اپنے ایمان کی سلامتی، تحفظ اور بقا نیز حُسن ِخاتمہ کے لیے دعائیں

تجویز کردہ:

شارحِ حق وترجمانِ اہل حق حضرت مولانا مفتی مجد القدوس خبیب رومی صاحب مدت فیوضہم(صدر مفتی مدرسہ عربی سہارنپور ومفتی شہر آگرہ)

رخصت ہو یا الٰہی جس دم غلام تیرا

ہو دل میںیاد تیری اور لب پے نام تیرا

(۱) {رَبَّنَا لَا تُزِغ ْقُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ}۔

(اٰل عمران:۸)

(۲) ’’اَللّٰہُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا، وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَہٗ، وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا، وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَہٗ‘‘۔

(تفسیر ابن کثیر/۲/۱۳۶/مطبوعہ:دارابن عربی)

(۳) ’’اللّٰہُمَّ انْصُرْ مَنْ نَصَرَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاجْعَلْنَا مِنْہُمْ،اَللّٰہُمَّ اخْذُلْ مَنْ خَذَلَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا تَجْعَلْنَا مِنْہُمْ.‘‘

             یہ تینوں دعائیں ایمان کی سلامتی، تحفظ، بقا اور حسن ِخاتمہ کی ہیں۔ انہیں ہر نماز کے بعد دل سے پابندی کے ساتھ مانگنا چاہیے۔

            نوٹ:-حضرت شیخ اکبر ابن العربیؒ کا ارشاد، حضرت شاہ وصی اللہ صاحب رحمۃاللہ علیہ بہت تاثر کے ساتھ نقل فرمایا کرتے تھے،ان کے خلفاء بھی اس کو نقل کرتے تھے، اسی طرح حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب پرنامبٹیؒ(تلمیذ ِخاص حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندیؒ ومجاز طریقت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب  فتح پوری ؒ) کا رسالہ بھی ہے’’کم راینا شیوخاسقطوا‘‘(ہم نے کتنے ہی مشائخ کو دیکھا کہ وہ مقام مشیخت سے ساقط ہو گئے)۔

            اس لیے اپنے ایمان،اسلام،احسان کی سلامتی، تحفظ اور بقا کی دعا بھی کرنی چاہیے اور کوشش بھی کرنی چاہیے! صرف دعاکافی نہیں اور نہ صرف کوشش کافی ہے، دونوں ضروری ہیں۔ ہمارے حضر ت جلال آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: کہ دین کا کام ہو یا دنیا کا، اس کے لیے حسنِ تدبیر اور دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔

جب دم واپسیں ہویا اللہ

لب پہ ہو  لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ

مجلس ترجمان حق (الہند)