کارروائی ہونی چاہیے ۔

            ۸- مالیاتی اور بینکی اداروں کی اصلاح کی بھی سخت ضرورت ہے ، بڑے بڑے سرمایہ دار ملک کی عوام کی گاڑھے پسینے سے جمع کی ہوئی رقموں کو اپنے کریڈٹ پر لون کے نام پر اٹھاتے ہیں اور پھرفرار ہوجاتے ہیں اور بچاری عوام روکر بلبلاکر اورزیادہ سے زیادہ دانت پیس کر رہ جاتی ہے، آخر یہ سب کب تک چلتا رہے گا؟

            ۹- ملک کے بڑے بڑ ے اور اہم مسائل کو حل کرنے اور ان پر غور خوض کرنے کے لیے ماہر اور امانت دار افراد کی ایک ایسی کمیٹی ہونی چاہیے جو حالات کا جائزہ لے کر ترجیحی اصول کی بنیاد پر مسائل سے نکلنے پر غور خوض کرے کہ ملک سے مہنگائی کو کیسے کم کیا جائے ؟غریبی اور فقیری کو کیسے کم کیا جائے ؟لوگوں کی بنیادی ضرورتوں میں کیسے سہولتیں فراہم کی جائیں۔ مثلاً: روٹی کپڑا اور مکان، تعلیم ،علاج جو بنیادی ضرورتیں ہیں اسے کس طرح کم سے کم خرچ پر فراہم کیاجائے؟ ملک میں امن و امان اوربھائی چارگی کی فضا کیسے قائم کی جائے ؟ ملک میں مذہب کے نام پر نفرت آمیز تقریروں کو کیسے روکا جائے ؟ ملک میں بار بار ہونے والے فسادات کی روک تھام کا سد ِباب کیسے ہو؟ پولیس کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلا کر ظلم اور بربریت سے کیسے روکا جائے ؟ملک کے آئین ، دستور اور قوانین سے کھلواڑ نہ ہو اور اس کی روح یعنی سیکولرزم کو نقصان نہ پہنچے ، اس کے لیے کیا کیاجائے ؟جرائم پیشہ افراد کو پارلیمنٹ تک پہنچنے سے کیسے روکا جائے ؟ کورٹوں میں جو مقدمات کروڑوں کی تعداد میں سالوں سے معلق ہیں تیزی کے ساتھ ان کا فیصلہ کیسے ہو؟ ملک کی شاہراہوں اور سڑکوں کو ایک ہی بار مضبوط کس طرح بنایا جائے یہ اور اس طرح کے ضروری مسائل پر سنجیدگی کے ساتھ غور ہونا چاہیے ۔

            ۱۰- نوجوانوں میں تعلیمی شوق پیدا کرنے کے لیے ایسے کمپیٹیشن ہونے چاہیے، جس سے ان میں پڑھنے لکھنے کا شوق پیدا ہو، مثلاً فاسٹ ریڈنگ ،مائنڈ میپنگ جیسے مقابلے جگہ جگہ ہونے چاہیے ۔ملک کے نوجوانوں کو اسپورٹ ،کھیل کود ، فلموں وغیرہ سے زیادہ ان چیزوں کی ضرورت ہے ۔ ٹھیک ہے صحت کے لیے کچھ اسپورٹ وغیرہ کرایا جائے تو کوئی حرج نہیں،وہ بھی ایسی چیزوں میں جو ورزش کے قبیل سے ہو ،البتہ مخرب الاخلاق فلموں اور ڈراموں پر روک لگنی چاہیے، ہمارے مستقبل کے یہ معمار اگر اس طر ح کی بے ہودہ چیزوں میں مبتلا ہوں گے توملک کیسے ترقی کرے گا ؟

            بہر حال یہ چند وہ تجاویز ہیں جو ملک کے ان نازک حالات میں قابل ِتوجہ ہیں؛ اگر ذمہ داراورسنجیدہ قسم کے افراد اس پر توجہ دیتے ہیں تو ملک کے تمام مسائل حل ہونے کی امید ہے ۔ اللہ کرے اس جانب توجہ دی جائے اور ان پر عمل در آمد کی کوئی شکل نکالی جائے۔ اللہ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے اور ہمیں اس کی سالمیت اور ترقی کے لیے کوشش کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔