یہ تحریر اسلامی سوال وجواب ویب سائٹ سے لی گئی ہے ،جس کے نگران اعلی:شیخ محمد صالح المنجد ہیں ۔ذیل کا مضمون جواب ہے اس سوال کا کہ انسان اپنے دین کو فتنوں سے کیسے بچائے ،جو نہایب عمدہ تدابیر ہیں اسی طرح احقر(محمد ہلال الدین ابراہیمی)شاہراہ ِ علم کا خصوصی شمارہ بعنوان ’’عصر حاضر کے سلگتے فتنے اور مسلمانوں کے لیے لائحہ عمل‘‘(جون ،جولائی ۲۰۱۵ء)میں ذکر کردہ فتنوں سے بچنے کی تدابیر بھی ذکر کر رہا ہے، جونہایت جامع اور بے انتہا مفید ہے ،تکرارمفید کے پیش نظر اسے شامل کر رہا ہے۔
اول: اگر دنیا میں انسان مذہبی اور دینی اعتبار سے صحیح سمت پر ہو تو یہ اس کے دنیاوی طور پر خوش حال اور آخرت میں کام یاب ہونے کی علامت ہے۔ ایک مسلمان کا سب کچھ اس کا دین ہی ہوتا ہے، لہٰذا اگر کوئی سستی اور کوتاہی کرتے ہوئے اپنے دین کو فتنوں سے نہ بچائے تو وہ خسارے میں ہے۔ دوسری طرف اگر اپنے دین کو فتنوں سے محفوظ رکھے تو وہ کام یاب و کامران ہے؛ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
(اللہم اصلح لی دینی الذی ہو عصمۃ امری واصلح لی دنیای التی فیہا معاشی واصلح لی آخرتی التی فیہا معادی واجعل الحیاۃ زیادۃ لی فی کل خیر واجعل الموت راحۃ لی من کل شر۔ )
یا اللہ! میرے دینی معاملات کی اصلاح فرما کہ جس میں میری نجات ہے۔یا اللہ! میری دنیا بھی درست فرما دے کہ جس میں میرا معاش ہے۔اور میری آخرت بھی اچھی بنا دے کہ مجھے وہیں لوٹ کر جانا ہے۔ اور میرے لیے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے۔ (مسلم:2720)
مناوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’ اَللَّہُمَّ أَصْلِحْ لِي دِینِي الَّذِي ہُوَ عِصْمَۃُ أَمْرِي‘‘
یا اللہ! میرے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں میری نجات ہے؛ کا مطلب یہ ہے کہ: دین کی وجہ سے میری ہر چیز قائم و دائم ہے۔ اگر دین داری ہی سبوتاژ ہو گئی تو تمام کے تمام امور درہم برہم ہو گئے اور دنیا و آخرت میں ناکامی ہی ناکامی ہو گی۔( فیض القدیر:2 / 173)
دوم: ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اپنے دین کو فتنوں سے محفوظ کرتا ہے اور جس راستے پر چلنے کا مومنین کو حکم دیا گیا ہے اسی راہ کا راہی بنتا ہے،وہ راستہ درج ذیل امور کو شامل ہیں:
1- اخلاقی اور دینی اعتبار سے گرے ہوئے معاشرے سے دور رہے۔اس کے لیے کفار کے علاقوں میں رہائش اختیار کرنے سے اجتناب کرے۔اپنے آپ کو فاسقوں کی صحبت سے بچائے، چناںچہ جو شخص دین میں بگاڑ اور خرابیاں پیدا کرنے کے اسباب سے دور رہے گا، تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کا دین بگڑنے سے محفوظ رہے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ کفار کے معاشرے میں رہنے والا مسلمان شخص کفریہ معاشرے سے متاثر ہو جائے۔ ہم نے بہت سے ایسے لوگوں کے بارے میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہے کہ وہ دینِ اسلام سے بیزار ہوگئے، جنہوں نے اپنے دین کا سودا فانی دنیا سے کر لیا؛ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ کفریہ معاشرے اور کافروں سے مرعوب ہو گئے اور ان کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ان کے دل اور ضمیر دونوں مردہ ہو گئے۔
گزشتہ معاملے سے ملتی جلتی یہ بات بھی ہے کہ: مسلمانوں کے درمیان ایسے اختلافات سے دور رہے، جن میں دخل اندازی کی وجہ سے باہمی بغض، لا تعلقی اور معرکہ آرائی کو ہوا ملے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’مسلمانوں کے ہاں سر اٹھانے والے فتنوں کے حالات کا اچھی طرح سے مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ: کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے، جسے ان امور میں دخل اندازی کا فائدہ ہوا ہو؛ کیوںکہ ایسے امور میں دخل اندازی کا دینی اور دنیاوی ہر اعتبار سے نقصان ہوتا ہے، اسی لیے اسے شریعت میں منع قرار دیا گیا ہے، لہٰذا ایسے امور سے بچ کر رہنا ان فرامین الٰہیہ میں سے ہے، جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
{ فَلْیَحْذَرِ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِہِ أَنْ تُصِیبَہُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیبَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ }
ترجمہ: اللہ کے حکم کی مخالفت کرنے والوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں انہیں فتنہ یا درد ناک عذاب نہ پہنچ جائے۔(النور: 63)( منہاج السنۃَّ النبویۃ : (4 / 410)
2- مسلمان کے لیے دین بچانے کے متعلق معاون امور میں یہ بھی شامل ہے کہ: اپنا ایمان مضبوط بنائے۔اس کے لیے واجبات کی ادائیگی اور حرام امور سے اجتناب کو یقینی بنائے، چناںچہ سب سے بڑا فرض اور واجب نماز ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو نماز قائم کرنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے کہ وہ مقررہ وقت پر، شرائط، ارکان اور خشوع کے ساتھ نماز ادا کرے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
{أَقِمِ الصَّلاۃَ إِنَّ الصَّلاۃَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ}
ترجمہ: اور نماز قائم کر، بے شک نماز برائی اور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے۔(العنکبوت: 45)
نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے نیکیاں کرنے کی ترغیب دلائی ہے، تا کہ کوئی فتنہ آپ کے دین کو داغ دار نہ کر سکے، چناںچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زر، زن اور منصب جیسے دنیاوی فتنوں سے خبردار کیا کہ کہیں ان کی وجہ سے اپنے دین کا سودا نہ کر بیٹھیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ رات کے وقت کوئی شخص مسلمان ہو اور جب صبح ہو تو وہ مرتد ہو چکا ہو! یا یہ بھی ممکن ہے کہ دن میں مسلمان ہو اور رات کے وقت مرتد ہو جائے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اندھیری رات کے اندھیروں جیسے فتنوں سے قبل نیک عمل کر لو (جن میں) انسان صبح مومن ہو گا تو شام کو کافر ہو جائے گا یا شام کو مومن ہو گا تو صبح کو کافر ہو جائے گا، وہ اپنا دین ؛دنیا کے مال و متاع کے عوض بیچ دے گا) ۔(مسلم:118)
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’اہم بات یہ ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اندھیری رات کے اندھیروں جیسے فتنوں سے خبردار فرمایا، جس میں انسان صبح مومن ہو گا تو شام کو کافر ہو جائے گا –اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے- ایک دن میں ہی انسان اسلام سے پھر جائے گا، دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائے گا؟ اس کی وجہ کیا ہو گی؟ دنیا کے بدلے میں اپنے دین کا سودا کر لے گا، اب آپ یہ مت سمجھیں کہ دنیا سے مراد صرف مال ہے، بل کہ اس میں دنیا کی ہر چیز شامل ہے، چاہے وہ مال کی صورت میں ہو یا عزت و جاہ کی شکل میں یا دنیاوی منصب یا عورت سمیت کسی بھی صورت میں ہو، دنیا کی ہر چیز دنیاوی متاع میں داخل ہو گی اور اسی کو اللہ تعالیٰ نے سازو سامان سے تعبیر کیا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: { تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللّہِ مَغَانِمُ کَثِیرَۃٌ }تم دنیاوی ساز و سامان کی تلاش میں ہو! تو اللہ تعالی کے ہاں ڈھیروں غنیمتیں ہیں۔(النساء: 94)اس لیے دنیا میںجو کچھ بھی ہے ، یہ عارضی ساز و سامان ہیں۔
چناںچہ یہ جو لوگ صبح مومن ہوں گے تو شام کو کافر ہو جائیں گے یا شام کو مومن ہوں گے صبح کافر ہو جائیں گے یہ سب کے سب اپنا دین ؛دنیا کے لیے فروخت کر دیں گے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اور آپ سب کو فتنوں سے محفوظ رکھے۔ آپ سب بھی ہمیشہ فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے رہیں۔‘‘( شرح ریاض الصالحین :2 / 20)
3- اسی طرح دعا کریںکہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعا کرنے کے لیے رہنمائی فرمائی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جامع دعائیں سکھلائی ہیں، جو کہ اپنے دین کو تحفظ اور محفوظ رکھنے والے کے لیے مفید ثابت ہوں گی، ان دعاؤں میں سے ہر رکعت میں پڑھی جانے والی ایک دعا ہے، جو کہ فرمانِ باری تعالیٰ: {اِہْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیمَ} یا اللہ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قنوت وتر کے لیے سکھائی ہوئی دعا:
’’ اَللَّہُمَّ اہْدِنِي فِیمَنْ ہَدَیْتَ، وَعَافِنِي فِیمَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنِي فِیمَنْ تَوَلَّیْتَ، وَبَارِکْ لِي فِيمَا أَعْطَیْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَیْتَ إِنَّکَ تَقْضِي وَلَا یُقْضَی عَلَیْکَ وَإِنّہَُ لَا یَذِلُّ مَنْ وَالَیْتَ وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْت‘‘
اے اللہ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں کے زمرے میں شامل فرما، جنہیں تو نے رشد و ہدایت سے نوازا ہے اور مجھے عافیت دے کر ان میں شامل فرما دے ،جنہیں تو نے عافیت دی ہے اور جن کو تو نے اپنا دوست قرار دیا ہے ان میں مجھے بھی شامل کرکے اپنا دوست بنا لے۔ جو کچھ تو نے مجھے عطا فرمایا ہے، اس میں میرے لیے برکت ڈال دے اور جس شر و برائی کا تو نے فیصلہ کردیا ہے، اس سے مجھے محفوظ رکھ اور بچا لے۔ یقیناً فیصلہ تو ہی صادر کرتا ہے، تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جاسکتا اور جس کا تو والی بنا وہ کبھی ذلیل و خوار نہیں ہوسکتا اور جس سے تو دشمنی رکھے وہ کبھی عزت نہیں پاسکتا۔ اے ہمارے پروردگار! تو ہی برکت والا اور بلند وبالا ہے۔ ترمذی نے اسے روایت کیا ہے ا ور حسن قرار دیا۔ نیز ابو داؤد: (1425) میں بھی یہ روایت موجود ہے۔
اس کے علاوہ بھی دیگر دعائیں بہت زیادہ ہیں جن میں ایک شخص اللہ تعالی سے دین پر قائم دائم رہنے اور نیکی کی دعا مانگتا ہے، اللہ تعالی سے صراط مستقیم پر چلانے اور اسی پر ثابت قدمی کا مطالبہ کرتا ہے، نیز اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے بہتر اور مختصر ترین راستے کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔
4- برے دوستوں سے پرہیز: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لیے تم میں سے کوئی دوستی کرنے سے پہلے دیکھ لے کہ کس کو دوست بنا رہا ہے) ابو داؤد: (4833) ترمذی:(2378) نے روایت کر کے اسے حسن بھی قرار دیا ہے۔
خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’تم صرف اسی کو اپنا دوست بناؤ جس کا دین اور امانت تمہیں پسند ہو؛ کیوںکہ اگر تم ایسے شخص سے دوستی کرو گے تو وہ تمہیں اپنے دین اور مذہب کی جانب لے جائے گا۔ اس لیے کسی ایسے شخص سے دوستی کر کے اپنے دین کو خطرے میں مت ڈالو،جس کا دین اور مذہب تمہیں پسند نہیں ہے۔‘‘ ( العزلۃ:ص 141)
5- علم شرعی کا حصول، اور معتمد اہل علم سے رجوع:
مسلمان کو دین سے متعلقہ فتنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے علم شرعی سب سے عظیم ترین وسیلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاہل لوگ اپنے دین کو فتنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ نظر دوڑا کر دیکھیں کہ کتنے لوگ ہیں جو قبروں کا طواف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ مردے نفع یا نقصان کے مالک ہیں، کیوںکہ اگر آپ ان کی حالت کو دیکھیں اور غور فکر کریں تو آپ کو علم سے کورے نظر آئیں گے، اور اگر کسی کو علم ہوا بھی تو وہ فانی دنیا کے حصول کے لیے اپنا دین فروخت کر چکا ہو گا۔
سوم: اگر کوئی شخص دین سے متعلق فتنوں میں ملوّث ہو چکا ہو تو:
1- جتنی جلدی ہو سکے اس فتنے سے باہر آ جائے اور اس سے بالکل الگ تھلگ ہو جائے۔ نیز اللہ تعالی کے سامنے عاجزی و انکساری کے ساتھ پکی توبہ بھی کرے۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق میں آنے والی کمی پر پشیمان بھی ہو، نیز آئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کا پختہ عزم بھی کرے۔
2- اپنا ماحول درست کرے اگر پہلے اس کے آس پاس کے لوگ اچھے نہیں تھے تو اب اچھے لوگوں سے تعلق بنائے۔
3- اللہ تعالیٰ سے پورے اخلاص اور یقین کے ساتھ دعا کرے کہ اللہ تعالی اسے اس آزمائش سے نکال دے۔
4- زیادہ سے زیادہ نیک عمل کرے اور اس کے لیے تن من کی بازی لگادے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے: { وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ ط اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ط ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذَّاکِرِیْن}(ہود: ۱۱۴)
ترجمہ: نیز آپ دن کے دونوں طرفوں کے اوقات میں اور کچھ رات گئے نماز قائم کیجیے۔ بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔ یہ ایک یاددہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں(114) اور صبر کیجیے اللہ تعالیٰ یقینا نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (سورہ ہود:114-115)
5- انسان کو کوئی بھی کام کرنے سے پہلے مکمل دلائل اور اس کی جانچ پڑتا ل کر لینی چاہیے۔اپنے بارے میں اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا کس جانب سے نقصان ہوا ہے۔ شیطان کو کس راستے اور دروازے سے گمراہ کرنے کی کام یابی ملی ہے؛ چناںچہ اگر جنسی شہوت کی وجہ سے وہ فتنے میں مبتلا ہوا تو پھر جتنی جلدی ہو سکے شادی کا انتظام کرے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر کثرت سے روزے رکھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق اس کی شہوت ٹوٹ جائے گی۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’حدیث نبوی کا مفہوم کہ روزے سے شہوت کا زور ٹوٹ جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جنسی برے خیالات ختم ہو جاتے ہیں جیسے کہ خصی ہونے سے جنسی طاقت ختم ہو جاتی ہے‘‘۔
اور اگر فتنے میں پڑنے کا سبب جنسی شہوت نہیں تھا بل کہ شبہات ہیں تو پھر ان شبہات کا علاج بالضد کرے، اوپر کی سطور میں احادیث نبویہ کی روشنی میں فتنوں سے بچاؤکے لیے اسباب ذکر کئے گئے ہیں۔ واللہ اعلم۔
دجالی فتنوں سے بچنے کی تدابیراز شاہراہ ِ علم ’’عصر حاضر کے سلگتے فتنے اور مسلمانوں کے لیے لائحہ عمل‘‘
اس دور میں دجال کے چیلوں نے ہرطرف فتنہ بپا کر رکھاہے ،ان سے بچنا بظاہر ناممکن معلوم ہوتا ہے،لیکن اسلام ایسا مذہب ہے،جس میں ہر حل موجود ہے؛لہذا مسلمانوں کے لیے یہ کوئی ناممکن نہیں؛بس تھوڑی ہمت کی ضرورت ہے؛یہاںمفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب کی کتاب’’دجال2‘‘سے چند اہم تدابیر پیشِ خدمت ہے مفتی صاحب لکھتے ہیں:
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب سے اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کوپیدا کیا،دنیامیں کوئی فتنہ دجال کے فتنے سے بڑانہیںہوااور اللہ نے جس نبی کو بھی مبعوث فرمایا،اس نے اپنی امت کودجال سے ڈرایاہے اورمیںآخری نبی ہوںاور تم بہترین امت(اس لیے)وہ ضرور تمہارے ہی اندر نکلے گا۔‘‘(ابن ماجہ،ابودائودوغیرہ)
اس عظیم فتنے سے بچنے کے لیے قرآن وسنت اور نصوص شریعت کی عصری تطبیق سے اخذ کردہ روحانی وعملی تدابیر ملا حظہ فرمائیں ۔
روحانی تدابیر :
۱)… ہر قسم کے گناہوں سے سچی توبہ اور نیک اعمال کی پابندی ۔
۲)… اللہ تعالیٰ پر یقین اور اس سے تعلق کو مضبوط کرنا اور دین کے لیے فدائیت (قربان ہونے ) اور فنائیت (مرمٹنے ) کا جذبہ پیداکرنا ۔
۳)… آخری زمانے کے فتنوں اور حادثات کے بارے میں جاننا اور ان سے بچنے کے لیے نبوی ہدایات سیکھنا اور ان پر عمل کرنا ۔
۴)… دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں فتنوں کا شکار ہونے سے بچائے اور حق کی مدد کے وقت باطل کے ساتھ کھڑے ہونے کی بدبختی اور اس کے وبال وعذاب سے محفو ظ رکھے۔ اس دعا کا اہتمام کرنا : ’’ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْفِتَنِ مَاظَہَرَ وَمَا بَطَنْ ، اَللّٰہُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَہٗ، وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَہٗ ‘‘۔
۵)… ان تمام گروہوں اور نت نئی پیدا شدہ جماعتوں سے علیحدہ رہنا ،جو علمائے حق اور مشائخ عظام کے متفقہ اور معروف طریقے کے خلاف ہیں اور اپنی جہالت یا خود پسندی کی وجہ سے کسی نہ کسی گمراہی میں مبتلا ہیں ۔
۶)… امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے گناہوں بھرے شہروں کے بجائے حرمین شریفین ، ارض ِشام ، بیت المقدس وغیرہ میں رہنے کی کوشش کرنا، خونی معرکوں میں زمین کے یہ خطے مومنوں کی جائے پناہ ہیں اور دجال ان میں داخل نہ ہوسکے گا۔ ایسا ممکن نہ ہو تو اپنے شہروں میں رہتے ہوئے جید علمائے کرام سے جڑے رہنا۔
۷)… پابندی سے تسبیح وتحمید اور تہلیل وتکبیر (آسانی کے لیے تیسر ااور چوتھا کلمہ کہہ لیں )کی عادت ڈالی جائے ۔ دجال کے فتنے کے عروج کے دنوں میں جب وہ مخالفین پر غذائی پابندی لگائے گا، ان دنوں ذکر وتسبیح غذا کا کام دے گی ، لہٰذا ہر مسلمان صبح وشام مسنون تسبیحات (درود شریف ، تیسرا یاچوتھا کلمہ) اور استغفار کی عادت ڈالے ؛ ابھی سے تہجد کی عادت ڈالے ۔ )
۸)… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمانوں پر اٹھائے جانے اور خروجِ دجال کے بعد واپس زمین پر آکر دجال اور اس کے پیرو کار یہودیوں کا خاتمہ کرنے (جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تکلیفیں دیں)پر یقین رکھے کہ یہ امت کا اجماعی عقید ہ ہے۔
۹)… جب حضرت مہدی کا ظہور ہو اور علمائے کرام ان کو صحیح احادیث میں بیان کردہ علامات کے مطابق پائیں، تو ہر مسلمان ان کی بیعت میں جلد ی کرے ؛باطل پرست اور گمراہ وبے دین لوگ دجالی قوتوں کے جن نمائندوں کو فرضی روحانی شخصیات کہہ کر (مہدی موعود یا مسیح موعود )اور ان کی تشہیر کرتے ہیں ،ان سے دور رہنا اور ان کے خلاف کلمۂ حق کہنے والے علمائے حق کا ساتھ دینا ۔
۱۰)… جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت کرنا ، اس کی ابتدائی اور آخری دس آیات کو حفظ کرلینا اور صبح وشام ان کو دہرانا ۔ ایک مشہور حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ دجال کے فتنے سے جو محفوظ رہنا چاہتا ہے ، اس کو چاہیے کہ سورۂ کہف کی ابتدائی یا آخری دس آیتوں کی تلاوت کرے ۔
ان میں کچھ ایسی تاثیر اور برکت ہے کہ جب ساری دنیا دجال کی دھوکہ بازیوں اور شعبدہ بازیوںسے متاثر ہوکر نعوذ باللہ اس کی خدائی تک تسلیم کرچکی ہوگی ، اس سورت یا ان آیات کی تلاوت کرنے والا اللہ کی طرف سے خصوصی حصار میں ہوگا اور دجالی فتنہ اس کے دل و دماغ کو متاثر نہ کرسکے گا، لہٰذا ہرمسلمان پوری سورۂ کہف یا کم ازکم شروع یا آخرکی دس آیتوں کو زبانی یاد کرے اور ان کا دور کرتا رہے ۔
عملی تدابیر :
۱- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ملکوتی اخلاق پھیلانا :
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی تین صفات ہیں ، جنہیں اپنانے والے ہی مستقبل قریب میں برپا ہونے والے عظیم رحمانی انقلاب کے لیے کار آمد عنصر ثابت ہوسکیںگے :
پہلی صفت : صحابہ کرام کے دل باطنی بیماریوں اور روحانی آلائشوں یعنی تکبر ، حسد ،ریا، لالچ ، بخل ، بغض وغیرہ سے بالکل پاک وصاف اور خالص ومخلص تھے ، لہٰذا ہرمسلمان پرلازم ہے کہ سچے اللہ والے ، متبع سنت بزرگ کی خدمت میں اپنے آپ کو پامال کرے اور ان کی اصلاحی تربیت کے ذریعہ ان مہلک روحانی بیماریوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔
دوسری صفت: وہ علم کے اعتبار سے اس عالم امکان میں علمیت اور حقیقت شناسی کی آخری حدوں تک پہنچ گئے تھے ، جہاں تک ان سے پہلے انبیا کو چھوڑ کرنہ کو ئی انسان پہنچ سکا اور نہ آئندہ پہنچ سکتا ہے ، لہٰذا ہرمسلمان پر لازم ہے کہ روحانی اور رحمانی علم کی جستجو کرے ؛یہ علم اللہ والوں کی صحبت کے بغیر حاصل نہیں ہوتا اور اس علم کے بغیر کائنات اور اس میں موجود اشیاو حوادث کی حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی ۔
تیسری صفت : وہ روئے زمین پر سب سے کم تکلف کے حامل بننے میں کامیاب ہوگئے ؛ہرمسلمان بے تکلفی ، سادگی اور جفا کشی اختیار کرے ،مغرب کی ایجاد کردہ طرح طرح کی سہولیات اور عیش و عشرت کے اسباب سے سختی کے ساتھ بچے ،ہرطرح کے حالات میں رہنے ، کھانے ، پینے اور پہننے کی عادت ڈالے (تیزقدموں سے ) پیدل چلنے ، تیراکی کرنے ، گھڑ سواری ، نشانہ بازی اور ورزشوں کے ذریعے خود کو چاق و چوبند رکھنے کا اہتمام کرے۔
۲-دہشت گردی کے خلاف جہاد:
(آج پوری دنیامیں پروپیگنڈہ کے ذریعہ اس فریضہ ٔ اسلام کواس قدر بدنام اور وحشت ناک باور کرادیا گیا ہے، کہ لوگ اس لفظ سے وحشت کھاتے ہیں،اس کاتلفظ کرنا گوارا نہیںکرتے۔یہ بھی ایک فتنہ ہے کہ مغرب نے اس مقدس لفظ کواپنی شرانگیزی اورفتنہ پردازی سے عوام کے ذہنوںمیںمغلظ کردیا ہے اور اسے صرف دہشت گردی ہی سے نہیںجوڑا،بلکہ دہشت گردی کو جہاد کا نام دے دیا۔جہادتو وہ عمل ہے،جوسب سے پہلے دہشت کا سر کچلتا ہے،ظلم کومٹاتا ہے،انصاف دلاتاہے،امن وامان قائم کرتاہے ؛غرض بدامنی ،ظلم،ناانصافی،دہشت گردی کومٹانے والے عملِ خیر کو جہاد کہتے ہیں،جہادیہ وہی عمل ہے،جو مسلمانوں کوحضرت مہدی علیہ السلام کے ساتھ مل کرکرنا ہے،اور دجال اور اس کے ساتھیوں کے ظلم سے اس عالم کونجات دلاناہے۔از:ابراہیمیؔ )
مسلمانوں کی بقاوفلاح اس میں ہے کہ اپنی نئی نسل میں جذبۂ جہادکی روح پھونک کر اس دنیا سے جائیں اور اپنے اہل وعیال اور متعلقین کا اللہ کے راستے میں جان ومال قربان کرنے کا ذہن بنائیں۔
۳- فتنہ مال واولاد سے حفاظت :
فتنہ دجال دراصل ہے ہی مال کی محبت اور مادّیت پرستی کا فتنہ، اس لیے ضروری ہے کہ ہر مسلمان حلال و حرام کا علم حاصل کر ے ؛ہرطرح کے حرام سے بالکل اجتناب کرے ، صرف اور صرف حلال مال کمائے اور پھر اس میں سے خود بھی فی سبیل اللہ خرچ کرے ، اور بچوں سے بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرواکر اس کی عادت ڈالے؛ اولاد کی دینی تربیت کرے اور ان کی محبت کو دینی کاموں اور جہاد فی سبیل اللہ میں رکاوٹ نہ بننے دے۔
۴- فتنہ جنس سے حفاظت :
(۱) مرد عورت کا مکمل طور پر علیحدہ علیحدہ ماحول میں رہنا جو شرعی پردے کے ذریعہ ہی ممکن ہے ۔
(۲) عورتوں کو زیادہ سے زیادہ شرعی مراعات دینا اور ان کی مخصوص ذمہ داریوں کے علاوہ، دیگر ذمہ داریوں سے انہیں سبکدوش کرنا، جو ان کی فطرت اور شریعت کے خلاف ہے ۔
(۳) بالغ ہونے کے بعد مردوں اور عو رتوں کی شادی میں دیر نہ کرنا ۔
(۴) نکاح کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانا اور فسخ نکاح کو زیادہ سے زیادہ منضبط بنانا۔
(۵) کسی بھی عمر میں جنسی ونفسیاتی محرومی کو کم سے کم واقع ہونے دینا، لہٰذا بڑی عمروں کے مردوں اور عورتوں کو بھی پاکیزہ گھریلو زندگی گزارنے کے لیے نکاح ثانی کی آسانی فراہم کرنا ۔
(۶) کثرت نکاح اور کثرت اولاد کو رواج دینا، ورنہ امت سکڑتے سکڑتے دجالی فتنے کے آگے سرنگوں ہوجائے گی ۔
(۷) مردوں کی ایک سے زیادہ شادی ، دوسری شادی ترجیحاً بیوہ ، مطلقہ ، خلع یا فتہ یا بے سہارا عورت سے کی جائے ۔
(۸) بیوہ ومطلقہ عورتو ں کی جلد شادی ۔
(۹) شادی کو خرچ کے اعتبارسے آسان تربنانا اور نکاح ثانی اوربیوہ ومطلقہ سے شادی پر ہر طرح کی معاشرتی پابندیوں کا خاتمہ کرنا ۔
(۱۰) معاشرے میں آسان ومسنون نکاح کی ہمت افزائی کرنا اور مشکل نکاح سے (جس سے غیر شرعی رسومات اور فضول خرچی پر مشتمل رواج ہوتے ہیں) ناپسند یدگی کا اظہار کرنا ۔
(۱۱) ماہر اور تجربہ کار دائیوں کی زیر نگرانی گھرمیں ولادت کا انتظام کرنا اور زچگی کے آپریشن سے حتی الوسع اجتناب کرنا ۔
۵- فتنہ غذاسے حفاظت :
فتنہ دجال اکبر کے سامنے سب سے زیادہ آسان شکار حلال وطیب کے بجائے حرام مال اور خبیث غذا سے پروردہ جسم ہوتا ہے ، لہٰذا جن چیزوں کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے ، ان سے اپنے آپ کو سختی سے بچایا جائے ۔ حرام لقمہ ، حرام گھونٹ اور حرام لباس سے خود کو آلودہ نہ ہونے دیا جائے ۔ مصنوعی طور پر Croos-Polination اور Hybridization کے ذریعہ پیدا کردہ غذاؤں، نیز ڈبہ بند غذا ئی اشیا اور جینیاتی و کیمیائی طور پر تیار کردہ غذاؤں سے سختی سے پرہیز کیا جائے ۔
۶- فتنہ میڈیا سے حفاظت :
(۱) دجالی قوتوں کا سب سے اہم ہتھیار ’’ دجل ‘‘ ہے یعنی جھوٹ اور مکرو فریب ، جھوٹا پروپیگنڈہ جھوٹی افواہیں، جھوٹے الزامات ، جھوٹے دعوے ، جھوٹا رعب ، جھوٹی دھمکیاں ، مصدقہ جھوٹی خبریں جو غلط کو صحیح بتائیں اور مبینہ جھوٹی رپورٹیں جو سچ کو جھوٹ میں چھپادیں ۔ اعلی عہدوں پرفائز باوقار شخصیات کے جھوٹ میںملفوف بیانات،جادو بیان ،اینکرپرسن کے ذریعے پھیلائے گئے زہریلے خیالات ونظریات……یہ سب کچھ اور اس جیسا اور بہت کچھ دجال کے ہر کاروں کے مخصوص حربے ہیں؛ اس دور کے انسانوں پر لازم ہے کہ جدید ذرائع ابلاغ کے فتنے سے خود کو بچائیں اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ (صبح شام )سورۂ کہف کی ابتدائی وآخری آیات پڑھ کر، اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ انہیں حق وباطل میں اور اصل ودجل میں تمیز کی صلاحیت عطا کر ے ۔
(۲) اس دعا کے ساتھ ہر طرح کے گناہوں سے بچیںاور ظاہر وباطن میں تقویٰ کا اہتمام کریں کہ اس کی برکت سے اہل ایمان کو ’’ فرقان ‘‘ عطا ہو تا ہے ، یعنی ایسی فہم و فراست جس سے صحیح اور غلط ، سچ اور جھوٹ میں فرق کی صلاحیت پیدا ہوجائے ۔
(۳) میڈیا پر انحصار کرنے کے بجائے حقیقت حال معلوم کرنے کے نجی طریقے استعمال میں لائے جائیں ۔
(۴) اگر جدید میڈیا سے خبریں سننی ہی پڑجائیں ، تو ان کی رَو میں بہہ جانے کے بجائے، ان کا تجزیہ کیا جائے ؛جن اسلامی ممالک ، دینی افراد ، نظریاتی تعلیمات ، جہادی تحریکات یا دینی اداروں کے متعلق افواہی خبریں فراہم کی جارہی ہیں ، ان سے متعلق تحقیق کی جائے ،اگر تضاد یا تعارض دکھائی دے، تو اہل علم وصلاح کی بات پر اعتماد کیا جائے ،نہ کہ جھوٹی خبریں بیچ کر دجل پھیلانے والوں کے اصرار پر ۔
(۵) دین ومذہب اور ملک وملت کے مفاد کے خلاف کسی بات کو آگے نہ پھیلا یا جائے کسی نیک نیت شخصیت یا ادارے ، تحریک وتنظیم کے خلاف مہم میں شریک ہونے ،بننے کے بجائے خیر کی بات پھیلائی جائے اور حسنِ ظن پر مبنی تبصرہ دوٹوک انداز میں بیان کیا جائے ؛افواہوں کا آسان شکار بننے کے بجائے مؤمنانہ فراست کا اظہار کیا جائے ۔
۷- فتنہ شیطانیت سے حفاظت:
شیطان نے جنت سے نکالے جانے کے وقت قسم کھائی تھی کہ وہ آدم کی اولاد کو گمراہ کرنے کا ہروہ جتن کرے گا ،جس کے ذریعہ وہ اسے جنت میں داخلے سے روک سکے اور اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا ؛شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار چونکہ دجال ہے ، اس لیے شیطان کی پوجا اور دجال کی جھوٹی خدائی کو تسلیم کرنا، دونوں ہم معنی باتیں ہیں ؛ان دونوں چیزوں یعنی شیطانیت اور دجالیت کی تعظیم وتشہیر کے لیے آج کل کچھ شیطانی علامات اور دجالی نشانات دنیا بھر میں باقاعدہ منصوبے کے تحت پھیلائے جارہے ہیں اور ان کو فروغ دے کر عنقریب ظہور کرنے والے ’’ ایک چشم شیطان ‘‘ سے لوگوں کو مانوس کیا جار ہا ہے ؛اپنے گردو پیش میں پھیلی ہوئی ان علامات کو پہچاننا اور ان کی نحوست سے خود کو اور دوسروں کو بچانا اور ان کے پیچھے چھپے ہوئے خفیہ شیطانی پیغام کو مستر د کرکے رحمان کے مبارک پیغامات کو پھیلانا ،ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے ۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ دوشیطانی کاموں سے بچنے کی کوشش ،جوشیطان کی پوجا کرنے والوں اور دجال کی راہ ہموار کرنے والوں کا سب سے آزمودہ گر ہیں۔
(۱) فحاشی یعنی جنسی بے راہ روی ، جس کی کوئی انتہا نہیں اور یہ انسان کو حیوانیت (کتے ، بلی ) کی سطح تک لے جاتی ہے ۔ یعنی ’’ اسفل السافلین ‘‘ تک جہاں وہ بآسانی دجال کا غلام اور شیطان کا پجاری بن جاتا ہے ۔
(۲) جادوگر : شیطان کو خوش کرکے دنیاوی فوائد (دولت ، شہرت ، جنسی تسکین )لوٹنے اور مافوق الفطرت قوتوں سے یہ مدد حاصل کرنے کے لیے آج کل جادو کو سائنٹفک طریقے سے فروغ دینے کے لیے شیطان کے چیلے جدید ترین انداز اختیار کررہے ہیں ،اس شیطانی دجال سے بچیے، جس میں پھنسنے والا ایمان سے ہاتھ دھوکر دھوکے اور سراب میں پڑا رہتا ہے ؛یہاں تک کہ اسے موت کے سکرات آن گھیر تے ہیں ۔
(دجال ۲/۱۷۸-۱۸۵)