انگریز کی تعلیمی پالیسی کا مقابلہ کرنے کے لیے علما کی جد و جہد:

            حضرت شاہ ولی اللہ اوران کے ہمنوا علمائے کرام نے ایک انقلابی جماعت کی بنیاد ڈالی، جس کے دوسرے امام شاہ عبد العزیز، اور تیسرے امام حضرت شاہ عبدالغنی،سید احمد شہید اور سید اسماعیل شہیدرہے اورآپ کی وفات کے بعد چوتھے امام حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی(وفات۱۳۱۷ ھ ۱۸۹۹)مقرر ہوئے۔ نیز آپ کے شرکا میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی(وفات ۸/۶/۱۳۲۳ھ) اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویخاص طور پر شامل تھے۔ ان حضرات نے ایک طرف عملاً انگریز کے خلاف جہاد کا آغاز کیا، جو بہمہ وجوہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہوا۔ دوسری طرف حضرت حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی(وفات ۱۲۷۲ھ- ۱۸۸۰) اور آپ کے رفقانے اپنی فراست ِایمانی اور دیدہ بصیرت سے اندازہ لگایا تھا کہ ان نازک حالات میں اگر مسلمانوں کو قرآن وحدیث اور دیگر علومِ اسلامیہ سے واقف کرانے کا کوئی معقول اورمستحکم بندوبست نہ کیاگیا ،تو سخت خطرہ ہے کہ مسلمان کہیں نصرانیت کے جال میں نہ پھنس جائیں۔ بس انھیں خیالات کے پیشِ نظر مورخہ ۱۵/محرم الحرام۱۲۸۳ھ بمطابق ۱۸۶۷ء بروز جمعرات دیوبند کی مبارک سرزمین پر چھتہ کی مسجد میں انار کے درخت کے نیچے ہدایت کا یہ شجرِطوبیٰ وجود میں آیا۔اس طرح ابتدا میں یہ مدرسہ عربی اور پھر دارالعلوم کے معروف نام سے موسوم ہوا۔

دارالعلوم کی تاسیس کے بارے میں ایک اور مؤرخ اس طرح منظر کشی کرتا ہے :

            دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی میں ناکامی کے بعد انگریزوں کے تعلیمی نظام ”ایک ایسی جماعت تیار کی جائے جو رنگ ونسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو؛ مگر فکر وعمل کے لحاظ سے عیسائیت کے سانچے میں ڈھلی ہو“کے حربے کے بعد ۳۰/مئی ۱۸۶۶ء میں اسلامی تعلیمی نظام ”جو رنگ ونسل سے تو ہندوستانی ہوں؛ لیکن قول وعمل کے لحاظ سے خالص اسلامی ہوں“کے تحت دیوبند میں قاسم العلوم والخیرات مولانامحمد قاسم نانوتوی، حاجی عابد حسین اور دیگر رفقا کے ہاتھوں مسجد چھتہ میں انار کے درخت کے نیچے رکھی گئی۔میری بنیاد صرف اس لیے رکھی گئی کہ یہا ں سے جنگ ِآزادی کے لیے لڑنے والوں کی ایک ٹیم تیار کی جائے، جو ہندستان سے قابض انگریزوں کو اکھاڑ پھینکے، جس کے تحت ”ریشمی رومال تحریک“ سامنے آئی۔ اور بعد میں بہت ساری تحریکات وجود میں آئیں۔

            سید محبوب رضوی لکھتے ہیں کہ:

            ”اس وقت بنیادی نقطہٴ نظر یہ قرار پایا کہ مسلمانوں کے دینی شعور کو بیدار رکھنے اور ان کی ملی شیرازہ بندی کے لیے ایک دینی وعلمی درسگاہ کا قیام ناگزیر ہے؛ چناں چہ طے ہوا کہ اب دہلی کے بجائے دیوبند میں یہ دینی درسگاہ قائم ہونی چاہیے۔“             (محبوب رضوی، تاریخ دارالعلوم دیوبند، ج 1، ص 169،المیزان،لاہور،2005ء)

            حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کو جب بتایا گیا کہ دیوبند میں ایک مدرسہ قائم کیا گیا ہے تو اس پر آپ نے فرمایا کہ:

            ”سبحان اللہ! آپ فرماتے ہیں ہم نے مدرسہ قائم کیا ہے۔ یہ خبر نہیں کہ کتنی پیشانیاں، اوقاتِ سحر میں سربسجود ہوکر گڑگڑاتی رہیں کہ خدا وندا! ہندوستان میں بقائے اسلام اور تحفظِ علم کا کوئی ذریعہ پیدا کر۔ یہ مدرسہ ان ہی سحرگاہی دعاؤں کا ثمرہ ہے۔“ ( گیلانی، مناظر احسن، سوانح قاسمی، ج 2، ص 223،مکتبہ رحمانیہ، لاہور)

            مولانا نانوتوی نے 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد کے نامساعد حالات میں جو طریقہٴ کار وضع کیا اس کے بنیادی اصول اور مقاصددرج ذیل تھے:

            (1) شاہ ولی اللہ کے اسلوب ِتدریس کی اساس پر دینی علوم وفنون کی طرف دعوت دینا۔

            2) عیسائیت اور ہندووٴں کی جانب سے اسلام کے حوالے سے پھیلائے گئے شکوک وشبہات کا ازالہ کرنا۔

            (3) کتاب وسنت کو مسلمانوں میں پھیلانے کے لیے جدوجہد اور کوشش کرنا۔

            (4) قابض اور مسلط حکومت سے تعاون لیے بغیر دین ِاسلام کی بیداری کے لیے اپنا مال اور جان خرچ کرنا۔

            (5) شاہ ولی اللہ کے فلسفے میں تجدید کرکے ہندستان میں دین کے غلبے کی تحریک کو نئے رخ پر ڈالنا۔

            (6) قدیم علوم وفنون میں انتہائی عمیق غوروخوض کرکے اسے ہندستان کے لوگوں کی ذہنیت کے قریب بنانا۔

            (7) ماہرینِ فلسفہ کی ”مخصوص اصطلاحات“ کو چھوڑ کر، عام ہندستانیوں کی زبان میں بات کرنا۔

            ان اصول ومقاصد کے حصول کے لیے ہی دار العلوم دیوبند قائم کیا گیا تھا۔بتانا یہ مقصود ہے کہ دارالعلوم کوئی رسمی علمی ادارہ نہیں تھا؛ بل کہ یہ اعلی مقاصد کے حصول کے لیے قائم کیا گیا تھا۔اگرچہ مولانا نا نوتوی  کے وصال کے کچھ عرصے بعد ہی دارالعلوم کے مقاصد کی تعیین کے حوالے سے معروضی بحث کاسلسلہ شروع ہوگیا تھا اور بعض اکابرین کی رائے یہ تھی کہ دارالعلوم کو محض تعلیم وتعلم تک محدود رکھنا مناسب ہوگا ؛کیوں کہ یہی اس کی علت غائی تھی۔تاہم بعض اکابرین کی رائے یہ تھی دارالعلوم کا مقصد محض تعلیم و تعلم ہی نہیں ؛بل کہ قومی و سیاسی نوعیت کے گمبھیر مسائل سے نبرد آزما ہونے اورحکومتِ برطانیہ سے آزادی کے حصول کے لیے منظم جماعت تیار کرنا تھا۔

            مولانا نانوتوی خود فرماتے ہیں:

            ”ہم نے دارالعلوم کے اصل مقصد پر درس و تدریس، علوم ِاسلامی کا پردہ ڈال دیا ہے۔“

( ماہنامہ الولی حیدر آباد،ج 14،شمارہ11،ص27،1991ء)

            چناں چہ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن  (جو کہ اس مدرسے کے سب سے پہلے طالب علم تھے) نے ایک موقع پر فرمایا:

            ”حضرت الاستاذ نے اس مدرسہ کو کیا درس و تدریس، تعلیم و تعلم کے لیے قائم کیا تھا؟ مدرسہ میرے سامنے قائم ہوا،جہاں تک میں جانتا ہوں ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کی نا کامی کے بعد یہ ارادہ کیا گیا کہ کوئی ایسا مرکز قائم کیا جائے، جس کے زیرِ اثر لوگوں کو تیار کیا جائے؛ تا کہ ۱۸۵۷ء کی ناکامی کی تلافی کی جائے۔“

 ( گیلانی،مناظر احسن،احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے ایام،ص170،ادارہ تالیفات اشرفیہ،ملتان،1997)

حضرت شیخ الہند نے مزید فرمایا:

            ”تعلیم و تعلم، درس و تدریس جن کا مقصد اور نصب العین ہے،میں ان کی راہ میں مزاحم نہیں ہوں، لیکن خود اپنے لیے تو اسی راہ کا میں نے انتخاب کیا ہے، جس کے لیے دارالعلوم کا یہ نظام میرے نزدیک حضرت الاستاذ نے قائم کیا تھا۔“( ایضاً،ص171)

            مولانا مناظر احسن گیلانی  دارالعلوم کے قیام کے پس منظر کے بارے میں لکھتے ہیں:

            ”جس وقت شاملی کے میدان سے وہ خود (مولانا نانوتوی) اور ان کے رفقائے کار بہ ظاہر ناکامی کے ساتھ واپس ہوئے، تویقیناًان کی یہ واپسی یاس ونامرادی کی واپسی نہ تھی اور نہ ہو سکتی تھی۔ واپس تو وہ بیشک ہوئے تھے لیکن یقیناًیہ واپسی مُتَحَرِّفاً لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزاً اِلٰی فِئَةٍ (الانفال) ”جنگ ہی کے لیے کتراتے ہوئے یا کسی ٹولی سے ملنے کے لئے“ہو سکتی تھی اور یقینااسی کے لیے تھی۔“

( گیلانی، مناظر احسن، سوانح قاسمی، ج 2، ص 222-223)

            دارالعلوم کے قیام کو انگریز سامراج کے خلاف نئے محاذ اور میدان کی تیاری سے تعبیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

            ”۱۸۵۷ء کی کشمکش کی نا کامی کے بعد قتال اور آویزِش کے نئے محاذوں اور میدانوں کی تیاری میں آپ (حضرت نانوتوی) کا دماغ مصروف ہو گیا۔ دارالعلوم دیوبند کا تعلیمی نظام اس لائحہٴ عمل کا سب سے زیادہ نمایاں اور مرکزی وجوہری عنصرتھا۔“( ایضاً،ص223)

            دیوبندمکتب ِفکر سے تعلق رکھنے والے حضرات کو موجودہ دور کے تناظر میں دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

            (الف) پہلا طبقہ وہ ہے جو دارالعلوم کو محض ایک رسمی تعلیمی ادارے کے طور پر پیش کرتا ہے۔اکابرین علمائے دیو بند کا حقیقی تعارف اوران کی مساعیٴ جمیلہ کا شعور نئی نسل میں منتقل کرنا ان کے مقاصد سے خارج ہے۔

            (ب) دوسرا طبقہ وہ ہے جوتحریک ِبالاکوٹ اور معرکہٴ شاملی جیسی عسکری مثالوں کو اکابرین ِدیوبندکی سنت قرار دیتے ہوئے فی زمانہ غلبہٴ دین کے لیے عسکری طریقہٴ کار اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔شیخ الہند  کی قائم کردہ جمعیةعلمائے ہند کی پالیسی ان کی نظر میں بے معنی ہے۔

            ہمارے خیال میں یہ دونوں مکاتب ِفکر دار العلوم دیوبند کے مقاصدسے کما حقہ آگاہی نہیں رکھتے؛چناں چہ پہلا طبقہ تو محض اپنے مدارس کی چار دیواری اور اس سے بھی بڑھ کر اپنی موروثی شہنشاہیت اور امارت قائم رکھنے کے لیے نئی نسل کو بے شعور رکھنا چاہتا ہے؛جب کہ دوسرا طبقہ اپنی کم علمی اور بے شعوری کے باعث غلبہٴ دین کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کرتا ہے۔

            بدقسمتی سے ہمارے مدارس میں تاریخ و مقاصدِ دیوبند کے حوالے سے کچھ زیادہ آگاہی نہیں دی جاتی۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہمارے مدارس اس نظریاتی دیوبند سے دور ہوتے جارہے ہیں ،جس کی بنیاد مولانا نانوتوی نے رکھی تھی؛ چناں چہ آج یہ بات شدت سے محسوس کی جارہی ہے اوروقت گزرنے کے ساتھ اس کا تقاضا پیدا ہو رہا ہے کہ ہم جائزہ لیں کہ کیا ہمارے مدارس مولانا نانوتوی کے وضع کردہ اصولوں پر چل رہے ہیں یا نہیں؟

            یقیناًاس گئے گزرے دور میں قال اللہ و قال رسول کی صدائیں غنیمت ہیں ،مگر کیا ہمارا دینی تقاضا بس یہی ہے کہ ہم اسی پر اکتفا کرکے بیٹھ جائیں اوراقامت ِدین کے لیے اپنے اکابرین کے طرز ِعمل کو یکسر نظر انداز کر کے تحفظِ مدارس کی فکر میں خود کو ہلکان کرتے رہیں؟ یہ کتنی بد نصیبی کی بات ہے کہ جو دارالعلوم اقامت ِدین کے لیے مورچے کاکردار ادا کرنے کے لیے قائم ہوا تھا، آج اس کے نام لیوا وٴں کو یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ مدارس کا وجود مٹادیا جائے گا۔در حقیقت یہ مسئلہ مدارس کے وجود وعدم وجود کا نہیں ؛بل کہ اپنی وراثت اور امارت کی بقاودوام کا ہے۔

            حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا نانوتوی کے قائم کردہ دارالعلوم دیوبند کی نسبت سے آج ہم دیوبندی کہلاتے ہیں، لیکن ہم میں سے اکثر یہ نہیں جانتے کہ دیوبند کسی عمارت یا رسمیت کا نام نہیں؛ بل کہ یہ ایک مستقل نظریے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک ایسا نظریہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے راستے پر چل کر ایک آزاد اسلامی نظام کے قیام کے لئے منظم جدو جہد کی دعوت دیتا ہے۔ چناں چہ ہمارے اکابرین کی جدو جہدِ آزادی اور وقت کی ظالمانہ اور طاغوتی طاقتوں کے خلاف قربانیاں اس نظریے کی زندہ مثالیں ہیں۔

            مولانا محمد قاسم نانوتوی نے دارالعلوم دیوبند کے جو اصول و ضوابط وضع کیے تھے وہ ”اصولِ ہشتگانہ“ کے نام سے موسوم ہیں۔ذیل میں ہم محض پہلے اصول پر اپنی معروضات پیش کرتے ہیں۔ پہلے اصول کی پہلی شق کے الفاظ یہ ہیں:

            ”آزادیٴ ضمیر کے ساتھ ہر موقع پر کلمة الحق کا اعلاء ہو۔ کوئی سنہری طمع، مربیانہ دباؤ یا سرپرستانہ مراعات اس میں حائل نہ ہوسکے۔“

( سید محمد میاں،علماء ہند کا شاندار ماضی،ج5،ص48،مکتبہ رشیدیہ،کراچی، 1992ء)

            لیکن آج بدقسمتی سے محض چند مدارس کو چھوڑ کر ہمارے مدارس کی اکثریت مولانا کے اس اصول پر پورانہیں اترتی۔ ہمارے مدارس میں آہستہ آہستہ آزادیٴ ضمیر کے ساتھ وقت کی جابر طاقتوں کے خلاف”اعلائے کلمة الحق“ کی اہلیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ دارالعلوم دیوبند اس لیے قائم ہوا تھا کہ1857ء کی جنگِ آزادی میں مسلمانوں کو ہونے والے عظیم نقصان کاازالہ کیا جا سکے۔جنگِ آزادی کی نا کامی کے بعد مسلمانانِ ہند ہندستان میں جس کسمپرسی کی حالت میں زندگیاں گزار رہے تھے اور عیسائی مشنریاں جس دیدہ دلیری سے شعائر ِ اسلام کا مذاق اڑانے اور مسلمانوں کو عیسائی بنانے میں سرگرم تھیں، اس کا تقاضہ تھا کہ ایک ایسا مرکز قائم کیا جائے، جہاں مسلمانوں کی دینی، سیاسی اور اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ وقت کی جابر طاقت یعنی حکومتِ برطانیہ کے خلاف ایسے رجال تیار کیے جائیں جو انہیں اس شکست کا مزا چکھادیں۔

            بنا بریں دارالعلو م کے قیام کا مقصد صرف درس وتدریس نہیں تھا، بل کہ ایک ایسا مرکز قائم کرنا مقصود تھا جہاں مسلمانوں کی بچی کھچی انفرادی صلاحیتوں کو اجتماعی شکل دیدی جائے۔ اور یہ اجتماعی طاقت اس مقصد کا احیاء کرے اور اس کام کو مکمل کرے، جو حضرت سیدین رحمہم اللہ کے ہاتھوں انجام نہ پاسکاتھا۔ چناں چہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا رشید احمد گنگوہی  اور خود مولانا نانوتوی کی زندگیاں اور کردار اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ ان کی زندگی کا طویل حصہ انگریز حکومت کے خلاف علمی وعملی جہاد میں گزرا۔

            نیز حضرت نانوتوی کا وضع کردہ پہلا اصول ہی ایسا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سنہری طمع، سرپرستانہ مراعات اور مربیانہ دباؤ میں آئے بغیر آزادیٴ ضمیر کے ساتھ حق گوئی سے باز نہیں آنا؛لہذا یہ اصول ہمیں یہ سوچنے کی دعوت دیتا ہے کہ ایک ایسے غلام ملک میں جہاں مذہب، حکومت اور آزادیٴ رائے پر کسی جابر وقت کا تسلط ہو، کیا یہ اصول بلاواسطہ نہ سہی بالواسطہ ایک انقلابی دعوت نہیں ہے؟!!

            اگر ہم اپنے گرد وپیش کا جائزہ لیں تو آج ملک بھر میں ہزاروں مدارس درس و تدریس میں مشغول ہیں اور ان سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا کی تعدادلاکھوں میں ہوتی ہے؛ لیکن اگر ان طلبا سے اپنے اکابرین کی جدوجہد کے بارے میں پوچھیں تو سخت مایوسی اور ناخوشگوار حیرت ہوتی ہے۔در حقیقت ہمارے مدارس نظریہٴ دیوبند سے بہت دور ہو چکے ہیں اور اس کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔

            (1) آج ملک بھر میں کوئی ایک مدرسہ بھی ایسا نہیں جو آزادیٴ ضمیر اور حریتِ رائے کے ساتھ مربیانہ دباؤ اور سرپرستانہ مراعات میں آئے بغیر عصرِ حاضرکے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے حوالے سے واضح لائحہ عمل یا پروگرام رکھتا ہو۔ اگر کوئی حق گو ”اعلائے کلمة الحق“ کرتا بھی ہے، تو اس کی اس انفرادی صدا کو مجذوب کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔

            (2) آج ہمارے مدارس کے مسندنشینوں کی حق گوئی محض اخباری بیانات اور جذباتی تقریروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ایک دوسرے پر تکفیر کے فتاوی جاری کرنے کو”اعلاء کلمة الحق“ سمجھ لیا گیا ہے؛جہاں ایک طرف دہشت گردی کا عذاب مسلط ہے؛ وہیں فتوی گردی کے عمل سے بھی کوئی دامن محفوظ نہیں رہاہے۔

            (3) آج ہمارے مدارس کی اکثریت مذہب اور سیاست کو الگ الگ رکھنے پر مصر ہے؛ چناں چہ اس رویے نے ہمارے معاشرے میں دین و دنیا کی تفریق کے تصور کومزید مستحکم کیا ہے؛ جس کے نتیجے میں مدارس اورسماج کے درمیان وسیع خلیج حائل ہوگئی ہے۔عوام میں یہ تاثر قائم ہوگیا ہے کہ علماء کا کام محض نکاح و وفات کی رسوم سر انجام دینا ہے،دیگر سماجی مسائل کا حل ان کے پاس نہیں ہے۔

            (4) فرو عی مسائل پر بحث شر وع دن سے رہی ہے؛ لیکن آج ہمارے دینی مدارس دین کے اس ایک محاذ کو محاذ ِکل سمجھے ہوئے ہیں؛ چناں چہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم معمولی اختلافات کا شکار ہو کر فرقہ درفرقہ بٹتے چلے جا رہے ہیں۔اس پر مستزادیہ کہ یہ فرقہ بندی مسلکِ دیوبند سے باہر کی نہیں؛ بل کہ آج دیوبندی کہلوانے والی بیسیوں جماعتیں ہمارے اردگرد موجود ہیں؛ چناں چہ نظریہ دیوبند انہی جماعتوں کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر رہ گیا ہے۔

            بہرحال مولانا نانوتوی کے گذشتہ ذکر کیے گئے پہلے اصول کی دوسری شق کے الفاظ یہ ہیں:

            ”اس (دیوبند) کا تعلق عام مسلمانوں کے ساتھ زائد سے زائد ہو؛ تاکہ یہ تعلق خود بخود مسلمانوں میں ایک نظم پیدا کردے، جو ان کو اسلام اور مسلمانوں کی اصل شکل پر قائم رکھنے میں معین ہو۔اور اس طرح اسلامی عقائد اور اسلامی تہذیب ہمیشہ کے لیے، ورنہ کم از کم اس وقت تک کے لیے محفوظ ہو جائے؛ جب تک کہ یہ مرکز اپنے صحیح اصول پرقائم رہے، نیز توکل علی اللہ اور عوام کی طرف سے احتیاج خودکارکنانِ مدرسہ کو اسلامی شان پر باقی رکھ سکے اور جابرانہ استبدادیا ریاست کا ٹھاٹھ ان میں قطعاً نہ پیدا ہو، بل کہ ایک ایسا تعلق ہو جو ایک کو دوسرے کا محتاج بنائے رکھے۔ اور اس طرح آپس میں خود ایک دوسرے کی اصلاح ہوتی رہے۔“ ( ایضاً)

            بدقسمتی سے ہمارے موجودہ مدارس مولانا نانوتوی کے اس اصول پر بھی پورا نہیں اترتے۔دیوبند کا مقصد تو یہ تھا کہ عوام الناس سے زیادہ سے ،زیادہ تعلق پیدا ہو اور اس کا سیاق و سباق یہ تھا کہ 1857ء کی تحریکِ آزادی میں انقلابی سوچ کی حامل ایک جماعت صفحہٴ ہستی سے مٹائی جا چکی تھی اور مسلمان قوم ہر جگہ انگریزوں کے شکوک و شبہات اور ظلم و ستم کانشانہ بنی ہوئی تھی۔ ان حالات میں مسلمانوں کے علمی حلقوں میں دو سوچیں ابھر کر سامنے آئیں۔

(الف) پہلی سوچ کے حامل وہ لوگ تھے جو انگریز سامراج سے قطعی مرعوب نہیں تھے؛ بل کہ ان سے شدید نفرت کے جذبات رکھتے تھے اور اپنی مذہبی، ثقافتی اور علمی روایات کو کسی طور پر چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے، اس فکر کی نمائندگی ”مدرسہ دیوبند“ کررہا تھا۔

(ب) دوسری سوچ کے حامل وہ لوگ تھے ،جو انگریز سامراج سے متاثرہو کر ہر میدان میں مدافعانہ اور غلامانہ سوچ کو پروان چڑھا رہے تھے اور اس فکر کی نمائندگی سرسید احمد خان کا قائم کردہ کالج علی گڑھ کررہا تھا۔

            ہمارے لیے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ ”علی گڑھ“ کا ادارہ ”دارالعلوم“ کے مقابلے میں قائم کیا گیا؛تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ انگریز سامراج نے اپنی حکمت ِعملی سے ان ہر دواداروں کو ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کیا اور ان کی باہمی رقابت سے سیاسی فوائد حاصل کیے۔ اس باہمی رقابت کو ولی اللّٰہی جماعت کے تیسرے دور کے امام شیخ الہند مولانا محمود حسن نے دور کیا اور اجتماعی ترقی وملی آزادی کے لیے ایک دوسرے کو مل جل کر کام کرنے کی دعوت دی؛ تاہم اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ مولانا نانوتوی جدید علوم وفنون یا انگریزی زبان کے مخالف تھے۔ حضرت نانوتوی جدید علوم وفنون کے قائل تھے اور ان علوم کا حصول طلبا کے لیے ضروری خیال فرماتے تھے؛ چناں چہ سید محبوب رضوی نے مولانا نانوتوی کی یہ تحریر نقل کی ہے کہ:

            ”اگر طلبائے مدرسہ ہذا، مدارسِ سرکاری میں جاکر علومِ جدید حاصل کریں تو ان کے کمال میں یہ بات زیادہ موٴید ہوگی۔“

( محبوب رضوی، تاریخ دارالعلوم دیوبند، ج2، ص 302)

            مولانا احمد عبدالمجیب قاسمی حضرت نانوتوی کے تصور ِعلوم جدیدہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

            ”جدید تعلیم کے حصول سے حضرت نانوتوی نے منع نہیں فرمایا اور کیسے منع کرتے ؟!وہ تو باخبر، زمانہ شناس اور صاحب ِبصیرت عالم تھے اورتقاضائے زمانہ سے آگاہ تھے، بل کہ ایک گونہ ترغیب بھی دلائی۔“

( حجتہ الاسلام الامام محمد قاسم نانوتوی: حیات۔ افکار۔ خدمات (مجموعہ مقالات)، ص 280، تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبند، نئی دہلی، 2005ء)

            تاہم ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مولانا نانوتوی نے عصری اور دینی تعلیم کے مشترکہ نصاب کو دارالعلوم میں کیوں جاری نہیں فرمایا؟ تو اس کا جواب مولانا نے خود یہ دیا ہے کہ:

            ”زمانہٴ واحد میں علومِ کثیرہ کی تحصیل، سب علوم کے حق میں باعثِ نقصانِ استعداد رہتی ہے۔“

( ایضاً،ص281)

            مولانا کے اس جملے سے واضح ہوجاتا ہے کہ وہ بیک وقت دینی وعصری تعلیم کی تدریس کو استعداد پیدا نہ ہونے کا باعث قرار دیتے ہیں؛ چناں چہ ان کا مقصد یہ تھا کہ دینی تعلیم کے حاملین، فراغت کے بعد عصری تعلیمی اداروں میں آئیں اور عصری تعلیم کے حاملین مدارسِ دینیہ میں آئیں۔ اگر وہ جدید علوم وفنون کے حوالے سے عصری تعلیمی اداروں کے مخالف ہوتے تو خود مولانا مملوک علی سے کیوں پڑھتے، جو شاہ عبدالعزیزکے فتویٰ کی روشنی میں انگریز کے قائم کردہ کالج میں نوجوانوں کی تربیت کا محاذ سنبھالے ہوئے تھے؛بل کہ مولانا گیلانی کے مطابق تو مولانا نانوتوی خود انگریزی زبان سیکھنے کے خواہش مند تھے اور دارالعلوم دیوبند میں سنسکرت زبان سیکھنے کا اہتمام بھی تھا۔

( گیلانی، مناظر احسن، برِصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت، ج 2، ص 40)

            حضرت شیخ الہند وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اس کمی کو شدت سے نہ صرف محسوس کیا؛ بل کہ ان دونوں تحریکات کے اشتراک کے نتیجے میں ایک قومی انقلاب برپا کرنے کے لیے کئی عملی اقدامات کیے۔مولانا اپنی مستقبل بینی اور عبقریت کی بناپر بھانپ گئے تھے کہ غلبہٴ دین کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور اس کی بنیاد پر حریت وآزادی کی جدوجہد کو کامیاب بنانے کے لیے دارالعلوم (دینی) اور علی گڑھ (عصری) کے اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے اپنی اس سوچ کا اظہار، جامعہ ملیہ کے تاسیسی جلسے میں اپنی آخری تقریر میں کیا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ:

            ”اے نونہالانِ وطن! جب میں نے دیکھا کہ میرے اس درد کے غم خوار (جس میں میری ہڈیاں پگھلی جارہی ہیں) مدرسوں اور خانقاہوں میں کم اور سکولوں اور کالجوں میں زیادہ ہیں، تو میں نے اور میرے چند مخلص احباب نے ایک قدم علی گڑھ کی طرف بڑھایا۔اور جس طرح ہم نے ہندستان کے دو تاریخی مقاموں (دیوبند اور علی گڑھ) کا رشتہ جوڑا، کچھ بعید نہیں کہ بہت سے نیک نیت بزرگ میرے اس سفر پر نکتہ چینی کریں اور مجھ کو محروم بزرگوں کے مسلک سے منحرف بتلائیں؛ لیکن اہلِ نظر سمجھتے ہیں کہ جس قدر میں بظاہر علی گڑھ کی طرف آیا ہوں، لیکن اس سے کہیں زیادہ علی گڑھ میری طرف آیا ہے۔“

( مدنی،حسین احمد،مولانا،نقشِ حیات،ج2،ص677،دارالاشاعت،کراچی)

            وہ لوگ جو حجرہ نشینی کے قائل تھے اوراقامت ِدین کے حوالے سے عملی جد وجہدسے فرار اختیار کرتے ہوئے، دار العلوم کو محض درس وتدریس تک محدود رکھنا چاہتے تھے، ان کے بارے میں حضرت شیخ الہند نے فرمایا:

            ”اسلام صرف عبادات کا نام نہیں؛ بل کہ وہ تمام مذہبی، تمدنی، اخلاقی، سیاسی ضرورتوں کے متعلق ایک کامل ومکمل نظام رکھتا ہے۔ جو لوگ کہ زمانہٴ موجودہ کی کشمکش میں حصہ لینے سے کنارہ کشی کرتے ہیں اور صرف حجروں میں بیٹھ رہنے کو اسلامی فرائض کی ادائیگی کے لیے کافی سمجھتے ہیں، وہ اسلام کے پاک وصاف دامن پر ایک بدنما دھبہ لگاتے ہیں۔ ان کے فرائض صرف نماز، روزہ میں منحصر نہیں؛ بل کہ اس کے ساتھ ہی اسلام کی عزت برقرار رکھنے اور اسلامی شوکت کی حفاظت کی ذمے داری بھی ان پر عائد ہوتی ہے۔“

( شاہجہان پوری، شیخ الہند مولانا محمود حسن: ایک سیاسی مطالعہ، ص 211،مجلس یادگار شیخ الاسلام، کراچی، 1988ء)

            غرض اربابِ مدارس کو آج اس بات پر سنجیدگی سے غورکرنے کی ضرورت ہے کہ آج کے مدارس اس نظریاتی دارالعلوم دیوبند سے کس قدر دور ہیں، جس کی نیو حضرت نانوتوی نے اٹھائی تھی۔ اگر دارالعلوم کسی نظریاتی جدوجہد کا نام ہے تو آج ہمارے مدارس بانجھ کیوں ہو گئے ہیں؟ ہمیں سوچنا چاہیے کہ آج ہندستان کی سب سے بڑی تحریک آزادی (دارالعلوم دیوبند) کے نام لیوا اسلام کو زندگی کے ہر شعبے میں زندہ رکھنے کے لیے کیا کررہے ہیں؟ آج کتنے مدارس ایسے ہیں جو حضرت نانوتوی کے اس پہلے اصول پر عمل پیرا ہیں؟ یہ بات بھی سوچنے کے قابل ہے کہ ارباب ِمدارس دیوبند کی تاریخ، اس کے مقاصد اور ان مقاصد کے حصول کے لیے علمائے دیوبند کی شاندار اور بے مثال قربانیوں کو اپنے نصاب ِتعلیم کا حصہ کیوں نہیں بناتے؟آخر کیا وجہ ہے کہ منطق وفلسفہ کی کتابیں تو نصاب کا حصہ بن سکتی ہیں ،مگر شاہ ولی اللہکی(الفوز الکبیر کے علاوہ)،شاہ عبد العزیز،مولانا نانوتوی،مولانا گنگوہی،شیخ الہند،مولانا مدنی اور سید محمد میاں رحمہم اللہ جیسے اکابر علمائے دیوبند کی کتب کیوں نہیں پڑھائی جاتیں؟

            حقیقت تو یہ ہے کہ آج ہمارے مدارس کے فاضلین اپنے اکابرین کے حقیقی تعارف سے محروم ہوچکے ہیں اور یہ ایک المیہ ہے جس کی ذمے داری اربابِ مدارس پر ہے،اگر آج ہم اس نظریاتی دیوبند کے اصول و ضوابط وحصول ِ مقاصد پر عمل پیرا ہیں تو اس کی عملی توجیہ ہو، بصورت دیگر ہمارے ان بانجھ اداروں کو اپنا تعلق اس عظیم نظریاتی دارالعلوم کے ساتھ جوڑنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔