اپنی زندگی میں جائداد کی تقسیم

فقہ وفتاویٰ

مفتی محمد جعفر صاحب ملی رحمانی

صدر دار الافتاء-جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا

اپنی زندگی میں جائداد کی تقسیم

سوال:     ہماری سات بچیاں ہیں، اس میں سے ایک بچی سب سے بڑی کا انتقال ہوگیا ہے، جس کے ایک لڑکی اور ایک لڑکا ہے۔اور ایک لڑکا ہے ہمارا، جو کہ شادی شدہ ہے اور ہم دونوں میاں بیوی ۔ ہمارے پاس تقریباً دو کروڑ دس لاکھ کی جائداد ہے۔ پانچ بچیوں کو دو دو لاکھ دے چکے ہیں۔ اس کی وراثت کی ترتیب بتادیں۔ عین نوازش ہوگی!

الجواب وباللہ التوفیق:

            شرعاً وراثت اس مال میں جاری ہوتی ہے، جسے مرنے والا انسان اپنے پیچھے چھوڑ کر جائے۔(۱) اور چوں کہ آپ ابھی حیات ہیں؛ اس لیے آپ کے مال کی تقسیم ابھی بطورِ وراثت نہیں ہوگی، بل کہ آپ جب تک حیات ہیں، اپنی ملکیت کے تن ِتنہا مالک ہیں۔ اور اگر آپ اپنی زندگی میں اپنی ملکیت بیوی بچوں کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے ہیں، تو یہ تقسیم بہ طور ہبہ وبخشش ہوگی۔ اور ہبہ و بخشش میں اپنی تمام اولاد خواہ لڑکا ہو یا لڑکی، ہر ایک کو برابر سرا بر دینے کی حدیث پاک میں تاکید آئی ہے۔ (۲) ہاں! اگر کسی کو اس کی ضرورت وحاجت یا دینی مشغلہ ودیگر فضائل کی وجہ سے زیادہ دے اور اس کے ذریعہ دوسروں کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو، تو شرعاً ایسا کرنا جائز ہے،اور اگر کسی کو زیادہ دے کر دوسروں کو نقصان پہنچانا مقصود ہو، تو ایسا کرنا مکروہِ تحریمی ہے۔(۳)

            لہٰذا آپ اپنی زندگی میں اپنی ملکیت تقسیم کررہے ہیں، تو اولاً آپ اپنے لیے اپنی ضرورت کے بقدر محفوظ کرلیں، تاکہ آئندہ کسی سے سوال کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔(۴)اور بقدرِ ضرورت و حاجت بیوی کو بھی دے دیں۔(۵) انتقال کرجانے والی لڑکی کی اولاد کو بھی کچھ دے دیں۔(۵) جن پانچ لڑکیوں کو دو دو لاکھ دے چکے ہیں، ان کے علاوہ باحیات اولاد کو بھی اوّلاً دو دو لاکھ دے دیں۔ پھر بقیہ مال کو سات حصوں میں تقسیم کرکے باحیات چھ لڑکیوں اور ایک لڑکے میں سے ہر ایک کو ایک ایک حصہ دے دیں۔


 

الحجة علی ما قلنا :

(۱) ما في ” رد المحتار “ : الترکة في الاصطلاح ما ترکہ المیت من الأموال صافیاً عن تعلق حق الغیر بعین من الأموال کما في شروح السراجیة ۔ (۱۰/۹۳ ، کتاب الفرائض)

(۲) ما في ” صحیح البخاري “ : عن عامر رضي اللّٰہ عنہ قال : سمعت النعمان بن بشیر وہو علی المنبر یقول : أعطاني أبي عطیة فقالت عمرة بنت رواحة لا أرضی حتی تشہد رسول اللّٰہ ﷺ فأتی رسول اللّٰہ ﷺ فقال : إني أعطیت ابني من عمرة بنت رواحة عطیة فأمرتني أن أشہدک یا رسول اللّٰہ ! قال : أعطیت سائر ولدک مثل ہذا ، قال : لا ، قال : فاتقوا اللّٰہ واعدلوا بین أولادکم ۔ الحدیث ۔ (۱/۳۵۲ ، کتاب الہبة ، باب الإشہاد في الہبة)

ما في ” شرح الطیبي شرح مشکاة المصابیح “ : فیہ استحباب التسویة بین الأولاد في المحبة فلا یفضل بعضہم علی بعض سواء کانوا ذکورًا أو إناثًا ۔ (۶/۱۹۳ ، کتاب البیوع ، باب العطایا ، تحت الرقم : ۳۰۱۹)

(۳) ما في ” الدر المختار مع الشامیة “ : وفي الخانیة : لا بأس بتفضیل بعض الأولاد في المحبة ؛ لأنہا عمل القلب ، وکذا في العطایا إن لم یقصد بہ الإضرار ، وإن قصدہ فسوی بینہم یعطي البنت کالإبن عند الثاني ، وعلیہ الفتوی ۔ (۸/۵۰۱ ، کتاب الہبة)

ما في ” الفتاوی الہندیة “ : ولو وہب رجل شیئًا لأولادہ في الصحة وأراد تفضیل البعض علی البعض في ذلک لا روایة لہذا في الأصل عن أصحابنا ۔ وروي عن أبي حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالیٰ انہ لا بأس بہ إذا کان التفضیل لزیادة فضل لہ في الدین وإن کانا سواء یکرہ ۔ وروی المعلی عن أبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالیٰ أنہ لا بأس بہ إذا لم یقصد بہ الإضرار ، وإن قصد بہ الإضرار سوی بیہنم یعطي الابنة مثل ما یعطي للإبن ، وعلیہ الفتوی ۔ ہکذا في فتاوی قاضي خان ، وہو المختار ، کذا في الظہیریة ۔(۴/۳۹۱ ، کتاب الہبة ، الباب السادس في الہبة للصغیر)

(فتاوی قاضي خان : ۴/۲۹۰ ، کتاب الہبة ، فصل في ہبة الوالد لولدہ والہبة للصغیر)

(۴) ما في ” مشکوة المصابیح “ : وعن سفیان الثوري قال : کان المال فیما مضی یکرہ فأما الیوم ترس الموٴمن ۔

(ص/۴۵۱ ، کتاب الرقاق ، باب بذل المال والعمر للطاعة ، الفصل الثالث)

ما في ” مرقاة المفاتیح شرح مشکوة المصابیح “ : وحاصلہ أن المال الحلال یقي صاحب الحال من الوقوع في الشبہة والحرام ویمنعہ من ملازمة الظلمة ومصاحبتہم في الظلام ، أو یتستر بہ المومن عن الریاء والسمعة والشہرة عند العوام ۔(۹/۴۷۴ ، تحت الرقم :۵۲۹۱)

(۵) ما في ” التنویر مع الدر والرد “ : فتجب للزوجة بنکاح صحیح علی زوجہا ؛ لأنہا جزاء الاحتباس۔ (۵/۲۲۳ ، ۲۲۴ ، کتاب الطلاق ، باب النفقة ، مطلب اللفظ جامد ومشتق)

ما في ” تبیین الحقائق “ : تجب النفقة للزوجة علی زوجہا والکسوة بقدر حالہما ۔ (۳/۳۰۰ ، کتاب الطلاق ، باب النفقة)(البحر الرائق : ۴/۲۹۳ ، کتاب الطلاق ، باب النفقة)

ما في ” التفسیر للبیضاوي “ : المالک ہو المتصرف في الأعیان المملوکة کیف شاء من الملک ۔ (ص/ ۷ ، سورة الفاتحة)

ما في ” معجم المصطلاحات والألفاظ الفقہیة “ : الملک التام في اصطلاح الفقہاء : ہو الذي یخول صاحبہ حق التصرف المطلق في الشيء الذي یملکہ فیسوغ لہ أن یتصرف فیہ بالبیع والہبة ۔ (۳/۳۵۱ ، مادة : الملک)

(۶) ما في ” صحیح البخاري “ : عن أنس بن مالک أن رسول اللّٰہ ﷺ قال : ” من أحب أن یبسط لہ في رزقہ وینسأ لہ في أثرہ فلیصل رحمہ “ ۔ (۲/۸۸۵ ، کتاب الأدب ، باب من بسط لہ في الرزق لصلة الرحم)

(صحیح مسلم :۲/۳۱۵ ، کتاب البر والصلة والأدب ، باب صلة الرحم وتحریم قطیعتہا)

ما في ” صحیح البخاري “ : عن أبي ہریرة عن النبي ﷺ قال : ” من کان یوٴمن باللّٰہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ ، ومن کان یوٴمن باللّٰہ والیوم الآخر فلیصل رحمہ “ ۔ الحدیث ۔ (۲/۹۰۶ ، کتاب الأدب ، باب إکرام الضیف وخدمتہ أیاہ بنفسہ) فقط

واللّٰہ أعلم بالصواب

فتوی نمبر ۱۰۹۵