ایک محدثِ جلیل کی رحلت

 بقلم:- مولانا عبدالسلام فلاحی کوکنی (مقیم حال مانچسٹر یوکے)

            استاذی حضرت مولانا مفتی عبداللہ صاحب مظاہری رویدروی اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔اناللہ واناالیہ راجعون!

            مرحوم کی پیدائش ۲۸/ جمادی الاولی ۱۳۷۱ ھ مطابق 24 فروری 1952ء پیر کی شب 9:30 بمقام رویدرا میں ہوئی۔اور آج ۱۹/ محرم الحرام ۱۴۴۲ھ 8 ستمبر 2020ء بروز منگل فجر کی اذان کے وقت حدیث نبوی کی لا فانی خدمت کرنے والے اس عظیم انسان کی زندگی کا آفتاب ِتاباں وہاں غروب ہوا جہاں زندگی کے ہر آفتاب کا مدفن ہے۔

کہیں سامان مسرت کہیں سامان غم ہے

کہیں گوہر ہے کہیں اشک کہیں شبنم ہے

            ۸/ جمادی الاولیٰ ۱۴۰۵ ھ مطابق 30 جنوری 1985 بروز بدھ ہانسوٹ میں جامعہ مظہر سعادت نامی ادارہ کی بنیاد رکھی۔

 ادارہ کے نام کی وجہ تسمیہ:

            حضرت مولانا محمد مظہر نانوتوی ، حضرت مولانا سعادت علی صاحب سہارن پوری اور حضرت مولانااسعد اللہ صاحب جیسی یگانہ روزگار ہستیوں سے استبراک مد نظر رکھتے ہوئے مظہر سعادت نام رکھا۔

مرحوم مختلف کمالات کے حامل تھے:

            علوم متداولہ سے فراغت کے بعد آپ کا دور تدریس شروع ہوتا ہے۔چناں چہ فراغت کے بعد جامعہ فلاح دارین ترکیسر گجرات میں آٹھ سال تقریباً تمام فنی کتابیں پڑھائیں۔ اس کے بعد” ہانسوٹ“ میں ایک جامعہ کی بنیاد ڈالی اور مختلف شعبوں کو پروان چڑھانے میں انتھک محنت کی۔جس کی وجہ ہے کہ قلیل مدت میں ادارہ نے نام روشن کیا۔

            الغرض ادارہ کی ذمہ داری اور تدریس کے ساتھ ساتھ مرحوم نے رفاہی کام، دعوت وتبلیغ اور نہ جانے کیا کیا کام انجام دیے۔

            آپ کے سیکڑوں تلامذہ ملک و بیرون کے گوشہ گوشہ میں منصب ِحدیث پر فائز ہوکر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات و ارشادات کی نشر و اشاعت میں مصروف ِعمل ہیں۔ فالحمد للہ علی ذالک!

 مرحوم کے لیے یہ سب بڑا ذخیرہ ہے۔

            حضرت مفتی صاحب فلاح دارین ترکیسر کی خدمت کے لیے جس سال تشریف لائے وہ بندے کا پہلا سال تھا۔ حضرت والا کا درس بہت ہی علمی و فنی مع حوالہ جات ہوتا تھا۔راقم نے عربی سوم سے دورہٴ حدیث تک آں موصوف سے متعدد کتابیں پڑھی ہیں۔جس کی درسی بیاض دوران درس ضبط کی۔ اس میں ایک بحث مااناقلت صاف کی گئی، جس کو حضرت نے رفیق محترم مولانا ابوبکرصاحب کے ذریعے چھپانے کا اظہار فرمایا تھا۔

            حضرت کا کوکن اور اہل کوکن سے بڑا تعلق تھا؛ چناں چہ مدرسہ اشرافیہ توڑیل اور جامعہ حسینیہ شریوردھن تشریف لاتے اور عوامی اور علمی بیانات سے اہل کوکن کوسیراب کرتے تھے۔

            راقم کو حضرت سے عقیدت و محبت تھی، جس کی بنا پر آپ کے نو آباد جامعہ مظہر سعادت میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی۔آپ کے اس ادارے کا معائنہ کرنے کے لیے پورے ہندستان سے وفود آتے ہیں، جو ایک مثالی جامعہ ہونے کی دلیل ہے۔آپ کی ذرہ نوازی اور ہمت افزائی بھی قابل ستائش تھی، آپ کے توسط سے رمضان المبارک کی تعطیلات کے دوران نواپورہ اور ہتھورن میں بیانات اور درس کا موقع ملا۔

جامع کمالات :

ولیس علی اللہ بمستنکر                     ان یجمع العالم فی واحد

            حضرت مفتی صاحب جہاں ایک اعلیٰ درجے کے منتظم تھے وہیں فقہ و حدیث میں درک و بصیرت رکھنے والے اور درس و تدریس سے ہٹ کر مختلف علوم و فنون میں ید طولیٰ رکھنے والے بھی تھے۔ سب ایڈیٹر” عالمی سہارا دہلی“ عبدالقادر شمس کے مطابق ”دارالعلوم ہانسوٹ کے سربراہ حضرت مفتی عبداللہ صاحب مظاہری کے تعلق سے اسلامک فقہ اکیڈمی کے ممبئی سمینار کے موقع پر ایک ہوٹل میں فقیہ العصر حضرت اقدس قاضی مجاہدالاسلام قاسمی نوراللہ مرقدہ نے نجی مجلس میں کہا تھا :کہ گجرات میں دو عالم دین ایسے ہیں ،جن کا علم گہرا اور مطالعہ وسیع ہے اور اتفاق سے دونوں کا نام عبداللہ ہے۔ یعنی مفتی عبداللہ صاحب (ہانسوٹ) اور مولانا عبداللہ صاحب (کاپودروی) رحمہم اللہ تعالیٰ۔

حضرت مفتی صاحب اور مکاتب قرآنیہ:

            چوں کہ مکاتب قرآنیہ کا قیام اسلامی تعلیم وتہذیب سے وابستگی اور نئی نسل کے ایمان کے تحفظ کے لیے ایک امرِ ناگزیر ہے۔اس لیے مفتی صاحب جامعات اور بڑے اداروں کے مقابلے میں مکاتب کے جال بچھانے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور مکاتب کو ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے ہیں ۔مکاتب میں معیاری اور ٹھوس تعلیم ہو اور تمام بچے بچیاں صحت کے ساتھ قرآن مجید پڑھنے کے عادی ہوجائیں، اس کی آپ خاص فکر فرماتے ہیں۔تاکہ بڑے اداروں کو معیاری طلبہ ملتے رہیں۔اس وقت دو درجن سے زائد مکاتب باضابطہ طورپر جامعہ ہانسوٹ کی سرپرستی میں چل رہے ہیں۔جامعہ کے نمائندہ ماہانہ جانچ کرکے تعلیمی رپورٹ پیش کرتے ہیں۔ماہانہ جانچ عموماً جمعہ کے دن ہوتی ہے،ماہانہ جانچ کرنے والے اساتذہ کو چھٹی کا عمدہ معاوضہ دیا جاتا ہے،اس طرح مکاتب کا معیارِ تعلیم مثالی اور عمدہ ہوجاتا ہے۔اس مقصد کے لیے آپ نے جامعہ میں شعبہ” تدریب المعلمین“ بھی قائم فرمایا ہے۔الحمدللہ اس شعبہ سے ملک بھرمیں پھیلے ہوئے مکاتب کے دو ہزار مدرسین تربیت حاصل کرچکے ہیں۔جس میں تعلیم اطفال کی خصوصی ٹریننگ دی جاتی ہے اور اس سلسلے میں اکابر کے پسند فرمودہ نورانی قاعدہ کو ذریعہ بنایا جاتا ہے۔

تصنیفات:

            ۱- اسعاد القاری شرح البخاری ۵/جلد

            ۲-مباحث فی الحدیث وعلومہ

            ۳- غایة الوصول الیٰ علم الاصول

            ۴- فتاویٰ سعادت

            ۵- اسعد الغایات بالتقدیم علی المشکوة

            ۶- مختلف موضوعات پر علمی رسائل وجرائد

            نیز ابھی تقریباً دس علمی کتب وشروحات پر کام جاری ہے ،جو عنقریب منظر عام پر آئیں گا۔

             باری تعالیٰ آپ کے فیض کو مزید عام اور آپ کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ پسماندگان کو صبر جمیل اجرجزیل عطا فرمائے۔ آمین!