مولانا عبد الرحمن ملی ندوی
مدیر مجلہ ”النور“ جامعہ اکل کوا
اک ترے جانے سے کیا بتلاوٴں کیا کیا ہوگیا
عالمِ اسلام کی عظیم ترین اور ہندوستان کی باصفا و باکردار، منفرد مقام کی حامل شخصیت، ممتاز عالم ِربانی، فکر وعمل کے جامع، تدبر وتفکر کے شہسوار ، راہ ِسلوک کے شناور، شریعت و طریقت کے رمز شناس اور فکر بو الحسن کی آبیاری کرنے والے دور اندیش مفکرِ اسلام ، امت ِمسلمہ کی کشتی کوساحل بکنار کرنے والے سیدی ومرشدی حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمة اللہ علیہ ۲۱/ رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ مطابق ۱۳/ اپریل ۲۰۲۳ء بروز جمعرات اپنے مالک حقیقی سے جاملے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
کاتب ِسطور کا حضرت سے شاگردی کا بھی تعلق رہا ہے، جو گرچہ قلیل المدت ہی رہا ہے، لیکن تزکیہ واحسان کا تربیتی تعلق دراز مدت تک رہا ہے۔ حضرت سے عقیدت بھی تھی ، محبت بھی تھی اورتعلق ِخاطر بھی تھا، اس لیے کہ حضرت مرشد ایک باکمال مربی بھی تھے اور ماہر تعلیم ونباض معلم بھی ۔ ہم نے آپ سے آپ ہی کی تصنیف کردہ کتاب ”الأدب العربی بین عرض و نقد“ اور جغرافیہ میں ”جزیرة العرب“ پڑھی تھی، تدریس کا انداز نہایت سلیس وعام فہم ہوا کرتا تھا، کہ ہر معیار کا طالب علم بات سمجھ سکے۔ ایک کامیاب مدرس اور ٹیچر کی جو صفات ہونی چاہئیں حضرت میں وہ تمام صفات اتم درجہ میں موجود تھیں۔ نرم دل ، شیریں گفتار ، شگفتہ مزاج ، حسنِ اخلاق کا پیکر، انداز ِگفتگو دھیما اور محتاط ، دوسری طرف ذکر وتلاوت کا خاص اہتمام ، آہ ِسحر گاہی سے سرشار ، تضرع وابتہال کی خاص کیفیت ، حضرت مولانا ایک صاحبِ دل انسان تھے، کسی کے لیے کوئی منفی جذبہ نہیں رکھتے تھے۔ ہم نے حضرت کی مجالس میں دیکھا کہ آپ کے یہاں بغض و حسد اور غیبت کے لیے کوئی جگہ نہیں رہتی تھی، اپنی زبان کو غیبت اور بدگوئی سے ہمیشہ پاک و محفوظ رکھا ۔ ہر ایک سے در گزر کا سلوک کیا کرتے تھے ، گفتگو کا انداز حکیمانہ ہوتا تھا، مسائل کے حل کرنے میں کبھی جذباتیت سے کام نہیں لیتے، بل کہ حکیمانہ اسلوب میں مسائل کا حل تلاش کرتے۔
حضرت نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم سے مسلمانان ہند کی تاحیات حکیمانہ ومدبرانہ ومفکرانہ کامیاب قیادت فرمائی۔ مسائل کے حل کرنے میں جہاں صبر و ہمت سے کام لیا ؛وہیں دانش مندی اور دور اندیشی کا بھی مظاہرہ فرمایا۔ حضرت نے دین وملت کی خدمت کے لیے اپنا سب کچھ وقف کردیا تھا۔
آپ ایک زمانہ تک ”ندوة العلماء لکھنوٴ“ کے مہتمم بھی رہے اور پھر منصب ِنظامت پر فائز کیے گئے۔ طلبہ کی قابلیتوں اورصلاحیتوں کا اعتراف بھی کرتے اور دوسری جانب قابل ِتربیت معاملہ پر اصولی تربیت بھی فرماتے۔ حضرت نے اپنی عمر کا ایک طویل حصہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا کے پلیٹ فارم سے امت ِمسلمہ کے سلگتے وپیچیدہ مسائل کوبجھا نے میں گزارا، لیکن کہیں بھی سنجیدگی ومتانت کا دامن نہیں چھوڑا۔ اپنے قائدانہ وقار پر کبھی آنچ نہیں آنے دی۔
مغربی تہذیب وتمدن کی مادیت پر بھر پور نکیر فرمائی، نئی نسل کے عقیدہ وایمان کو ہر اعتبار سے بچانے اور محفوظ رکھنے کی فکر فرماتے رہے۔گو یا کہ آپ نے ساری زندگی اسلام کی سر بلندی اورامت ِمسلمہ کی بہبود میں صرف کی، سیرت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو خصوصی تعلق اورلگاوٴتھا، اس لیے سیرت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر زاویہ سے مطالعہ کیا، اسی تناظر میں آپ نے ” رہبرِ انسانیت“ نامی تاریخی کتاب تصنیف فرمائی۔جس سے نہ صرف مسلمانوں نے بل کہ غیرت مند اورعقل و شعور رکھنے والے ہندووٴں نے بھی کتاب کو تحسین کی نظر سے دیکھا اور اس کا بغور مطالعہ بھی کیا۔ اوراسی انسانیت نوازی اور ہمہ جہتی بھائی چارگی کے نمایاں وصف کے سبب زندگی کے مختلف مراحل میں سرکاری اعلیٰ عہدے داران اور وزراء بھی مشوروں اور ملاقات کے لیے ندوہ میں حاضر ہوتے رہے ہیں اور حضرت رحمة اللہ علیہ نے ہر ایک کو اس کے عرفی مقام ومرتبہ کا لحاظ وخیال کرتے ہوئے پیامِ انسانیت کے پیغام سے متعارف بھی کرایا ۔اسی لیے آج پیام ِانسانیت کا دائرہٴ کار نہ صرف وسیع ہوتا جارہا ہے ،بل کہ اس کے حلقہٴ عمل میں روز افزوں ترقی بھی ہوتی جارہی ہے۔ اورپھر حضرت مولانا بلال حسنی ندوی (حال ناظم اعلیٰ ندوة العلماء) کی شب و روز کی مشینی خدمات اور تھکادینے والی کام یاب سرگرمیوں نے پیام انسانیت کی ترقی وشہرت میں چار چاند لگا دیے۔ یقینا یہ اللہ کے فضل و کرم اور اس کی توفیق ہی کے ذریعہ ہورہا ہے۔ جس میں حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کا اخلاص اور جذبہٴ دروں شامل ہے اور حسن ِاخلاق کا اعلیٰ کردار بھی، دوسری طرف مرشد ِزماں حضرت الاستاذ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کو خدا تعالیٰ کی ذات سے محبت وتعلق عشق کی حدتک تھا۔ یہی سبب تھا کہ آپ علیہ الرحمہ اکثر اوقات ادارتی اورانتظامی ذمہ داریوں کے علاوہ ذکر و تلاوت اور آہ سحر گاہی میں ہی مصروف نظر آتے رہے۔ زائرین سے ملاقات بقدر ضرورت ہی رہا کرتی تھی۔
قرآن ِکریم سے جذبہٴ عشق کی حد تک تعلق تھا، کیوں کہ حضرت نے براہِ راست قرآنی استفادہ اپنے خال معظم حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی سے کیا تھا۔ جن کا ذوق قرآنی نہ صرف مشہور تھا، بل کہ وہی حضرت مولانا کی نیک نامی اور نیک شہرت کا باعث وسبب بھی ہوا۔ اورحضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی سے براہِ راست قرآنی استفادہ کیا تھا اور حضرت مولانا علی میاں ندوی نے حضرت مولانا سید سلیمان ندوی سے استفادہ کیا تھا کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن ِکریم کے لفظی اور معنوی اعجاز کا بڑا ادراک عطا فرمایا تھا، اسی لیے حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کو قرآنِ کریم کے مضامین سے گہری وابستگی اورقلبی لگاوٴ تھا۔
جب تحریکِ پیامِ انسانیت کے ذریعہ مہذب تعلیم یافتہ ادب نواز غیر مسلموں سے روابط وتعلقات بڑھے، تو انہیں اسلام اور قرآن سے قریب کرنے کے لیے حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے ایک کتاب ”قرآن مجید انسانی زندگی کا رہبر ِکامل“ کے نام سے ترتیب دی، جس سے اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے جو غلط نظریات اور مشتبہ افکار ذہنوں میں پیدا ہوگئے تھے، یہ کتاب ان غلط نظریات کے ازالہ کا بہت بڑا سبب بنی، اس لیے کہ اس کتاب میں حضرت مولانا نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ قرآن مجید ہرانسان کی زندگی کے لیے راہ نما اور کام یاب اصول پیش کرتا ہے ، ان اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے سے ایک خوش گوار اور پر امن ماحول پیدا ہوتا ہے۔ قرآن ِکریم کا سب سے بڑا اعجاز یہ ہے کہ وہ انسان کو انسان بن کر زندہ رہنے کی ترغیب دیتا ہے اور انسانیت کے کام آنے کی دعوت بھی۔
مرشد الامة فرید ِزماں ، حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے وصال سے ملت اسلامیہ کا عظیم ترین خسارہ ہوا۔ حضرت جہاں ایک عظیم المرتبت انسان تھے وہیں ایک مفکر، مدبر ، حکیم اور مشفق مربی بھی تھے۔ تربیت کرنے کا فن کوئی حضرت سے سیکھے ۔ عجیب انداز واسلوب میں تربیت فرمایا کرتے تھے کہ اپنے شاگردوں اور مسترشدوں کی عزت ِنفس اورعرفی مقام کا بھی خیال فرماتے تھے اور تربیت بھی ہوجاتی تھی ۔
دوسری طرف حضرت راہ ِسلوک واحسان کے بہت بڑے مقام پر فائز بھی تھے، گرچہ حضرت کی زندگی کا یہ پہلوزمانہ سے مخفی ہی رہا یا یہ کہ حضرت نے اپنے آپ کو کھولا نہیں۔
حضرت اپنے علمی کمالات ، دور بینی اور حالات کا صحیح تجزیہ کرنے کی صلاحیت وصفت میں اپنے معاصرین سے ممتاز نظر آئے۔ ان سب خوبیوں کے ساتھ اخلاقی بلندی، ایثار وسادگی اوربے نفسی ہمیشہ قابل رشک تھی اور موت بھی ایسی آئی کہ زمانہ اس پر رشک کرے۔
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا نے چند سالوں پہلے اپنے احاطہ میں عالمی رابطہٴ ادب اسلامی کا سمینار منعقد کرنے کی پیش کش کی ، تو حضرت نے بڑی فراخ دلی اور محبتانہ جذبہ کے ساتھ اس پیشکش کو قبول فرمایا اور پھر حضرت ہی کی صدارت اور خادم ِکتاب وسنت حضرت مولانا غلام محمد وستانوی رئیس جامعہ کی سرپرستی اور ناظمِ تعلیمات ومعتمد جامعہ جناب حضرت مولانا حذیفہ غلام محمد صاحب وستانوی کی نگرانی میں تاریخی سمینار منعقد ہوا، جس میں موٴرخین ومفکرین اورہند وبیرون ہند کے مایہ ناز قلم کاروں اور مقالہ نگاروں نے شرکت کی۔جن میں سرفہرست جناب ڈاکٹر سعید الرحمن صاحب اعظمی ندوی مہتمم دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ ، حضرت مولانا واضح رشید ندوی ، جناب ڈاکٹر محسن عثمانی ندوی جیسے قلم کار مفکرین شریک تھے۔
حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی اور حضرت مولانا سید واضح رشید ندوی نے بھرے اجلاس میں حضرت خادم القرآن مولانا وستانوی صاحب کی تاریخی خدمات کو سراہا اور حضرت مولانا وستانوی صاحب دامت برکاتہم کی خدمات کو پورے علما برادری کے لیے نمونہ قرار دیا تھا۔
حضرت مولانا واضح رشید ندوی نے عصری کلیات اور دینی شعبہ جات ہر دو کو دین ہی کا ایک حصہ قرار دیا تھا۔
آج ہم حضرت کے سانحہ ٴ ارتحال پر گہرے رنج والم کا اظہار کرتے ہیں کہ امت نے ایک عظیم دانش ور اور سلیم الفکر دور اندیش مفکر اوررحم دل انسان کھودیا۔ یقینا وہ ایسے رجل رشید تھے جن کی باتیں دل لگتی ہوتی تھیں، بس آخر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ تجھے
اے مرشد امت !
چاندنی بے نور، گل بے رنگ اور نغمے اداس
اک ترے جانے سے کیا بتلاوٴں کیا کیا ہوگیا
اللہ تعالیٰ آپ کی بال بال مغفرت فرمائے اوراعلیٰ علیین میں مقام رفیع عطا فرمائے۔
﴿یاَ یَّتُہا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةٌ ارْجِعِیْ اِلی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ﴾