شریک غم: محمد ہلال الدین ابراہیمی#
سانحہٴ ارتحال:
۳/نومبر ۲۰۲۲ء کو بندہ، مولانا حذیفہ صاحب وستانوی# ،دورہٴ حدیث اور افتاء کے طلبہ واساتذہ مفتی محمد سلمان صاحب مظاہری# مدراسی# کے ورکشاپ میں تھے ،کہ ۴۵،۴ عصر سے پہلے وہ خبر پہنچتی ہے ،جس کا کافی دنوں سے ڈر تھاکہ ہمارے رفیق ِکار دفتر کے نوجواں سال ساتھی مولانا عبد المتین صاحب دھارلہ انتقال فرما گئے۔
آپ نے جامعہ میں تعلیم حاصل کی اور فراغت کے بعد جامعہ کی شاخوں میں تدریسی خدمات ادا کرتے رہے ،لاک ڈان سے پہلے آپ اکل کوا گاؤں کے مدرسہ بنات میں آ گئے تھے۔اور علمی مزاج ہونے کی وجہ کر خالی اوقات میں جامعہ چلے آتے ،اور مولانا حذیفہ صاحب وستانوی کے دروس سن کر لکھا کرتے۔
لاک ڈان میں دورے کے طلبہ کی تعلیم سال کے ضیاع سے بچنے کے لیے جاری رہی اور حضرت مولانا حذیفہ صاحب کے دروس بیضاوی ومسلم ہوتے رہے ۔اور ادھر مرحوم کا ادارہ بند رہا، کافی دنوں تک مرحوم نے گھر سے کام کیا آپ وہاں سے رکارڈنگ تحریر کر کے بھیج دیتے بندہ یہاں مرتب کر لیتا؛پھر مولانا حذیفہ صاحب سے مشورہ ہوا اورآپ کو حضرت کے دروس کے لیے مستقلاً جامعہ بلا لیا گیا۔آپ بڑی جاں فشانی کے ساتھ مفوضہ امور کی ادائیگی میں لگ گئے۔ابھی کام کرتے زیادہ وقت نہیں ہواتھا کہ ایک روز میسیج آتا ہے کہ آج میں دفتر نہیں آسکوں گا ،طبیعت کچھ علیل ہے ؛ پھر دو چار روز کے بعد خبر آئی کہ آپ کو علاج کے لیے وطن جانا پڑے گا وہاں چیک اپ کے بعد پتا چلا کہ پیٹ کو وہ معمولی تکلیف معمولی نہیں ؛ بل کہ ایک مہلک بیماری ہے ۔تاہم امید بندھی تھی کیوں کہ حضرت مولانا حذیفہ صاحب آپ کے علاج کے لیے بذات ِخود ہر ممکن کوشش کر رہے تھے ۔
علاج ومعالجہ کا یہ سلسلہ ایک سال سے بھی دراز چلا حضرت مولانا حذیفہ صاحب نے بڑی کوششیں کیں ؛لیکن قضا وقدر سے کون جیت سکتا ہے۔
آپ کے انتقال کی خبر سن کر مولانا حذیفہ صاحب آپ دیدہ ہوگئے اور کہا میرے بڑے کام کا آدمی چلا گیا۔حضرت رئیس الجامعہ بھی عمرے کے سفر سے واپس آئے تھے ،خبر سن کی افسردہ ہوئے دعائے مغفرت کی اہل خانہ اور بچوں کے حال احوال معلوم کیے اور مولانا صادق صاحب استاذ جامعہ ،جو مولانا مرحوم سے قریبی تعلق رکھتے ہیں ،انہیں مکلف کیا کہ ان کے بچوں کو جامعہ لائیں ۔جامعہ ان کی مکمل کفالت کرے گا۔
اللہ ہمارے ان منتظمین کاسایہ ہم پر تمام تر خیر وعافیت کے ساتھ دراز فرمائے۔
اخلاق واطوار:
آپ بڑے خلیق نرم مزاج اور اپنے مفوضہ امور کی ادائیگی میں انہماک کی حد تک لگنے والے شخص تھے،آپ کی اسی لگن ،محنت، دھن نے آپ کو جامعہ میں خدمت کا موقع عنایت فرمایاتھا۔اور آ پ نے اس کی بڑی قدردانی کی۔ آپ وقت دیکھ کر کام نہیں کر تے؛ بل کہ کام دیکھ کر کام کرتے؛ جب تک کام مکمل نہیں ہوجاتا آپ اپنی چھٹی نہیں سمجھتے۔
”ہر کام کے لیے آپ کا ایک ہی جواب ہوتا جی حضرت۔آپ کے یہاں نفی کاصیغہ نہیں تھا“۔
ہر شخص خواہ اس کا تعلق مرحوم سے بطور ِاساتذہ ہو یا طلبہ یا ہم جیسے رفقاء۔ہر ایک نہ صرف آپ کی علمی صلاحیت کا قائل ہے ؛بل کہ آپ کی صالحیت کا بھی معترف ہے۔
الغرض اس دنیا میں اللہ کا نظام ہے کہ وہ انسان کوآزمائش کے لیے بھیجتا ہے ؛چناں چہ وہ اس نظام کے تحت بندے کو آزماتا ہے امتحان لیتا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کی کس قدر تابعداری کر تا ہے ۔ اس کے لیے اللہ خوشی اور غمی کے مواقع فراہم کرتے ہیں، کسی کے حصے میں خوشی کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں جس پر شکر مطلوب ہوتا ہے اور کسی کے حصے میں غمی اور آزمائش، جس پر صبر مطلوب ہے۔
آپ کے جاننے والوں سے جب آپ کے حالات معلوم ہوتے ہیں، تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں کہ آپ کے حصے میں آزمائش ہی آزمائش رہی،لیکن آپ نے صبر کے دامن کی گرفت کبھی ڈھیلی نہ ہونے دی۔
اس مرض الوفات میں آپ ایک طویل مدت مبتلا رہے؛ لیکن نہ مایوسی، نہ حرفِ شکایت ؛غرض ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ اس دنیا کے امتحان میں کامیاب اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے ہیں۔اور اللہ اب آپ کو نعمتوں ہی نعمتوں میں رکھے گا۔
تدفین:
اسی روز۳/نومبر بعد نماز عشاء شہر اور نگ آبادبائجی پورہ مسجدِ گنج شہیدا میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور اس سے متصل قبرستان میں آپ کو سپر د خاک نم آنکھوں سے سپرد خاک کیا گیا۔
اخیر میں دعا گو ہوں کہ اللہ آپ کی تمام تدریسی علمی دینی واخلاقی تمام نیکیوں کو قبول فرمائے۔
آپ کے ان نیک اعمال کو صدقہ ٴجاریہ بنائے۔ آپ کو کروٹ کروٹ سکون عطافرمائے۔آپ کی اہلیہ بچوں اور متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔