انکارِ تاریخ سے انکارِ حدیث تک

براہِ راست۔محمداسماعیل ریحان

            دورِ حاضر میں خود رائی،آزاد خیالی،علماپر عدم اعتماد ،اپنے محدودمطالعے اورقیاسات پر حتمی یقین کا رجحان بڑھنے سے طرح طرح کی علمی وفکری گمراہیوں کو پنپنے کاموقع مل رہاہے۔ ان علمی وفکری گمراہیوں میں سے ایک خطرناک رجحان ”انکارِ تاریخ“ کابھی ہے۔ اس رجحان کے پیچھے اگرچہ عموماً اسلام اورمقدس شخصیاتِ اسلام کے دفاع کاجذبہ کارفرمادکھائی دیتاہے ،جو یقینا قابلِ تعریف ہے ،مگر جب اچھے جذبے سے کیاگیاکام،اسلاف کے علمی منہج سے ہٹ جائے تو اس کے بعد کسی بھی غلطی؛ بل کہ گمراہی کاشکارہوتے دیرنہیں لگتی۔”فتنہٴ انکارِ تاریخ“ میں مبتلا افراد عقائد کے دفاع کے جوش میں ان اسلامی مآخذکی جڑوں پر تیشہ چلارہے ہیں،جن پر دین استوارہے۔

            ”انکارِ تاریخ“ کارجحان،کوئی علمی بنیاد نہیں رکھتا۔بل کہ یہ ایک اورانتہاپسندانہ طرزِ فکر کے ردعمل میں پیدا ہواہے ۔اور وہ ہے تاریخی روایات کی حیثیت اور اسناد کی جانچ کیے بغیران پر آنکھیں بند کرکے ایمان لانا اوران سے حتمی نتائج اخذ کرکے تاریخ کوغلط شکل میں پیش کرنا۔

            دوتین صدیوں سے مستشرقین؛ اسلامی تاریخ کے مآخذ سے بہت سے واقعات کو غلط رنگ دے کر پیش کرتے آئے ہیں۔کمزوربل کہ موضوع روایات کو شہرت دے کراسلام کی مقدس شخصیات پر حملے کرنا بھی ان کی عادت ہے۔ ان کی تحریروں سے متاثرہوکربعض مسلم اسکالرز نے بھی”تاریخ“ کی ہر روایت پر بلاتردد یقین کرنے اورماضی کی شخصیات اور واقعات پر بے دھڑک تبصرے کرنے کی روایت کو جنم دیا۔نتیجہ یہ نکلاکہ صحابہ کرام بھی ان کے قلم کی زد سے محفوظ نہیں رہے۔

            اس طرزفکر کی تردید میں کچھ لوگ اسلامی شخصیات؛ خصوصاً صحابہ کرام کے دفاع میں دوسری انتہا پر چلے گئے اور انہوں نے یکسر تمام تاریخ کو ساقط الاعتبار اورتمام موٴرخین کو بدعقیدہ، گمراہ، سبائی ایجنٹ اور اسلام دشمن تصور کرلیا۔ان کاکہناہے کہ ہمارے لیے قرآن وحدیث ہی کافی ہے۔تاریخی روایات کو ہم منہ لگانے کے قابل ہی نہیں سمجھتے۔

            بہ ظاہر یہ سادہ سی بات لگتی ہے، مگر درحقیقت یہ مسئلہ اتنا ہلکانہیں ہے۔اگراسے کوئی ایک آدھ کالم، مضمون یاکسی بیان وتقریرتک محدودرکھے توشایداسے خود بھی اندازہ نہیں ہوپائے گاکہ وہ کتنا بڑا دعویٰ کررہا ہے۔ حقیقت اس وقت کھلتی ہے ،جب اس دعوے کی علمی بنیادوں پر وارد ہونے والے اشکالات اور الجھنوں سے سابقہ پڑتاہے۔ ایسے میں اپنے موقف کے دفاع میں انسان”انکارِ تاریخ“ سے سفرشروع کرتااور”انکارِ حدیث“ پر جاپہنچتاہے۔یہ کوئی ہوائی بات نہیں،زمینی حقیقت ہے۔میں ایسے حضرات کو جانتاہوں جو کل اسلامی تاریخ کو جھوٹ کاپلندہ بتاتے تھے اورآج وہ حدیث پر اعتماد سے بھی محروم ہوکر صرف قرآن سے روشنی لینے کاپرچارکررہے ہیں کیوں کہ ذخیرہٴ حدیث بھی ہرجگہ ان کے دعووں کاساتھ نہیں دیتا۔

            ایسے ہی ایک صحافی دوست، یزید بن معاویہ کی مدح میں بخاری کی حدیثِ قسطنطنیہ کی روایت کا ذکر کر رہے تھے۔(روایت اپنی جگہ بالکل صحیح ہے اوریزید کواس جہا د کی قیادت کی سعادت ملنا بھی یقینا ثابت ہے) تاہم میں نے دوسرے پہلوپرتوجہ دلاتے ہوئے عرض کیاکہ بخاری میں یہ بھی توہے کہ یزید کے دورمیں حرم مکہ پر حملہ کیا گیا اور ایک صحابی ابوشریح رضی اللہ عنہ نے جب اس سے منع کیاتویزید کے گورنر عمروبن سعید نے انہیں جلی کٹی سنائیں۔ (بخاری شریف،حدیث نمبر ۵۹۲۴ باب لیُبلغ العلم)

            یہ سن کر وہ صحافی دوست فوراً بولے:”ہم ایسی حدیث کونہیں مانتے جو قرآن کے خلاف ہو۔امام بخاری شیعوں سے بلاتردد روایات لیتے تھے۔ایسی حدیثیں پھینک دینے کے قابل ہیں۔“

 یہ ذہنیت اب عام ہوچکی ہے۔انکارِ تاریخ کاسلسلہ انکارِ حدیث تک دراز ہوتا جا رہاہے۔

            یہ درست ہے کہ ہر دورکی تاریخ کاہمارے دین سے تعلق نہیں۔ دنیامیں حالات وواقعات پیش آتے رہتے ہیں اوران کے بارے میں ہر وقت آراء مختلف رہتی ہیں۔ایک بات ایک گروہ کے نزدیک یقینی ہوتی ہے اوردوسرافریق اسے سفید جھوٹ قراردیتاہے۔ایک حکمران کسی کے ہاں ممدوح ہوتاہے اور کسی کے نزدیک قابلِ ملامت۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جس تاریخ کو آج کل یکسر قابلِ ترک قرار دیا جا رہا ہے،اس میں پہلی صدی سے تیسری صدی ہجری کے راویوں کا جمع کردہ ذخیرہٴ روایات بھی شامل ہے۔یہ سیرتِ رسول، دورِ صحابہ اور ایام تابعین وتبع تابعین کی تاریخ ہے۔

            اس تاریخ کا یکسر انکار کرنے کے بعد انسان انکارِ حدیث سے نہیں بچ سکتا۔کیوں کہ جن راویوں کو ہم تاریخِ طبری،طبقات ابن سعد اورانساب الاشراف جیسے بنیادی تاریخی مآخذمیں دیکھتے ہیں،ان میں سے بہت سوں کو بخاری،مسلم، موٴطا، ابوداوٴد، ترمذی، نسائی اورطحاوی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید کی تفسیر کے بنیادی مآخذ میں بھی ان راویوں کے نام باربارملیں گے۔اگرقرونِ اولیٰ کی تاریخ کو خرافات کا مجموعہ قرار دے دیاجائے تویہ ثقہ راوی بھی غیرمعتبر قرارپائیں گے۔ اب ظاہر ہے کہ جو حضرات تاریخی معاملات تک میں قابلِ اعتماد نہ مانے جائیں،تفسیرِ قرآن اور حدیثِ رسول کے بارے میں ان پر کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے، جہاں ہر قدم پر تاریخ سے کہیں بڑھ کر حزم واحتیاط کی ضرورت پیش آتی ہے؟

             عقائد،عبادات، اوامر ونواہی اور حلال وحرام کے سارے احکام کادارومدار تفسیر وحدیث کے ذخیرے پر ہی توہے۔اگر تاریخ سراسرجھوٹ کا پلند ہ ہے تواسی کے درجنوں ناقلین سے منقول ذخیرہٴ حدیث کی وہ سیکڑوں احادیث بھی ساقط قرارپائیں گی، جنہیں بخاری ومسلم اورامام احمد جیسے محدثین پورے اعتماد سے پیش کررہے ہیں۔یہی نہیں ، بل کہ خود یہ محدثین اورفقہابھی اصولِ دین اور علم روایت ودرایت سے تہی دست اور جاہل قرار پائیں گے۔ان کی باقی روایات بھی مشکوک ہوجائیں گی۔یہ خدشہ ہمیشہ رہے گاکہ وہ بھی جعلی اوربناوٹی نہ ہوں۔عین ممکن ہے کہ کوئی انہیں بدعتی،گمراہ اورسبائی ایجنٹ تصورکرکے کہے کہ وہ جان بوجھ کراسلام کے نام پریہ گمراہی پھیلاتے رہے۔ اس کے بعد ہمارے پاس اسلامی عقائد واحکام کا کون ساماخذبچے گاجس پر ہم اعتماد کرسکیں؟

             ایک مثال سے اس بات کوسمجھئے۔تاریخِ طبری میں حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کاواقعہ مختلف راویوں سے منقول ہے۔ان میں سے بیشتر راوی ضعیف ہیں۔ مثلاً ابومخنف اورہشام کلبی وغیرہ۔ اس بات کوبنیادبناکر کچھ حضرات واقعہٴ کربلا کو محض افسانہ قراردے رہے ہیں اوراس سانحے میں اس دور کے حکام کی زیادتیوں کوتسلیم کرنے کے لیے اس لیے تیار نہیں کہ یہ واقعات تاریخ میں بیان ہوئے ہیں،قرآن وحدیث میں نہیں۔ان کے خیال میں خیر القرون کے لوگ ایساظلم نہیں کر سکتے تھے۔

            مگر طبری نے یہ واقعہ بعض معتبر محدثین اورثقہ راویوں سے بھی نقل کیا ہے، جن میں سے حصین بن عبد الرحمٰن، ابو عوانہ،سعیدبن سلیمان الضبی الواسطی اور عباد بن العوام قابل ذکرہیں۔ان حضرات سے امام بخاری،امام مسلم،امام ابوداوٴد،امام ترمذی اورامام نسائی نے روایتیں لی ہیں۔حافظ ابن حجر اور حافظ ذہبی جیسے ناقدین نے ان حضرات کو ثقہ،ثبت اورحجت کہا ہے۔(تقریب التہذیب: ۸۳۱۳، ۹۲۳۲، ۳۹۰۴،۹۶۳۱۔تاریخ بغداد:ا ۱۹۱۴، سیر اعلام النبلاء ۲۱/۶۷۳)

            اگر واقعہ کربلا کو افسانہ تصورکرلیاجائے تواتناہی نہیں ہوگاکہ یہ سارے راوی گپ باز اورفریبی قرار پائیں گے ، بل کہ صحاحِ ستہ کی وہ تمام روایات بھی ہمارے لیے ناقابلِ اعتماد ٹھہریں گی جواُن روایوں سے منقول ہیں۔ پھر ایک واقعہ کربلا پر ہی کیاموقوف ہے،طبری میں مزیددرجنوں حوادث اور قضایا ایسے ہیں جنہیں محدثینِ صحاحِ ستہ کے شیوخ سے نقل کیاگیاہے۔کیا صحاح کی ایسی تمام روایات ترک نہیں کرنا پڑیں گی، جن کے راویوں کو تاریخ طبری میں افسانہ ساز مانا جارہا ہے؟

             پھر بات طبری اورصحاحِ ستہ ہی کی نہیں،اس دورمیں تالیف کی گئی باقی تمام کتبِ تاریخ وسیرت تک بھی پہنچے گی جو بعد کے تمام اسلامی لٹریچر کے لیے بنیادی مآخذکی حیثیت رکھتی ہیں ۔مثلاً سیرت ابن اسحق، سیرت ابن ہشام،فتوح البلدان،طبقات ابن سعد، انساب الاشراف، تاریخ خلیفہ بن خیاط، تاریخ المدینہ لابن شیبہ وغیرہ۔ان کتب کے راویوں اوران کے شیوخ سے منقول روایات کو تمام کتبِ حدیث وتفسیر میں چھانا جائے توایسی روایات کی تعداد سیکڑوں میں ہوں گی، جن سے عقائد،عبادات، معاملات اور نکاح وطلاق جیسی بنیادی اسلامی تعلیمات میں استفادہ کیا جارہاہے۔پس اگر آج ان موٴرخین اور راویوں کوافسانہ نویس تصور کرلیا جائے تونتیجہ یہ نکلے گاکہ کتبِ حدیث وتفسیر سے بھی اعتماد اٹھ جائے گا۔

            انکارِ تاریخ کے علم بردار حضرات کے ساتھ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود کو صحابہ کرام کے دفاع کا واحد اجارہ دار تصورکرتے ہیں اوراس معاملے میں انہیں اس حدتک غلو ہے کہ وہ اپنے غیرعلمی طرزِ استدلا ل کوحتمی باورکرانے اور خود کوبرحق جتانے کے لیے ”جمہوراہلِ سنت“ کوسبائیت زدہ قراردینے میں ذرابھی تامل نہیں کرتے۔جیساکہ ان کے ایک امام برملافرماتے ہیں (اوران کے پیروکاران کایہ قول بڑے فخر سے نقل کرتے ہیں) کہ”صحابہ کی عظمت بچانے کے لیے اکابر کے سرجھکادواوراسلاف کی پگڑیاں گرادو۔“

            ہم کہتے ہیں کہ اکابر اوراسلاف ہی سے ہم نے صحابہ کی عظمت سیکھی ہے۔انہی سے صحا بہ کاتعارف ملا ہے۔اگر اصول وضوابط کے مطابق علمی ونظری بحث ہو تودفاعِ صحابہ کے لیے اسلاف کوسبائیت زدہ کہنے کی ضرورت کہیں بھی پیش نہیں آئے گی۔ہاں !جس بے اصولی کے ساتھ آپ دفاع کرنے نکلے ہیں، اس میں صحابہ کوبچاتے بچاتے،اپنے پاس حدیث رہے گی نہ قرآن۔

            ان حضرات نے دفاعِ صحابہ کاایک ہی خودساختہ اصول ملحوظ رکھاہواہے کہ جو بات بھی صحابہ کی صفات کے خلاف محسوس ہو،جوان کے حق میں نامناسب لگے اسے رد کردیا جائے۔قولِ اکابرہویا قول ائمہ مجتہدین،وہ تاریخی روایت ہو یا حدیث۔ صحیح ہویاضعیف۔

            یہ اصو ل بالکل آزادہے۔ اسے پیش کرتے ہوئے کبھی یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ کون سی چیزیں درحقیقت صحابہ کی صفات کے دائرے میں داخل ہیں اورکون سی نہیں۔ جو باتیں اسلاف کے نزدیک بشری تقاضے، اضطراری غلطیاں یاتکوینی چیزیں شمار ہوتی تھیں، آج انہیں بھی صفاتِ صحابہ کے خلاف تصور کرکے اسلاف کو لتاڑا جا رہاہے کہ انہوں نے ایسی باتیں کیوں نقل کیں۔

             اگراس عجیب اصول کومدارِ تحقیق بنایاجائے گاتواس کی زدمیں سیکڑوں صحیح روایات بھی آئیں گی۔ فقط جنگ جمل اورصفین کی احادیث نہیں،بل کہ ہر وہ روایت آئے گی جو کسی کوعجیب لگے گی۔ اس خودساختہ اصول پر وہ آیات بھی پوری نہیں اترتیں، جن میں صحابہ کوبعض لغزشوں پر تنبیہ ہے۔کہیں غزوہٴ احد سے فرار پر،کہیں بدر کے قیدیوں کے مسئلے پر۔ جوعلم سے جتنازیادہ تہی دست ہوگا،اسے اتنی ہی زیادہ روایات پر اشکال ہوگا اوروہ اصرارکرے گاکہ یہ جعل سازی ہے۔

             حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کارازاہلِ مکہ پرفاش کرنے کی کوشش کرنا، حضرت ماعز کا واقعہ، غامدیہ صحابیہ کی چوری،خثعمیہ کاسنگ سارہونا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاحضر ت ابوہریرہ کورائے کے اختلاف کی بناپر دھکادے کر زمین پرگرادیناسبھی غیرمعتبر لگے گا۔صحابہ کے علمی تفردات بھی؛ جواپنی جگہ ثابت ہیں مگر معمول بہانہیں،صفاتِ عالیہ کے خلاف محسوس ہوں گے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کاآگ پر پکی ہوئی چیزیں استعمال کرنے سے وضو ٹوٹنے کا فتویٰ دینا،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک ستر چھونے سے وضو ٹوٹ جانا،حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک بلوغت کے بعدبھی رضاعت ثابت ہوجانا،حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک تیمم میں گٹوں تک ہاتھ پھیرنا کافی ہونا کتنے ہی مسائل ہیں ،جنہیں دیکھ کر کہنے والاکہہ سکتاہے کہ صحابہ کاصحیح مسئلے سے لاعلم رہنا ناممکن ہے۔ پس یہ روایات ان کی شان کو مجروح کرنے کے لیے گھڑی گئی ہیں۔کسی کو ایک حدیث ”اولئک ہم الراشدون“ کے خلاف لگے گی،کسی کودوسری حدیث ”رُحماء بینہم“سے متصادم لگے گی۔

             غرض لوگوں کو علی الاطلاق انکارِ تاریخ کادرس دینا توآسان ہے ،مگر اس فتنے کادروازہ کھول کر انہیں انکارِ حدیث سے محفوظ رکھنابہت ہی مشکل ہے۔

            اسلاف اورہمارے اکابرمیں سے یہ دعویٰ کسی کونہیں کہ کتبِ تاریخ کی ہر ہر روایت ہر موقع پر قابلِ استدلال ہے۔نہ ہی کوئی یہ کہتاہے کہ ان میں ضعیف اورموضوع روایات نہیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ان میں صحیح اورضعیف اوربعض موضوع روایات ملی جلی ہیں مگرچوں کہ ہر موٴرخ نے اپنی روایات کو محدثین کے انداز میں اپنے سلسلہٴ اسناد کے ساتھ پیش کیاہے اس لیے اہلِ علم صحیح،حسن اورضعیف کا پتالگاسکتے ہیں۔ اسی لیے کتبِ تاریخ کے بیشتر مواد کو اصحابِ جرح وتعدیل قابلِ اعتماد قراردیتے آئے ہیں۔

            ضعیف روایات کواہلِ علم نے جمع کیا ہے تو کچھ سوچ سمجھ کرہی ایسا کیاہے۔ مانا کہ عقائد،احکام اور سنن کی بحث میں ضعیف روایات قابلِ استدلال نہیں ہوتیں۔اسی طرح اہلِ اصول نے اسلامی عقائد کی مخالفت، بدعات کی حمایت اورمقدس شخصیات پر طعن سے آلودہ ضعیف روایات کو بھی ساقط الاعتبار کہا ہے۔ مگراس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ضعیف روایات ہر جگہ ہروقت قابلِ ترک ہوں۔جس طرح کتبِ حدیث میں فضائل ومناقب سے متعلقہ روایات کو ضعف کے باوجودقابلِ قبول ماناجاتاہے،اسی طرح تاریخی جزئیات کے لیے بھی ضعیف روایات مقبول ہوتی ہیں۔ حافظ ابن کثیر،حافظ ذہبی،حافظ ابن حجر، علامہ ابن تیمیہ اورحافظ ابن قیم رحمہم اللہ جیسے محتاط اورنقادحضرات کو بھی ان سے استفادہ کیے بغیر کوئی چارہ نہیں رہا۔

             پس اگر کسی کومسلکِ اہل سنت والجماعت پر قائم رہنا ہے تو اسے ان کتبِ تاریخ کو وہی حیثیت دینا ہوگی جو اسلاف دیتے آئے ہیں۔ بصورتِ دیگر اسے ا پنے دعوے کی بنیادوں کادفاع کرنا مشکل ہوگا اورپسپائی اسے پہلے ذخیرہٴ حدیث میں شکوک وشبہات اورپھر انکارِ حدیث تک پہنچاکررہے گی۔

            منکرینِ حدیث کے سواسب مانتے ہیں کہ قرآن کی تفسیر بھی حدیث کے بغیرنہیں سمجھی جاسکتی اور حدیث کاپوراسلسلہ،رجال پر موقوف ہے۔ اگر علم رجال کا اعتبار ختم ہوجائے تو ہم کسی ایک حدیث کوبھی صحیح اورمعتبر ثابت نہیں کرسکتے۔علم رجال کی کتب میں جن حضرات کو ثقہ،حجت اورصادق کہہ دیاگیاہے،ہمارے لیے ان پر اعتماد کیے بغیر چارہ نہیں۔

            رجال کی قدیم کتب میں العجلی کی” الثقات“،امام نسائی کی” الضعفاء والمتروکون“ اورابن حبان کی” الثقات“ قابل ذکر ہیں۔ساتویں اورآٹھویں صدی ہجری میں اسماء الرجال کے قدیم ذخیرے سے استفادہ کرکے موسوعات کی طرزپر کام ہوا۔ حافظ ذہبی،علامہ مزی،علامہ سبکی اورحافظ ابن حجرجیسے وسیع النظر محققین اس میدان میں پیش پیش تھے۔چناں چہ سیراعلام النبلاء،میزان الاعتدال، تہذیب الکمال، تہذیب التہذیب اورلسان المیزان جیسے علمی شاہکاروجود میں آئے۔جن میں حدیثی،تفسیری، فقہی اور تاریخی روایات کے تمام راویوں کے کوائف محفوظ کردیے گئے۔ اگرچہ بعض راویوں کے بارے میں اصحابِ جرح و تعدیل کی آراء مختلف بھی ہیں، مگر جسے سب نے یااکثریت نے معتبر قراردیاہو،اسے معتبر ما ناجاتاہے۔ اسی طرح جسے اکثریت نے مجروح،ضعیف یاکذاب ماناہو،اسے ترک کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔غرض اسلامی علوم سے متعلقہ کسی بھی روایت پر تحقیق کے لیے کتبِ رجال پر اعتماد کیے بغیر ہم ایک قدم بھی نہیں چل سکتے۔

            منکرینِ تاریخ،اسماء الرجال کاانکارنہیں کرتے، بل کہ بڑے شد ومد سے نہ صرف اس پر اعتماد کا اظہارکرتے ہیں بل کہ اس فن میں اپنی مہارت کادعویٰ کرتے ہوئے جگہ جگہ کتبِ جرح وتعدیل کے حوالے دے کراپنی علمیت کارعب جتانے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر درحقیقت اس بارے میں بھی ان کی حالت بارش سے بچ کر پرنالے کے نیچے کھڑے ہونے والوں سے مختلف نہیں۔ کیوں کہ علم رجال کے اس عظیم الشان ذخیرے کی حیثیت بھی تاریخ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ یہ بھی کوئی قرآن وحدیث نہیں،انسانوں کے بارے میں انسانوں کی آراء کاریکارڈہے۔ جوشخص تاریخ کویہ کہہ کر مستردکرتاہے کہ یہ کوئی قرآن وحدیث نہیں تو اس پر خود بخود یہ سوال عائد ہوتاہے کہ وہ آخر علم الرجال پر کس طرح اعتماد کررہاہے،وہ بھی توتاریخ ہی کی ایک قسم ہے۔ اسی لیے علم الرجال کی ابتدائی کتب مدوّن کرنے والوں نے انہیں ”تاریخ“ کانام دیاتھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے رجال کے بارے میں جوروایات جمع کیں انہیں التاریخ الکبیر،التاریخ الاوسط اورالتاریخ الصغیر کا نام دیا۔ امام یحییٰ بن معین کے پاس محفوظ رجال کاعلم،مدون ہوکر ”تاریخ ابن معین“ کے نام سے موسوم ہوا۔اسی طرح ابن ابی خیثمہ نے رجال کے بارے میں اصحابِ جرح وتعدیل کی آراء کو”تاریخ ابن ابی خیثمہ“ کے نام سے مدون کیا۔خطیب بغدادی نے بغداد کے رجال کے حالات کو ”تاریخ بغداد“ میں جمع کیا۔

            رجال میں جب صحابہ کے حالات کوالگ جمع کیاجانے لگاتوعلامہ ابن عبدالبر کی الاستیعاب،ابن اثیر جزری کی اسد الغابہ اورحافظ ابن حجر کی الاصابہ جیسی کتب معرضِ وجود میں آئیں۔ یہ وہ کتب ہیں جن کے بغیر ہمیں صحابہ کرام کے حالات بھی معلوم نہیں ہوسکتے۔

            اسی علم رجال کوجب طبقات کی شکل میں مدون کیاگیا تو اسے علم طبقات کانام دیاگیااورطبقات ابن سعد،طبقات خلیفہ،طبقات نسائی،طبقات الفقہاء،طبقات الحنابلہ،طبقات الشافعیہ الکبریٰ اور الجواہر المضیئیہ فی طبقات الحنفیہ جیسی کاوشیں سامنے آتی چلی گئیں۔

            جن حضرات نے تاریخ،علم الرجال،حالاتِ صحابہ اورطبقات کی کتب کاتھوڑابہت مطالعہ بھی کیاہے، وہ جانتے ہیں کہ ان سب میں ایک دوسرے سے جگہ جگہ استفادہ کیاگیاہے۔ یعنی رجال میں بہت سی روایات،طبری جیسی کتبِ تاریخ سے نقل کی گئی ہیں۔ اسدالغابہ،الاصابہ اورالاستیعاب میں صحابہ کے حالات کابڑاحصہ کتبِ تاریخ سے لیاگیاہے۔ البدایہ والنہایہ اور تاریخ اسلام ذہبی جیسی ضخیم کتبِ تاریخ میں سیکڑوں روایات علم رجال کی کتب سے لی گئی ہیں۔ ان سب کے ناقلین ایک دوسرے کے علم سے استفاد ہ کرکے اسلامی شخصیات کے ریکارڈ کو درجہ بدرجہ آگے بڑھاتے رہے۔جب اسماء الرجال کے ماہرین خود تاریخ سے استفادہ کرنے کے عادی رہے ہیں تو آج تاریخ کے منکرین کس بنیاد پرتاریخ سے دست برداری کی دعوت دے رہے ہیں۔             تاریخی روایتوں کو وحی کی طرح خبرِ قطعی کادرجہ دینا بھی غلط ہے۔علما ان میں صحیح وسقیم کافرق ملحوظ رکھنے اور تحقیق و تنقیح کی ضرورت سے انکار نہیں کرتے۔مگر دوسری انتہا پر جاکرانہیں خرافات کامجموعہ کہنااور موٴرخین کوبے دھڑک سبائی ایجنٹ قراردے دینابھی نری جہالت ہے۔اعتدال کی راہ یہ ہے کہ ان روایات کواسی مقام پر رکھاجائے، جواہلِ اصول نے مقررکیاہے۔ تدریب الراوی اورالکفایہ فی علم الروایہ جیسی کتب میں یہ اصول تفصیل سے موجودہیں۔ (فلیراجع الیہ)