انوار نبوی
مولانا احتشام الحق تھانوی
ایمانِ کامل کی نشانی
عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ” لَا یُوْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہ وَوَلَدِہ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ“(بخاری، ومسلم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ
” تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا ؛جب تک کہ میں اس کے باپ، اس کی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاوٴں۔“
ایمان کامل کی نشانی غلبہٴ حب رسول ہے:
حضرت انس بن مالک النضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث نبوی کے راوی ہیں۔ان کا مختصر تعارف، ان کی چند خصوصیات اوراُن کی زندگی کے جستہ جستہ حالات و واقعات ذکر کئے گئے۔ ذیل کی سطور میں اس حدیث کی تشریح و تفصیل پیش کی جارہی ہے۔
تشریح:
یہ حدیث کل اٹھارہ کلمات پر مشمل ہے، جن میں سے بعض کلمات دو حرفی یا صرف ایک حرفی ہیں؛ تاہم یہ تمام با ہمی ربط وتعلق کی وجہ سے مل کر ایک ہی جملہ بن جاتے ہیں، پس یہ حدیث گویا اتنی مختصر اور معنویت کے اعتبار سے اتنی اہم ہے کہ اگر یہ کہا جائے تو حقیقت اور واقعہ کے عین مطابق ہوگا کہ جس چیز کی نشاندہی آں حضرت ا کے اس حکیمانہ جملہ میں کی گئی ہے، وہ تمام اعمالِ شرعیہ حتی کہ ایمان کے لیے بھی بالکل ایسی ہی ہے ،جیسے جسم کے لیے روح۔ یعنی اگر ایمان کی صورت اور یقین و اذعانِ قلبی موجود ہے، مگر محبتِ رسول دوسری تمام مخلوق کی محبت پر غالب نہیں ہے اور حضور ا قریب سے قریب تر اور محبوب تر انسانوں سے زیادہ اور بڑھ چڑھ کر محبوب نہیں ہیں تو یہ یقین اور یہ اذعان قلبی صرف بے جان جسم اور بے روح قالب ہے۔
اس طرح اعمالِ صالحہ کی بجا آوری اگر محبت رسول کے غلبہ کے بغیر ہو تو ایسے اعمال فقط عمل کی صورت ہیں، جو اپنی حقیقی افادیت اور روحانیت و معنویت سے خالی ہوں گے۔
حدیث کا ظاہری مفہوم تو یہی ہے کہ ایک مومن اور مسلمان کے دل میں جس جس شخص اور جس جس چیز کی بھی محبت پائی جاتی ہو، محبت ِخداوندی کے علاوہ ان تمام محبتوں پر حضور اکرم ا کی محبت کو زیادتی اور فوقیت حاصل ہو تب ہی اصل ایمان نصیب ہو گا۔ مگر در حقیقت اس ارشاد نبوی کا مقصد یہ ہے کہ اگر حب رسول انسانوں کی محبت سے زیادہ اور ان سب پر غالب نہیں ہے تو ایسے شخص کو ایمان کامل کبھی نصیب نہیں ہوسکتا اور نہ اسے قبول ایمان کا کوئی لطف اور کیف محسوس ہوسکتا ہے۔ چناں چہ اس کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے ،جس کو حضرت انس بن مالک نے ہی روایت کیا ہے کہ حضور اکرم ا نے فرمایا:
” جس شخص میں تین باتیں پائی جائیں گی وہ ایمانی کیف اور ایمانی حلاوت کا مزہ پائے گا۔ ایک یہ کہ اللہ اور رسول اس کو تمام ما سوا سے زیادہ محبوب ہوں، دوسرے یہ کہ کسی سے محبت صرف اللہ کے واسطے ہو اور تیسرے یہ کہ حدود کفر میں چلا جانا اس کو ایسا نا پسند اور ناگوار ہو، جیسا کہ آگ میں ڈالا جانا نا پسند ہوتا ہے۔“
غلبہٴ حبِّ رسول ا سے مراد محبت عقلی ہے نہ کہ طبعی:
غرض محبت ِرسول صرف اعمال شرعیہ کے لیے نہیں،بل کہ ایمان کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی حیاتِ جسمانی کے لیے روح۔ مگر اس محبت سے کون سی محبت مراد ہے، اس کی تشریح کرتے ہوئے علمائے محققین نے لکھا ہے کہ انسانوں میں جو محبت پائی جاتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں۔ ایک محبت طبعی اور دوسری محبت عقلی۔
محبت طبعی کا مطلب یہ ہے کہ اسباب ِمحبت میں سے کسی سبب کی وجہ سے طبیعت اور قلب میں بغیر کسی اختیار اور ارادہ کے غیر شعوری طور پر محبت پیدا ہو جائے ۔جیسے ماں، باپ، اولا د اور عزیز واقارب یا دوست احباب کی محبت و عشق۔ اور محبت عقلی کا مطلب یہ ہے کہ اسباب محبت کے کسی شخص میں موجود ہونے کا شعور و احساس اور ادراک ویقین میلان قلبی اور محبت کا باعث ہو، جیسا کہ صاحب کمال حضرات کے کمالات کا علم ہونے سے دل میں ان کی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ پس اس حدیث میں محبت طبعی نہیں، بل کہ محبت عقلی مراد ہے؛کیوں کہ یہ ممکن ہے کہ کسی طبعی اور غیر ارادی طور پر کسی سے محبت زیادہ ہو ،لیکن اس محبوب طبعی اور رسول اکرم یعنی محبوب عقلی دونوں کی محبت کے تقاضوں میں مقابلہ اور ٹکراؤ پیش آئے تو محبت عقلی کے تقاضوں کو محبت طبعی کے تقاضوں پر ترجیح دی جائے۔مثلاً اولا د یا ماں باپ کسی ایسے کام کو کہیں یا اپنا نفس کسی ایسی چیز کی طرف مائل ہو کہ حضور اکرم ا کا فرمان اور آپ کی محبت کا تقاضا اس کے برخلاف ہو توایسے موقع پر محبت رسول کے مطابق عمل کرے اور محبت طبعی کو محبت عقلی سے مغلوب رکھے اور اس کی مثال بالکل ایسی ہے ،جیسے بیمار آدمی کو دوا طبعا ًنا پسند اور غیر مرغوب ہوتی ہے ، لیکن عقل اس کے استعمال کا تقاضا کرتی ہے۔ تو آدمی طبعی محبت اور اس کے تقاضے کو پس پشت ڈال کر عقل کے تقاضے پر عمل کرتا ہے۔
بہر حال اس تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ طبعی محبت میں چوں کہ انسان کے ارادہ اور اختیار کا دخل نہیں ہوتا اس لیے حضور اکرم ا کا طبعا ًسب سے محبوب ہونا اس حدیث سے مراد نہیں ہے، اس لیے یہاں یہی مراد ہے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ محبت کا یہ معیار؛ عام اہل ایمان کے لیے ہے ،جو کمال ایمانی کے حصول کا کم سے کم درجہ ہے ورنہ کمال ایمانی کاا علیٰ درجہ یہی ہے کہ حضور اکرم ا کی محبت تمام طبعی محبتوں پر غالب آجائے؛ چناں چہ اس ارشاد نبوی کو سن کر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فکر دامن گیر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے سب سے زیادہ اپنے آپ سے محبت ہے۔ حضور اکرم ا نے قسم کھا کر ارشاد فر ما یا کوئی شخص تم میں سے اس وقت تک مومن نہیں ہوگا، جب تک کہ میں اس کے لیے سب سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ رسول اکرم اکے اس مرتبہ کے ارشاد اور کیمیا اثر توجہ کی ایک نظر سے یہ اثر ظاہر ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فورا ًاپنے دل میں غور کر کے عرض کیا:قسم اللہ کی آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔
آں حضرت ا نے حضرت عمر کی یہ کیفیت سنتے ہی انہیں کمال ِایمان کی بشارت دی اور فرمایا کہ اے عمر! اب تو مومن کامل ہو گیا؛ غرضیکہ کمال ایمانی کا اعلیٰ درجہ تو یہی ہے کہ مطلقا حضور اکرم ا کے ساتھ اپنی جان، اپنے ماں باپ، اولاد اور ہر شخص سے زیادہ محبت ہو اور اس کمال کا ادنی درجہ یہ ہے کہ عقلی محبت اور اس کے تقاضے ہر محبت اور ہر محبت کے تقاضوں پر غالب رہیں؛ چناں چہ اپنی جان کی محبت ہر شخص کوطبعی طور پر ہوتی ہے اس میں حضوراکرم اکی محبت کو غالب رکھنے کی صورت یہ ہے کہ اگر کوئی موقع ایسا پیش آئے جہاں آپ کا حکم ہو کہ جان کی بازی لگادی جائے تو آپ کے حکم کے مطابق وہاں جان کو قربان کر دینا فرض ہوگا اور یہی کمال ایمان کی عملی شہادت ہے اور اپنی محبت طبعی پر عمل کر کے جان چرا جانا حرام ہوگا اور نقصان ایمان کی کھلی علامت ہوگی!
اس طرح ماں باپ کی محبت اولاداور عزیز واقارب کی محبت یا کسی بھی شخص کی صحبت اور اس کے تقاضوں کا رسول ا کی محبت اور آپ کے منشاء و ایما سے ٹکراؤ ہو تو ان سب محبتوں کو نظر انداز کر کے محبت ِرسول کے ایمان اور اشاروں کا پورا کرنا ضرروی ہے اور یہی ایمانی کمال کا واضح ثبوت ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کی زندگی میں اس کمال ِایمانی کی بہت سی شہادتیں تاریخ کے صفحات پر موجود ہیں کہ محبت رسول میں اپنے عزیز واقارب،بیوی، بچوں اور مال و زر سب کچھ قربان کر دیا اور جان جیسی عزیز و محبوب ترین شے آپ کے اشاروں پر قربان کر دینے کو اپنی سب سے بڑی سعادت یقین کرتے تھے۔ حضور اکرم ا کی یہ حدیث ؛جس کے راوی آپ کے خادم ِخاص حضرت انس بن مالک خزرجی انصاری ہیں۔ اس کی تشریح کے سلسلہ میں جو کچھ عرض کیا گیا اس سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ کسی شخص کو ایمان کامل اُس وقت تک ہر گز میسر نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کو سب سے زیادہ محبت رسول اللہ ا کے ساتھ نہ ہو۔ اور یہ بات بھی تفصیلاً عرض کی گئی کہ اس محبت سے محبت طبعی مراد نہیں ہے ،بل کہ محبت عقلی مراد ہے ،لیکن ایمانی کمال کا یہ معیار عام مومنین کے لیے ہے یا بہ الفاظ دیگر عقلی محبت سب سے زیادہ آپ کے ساتھ ہونا کمال ایمانی کا کم سے کم اور ادنیٰ مرتبہ ہے اعلیٰ درجہ ایمانی کمال کا یہی ہے کہ قلب مؤمن میں محبت رسول اس درجہ غالب اور دل میں رچی ہوئی ہو کہ آں حضرت ا کی محبت کے مقابلہ میں طبعی اور غیر طبعی تمام محبتیں ماند اور ہیچ ہو جائیں۔
پس مذکورہ سابق تشریح کا حاصل یہ ہے کہ اس حدیث میں سب سے زیادہ آپ کے ساتھ محبت کا ہونا عقلی محبت کے لحاظ سے مراد ہے۔
محبت کی تین قسمیں:
قاضی عیاض اور بعض دوسرے محققین نے اس مفہوم کی تشریح کے سلسلہ میں محبت کی تین قسمیں بیان کی ہیں یا یوں کہیے کہ کسی کی محبت دل میں ہونے کی تین صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ کسی سے محبت اس کی عظمت و تو قیر اور اجلال کے ساتھ ہو ،جیسے: اولا دکواپنے ماں باپ سے ہوتی ہے یا لائق شاگردوں، مریدوں کو اپنے استاد یا شیخ طریقت سے ہوتی ہے۔ دوسری صورت محبت کی یہ ہے کہ کسی کے ساتھ عنایت و شفقت والی محبت ہو، جیسے: ماں باپ کو اولاد سے ہوتی ہے ۔اور تیسری قسم محبت کی یہ ہے کہ باہمی مساوات و برابری کے تصور کے ساتھ ایک دوسرے سے محبت ہو ،جیسے: دوست احباب میں باہمی محبت ہوتی ہے۔
محبت کی ان تینوں اقسام میں سے ہر قسم کے اپنے اپنے کچھ مخصوص تقاضے اور اثرات ہوتے ہیں ،جن کے سامنے آدمی اپنے آپ کو بسا اوقات مجبور محسوس کرنے لگتا ہے اور اپنی ذاتی خواہشات اور اپنے راحت و آرام وغیرہ سب کو ان تقاضوں پر قربان کر دیتا ہے اور ان محبتوں سے متاثر اور مغلوب ہو کر تقاضائے عقل و خرد کو نظر انداز کردیتا ہے۔ کیسی بڑی سے بڑی طاقت وقوت اور شوکت وسطوت کے سامنے آدمی اپنے ضمیر کے خلاف صرف ظاہری طور پر جھک جاتا ہے، اس کا دل اسے مجبور نہیں کرتا ،لیکن محبت کی ان تینوں صورتوں یا قسموں کے مقابلہ میں اس طرح بے بس ہو جاتا ہے کہ اپنے ضمیر کی آواز کے خلاف کرنے پر صرف بر بنائے محبت خود اس کا دل اسے مجبور کر دیتا ہے۔ اس لیے حضور اکرم ا نے انسانی محبت کے ان تینوں کمزور پہلوؤں کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے ایک جامع اصول بیان فرمایا کہ تقاضائے ایمانی اور تعلق ِرسول جب تک ان تینوں تعلقات سے بالاتر اور فوق تر نہ ہو اس وقت تک کسی کا ایمان کامل کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا۔
محبت کا پہلا سبب جمال:
حضور علیہ الصلوة والسلام تمام مخلوق سے حسین تھے۔
اس موقع پر بظاہر یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ اس حدیث میں ماں باپ اولا د اور دوسرے تمام لوگوں کی محبت سے زیادہ محبت رسول ہونے کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ آدمی کو خود اپنی جان اور اپنے نفس سے زیادہ حضور اکرم ا کی محبت ہونے کو نہیں فرمایا گیا پس اگر کسی کو آں حضرت ا سے زیادہ اپنے آپ سے محبت ہو کمال ِایمان میں اس سے کوئی فرق نہ آئے گا؛ حالاں کہ واقعہ کے یہ خلاف ہے ،مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ محبت بھی انہیں تینوں محبتوں کے زمرہ میں شامل ہے، اگر کسی شخص کو رسول اللہ ا کی نسبت اپنی جان زیادہ عزیز اور محبوب ہو تو اس کو بھی ایمان کامل درجہ کا کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے واقعہ سے یہ بات بخوبی واضح ہو چکی ہے۔اور اس حدیث میں خاص طور پر محبت نفس کو اس لیے ذکر نہیں فرمایا گیا کہ ایک شریف النفس انسان اپنی جان کی قدرو قیمت اپنی نظر میں اس قدر نہیں سمجھتا جتنی اپنی اولاد، اپنے ماں باپ اور اپنے محبوب ترین دوست احباب کی سمجھتا ہے، چناں چہ زندگی میں اگر کبھی ایسا موقع پیش آجائے کہ ان تینوں قسموں کے اشخاص میں سے کسی ایک کی بھی عزت یا جان کو کوئی خطرہ لاحق ہو تو اس کو بچانے کے لیے اپنی جان کو بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور اس کو اپنے کردار کی بلندی تصور کرتا ہے؛ حتی کہ ان کے مقابلہ میں اپنی جان بچالینے کو اپنے لیے موجب ننگ و عار سمجھتا ہے۔رہی یہ بات کہ محبت قلبی ایک ثمرہ ہے اور نتیجہ ہے جس کے چند اسباب ہوتے ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک سبب یا متعدد اسباب کسی شخص میں پائے جائیں اور ان کا علم و یقین بھی حاصل ہو جائے تب محبت پیدا ہوتی ہے تو حضور اکرم ا کی ذات اقدس میں وہ اسباب محبت پائے جاتے ہیں کہ ان کی بنا پر آپ کا یہ ارشاد ہے یا محض ایک تعبدی امر ہے۔ سو علمائے محققین نے اسباب ِمحبت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کسی سے محبت کے لیے چارسببوں میں سے کوئی ایک یا متعد د سبب ہوتے ہیں ،جن کے شعور و احساس، ادراک ویقین کے بعد محبت پیدا ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک سبب حسن و جمال اور خوب صورتی بھی ہے۔
چناں چہ تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ حسن ِصورت اور جمال ِظاہر جس کا دوسرا عنوان اعضا کا تناسب ہے، اگر کسی شخص میں پایا جائے تو دیکھنے والے دل میں غیر شعوری اور غیر ارادی طور پر صاحب جمال سے انس و محبت ہوتی ہے اور ابتدائی انس و محبت پر اگر قابو پانے کی کوشش نہ کی جائے تو رفتہ رفتہ محبت کی یہ آگ عشق و وارفتگی، بے خودی اور سوز نہانی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ایک عاشق زار اپنے پیکر حسن و جمال محبوب کے روئیداد کی ہزاروں تمنا ئیں اور آرزو ئیں تو دل میں رکھتا ہے، مگر جب محبوب سامنے آجائے تو اس پر کمال ِحسن کا ایسا رعب طاری ہوتا ہے کہ محبوب کا جلوہ ایک نگاہ بھر کر دیکھ بھی نہیں سکتا۔
حضوراکرم ا میں حسن و جمال جسمانی بھی بدرجہ اتم موجود تھا۔ چناں چہ جابر بن سمر ہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رات کو جبکہ چاندنی اپنے شباب پر تھی ،میں نے رسول کو دیکھا کہ آپ سرخ رنگ کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں، ایک نظر آپ کو دیکھتا اور ایک نگاہ چاند پر ڈالتا۔
خدا کی قسم میرے نزدیک آپ چاند سے بھی زیادہ حسین تھے۔ حضرت عمار بن یاسر کے پوتے ابو عبیدہ ایک جلیل القدر تابعی ہیں اور انہوں نے ایک مرتبہ حضرت ربیع بنت معوذ صحابیہ سے عرض کیا کہ ذرا آپ رسول ا کی صفات بیان فرمائیے۔ انہوں نے فرمایا کہ بیٹے! اگر تم رسول ا کو دیکھتے تو یہ دیکھتے کہ (گویا) سورج نکل رہا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے سب سے زیادہ محبت رسول ا سے ہے، مگر میری یہ تاب نہ تھی کہ میں نظر بھر کر رسول ا کو دیکھ لوں۔ اگر تم مجھ سے یہ خواہش کرنے لگو کہ میں آپ کے چہرہ بشرہ اور تناسب اعضاء و جوارح کو بیان کروں تو میں اس پر قادر نہ ہوسکوں گا، کیوں کہ میں آپ کو نظر بھر کر کبھی دیکھتا ہی نہ تھا۔ آپ کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی غایت محبت اور عشق کا یہ عالم تھا کہ آپ وضو فرماتے تو خدام اس پانی کو زمین پر گرنے کی نوبت نہ آنے دیتے اور ہاتھوں پر لے کر اپنے جسم پر مل لیتے۔
آں حضرت کبھی ایسے کسی بستر پر آرام فرماتے جس پر آپ کے جسم ِمبارک سے نکلا ہوا پسینہ جمع ہو جائے تو اس پسینہ کو حاصل کر کے اپنی خوشبو میں ملا لیتے تھے۔ ایک دو نہیں متعد دصحابہ ایسے ہیں جن کو آپ کا سراپا اور آپ کا جمال جسمانی بیان کرنے میں کمال حاصل تھا۔
حلیہ مبارک بیان کرنے والے حضرات:
حضور اکرم ا کا حلیہ مبارک اور سراپا بیان کرنے میں بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو خصوصیت اور بڑا ملکہ حاصل تھا ،لیکن ان میں سے حضرت ہند بن ابی ہالہ و حضرت علی بن ابی طالب، حضرت انس ابن مالک اس حدیث کے راوی) حضرت براء بن عازب،حضرت جابر بن سمرہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم خاص طور پر قابل ذکر ہیں اور ان میں بھی ہند ابن ابی ہالہ جو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے اخیافی (ماں شریکی) بھائی حضور اکرم ا کے ربیب اور حضرت حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے سوتیلے ماموں اور حضرت علی ابن ابی طالب ؛جو آں حضرت ا کے تایا زاد بھائی بھی ہیں، اولاد کی طرح آپ کی پرورش میں بھی رہے ہیں اور آپ کے داماد بھی ہیں ۔ان دونوں حضرات کو سب سے زیادہ اس بارے میں خصوصیت حاصل ہے اورحضرت ہند بن ابی ہالہ تو انتہائی ذوق و شوق کے ساتھ مکمل طور پر رسول اللہ ا کا حلیہ مبارک ”ز ِفرق تا قدم“ بیان فرمایا کرتے۔
چناں چہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے درخواست کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک بہت بیان فرمایا کرتے تھے کہ وہ آپ کے متعلق کچھ بیان کریں؛ تا کہ میرے دل کی وابستگی بڑھے (نواسہ رسول) سبط رسول کی فرمائش پر حضرت ہند بن ابی ہالہ نے آں حضرت کا پورا سراپا بیان فرمایا ہے ،جو کتب حدیث میں مفصل طور پر مذکور ہے۔ غرض یہ کہ اسباب محبت میں سے ایک سبب جو حسن اور جمال جسمانی ہے وہ بھی حضور اکرم کی ذات اقدس میں بدرجہ اتم موجود تھا اور آپ کے جسد اطہر کے تمام اعضاء سر سے پیر تک انتہائی موزوں اور مناسب تھے۔ جسم مبارک کا ہر حصہ اپنے حسن میں یکتا تھا۔
زفرق تا بقدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جاست
محبت کا دوسرا سبب کمال:
محبت کا دوسرا سبب کمال بھی حضور علیہ الصلوة والسلام میں علی وجہ الاتم تھا۔ دوسرا سبب جو محبت اور جذب قلوب کا باعث ہوتا ہے، کمال ہے۔ جس شخص میں کمال پایا جائے اور اس کمال کا شعور اور ادر اک دوسروں کو حاصل ہو جائے تو صاحب ِکمال کی عظمت و وقعت اور دل میں اس سے محبت اور لگاؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ حضور اکرم اکی ذات اقدس میں یہ سب محبت بھی بدرجہ اتم و کمال ہی موجود تھا، چناں چہ کمالات کی جتنی بھی صورتیں حقیقی طور پر ہوسکتی ہیں وہ سب کی سب آپ کے اندر اس حد تک موجود تھیں کہ دوسرے کسی شخص میں نہ پائی جائیں گی، اس لیے کمال کی اگر اجمالی تقسیم کی جائے تو اس کی موٹی موٹی دو قسمیں ہو سکتی ہیں۔ ایک کمال علمی ہے اور دوسری کمال عملی۔ کمال علمی تو آپ کا اس لیے سب سے زائد تھا کہ نبوت و رسالت در اصل کمال علمی ہے اور یہ وصف آپ کی ذاتِ ستودہ صفات میں اس حد تک کامل تھا کہ آپ” خاتم النبیین“ اور ”خاتم المرسلین“ ہیں۔
چناں چہ حضرت ابو ہریرہ آپ سے ایک صحیح ترین حدیث روایت کرتے ہیں جس کے آخر میں آپ نے ارشاد فرمایا ہے” وختم بی الرسل “کہ میرے ذریعہ تمام رسولوں کی انتہا کردی گئی۔ اور ایک حدیث جس کے راوی حضرت ابو ہریرہ ہی ہیں۔ اس میں آپ نے اپنی خصوصیات اور فضائل بیان فرماتے ہوئے آخر میں فرمایا ہے: ” وَ اُرْ سِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّةً وَخُتِمَ بِی النبیون “ کہ میں تمام مخلوق کی جانب رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اور تمام نبیوں کی میرے ذریعہ انتہا کر دی گئی۔
آں حضرت ا نہ صرف یہ کہ زمانہٴ بعثت و رسالت کے اعتبار سے سب سے آخری نبی اور رسول ہیں کہ آپ کے بعد اللہ تعالیٰ کی جانب سے مخلوق کی طرف نہ کوئی شخص نبی بنا کر بھیجا جائے گا اور نہ رسول بنا کر ،بل کہ آپ کی ذات اقدس پر وصف نبوت ورسالت کی بھی انتہا ہوگئی۔ یعنی نبوت و رسالت کا جو اعلیٰ ترین اور انتہائی درجہ اور مقام آپ کو حاصل ہے وہ کسی اور نبی یا رسول کو حاصل نہیں ہوا۔ اسی لیے نہ صرف یہ کہ آپ اللہ کے حضور اپنی امت اور مومنین کے قائدوسر براہ ہوں گے، بل کہ تمام انبیائے کرام اور تمام رسولوں کے بھی قائدو پیشوا ہوں گے۔
چناں چہ حضور اکرم ا کا ارشاد ہے:” إِنَّا قَائِدُ الْمُرْسَلِینَ وَلَا فَخَرَ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیینَ، وَلَا فَخْرَوَاَنَا اَوَّلُ شَافِعٍ وَ مُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ“ میں تمام رسولوں کا قائد اور پیشوا ہوں اور میں یہ بات فخر سے نہیں کہتا اور میں تمام نبیوں کا خاتم ہوں، یہ بھی میں فخریہ نہیں کہتا اور میں سب سے پہلا شفاعت کرنے والا اور شفاعت قبول کیا گیا شخص ہوں گا اور میں اس پر بھی فخر نہیں کر رہا ہوں۔ ان حدیثوں اور ان کے علاوہ اور بہت سی حدیثوں سے صاف طور پر یہ بات ثابت ہے کہ نبوت و رسالت کی صفت میں آپ سب سے زیادہ کامل اور سب سے اعلیٰ و ارفع ہیں اور نبوت کمال علمی ہے اس لیے لامحالہ آپ میں علمی کمال سب سے زیادہ ہے۔
کمال کی دوسری اجمالی قسم ”کمال عملی” ہے یہ کمال بھی آپ کی ذات مقدسہ میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ چناں چہ حضرت جابر آں حضرت اہی کا ارشاد نقل فرماتے ہیں:” إِنَّ اللّہَ بَعَثَنِی تَمَام مکارم الاخلاقِ وَ کَمَالَ مَحَاسِنِ الأفعال“بلاشبہ اللہ تعالی نے مجھے اچھے اخلاق کو پورا کر دینے کے لیے اور اچھے کاموں کو کمال تک پہنچانے کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔
محبت کا تیسر ا سبب قرب :
محبت کے اسباب میں سے تیسر ا فطری سبب قرب و نزدیکی ہے اور قرب کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ حسی اور مادی اعتبار سے قرب ہو یا غیر حسی اور روحانی قرب ہو۔ قرب کی ان دونوں قسموں میں سے روحانی قرب زیادہ افضل اور کامل درجہ کا قرب ہے۔ علمائے متقین نے لکھا ہے کہ حضوراکرم ا کو اہل ایمان کے ساتھ قرب اس حد تک حاصل ہے کہ خود مومنین کی جان اور روح کو بھی ان کے ساتھ اس درجہ کا قرب حاصل نہیں ہے، کیوں کہ مومن اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا ،جب تک وہ آپ کی رسالت پر ایمان نہ لائے ۔پس جب ایک مومن اپنے آپ کو مومن ہونے کے لحاظ سے یہ سمجھے گا تو اپنے مومن ہونے سے پہلے آپ کا تصور آئے گا اور اپنے مومن ہونے کی حقیقت اس کے بعد سمجھ آئے گی، پس اس فکری حرکت میں آپ کی ذات اقدس پہلے تصور میں آئی اور خود مومن کا مومن ہونا اس کے بعد سمجھ میں آیا لہذا آپ ہی قریب تر ہوئے۔ اسی لیے حضور اکرم ا کو مومنین پر وہ تصرف اور حق حاصل ہے جو خود مومنین کو اپنی جان پر حاصل نہیں اور اسی لیے نبی کریم ا مومنین کو اپنی جانوں اور خویش و اقارب سب سے زیادہ عزیز و محبوب ہیں اور اسی وجہ سے حضور اکرم ا کو بھی اہل ایمان کے ساتھ انتہائی محبت اور خیر خواہی ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ نبی کو زیادہ لگاؤ ہے مومنین سے ان کی جانوں کی بہ نسبت۔ پس آں حضرت اکو مومنین سے قرب اس درجہ کا حاصل ہے کہ ممکنات میں با ہم ایسا قرب حاصل ہونا ممکن نہیں۔
محبت کا چوتھا سبب احسان :
محبت کا چوتھا سبب احسان ہے ۔یعنی کسی ضرورت مند کو اس کی حاجت کی چیز مہیا کر دینا اور عطا کر دینا۔جب کوئی شخص کسی پر احسان کردیتا ہے تو ضرورت مند کو فطری طور پر اپنے محسن سے محبت ہو جاتی ہے۔ سو انسان کی ضرورت میں مادی ضروریات کی بہ نسبت روحانی ضرورتوں کو زیادہ اہمیت اور برتری حاصل ہے اور روحانی ضرورتوں میں سب سے زیادہ بنیادی درجہ کی ضرورت ایمان ہے۔چناں چہ ہر مومن کی ضرورت ایمان ہے اور تمام روحانی و ایمانی کمالات حضور اکرم ا ہی کے توسط سے ہوتے ہیں۔ پس گویا اللہ تعالیٰ کے بعد اس پوری کائنات میں نہ صرف مومنین کے حق میں بلکہ تمام عالم کے لیے آپ ہی سب سے بڑے محسن ہیں۔ حدیث انس کی اس تشریح سے یہ بات بحمداللہ بخوبی واضح ہوگئی کہ حضوراکرم ا کی ذات جامع کمالات میں اسباب محبوبیت میں سے صرف ایک دو نہیں ،بل کہ تمام اسباب محبت بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ اس لیے آں حضرت ا کا یہ ارشاد صرف امر تعبدی نہیں ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت مومن نہیں ہو سکتا ،جب تک میں اُس کے لیے اس کے والدین اور اس کی اولا داور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ بلکہ آپ کا یہ فرمان ٹھوس حقیقتوں پر مبنی ہے۔
فائدہ:
آخر میں تتمیم فائدہ کے طور پر یہ بات بیان کر دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان چاروں اسبابِ محبت میں سے جمال اور قرب اضطراری اور غیر اختیاری محبت ہیں ۔اور کمال و احسان اختیاری محبت اور حب عقلی کے اسباب ہیں۔ اس لیے حدیث انس کا مفہوم یہ ہوا کہ ہر مومن کو ہر قسم کی محبت تمام کائنات سے زیادہ حضور ا کے ساتھ ہونی ضروری ہے۔ خواہ وہ محبت اضطراری و عشقی ہو خواہ اختیاری اور عقلی۔ جب تک یہ درجہ کسی شخص کو حاصل نہیں ہوتا اس وقت تک وہ مومن کامل کا مصداق ہر گز نہیں بن سکتا ہے۔