اکیسویں صدی ٹیکنالوجی کا تیز ترین دور انسانیت کو درپیش پر خطر چیلنجز اور مسلمانوں کی ذمہ داری

اداریہ: 

مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد صاحب وستانوی

انسان مرکزی مخلوق ،مگر سب سے زیادہ محتاج کیوں؟!!

            اللہ رب العزت نے کائنات ، ارض وسما کو پیدا کیا۔ اورحضرت ِانسان کو اس میں مرکزی حیثیت سے نوازا؛ البتہ عزت ،سلطنت، دولت ، اجر اور عذاب کو اپنے قبضہٴ قدرت میں رکھا۔ انسان کو تفوق ضرور عطا کیا، مگر کمزور اور اپنی مخلوق میں ایک دوسرے کا سب سے زیادہ محتاج بنایا؛ تاکہ وہ اکڑ میں مبتلا نہ ہو۔

کائنات کا ہر حادثہ اللہ کی مرضی کے تابع ہے:

            ہم مسلمان ہیں، ہمیں اس بات پر یقین ،ایمان اورکامل اعتماد رکھنا چاہیے کہ اللہ کی ذات قادر مطلق ہے۔ کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز مکمل اس کے قبضہٴ قدرت اور کنٹرول میں ہے۔

            کائنات میں کوئی بھی تبدیلی اس کے حکم کے بغیر نہیں ہوتی، ایک انسان اللہ کے چھوٹ، ڈھیل دینے پر آزمائش کے پیش ِنظر دوسرے انسان کو تھوڑی بہت تکلیف تو دے سکتا ہے، مگر وہ بھی اللہ کے منشا کے بغیر نہیں۔

            ارشاد ِخداوندی ہے: ﴿وَمَا تَشَاوٴُنَ إِلَّا اَنْ یَّشَاءَ اللّٰہُ

            ” تم جو چاہتے ہووہ نہیں ہوتا، ہاں مگر یہ کہ اللہ کی مشیت اسے شامل ہو۔”ماتسقط من ورقة الا یعلمہ“ درخت کا پتہ بھی اللہ کی مرضی کے بغیر زمین پر نہیں گرسکتا۔

            اس سے معلوم ہوا کہ کائنات کے ہر تصرف اور تبدیلی کے پیچھے ،اللہ کی قدرت ِکاملہ کار فرما ہے۔

مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ اور سب سے بڑی کمزوری:

            اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایمانی اعتبار سے کمزور ہیں اور ہمیں اس کا احساس ہی نہیں۔ نہ ہمارا عقیدہ پختہ ، نہ اعمال کی پابندی، نہ اخلاق اور کردار میں عمدگی، نہ باطن صاف ستھرا اور امیدیں بے حدو حساب ! مزید براں اللہ کے ساتھ حسن ِظن بھی نہیں، نہ طبیعت میں شکر اورنہ قوتِ صبر۔

دوسری کمزوری اپنی غلطیوں کا دوسرں کو ذمہ دار ٹھہرانا:

            ہرپریشانی کی ذمہ داری دوسرے پر ٹھہرانے کی بری عادت، ہر چھوٹے بڑے حادثے کو سازش کے ساتھ جوڑنے کی ذہنیت ،اس طرح کے حالات کسی بھی قوم کی پست ہمتی پردلالت کرتے ہیں؛اس لیے کہ جب محنت جدوجہد اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ نہیں ہوگا، قربانی کے لیے کسی قسم کا جذبہ نہیں رہے گا، تو یہی کیفیت رہے گی؟

فرعونیت ِجدیدہ کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟

            آپ سوچ رہے ہوں گے یہ فرعون بیچ میں اچانک کیسے آگیا؟ !! تو ایسا نہیں ہے، دراصل امت ِمسلمہ کو درپیش مسائل اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے مظلوم بنواسرائیل کے احوال میں بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ سب سے اہم مماثلت یہ کہ ایک طرف” شرذ مة قلیلون “یعنی کمزور اور نہتے Minority اقلیت میں بنواسرائیل اور دوسری جانب اکثریت Majority میں فرعون اور اس کی قبطی قوم اور ساتھ ساتھ اقتدار کی قوت ، اسباب تعیش میں مست ، دولت کی ریل پیل، مگر سب کچھ کے باوجود فرعون کا انجام ہلاکت اور بنو اسرائیل کا انجام نجات ہوا۔ الحمدللہ!

            تو آیے پہلے” فرعون بدمست کے احوال پر ایک نظر“ڈالتے ہیں، اس کے بعد ہمارے مسائل کا اس کی روشنی میں حل پیش کرتے ہیں۔

بد اعمالی کا نتیجہ وقفے وقفے سے ظالموں کا وجود:

            اگرہم دنیا کی تاریخ اٹھاکر دیکھتے ہیں، تو تھوڑے تھوڑے وقفے سے کوئی نہ کوئی بڑا ظالم حکمراں نظر آتا ہے، جس نے لوگوں پر بے پناہ ظلم ڈھایا ہوتا ہے۔ قرآن کی بیان کردہ تاریخ کے مطابق نمرود سے اس کا سلسلہ شروع ہوتا ہے،اور فرعون سے ہوتا ہوا نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے ابوجہل وغیرہ تک پہنچتا ہے۔ہمیشہ ظالموں کے تسلط کی وجہ عامة الناس کی بد اعمالی رہی ہے۔

            قرآن ِکریم نے جو بیان کیا ہے اس کے مطابق ظالموں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا، مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عصر ِحاضر کے فراعنہ کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟

قرآن میں مذکور فرعون کے مظالم:

 تو آیے پہلے فرعون جو قرآن ِکریم کے بیان کے مطابق اپنی رعایا پرظلم کرنے میں سب سے پیش پیش گزراہے، وہ کیا کیا ظلم کرتا تھا اور اس کا مقابلہ موسیٰ علیہ السلام نے کیسے کیا؟ اورہمیں اب کیا کرنا چاہیے؟یہ جانتے ہیں۔

فرعون کے مظالم اور عصر جدید کے فراعنہ کا اس سے موازنہ:

            فرعون کی بری خصلتیں: فرعون کو قرآن ِکریم نے ایک ظالم، جابر شخصیت کے طور پر پیش کیا ہے اور اس کے واقعہ کو قرآن کریم نے 27/ سورتوں میں ذکر کیا ہے اور اس کے علاوہ بھی بعض مواقع پر اس کی جانب اشارہ کیا ہے اور قرآن ِکریم نے تاریخ ِبشری میں اگر برے کردار کے حامل کسی انسان کا کثرت سے ذکر کیا ہے تو وہ ہے فرعون۔

فرعون اور شیطان کا ذکر قرآن میں:

            قرآنِ کریم میں 74 / مرتبہ فرعون کے نام کا تکرار ہے ۔ اور شیطان کا 75/ مرتبہ ؛ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شیطان الانس میں اگراللہ کی نظرمیں سب سے بدترین کوئی شخص ہے تو وہ ہے فرعون۔کہ شیطان الجن کا ذکر 75 / مرتبہ شیطان الانس کا 74 / مرتبہ۔ یعنی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اپنے برے کردار کا انسان بذات خود بھی اتنا ہی ذمہ دار ہے جتنا شیطان ۔

نفس انسانی شیطان سے بڑا دشمن :

            اسی لیے کہتے ہیں کہ نفس ِانسانی خود انسان کا شیطان سے بڑا دشمن ہے۔اگرانسان اس کے اشارے پر چلنے لگے ، تو اس کو شیطان کی ضرورت بھی نہیں، گو نفسانی خواہشات اورشیطان میں19/20/ کا فرق ہے؛اسی لیے قیامت کے دن انسان اپنی برائی کا خود ذمہ دار ہوگا اور غضبِ الٰہی کا مستحق ہوکر جہنم کا ایندھن بنایا جائے گا۔ اور اپنی برائی شیطان پر ڈال کر وہ چھٹکارا حاصل نہیں کرسکے گا۔

            شیخ قاسم توفیق قاسم خضر نے اپنی تفسیر پر لکھ گئےM.A کے مقالہ بعنوان’ ”شخصیة فرعون فی القرآن“ میں آیات ِقرآنیہ کی روشنی میں اس کے نو خصائل ِذمیمہ کو ذکر کیا ہے اوروہ یہ ہیں:

۱- استکبار:  یعنی تکبر۔

۲- العلو:اپنے آپ کو سب سے برتر ،بل کہ معبود جتانا۔

۳-الطغیان: سرکشی ۔

۴-  الظلم : ظلم اور بربرت۔

۵-الافساد:فساد مچانا۔

۶-الاستبداد:لوگوں کو دبانا ۔

۷-الوہم والغرور:یعنی غرور اوروہم کا شکار تھا۔

۸-الإسراف:فضول خرچی۔

۹-المکر:سازشی ذہنیت کا مالک تھا۔

استکبار فرعون سب سے نمایا خصلت :

            قرآن کریم نے پہلی خصلتِ بد کی طر ف سورہٴ قصص میں اشارہ کیاہے :

            ﴿واستکبر ہو وجنودہ فی الارض بغیر الحق﴾ (القصص: 39)

            ۱- استکبار کہتے ہیں: بغیر استحقاق کے اپنے آپ کو بڑا تصور کرنا۔

             اسی طرح استکبار کہتے ہیں :محض ضداورتکبر کی بنیاد پر حق کو قبول نہ کرنا۔ (لسان العرب)

            ۲- ”العلو“ کے معنی اپنی عظمت اوربڑائی میں مبتلا ہونا۔

            ﴿وان فرعون لعال فی الارض ﴾ اسی لیے علما نے لکھا ہے کہ ”علو“ کہتے ہیں، اپنے پاس اسبابِ قوت کو دیکھ کر اترانا۔ یعنی فرعون اپنے آپ کو مافوق البشر متصور کرتا تھا، یہاں تک کہ اپنی طاقت اور دولت کے نشہ میں دھت ہوکر ﴿انا ربکم الاعلیٰ﴾ کا دعویٰ کر بیٹھا۔ جب آسمانی وحی سے انسان کٹ جاتا ہے، اور اس کے پاس مال و دولت ، بادشاہت وسلطنت فوجی طاقت گویا دنیا پرغلبہ کے تمام اسباب جمع ہوجاتے ہیں، تب پھر وہ اسی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے؛ جیسا کہ آج بھی امریکہ ، چین، اسرائیل، روس وغیرہ کایہی حال ہے۔

            ۳- ”طغیان“: سرکشی ، یعنی اللہ کی نافرمانی میں تمام حدود کو پامال کرنا، سرکشی کہلاتا ہے۔

            قرآن نے بار بار کہا ہے : ﴿انہ طغٰی﴾ یعنی جرائم میں حد تجاوزی کرنے والا ،یہی فرعون جیسی ظالمانہ صفات آج کے آمروں میں پائی جاتی ہے۔

            ۴- ”الظلم“: ظلم، کہتے ہیں کسی چیز کو اس کی اصل جگہ نہ رکھ کر دوسری جگہ رکھنا، یعنی اعتدال سے ہٹنا ظلم کہلاتا ہے۔﴿واذ نادیٰ ربک موسیٰ ان إئت القوم الظالمین﴾۔

            قرآن پاک میں متعدد مقامات پر فرعون اور اس کی قوم کو ظالمین سے تعبیر کیا ہے، ا س لیے کہ ظلم کی تمام صورتوں کا فرعون جامع تھا، مثلاً کفر و شرک، کبروغیرہ انہیں چیزوں نے اسے حق قبول کرنے سے روکا؛ بنی اسرائیل کے مردوں اور بچوں کو قتل کیا، طبقاتی نظام جاری کیا، جس میں قبطی اعلیٰ اور اسرائیلی ادنیٰ قرار دیے گئے۔ آج بھی اقوام ِیورپ دنیا کے ساتھ اور ہمارے ملک میں بھی اقلیتوں ،آدی واسی اور دلت کے ساتھ ایسا ہی ہورہا ہے۔

            ۵- ”الافساد“: یعنی فتنا فساد مچانا۔

             قرآن ِکریم نے کہا: ﴿انہ کان من المفسدین﴾۔

            یعنی وہ امن و امان کو غارت کرنے والوں میں سے تھا۔ دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف فاسدین مفسدین بالکل اسی ڈگر پر کام کررہے ہیں اور پوری دنیا کو فتنہ وفساد کی آماج گاہ بنا رکھی ہے۔

            ۶- ”الاستبداد“: یعنی صرف اپنا حکم چلانا اور کسی کی ایک نہ سننا، جیسا کہ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا:

            ﴿لَئِنْ اتَّخَذْتَ اِلٰہًا غَیْرِیْ لَأَجْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ﴾

            یعنی اگر تونے میرے علاوہ کسی کو معبود مانا، تو میں تجھے جیل میں ڈال دوں گا۔

            آج بھی دنیا میں بہت ساری ایسی حکومتیں ہیں، جو اپنے خلاف ذرہ برابر کچھ سننے کو تیار نہیں اور ایسے لوگوں کو جیل خانہ میں ڈھکیل دیتی ہیں۔ اس وقت ہمارا ملک بھی اسی استبدادی طاقت سے دو چار ہے۔

 ۷- ”الغرور“: غرور کہتے ہیں نفسانی خواہشات کے مطابق دھوکہ میں مبتلا ہونا اور لوگوں کو بھی دھوکہ دینا۔

             فرعون کے بارے میں قرآن کہتا ہے:

            ﴿قَالَ آمَنْتُمْ بِہ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَکُمْ﴾ کہ تم میری اجازت کے بغیر اس پر ایمان لے آئے!! !

یعنی اگر چہ میں باطل پر ہوں، مگر تمھیں میری بات ہی ماننی ہوگی۔

            ہمارے ملک کا حال بھی یہی ہے کہ اگر اسلام کی دعوت دی جائے تو دھرم پری ورتن، زبردستی اوراگر ہندو بنے تو مراعات؛ یہی غرور ہے۔

            ۸- ”الاسراف“: اسراف کہتے ہیں: اپنے مال کو انتہائی گھٹیا بے فائدہ کاموں میں خرچ کرنا۔    قرآن ِکریم نے فرعون کی ایک ذمیم حقیقت اسراف کو بیان کیا:

            ﴿وَاِنَّہ مِنَ الْمُسْرِفِیْنَ﴾ کہ یقینا وہ اسراف کرنے والوں میں سے تھا۔

            فرعون اپنی دولت کو بے فائدہ مصارف میں زیادہ خرچ کرتا تھا، اس کے کھانے کے برتن سونے کے ، اس کی چارپائی سونے کی اور دوسری جانب بنو اسرائیل ایک ایک لقمہ کو ترستے تھے، جب کہ وہ اس کی رعایہ میں سے تھے۔ آج بھی دنیا میں حکمرانوں کا یہی حال ہے،اپنے اوپر بے تحاشہ خرچ اور عوام کھانے پینے کو محتاج ہوتی ہے۔

            ۹- ”المکر“: فرعون بڑا مکار تھا، اپنی قوم کو دھوکہ دیتا تھا، خود سازش کرتا تھا اوراپنی قوم کو سازشوں سے ڈراتا تھا ۔

            ﴿وَمَا کَیْدُ فِرْعَوْنَ اِلَّا فِیْ تَبَابٍ﴾ فرعون کی سازش رائے گاں ہی ہوگی۔اس سے معلوم ہوا کہ سازشی چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اللہ کے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں اور اپنی ہر کمزوری اور تکلیف کو کسی سازش کا حصہ قرار دینا ضعف ِایمانی کی دلیل ہے۔ اس پر ہم عنقریب تفصیل سے گفتگو کریں گے۔ ان شاء اللہ!

فرعون کا واقعہ اور ہمارے لیے اس سے حاصل ہونے والا سب سے اہم سبق:

            ویسے تو ہم قرآنِ کریم کو سرسری طور پرپڑھتے رہتے ہیں، مگر اس بار جب بندہ نے واقعہٴ فرعون کو غور سے پڑھا تو تعجب ہوا کہ قرآن ِکریم نے ہمیں اس واقعہ سے کیاکیااسباق دیے ہیں!

            ۱- جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ کسی بھی انسان میں برے کردار کے حامل شخص کو قرآن نے اگر سب سے زیادہ ذکر کیا ہے تو وہ فرعون ہے، مگر اب سمجھ میں آیا کہ قرآن نے آخر اتنی کثرت سے اس کی زندگی کے ہرپہلو پر کیوں گفتگو کی ؟!

            ۲-دراصل اللہ کے علم میں یہ بات خوب اچھی طرح تھی کہ امت ِمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بڑا طویل رہے گا، اتنے طویل عرصہ میں نوع بہ نوع قسم کے افراد آئیں گے، جن میں فرعون جیسے ظالموں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہوگی، کچھ بالکل اس کا عکس ہوں گے، اور کچھ اس کی بعض صفات ِمذمومہ کے حامل ہوں گے؛جیساکہ اس طرح کے فراعنہ کو آج ہم دیکھ رہے ہیں ۔

            ۳-ہمارے لیے اس میں سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ باطل اور ظالم چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، وہ ایک نہ ایک دن اپنے انجام ِبد کو ضرور بالضرور پہنچتا ہے، جیسا کہ فرعون پہنچا، اس لیے کہ دنیا میں رونما ہونے والے تمام تصرفات اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے وقوع پزیر ہوتے ہیں۔

انسان کے تمام بڑے اور اہم قضایات اور مسائل اللہ کے قبضے میں ہے:

            قرآن کا اعلان ہے :رات دن کا کم زیادہ ہونا اللہ کے حکم سے ہوتا ہے -: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ یُولِجُ اللَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُولِجُ النَّہَارَ فِی اللَّیْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَجْرِی إِلَیٰ أَجَلٍ مُّسَمًّی وَأَنَّ اللَّہَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ.(لقمان:۲۹)

            کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ رات کو دن میں داخل کردیتا ہے اور دن کو رات میں داخل کردیتا ہے،اور اس نے سورج اور چاند کو کام میں لگارکھا ہے کہ ہر ایک کسی متعین میعاد تک رواں دواں ہے،اور (کیا تمہیں معلوم نہیں) کہ اللہ پوری طرح باخبر ہے کہ تم کیا کرتے ہو؟۔

            سردیوں میں راتوں کا بڑا ہونااور دن کا چھوٹا ہونا،گرمی میں اس کے بر عکس یہ سب اللہ کے سے ہوتا ہے۔

زمین کی پیداوار اللہ کے حکم سے ہے:

            زمین سے پیداوار اللہ ہی کی مرضی سے برآمد ہوتی ہے ارشاد الہی ہے -: (وَفِی الْأَرْضِ قِطَعٌ مُتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیلٌ صِنْوَانٌ وَغَیْرُ صِنْوَانٍ یُسْقَی بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلَی بَعْضٍ فِی الْأُکُلِ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآَیَاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ).

            اور زمین میں مختلف قطعے ہیں جو پاس پاس واقعے ہوئے ہیں اور انگور کے باغ اور کھیتیاں اور کھجور کے درخت ہیں، جن میں سے کچھ دہرے تنے والے ہیں، اور کچھ اکہرے تنے والے۔ سب ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں، اور ہم ان میں سے کسی کو ذائقے میں دوسرے پر فوقیت دے دیتے ہیں۔ یقینا ان سب باتوں میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیں۔(الرعد:4)

بارش بھی اللہ کے حکم سے ہوتی ہے:

            بارش کا نزول بھی اللہ ہی کے حکم سے ہوتا ہے -: (وَہُوَ الَّذِی أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِہِ نَبَاتَ کُلِّ شَیْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْہُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْہُ حَبًّا مُّتَرَاکِبًا وَمِنَ النَّخْلِ مِن طَلْعِہَا قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ وَجَنَّاتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَالزَّیْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِہًا وَغَیْرَ مُتَشَابِہٍ انظُرُوا إِلَی ثَمَرِہِ إِذَا أَثْمَرَ وَیَنْعِہِ).

            اور اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا۔ پھر ہم نے اس کے ذریعے ہر قسم کی کونپلیں اگائیں۔ ان (کونپلوں) سے ہم نے سبزیاں پیدا کیں جن سے ہم تہہ بہ تہہ دانے نکالتے ہیں، اور کھجور کے گابھوں سے پھلوں کے وہ گچھے نکلتے ہیں جو (پھل کے بوجھ سے) جھکے جاتے ہیں، اور ہم نے انگوروں کے باغ اگائے، اور زیتون اور انار۔ جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں، اور ایک دوسرے سے مختلف بھی۔ جب یہ درخت پھل دیتے ہیں تو ان کے پھلوں اور ان کے پکنے کی کیفیت کو غور سے دیکھو۔(الانعام:99)

ہوائیں بھی اللہ کے حکم سے چلتی ہیں:

ایک اور جگہ ارشاد ہے -:

            (وَہُوَ الَّذِی یُرْسِلُ الرِّیَاحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہِ حَتَّی إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنَاہُ لِبَلَدٍ مَیِّتٍ فَأَنْزَلْنَا بِہِ الْمَاءَ فَأَخْرَجْنَا بِہِ مِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ کَذَلِکَ نُخْرِجُ الْمَوْتَی لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُون).

            اور وہی (اللہ) ہے جو اپنی رحمت (یعنی بارش) کے آگے آگے ہوائیں بھیجتا ہے جو (بارش کی) خوشخبری دیتی ہیں، یہاں تک کہ جب وہ بوجھ بادلوں کو اٹھالیتی ہیں تو ہم انہیں کسی مردہ زمین کی طرف ہنکالے جاتے ہیں، پھر وہاں پانی برساتے ہیں، اور اس کے ذریعے ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں۔ اسی طرح ہم مردوں کو بھی زندہ کر کے نکالیں گے۔ شاید (ان باتوں پر غور کر کے) تم سبق حاصل کرلو۔(الاعراف:57)

عزت،منصب، سلطنت سب اللہ کے قبضہ میں ہے:

            عزت اور سلطنت بھی اللہ ہی کے قبضہٴ قدرت میں ہے ارشاد ِخداوندی ہے :

            قُلِ اللَّہُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْکَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ إِنَّکَ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ۔

            کہو کہ: اے اللہ! اے اقتدار کے مالک! تو جس کو چاہتا ہے اقتدار بخشتا ہے، اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رسوا کردیتا ہے، تمام تر بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے۔(آل عمران: 26)

رزق بھی اللہ کے قبضہٴ قدرت میں ہے:

            إِنَّ اللہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِینُ۔

            اللہ تو خود ہی رزاق ہے، مستحکم قوت والا۔ (الذاریات: 58)

زندگی اور موت بھی اللہ کی خلقت ہے:

            موت و حیات بھی اللہ ہی کے حکم کے تابع ہے :

            اللہُ الَّذِی خَلَقَکُمْ ثُمَّ رَزَقَکُمْ ثُمَّ یُمِیتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیکُمْ۔

            اللہ وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر اس نے تمہیں رزق دیا، پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے پھر تمہیں زندہ کرے گا۔(الروم:40)

دنیا میں رو نما ہونے والے تمام بڑے اور چھوٹے مسائل اللہ کے حکم کے تابع ہے:

            معلوم ہوا کہ سلطنت ، عزت، رزق، موت وحیات، بارش اور کھیتی یہ سب انسان کے بڑے بڑے مسائل ہیں، جو سب کے سب اللہ تعالیٰ کے قبضہٴ قدرت میں ہیں؛مگر آج کا مسلمان اسے فراموش کرچکا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ یہ سب طاقتوروں کے قبضہ میں ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کے احکامات کو ترک کرکے ان سے مرعوب ہوکر ان کے نقش ِقدم اور مرضی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔

اکیسویں صدی کے سائنس دانوں کی غلط فہمی:

            دوسری جانب طاقت اور ٹیکنالوجی کے نشہ میں دھت طاقتیں بھی سمجھی بیٹھی ہیں کہ سب کچھ ہماری مرضی سے ہوتا ہے اور کوئی ہماری پکڑ کرنے والا نہیں اور ہمیں کچھ نہیں ہوگا اور ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتاوغیرہ۔

اسلام مخالف فضا ماضی سے چلی آرہی ایک نایاب حرکت:

            لہٰذا سب غیر اسلامی طاقتیں، مل کر اس نکتہ پر متفق ہوجاتے ہیں کہ اسلام کو کیسے ختم کردیا جائے۔

اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے والے خود ختم ہوجائیں گے:

             مسلمانوں کو نیست نابود اور زمین کو ان پر تنگ کردیا جائے؛ اس طرح وہ ہر ممکن ذرائع سے اسلاموفوبیا (Islamophobia)یعنی اسلام کا خوف اور لوگوں کو اس سے ڈرانا )پھیلاتے ہیں۔حالاں کہ یہ خود مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں، مسلمانوں کو ڈراتے ہیں، انھیں اپنے ملکوں میں ہراساں کرتے ہیں ، یہاں تک کہ انھیں جلاوطن کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں، اس کے لیے پلاننگ کرتے ہیں۔مگر تاریخ کا مطالعہ کرنے والے کے لیے اور قرآن کی بیان کردہ تفصیلات کے مطابق ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا ہے۔

بنو اسرائیل اقلیت اور قبطی اکثریت اور ہمارے حالات سے مماثلت:

            ﴿اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَہْلَہَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآئِفَةً مِّنْہُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآئَہُمْ وَ یَسْتَحْی نِسَآئَہُمْ ط اِنَّہ کَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ oوَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَہُمْ اَئِمَّةً وَّ نَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِیْنَ o وَ نُمَکِّنَ لَہُمْ فِی الْاَرْضِ وَ نُرِیَ فِرْعَوْنَ وَ ہَامٰنَ وَ جُنُوْدَہُمَا مِنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَحْذَرُوْنَ o﴾(سورہ قصص: ۴-۶)

            واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی اختیار کر رکھی تھی، اور اس نے وہاں کے باشندوں کو الگ الگ گروہوں میں تقسیم کردیا تھا جن میں سے ایک گروہ کو اس نے اتنا دبا کر رکھا ہوا تھا کہ ان کے بیٹوں کو ذبح کردیتا۔ اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو فساد پھیلایا کرتے ہیں۔اور ہم یہ چاہتے تھے کہ جن لوگوں کو زمین میں دبا کر رکھا گیا ہے ان پر احسان کریں ان کو پیشوا بنائیں، انہی کو (ملک و مال کا) وارث بنادیں۔اور انہیں زمین میں اقتدار عطاکریں، اور فرعون، ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھا دیں جس سے بچاؤ کی وہ تدبیریں کر رہے تھے۔ (سورہ قصص: ۴-۶)

            قربان جائیے ایک ایسی کتاب پر جس نے حق و باطل کے درمیان قیامت تک معرکہ کی جتنی شکلیں پیش آنے کا امکان ہے ،ماضی میں اس کے نمونوں کی روشنی تفصیل کے ساتھ بیان کردیا۔

            اس آیت پر غور کیا جائے اور عصر ِحاضر کے حالات پر غور کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بالکل یکساں صورت حال ہے۔ وہاں بھی اکثریت طاقتور اور اقتدار پر حاوی اوراقلیت پر ویسے ہی ظلم کررہی تھی، جیسے آج کررہی ہے؛ مگر قرآن نے اعلان کیا ہے یہ مظلوم غالب آئیں گے ، لہٰذا ناامید نہ ہوکر اپنے آپ کو اقتدار کی اہلیت کے لیے تیاری کرنا چاہیے۔

بنو اسرائیل کو فرعون سے نجات کیسے حاصل ہوئی؟

            سب سے پہلے موسیٰ علیہ السلام نے اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیااور کہا :﴿رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ ﴾اس لیے کہ آپ جانتے تھے کہ جس مہم کی طرف آپ کو بھیجا جارہا ہے، وہ مصائب اور مشکلات سے پُر ہے، لہٰذا رب ذوالجلال کی جانب انابت کی جائے ۔

            موسیٰ علیہ السلام نے پانچ دعائیں کیں:

            ۱- شرح صدر : یعنی ہمت ، حوصلہ اور عزم اللہ تعالیٰ سے مانگا، کیوں کہ کامیابی کے لیے سب سے پہلے اسی کی ضرورت ہے۔

            ۲- دوسرا کام آسانی : اس لیے کہ یسر اور عسر کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، جیسے موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے تجربات احوال سے جان چکے تھے۔

            ۳- ﴿وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِّسَانِیْ یَفْقَہُوْ قَوْلِیْ﴾ یعنی ایسا ملکہ جس سے مدعو پیغام کو سمجھ لے۔

            ۴- ﴿وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِنْ اَہْلِیْ﴾ موسیٰ علیہ السلام جانتے تھے کہ ذمہ داری بہت بڑی ہے، لہٰذا اس کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے معاون کی ضرورت ہے۔

            ۵- ﴿کَیْ نُسَبِّحَکَ کَثِیْرًا وَنَذْکُرَکَ کَثِیْرًا﴾ یعنی اصل اور معاون دونوں مل کر کثرت سے تسبیح اور اللہ کا ذکر کریں؛ تاکہ تیری مدد اور نصرت حاصل ہو۔ظالموں سے نجات کا فارمولہ اس دعا میں بیان کیا گیا ہے۔

 غلبہ پانے کافارمولہ:

            دعا + ہمت + توکل علی اللہ+ دعوت کے موٴثر اسالیب + اجتماعی کوشش + ذکر اللہ کی کثرت +۔

            بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضرت موسی ٰ علیہ السلام کو جب ظالم و جابر فرعون کی جانب رسول بنا کر بھیجا جارہا تھا، تو آپ نے یہ دعا کی اوربس؛ لیکن حقیقت میں یہ دعا ہی ظالموں سے نجات کافار مولہ بیان کرتی ہے، تو آئیے اس بیش قیمت فارمولے کو جانتے ہیں:

            ۱- حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب نبوت کی ذمہ داری سپرد کی گئی، تو آپ نے فوراً اسے قبول کیا اور اسی لمحہ اللہ کی طرف متوجہ ہوکر دست بدعا ہوگئے۔

            معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اس وقت سید نا حضرت موسی ٰ علیہ السلام کی طرح انابت الی اللہ کی سخت ضرورت ہے اور آج ہم اسی میں کوتاہی برت رہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ہم اپنے ایمان کو مضبوط کرکے ،اللہ پراعتماد کو بھرپور کرکے، توکل میں استحکام پیدا کریں اور اپنے ہر مسئلہ کو حل کرنے کے لیے دعاوٴں کا اہتمام کریں۔

            ۲- حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ہزاروں جانیں قربان ، آپ نے بڑی جامع دعا کی، سب سے پہلے اللہ سے شرح ِصدر یعنی ہمت اور حوصلہ طلب کیا ،جو کسی بھی معلم میں کامیابی کی شاہ ِکلیدہے ؛ جہاں اس میں اللہ سے ہمت طلبی کا علم ہوتا ہے؛ وہیں موسیٰ علیہ السلام کا اتنی عظیم مہم اور فرعو ن جیسے ظالم وجابر ،طاقتور بادشاہ کے مقابلے کے لیے حوصلہ کا بھی پتا چلتا ہے کہ آپ ذہنی اعتبار سے بالکل تیار ہوگئے اور اللہ سے اس کی دعا بھی کی۔

            ۳- اس دعا کے دوسرے جملہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اللہ پرکامل توکل کا پتا چلتا ہے۔

” ویسر لی امری“ کہ میرے کام کو تو ہی آسان فرما۔

            معلوم ہوا کہ ہمارا یقین ہونا چاہیے کہ” عسر و یسر“ یعنی کشادگی وتنگی ،عزت اور ذلت کا مالک اللہ ہے۔ اسی سے آسانیاں مانگنی چاہیے، جیسا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے مانگی۔

            ۴- د اعی قوم کے لیے ( امت محمد یہ امت دعوت ہے) ضروری ہے کہ پیغام ِحق کو سمجھانے کے لیے تمام موٴثر طریقوں کو اختیار کرے اور ایسے اسلوب کو اختیار کرے جس میں مدعو متاثر ہوسکے۔ آج ہم اس میں بھی بہت پیچھے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا﴿وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِّسَانِیْ یَفْقَہُوْ قَوْلِیْ﴾میری زبان کی گرہ کو کھول دے؛ تاکہ وہ میری بات اچھی طرح سمجھ سکے۔

            ۵- دعوت کا کام بہت عظیم ہے، اکیلے اسے انجام دینا دشوار تھا؛ باجودکہ موسیٰ علیہ السلام اول العزم رسول ہیں،آپ نے کہا میرے بھائی ہارون کو میرا دست ِراست بنادے۔

            معلوم ہوا داعی قوم کو دعوت کے لیے اجتماعی محنت اتفاق کے ساتھ اسی طور پرکرنی چاہیے کہ جوبھی شخص دعوت کے مشن میں کام آسکتا ہو، اسے اپنے ساتھ شامل کرلینا چاہیے؛ تاکہ مبضوط اور ٹھوس انداز میں کام آگے بڑھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا ہارون کو ساتھ لینے کے دو مقصد ہیں،ایک ﴿اشدد بہ ازری﴾ یعنی کارِ خیر میں خطیب ہونے کی وجہ سے مجھے تقویت ملے اور وہ میرے میشن کا مضبوط حصہ ہوسکیں۔

            ۶- ﴿کَیْ نُسَبِّحَکَ کَثِیْرًا وَنَذْکُرَکَ کَثِیْرًا﴾ موسیٰ علیہ السلام پر لاکھوں جانیں قربان دعا سے اپنے مشن کو شروع کیا اور تسبیح اورذکر کے ساتھ آگے بڑھایا۔ معلوم ہو اکہ اپنے مشن میں کامیابی کے لیے ذکر اللہ کا عادی بننا ازحد ضروری ہے۔ آج ہم اس سے غفلت کا شکار ہیں۔

            گویا اس آیت ِکریمہ نے دعوت کے پورے کام کے اہم اصول بیان کردیے، اور مختصراً وہ یہ ہے :

غلبہ

ایمان    –  دعا    –    دعوت –   ہمت    –   ذکر   –   اجتماعیت