برِصغیر پر مغرب کا اثر:
عرصہٴ دراز سے ہندستان میں ہند ومسلمان دونوں نے کئی بیرونی فاتح اور ان کے آوردہ اثرات دیکھے اور انہیں نمایاں حد تک اپنے حالات اور تہذیب وتمدن میں سمویا۔یہ اثرات زیادہ تر مسلمان بادشاہوں اور فرمان رواؤں کے ہمراہ ،ترکی، مشرقِ وسطیٰ اور مرکزی ایشاسے آئے ؛حالاں کہ وا سکوڈی گا ما کی گوا میں اور اس کے بعد سرٹامس روکی دربار ِجہانگیری میں آمد، یورپی اثرات اوران کے دخل کاپیش خیمہ ضرور تھیں؛لیکن صحیح معنوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی مقدماتی کارروائیاں ہی برِصغیر میں یورپی اثرات اور سیاست کا اولین قدم تصور کی جاسکتی ہیں۔
ہندوستان میں تین قسم کے حملہ آور آئے:
(۱)… بالکل وحشی جومقامی تہذیب میں جذب ہو گئے۔
(۲)… مہذب،جیسے یونانی: یونانی حلقہٴ اثر بہت محدو د تھا۔علاوہ ازیں اس زمانے تک یونانی اپنی مابعدالطبیعیات بھول چکے تھے۔ اس لیے اس معاملے میں ہندوؤں کو متاثر کرنے یا ان سے اثر لینے کا سوال پیدانہ ہوا، یونانیوں کا سب سے نمایاں اثرگندھارا آرٹ میں رہا۔
(۳)… مسلمان جواپنادین اور اپنی تہذیب لے کر آئے تھے، مگر توحید کا عقیدہ ہندووٴں سے مفاہمت کی بنیا د بن گیا ۔مسلمانوں کے زمانے تک کوئی بھی حملہ آور ایسی ٹیکنالوجی Technology لے کرنہیں آیاتھا، جو یہاں موجو د نہ رہی ہو۔مسلمانوں کا معاشرتی نظام ہندوؤں سے الگ تھا،مگرانہوں نے ہندوؤں کے معاشرتی نظام میں دخل اندازی نہیں کی۔
انگریز حملہ آور چند نئی چیزیں لے کر آئے:
۱- عیسائیت کے دعوے کے علاوہ انگریز ایک ایسا نقطہٴ نظر لے کر آئے، جو مابعد الطبیعیات سے بے بہرہ ہی نہیں ؛بل کہ سختی سے اس کا مخالف بھی تھا۔
۲- انگریز ایک نئی ٹیکنالوجی لائے۔
۳- انگریزوں کو اصرار تھا کہ وہ یہاں کے معاشرتی نظام کو بھی بدلیں گے۔
۴- انگریزپروپیگنڈے کی ذہنیت لے کر آئے۔
رفتہ رفتہ برِ صغیر میں انگریزوں کی پے درپے پیش رفت سے، ان کے سیاسی، سماجی، معاشرتی اور اقتصادی خیالات اور احکامات ہماری زندگی پر نمایاں طور پر اثر انداز ہونے لگے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیاانگریزوں نے ہماری زبان اور تعلیمی مسائل کی طرف بھی نظریں اٹھائیں۔
(سرسید اور حالی کا نظریہٴ فطرت:ص۱۵-۱۶)
شروع شروع میں انگریزوں کے زور پکڑنے کے ساتھ ساتھ، اہلِ ہند ان کی فرمانبر داری قبول کرتے گئے ۔یہی نہیں، انگریزی معاشرہ اورفکر سے اتفاق کر نے کے باوجود وہ چار و ناچاران کی موجودگی کو تسلیم کرتے گئے، حتیٰ کہ اپنے کاروباراور روزمرّہ کے رہن سہن اورطور طریقے کو نئے حالات کے مطابق کم وبیش ڈھالتے گئے۔
یہ کہنابھی ایک حد تک صحیح ہو گاکہ گو مشنری اور دیگر تبلیغی کا رروائیاں بعد میں کچھ زیادہ منظم ہوئیں اور انہوں نے زوربھی پکڑا، لیکن ہندستان میں مغربیت کا زوران مغربی خیالات سے شروع ہوا،جو عام طور پرانگلستان اور یورپ میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی بڑھتی ہوئی لادینیت سے وابستہ ہیں؛ اس زمانے ہی سے دنیا داری کا رجحان یورپ میں نمایاں طور پر فروغ پار ہاتھا۔ ہروہ چیز جوسہل ہو، بظا ہرپیچیدہ نہ ہوا ور فوری طور پرثمر بخش اورنتیجہ خیز ہو،مقبول ہونے لگی، اہم نکتہ اس سلسلے میں یہ ہے کہ یہ رجحانات ایسے تھے ،جو براہِ راست مذہب یا معاشرتی اور دیگر روایتوں سے ٹکراتے نہیں تھے اور اسی لیے ہندستانی مذاہب و ماحول میں رفتہ رفتہ جگہ پاتے گئے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب شروع شروع میں پرتگالی باشندے ”گوا “کی نو آبادی میں آباد ہوئے، تو ایک حد تک ان کا عقیدہ پروٹسٹنٹ ازم اور نشاةِثانیہ کے برعکس تھا، لیکن چوں کہ ڈیکارٹ اوربیکن نے جوشگاف مغربی فلسفہ ٴحیات میں ڈالاتھا، اس کے اثرات ایک عالمگیر حیثیت اختیارکر ہی چکے تھے،اس لیے یورپ کے ذریعے وہ ہندستان پر بھی پڑنے لگے۔مجملاًیوں کہا جاسکتا ہے کہ آہستہ آہستہ انگریزی زبان سیکھنا ہندستان میں ذریعہٴ معاش کے لیے لازمی ہو تاگیا اورپھر انگریزی زبان لکھنا اورپڑھنا رواج پاگیا۔ آخرکار اس بیرونی زبان کے علم کے ساتھ ساتھ یورپی بر اعظم کے خیالات ،رجحانات اور طرز ِفکر کا ہمارے اوپر اثر انداز اورحاوی ہونا ناگزیر ہوگیا۔
(سرسید اور حالی کا نظریہٴ فطرت:ص۱۷-۱۸)
برِ صغیر میں انگریزوں نے جیسے جیسے پاؤں جمائے اور مکمل تسلط کی طرف بڑھے ،ویسے ویسے اپنی تعلیمی پالیسیوں پر زیادہ زو ردینا شروع کی؛ اس سلسلے میں انیسویں صدی کے دو نمایاں اور بنیادی واقعات قابلِ ذکر ہیں۔
اول: ہندستانی تعلیم کے بارے میں سرچارلس دوڈ کا وہ مشہور مراسلہ جو بعدمیں ہندستان میں انگریزی تعلیم کا منشورِاعظم کہلایا۔ دوسرا ہنٹر ایجوکیشن کمیشن ۱۸۸۲ء کا قیام۔
چارلس دوڈ کے مراسلے کے چند نمایاں نکات درج ذیل ہیں:
۱- انگریز حکومت کا فیصلہ ہے کہ اس کی تعلیمی پالیسی مغربی طرز کی ہو۔
۲- اعلیٰ سطح کی تمام تر تعلیم کے لیے انگریزی زبان کا استعمال ناگزیر ہے، اس لیے تجویز پیش کی جاتی ہے کہ صرف انگریزی ہی ذریعہٴ تعلیم ہو۔ مقامی زبانوں کی اہمیت پر بھی زور دیا جائے؛ کیوں کہ مقامی زبانوں کے وسیلے سے ہی یورپ کاعلم عوام تک پہنچ سکتا ہے۔
۳- گاوٴں میں پرائمری اسکول قائم کیے جائیں، جہاں مقامی زبانوں کے ذریعے ہی تعلیم دی جائے اور اگلے مرحلے کے لیے” اینگلو“ورنا کیو لرہائی اسکول قائم کیے جائیں اور ہر صوبہ میں یونیورسٹی سے منسلک ایک کالج ہو۔
۴- نجی تعلیمی اداروں کو فروغ دینے کے لیے مالی مدد کی جائے، بشر ط یہ کہ یہ تعلیمی ادارے اپنا معیار بلند رکھیں۔
۵- تعلیم کا ایک محکمہ قائم کیا جائے، جو پانچوں صوبوں میں کمپنی کے کسی ڈائریکٹر کی سر پرستی میں تعلیمی ترقی کی نگرانی کرے۔
۶- لندن یونیورسٹی کی طرز پر کلکتہ ، بمبئی اورمدراس میں یونیورسٹیاں قائم کی جائیں۔
۷- پیشہ ورانہ تعلیم اور ٹیکنیکل کالجوں کے قیام پر زور دیا جائے۔
۸- استاذوں اور پڑھانے والوں کی تربیت کے لیے بھی برطانیہ کے کالجوں کی طرز پر تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں۔
۹- تعلیمِ نسواں پر بھی خصوصی توجہ دی جائے۔
انگریزی طرزِ تعلیم کا یہ نیا منصوبہ محکوم قوم پراس کے مضر اثرات کو نظر میں رکھے بغیر رائج کر دیاگیا۔اور دوڈکی تقریباً تمام تجاویز کو عملی جامہ پہنایا گیا۔
۱۸۵۷ء میں تین مقامات یعنی کلکتہ، مدراس اور بمبئی میں یونیورسٹیاں قائم ہوگئیں۔دوڈ کے مراسلے میں جوتعلیمی مقاصد درج تھے، آئندہ پچاس سال تک انگریز حکومت ہندستان میں انہی پر کاربند رہی، اسی دور میں ہندستان میں مغربی تعلیم اپنے عروج پر پہنچی۔ مشنریوں نے بھی اس مہم میں زبردست حصہ لیا، ان اسکولوں اورکالجوں کے زیادہ تر پرنسپل اور ہیڈ ماسٹر انگریز ہوتے تھے۔
(سرسید اور حالی کا نظریہٴ فطرت:ص۲۶-۲۷)
یہ تھی انگریزوں کی تھونپی ہوئی تعلیمی پالیسی اور اس کے بد ترین اثرات۔اس کے بعد ملک آزاد ہونے تک کیا ہوا؟ تو آییے لارڈ میکالے کی تجویز کردہ تعلیمی پالیسی کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں نے کیا کیا،اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔