بیان۲۲/۹/۲۳بولٹن یوکے
بر موقع حضرت شیخ زکریا فاوٴ نڈیشن فنڈریزنگ
مقرر: رئیس جامعہ حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی# مد ظلہ علیہ
کمپوزنگ: مولانا ابوسفیان دربھنگوی۔ایڈیٹنگ: محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمی#
الحمد للہ رب العٰلمین والعاقبة للمتقین والصلوةوالسلام علی سید الانبیاء والمرسلین محمد وعلی اٰلہ واصحابہ اجمعین۔
میرے لیے بڑی سعادت اور خوشی کی بات ہے کہ ہم تعلیمی فکروں کو لے کر یہاں جمع ہوئے اور داعی کبیر حضرت مولانا سلیمان صاحب ملاکے خطاب سے محظوظ ہورہے تھے(حضرت کے بیان سے پہلے مولانا سلیمان صاحب ملا کابیان ہوا جس کی طرف اشارہ ہے) اور میرا آنا میرے لیے بڑا مفید ہوا کہ میں ان (مولانا سلیمان صاحب ملا) کواکل کو ا کی دعوت دیتاہوں۔میرے پاس جامعہ کالجز کے الگ الگ شعبوں میں پانچ ہزار طلبہ ہیں ،حضرات مولانا سلیمان کی تقریر انگریزی میں ان بچوں اور باقی اساتذہ کے لیے بہت مفید ثابت ہوگی۔ ان شاء اللہ۔
تبلیغی جماعت اور مدرسے کی ہم آہنگی کی برکت:
اصل میں جنوبی افریقہ کے مسلمانوں کا ذہن دعوتی،تبلیغی اور تہذیبی ہر اعتبارسے قابل ِتعریف ہے،ہمارے اکابرین کی یہاں بڑی محنت ہوئی ہے،حاجی پاٹیہ صاحب جنوبی افریقہ کے امیر جماعت تھے وہ نوجوان بچوں اورعلماکو لے کر دعوت کے کام میں لگے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی محنت کو بارآور کیا۔حاجی صاحب کی خصوصیت تھی آپ نے مدارس اور دعوت کے ساتھی کو ملا کر کام کیا۔
ویسے یہاں پر بھی ماشاء اللہ مدارس اور دعوت کے ساتھی ایک ہی ہیں دونوں کا میدان اصلاح ِامت ہے ۔ امت کی اصلاح کیسے ہو؟ امت کو قرآنی تعلیم کیسے دی جائے یہ ایک فکر ہے اور یہ ادارہ جو حضرت شیخ الحدیث شیخ زکریا کی طرف منسوب ہے میں امیدکرتاہوں کہ یہ ادارہ اسی طرح کام کرتا رہے گا۔
امت میں تعلیمی،تربیتی اور اصلاحی خانقاہی کام کی ہر زمانے میں ضرورت:
اور حضرت مولانا سلیمان صاحب کو آئندہ بھی بلاتے رہیں گے؛ کیوں کہ ان کے بولنے کا طریقہ بہت ہی عمدہ اور موٴثر ہے اور جن سے نوجوانوں کو فائدہ ہو ان کو بلاتے رہنا چاہیے۔
اوریہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے؛ کیوں کہ دین خیر خواہی کانام ہے”الدین النصیحة“ مولانا سلیمان صاحب جیسے کئی علماء کی امت کو ضرورت ہے،کوئی یہ نہ سمجھے کہ مدرسے بہت ہوگئے، کام بہت ہوگئے، اب کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔نہیں ایسا نہیں ہے بل کہ اس امت میں تعلیمی،تربیتی اور اصلاحی خانقاہی نظام کوچلانے کی ہر زمانے میں ضرورت رہی ہے اور آگے بھی رہے گی۔
شیخ الحدیث حضرت زکریا کی خانقاہ:
حضرت شیخ الحدیث کی خانقاہ میں ایک ہزارسے زیادہ علماء ہواکرتے تھے،پہلی صف میں ہندوستان بھر کے شیخ الحدیث،دوسری صف میں ہندوستان بھر کے مشکوٰة پڑھانے والے اورمفتیان ِکرام اور دیگر حضرات ہوتے تھے اور میں طالب علم تھا، اس لیے سب سے اخیر میں ہوتا تھا ؛ہدایہ پڑھ کے حضرت مولانا یوسف صاحب کے قافلے میں گیا تھا۔
فضائل اعمال اور اس کی کرامت:
حضرت مولانا الیاس صاحب کی ایک فکر تھی اصلاح ِامت کی او ر آپ ہی کی طلب پر حضرت شیخ صاحب نے فضائل ِاعمال لکھی اور فضائل اعمال وہ کتاب ہے، جو د نیا کی اکثر زبان میں موجوج ہے اور پوری دنیا میں پڑھی جارہی ہے اور اس کتاب کی ایک کرامت ہے کہ ایک مضمون کو آپ کئی مرتبہ پڑھیں؛ لیکن ہر مرتبہ ایک نیالطف آئے گا۔یہ اخلاص اور للٰہیت کی برکت ہے،آپ رحمة اللہ علیہ نے اس پر نہیں لکھا کہ جملہ حقوق محفوظ ہیں؛ بل کہ عام اجازت دی، جو بھی چھپائے اجازت ہے ہمارا مقصد تو بس اعلائے کلمة اللہ ہے۔
ادارے کے لیے دعائیہ کلمات:
میں اس ادارے کے بانیوں کو مبارک باد دیتاہوں اور دعا کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ اسے یورپ کا بڑا مرکز بنائے ”وما ذٰلک علی اللہ بعزیز“ اللہ پر کوئی بھاری نہیں ہے۔
اکل کوا کی شاخوں کا مالی نظام:
آپ کو سن کر تعجب ہوگا کہ میں ہندوستان سے آرہاہوں وہاں اکل کو ا کے ماتحت (۱۲۲)ادارے ہیں،اور ان میں سے کسی کو بھی باہر چندہ کرنے کی اجازت نہیں ہے وہ سب مقامی چندے سے چلتے ہیں اور وہاں غلوں کانظام ہے، ہر گھر میں ڈبہ ہے، اس میں اناج ڈالتے ہیں پھر اس کو جمع کیا جاتاہے پھر اسی سے مدارس چلتے ہیں۔ یہ نظام حضرت مولانا ابرار الحق صاحب ہردوئی کا ہے کہ ان کے یہاں چٹکیوں کانظام تھا ،ایک ڈبہ میں لوگ جمع کرتے ایک جمع کرنے والا آتااور آٹاوغیرہ تول کر لیتا اور رسید دیتاپھر اس سے مدرسہ چلتاتھا۔
قیام ادارہ پر تعاون کی درخواست:
بہر حال بڑی خوشی کی بات ہے کہ یہاں ایک نیا ادارہ قائم ہو رہاہے اللہ تعالیٰ ترقی سے نوازے اور مقامی لوگوں سے درخواست ہے کہ اس کی طرف توجہ دیں۔
ماشاء اللہ آپ کے یہاں جو بھی مدارس چل رہے ہیں وہ بہت اونچے اور اعلیٰ پیمانے پر چل رہے ہیں، اللہ کے فضل اور ان اکابرین کی دعاسے ہر ادارہ ترقی کررہاہے اللہ مزید ترقی دے۔
بہر حال میں تویہاں مہمان بن کر آیا تھا؛ لیکن مولانا عبدالرحمن صاحب نے کہہ دیا کہ میں اس مجلس میں جارہاہوں بھائی تیرے کو یہاں آناہے،(دوستانہ لہجہ) لہذا میں بھی شریک ہوگیااور مولانا سلیمان صاحب کی تقریر نے دل کو جگابھی دیا اور گرمابھی دیا ہے”اللھم زد فزد“۔آج مولانا سلیمان صاحب جیسے علماء کی امت کو ضرورت ہے ۔
انفاق فی سبیل اللہ امت ِمحمدیہ کی خصوصیت:
آپ حضرات سے آخر میں یہی اپیل ہے؛ کیوں کہ لندن میں لوگ کماتے بھی ہیں اور اللہ کے راستے میں خرچ بھی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس امت میں انفاق فی سبیل اللہ کا جو جذبہ رکھا ہے، وہ کسی اور میں نہیں ہے یہ اللہ کا بڑا فضل ہے۔
بہر حال اللہ تعالیٰ مولانا کی محنت کوقبول فرمائے!انہوں نے جو اپیل کی ہے اس کو مجھ سے زیادہ آپ سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطافرمائے اور آپ نے مولانا سلیمان صاحب کی تقریر سنی اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔