انوار قرآنی : مولانا مرشد قاسمی بیگوسرائے (استاذ جامعہ اکل کوا)
{ لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ آیَاتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَاْلحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْن }(آل عمران )
ترجمہ : یقینا اللہ تعالیٰ نے مومنین پر احسان فرمایا کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جوان پر اللہ تعالیٰ کی آیتیں تلاوت کرتے ہیں ، ان کا تزکیہ کرتے ہیں اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور یقینا وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔
تذکیر و فوائد :
دعائے ابراہیمی : جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے بیت اللہ کی تجدید کرلی۔اورطوفانِ نوح کے نتیجے میں جونشانات مٹ گئے تھے،اُنہیں بنیادوںپردوبارہ اللہ تعالیٰ کے گھر کو کھڑا کر لیا، تواس وقت بہت ساری دعائیں کی تھیں۔
معلوم ہواکہ کسی نیک عمل کے بعددعاکرناانبیاوصلحاکی عادت رہی ہے۔ نیک عمل کے بعددعاکرنا’’اسرع الی الاجابۃ‘‘(بہت جلدقبول ہوتی ہے)فرض نمازوںکے بعدکی دعاؤں کا بھی یہی رازہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں میں ایک دعایہ بھی تھی {رَبَّنَاوَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًامِنْہُمْ} (البقرۃ)
کہ اے ہمارے رب!ان کے درمیان ایک عظیم رسول بھیجیے۔
آپ سمجھ گئے کہ بیت اللہ کی تعمیرتوصرف عبادتِ الٰہی کے لیے ہوئی تواِس کو قیامت تک عبادت سے آباد رکھنے کے لیے ایک عظیم انقلابی پیغمبرکی ضرورت ہے ،جس کی دعوت عالمگیر ہو اور جس کا مذہب پوری دنیاپرمحیط ہو۔ اورجس کی دعوت کی برکت کامزاج پورے عالم کے لوگوںمیںپیداہوجائے اورلوگ اُس گھرکی طرف کھنچے چلے آئیں۔
عظیم رسول کی شانِ شفقت ورحمت:
یوںتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت ورحمت سارے عالم کے لیے ہے ۔اسی عظیم شفقت ورحمت کا پرتو ساری کائنات کاوجودہے ۔آپ کی شفقت ورحمت کی رہینِ منت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سارے عالم، حیوانات، جمادات اورنباتات کووجودبخشا۔آپ کی بعثت مقصودنہ ہوتی توکسی کوپیداہی نہ کیاجاتا۔اِس عمومی شفقت ورحمت کے ساتھ آپ کی خصوصی شفقت ہرمومن کے لیے ہے ۔چوںکہ یہی آپ کی ہدایات وارشادات سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔اس لیے اللہ تعالیٰ کاارشادہے:{اَلنَّبِیُّ اَوْلیٰ بِالْمُؤمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ}(الاحزاب)
ترجمہ: نبی مومنوںکی جانوںسے بھی زیادہ قریب ہیں۔
اورقرب کی وجہ بھی ظاہرہے کہ انسان کانفس اُس کواچھائی اوربرائی دونوںطرف لے جاتاہے ،لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اورصرف خیرکی طرف لے جانے والے ہیں۔پھراگرکوئی یہ کہے کہ میرانفس تو مزکیٰ اورمصفیٰ ہوچکا،نفس ِمطمئنہ ہوچکااورہمیشہ میرانفس مجھے خیرہی کی طرف لے جاتاہے ،لیکن جان لیناچاہیے کہ ہم نے مان لیاکہ آپ کانفس خیرکی طرف ہی جاتاہوگا،لیکن یہ جان لیںکہ انسان کانفس بسااوقات خیروشرکے پہچاننے میں غلطی کرسکتاہے ۔زمانہ شاہدہے کہ کتنے ہی اللہ تعالیٰ کے خاص بندے؛ جو ایک شرکوخیرسمجھ بیٹھے اوران کے چاہنے والوں میںگم راہی پیداہوگئی؛لیکن رسول کانفس کبھی بھی خیروشرکے پہچاننے میں غلطی نہیںکرتا۔رسول جس خیرکی طرف دعوت دیںگے وہ بالیقین خیرہوگا۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے تین مقاصد:
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے تین مقاصدذکرکیے ہیں۔اوریہ تینوںچیزیں مناصبِ رسالت میںشامل ہیں۔(۱)تلاوت کتاب اللہ (۲)تزکیۂ نفوس(۳)تعلیم ِکتاب وحکمت۔
رسول مبلغِ اعظم: مقصدِ رسالت کوذکرکرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے تلاوتِ کتاب کوذکرکیا۔ اِس کامطلب جہاںاس کاعبادت کی نیت سے پڑھنامرادہوتاہے ،وہیں اس کاپیغام دوسروںکو سنانا اوردوسروںتک پہنچانابھی شامل ہے اورہرنبی کی یہ ذمہ داری رہی ہے۔اورآپ سب سے عظیم پیغمبراور سید المرسلین ہوئے توآپ ہی مبلغِ اعظم اورداعیٔ اعظم ہوںگے۔
مصلح اعظم:دوسرامقصدیہ ذکرکیا{وَیُزَکِّیْہِمْ} کہ لوگوںکاتزکیہ کریں۔ان کے نفوس کورذائل سے پاک کریںکہ پیغمبرہی نفس کی خباثتوںاورشرارتوںسے واقف ہوتے ہیں۔وہی نفس کے مکائدکو سمجھ سکتے ہیںاوراس کی اچھی اصلاح کرسکتے ہیں۔اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی مصلحِ اعظم قرارپائے ۔
معلمِ اعظم:تیسرامقصدذکرکرتے ہوئے ارشادفرمایا{وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ}کہ لوگوں کو کتاب سکھائیں۔آپ کے مقاصدِ بعثت میں تعلیم کتاب بھی شامل ہے ؛چناںچہ آپ نے صحابہ کوکتاب اللہ کاایک ایک حرف اوراس کے معانی ومطالب سکھائے ۔اس کے لیے ایک صفہ(چبوترہ)بھی مسجدِنبوی میں قائم کیا۔جہاںپرہمیشہ کچھ صحابہ سارے دنیوی مشاغل سے کٹ کرکتاب اللہ کے سیکھنے میں لگے رہتے ۔
یہ آپ کا مدرسہ تھااوراسی سے تمام مدارس ،مکاتب اورجامعات کی شاخیںجڑتی ہیں۔اِسی لیے ہمارے بڑے فرماتے ہیں کہ مدرسہ کوحقیرنہ جانواورنہ کسی بھی مدرسے کی علاقائیت یااورکسی بنیادپر توہین کرو؛ چوں کہ اس کاسلسلہ ڈائرکٹ صفۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے جڑتاہے ۔
مرشدِ اعظم: کتاب کی تعلیم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حکمت کی تعلیم کوبھی جوڑا،جس میں احادیث بھی شامل ہیں۔اورامت کو دانش مندی کی راہ دکھانابھی مرادہے کہ امت کوہرنازک موڑپرصحیح تعلیم اور مفید مشورے دیے جائیں۔یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داریوںمیں شامل تھا؛چناںچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ مکی ومدنی زندگی میں صحابہ کی مکمل قیادت کی اوران کومفیدمشوروںاورہدایتوںسے نوازا۔کتنے ایسے مواقع آئے کہ صحابہ کامنشا کچھ اورتھا،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامنشاکچھ اورتھا۔آپ نے وحیٔ الٰہی اورقوی بصیرتِ ربانی کے ذریعے کچھ اور رائے دی ،جس پرصحابہ نے بصدشوق عمل کیااوراُس کے اچھے ثمرات ظاہرہوئے ۔
صلحِ حدیبیہ کا موقع ہویاقبیلۂ بنی مصطلق سے جنگ چھڑنے کامسئلہ ہو،یاغزوۂ خندق میںخند ق کھودنے کامسئلہ ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی مکمل اوراچھی قیادت فرمائی۔ایسے ہی موقع کے لیے اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا:{لَوْیُطِیْعُکُمْ فِيْ کَثِیْرٍمِّنَ الْاَمْرِلَعَنِتُّمْ} (الاحزاب)
ترجمہ:اگرتمہارے بہت سے معاملے میں رسول تمہاری اطاعت کرلیں،توتم مشقت میں پڑ جاؤ گے۔
دین کے شعبے:
معلوم ہواکہ یہ تینوںدین ہی کے شعبے ہیں۔تبلیغ بھی ہوکہ امت کے ہرفردتک دین پہنچانے کی فکرکی جائے۔تزکیۂ نفوس بھی ہوکہ امت میں ایک ایسی جماعت ہو،جولوگوںکے عیوب کی اصلاح کرے،رذائل کی نشان دہی کرے،خانقاہی نظام ہوجہاںہم جاکراطبائے روحانی سے ملیںاوراپنے امراض بتاکراپناعلاج کرائیں،لاالٰہ الااللہ کی ضربیں لگاکراپنے دلوںکومزکیٰ ومصفی کریںاوردل حبِ الٰہی سے موجزن اورشرسار ہوں۔ اِ س وقت حضرت حکیم اخترصاحبؒ کاایک ملفوظ یادآگیاکہ:بھائی لوگوںسے پوچھوکہ کباب کہاںملے گا؟ بولیںگے کباب والوںسے ۔پوچھا جائے گا گوشت کہاںملے گا؟جواب ہوگاگوشت والوںکے پاس ؛اسی طرح میںکہتاہوںکہ اللہ کہاںملے گااللہ والوںکے پاس،اہلُ اللہ کے پاس۔اُن کی صحبت نہایت ضروری ہے، اُن کی صحبت سے گریزیاخانقاہی نظام کی مذمت نہ ہونا چاہیے۔
اسی طرح دین کااہم شعبہ تعلیم کتاب وحکمت بھی ہے ۔جس کے لیے مدارس ومکاتب قائم کیے جائیں، جہاں ہمارے بچوںکوقرآن اورصحیح اسلامی عقائدسکھائے جاتے ہیں،کہ ہماری نئی نسل اسلامی تعلیم اوراسلامی عقائد سے آراستہ ہوں۔اوراسی اہمیت کے پیشِ نظراللہ تعالیٰ نے پہلی وحی’’اقرأ‘‘نازل کی ۔چوںکہ اسی تعلیم سے سارے مفاسدکی اصلاح ہوئی۔جب یہ تینوںشعبے دین کے ہیںاورضروریاتِ دین میں سے ہیں، توکوئی ہرگز ہرگزکسی اسلامی شعبے کوحقیرنہ جانے ۔سارے شعبوںکودین اوراسلام کاجزاورحصہ سمجھناہے ۔
علمائے کرام ہرگز ہرگز دعوت وتبلیغ کو دین سے خارج نہ سمجھیں۔ان حضرات کی قدرکریںکہ محنت ومشقت برداشت کرکے اپنی محنت کی گاڑھی کمائی لگا کر پورے عالم میں چل پھرکرامت تک دین پہنچانے کی فکرکررہے ہیں۔
اِسی طرح دعوت وتبلیغ کے احباب اُن علمائے کرام کے مقام کوسمجھیںجوآپ کے نونہالوںکواسلامی تعلیم وعقائدسے آراستہ کررہے ہیں۔اورملک کو،بل کہ پورے عالم کو ہرسال صالح اورمصلح افرادکی ایک بڑی ٹیم تیارکرکے تحفہ دے رہے ہیں۔ان کی ناقدری سے سخت پرہیزکریں،ان کے وجودکواپنے علاقے اوربستی میںان کی آنے کو باعثِ سعادت سمجھیں۔کتنے ایسے واقعات ہیں،کہ بعض مساجدمیںبڑے بڑے علمائے کرام تشریف لائے ،اکابرومشائخ کی آمدہوئی ، لیکن ان کوصرف اِس نسبت پربیان کرنے سے روک دیاگیاکہ اُن کاوقت لگاہوانہیں،یہ بہت بڑی بدسلوکی ہے ۔
ہمیں ڈرناچاہیے ،علمابہرحال امت کے قائدہیں۔اورقیامت تک ان شاء اللہ قیادت کرتے رہیںگے۔ایسی بدسلوکی اوربے حرمتی سے پرہیزکریںاورسوچیںکہ کہیں ایسی ہی بدسلوکی پراللہ تعالیٰ کاعذاب اورغضب تونہیں آیا کہ آج اِس مقدس جماعت اورعظیم نسبت والے حضرات میں پھوٹ پڑگئی۔ (العیاذباللہ)اللہ تعالیٰ پھرہماری اجتماعیت کولوٹادے اورہماری مکمل اصلاح فرمائے آمین!
علمائے کرام اپنی ذمہ داری کوسمجھیں:
ہم علماوطلبا‘ وارثانِ علوم نبوت ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف لفظوںمیںفرمادیا:’’ان اَلْعُلَمَائَ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَائِ‘‘۔
(ترمذی، ابودائود)
کہ علمائے کرام انبیائے کرام کے وارث ہیں۔وارث ہونے کے ناطے ہم نبوت والی ذمہ داریوںکوسمجھیں،ہم جہاں اپناقیمتی وقت مدارس ومکاتب میں لگارہے ہیں،وہیںاپنے فارغ اورچھٹی کے اوقات میںسے کچھ وقت دعوت وتبلیغ میں لگائیں۔
جب تک امت میں چلیںپھریںگے نہیںامت کادرداورکڑھن نہیںپیداہوگا۔وہ کیسی کڑھن تھی ،جس کانقشہ قرآن کریم نے کھینچاہے :{فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلیٰ اَنْ لَّایَکُوْنُوْامُؤْمِنِیْنَ}
ترجمہ:ایسالگتاہے کہ آپ اپنے آپ کوہلاک کرلیںگے اگروہ ایمان نہ لائیں۔
نبی والی کڑھن،غم اورفکرپیداکریںاورامت کی اصلاح کے ساتھ اپنی اصلاح کی بھی فکرکریں۔جان لیںکہ جوخودصالح نہ ہووہ کبھی مصلح نہیں ہوسکتا۔
احسان جتانے کامقصد:
اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ میںارشادفرمایاکہ ہم نے مومنین پراحسان کیا۔احسان جتانے کامقصدیہ ہے کہ امت رسول کی ہدایات وارشادات کواپنائے اوراپنے سینے سے لگائے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاایک ایک فرمان ہمارے لیے ہماری جان سے زیادہ عزیزہو۔ہماری زندگی کاکوئی گوشہ سنت اورارشاداتِ نبوی سے خالی نہ ہو۔ہماری زندگی مکمل اُنہیں ارشادات پرڈھلی ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کی ایک حدیث میں بڑی اچھی مثال پیش کی ہے :’’مثل مابعثنی اللّٰہ من الہدیٰ والعلم کمثل غیث اصاب ارضا فکانت منہاطائفۃ طیبۃ قبلت الماء فانبت الکلأ والعشب الکثیروکان منہااجادب امسکت الماء فنفع اللّٰہ بہاالناس فشربوامنہاوسقواوزرعواواصاب طائفۃ منہااخریٰ انماہی قیعان لاتمسک ماء ولاتنبت کلأ‘۔
‘(متفق علیہ)
اس ہدایت وعلم کی مثال،جس کولے کراللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجاہے بارش کی طرح ہے۔جوکسی زمین پربرسے توزمین کاایک ٹکڑانہایت پاکیزہ ہوتاہے ،جوفوراً پانی کوقبول کرکے پودے اورخوب گھاس اگاتاہے۔ اور بعض زمین گھاس اورپودے سے خالی ہوتی ہے ،لیکن وہاں پانی جمع ہوجاتاہے ،لوگ اُس سے پیتے ہیںاورکھیتی کی سینچائی کرکے کھیتی اگاتے ہیں۔
اورایک تیسری زمین بالکل چٹیل اورہموارہوتی ہے ،جوپانی کوبھی روک نہیں پاتی اورنہ کچھ پودے اگاپاتی ہے۔توآئیے ہم سب رسول کی بعثت سے فائدہ اٹھائیں اورآپ کے ہدایات وارشادات سے فائدہ اٹھاکرپہلی قسم کے افرادمیں شامل ہوجائیںکہ ہمارابھی فائدہ ہواورہماری ذات سے پورے عالم کافائدہ ہو۔
خصوصاً یہ ربیع الاول کامہینا عشق رسول کے اظہارکامہیناہوتاہے ۔لوگ خوب طرح طرح سے عشق ومحبت کااظہارکرتے ہیں۔اورشیدائیانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے کوشامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں،لیکن جان لیںکہ جلسے جلوس کرلینا،اپنے اپنے مکانوںپربڑے جھنڈے نصب کرلینا،اس کانام عشق ومحبت نہیں۔عشق ومحبت درحقیقت ایک قلبی کیفیت ہوتی ہے ،جوآدمی کواطاعت وفرماں برداری پرابھارتی ہے، بدعات وخرافات سے دوررکھتی ہے ۔ خصوصاًاُن طریقوںسے جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحۃً روکاہے ،امت کواجتناب کی سخت تاکیدکی ہے ۔اس لیے ہم بھی دوررہیں،ان اشقیااورکم نصیبوںمیں شامل نہ ہوں،جن سے دوررہنے کاحکم ہے اورجن کی دوستی کی اجازت نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کی اصلاح فرمائے اورصراط مستقیم پراستقامت نصیب کرے آمین