طاعت اور معصیت کی حقیقت
ماخوذ ازہدیة المتسابقین فی کلام سید المرسلین
سالار نظامت وبلبل ہندحضرت مولانا عبدالرحیم فلاحی
عنِ النوَّاس بن سَمعانَ الأنصاریِّ – رضی اللہ عنہ- قال : سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْبِرِّ وَالْاِثْمِ قَالَ : ”أَلْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ ، وَالْاِثْمُ مَاحَاکَ فِیْ صَدْرِکَ، وَکَرِہْتَ أَنْ یَّطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ“۔
(أخرجہ مسلم فی کتاب البر والصلة والاٰداب،باب تفسیر البر والاثم : رقم الحدیث: ۲۵۵۳)
ترجمہٴ حدیث:
حضرت نواس بن سمعان انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اورگناہ کے متعلق سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نیکی اچھے اخلاق کانام ہے ،اورگناہ وہ چیزہے جوتیرے دل میں کھٹکتی رہے اورتم یہ ناپسندکروکہ لوگ اس سے واقف ہوں۔
حل المفردات:
البِرُّ: نیکی،حسن سلوک،اطاعت واحسان،جمع: بُرور۔ البَر: نیک وصالح ، جمع: أبرار۔ ألبارّ: نیک وصالح،فرمانبردار،جمع : برَرَة۔
الاثم: گناہ،جرم۔جمع: اٰثام۔
حاکَ: صیغہ واحد مذکر غائب ،فعل ماضی ازباب ِنصر،اجوفِ واوی،جمنا۔حاک الشئ فی صدرہ أوقلبہ: دل میں بیٹھنا،یعنی گناہ وہ ہے جودل میں جم جائے،باربار اس کاخیا ل آئے ،کانٹے کی طرح وہ بات دل میں چبھے،تویہ علامت ہے کہ وہ گناہ کاکام ہے۔
شرح الحدیث:
(۱) ” البِرّ “مختلف مواقع میں مختلف معانی کے لئے آتاہے،مگر اس کے عام معنی نیکی کے ہیں،خواہ کوئی بھی نیکی ہو۔پس یہ ایک جامع لفظ ہے۔اورتما م عقائدحقہ واعمالِ صالحہ کوشا مل ہے۔سورہٴ بقرہ کی آیت : ”لیس البر الاٰیة “(آیت:۱۷۷)میں عقائدواعمال صالحہ کے مجموعہ پر اس کااطلاق کیاگیاہے۔
(۲) اس حدیث میں ”البِرّ“ کااطلاق اعمالِ صالحہ کی افضل نوع پر کیاگیاہے،خواہ یہ افضل ہونا عام ہویامخاطب کے لحاظ سے ہو۔
قاضی عیاضنے کہا ”بِرّ“(نیکی)کالفظ صلہ رحمی ،صدق،لطف،حسن ِصحبت اورحسنِ معاشرت میں مشترک ہے،اورحسن ِخلق کالفظ ان تمام معانی کوجامع ہے۔
(۳) والاثم ماحاک فی صدرک وکرہتَ أن یطَّلِعَ علیہ الناسُ: یعنی گناہ وہ کام ہے، جوموٴمن کے دل میں کھٹک پیداکرے،جس کام سے موٴمن کادل بے چین رہے اوراس کووحشت لاحق ہواوروہ نہ چاہے کہ کوئی اس سے مطلع ہو،کیوں کہ موٴمن کادل ایک کسوٹی ہے،کسی کام سے اس کابے چین ہونا اس کے کام کے برے ہونے کی دلیل ہے۔
(۴) نبی ٴپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ کی تعریف کوقلبی کیفیت پر موقوف کردیااوراس کی واضح تعریف نہیں فرمائی؛کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے والے صحابی تھے ،جن کادل صاف اورروشن تھااورجس کادل صاف اورروشن ہو،اس کے دل میں خلاف ِشرع خفیف کام سے بھی اضطراب پیداہوجاتاہے۔اس کے برخلاف جوعادی مجرم ہو،وہ بڑی دیدہ دلیری سے بڑے سے بڑاگناہ کرلیتاہے،اوراس کوذرابھی پشیمانی اورشرمندگی نہیں ہوتی۔
لہٰذاحدیث میں وہ لوگ مرادہیں جن کے دل صاف اورروشن ہوں اورجس شخص کادل نورِعلم سے روشن نہ ہواورجوکٹ حجتی اوردرشت خو ہو،اس کے سامنے گناہ کی یہ تفسیر بیان نہ کی جائے ،بل کہ اس کویہ کہاجائے کہ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنا اوراللہ واس کے رسول کے احکام پر عمل نہ کرنااورجن کاموں سے اللہ اوراس کے رسول نے منع کیاہے ،ان سے نہ رکناگنا ہ ہے۔
(۵) اورگناہ دوقسم کے ہیں: ظاہر ی وباطنی۔ظاہر ی گنا ہ وہ ہے جواعضائے ظاہر ہ سے کیے جائیں۔اورباطنی گناہ معصیت کے عزائم ہیں۔
تمت بحمداللہ عزوجل