شفیع احمدقاسمیاِجرا،مدھوبنی/استاذجامعہ اکل کوا
سب سے بڑاپیر:
آج دنیاکے جس خطے اورجس کونے میں بھی نظردوڑائیں تومعلوم ہوگاکہ ہرطرف ایک عجیب انتشاراور افرا تفری کاماحول ہے،عالم دین،مبلغین،مصلحین اورسیاسی قائدین اپنی اپنی روٹی سینکنے پرکمربستہ ہیں۔اِن کا حال یہ ہے کہ کسی دینی پروگرام اورجلسوں میں شرکت کرنے کے لیے اپنی فیس متعین کررکھی ہے۔اگرجیب میں اتنی رقم ہے تودعوت قبول ہے ،ورنہ تمھاری کوشش فضول ہے ۔ بھٹکتی اورسِسکتی انسانیت کی کشتی کے کھیون ہاراور ناخدا ہی سیدھی پٹری سے اتر جائیں اور ﴿ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً﴾ کو بالائے طاق رکھ دیں توسوچنے کی بات یہ ہے کہ لوگ کس کے پاس ؛اپنی دینی پیاس بجھانے کی آس لے کر جا ئیں گے؟یہی وہ حضرات ہیں، جن کو سیدالکل فی الکل محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے ”العلماءُ ورثة الانبیاء“کی عظیم الشان ڈگری ملی ہوئی ہے ۔کچھ علمائے کرام ایسے نظرآئیں گے،جومصلحت پسندی کے مرض میں گرفتار ہیں۔وہ موقع دیکھ کر نوٹ کی چوٹ سے روبوٹ ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ ان کاعقیدہ ہی یہی ہے کہ ”نہ عیسیٰ پیرنہ موسیٰ پیر،سب سے بڑا ہے پَیسا پیر“ اوراِسی سلسلے کی ایک دوسری کہاوت یہ بھی ہے کہ”باپ نہ بھیا، سب سے بڑا روپیا“۔
نمک حلالی کررہے ہیں:
چناں چہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اِس لائن میں ابھی تک،امت کے اہم ترین پیشوا اوراخباروں کے مدیران بھی موافقت میں اترے اورمصلحت پسندی کے سنہرے خول میں گھسے ہوئے تھے اوراب کچھ بے ضمیراورنام نہاد علماکے نام بھی اِس فہرست میں جڑتے نظرآرہے ہیں۔اِن کے علاوہ بھی نہ جانے کتنے چھپے رستم ہماری ہی صفوں میں انتشارپھیلانے،قوم کوالوبنانے اورسبزباغ کی سیرکرانے کے لیے موجود ہوں گے ،جو ابھی تک عوامی نگاہوں سے اوجھل ہیں،لیکن اگراللہ نے چاہاتوپھر کسی دن اُن کی بھی نقاب کشائی ہو ہی جائے گی۔ گویاکہ یہ لوگ ”ناچ میری بلبل ؛کہ پیساملے گا“ کی دُھن اورخوب صورت تال پر رقص کررہے ہیں اور اپنی وفاداری کا پوراپوراثبوت دے رہے ہیں۔ اِس لیے کہ ”جس کاکھاوٴاُسی کا گاوٴ“ کا تقاضا اورنمک حلالی بھی تو یہی ہے ۔ایسے ہی حالات کی عکاسی کرتے ہوئے کسی نے کہاہے کہ
کچھ صاحبِ ہنر و قلم کار بک گئے
شاید میری ہی قوم کے سردار بک گئے
جن پر یقین کر کے میں کودا تھا جنگ میں
وقتِ سحر ہی سارے طرف دار بک گئے
وہ جانتے تھے حق و باطل کے فرق کو
پیسے کے سائے میں وہ خبردار بک گئے
کس پر کریں بھروسا یہ تم ہی بتائیے
اِس ملک کے تو سارے ہی فن کار بک گئے
ایک وقت ایساآئے گا:
حضرت ابوہریرہ کی روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادگرامی ہے:”بَادِرُوِابِالْاَعْمَالِ فِتَناً کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ ۔یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُوٴمِناً وَیُمْسِیْ کَافِراً۔أَوْیُمْسِیْ مُوٴمِناً وَیُصْبِحُ کَافِراً۔یَبِیْعُ دِیْنَہُ بِعَرَضٍ مِّنَ الدُّنْیَا“۔ کہ ایک وہ وقت بھی آئے گاکہ لوگ صبح کومسلمان اورشام کوکافر ہوجایا کریں گے۔ یا شام ایمان کی حالت میں کریں گے اورصبح کو کافر ہوجائیں گے ۔یہ لوگ چندٹکوں اورکھنکھناتے سکوں کے بدلے اپنے دین وایمان کو بھی بیچ ڈالیں گے۔(مسلم شریف:ج۱/ص۷۵)
فرمانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کاتھرمامیٹرراقم السطورنے سب کے سامنے رکھ دیاہے ۔اب اِس حدیث پاک کی میزان میں اپنے کارناموں کوتول کرخودہی فیصلہ کرلیاجائے کہ آج ہماراکیاحال ہے؟اوریہ کہ اِس وقت ہم کہاں کھڑے ہو کر کون ساخوب صورت گل کھلارہے ہیں؟
ڈنڈابھی ٹھنڈانہ کرسکا:
آج ساراملک ایک آوازبن کرآئینِ ہند کی حفاظت کی خاطرسڑکوں پراتراہواہے۔لاکھوں سلام ہو جامعہ ملیہ دہلی اورعلی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے طلبہ وطالبات پر؛کہ اُنھوں نے آنے والے خطرہ کوسب سے پہلے بھانپ کراپنے ہاسٹل اور جامعہ کی چہاردیواری سے باہرنکل کر پورے ملک کو جگا دیا ہے ۔ حکومت کی بے حسی اور پولیس کی بے رحمی بھی اُن کے پختہ عزائم اور ارادوں کوسردکرنے میں ناکام ہوگئی۔لاٹھی ڈنڈے کھاکر بھی اُن کے جوش وولولے اور حوصلے ٹھنڈے نہیں ہوئے۔لیکن ہمارے مسلم قائدین کا حال یہ ہے کہ اب تک اُن معصوموں، شاہین باغ دہلی کے شاہینوں اورجامعہ ملیہ کے بے گناہوں کی آواز میں بھی شامل ہونے کو تیار نظر نہیں آتے،جن کا جرم صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ ملک کے اندرڈاکٹربھیم راوٴامبیڈکرکی صدارت میں بنائے ہوئے ۷۰/سالہ قدیم قوانین کی حفاظت، آپسی اتحادواتفاق کی روایت اور گنگا جمنی تہذیب وثقافت کو بچانے کے لیے سر سے کفن باندھ کر میدان کار زار میں اترے ہیں اورحیرت کی بات یہ بھی ہے کہ۱۱۸/سال کی ریکارڈتوڑ سردی میں بھی ایک چٹان بن کر ڈٹے ہوئے ہیں۔
تم چوڑیاں پہن لو:
ایسے حالات میں یہ لوگ رہ نمائی کافریضہ انجام کیا دیں گے؟ وہ توہماری شاہین صفت ماوٴں اور بہنوں کو اپنے چٹانی عزائم سے بازرکھنے کے لیے دلِ دردمند لے کربڑے فکر مندہیں اوراِس سلسلے میں اپنی بساط کے مطابق کوششیں بھی کررہے ہیں۔ جیساکہ مورلینڈممبئی کی سرزمین کے واقعہ سے پتا چلتاہے کہ شہرکے معززین ومصلحین ہی احتجاج ختم کرانے کااعلان کرانے والے تھے،جوکسی کوبھی گوارانہیں تھااورلوگوں نے وہ رویہ اختیارکیا کہ اُن حضرات کو اپنے قدم پیچھے ہٹانے ہی میں اپنی عافیت نظرآئی۔کچھ اِسی طرح کاایک واقعہ دیوبندعیدگاہ کی سرزمین پر ہوچکاہے ،جس میں خواتین نے وفدمیں شامل۲۵/ اراکین کاسواگت اِس طرح کیاکہ اپنے ہاتھوں کی چوڑیاں برساکراُن کوپیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔اُنھوں نے اپنے جوش وجذبہ اورکرداروعمل سے پورے ملک کی خدمت میں یہ خوب صورت دعوت نامہ پیش کردیاہے کہ تم چوڑیاں پہن کر بیٹھ جاوٴ،ہم میدان سنبھال لیں گے۔
وظیفوں سے کام نہیں چلے گا:
اب سوال یہ اٹھتاہے کہ ایسے حالات میں امت کی رہ نمائی کون کرے گا؟ان جیالوں کی دست گیری کون کرے گا؟کس کی قیادت پرامت کے افرادنازکریں گے؟ڈوبتی کشتی کوساحل سے کیسے لگایاجاسکے گا؟کیا قوم کوصبروتحمل کی تلقین کرنے سے سارامعاملہ حل ہوجائے گا؟صرف وظیفے بانٹنے سے ہی کام بن جائے گا؟ایساکبھی نہیں ہوااورنہ ہوگا،بل کہ اب ہمارے سروں پروہ وقت آچکاہے کہ قائدین ملت کو آگے آنا ہوگااورمیدان عمل میں کمرِہمت باندھ کراترنا ہوگا۔ کیاہم گھر بیٹھے یہ سمجھ رہے ہیں کہ صرف:﴿ وَلَا تَھِنُوْاوَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّوٴْمِنِیْنَ﴾کی گردان کرتے رہنے سے سارے بند راستے کھل جائیں گے؟نہیں!!! کیوں کہ ارشادخداوندی یہی سگنل دے رہاہے کہ: ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُمَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ﴾خدا بھی تواُسی کی مدد کرتا ہے ،جواپنی مدد آپ کرنا چاہتا ہے ۔ شاعر مشرق علامہ اقبال (و:۱۸۷۷ء/م: ۲۱/ اپریل ۱۹۳۸ء بروز: جمعرات)فرماتے ہیں۔
خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
ہم بِک جاتے ہیں:
ہماری قیادت کاحال یہ ہے کہ اگرکوئی حکومت اُن کوچندٹھیکرے، پارٹی کاٹکٹ،اونچے عہدے کا خواب دکھاتی ہے اورکھنکھنا تے سکے اُن کی خدمت میں پیش کرتی ہے یاکرسی پر جلوہ افروزکر دیتی ہے، تواُن کی زبان مبارک پر گویا خاموشی کاتالا لگ جاتا ہے۔اب وفاداری نبھانابھی توضروری ہے ،اِس لیے اُن کی ہی آوازمیں اپنی آواز ملانے،ملکی اتحادواتفاق کی راہ میں دراڑڈالنے،جی حضوری اورچاپلوسی کرنے میں لگ جاتے ہیں۔وہ کرسی پربیٹھ کر آیة الکرسی کا سوداکرتے بھی نہیں شرماتے ۔ اُن کویاد رکھناچاہیے کہ ﴿اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ اللّٰہَ یَرٰی﴾اور سورہٴ قلم کی آیت نمبر۴۵/میں﴿وَاُمْلِیْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ﴾کے علاوہ ﴿ اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ﴾جیسی وعیدِ شدیدبھی قرآن کریم کے صفحات میں موجود ہے۔اب ان کویہ فکربالکل بھی نہیں رہتی کہ اُمت کی کشتی کارخ کدھر ہے اوریہ طوفان کہاں جا کر رکے گا؟
کام بن گیا:
میں نے اپنے بچپن میں سنااوراپنی آنکھوں سے دیکھاہے کہ ہماری بستی کے بڑے بزرگ ہوٹلوں کے دالان ،چھپرکے سائبان اوربانس کے بنے مچان پربیٹھ کرٹھیک ہی تو کہا کرتے تھے کہ:”ارے آج کا مسلمان بھی کیاہے؟وہ توایک چائے میں بک جاتا ہے“۔ اگرآپ کسی مقدمے ،زمینی تنازعات یاپھرگھریلوجھگڑے میں پھنس گئے ہیں،پنچایت یا پولیس اورکورٹ کچہری کے چکرکاچکرپڑگیا اورکسی سے اپنے مطلب کی بات کہلوانا اور جھوٹی گواہی دلواکراپنے حق میں فیصلہ کرا ناہوتوپھراُن پر اتنا کرم کروکہ کسی ہوٹل کی زیارت کرواکر صرف ایک چائے پلا دو، آپ کاکام بن جائے گا۔ یہ ایسا تیربہدف اورزوداثرنسخہ ہے ، جو کبھی ناکام نہیں ہوتا۔
یہ چائے توایک مثال ہے :
اب کب تک ہوٹل ہی میں بیٹھے رہیں گے؟ ذراہوٹل سے باہرنکلیں اورذراسااوپراٹھ کربات کی جائے کہ اگر کسی کے اوپررات کے اندھیرے میں نوٹ کی برسات ہونے لگے یاکرسی کی مراعات اورصدارت ووزارت ہی زندگی میں راس آ جائے تو پھر کیوں نہ اُن کا احساسِ ایمان ہندستان سے قبرستان کاراستہ اختیارکرے گا؟اب وہ یہ اپنے عیش وعشرت کی راہ میں سکندری دیواربننے والی اورخوشی ومسرت کے پھول کوبھول جانے کی دعوت دینے والی دعاہی بارگاہ ِ صمدیت میں کیوں کریں گے کہ یاپروردگارعالم!﴿اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾بل کہ اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے اور سوتے جاگتے اُن کے دکھے دل کی فریاد اور یہی دعا تو ہروقت بارگاہِ خداوندی میں ہوا کرے گی کہ
ہاں ! مرغ مسلّم دے ہاں گرم پراٹھا دے
سوکھی ہوئی آنتوں کو فوراً ہی جو چکنا دے
تھوڑی سی جو غیرت ہے وہ بھی نہ رہے باقی
احساسِ حمیت کو اِس دل سے نکلوا دے
القصہ ! میرے مالک تجھ سے یہ گزارش ہے
مرغی وہ عنایت کر ، جو سونے کا انڈا دے
عزت وذلت کے خزانے:
بہرحال!یہ چندجملے میں نے کسی کی دل شکنی کے لیے نہیں تحریرکیے ہیں۔بل کہ حالاتِ حاضرہ کاآئینہ؛ مصلحین امت اورغم گساران ملت کے سامنے پیش کیاہے،تاکہ اِس پرتھوڑاساغورکرنے کی زحمت کی جائے ۔ کیوں کہ عزت وذلت اورخوشی وغم کے خزانے ارباب اقتدارکے دربارمیں نہیں ہیں۔ارشادباری تعالیٰ ہے کہ: ﴿وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ﴾اورایک دوسری جگہ بالکل واضح الفاظ میں یہ بھی ارشاد فرمایاگیاہے کہ﴿وَلِلّٰہِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِہ وَلِلْمُوٴْمِنِیْنَ﴾یعنی عزت ؛اللہ،رسولوں اورمومنین کے لیے ہے ۔ ہوا کا رخ یا مصلحت دیکھ کر پلٹی مارنے والوں کے لیے نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم تمام کواِن معروضات پرعمل پیراہونے کی توفیق بخشے۔آمین!