مفتی عبد القیوم مالیگانوی؍استاذ جامعہ اکل کوا
یہی حاصل ہوا:
ملک کی وزارتِ عظمیٰ کی طرف سے NRC یعنی اپنی شہریت اور ملکی ہونے کا ثبوت کے نفاذ کا اعلان ہوچکا ہے ۔اور اس کا پہلا اور ناکام تجربہ ریاست آسام میں ہوا، جس میں ۷؍ سال کی طویل مدت میں ۱۶؍ سو کروڑ کی خطیر اور بھاری رقم خرچ کرنے کے باوجودبھی ریاست کے ۱۹؍ لاکھ لوگ اس میں شامل نہ ہوسکے ، جس میں تین سے ساڑھے تین لاکھ لوگ ایسے ہیں جن کی موت ہوچکی ہے اوروہ اِس دنیاکی سرحد پار کرکے اُس دنیامیںجاچکے ہیں ۔ اور بہت سارے ایسے ہیں جو پکے اور قدیم ہندستانی ہیں ، لیکن اس کام پر مامور افسران اور دیگر کرمچاریوں کی غفلت اور غلطیوں سے ناموں میں خرابی او ررد و بدل کی وجہ سے لاکھوں لوگ اس رجسٹریشن میں شامل نہ ہوسکے ۔ جنہیں حکومت کی طرف سے دی گئی ۴؍ ماہ کی مدت میں کورٹ سے اپنا ثبوت فراہم کرنا ہوگا۔
نہ جانے کتنے پاپڑبیلنے پڑیں گے؟:
اور اب یہی ناکام تجربہ حکومت پورے ملک میں کرنا چاہتی ہے ،جس سے ملک کی تمام ریاستوں کے باشندوں میں ایک طرح کا خوف اورآنے والے حالات کو لے کر ڈر کی سی کیفیت چھائی ہوئی ہے کہ معلوم نہیں ہم ملکی اور ہندستانی کی حیثیت سے متعارف اور پہچانے جاتے ہیںیا غیر ملکی اور اجنبی قراردیے جاتے ہیں۔پھر یہ بھی پتانہیںکہ اس کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑیںگے اور کیا نتیجہ آئے گا ؟بہر کیف! گھبرانے اور ناامید ہونے کے بجائے اس مہم کو سَر کرنے اور اِس الجھن کی جڑ کو ختم کرنے کے ـلیے جو ضروری اقدامات درکار ہیں ان پر توجہ دی جائے ۔ تمام تر دستاویزات اور مطلوبہ کاغذات کو مجتمع کرنے کے ساتھ ہی اپنے ناموں کی یکسانیت اور اصلاح ودرستی پرسے غفلت کی چادرہٹاکر خصوصی دھیان دیا جائے اور’’السعی منی والاتمام من اللہ‘‘ کوذہن کے پردے پررکھ کر پھرمعاملہ اللہ رب العزت کے حوالہ کردیا جائے ۔ وہی ہمارا امین اور محافظ ہے،جس کی حفاظت وامن کے بعد کسی کی ذمہ داری وضمانت کی ضرورت نہیں رہتی ۔اس لیے کہ {فاللہ خیرٌ حافظاً وہوارحم الراحمین}۔
قدرت بے مثال:
وہی اللہ؛خیرالحافظین ہے،جس نے نارِ نمرودمیںاپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کی،دھاردارچھری سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی،کنویںکی تاریکی وگہرائی میںحضرت یوسف علیہ السلام کی اورغارِثورمیںموت کے سایہ تلے اپنے محبوب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرکے دنیاکے جابروں،ظالموںاورطاقت کے نشہ میںمخموروںکوبتلادیاکہ ہماری قدرت اورتدبیرسے نہ ٹکراؤ۔ورنہ بکھرجاؤگے اورتمھارانام ونشان بھی باقی نہیںرہے گا؛کیوںکہ ہماری قدرت بے مثال اورہماری تدبیرلاجواب ہوتی ہے ۔{ومکرواومکراللہ واللہ خیرالماکرین}جیساکہ کسی نے خوب کہاہے ؎
حفاظت جس سفینے کی انہیںمنظورہوتی ہے
کنارے تک اسے خودطوفاںچھوڑجاتے ہیں
اعزازوتکریم کاسرٹیفکٹ:
لیکن اسی کے ساتھ اسے عبرت وموعظت کی غائرانہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو زندگی کا راز اور قبر و حشر کی کام یابی کا سراغ بھی مل سکتا ہے، بشر طیکہ چشمِ بصیرت سے دیکھاجائے اور گوشِ ہوش سے پڑھاجائے؛ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اسلام میں قومیت ، لسانیت ، علاقائیت اور رنگ و نسل ،حسب و نسب کا اختلاف کسی کے معزز و مکرم ہونے کا کوئی جواز اور سرٹیفکٹ فراہم نہیں کرتا ، بل کہ حکم خداوندی {ان اکرمکم عند اللہ اتقکم}کے بموجب وجہِ تکریم وبزرگی اور باعث صد افتخار صرف اور صرف اللہ سے ڈرنا اور خوف و خشیت والی زندگی گزارنا ہے ۔ رہی مذکورہ چیزیں ؛ توصرف پہچان ،شناخت اور تعارف کے لیے ہیں، جیسا کہ خالق ومالک خود فرماتے ہیں {وجعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا }کہ مختلف خاندان اور برادریاں ایک دوسرے کی پہچان کے لیے ہیں ۔ جس طرح دنیاکے مختلف شعبہ جات میں کام کرنے والے مزدور ، آفیسران اور دیگرملازمین کے یونیفارم جدا گانہ ہوتے ہیں؛ تاکہ دورہی سے دیکھ کر معلوم ہوجائے کہ یہ انجینئر ہے ، یہ وکیل ہے ، یہ جج ہے،یہ پلمبر ہے، یہ الیکٹریشن ہے اور یہ ویٹرہے۔
اپناشناختی کارڈدکھاناپڑے گا:
اسی کے ساتھ آج ہماری اس تنزل پذیر بشکل ترقی والی دنیا میں؛ بغیرآئی کارڈ کے انٹری کی اجازت بھی نہیںملتی اوراُنھیں اندرداخل ہونے سے روک دیاجاتا ہے۔اب باہرکاہی راستہ دیکھتے رہو۔ مثلاً آپ کو کسی نئی جگہ پر مکان یا دکان کرایہ سے لینا ہے، تو آپ کو آئی ڈی پروف دینا ہوگا ۔یعنی اپنی پہچان ، اسی طرح سم کارڈ، بینک اکاؤنٹ اوردیگر سرکاری وغیرسرکاری چیزوں کو پانے کے لیے آئی کارڈضروری ہوتی ہے اور ہم اپنی مطلوبہ جگہ یا مطلوبہ شئی کو حاصل کرنے کے لیے اپنی شناخت اور پہچان کارڈ ضرور دیتے ہیں؛ تا کہ کام یابی مل سکے اور رسوائی اور ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ اسی طرح مذہبِ اسلام نے اہل ایمان اور ہم مسلمانوں کو دنیا و آخرت کے مختلف شعبہ جات اور مراحل میں مختلف شناخت اور پہچان پتردئے ہیں؛ جنہیں استعمال کرنا دراصل اسلام کی پہچان اور اس کا تعارف ہے؛ جیسے شعبۂ عبادات میں اخلاص ،معاشرت میں حسن ِاخلاق، معاملات میں صداقت وامانت، حدود و قصاص اورتعزیرات میں عدل ۔ اسی طرح ادائے حقوق میں مساوات ہماری پہچان اور آئی ڈی ہیں۔رہی آخرت تو اس کی پہلی منزل قبر ہے اور اس کے بعد حشر کے مختلف مراحل اور کاؤنٹر پر ایمانی اسلامی مطلوبہ آئی ڈی اور پہچان پتر دینا ہوگا ، اس کے بغیر کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا؛چناںچہ قبر میں ہماری پہچان اورآئی کارڈ؛ ظاہری حلیہ کے روپ میں داڑھی ہے ۔ جب کہ کسی ایمان والے کو قبر میں رکھا جائے تو اس کے بعد یہ کہا جائے کہ
کفن سے منہ مرا کھولے تو یوں بولے
ہمارے چاہنے والوں کی صورت ایسی ہوتی ہے
آخرت کے کاؤنٹرپر:
پھر اس کے بعد دوسری ایڈنٹی منکر نکیر کے تین سوالات کے صحیح جوابات ہیں، جس کے بعد قبر کے اچھے یابرے جزا وسزا کے حالات شروع ہوجاتے ہیں، جیسا کہ احادیث میں تفاصیل موجود ہیں ۔ عالم برزخ؛ یعنی قبر کے بعد حشر میںسب سے پہلی ایڈنٹی اور آئی ڈی پروف ؛جس کا ہم سے ڈیمانڈ ہوگا ،وہ ’’اقامت صلاۃ‘‘یعنی نماز کی پابندی واہتمام ہے ۔’’ اول شئ یسئل یوم القیامۃ الصلاۃ ‘‘ مصرح فی الحدیث ہے ۔ اگر یہ پروف ہم نے پکا اور مطلوب کے مطابق دے دیا، تو آئندہ کے تمام مراحل اور کاؤنٹر پر نرمی اور یسر کا معاملہ ہوسکتا ہے ؛ورنہ باریک بینی اور سختی سے حساب اور محاسبہ ہوگا۔ اورخدا نہ کرے ایسے خوب صورت اندازمیںپھنس جائیںگے کہ نکلنے کی کوئی راہ بھی نہ مل پائے ۔
ایک ہزارکے تجربات کانچوڑ:
چناںچہ سائنٹفک ریزن کے مطابق انسان کو مرتے وقت دوقسم کے خیالات آتے ہیں ، جس کا تجربہ ایک ہزار لوگوں پر کیاگیا ۔ سب سے پہلے اس کے سامنے اس کی پوری زندگی ری کپ ہوتی ہے ،جو اس نے گزار ی ہوتی ہے ،اس کے بعد دوسری چیز اس کو یہ خیال آتا ہے کہ ساری زندگی میں اپنے لیے کچھ نہیں کر سکا، سب کچھ دوسروں کو دکھانے کے لیے کیا ۔ یہ بہت اہم پہلو ہے ، دنیامیںاس کی فکر ہوتی اوردھن سواررہتی ہے کہ میں شادی کرلوں گاتوسیٹ ہوجاؤںگا ،ڈگری لے لوں گا،تو سیٹ ہوجاؤںگا اوربچوں پوتوں کو پال لوںگا توسیٹ ہوجاؤںگا۔اِسی فکرمیںموت کاوقت آجاتاہے ۔جیساکہ{الھٰکم التکاثر حتیٰ زرتم المقابر}میت کو قبر میں رکھتے ہیں اوپر سے کوئی بندہ کہتا ہے کہ اس کے کفن کا منہ کھول دو ، قبلہ رخ کردو اب یہ سیٹ ہوااور ملیامیٹ ہو ا۔
سیٹ کے بعدتبدیلیاںہی تبدیلیاں:
اب خودہی دیکھ لیجیے کہ موت کے بعد میت کی لحد میں کتنی تبدیلیاں ہوتی ہیں ۔ اچھا اورلباسِ فاخرہ کفن میں تبدیل ہوگیا ، بڑاگھراوربنگلہ قبر بن گئی اورنام اس کاچھین کر اب نعش کہا جاتا ہے یا میت یالوگ جنازہ کہہ کر پکار تے ہیں ۔ ایڈنٹی ہے کیا ؟ذرااس کوبھی سوچئے ! ڈاکٹر ہوا تھا ۔ سارے لوگ ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر صاحب پکارتے ہیں ۔ڈاکٹرصاحبان سارے کے سارے پکا ررہے ہیں ۔ اپنی اسلامی ایڈنٹی کا انہیں خیال ہے ؟اپنی ڈاکٹروالی ایڈنٹی کو مضبوط بنانے کے لیے کوشش اوریہاںوہاںبھاگ دوڑ کررہے ہیں؛ لیکن اسلام والی ایڈنٹی کو اپڈیٹ کرنے کے لیے کیا کوشش کی ہے ؟ اس کو انسان سوچے۔ یاد رکھے کہ آج انسان جس لائن میں لگا ہوا ہے ، وہ موت والی لائن ہے ، باری آتی ہے بندہ چلا جاتا ہے۔{فاذاجاء اجلہم لا یستاخرون ساعۃ ولایستقدمون} اس لائن میں باری آتی ہے تونہ ایک سیکنڈ پیچھے ہٹ سکتا ہے نہ چھوڑ کر اور نہ بھاگ کر کہیںجاسکتا ہے ۔ آج اگراپنی اس ایڈنٹی کو بچالوگے تو یہ ایڈنٹی یاد آئے گی ۔
مانگنے کی نوبت نہیںآئے گی:
اخروٹ کی کھال کے ڈبہ میں جو ڈگری رکھی ہوئی ہے وہ نہیں مانگوگے۔ نہ بڑی گاڑی مانگو گے، جو گیرج میں کھڑی ہوئی ہے۔ مسلمان ہو چیخوگے، تڑپوگے جس ایڈنٹی کارڈ کا ساری زندگی میںکبھی خیال نہ رکھ سکا ۔کاش مجھے یاد آجائے کہ میںنے کس کونے میںرکھ دی ہے۔ مسلمانو! کوئی مسلمان مرتے وقت کلمہ پڑھ کر جاتا ہے تو سب محلہ اور رشتہ دار میں بات پھیل جاتی ہے کہ وہ مرتے وقت کلمہ پڑھ رہاتھا،خوشی محسوس کرتے ہیں۔ کوشش کیجیے کہ اس ایڈینٹی کو محفوظ اور مضبوط کرنے کے لیے صحیح اسیٹیپ لیجیے تاکہ نتیجہ صحیح اور درست آسکے۔ کیوں کہ’’الاعتباربالخواتیم ‘‘اعتبار آخری نتیجہ کا ہی ہوتا ہے۔
مردودکومحبوب کی ڈگری دے رکھی ہے:
لیکن ان سارے حقائق اورعبرتوں کے باوجود اہل ایمان اور اہل اسلام کا لاتعداد اور بے شمار طبقہ غفلت اور اپنی ایمانی واسلامی شناخت ہی سے محروم اوراپنے آپ کو قصدا ًکوسوں دور کیے ہوئے ہے کہ بہ ظاہر دیکھ کر مسلمان بھی نہیں پہچانا جاتا کہ اس کو سلام کیا جاسکے۔نوبت ایںجارسیدکہ مردوںکوزنانہ اورزنانہ کومردانہ بننے کابھوت سوارہوگیا۔دورسے دیکھنے پرمولاناطاہرحسین گیاوی کی زبانی ،پتابھی نہیںچلتاکہ ’’لیڈی ہے یا لیڈا‘‘ جب کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مردوںاورعورتوںپرلعنت فرمائی ہے ۔ ’’ لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المتشبہین بالنساء والمتشبہات بالرجال‘‘اِس وقت ہم نے اپنے اسلامی و ملی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کا تشخص اور پہچان بھی کھودی ہے ۔رہن سہن ، بود وباش ، بالوںکی تراش وخراش اور اپنے ظاہری حلیہ وانداز میں دشمنان خدا ، دین مخالف اور بے حیا وبے شرم افراد کی نقالی کو نہ صرف ترجیح دی ہے، بل کہ انہیں کواپنی زندگی کا بہترین آئیڈیل اور ہیرونمبروَن بنا رکھا ہے۔ یعنی کہ محبوب کی اداؤں کو مردود کرکے مردودوں کی اداؤں کو محبوب بنا لیا ہے ،جس پر قرآن و سنت میں بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں۔چناںچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : {یایہا الذین اٰمنوا لا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار ثم مأ واکم جہنم وبئس المصیر} اے ایمان والو! ان ظالموں کی طرف نہ جھکو، کہیں ایسانہ ہوکہ تمہیںبھی جہنم کی آگ لپٹ جائے اور تمہارا ٹھکانہ جہنم بنے جو بڑا ہی بد ترین مقام ہے۔ آیت مذکورہ میں بالکل واضح طور پر اوردوٹوک الفاظ میں غیروں اور بے دینوں کی تقلید پر جہنم کی سخت وعیدیں موجود ہیں ۔ اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ارشاد فرماتے ہیں ’’ من تشبہ بقوم فہو منہم ‘‘کہ جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا کل حشر میں اس کا شماربھی انہیںکی فہرست میں ہوگا ۔ اب یہ بات ہم پر موقوف ہے کہ ہم کس طرف جانا چاہتے ہیں اور اپنے لیے کس قسم کے نتائج اورانجام کو پسند کرتے ہیں ۔
حالات کے رخ کوپہچان لیجیے:
اس لیے ان حالات میں مایوس ہونے اورخوف زدہ ہونے کے بجائے ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے حوصلہ اور ہمت بڑھائیے اور اپنی دینی ، ملی اور اسلامی ذمہ داریوں کا احساس کیجیے۔ اور احساس ذمہ داری کے ساتھ جو کام ہمارے ذمہ ہیں انہیںپوری فکر مندی اور تیقظ وبیدارمغزی کے ساتھ انجام دیجیے ۔ خصوصاً اپنے آپ کو ہر میدان میں ایمان والا اور اسلام کاسچا وفادار ثابت کیجیے ۔ اپنے ظاہری حلیہ اور رکھ رکھاؤ کو اسلامی بناکر اپنے تشخص ِاسلامی کو بچائیے ۔ اپنی سب سے عظیم شناخت ایمان و اسلام کو اپڈیٹ کرکے محفوظ بنائیے؛ تاکہ دنیا و آخرت؛ دونوں میں ہمارا نام کام یاب لوگوں کے رجسیٹر میں آسکے ۔ اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔