اہلِ علم کو کوئی ہنر سیکھنا:

 معارفِ تھانوی

اہلِ علم کو کوئی ہنر سیکھنا:

            ایک مولوی صاحب کی نوکری کا ذکر آیا تو فرمایا: اہلِ علم کو تو علومِ شرعیہ کے علاوہ کوئی ہنر بھی سکھانا چاہئے، میری زیادہ رائے یہ ہے کہ تھوڑی کھیتی کر لیا کریں، مگر صرف ضرورت بھر۔ باقی جب او پر پڑ جاتی ہے سب کچھ کر لیتے ہیں، غدر میں جو بیگمات پلنگ سے کبھی نہ اتری تھیں، وہ دس دس بارہ بارہ کوس روزانہ چلی ہیں، مصیبت میں سب کچھ کر لیتے ہیں۔ (کلمتہ الحق ص:۱۷۳)

            لوگ عربی کو ذریعہٴ معاش بنا لیتے ہیں، اس علم کو تو جو کوئی پڑھے تو مقصود اصلاحِ نفس ہی ہونا چاہیے، رہی معاش کی بات سو اس کے لیے کچھ اور ہی ہونا چاہئے، تجارت، زراعت، حرفت وغیرہ اور عربی کو ذریعہٴ معاش بنانے کے قصد سے پڑھنا ٹھیک نہیں۔ (الاضافات جدید:۲/۱۰)

اہلِ علم کے لیے صنعت و حرفت کی آسان صورتیں :

            صنعت و حرفت یعنی دستکاری و پیشہ سے معاش حاصل کرنے میں بہت آسانی و سلامتی ہے، عربی کی تکمیل کرنے والوں کے لیے چند صورتیں معاش کی مناسب ہیں۔

            (۱)… اسکول میں نوکری کر لینا۔

             (۲)… مطب کرنا۔

             (۳)… مفید رسالے یا حواشی تصنیف کر کے یا درسی کتابیں چھپوا کر ان کی تجارت کرنا۔

             (۴)… کاپی نویسی کرنا۔

             (۵)… کسی مطبع میں صحیح نوکری کرنا۔

             اور سب صورتوں میں اوقات ِفراغ میں مطالعہ و تدریس کا شغل رکھنا، یا کسی اسلامی مدرسہ میں مدرسی کرنا۔ (تجدید تعلیم ۴۱/۱۱۱)

عمل الفاظ کا نام نہیں حقیقی علم حقیقی عالم کی شان:

            قرآن نے علمائے بنی اسرائیل کے بارے میں پہلے تو﴿ وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرَاہُ مَالَہُ فِی الآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ﴾کہا، پھر فرمایا: ﴿وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِہ انفُسَہُمْ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُون﴾پہلے﴿ لَقَدْ عَلِمُوا﴾ ”بے شک جان لیا ان لوگوں نے“ ان کی اصطلاح کے موافق فرمایا، کیوں کہ وہ بھی محض جان لینے اور لکھ پڑھ لینے کو ” علم“ کہتے تھے پھر﴿ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ﴾”کاش !کہ یہ لوگ جان لیتے“ اپنی اصطلاح کے مطابق فرمایا، جس میں ان سے علم کی نفی ہے۔

             اس سے معلوم ہوا کہ اصطلاحِ شریعت میں”علم“ الفاظ و معانی کا نام نہیں ہے، ور نہ یہ تو علمائے بنی اسرائیل کو حاصل تھا، اس سے نفی ان سے کیوں کر ہو سکتی ہے، بل کہ علم کے ساتھ جب عمل بھی ہو، اس وقت وہ علم کہلانے کا مستحق ہوتا ہے، چناں چہ ایک حدیث میں ہے:”ان من العلم لجہلاً “ (بے شک بعض علم جہالت ہوتے ہیں اور ظاہر بات ہے کہ ایک چیز علم و جہل نہیں ہو سکتی، اس لیے حدیث کا مطلب یہ ہے کہ”اِنَّ مِنَ الْعِلْمِ عِنْدَ النَّاسِ لَجَہلاً عِنْدَ اللّہِ“ کہ بعض علم جس کو عر فاً”علم“ سمجھا جاتا ہے، وہ خدا کے نزدیک جہل ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شریعت میں محض دانستن نادانستن (جاننے نہ جانے) کا نام علم نہیں، بل کہ ان کی حقیقت کچھ اور ہے ، وہ وہی جس کو ایک حدیث میں کہا گیا ہے کہ بعض علم حجة اللہ علی العبدہے۔ جب کہ وہ اس کے مطابق عمل کرے، پس اب دیکھنا چاہئے کہ ہم جو اپنے کو عالم اور فقیہ سمجھتے ہیں ہمارا عمل اس کے موافق کہاں تک ہے، ہماری حالت یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے سے کمتر اور حقیر سمجھتے ہیں اور جلسوں میں جو علم کے فضائل ہم بیان کرتے ہیں، اس سے مقصود اپنی فضیلت کا ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ ہم اس درجہ کے ہیں، ہماری تعظیم کرنا چاہیے، مگر علما کو اس طرز سے شرم کرنا چاہیے۔ (العبد الربانی ملحقہ حقوق و فرائض ص: ۷۵)

علم نافع وعلم ضار:

            علم پڑھ کر بھی جس میں خشیت نہ پیدا ہو، اس سے وہ جاہل اچھا ہے جس میں خشیت ہو۔علم کی مثال اس کے نافع اور مضر ہونے میں تلوار کی دھار کی سی ہے، اس سے دوست بھی کٹتا ہے اور دشمن بھی کٹتا ہے، اگر تلوار چلانے والا ماہر فن نہ ہو تو کبھی اس سے اپنے ہی کو نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس طرح کہ ہاتھ تو مارا دشمن کو اور وہ خالی گیا اور لوٹ کر اپنے ہی پر پڑ گیا، اسی طرح علم بڑی ہی نازک چیز ہے، اس میں امن بھی ہے اور خوف بھی ہے، گو غالب امن ہے مگر حسن ِاستعمال کی ضرورت ہے۔ اس کو دیکھ لیجیے کہ جتنے گمراہ فرقے بنے ہیں یہ لکھے پڑھے اور تعلیم یافتہ ہی لوگوں کی بدولت بنے ہیں۔ کسی جاہل کا معتقد ہی کون ہوگا۔(الافاضات الیومیہ ص: ۳۵۲)