یہ (۱۶) باتیں ہیں:
(۱) الله کی ذات، (۲) الله کی صفات، (۳) ماسوا الله کا حادث ہونا، (۴)الله کے تمام وعدے، (۵) الله کی تمام وعیدیں، (۶) فرشتے، (۷) انبیاء ورسل، (۸) آسمانی کتابیں، (۹) قیامت (دنیا کا خاتمہ) اور یوم آخر (آخری دن)، (۱۰)بعث بعد الموت،(۱۱) جنت، (۱۲) جہنم، (۱۳) تقدیر، (۱۴) برزخ، (۱۵)صراط، وزنِ اعمالِ میزانِ حساب، (۱۶)شفاعت۔
لیکن ان سب کی اصل صرف عقیدہٴ توحید ہے مگروہی عقیدہٴ توحید جو حضرت محمد (ا) کے ذریعہ حق تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے۔
لَااِلٰهَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ
اٰمَنْتُ باِللهِ کَمَا ہُوَ بِاَسْمَائِهِ وَ صِفَاتِهِ․
(بحوالہ سراج العقائد: ص/۶تا۹)
ایمان کی تعریف :
لغت میں” ایمان“ کے معنی” تصدیق“ اور” تسلیم“ کے ہیں۔
شریعت کی اصطلاح میں ایمان کہا جاتا ہے کہ وہ تمام چیزیں جو نبی کریم االلہ کی طرف سے لے کر آئے ہیں، جو قطعیت کے ساتھ نبی کریم اسے ثابت ہیں، ان کی دل سے تصدیق کرنااورزبان سے اس کا اقرارکرنایہ” ایمان“ کہلاتا ہے۔
التعریفات میں ہے: ”الإیمان فی اللغة: التصدیق بالقلب وفی الاعتقاد بالقلب والإقرار باللسان۔“(ج:1،ص:60،ط:دارالکتاب العربی،بیروت)
البحرالرائق میں ہے: ”والإیمان: التصدیق بجمیع ما جاء به محمد عن اللہ تبارک وتعالی مما علم مجیئه به ضرورة۔“(ج:5،ص:129،ط:دارالمعرفه بیروت)
علامہ عبدالرحمن السعدی فرماتے ہیں کہ: ہُوَ التَّصْدِیْقُ الْجَازِمُ وَالْاِعْتِرَافُ التَّامُّ بِجَمِیْعِ مَا اَمَرَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُه بِالْإِیْمَانِ بِه وَالْاِنْقِیَادِ ظَاہِرًا وَبَاطِنًا۔
”اللہ اور اس کے رسول کے جمیع احکامات کا ظاہری وباطنی طورپرمکمل اعتراف ویقین کرنا،اوراس کی پختہ تصدیق کرنا ایمان ہے۔ “
اورسیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِذَا سَرَّتْکَ حَسَنَتُکَ وَسَائَتْکَ سَیِّئَتُکَ فَاَنْتَ مُوْمِنٌ))۔
”جب تیری نیکی تجھے خوش کر دے (یعنی تجھے اچھی لگے) اور تیری برائی تجھے رنجیدہ کر دے (یعنی تجھے بری لگے) تو تُو مومن ہوگا۔“
جیساکہ اوپر بیان ہوا کہ ایمان کا لغوی معنی ہے امن دینا، اعتماد کرنا، کسی کو سچا سمجھ کراس کی بات پریقین کرنا، وغیرہ۔
ایمان کا اصطلاحی وشرعی معنی نبیٴ کریم اسے دین کی جو بات قطعی طورپرثابت ہے، اُسے دل وجان سے تسلیم کرنا۔
ایمان کی تعریف پر تفصیلی نظر :
”ایمان“ کا مطلب یہ ہے کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق ومصدوق سمجھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پردل سے اعتقاد رکھیں اورزبان سے اس کی گواہی وشہادت دیں۔
ایمان کی حقیقت :
اصل میں ایمان ”تصدیق قلبی“ ہے اوررہا زبان سے اس کا اقرارکرنا تو یہ اقرار صرف اس لیے ہے، تاکہ ظاہر میں اب آپ پرمسلمان ہونے کے احکام جاری کیے جاسکیں اوریہ بھی ہے کہ زبانی اقرار”تصدیق قلبی“ کی علامت بھی ہے، کیوں کہ زبان دل کی ترجمان ہے۔
ہاں! یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر کوئی شخص گونگا ہے،یا پھرزبان سے اقرارکرنے کی اُسے مہلت نہ مل سکی، لیکن اس کے قلب میں تصدیق موجود تھی (جسے اللہ ہی جانتا ہے)تو ایسی تمام صورتوں میں زبانی اقرار کی ضرورت نہ ہوگی۔ ”نبراس“ شرح ”شرح عقائد“ میں درج ہے کہ: ”إنه ہو التصدیق بالقلب، وإنما الاقرار شرط لإجراء الأحکام فی الدنیا من حرمة الدم والمال وصلوٰة الجنازة علیه ودفنه فی مقابر المسلمین۔فمن صدق فی قلبه ولم یقر بلسانه فہو مؤمن عند سبحانه وإن لم یکن مؤمناً فی أحکام الدنیا“۔ (نبراس،شرح ”شرح عقائد“،ص:۰۲۵،مولانا عبدالعزیز پرہاڑی)
دل سے تصدیق اصل ایمان ہے؛ البتہ اقرار باللسان زبان سے اقراراور کلمہٴ شہادت کوبولنا اس لیے شرط ہے کہ اس پردنیا میں اسلامی احکام کا اجرا کیا جاسکے، مثلاً: اس کی جان ومال کو تحفظ دینا اس پرنماز ِجنازہ کی ادائے گی مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا؛ لہذا اگر کسی نے دل سے تصدیق کی مگر زبان سے اقرار نہیں کرسکا تواللہ کے نزدیک وہ مومن اگرچہ دنیاوی اعتبار سے اس کا شمار مؤمنین میں نہ ہو۔
ایمان کے اجزاء :
محدثین کے یہاں ایمان کے تین اجزاء ہیں: ۱تصدیق، ۲اقرار، ۳عمل۔
اسی لیے تو محدثین ایمان کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایمان تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالارکان کا نام ہے۔
اور ہمارا خیال تو یہ ہے کہ یہ اختلاف محض لفظی ہے، اس سے زیادہ اورکچھ نہیں،کیوں کہ جو کچھ محدثین کہتے ہیں کامل ایمان تو حقیقتاً یہی ہے۔ بے عمل کا ایمان بہرحال ناقص ہے، لیکن اس کے باوجود یہ ماننا پڑے گا کہ ایمان، تصدیق قلبی کا ہی نام ہے، اعمال اس کی حقیقت میں داخل نہیں، اگرچہ کمالِ ایمان، اعمالِ صالحہ ہی سے وجود میں آتا ہے۔ (شیخ عبد الحق محدث دہلوی، ایمان کیا ہے؟ مترجم مولانا محمد انظر شاہ کشمیری، ص:۸۳)
