اہل علم کے لیے تجارت کرنا :

معارفِ با ند وی

اہل علم کے لیے تجارت کرنا :

            فرمایا: پڑھنے کے بعد بھی تجارت کرنا کوئی ناجائز حرام نہیں ہے۔ بس! اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ علم دین کی طرف سے غفلت اور لا پرواہی نہ ہو جائے ورنہ اس کا بہت برا نتیجہ ہوتا ہے۔ کوئی بھی کام کرے لیکن علم سے مناسبت باقی رکھے اور عمل میں بالکل کو تا ہی نہ کرے۔ پانی پت میں جب میں پڑھا کرتا تھا اُس وقت میرے ایک اُستاد دکان کیا کرتے تھے؛ لیکن اُن کا معمول تھا کہ فجر بعد فورًا اسباق پڑھانے بیٹھ جاتے اور تین چار کتابوں کا سبق پڑھا کر ہی اُٹھتے اور اُس کے بعد دُکان جاتے تھے۔ دوسرے وقت بعد ظہر بھی ایسا ہی کرتے تھے اور ہمیشہ یہی اُن کا معمول رہا۔ اصل میں آدمی جب کوئی کام کرنا طے کرلے کہ کرنا ہی ہے تو سب کچھ ہو جاتا ہے۔

             ایک مرتبہ فرمایا: کہ اب اس زمانہ میں کہاں ایسے لوگ رہے جو ایک ساتھ دو کام کر لیں؟ جو کرتے تھے کر کے چلے گئے، آج کل تو بہت مشکل ہے، ایک ہی کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ دنیا اُن کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور دینی تعلیم چھوٹ جاتی ہے۔ اس لیے آج کل تو بس ایک ہی کام مستقل طور سے کرنا چاہیے۔ ( ۱۴۰۵ھ)

تدریسی کام کرنے والوں کو سیاسی پارٹیوں میں حصہ لینا نقصان سے خالی نہیں:

            ایک بڑے مدرسہ کے بڑے عالم اور مفتی جو تدریسی خدمات انجام دیتے تھے، ایک عرصہ سے مختلف تنظیموں سیاسی پارٹیوں میں شریک ہونے لگے۔ اُن کے حالات حضرت کو معلوم ہوئے کہ سیاسی جلسوں، مشوروں میں اُن کی شرکت بھی ہوتی رہتی ہے، پہلے جیسی یکسوئی بھی نہیں رہی، درس کا ناغہ بھی ہونے لگا۔ حضرت رحمة اللہ علیہ نے اُن کے حالات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ: علمی اور تدریسی کام کرنے والوں کو اس طرح کے کاموں اور مختلف تحریکات میں حصہ نہیں لینا چاہیے؛ ورنہ اس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے۔ ہفتوں طلباء کے سبق کا ناغہ اور نقصان ہوتا ہے اور اُن کو جلسوں سے چھٹی نہیں ملتی، آدمی پھر ان ہی کا ہو کر رہ جاتا ہے، اس لیے کبھی بھول کر اس طرح کی تحریکات میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ (حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ نے بھی اس طرح کی تحریکات میں مدرسہ کے طلباء و اساتذہ کی شرکت کو سختی سے منع فرمایا ہے۔)

فارغ التحصیل طلباء کے لیے اہم مضمون :

            ایک طالب علم حضرت  کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت  نے فرمایا: محنت سے پڑھو اور اس نیت سے پڑھو کہ: علاقہ میں کام کرنا ہے، علاقہ خالی پڑا ہے کوئی کام کرنے والا نہیں۔ فلاں صاحب نے بڑی محنت سے پڑھا اُن سے بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں لیکن وہ بھی ”حیدر آباد“ کمانے چلے گئے۔

            ارے! کچھ کام اللہ کے واسطے ثواب کے لیے بھی تو کرنا چاہیے۔ سب کچھ دُنیا ہی میں لینا چاہتے ہو؟!! کچھ آخرت کے لیے بھی رکھنا چاہیے،جب آدمی کام میں لگتا ہے کچھ تو حالات پیش آتے ہی ہیں۔ جنت یوں ہی تھوڑی مل جائے گی؟!! حدیث شریف میں آیا ہے: جنت ،دوزخ کو فرشتوں کے سامنے ظاہر کیا گیا، فرشتوں نے کہا: کہ کوئی شخص ایسا نہیں جو جنت میں نہ جائے اور کوئی شخص ایسا نہیں جو دوزخ میں جائے۔ اُس کے بعد جنت کو مکارِہ اور ناگوار چیزوں مصیبتوں سے گھیر دیا گیا اور دوزخ پر خواہشات کا پردہ ڈال دیا گیا یعنی خواہش نفسانی سے اُس کو گھیر دیا گیا، پھر فرشتوں کو دکھلایا گیا۔ فرشتوں نے عرض کیا کہ یا اللہ! اب تو شاید ہی کوئی جنت میں جاسکے گا اور شاید ہی کوئی شخص دوزخ سے بچ سکے گا۔ (جامع الترمذی،جلد :۲/۸۳ )

            جنت کو تو مکارہ اور مصائب سے گھیرا ہی گیا ہے۔ اس لیے آدمی جب کام میں لگتا ہے تو کچھ تو پریشانیاں اور مصیبتیں آتی ہیں۔ مکارِہ کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں، نفس کے خلاف بہت سے امور پیش آتے ہیں۔ فقر و فاقہ، مال کی تنگی و بیماری، پریشانی بہت سے امور پیش آتے ہیں یہ بھی سب مکارہ میں داخل ہیں۔ جب حالات آئیں اُن کو برداشت کرنا چاہیے، حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے، مقدر کی روزی مل کر رہتی ہے اور مقدر سے زائدمل نہیں سکتی، اس لیے آدمی کام میں لگار ہے۔ ثواب تو ملے گا ہی اور مقدر کی روزی کہیں نہیں جائے گی۔

             اللہ کا شکر ہے! میں نے اسی نیت سے پڑھا تھا کہ: پڑھنے کے بعد اسی لائن میں لگنا ہے۔ البتہ نیت میں یہ کھوٹ ضرور تھا کہ: پڑھنے کے بعد ایسی جگہ ملے جہاں پڑھانے کو خوب کتابیں ملیں، چناں چہ اسی نیت سے کتابیں بھی خریدی تھیں۔ اللہ نے حفاظت فرمائی۔ لوگوں نے بتایا کہ علاقہ میں ارتداد پھیل رہا ہے، اتنے لوگ مرتد ہو چکے ہیں۔ بس! اُسی وقت سے طے کر لیا کہ: علاقہ میں کام کرنا ہے، کتابیں پڑھانے کو ملیں یا نہ ملیں یہاں توکلمہ کے لالے پڑے ہیں ہم کتابیں لیے بیٹھے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کام کیا، دوماہ کے بعد لڑ کے ”عربی، فارسی“ کے آنے لگے۔ حالات جیسے ہوں اسی کے مطابق آدمی کام کرے، ناظر ہ ہی پڑھائے، ”عربی، فارسی “کے لیے دو چار لڑ کے مل ہی جاتے ہیں اُن کو بھی پڑھاتا رہے، اس میں کیا نقصان ہے؟ میں نے ناظرہ سے پڑھانا شروع کیا، اب جو حال ہے ،آپ لوگ دیکھ رہے ہیں۔