اداریــہ:
مولانا حذیفہ مولاناغلام محمد(صاحب)وستانوی
عبادت کے مفہوم میں وسعت
اللہ رب العزت نے دنیا میں انسان کو اشرف الخلائق بنا کر پیدا کیا اور کائنات کو اس کے لیے مسخر کردیا۔ایک سوال ہوتا ہے کہ دنیا میں انسان کو کس مقصد سے پیدا کیا گیا؟ اس کا جواب سوائے قرآن کے اور کوئی نہیں دے سکتا،اس لیے کہ وہ انسان کے خالق ومالک کا کلام ہے۔قرآن کہتا ہے: ’’وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون‘‘ تو عبادت انسان کی تخلیق کا ایک بنیادی مقصد ہے اور کچھ اس کے مکملات ہیں ۔ اصل مقصدتو ’’اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت‘‘ ہے؛ مگر عصرِ حاضر میں ’’عبادت‘‘ کے مفہوم کو انتہائی درجہ تنگ کردیا گیا کہ عبادت نام ہے نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کا؛ جب کہ عبادت کا یہ مفہوم اس کے وسیع معنی سے انحراف ہے ’’عبادت اور اطاعت الٰہی‘‘ کا مطلب ہوتا ہے:
’’زندگی کے ہر موڑ اور ہر قسم کے حالات پر صرف اور صرف اللہ رب العزت کی رضامندی کو پیشِ نظر رکھنا ‘‘۔
عبادت کے صحیح معنی کو سمجھنے کے لیے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفائے راشدین کی سیرتوں اور اس کے بعد اسلام کے اس دور کو پڑھنا ہوگا جو ترقی اور غلبہ سے تعبیر ہے؛ جب ہم اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ عبادت کا مفہوم ہمارے پہلے دور کے علما خلفا اور مسلمانوں کے نزدیک اتنا وسیع ہے کہ اسے بمنزلۂ جنس کے قرار دیا اور کہا کہ اس کی اتنی قسمیں ہیںکہ اس کا شمار بھی مشکل ہے؛ البتہ پھر بھی سمجھنے کی غرض سے اس کو دوبنیادی قسموں میں تقسیم کیا ہے اور وہ یہ ہیں:
(۱) شعائر محضہ: عقائد کی معرفت، نماز ،روزہ، زکوۃ حج اور دیگر فرائض کی ادائیگی۔
(۲)امورِ دنیویہ محضہ:کائنات میں پیدا کردہ اللہ کی مخلوق کی صحیح رہنمائی اور تسخیر سے صحیح فائدہ اٹھانا۔
آج ہمارے معاشرے میں دو طبقہ ہے: ایک طبقہ وہ ہے جو صرف کامیابی کو شعائر محضہ کی انجام دہی میں مضمر تصور کرتا ہے۔
دوسرا طبقہ وہ ہے جو صرف تسخیر ِکائنات اور خلافتِ ارضی کے قیام پر زور دیتا ہے؛ جب کہ دونوں غلوپر ہیں ضرورت ہے اعتدال اور توازن کے ساتھ دونوں ذمہ داریوں کو نبھانا۔
دنیا میں مسلمان کا مقام
صحیح طریقہ یہ ہے کہ مسلمان اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرے کہ ’’اللہ نے کائنات کو اسی کے لیے پیدا اور مسخر کیا ہے اور اسے اپنے لیے پیدا کیا ہے‘‘ا ب اس بات کو یوں سمجھیے کہ دنیا کی صلاح اور آخرت کی کامیابی دونوں کو جمع کرنا مسلمان کا فریضہ ہے اسی لیے حضرت مولانا علی میاں ندوی برداللہ مضجعہ نے اس حقیقت کو سمجھانے کے لیے کتاب لکھی’’ ما ذا خسر العالم بإنحطاط المسلمین‘‘ ’’دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر ‘‘ کہ مسلمان دنیا میں کمزور ہو ا،تو اس کا نقصان صرف مسلمان ہی کو نہیں ہوا ؛بل کہ اس کا بدترین اثر پوری دنیا پر ہوا ہے کہ آج کی یہ دنیا جو فتنہ فساد، غربت، خود کشی، قتل وغارت گری کی آماج گاہ بنی ہوئی ہے، وہ کیوں اس لیے کہ مسلمان اپنی ذمہ داری کو فراموش کرچکا ہے۔
اپنے اسلاف کی قصیدہ خوانی کے بجائے عملی طور پر انکی پیروی ضروری ہے
آج کا مسلمان چاہے وہ کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو صرف یہ رٹ لگائے ہوئے ہیں ’’پدرم سلطان بود‘‘ میراباپ بادشاہ تھا تو کوئی عربی کا شعر گنگناتا ہے اورپڑھتا ہے’’ أولئک آبائی فجئنی بمثلہم‘‘ کے وہ تھے عظمت سے تعبیر ہمارے آباؤواجداد۔ گویا اپنے ماضی کے قصیدہ خوانی سے ہمیں فرصت نہیں ؛مگر موجودہ حالات میں کچھ کر گزرنے کے لیے ہم میں سے کوئی تیار نہیں۔
اہل مغرب اور مسلمانوں کے اصول ترقی میں فرق
اس میں کوئی شک نہیں ،ہم اپنے اسلاف کے تابناک ماضی کو پیشِ نظر رکھے بغیر کبھی ترقی نہیں کرسکتے؛ ’’لا یصلح آخر ہذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولہا‘‘کیوں کہ اللہ نے انہیں ہمارے لیے قدوہ بنایا ہے۔ حالاں کہ ہمارا ماضی سورج سے زیادہ تانباک اور روشن ہے اور مغرب کا ماضی اندھیری رات کی ظلمت سے زیادہ تاریک ۔ ہمارے اور ان کے ترقی کے اصول میں، ایک بنیادی فرق ہے یہ ہے کہ؛ ان کو ترقی کرنے کے لیے اپنے ماضی سے کٹنا ضروری ہے، کیوں کہ ان کا ماضی’ڈارک ایجز‘‘ یعنی تاریک دور سے تعبیر ہے اور ہمارا ماضی ’’گولڈایجز‘‘ یعنی سنہرا دور سے عبارت ہے؛ لہٰذا ہمیں اپنے سلف کے طریقہ کی مکمل رہنمائی ضروری ہے؛ مگر صرف زبان خرچی کے طور پر نہیں، بل کہ عملی کیفیت کے ساتھ۔ اس کے لیے امت میں ایسے علما اور قائدین ضروری ہیں، جو ماضی کو ہضم کرچکے ہوں اور حال کی ضرورتوں سے مسلح ہوں ،اس کے بغیر ہم ذلت اور نکبت سے کبھی باہر نہیں آسکے گیں۔
جامعہ امت کو ہر میدان کے رجال کار مہیا کرنے کے لیے کوشاں ہے
الحمدللہ جامعہ اکل کوا اسی کوشش میں ہے کہ امت کو ہر میدان کی ضرورت پہنچائی جائے اور پوری کی جائے اور وہ بھی مکمل شریعت کے دائرے میں رہ کر، تو آئیے پہلے ہم اختصار کے ساتھ یہ جانتے ہیں کہ امت کی موجودہ ذلت کے عوامل کیا ہیں؟ اور اس کے اسباب ونتائج کیاہوئے ؟اور اب اس کا صحیح حل کیا ہوسکتا ہے؟
امت کے زوال کے اسباب:
امتِ محمدیہ علی صاحبہا الف الف تحیۃ وسلام دنیا کی تاریخ میں ایک منفرد امت ہے ،جس کو ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک دنیا پر حکمرانی کا موقع من جانب اللہ فراہم کیا گیا اور انسانی تاریخ یہ بتلانے سے عاجز ہے کہ ان سے بہتر کوئی اور حکمرانی کرنے والا ماضی میںپیدا نہیں ہوا ۔
امت مسلمہ کے زوال کا نقطۂ آغاز معاہدہ ٔ کار لووٹز (Treaty of karlowitz ) سے ہوا۔گویا اس امت کو سیاسی اعتبار سے کمزور کرنے میں اسلام دشمنوں کو دوسو پچیس سال لگے ۔ ۱۹۲۳ء میں خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کے ساتھ ہی امتِ مسلمہ مغلوبیت کا شکار ہوگئی اور آج ۲۰۱۸ء یعنی ۹۵؍ سال بعد بھی وہ اب تک بیدارنہیںہوسکی ۔
تو آئیے! ہم اسبابِ زوال کو مختصراً جانتے ہیں اور جاننے کے بعدہر طبقہ اپنے سے متعلق علاج کو اختیار کرنے کی کوشش کرے ۔
۱- نظام تعلیم کا ایسے افراد پیدا کرنے سے عاجز ہونا ،جن کی امت کو مختلف میدانوں میں ضرورت ہے ۔
۲- دشمنان ِاسلام کا سر جوڑ کر ہمارے خلاف سازشیں رچنا اور ہمارا اس سے غافل ہونا ۔
۳- امت کے عوام اور خواص کا صر ف اپنے مفاد کے لیے کام کرنا اور امت کے لیے اخلاص کے ساتھ کچھ کر گزرنے کے جذبہ سے عاری ہونا، جس کی وجہ سے مختلف فرقوں ، جماعتوں میںامت کا بٹ جانا ۔
۴- عصرحاضر میں دشمن کو شکست دینے کے لیے اور اس کو عام کرنے کے ـلیے، جن اسباب کو اختیارکرنے کی ضرورت ہے اسے چھوڑکر غیرضروری امور کی طرف توجہ دینا ۔
۵- امت کا وہن نامی بیماری کا شکار ہوجانا یعنی دنیا ئی محبت کا سما جانا اور موت سے ڈرنا ۔
۶- دینی اور دنیوی دونوں اعتبار سے ہر قسم کی جہالت کا شکار ہونا ۔
۷- اخلاق کی پستی۔
۸- دعا سے غفلت اور بے توجہی ۔
یہ تھے وہ اسباب جن کی وجہ سے امت تنزلی کا شکار ہے ۔ اب ان کا علاج کیا ہے تو سب سے پہلے امت کا اپنے نظامِ تعلیم کو مضبوط کرنا ضروری ہے ۔
اعداء اسلام کی کلیدی سازش تعلیمی میدان سے وابستہ ہے
اہل کتاب نے اس امت کو تنزلی سے دوچار کرنے میں سب سے بڑا ہتھیار تعلیم کو استعمال کیااوراس کے دو طریقے اختیار کیے ۔
۱- مستشرقین کے ذریعے اسلامی تعلیمات پر بے جا شبہات اور اعتراضات قائم کیے ۔
۲- عالم اسلام میں آکر ،نظامِ تعلیم کو تقسیم کردیا اور دین و دنیا میں بانٹ دیا، جس سے امت تقسیم درتقسیم کا شکار ہوگئی ۔
دینی ودنیوی تعلیم کے الگ الگ شعبے قائم ہوئے۔
پھر دنیوی تعلیم کے ماہرین نے سیاست اور دین کو الگ کیا، اس کے بعد معیشت اوردین کو علیحدہ علیحدہ کیا ، اس کے بعد معاشرت اور دین کو الگ الگ کردیا ؛جس کے نتیجہ میں حلال و حرام کی اہمیت ختم ہوگئی ، جس کو جو سمجھ میںآیا حلال کردیا اور جسے چاہا حرام کردیا۔ لہٰذا امت ِمسلمہ کو ہرجگہ ایک ایسے نظامِ تعلیم کو رائج کرنے کی ضرورت ہے، جو علم نافع اور ضار کی تقسیم کا حامل ہو ،نہ کہ دین و دنیا کی تقسیم کا مجاز ۔اس تقسیم کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب تعلیم کو سیکولرز م کا رنگ دیا جائے، اگر تعلیم سے الحاد کو ہٹاکر توحید کو رکھ دیا جائے، تو یہ تفریق خود بخود ختم ہوجائے گی ۔ اسی موضوع کو شیخ الاسلام فقیہ العصر قاضی مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم اپنے فکر انگیز خطاب میں فرماتے ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے :
تعلیم میں تبدیلی:
آزادي سے پہلے ہندوستان میں تین بڑے نظامِ تعلیم معروف تھے:
ایک دارالعلوم دیوبند کا نظامِ تعلیم، دوسرا مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا نظامِ تعلیم اور تیسرے دارالعلوم ندوۃ العلما کا نظامِ تعلیم۔
حضرت والد ماجدؒ نے تقریباً 1950ء میں ایک موقع پر جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات فرمائی تھی:
’’پاکستان بننے کے بعد درحقیقت نہ ہمیں علی گڑھ کی ضرورت ہے، نہ ندوہ کی ضرورت ہے، نہ دارالعلوم دیوبند کی ضرورت ہے، بل کہ ہمیں ایک تیسرے نظامِِ تعلیم کی ضرورت ہے جو ہمارے اَسلاف کی تاریخ سے مربوط چلا آرہا ہے۔‘‘
بظاہر سننے والوں کو یہ بات بڑی تعجب خیز معلوم ہوتی تھی کہ دارالعلوم دیوبند کا ایک مستند مفتی اعظم اور دارالعلوم دیوبند کا ایک سپوت یہ کہے کہ ہمیں پاکستان میں دیوبند کی ضرورت نہیں ہے، بل کہ ہمیں ایک نئے نظامِ تعلیم کی ضرورت ہے۔حضرت والد ماجدؒ نے جو بات فرمائی وہ درحقیقت ایک بہت گہری بات ہے اور اُسی کے نہ سمجھنے کے نتیجے میں ہمارے ہاں بڑی عظیم غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ ہندوستان میں جو تین نظامِِ تعلیم جاری تھے، وہ درحقیقت فطری نہیں تھے، بل کہ انگریز کے لائے ہوئے نظام کا ایک نتیجہ اور انگریز کی لائی ہوئی سازشوں کا ایک ردِّعمل تھا، ورنہ اس سے پہلے رائج مسلمانوں کے صدیوں پرانے نظامِ تعلیم پر غور کیا جائے تو اس میں مدرسے اور اسکول کی کوئی تفریق نہیں ملے گی۔ وہاں شروع سے لے کر اور انگریز کے زمانے تک مسلسل یہ صورتِ حال رہی کہ مدارس یا جامعات میں بیک وقت دونوں تعلیمیں دینی اور عصری دی جاتی تھیں۔
صورت حال یہ تھی کہ شریعت نے جو بات مقرر کی کہ عالم بننا ہر ایک آدمی کے لیے فرضِ عین نہیں، بل کہ فرضِ کفایہ ہے۔ یعنی ضرورت کے مطابق کسی بستی یا کسی ملک میں علماء پیدا ہوجائیں تو باقی سب لوگوں کی طرف سے وہ فریضہ ادا ہوجاتا ہے، لیکن دین کی بنیادی معلومات حاصل کرنا فرضِ عین ہے، یہ ہر انسان کے ذمے فرض ہے۔ اُن مدارس کا نظام یہ تھا کہ اُن میں فرضِ عین کی تعلیم بلاامتیاز ہر شخص کو دی جاتی تھی، ہر شخص اُس کو حاصل کرتا تھا، جو مسلمان ہوتا تھا۔ البتہ جس کو علمِ دین میں اختصاص حاصل کرنا ہو، اُس کے لیے الگ مواقع تھے، جو کسی عصری علم میں اختصاص حاصل کرنا چاہتا تھا، اُس کے لیے مواقع الگ تھے۔
گزشتہ سال میں مراکش میں تھا مراکش کو انگریزی میں ’’موروکو‘‘ کہتے ہیں، اُس کا ایک شہر ہے جس کا نام ’’فاس‘‘ ہے۔ میں ’’فاس‘‘ کے شہر میں پچھلے سال گیا تھا وہاں ’’جامعۃ القرویین‘‘ کے نام سے ایک جامعہ آج تک کام کر رہی ہے۔ اگر ہم اسلامی تاریخ کی مشہور اسلامی جامعات کا جائزہ لیں تو چار بنیادی اسلامی جامعات ہماری تاریخ میں نظر آتی ہیں۔ اُن میں سب سے پہلی مراکش کی جامعہ ’’القرویین‘‘ ہے۔ دوسری تیونس کی جامعہ ’’زیتونہ‘‘ ہے۔ تیسری مصر کی ’’جامعۃ الازہر‘‘ ہے اور چوتھی ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ ہے۔ تاریخی ترتیب اسی طرح ہے۔
اس میں سب سے پہلی اسلامی یونیورسٹی جو مراکش کے شہر ’’فاس‘‘ میں قائم ہوئی، تیسری صدی ہجری کی جامعہ ہے۔ یہ صرف عالم اسلام ہی کی نہیں، بل کہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے( جامعہ قرویین یا مسجد قرویین ۔ مراکش کے شہر فاس میں واقع ایک جامعہ اور (کاسا بلانکا کی مسجد حسن ثانی کے بعد) ملک کی دوسری سب سے بڑی مسجد ہے۔ 859ء میں قائم ہونے والی یہ جامعہ مسلم دنیا کے اہم تعلیمی مراکز میں سے ایک ہے اور دنیا کی سب سے قدیم جامعہ ہے، جہاں آج تک تعلیم دی جاتی ہے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز اسے ”اب تک موجود دنیا کا سب سے قدیم تعلیمی ادارہ” قرار دیتا ہے۔جامعہ قرویین نے قرون وسطیٰ میں یورپ اور اسلامی دنیا کے درمیان ثقافتی ور اکادمی تعلقات میں اہم ترین کردار ادا کیا۔تاریخ مسجد قرویین کو محمد الفہری نامی ایک دولت مند تاجر کی صاحبزادی فاطمہ الفہری نے 859ء میں تعمیر کروایا تھا۔ الفہری خاندان نویں صدی کے اوائل میں تیونس کے شہر قیروان سے فاس ہجرت کر گیا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ فاطمہ الفہری اور ان کی بہن مریم الفہری نے وراثت میں والد سے بڑی دولت پائی اور مریم نے اپنے حصے میں آنے والی تمام دولت مسجد کی تعمیر پر خرچ کر دی۔ اور مسجد کو اپنے آبائی شہر کا نام دیا۔ یہ واقعہ مسلم تہذیب میں عورتوں کے کردار اور ان کی قربانیوں کا عکاس ہے اور موجودہ دور میں اسلام کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا بھرپور جواب بھی۔ )۔ اس تیسری صدی کی یونیورسٹی کے بارے میں اُس کی تاریخ کے کتابچے میں یہ بات لکھی ہوئی کہ اُس وقت جامعۃ القرویین میں جو علوم پڑھائے جاتے تھے اُن میں اسلامی علوم، تفسیر، حدیث، فقہ اور اس کے ساتھ ساتھ طب، ریاضی، فلکیات جنہیں ہم آج عصری علوم کہتے ہیں، وہ سارے علوم پڑھائے جاتے تھے۔ ابن خلدونؒ، ابن رُشدؒ، قاضی عیاضؒ اور ایک طویل فہرست ہمارے اکابر کی ہے، جنہوں نے جامعۃ القرویین میں درس دیا۔ اُن کے پاس یہ تاریخ آج بھی محفوظ ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ابن خلدونؒ درس دیا کرتے تھے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ابن رُشدؒ درس دیا کرتے تھے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں قاضی عیاضؒ نے درس دیا ہے۔ یہاں ابن عربی مالکیؒ نے درس دیا ہے۔ تاریخ کی یہ ساری باتیں اُن کے پاس آج بھی محفوظ ہیں۔ یہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے، اس لحاظ سے کہ چھوٹے چھوٹے مدارس تو ہر جگہ ہوں گے، لیکن جامعۃ القرویین ایک یونیورسٹی کی حیثیت رکھتی تھی ،جس میں تمام دینی اور عصری علوم پڑھائے جاتے تھے۔
اس یونیورسٹی میں آج بھی تیسری اور چوتھی صدی کی سائنٹفک ایجادات کے نمونے رکھے ہیں۔ اُس زمانے میں اسی جامعۃ القرویین سے فارغ لوگوں نے جو ایجادات گھڑی وغیرہ کی کیں، اُن ایجادات کے نمونے بھی وہاں پر موجود ہیں۔ آپ تیسری صدی ہجری تصورکیجیے۔ یہ تیسری صدی ہجری کی یونیورسٹی ہے۔ اس میں اسلامی علوم کے بادشاہ بھی پیدا ہوئے، اور وہیں سے ابن رُشد فلسفی بھی پیدا ہوا اور وہیں سے بڑے بڑے سائنسدان بھی پیدا ہوئے۔ ہوتا یہ تھا کہ دین اسلام کا فرضِ عین علم سب کو اکٹھا دیا جاتا تھا۔ اُس کے بعد اگر کوئی علمِ دین میں تخصصات حاصل کرنا چاہتا تھا، تو وہ اسی جامعۃ القرویین میں علم دین کی درس گاہوں میں پڑھتا۔ اگر کوئی ریاضی پڑھانے والا ہے تو وہ ریاضی بھی وہاں پڑھا رہا ہوتا۔ اگر کوئی طب پڑھانے والا ہے تو وہ طب بھی وہاں پڑھا رہا ہوتا۔ یہ سارا کا سارا نظام اس طرح چلا کرتا تھا۔ جامعۃ القرویین کی طرح جامعہ زیتونہ تیونس اور جامعۃ الازہر مصر کا نظامِ تعلیم بھی رہا۔ یہ تینوں یونیورسٹیاں ہمارے قدیم ماضی کی ہیں۔ ان میں دینی اور عصری تعلیم کا سلسلہ اس طرح رہا۔
اس میں آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ اگر قاضی عیاضؒ جو حدیث اور سنت کے امام ہیں، اُن کا حلیہ دیکھا جائے اور ابن خلدون جو فلسفہ تاریخ کے امام ہیں، ان کا حلیہ دیکھا جائے، دونوں کو دیکھنے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا تھا کہ یہ دین کا عالم ہے اور وہ دنیا کا عالم ہے۔ دونوں کا حلیہ، لباس، ثقافت، طرزِ زندگی، طرزِ کلام سب یکساں تھا۔ اگر آپ مشہور اسلامی سائنسدان فارابی، ابن رُشد، ابوریحان البیرونی ان سب کا حلیہ دیکھیں اور جو محدثین، مفسرین اور فقہاء پیداہوئے اُن کا حلیہ دیکھیں، دونوں کا حلیہ ایک جیسا نظر آئے گا۔ اگر وہ نماز پڑھتے تھے تو یہ بھی نماز پڑھتے تھے۔ اگر اُن کو نماز کے مسائل معلوم تھے تو اِن کو بھی معلوم تھے۔ اگر اُن کو روزے کے مسائل معلوم تھے تو اِن کو بھی معلوم تھے۔ بنیادی اسلامی تعلیمات جو ہر انسان کے ذمے فرضِ عین ہیں، اُس دور میں ہر انسان جانتا تھا اور اس یونیورسٹی میں اُس کو پڑھایا جاتا تھا۔۔ تفریق یہاں سے پیداہوئی کہ انگریز نے آکر باقاعدہ سازش کے تحت ایک ایسا نظامِ تعلیم جاری کیا کہ اس سے دین کو دیس نکالا دے دیا گیا۔ اُس وقت ہمارے اکابرین مجبور ہوئے کہ وہ مسلمانوں کے دین کے تحفظ کے لیے کم از کم جو فرضِ کفایہ ہے، اُس کا تحفظ کریں۔ اُنہوں نے دارالعلوم دیوبند قائم کیا جس نے الحمدللہ! وہ خدمات انجام دیں جس کی تاریخ میں نظیر ملنامشکل ہے، لیکن یہ ایک مجبوری تھی۔ اصل حقیقت وہ تھی جو جامعۃ القرویین میں تھی، جو جامعہ زیتونہ میں تھی، جو جامعۃ الازہر کے ابتدائی دور میں تھی۔ اصل حقیقت وہ تھی۔ اس وقت ہمیں جامعۃ القرویین کی ضرورت ہے، جامعہ زیتونہ کی ضرورت ہے اور ایسی یونیورسٹی کی ضرورت ہے جس میں سارے کے سارے علوم اکٹھے پڑھائے جائیں۔ سب دین کے رنگ میں رنگے ہوئے ہوں، چاہے وہ انجینئر ہوں، چاہے وہ ڈاکٹر ہوں، چاہے کسی بھی شعبۂ زندگی سے وابستہ ہو، وہ دین کے رنگ میں رنگا ہوا ہو، لیکن ہم پر ایسا نظامِ تعلیم لاد دیا گیا، جس نے ہمیں سوائے ذہنی غلامی سکھانے کے اور کچھ نہیں سکھایا۔ اُس نے ہمیں غلام بنایا۔ اکبر الٰہ آبادی نے صحیح کہا تھا ؎
اب علیگڑھ کی بھی تم تمثیل لو
اب معزز پیٹ تم اُس کو کہو
صرف پیٹ بھرنے کا ایک راستہ نکالنے کے لیے انگریز یہ نظامِ تعلیم لایا اور اُس کے نتیجے میں مسلمانوں کی پوری تاریخ اور پورا ورثہ تباہ کردیا گیا۔نتیجہ یہ کہ آج اس نئے نظامِ تعلیم کے ذریعے زبردست دو فرق واضح طو رپر سامنے آئے ہیں۔ ایک یہ کہ موجودہ تعلیمی نظام میں اسلامی تعلیم کے نہ ہونے کی وجہ سے فرضِ عین بھی معلوم نہیں۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے اکثر طالب علم جانتے ہی نہیں ہیں کہ دین میں فرض کیا ہے؟ دوسرے اُن کے اوپر افکار مسلط کردیے گئے ہیں کہ اگر عقل اور ترقی چاہتے ہو تو تمہیں مغرب کی طرف دیکھنا ہوگا۔ تیسری ان کی ثقافت بدل دی گئی۔ ان کے ذہن میں یہ بات بٹھادی گئی کہ اگر اس دنیا میں ترقی چاہتے ہو تو صرف مغربی اَفکار میں ملے گی، مغربی ماحول میں ملے گی، مغربی انداز میں ملے گی۔ افسوس یہ ہے کہ اس نئے نظامِ تعلیم سے جو گریجویٹس، ڈاکٹرز یا پروفیسرز بن کر پیدا ہوتے ہیں، وہ ہم جیسے طالب علموں پر تو روز تنقید کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے اجتہاد کا دروازہ بند کردیا، یہ اجتہاد نہیں کرتے۔ قرآن و سنت اور فقہ میں ’’اجتہاد‘‘ ایک عظیم چیز تھی، لیکن ایک ایسی چیز جس میں اجتہاد کا دروازہ چاروں طرف چوپٹ کھلا ہوا تھا، وہ تھی سائنس اور ٹیکنالوجی، ریاضی، علومِ عصریہ اس میں تو کسی نے اجتہاد کا دروازہ بند نہیں کیا۔
علیگڑھ کے اور اس نئے نظامِ تعلیم کے ذریعے آپ نے کیوں ایسے مجتہد پیدا نہیں کیے جو مغرب کے سائنسدانوں کا مقابلہ کرتے۔ اُس میں آپ نے کیوں ایسے مجتہد پیدا نہیں کیے جو اجتہاد کرکے طب، فلکیات، ریاضی، سائنس وغیرہ میں نئے راستے نکالتے۔ اجتہاد کا دروازہ جہاں چوپٹ کھلا تھا وہاں کوئی اجتہاد کیا ہی نہیں، اور جہاں قرآن و سنت کی پابندی ہے اور قرآن و سنت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اجتہاد کرنا ہوتا ہے، وہاں شکایت ہے کہ علمائے کرام اجتہاد کیوں نہیں کرتے؟
ابھی کچھ دن پہلے کسی صاحب نے ایک کلپ بھیجا جس میں ایک عالم دین سے یہ سوال کیا جارہا تھا کہ مولانا! یہ بتائیے کہ علمائے کرام کی خدمات ویسے اپنی جگہ ہے، لیکن یہ کیا بات ہے کہ علمائے کرام میں کسی طرف سے بھی کوئی سائنسدان پیدا نہیں ہوا، کوئی ڈاکٹر پیدا نہیں ہوا، کسی بھی طرح کی ایجاد نہیں ہوئی، اس کا علمائے کرام کے پاس کیا جواب ہے؟ بندئہ خدا! یہ سوال تو آپ اپنے آپ سے کرتے کہ ہمارے نظامِ تعلیم میں کوئی ایسا مجتہد پیدا ہوا جس نے کوئی نئی ایجاد کی ہو؟ لیکن وہاں تو اجتہاد کے دروازے اس طرح بند ہیں کہ جو انگریز نے کہہ دیا، مغرب نے کہہ دیا بس وہ نظریہ ہے، اُس نے جو دواء بتادی وہ دواء ہے، اُس نے اگر کسی چیز کے بارے میں کہہ دیا کہ یہ صحت کے لیے مضر ہے تو اس کی اقتدا کرتے ہیں۔ انڈے کی زردی کے بارے میں سالہاسال سے کہا جارہا تھا کہ یہ کولیسٹرول پیدا کرتی ہے اور امراضِ قلب میں مضر ہوتی ہے، لیکن آج اچانک ہر ڈاکٹر یہ کہہ رہا ہے کہ انڈے کی زردی کھائو، اس سے کچھ نہیں ہوتا۔ کیوں؟ اس لیے کہ مغرب سے یہ پیغام آگیا ہے، اُسے آپ نے قبول کرلیا ہے۔
ہمارے ملک میں بے شمارجڑی بوٹیاں لگی ہوئی ہیں، اُس پر آپ نے کبھی تحقیق کی ہوتی، اُس سے آپ نے کوئی نتیجہ نکالا ہوتا کہ فلاں جڑی بوٹی ان امراض کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کلونجی کے فوائد بیان فرمائے تھے، اُس پر کوئی تحقیق کی ہوتی۔ وہاں تو اجتہاد کا دروازہ ٹوٹل بند ہے اور اُس میں کوئی تحقیق کا راستہ نہیں، اور جو قرآن و سنت کی بات ہے اُس میں اجتہاد کا مطالبہ ہے۔ یہ ذہنی غلامی کا نظام ہے جس نے ہمیں اس نتیجے تک پہنچایا۔
دوسرا یہ کہ تصورات بدل گئے۔ پہلے علم کا تصور ایک معزز چیز تھی جس کا مقصد معاشرے اور مخلوق کی خدمت تھی، یہ اصل مقصود تھا۔ اس کے تحت اگر معاشی فوائد بھی حاصل ہوجائیں تو ثانوی حیثیت رکھتے تھے، لیکن آج معاملہ الٹا ہوگیا، علم کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے۔ علم کا مقصد یہ ہے کہ اتنا علم حاصل کرو کہ لوگوں کی جیب سے زیادہ سے زیادہ پیسہ نکال سکو۔ تمہارا علم اس وقت کارآمد ہے کہ جب تم لوگوں کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ پیسہ کماسکو۔ آپ دیکھیں کہ موجودہ دور میں کتنے لوگ پڑھ رہے ہیں اور گریجویشن کررہے ہیں، ماسٹر ڈگریاں لے رہے ہیں، قسما قسم کی ڈگریاں حاصل کررہے ہیں، اُن کے ذہن سے پوچھا جائے کہ کیوں پڑھ رہے ہو؟ وہ کہیں گے کہ اس لیے پڑھ رہے ہیں کہ کیریئر اچھا ہو، اچھی ملازمتیں ملیں، پیسے زیادہ ملیں۔ تعلیم کی ساری ذہنیت بدل کر یہ تبدیلی کردی کہ علم کا مقصد پیسہ کمانا ہے۔
علم حاصل کرکے معاشرے یا مخلوق کی کوئی خدمت انجام دینی ہے، اس کا کوئی تصور اس موجودہ نظامِ تعلیم میں نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر شخص پیسے کمانے کی دوڑ میں مبتلا ہے اور اُس کو نہ وطن کی فکر ہے، نہ ملک و ملت کی فکر ہے اور نہ مخلوق کی خدمت کرنے کا کوئی جذبہ اُس کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ دن رات اسی دوڑ دھوپ میں مگن ہے کہ پیسے زیادہ بننے چاہیے۔ اُس کے لیے چوری، ڈاکہ، رشوت و ستانی وغیرہ کے ناجائز ذرائع بھی استعمال کرتا ہے۔
یہ بتائیے! موجودہ نظامِ تعلیم کے تحت جو لوگ یہاں تیار ہورہے ہیں، انہوں نے مخلوق کی کتنی خدمت کی؟ کتنے لوگوں کو فائدہ پہنچایا؟ ہمیں تو پیغمبرِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا تلقین فرمائی تھی: ’’اَللّٰھُمَّ لَاتَجْعَلِ الدُّنْیَا أَکْبَرَ ھَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا وَلَا غَایَتَ رَقْبَتِنَا‘‘ ’’یااللہ! دنیا کو ہمارے لیے نہ تو ایسا بنائیے کہ ہمارا ہر وقت دھیان دنیا ہی کی طرف رہے اور نہ ہمارے علم کا سارا مَبلغ دنیا ہی ہوکر رہ جائے، اور نہ ہماری ساری رغبتوں اور شوق کا مرکز دنیا ہوکر رہ جائے۔‘‘ لیکن اس نظامِ تعلیم نے کایا پلٹ دی۔
حضرت والا ماجد مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے جو بات فرمائی تھی اُس کا منشا یہ تھا کہ انگریز کی غلامی کے بعد جو تعلیم کی کایا پلٹی گئی ہے، اُس کایا کو دوبارہ پلٹ کر اُس راستے پر چلیں جو راستہ جامعۃ القرویین نے دکھایا، جو جامعہ زیتونہ نے دکھایا، جو ابتدائی دور میں جامعۃ الازہر نے دکھایا۔ میں ابتدائے دور کی بات اس لیے کررہا ہوں کہ آج جامعہ ازہر کی بھی کایا پلٹ چکی ہے، اسی لیے ابتدائی دور کی بات کررہا ہوں۔ ہمارے یہاں حکومتی سطح پر وہ نظام ِتعلیم نافذ نہیں ہوسکا، لہٰذا مجبوراً کم از کم دارالعلوم دیوبند کے نظام کا تحفظ تو ہو۔ الحمدللہ! اسی غرض سے مدارس قائم ہوئے۔ جب تک ہمیں حکمرانوں او رنظامِ حکومت پر اور اُن کے بنائے ہوئے قوانین پر بھروسہ نہیں ہے اور نہ مستقبل قریب میں کوئی بھروسہ ہونے کی امید ہے، اس لیے اُس وقت تک ہم اِن مدارس کا پورا تحفظ کریں گے۔ مدارس کو اسی طرح برقرار رکھیں گے جس طرح ہمارے اکابر نے دیوبند کی طرح برقرار رکھا۔ اس کے اوپر ان شاء اللہ کوئی آنچ بھی نہیں آنے دیں گے، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ رفتہ رفتہ یہ قوم اُس طرف بڑھے جو ہمارا ابتدائی مطمح نظر تھا۔
خدا کے لیے اس نئی نسل کے ذہنوں سے یہ چیز مٹائیے اور ان کے اندر اسلامی ذہنیت پیدا کیجیے۔ مغرب کی بھی ہر بات بری نہیں ہے، کچھ چیزیں اچھی بھی ہیں، لیکن اُن اچھی چیزوں کو لے لو اور بری چیزوں کو پھینک دو، ’’خُذْ مَاصَفا وَدَعَ ماکدر‘‘ اس اصول کے اوپر اگر کام کیا جائے، تو ان شاء اللہ ہم منزل تک پہنچ جائیں گے۔
اقبال مرحوم نے بعض اوقات ایسے حسین تبصرے کیے ہیں کہ وہ قوم کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ مغرب کی ترقی جو کہیں سے کہیں پہنچی ہے اُس پر تبصرہ کرتے ہوئے چند شعر کہے ہیں، وہ ہمیشہ یاد رکھنے کے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ؎
قوتِ مغرب نہ از چنگ و رباب
نے ز رقصِ دخترانِ بے حجاب
چنگ و رباب یعنی موسیقی کے آلات۔ مغرب کی قوت اس لیے نہیں ہوئی کہ وہاں موسیقی کا بڑا رواج ہے، نہ اس وجہ سے ہوئی کہ بے حجاب اور بے پردہ عورتیں رقص کرتی ہیں۔
نے ز سحر ساحران لالہ روست
نے ز عریاں ساق و نے ز قطع موست.
نہ اس وجہ سے ہوئی کہ وہاں حسین عورتیں بہت پھرتی ہیں اور نہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اپنی ٹانگیں ننگی کر رکھی ہیں اور اپنے بال کٹوا رکھے ہیں۔
قوتِ مغرب ازیں علم و فن است
از ہمیں آتش چراغش روشن است
تعلیمی میدان میں انقلابی اقدام کی ضرورت :
حضرت کی بات سے جو اشارات ملتے ہیں وہ یہ ہیں کہ مسلمانوں کو نظامِ تعلیم میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ،اگر حکومتی سطح پر یہ کام ہو تو نور علی نورہوگا ۔کہ ایک ایسا نظام ِتعلیم مرتب کیا جائے ،جس میں اولاً دین کی ضروری تعلیم کافی مضبوط انداز میں پڑھائی جائے کہ وہ ابنِ خلدون اور بوعلی سینا وغیرہ کی طرح رہن سہن اور وضع قطع سے مکمل مسلمان نظر آئیں ، صوم و صلاۃ کے پابند اور علمی لیاقت میں بھی اچھے ماہر ہوں؛ اس کے بعد انہیں اگر عصری تعلیم میں آگے بڑھایا جائے گا تو کوئی حرج نہیں ہوگا۔ جیسے: جامعہ قر وین اور زیتونیہ وازہر کے قدیم فضلا، جہاں سائنسی میدان میں امام تھے، وہیں اسلام کے مکمل پابند تھے تو ہمارے بچے بھی ایسے ہی ہوں ۔
اگر حکومت یہ اقدام نہیں کرتی تو علمااور قائدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دو طرح سے محنت کریں۔
۱- عصری تعلیم کے ادارے راسخ العلم والعقیدہ حضرات کی نگرانی میں قائم کریں اورعصری تعلیم سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ میں دینی شخصیت پیدا کریں؛ جیسا کہ دارالعلوم کراچی کی نگرانی میںا حرار اسکول قائم کرکے خود مفتی صاحب یہ کام انجام دے رہے ہیں اور ہندوستان میں جامعہ اکل کوا میں والد صاحب مدظلہ العالی قاری صدیق صاحب باندوی رحمہ اللہ کے کہنے پر یہ خدمت انجام دے رہے ہیں ۔
۲- حضرت مفتی صاحب نے وضاحت کے ساتھ تو نہیں؛ البتہ دبے الفاظ میں گویا یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ مدارسِ اسلامیہ اگرچہ اپنے دینی نصاب کو باقی رکھیں؛ مگر اس کے ساتھ عصری علوم اور عصری تقاضوں سے بھی طلبۂ مدارسِ اسلامیہ کو واقف کرائیں ۔
حضرت کی یہ دوسری رائے پر عمل کرتے ہوئے اور امت کی شدید ضرورت کے پیشِ نظر جامعہ اکل کوا نے یہ ترتیب بنائی ہے کہ دینی تعلیمی کے ساتھ ساتھ مدارس کے ان طلبہ کو عصری تعلیم اور تقاضوں سے بھی آراستہ کیا جائے ، اس کے لیے دو طریقے اختیار کیے ہیں ۔
(۱) امت کو دین سمجھانے کے لیے محاضرات کی شکل میں ان علوم کو نصاب تعلیم کا حصہ بنایا جارہا ہے ، جس سے موجودہ حالات میں علمائے امت کے ہر طبقے کو دینی اعتبار سے مطمئن کرسکتے ہیں ۔ اب تک مندرجہ ذیل علوم کے محاضرات نصاب میں شامل کیے جاچکے ہیں ۔
۱- الغزوی الفکری (۲) اسلام اور جدید معیشت وتجارت (۳) تعارفِ فرق باطلہ (۴) مقارنۃ الادیان (۵) مقاصدِ شریعت (۶ ) الحضارۃ الاسلامیۃ والحاضر العالم الاسلامی (۷) تربیتِ اسلامی (۸) طرق التدریس (۹) تاریخ الادب (۱۰) اصول العقیدۃ الاسلامیۃ۔
مزید ضروری محاضرات اور نظام کی شمولیت کی جائیگی۔مثلاً:اسلام اور سیاستِ حاضرہ، اسلام جدیدیت مابعد جدیدیت اور مغربی افکار،دروس وعبر من التاریخ،اسلام کا نظام ِاخلاق وآداب، علم تزکیہ نفس،جغرافیا، سائنس،ریاضی( مزید تفصیلات کے ساتھ ابھی مختصر ہے)،عالم وہندوستانی قانون۔مختلف درجات میں ان کے مناسب مطالعہ کا نظام اور دورے میںعربی ،اردو میں مقالہ کا نظام۔
الغزوی الفکری: کے ذریعے طلبہ کو امتِ مسلمہ کے خلاف مرحلہ وار کیا کیا سازشیں رچی گئیں اور ہر دور میں علمااور حکما ان سے کیسے نمٹیں، ان معلومات کو تفصیل کے ساتھ بتایا جاتا ہے اور عصر ِحاضر میں استشراق، استعمار کی حقیقت سے واقف کرایاجاتا ہے ۔
اسلام اور جدید معیشت میں: علمِ معیشت کا تعارف، اس کے بنیادی اصول ، سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام کے اصول، ان کے مثبت ومنفی اثرات اور اسلام کے نظامِ معیشت سے اس کا تقابل کیاجاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ معاملات کے جدید مسائل مثلاً: شیئرز کی خرید و فروخت کے احکام ، کمپنی کے احکام ، انشورنس کے احکام ، بینک اور کریڈٹ کارڈ وغیرہ کے احکام اوران تمام کے شرعی متبادل بتلائے جاتے ہیں ۔
تعارفِ فرقِ باطلہ میں: عصر حاضر کے فرقِ باطلہ کا تعارف اور ان کی حقیقتوں سے واقف کیا جاتا ہے ۔
مقارنۃ الادیان میں: عصرِ حاضرکے مذاہب کے ساتھ اس کا مقارنہ ، تقابل مذاہب کا تعارف۔ مثلاً: عیسائیت ، یہودیت ، ہندوازم ، سکھا زم ، بودھ ازم وغیرہ کا تعارلف کروایا جاتا ہے۔
مقاصدِ شریعت: میں اسلامی احکام کی عقلی توجیہات اور احکام ِاسلام کے رحمت کے پہلو کو اجاگر کیا جاتا ہے ۔
الحضارۃ الاسلامیۃ: میں علومِ عقلیہ ونقلیہ کی تدوین وترویج میں مسلمانوں کا کیا رول رہا ، مسلمانوں نے کون سی سائنسی ایجادات کی بنیادیں فراہم کیں،ان معلومات سے واقف کیا جاتا ہے ۔
حاضر العالم الاسلامی: میں موجودہ مسلم دنیا کی صورتِ حال سے واقف کیا جاتا ہے۔
التربیۃ الاسلامیۃ: میں نئی نسل کی تربیت کے طریقے بتلائے جاتے ہیں ۔
طرق التدریس: میں علومِ اسلامیہ کو پڑھانے کے اسالیب بیان کیے جاتے ہیں ۔
تاریخ الادب الا سلامی: میں علمِ لسانیات کے اصول اور عربی ادب کی تاریخ بتائی جاتی ہے ۔
اصول العقیدۃ: میں اسلامی عقائد کے متفقہ اصول بتلائے جاتے ہیں ۔
غرض یہ کہ ان امور سے واقفیت کے بعدجامعہ کے فضلا معاشرے میں مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں ۔
جامعہ نے دوسرا اقدام یہ کیا ہے کہ دینی تعلیم کے ساتھ یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ جو طلبہ دینی تعلیم کے درجات میں ۹۰؍ سے زیادہ فیصد حاصل کریں گے ، جامعہ ان کی عصری تعلیم کے مصارف برداشت کرے گا ، جن کے ۷۰؍ سے زیادہ فیصد ہوں گے، ان کے نصف مصارف برداشت کرے گا ۔(دینی تعلیم میں رسوخ رکھنے والے طلبہ اگر عصری میدان میں آگے آتے ہیں،تو امت کو زیادہ فائدہ ہوگا؛کیوں کہ وہ مرعوب نہیں ہوں گے) اور ساتھ ہی ساتھ NO I S نیشنل اوپن اسکول کا سینٹر لیا ہے؛ جس سے طلبہ دسویں کی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں ۔ اسی طرح مولانا آزاد کا سینٹر لیا ہے، جس سے طلبہ M.A۔ B.A وغیرہ کرسکتے ہیں ۔ اس سال یشونت راؤ چوہان اوپن یونیور سٹی کا سینٹر بھی لے لیا ہے، جس سے دینی تعلیم کے طلبہ اہلیتی امتحان پاس کر کے بی اے کر سکتے ہیں مولانا آزاد ہائسکول سے بارہویں بھی کرسکتے ہیں اور آئندہ LLBبھی کر سکیں گے ۔ امسال D.ed میں طلبہ کو داخلہ دیا گیا ؛ مقصد اس سے یہ ہے کہ معاشرے میں ایسے علما وجود میں آئے، جو جامعہ قرویین اور جامعہ زیتونہ کی یاد تازہ کردیں ۔ علم دین میں بھی مضبوط صلاحیت کے حامل ہوں اور عصر ی علوم میں بھی انہیں کمال حاصل ہو اور ساتھ ہی ساتھ عمدہ اخلاق وکردار کے مالک ہوں؛تا کہ صرف پیسے کو مقصدِ تعلیم تصور نہ کرکے خدمت خلق کو اپنی تعلیم کا مقصد بنائیں ۔
جامعہ سے فارغ ہونے والے طلبہ بیک وقت متعدد ڈگریاں لے سکتے ہیں :
حفظ کے بعد عا لمیت میں دسویں ، بارہویں اور B.A؛ اسی طرح L.LB ، B.ed وغیرہ عصری ڈگریاں ۔عا لمیت اور فضیلت کی ڈگری کے ساتھ اجازۃ القرآن یعنی قرآنِ کریم کی سند متصل ،قرأتِ سبعہ، ثلاثہ ، عشرہ ، صغریٰ وکبریٰ، عربی ڈپلوما، کمپویٹر کورس اور اس کے بعد بھی آگے کی راہیں کھلی ہیں… جامعہ علی گڑھ ، ہمدرد میں داخلہ اوراس کے علاوہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ ،جامعہ اسلامیہ عالمیہ ملیشیا،جامعہ مینوسیتا امریکہ میں فراغت کے بعد آگے کی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں ۔اور طلبہ واساتذہ بی،اے۔ایم ،اے۔اور پی ،ایچ،ڈی کر سکتے ہیں۔
طلبۂ جامعہ کے لیے یہ بہت عمدہ موقع ہے ،وہ غفلت اور سستی کو ختم کریں اور دونوں علوم میں مہارت حاصل کریں۔عمدہ اخلاق سے آراستہ ہوںاو رامتِ مسلمہ اور وطنِ عزیز کو ترقی کے بام عروج پر پہنچائیں۔وماذلک علی اللہ بعزیز۔
ایک محنتی طالب علم کے دن ورات کا نظام الاوقات :
دن رات میں ۲۴؍ گھنٹے ہوتے ہیں ، اگر طالب علم اس کو صحیح نظام الاوقات کے ساتھ گزارے، تو بہت عظیم انسان بن سکتا ہے۔ آج کل ہم جو وقت کی تنگی کا رونا رو تے ہیں ، وہ محض بہانہ ہے ؛اگرجامعہ کے کلبہ امت کے لیے کار آمد اور خود دنیا وآخرت کی کامیابی چاہتا ہے، تو مندرجہ ذیل نظامِ اوقات کو اپنالیں، ان شاء اللہ ! ضرور اپنے مقصد کو پالیں گے۔
صبح صادق ۱۰: ۵ ؍ پر ہوتی ہے ۔ ۳۰: ۴؍ کو بیدار ہوجائیں اور طہارت وغیرہ سے فارغ ہوکر ۴۵:۴؍ مسجد میں آجائیں ، دورکعت یا ۶؍ رکعت تہجد ادا کریں اور رو رو کر اللہ سے مانگیں ۔
۵ : ۵ ؍ تلاوت میں مشغول ہوجائیں ۔ ۳۵: ۵ ؍فجر کی سنت اداکریں ، ۰۰:۶؍ نماز کے بعد فوراً صبح کے اذکار اور سورہ ٔیٰس کی تلاوت کرلیں،چائے وغیرہ سے فارغ ہوکر اشراق کی چار رکعت اداکریں، ۳۰: ۶؍ ورزش یا چہل قدمی کے لیے چلے جائیں ۔ ۴۵:۶ اپنی درسگاہ میں حاضر ہوجائیں ۔
۰۰: ۷ ؍سے لے کر ۱۵: ۱۱ تک پوری توجہ کے ساتھ سبق میں حاضر رہیں اورا سباق کو قلمبند کریں ۔
۳۰: ۱۱ کھانے سے فارغ ہوجائیں ، اس کے بعد چار کعت چاشت کی نماز ادا کریں ، کمپیوٹر سیکھیں۔ ۴۵:۱۱ دوپہر میں جو سبق ہونے والا ہو اس کو دیکھ لیں ۔ ۴۵: ۱۲ قیلولہ کے لیے کمرے میں چلے جائیں ۔ ۴۵: ۱ قیلولہ سے بیدار ہوجائیں اور مسجد کی طرف چل دیں ؛ مسجد میں آکر چار رکعت سنت ادا کریں ، اس کے بعد وقت ہو تو تلاوت کریں ، یا کتاب کا سبق یاد کریں ، فرض نماز سے فارغ ہوکر۲؍رکعت سنتِ مؤکدہ وغیر مؤکدہ ادا کریں۔ ۴۵: ۲ سے لے کر ۰۰: ۵؍ تک درس گاہ میں توجہ سے سبق میں حاضری دیں ۔
۵: ۵ پر مسجد میں پہنچ کر سنت ادا کریں اوروقت ہوتو تلاوت میں مصروف ہوجائیں ۔
عصرکے بعد تعلیم کو توجہ سے سنیں ، اور عمل کرنے کی نیت کریں ۔ ۵۰: ۵؍ کھانے سے فارغ ہوکر دس منٹ چہل قدمی کریں ۔ ۱۵: ۶؍ مغرب سے پندرہ منٹ قبل مسجد میں آجائیں اور دعا میں مشغول ہوجائیں بعد از مغرب اوابین میں نصف جز تلاوت کریں ۔ ۰۰: ۷ سے لے کر ۴۵: ۸ درس گا ہ میں تکرار ومذاکرہ میں مشغول ہوجائیں ۔ اذان ہوتے ہی مسجد کا رخ کریں جن طلبہ کو NOIS کا نظام ہے وہ پابندی سے حاضری دیںیا کمپیوٹر،ٹیلرینگ، آپٹیکل وغیرہ سیکھیں ۔
۹؍تا۳۰:۹نماز عشا سنن واجبات اور معمولات ِ مسجد میں مشغول رہیں۳۰: ۹ مشق کریں۔ ۰۰:۱۰ مشق کے بعد آئندہ کل کے صبح کے اسباق کی تیاری کریں اور مطالعہ میں مشغول ہوجائیں ۔ ۳۰: ۱۱ یااس کے بعد سوجائیں ۔
غرض ۲۴؍ گھنٹوں کو اگر صحیح کام میں لیا جائے تو بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے ۔
اگر آپ اس طرح اپنے نظام الاوقات پر عمل کریںگے تو زندگی کے ہر ہر لمحے کے قدرداں اور اس کا گویا پورا فائدہ اٹھاسکیںگے ۔ اس طرح جامعہ امت کو جیسے افراد دینا چاہتا ہے، اس میں کامیاب ہوگا ۔
جامعہ امت کو ایسے علما دینا چاہتا ہے:
ہم امت کو ایسے علمادینا چاہتے ہیں ، ایسے علما جو مندرجہ ذیل صفات کے حامل ہوں ۔
۱… علم دین میں رسوخ رکھنے والے ۔
۲…عمدہ اخلاق کے مالک ۔
۳…دل کے صاف اور تزکیہ ٔنفس کی طرف خوب توجہ کرنے والا۔
۴…عصری تقاضوں اور علوم سے واقف ، مثلاً سائنس ، انجینئر نگ وغیرہ ۔
۵…امت کا درد سینے میں رکھنے والے ۔
۶…دعا اور ہر موقع کے مسنون اذکار کے عادی ۔
۷…امت کی خدمت کے جذبہ سے سرشار۔
۸…امت کو جوڑنے والے اور تفرقہ بازی سے دور رہنے والے ۔
۹…مطالعہ کے کیڑے اور رسیا ۔
۱۰…بہترین کتابت وخطابت کے مالک ۔
۱۱…مختلف زبانوں پر عبور رکھنے والے ، عربی انگریزی ہندی ، اردو اور علاقائی زبان ۔
۱۲…امانت داری اور دیانت داری کے پیکر۔
۱۳…اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے والے ، اور مغربی تہذیب سے مرعوب نہ ہونے والے۔
۱۴…امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کوحکمت کے ساتھ انجام دینے والے۔
۱۵…بیک وقت مسجد کے امام ، مدرسہ اور اسکول کے کامیاب مدرس ۔
غرض یہ کہ ایک بااثر عالم میں جتنی صفات ہونی چاہیے اس کے مالک ہوں ، اللہ کرے ہمارے طلبہ کو بات سمجھ میں آجائے اور امت کے لیے ہر طرح سے کار گر بن کر فارغ ہونے کا جذبہ بیدا ر ہوجائے ۔
آمین یارب العالمین!
۲۴: ۱۲ رات ۱۲؍محرم الحرام ۱۴۴۰ھ