مفتی صدیق احمد؛ جوگواڑ،نوساری، گجرات
تعلیم ایک ایسا عنصرہے جس کا حصول انسان کودیگر جانداروں سے ممتازکرکے ایک مہذب زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتاہے؛ تعلیم کاانسانی زندگی کوسنوارنے کا اور قوموں کے مستقبل کو تعمیر کرنے میں ایک اہم کرداررہاہے؛ چوں کہ تعلیم کے ذریعے کسی بھی قوم کا دل ودماغ بنایا اور اس کے اعمال و کردار کا قطب مینار تعمیر کیا جاتاہے، کامیابیوں اورعزت وسربلندی کاابتدائی زینہ تعلیم ہے ۔جس طرح دنیامیں رہن سہن کے طوروطریق سیکھنے کے لیے تعلیم وتہذیب اور جنرل نالج کی ضرورت پڑتی ہے، اس سے کہیں زیادہ ضرورت دینی تعلیم کی پیش آتی ہے؛کیوں کہ جب انسان اپنے خالق ِحقیقی کو نہیں پہچانے گا ، اپنے مالک کے احکام نہیں سیکھے گاتوکیسے وہ اپنے پروردگار کی شکرگزاری کرسکے گا؟اورکیوں کر احکامات کو عملی جامہ پہناپائے گا؟
یادرہے! اگرکسی قوم میں تعلیم ہی نہ ہوتووہ قوم کبھی پروان نہیں چڑھ سکتی؛ نیز طریقہٴ تعلیم اگرغلط ہوتوتعلیم کاپورااثرظاہرنہیں ہوسکتا؛ اوراگراستاذ قابل نہ ہو توقابلیت کادروازہ کھل ہی نہیں سکتا؛ اگرسب کچھ ہواورنظام تعلیم درست نہ ہو تو متوقع نتائج نہیں نکل سکتے ۔
پچھلے کافی لمبے عرصے سے لاک ڈاؤن کے مسلسل بڑھتے رہنے کی وجہ سے تعلیمی نظام متأثر ہی نہیں ہوا؛ بلکہ پورے طورپر تہس نہس ہوچکاہے ۔خریدوفروخت اورلین دین ملک کے گوشے گوشے میں جاری ہے، الیکشن کی انتخابی ریلیاں، سیاسی جلوس اور جلسے بھی بڑے دھوم دھام سے ہوئے۔ دھاندلی، غنڈہ گردی، شدت پسندی، سیاست کاکھیل، بلاوجہ کے نئے نئے قوانین کابننابھی اب تک نہیں رُک سکا ہے؛ ملک کاتقریبًاسارانظام چل رہاہے، بس صرف تعلیم کانظام پورے طورپرروک دیاگیا ہے، کہیں باقی ہے توبس برائے نام ہی باقی رہ گیاہے۔
ملک کے نوجوانوں کامستقبل بربادہورہاہے، ان کے اوقات یوں ہی ضائع ہورہے ہیں، اساتذہ کرام کاقیمتی وقت یاتودیگر مصروفیات کی نذر ہوچکاہے، یاتویوں ہی ضائع ہورہاہے۔ پرائیویٹ اداروں میں جہاں تنخواہیں جاری ہیں، وہاں قرضے پرقرضے چڑھتے جارہے ہیں؛ کہیں پرائیویٹ اساتذہ کوتنخواہیں نہیں مل پارہی ہیں اورکہیں ائمہ مساجد اورمؤذنین کاگزارامشکل ہوا جارہا ہے؛ روزانہ کام کرنے والے مزدوربھوک مری پرمجبورہیں، کمزورطبقے کے طلبہ خواہ دینی تعلیم سے وابستہ ہوں، یاعصری تعلیم سے اس وقت اپنے مستقبل کوبنانے کے بجائے مسلسل بلاانتظام کے نافذکیے ہوئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھرکاخرچ نکالنے کے لیے دووقت کی روٹی کے لیے کام کاج میں لگنے پر مجبور نظر آرہے ہیں ۔
غرض! اس وقت کی صورت ِحال کچھ اس طرح کی ہے کہ کوئی کسی کا پرسان ِحال نہیں،تمام لوگ اپنی اپنی فکرمیں لگے ہوئے ہیں ۔ایسے میں علماء،فضلاء، ائمہ کرام اورمؤذنین کی قدرکے بجائے ان کی طرف سے پورے طورپرمنہ موڑلیاگیا ہے؛ بہت سی جگہوں پر ان کو بوجھ سمجھا جارہاہے، حالاں کہ یہی حضرات پیدائش سے لیکر جنازہ تک آپ کی رہنمائی کرتے اور آپ کے بچے کے دنیامیں آنے کے بعد سے لیکرجسم سے روح پروازکرجانے تک ان ہی کی ضرورت پڑتی ہے، بلاکسی معاوضہ کی ہرطرح کی رہبری و خدمت انجام دیتے ہیں، ہرطریقے سے آپ کے کام آتے ہیں، ان کی قدرکرنی چاہیے، ایسے مشکل حالات میں ان کاخیال رکھنا چاہیے ۔
ادھر حکومت یہ چاہتی ہے کہ نئی نسل تعلیم میں دینی اوردنیوی دونوں اعتبار سے بالکل کھوکھلی رہے، تاکہ انہیں اپنی من مانی طورپرغلام بنا کررکھاجاسکے، اورملک کے مسلمانوں پر اتناظلم وتشددکیاجائے کہ لوگ اسلامی تعلیمات سے دورہوکربرائے نام ہی مسلمان باقی رہ سکیں، مسلمانوں کے وجود کواس دنیاسے ختم کردیاجائے ۔
ایسی صورت ِحال میں ہم پریہ فرض عائد ہوتاہے کہ ہم ظالمانہ حکومتی منصوبے کوخاک میں ملادیں اورلاک ڈاؤن کے باوجود علمی وعملی پختگی اورجدیدعلوم کے حصول میں لگ کر نئی نئی چیزوں کو سیکھ کر،ہرطرح کے دینی ودنیوی علوم کو حاصل کرکے حکومت کویہ بتادیں کہ دنیاکی کوئی بھی طاقت ہمارے شوق وجذبے کے آگے چٹان بن کر حائل نہیں ہوسکتی، جوبھی طاقت راستے کاروڑہ بن کررکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرے گی وہ خودروئی کے گالوں کی طرح بکھرکر، ریزہ ریزہ ہوکرتند وتیزطوفان میں گم ہوجائے گی۔
تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ جب بھی باطل طاقتوں نے سرابھاراہے، سازشیں رچی ہیں، ہرموڑ پر اللہ کے کچھ نیک بندوں نے منظم منصوبہ بناکر ایسا مقابلہ کیا ہے کہ انکی طاقتیں نیست و نابود ہوگئیں اور ناپاک منصوبہ خاک میں مل گیا۔ بطور مثال ترکی کاایک سچا واقعہ ذیل میں درج کیاجارہاہے:
1924ء میں ترکی میں خلافت کو باقاعدہ اسمبلی سے منسوخ کروادینے کے بعد 1926 ء میں فقہ اسلامی بھی بحیثیت قانون عدالتوں سے ختم کردی گئی تھی ۔
مصطفٰے کمال پاشا کازمانہ تھا، سرکاری انگریزی تعلیم کو لازم قراردے دیاگیاتھا؛ بڑے بڑے علماء یاتوشہیدکردیے گئے تھے یانظربند(قید)کردیے گئے۔
الغرض! علمی سلسلہ جاری نہ رہنے کی وجہ سے ”بلیک آؤٹ“ جیسی صورت ِحال پیداہورہی تھی؛ اب خوف یہ تھاکہ صورت ِحال مزید کچھ دن ایسی رہی تودینی تعلیم کوپڑھنے پڑھانے والے بھی نہ مل پائیں گے ؟
شیخ محمود آفندی دامت برکاتہم کی توجہ اورمحنت سے ان کے مرید ”موسی امجا“ اپنے گھر کے تہہ خانے میں مکتب کھولنے پرتیارہوگئے، جوبعد میں مدرسہ کی شکل اختیار کرگیا۔اُس وقت مخصوص طریقے پرترکی کانورانی قاعدہ تیارکیاگیاتھا، جس کو پڑھ لینے کے بعد عربی زبان سیکھنے سکھانے کاسلسلہ شروع ہوتاتھا، جوطلبہ نصر ینصرکی گردان یادکرلیتے، ان سے فرماتے کہ تم والیٴ شہر سے افضل ہو،جوطالب علم حروف جر پڑھ لیتا، حضرت اس سے فرماتے کہ: تم اب جاکر کہیں پر یہی حروف جر پڑھاؤ، پھرتمہیں اگلاسبق دیں گے، وہ عرض کرتاحضرت کیاپڑھاؤں؟اورکیسے پڑھاؤں؟ حضرت فرماتے کہ: ہمارے یہاں علم اصل نہیں، عمل اورتبلیغ اصل ہے ۔ تم انہیں تصوف پڑھاؤ اورتربیت کرو ، یہ علم تو عوام کوآتاہے نہ علماء کو، تم نے جتنا تصوف سیکھ لیاہے اسے تھوڑے علم کے ساتھ جوڑکر پڑھاؤگے تو مرجع ِخلائق بن جاؤگے ؟
حضرت کے ایک شاگرد نے آٹھ سال کی عمر میں ان سے پڑھنا شروع کیاتھااورسولہ سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوئے ، وہ بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں کتابیں تونہیں ہوتی تھیں، جوکتاب تھی ان کا رسم الخط نئی نسل نہیں سمجھتی تھی ، پولیس اورخفیہ ایجنسیاں چھاپے مارتی تھیں کہ بچہ اسکول جارہاہے یانہیں؟ اس لیے حضرت کی ایک تاکید تویہ تھی کہ جوبچہ ہمارے پاس شام کوپڑھے وہ فی الحال اسکول سے ناغہ نہ کرے ، دوسرے انہوں نے کم وقت میں آسان اورزیادہ مقدار میں تعلیم کے لیے دینی تعلیم کوآسان بنانے کے لیے جہاں تک ممکن ہو دینی شعائر وارکان کواشارے کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی ، اس زمانے میں علمائے کرام نے بے شمار قربانیاں پیش کیں ۔
جوحضرات دیہات میں بچوں کوپڑھاتے تھے ،وہ کاشت کاری کالباس پہنتے اورکتاب کے ساتھ کھیتی باڑی کے آلات تیار رکھتے ، گاؤں سے باہراونچی جگہ درخت پردوبچوں کو بٹھا دیاجاتاتھا، جیسے ہی فوجی جیپ آتی تمام طلبہ کتابیں چھوڑ کرکھیت میں پہنچ جاتے اوردل جمعی سے قومی زرعی پیداوارکے اضافے میں جٹ جاتے۔
شہرکے اساتذہٴ کرام نے توعجیب ہی طریقہ اختیارکیاتھا، ترکی میں یورپ کی طرح ریل کاسفر سستا اورآرام دہ ہے، یہ حضرات سستی قیمت پر مستقل نشستیں لے لیتے ، صبح صبح شاگردوں سمیت ریل گاڑی کاایک ڈبہ مخصوص کرکے سفر شروع کردیتے؛ سفر جاری رہتااورزمینی سفرکے ساتھ علمی سفر بھی چلتارہتا، آخری منزل پراترنے کے بعد یہ لوگ کچھ دیر سستاتے اورپھراستاذ اورشاگردوں پر مشتمل یہ جماعت واپسی والی ریل پرسوار ہوجاتے اوروقفے کے بعد والے اسباق مکمل کرتے ہوئے شام کوبخیریت گھر پہنچ جاتے ۔(ترک ناداں سے ترک دانا تک)
دیکھیے! کس طریقے سے چند لوگ سرجوڑ کربیٹھے اورحل نکالنے کی کوشش کی تو اتنی خطرناک پابندی کے باوجود، دین اسلام کوسیکھنے سکھانے کاسلسلہ مسلسل جاری رہااورنصرتِ خداوندی شامل حال رہی، آج بھی اگر ہم ایساطریقہ اختیار کریں کہ جس کے پاس جتنا علم ہے خواہ دینی ہو یادنیوی، وہ اپنے سے کم علم والے کے لیے کچھ وقت نکال کرسیکھے اور سکھائے، اس طرح ہراوپر والا نیچے والے کی فکر کرے، اورہرنیچے والے اپنے اوپر والے سے کچھ وقت، لیکر حصول علم میں لگے، ان کے قیمتی اوقات کے بدلے معمولی معاوضہ دیدے، اوراسی طریقے سے علمائے کرام بھی اپنے اپنے طور پر کوئی نظام بنائیں کہ جس سے اپنے محلے کے طلبہ،یارشتہ دار، یامدرسے کے طلبہ ان سے کچھ نہ کچھ حاصل کرسکیں۔ عصری علوم کے طلبہ بھی اپنے ماسٹرز سے درخواست کریں کہ وہ کچھ معاوضہ لیکرہی ان کے لیے آن لائن یا آف لائن کچھ وقت نکالیں، اورحصول علم میں لگ جائیں، جس طرح بھی حصول علم ہو،جیسابھی علم حاصل کرنے کا موقع ملے اسے ضائع نہ کرتے ہوئے اپنے اوقات کو کارآمد بناکرمشغول رہیں، تو ان شاء اللہ یہ لاک ڈاؤن کا عرصہ بجائے مضر ثابت ہونے کے مفید ترین ثابت ہوگا اور جوکچھ بھی لاک ڈاؤن کے عرصے میں طالب علم حاصل کرے اساتذہٴ کرام دیگر طلبائے کرام کوابھارنے اورشوق ورغبت دلانے اوران کی حوصلہ افزائی کے لیے مختصر سامضمون تیار کرکے اخبارات میں شائع کردیں ۔
آپ جانتے ہی ہیں کہ: دار العلوم دیوبند کے قیام کا مقصد ایسے نوجوان تیار کرنا ہے جو رنگ و نسل کے لحاظ سے ہندوستانی ہوں ،لیکن دل و دماغ کے لحاظ سے اسلامی ہوں، جن میں اسلامی تہذیب و تمدن کے جذبات بیدار ہوں اور دین و سیاست کے لحاظ سے ان میں اسلامی شعور زندہ ہوں ۔(حضرت مولانا قاسم نانوتوی)
اس لیے ضروری نہیں ہے کہ یہی طریقہ اختیار کیاجائے، بس اصل مقصد حکومت کے ناپاک منصوبے کوناکام کرکے،دارالعلوم کے مقصدِقیام کولیکرآگے بڑھنا ہے اور اپنے بچوں، ساتھیوں، دوستوں، شاگردوں کے مستقبل کوتابناک وروشن بنانے اوران کے اوقات کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے منظم منصوبہ بناکر ،جس علاقے میں جو طریقہ مفید ثابت ہواسے اختیار کیاجاناچاہیے؛ تبھی جاکر اس وقفے کی بھرپائی ہوسکتی ہے اورطلبہ وطالبات کا مستقبل سنورسکتاہے؛ ورنہ بظاہراس وقت کے نوجوانوں کے مستقبل کی تابناکی بڑی مشکل نظرآرہی ہے ۔
اگر اس وقت کوئی منظم منصوبہ اورٹھوس لائحہٴ عمل تیار نہیں کیاگیا تو پہلے سے ہی دینی تعلیم سے جڑے ہوئے لوگ فیصد کے اعتبار سے بہت کم ہیں اوراب تواس میں مزید کمی آتی جائے گی اوریوں علما بتدریج ختم ہوتے جائیں گے اورمستقبل میں جاہلوں سے لوگ مسئلہ پوچھ کر خود بھی گمراہ ہوں گے اوردوسروں کوبھی گمراہ کریں گے ۔
دنیوی اعتبارسے بھی بہت کم تعدادہے ان لوگوں کی جو پڑھائی میں دل چسپی لیکر مستقبل میں کچھ بنناچاہتے ہیں، اگر صورت حال یہی رہی تو قوم ایسے لوگوں سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے گی اورفقط وقت ضائع کرنے والے لوگ ہی باقی رہ جائیں گے اوراس طرح قوم کامستقبل جوکہ نوجوان طبقہ ہے وہ یوں ہی ضائع ہوجائے گا ۔
امید ہے کہ ان گزارشات پر ٹھنڈے دل سے غور کرکے ان پر عمل پیرگی کی کوشش کی جائے گی ۔