کائنات ارضی کی سب سے حیرت انگیز ہشاش بشاش زندہ و متحرک، عقل و ہوش اور روح و ضمیر رکھنے والی مخلوق جو حضرتِ انسان کے نام سے موسوم ہے۔ انسان کو قدرت کے سخی ہاتھوں نے موزوں قدو قامت، حسین و جمیل خدو خال اور حد درجہ نرالی ساخت سے نوازا۔ اس کے اندر بلند اخلاق، قوتِ احساس طاقت ِگفتار اور فکر و عمل کی صلاحیت پیدا فرمائی اور مافی الضمیر کو ادا کرنے کے مختلف انداز سکھائے۔
اولین انسان سے متعلق ہمارا عقیدہ:
حق تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا (جو ہر قسم کی تبدیلی قبول کرنے کی اہلیت رکھتی ہے) پھر ناپاک قطرے کے جوہر سے اس کی نسل کی افزائش کی۔ سب سے پہلے اپنے دست ِخاص سے آدم کا پتلا بنایا، اُن کے جسد خاکی میں روح پھونکی۔ حضرت آدم کے زندہ جسم سے اُن کی بیوی حضرت حوا کو پیدا فرمایا، تمام چیزوں کے نام اور حقائق سے انہیں آشنا کیااور اس علم کے سبب فرشتوں پر انہیں برتری بخشی۔ خلیفة اللہ کا منصب عطا کرنے کے بعد ملائکہ اور جنات کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کریں! فرشتوں نے حکم کی تعمیل کی اور آدم کو سجدہ کیا، ابلیس نے سجدہ سے انکار کیا اور ہمیشہ کے لیے آدم اور نسل ِآدم کا دشمن بن گیا! آدم اور حواء خدا کے حکم سے جنت میں رہنے لگے اور جنت کی ہر چیز استعمال کرنے لگے، انہیں ابتدا سے یہ تاکید کی گئی کہ وہ” شجر ِممنوعہ“ کے پھل کو ہرگز استعمال نہ کریں؛ لیکن دونوں اس حکم ِخداوندی کو بھول گئے، اور وسوسہٴ شیطانی سے اس درخت کا پھل کھا بیٹھے، پھل کھاتے ہی انہیں احساس ِگناہ ہوا اور دونوں توبہ و استغفار میں لگ گئے۔ حق تعالی نے انہیں تو بہ کے الفاظ تعلیم فرمائے اور انہیں معاف تو کر دیا، مگر اس کی مشیت کی رو سے زمین کو آباد کرنے کا وقت آچکا تھا، اس لئے کہ تخلیق آدم کے وقت ہی بتا دیا گیا تھا کہ زمین پر ایک خلیفہ یا نائب کا تقرر ہونے والا ہے؛ چناں چہ زمین کو انسانوں کی رہائش ان کی نسل کی افزائش اور ان کی جملہ ضروریات کے لئے آراستہ کر دیا گیا اور اس نافرمانی پر ان دونوں کو جنت سے نکال کر دنیا میں آباد ہونے کا حکم دے دیا گیا۔
اولین انسان سے متعلق ہمارا عقیدہ یہی ہے۔ اور اسلام کی نظر میں اولین انسان اور زمین کے سب سے پہلے آباد کار حضرت آدم علیہ السلام سے متعلق ہمارا یہ نظریہ تمام تر وحی الہی اور ارشاد ربانی کا نتیجہ ہے، جس کے آگے فکر و نظر قیاس و تخمین اور دادِ تحقیق سب کچھ ہیچ ہے۔
ایک انسان کا دوسرے انسان پر حق:
ہمارے نزدیک ایک انسان کا دوسرے انسانوں پر یہ حق ہے کہ: اس کا خون اس کا مال اس کی جان اس کی عزت و آبرو سب محفوظ ہوگی۔ اس کے جذبات و احساسات اور اس کی خودی اور عزت نفس سب کی حفاظت کی جائے گی اور جب تک آدمی اپنی انفرادی آزادی اور خود مختاری کا ناجائز فائدہ نہ اُٹھائے سماج اور معاشرے کو -جس کا وہ ایک فرد ہے- کوئی نقصان نہ پہنچائے اسے مکمل خود اختیاری اور شخصی آزادی کے فوائد حاصل رہیں گے۔
تخلیق انسانی کے دلائلِ قرآنی:
ہم جو عقیدہ رکھتے ہیں اور انسان کے بارے میں ہمارا جو نقطہ نظر ہے، اس کی دلیل اور بنیاد تمام تر باری تعالی کے وہ ارشادات ہیں جس میں اس نے انسانی تخلیق، اس کی نشوونما کے مختلف مدارج اور اس کے نسلی ارتقا کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اور خالق ِکائنات کے یہ ارشادات اور یہ ساری معلومات چوں کہ ہمیں وحی الہی کے ذریعہ حاصل ہوئیں، جس سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ذریعہ کا تصور عقل انسانی کے لئے محال ہے، اور جس کا نہ انکار کیا جاسکتا ہے، نہ اسے جھٹلایا جاسکتا ہے۔ یہ دلائل قرآن پاک میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو چکے ہیں۔
چنانچہ حضرت آدم کی پیدائش کے بارے میں باری تعالی کا ارشاد ہے:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ۔ (حجر:۲۶)
ترجمہ: اور بلاشبہ ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ،جو سڑے ہوئے گارے سے تیار ہوئی تھی۔
نیز فرمایا:إِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰئِکَةِ إِنِّی خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِینٍ فَإِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوحِی فَقَعُوا لَہُ سَجِدِین۔ (ص: ۷۱،۷۲)
ترجمہ: جبکہ تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں، پھر جب میں اس کو پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔
دوسری جگہ فرمایا:
الَّذِی أَحْسَنَ کُلَّ شَیْءٍ خَلَقَہُ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِینٍ۔ (سجدہ:۷)
ترجمہ: جس نے جو چیز بنائی خوب بنائی اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا۔
اولاد آدم کی پیدائش پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہُ مِنْ سُلَالَةٍ مِّنْ مَّاءٍ مَّہِینٍ۔ (سجدہ:۸)
ترجمہ: پھر اس کی نسل( انسانی جسم کے) خلاصہ (یعنی نطفہ کے) حقیر پانی سے بنائی۔
انسان یعنی حضرت آدم کی پیدائش کا ذکر دوسری جگہ یوں کیا:
إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ أَمْشَاجِ ۔(الانسان:۲)
ترجمہ: بلاشبہ ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔
ایک اور جگہ قدرے وضاحت سے فرمایا:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِّنْ طِیْنِ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَةً فِی قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً، فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا، فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا، ثُمَّ انْشَأْنَاہُ خَلْقًا أَخَرَ فَتَبَارَکَ اللَّہُ أَحْسَنُ الْخَلِقِینَ ۔(مومنون: ۱۲ تا ۱۴)
ترجمہ: اور بلاشبہ ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا، پھر ہم نے اُس کو ایک محفوظ جگہ (یعنی ماں کے رحم میں) نطفہ بنا کر رکھا، پھر ہم نے اس نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنایا ،پھر لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا بنایا، پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنایا، پھر ہڈیوں پر گوشت (پوست) چڑھایا۔ پھر ہم نے اس کو ایک اور ہی صورت میں بنایا، پس برکت و عظمت والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہتر پیدا کرنے والا ہے۔
دنیا کی پہلی خاتون حضرتِ حوا کے بارے میں فرمایا:
یَأَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیرًا وَنِسَاءً۔ (نساء:۱)
ترجمہ: لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو! جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا۔ (یعنی پہلے) اس سے اس کا جوڑا بنایا ،پھر ان دونوں سے بہت سے مرد و عورتیں (پیدا کر کے زمین پر) پھیلا دیئے۔
نیز فرمایا:ہُوَ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ إِلَیْہَا۔(اعراف: ۱۸۹)
ترجمہ: وہ اللہ ہی ہے، جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا؛ تاکہ وہ اس سے (دل کا سکون) حاصل کرے۔
اپنے دست ِخاص سے حضرت آدم کو ٹھیک ٹھیک بنایا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کریں:
إِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰئِکَةِ إِنِّی خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ طِینٍ، فَإِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحِی فَقَعُوا لَہُ سَجِدِینَ، فَسَجَدَ الْمَلٰئِکَةُ کُلُّہُمْ أَجْمَعُونَ إِلا إِبْلِیسَ – اسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِینَ (ص:۱ ۷تا ۷۴)
ترجمہ: جبکہ تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں، پھر جب میں پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے آگے سجدہ میں گر پڑنا۔ (جب اللہ نے اسکو بنایا) تو سارے کے سارے فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا ،مگر ابلیس نے کہ وہ غرور میں آگیا اور کافروں میں سے ہو گیا۔
ابلیس سے کہا!
قَالَ یٰاِبْلِیسُ مَا مَنَعَکَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ اسْتَکْبَرْتَ أَمْ کُنْتَ مِنَ الْعَالِینَ. قَالَ أَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِی مِنْ نَّارٍ وَخَلَقْتَہُ مِنْ طین۔ (ص: ۷۵،۷۶)
ترجمہ: اللہ نے فرمایا کہ اے ابلیس! جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا، اس کے آگے سجدہ کرنے سے تجھ کو کس چیز نے منع کیا؟ کیا تو غرور میں آگیا؟ یا تو اونچے درجے والوں میں سے ہے؟ ابلیس نے کہا کہ میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے بنایا!۔
شیطان کی دشمنی کا آغاز:
آدم کو حکم ہوا کہ” شجر ممنوعہ“ کا پھل نہ کھائیں! لیکن شیطان کے بہکاوے میں آکر آدم نے پھل کھا لیا! اور اپنے رب کے حکم کے خلاف کیا اور راہ سے بھٹک گئے!
وَلَقَدْ عَہِدْنَاالٰی آدم من قبل فنسی ولم نجد لہ عزما وإذ قلنا للملٰئکة اسجدو لاٰدم فسجدوالا ابلیس ابیٰ فَقُلْنَا یََادَمُ إِنَّ ہَٰذَا عَدُوٌّ لَّکَ وَلِزَوْجِکَ فَلَا یُخْرِجَنَّکُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَیٰٓ إِنَّ لَکَ أَلَّا تَجُوعَ فِیہَا وَلَا تَعْرَیٰ وَأَنَّکَ لَا تَظْمَؤُا فِیہَا وَلَا تَضْحَیٰ فَوَسْوَسَ إِلَیْہِ الشَّیْطَٰنُ قَالَ یََادَمُ ہَلْ أَدُلُّکَ عَلَیٰ شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلَیٰ فَأَکَلَا مِنْہَا فَبَدَتْ لَہُمَا سَوْئَٰتُہُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَیْہِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ وَعَصَیٰٓ ادَمُ رَبَّہُ فَغَوَیٰ ثُمَّ اجْتَبَٰہُ رَبُّہُ فَتَابَ عَلَیْہِ وَہَدَیٰ قَالَ اہْبِطَا مِنْہَا جَمِیعًا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ(طہ: ۱۱۵ تا ۱۲۳)
ترجمہ: اور بلاشبہ ہم نے پہلے آدم سے عہد کر لیا تھا، مگر وہ بھول گئے، اور ہم نے اُن میں عزم نہ پایا۔ اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے (کہ) اس نے انکار کیا۔ پھر ہم نے کہا اے آدم بلاشبہ یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، تو کہیں یہ تم دونوں کو جنت سے نہ نکلوا دے، پھر تم تکلیف میں پڑ جاؤ۔ بلاشبہ تمہارے لئے جنت میں یہ (آرام) ہے کہ تم اس میں کبھی بھوکے رہو گے نہ ننگے ہوگے۔ اور بلاشبہ اس میں تم نہ پیاسے ہوگے اور نہ دھوپ میں تپو گے۔ پھر شیطان نے ان کے (آدم کے) دل میں وسوسہ ڈالا (اور) کہا کہ اے آدم! کیا میں تم کو ہمیشہ کا درخت بتاؤں اور (ایسی) بادشاہی جس کو کبھی زوال نہ ہو؟ چناں چہ ان دونوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا تو ان کے ستر کی چیزیں ان پر کھل گئیں، اور وہ جنت کے درختوں کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے۔ اور آدم نے اپنے پروردگار کے (حکم کے) خلاف کیا، پس وہ راستے سے بھٹک گئے پھر ان کے پروردگار نے ان کو نوازا تو رحمت سے ان پر توجہ فرمائی اور راہ پر قائم کر دیا۔ پھر حکم دیا تم دونوں یہاں سے نیچے اُتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔
آدم علیہ السلام کی توبہ:
پھر باری تعالی نے کہا:فَتَلَقَّٰی آدَمُ مِنْ رَّبِّہِ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ۔
(بقرہ: ۳۷)
پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لئے، تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کی بے شک وہی بڑا توبہ قبول کرنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے۔
کلمات توبہ:
یہ کلمات کیا تھے؟ سورہٴ اعراف میں انہیں مفصل بیان کیا، فرمایا:
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِینَ ۔
(اعراف: ۲۳)
دونوں نے عرض کیا، پروردگار! ہم نے اپنے اوپر خود ظلم کیا اور اگر تو ہم کو نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ فرمائے گا تو ہم واقعی نقصان اُٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
حضرت آدم کو چیزوں کے نام سکھائے اور زبان و بیان کی صلاحیت بخشی:
وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلْئِکَةِ فَقَالَ انْبِؤُنِی بِأَسْمَاءِ ہُؤُلاءِ إِنْ کُنْتُمْ صَدِقِینَ (بقرہ: ۳۱)
ترجمہ: اور اللہ نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے۔ پھر ان (چیزوں) کو فرشتوں کے آگے پیش کیا اور فرمایا اگر تم سچے ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام بتاؤ۔
نیز فرمایا:الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَّمَہُ الْبَیَانَ.(الرحمن: ۱ تا ۴)
ترجمہ: (خدائے) رحمان نے قرآن کی تعلیم دی۔ اس نے انسان کو پیدا کیا، پھر اس کو گویائی سکھائی۔
تخلیق انسانی پر حدیث نبوی ﷺ سے دلائل:
آیات کی طرح احادیث کا سرچشمہ بھی باری تعالیٰ کی ذاتِ گرامی ہے، جنہیں حق تعالی نے حضور ﷺ کے دل میں ڈالا۔ دنیا کے اولین انسان کے بارے میں پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا:
حق تعالی نے فرشتوں کو نور سے، جنات کو آگ کے شعلوں سے اور انسانوں کو اپنے ارشاد کے مطابق مٹی سے پیدا فرمایا۔ چنانچہ ارشاد ہے: ”اور آدم کو مٹی سے بنایا “ (مسلم ۸/۲۲۶) حضرت انس کی شفاعت والی روایت میں ہے۔ اس روایت کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے کہ:
ایمان والے قیامت کے دن جمع ہوں گی، پھر ان کے دل میں یک بیک شفاعت کا خیال آئے گا۔ وہ ایک دوسرے سے کہیں گے کیوں نہ ہم کسی ایسے کو تلاش کریں، جو خدا کے یہاں ہماری سفارش کرے! تلاش کرتے ہوئے یہ لوگ حضرت آدم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے، آدم! تمہیں سب سے پہلا انسان ہونے کا شرف حاصل ہے۔ خدا نے تمہیں اپنے ہاتھوں سے پیدا فرمایا تمہارے اندر اپنی روح پھونکی، فرشتوں سے تمہیں سجدہ کرایا۔
(اللوٴلوٴ و المرجان (۱/۴۹/۵۰)
حضرت آدم اور دیگر انسانوں کی پیدائش میں فرق! اور عام انسانوں کے مقابلے میں آدم کا امتیاز جس کی طرف حدیث میں بطور ِخاص اشارہ کیا گیا، یہی ہے کہ حق تعالی نے انہیں خود اپنے دست خاص سے یکبارگی پیدا فرمایا۔ چنانچہ ارشاد ہوا: ”خدا نے تمہیں اپنے ہاتھوں سے پیدا فرمایا۔ اگر حضرت آدم کی پیدائش اس طرح عمل میں آتی جیسا کہ عام انسان پیدا ہوتے ہیں تو حدیث شریف میں ”خدا کے ہاتھوں سے پیدا فرمانے“ کا ذکر نہ ہوتا۔ اور تب حضرت آدم کو دیگر انسانوں پر نہ کوئی فضیلت حاصل ہوتی! اور نہ آپ کا کوئی امتیاز ہوتا!
بخاری، مسلم اور امام احمد سے انہیں (امام احمد) کے الفاظ میں روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:
”آدم اور موسیٰ کی باہم ملاقات ہوئی تو موسیٰ نے آدم پر اعتراض کرتے ہوئے عرض کیا آپ آدم ابوالبشر ہیں! آپ کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح پھونک دی، پھر کیا وجہ ہے کہ آپ نے اپنے آپ کو اور ہمیں جنت سے نکلوا دیا؟ آدم نے جواب دیا: تم موسیٰ ہو اللہ کے رسول، تم سے اللہ نے کلام کیا۔ اور تم نے توریت پڑھی ہے، کیا اس میں یہ نہیں لکھا ہے کہ آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور بھٹک گیا! موسیٰ نے عرض کیا جی ہاں“ (بخاری) آدم نے کہا: پھر تم ایسی بات پر مجھے ملامت کیوں کرتے ہو، جسے اللہ نے آسمان و زمین کی اور میری بھی پیدائش سے چالیس سال قبل میرے لئے مقدر فرمادی تھی؟ پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا: اس طرح حجت میں آدم موسیٰ پر غالب آگئے۔ ” فتح ربانی (۱/۱۲۷) اللولو والمرحان (۳/۲۱۱) مسلم (۸/۴۹) ابو داود (۲/۵۲۸)
حضرت آدم علیہ السلام کا خمیر:
نیز حضورﷺ نے فرمایا:باری تعالی نے حضرت آدم کا خمیر مٹھی بھر مٹی سے بنایا۔ یہ مٹی کل روئے زمین سے لی گئی تھی۔ جگہ جگہ کی مٹی کا اولاد آدم پر یہ اثر ہوا کہ جس کی مٹی جہاں کی تھی، نسلِ آدم کا رنگ روپ اس کے مطابق سیاہ سپید سرخ یا سرخ اور سیاہی مائل ہوا۔ مزاج میں نرمی، گرمی اعتدال اس کا نتیجہ ہے۔ اچھی بری افتاد طبع اور میانہ روی سب اسی مٹی کا اثر ہے۔
احمد (۵/۳۳۸) ابوداؤد (۲/۵۲۵) ترمذی: نے اسے صحیح کیا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق خو ان کی اپنی شکل پر:
بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے:خدا نے آدم کو ان کی اپنی شکل پر پیدا فرمایا۔ اس وقت آدم کا قد ساٹھ ہاتھ کا تھا۔ پھر فرمایا: آدم! جاؤ ان فرشتوں کو جاکر سلام کرو اور غور سے سنو تمہارے سلام کا وہ کسی طرح جواب دیتے ہیں۔ اس کے موافق تم اور تمہاری اولاد آپس میں سلام کیا کرنا۔ حضرت آدم نے بڑھ کر فرشتوں کو سلام کیا اور کہا السَّلَامُ عَلَیْکُمْ! انہوں نے جواب میں وَرَحْمَةُ اللہِ کا اضافہ کیا اور یوں کہا وَعَلَیْکَ السَّلَامُ وَ رَحْمَةُ اللہِ (خدا کا وعدہ ہے کہ) جنت میں داخلے کے وقت ہر جنتی کی شکل و صورت آدم کی سی ہوگی (لیکن دنیا میں) آدم کے بعد ان کی نسل میں دن بدن کمی آتی گئی، تا آں کہ آج کے انسانوں کا قد اس حد تک ہوا۔ (بخاری (۸/۶۲)
مسلم شریف کی روایت ہے:یوں تو سورج روزانہ نکلتا ہے ،لیکن سب سے بہتر دن جس میں سورج نکلتا ہے، وہ جمعہ کا دن ہے۔ اسی روز حضرت آدم پیدا ہوئے، اسی روز جنت میں داخل ہوئے ،اسی روز جنت سے نکالے گئے اور قیامت بھی اس جمعہ کے روز آئے گی۔ (مسلم (۳/۶)
ان تمام آیات واحادیث سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کا اولین انسان رفتہ رفتہ نہیں، بلکہ یکبارگی پیدا ہوا۔ حق تعالی نے اپنے دست ِخاص سے ان کی صورت بنائی۔ اس کے بعد وہ روح پھونکے جانے، فرشتوں سے سجدہ کرانے، علم سکھانے اور جنت میں داخلے کے مراحل سے گذرتے رہے۔ پھر وہ گھڑی آئی کہ- خلاف ِحکم کرنے اور بھٹک جانے پر پھل کھانے کے نتیجے میں جنت سے نکالے گئے اور اپنی بیوی حضرت حواء کے ساتھ-جن کی تخلیق حکم الہی سے ہوئی دنیا میں بسائے گئے۔
انسان کی افزائش نسل:
حضرت آدم اور حواء دنیا میں آباد ہوئے تو رفتہ رفتہ ان کی نسل بڑھی۔ قدرت کے۔ ہاتھوں نے فیاضی کی اور حسن و جمال سے آراستہ شکل و صورت اور مکمل قد و قامت میں اولاد آدم کی پیدائش کا بڑی تیز رفتاری سے سلسلہ چلا۔ خدا نے اُن کے اندر نامی گرامی عقلمند سردارانِ قوم اور زبان و بیان کے ماہر پیدا کئے۔ کل کائنات کو ان کا تابع ِفرمان بنایا، تاکہ دنیا کی زندگی میں یہاں کی ایک ایک چیز سے فائدہ اُٹھائیں۔ پھر ان کی اندرونی اصلاح اور باطن کی صفائی کے لئے پیغمبروں کا طویل سلسلہ چلایا۔ نبیوں اور رسولوں پر آسمانی کتابیں نازل فرمائیں ؛ تاکہ انسانیت کی تکمیل ہو، دنیا کی زندگی میں اُن کے اندر سدھار کے آثار نمودار ہوں اور پھر وہ دلوں کو صاف اور اپنی روحوں کو اس قدر پاکیزہ اور صاف ستھری بنالیں، تاکہ مرنے کے بعد آسمان میں قدسیوں کی جگہ انہیں ہمیشہ آرام اور اونچا مقام نصیب ہو۔