انسانی حقوق قرآن کی روشنی میں ایک جامع تناظر

 محمد سلیمان اختر فاروقی

 استاذ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا

 انسانی حقوق تمام افراد کے لیے بنیادی حق ہیں، خواہ ان کی قومیت، نسل، مذہب، یا کسی اور حیثیت سے ہو۔ یہ حقوق انسانی وجود کے مختلف پہلوؤں پر محیط ہیں، بشمولِ وقار، مساوات، آزادی اور انصاف۔

                 ’قرآن‘ اسلام کی مقدس کتاب، انسانی حقوق کے تصور کو گہرائی کے ساتھ بیان کرتا ہے، ایک دوسرے کے تئیں افراد کے حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس مضمون میں قرآن کے اندر بیان کردہ انسانی حقوق کے اصولوں کے متعلق ایک مختصر گفتگو کی گئی ہے، نیز، معاشرے میں امن، انصاف اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں ان کی اہمیت پر زور دینے کے بارے میں ایک تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔

                 قرانِ کریم نے جن حقوق کے متعلق نسل ِانسانی کو آگاہ کیا ہے اور ان پر بے حد زور دیا ہے، ان میں سب سے پہلا حق انسانی حق ہے، انسانیت کا حق قران کی نظر میں وہ اولین حق ہے، جسے ہر فردِ بشر پر لازم قرار دیا ہے کہ وہ اسے پورا کرے اور بجا لائے۔

                 یوں تو دنیا میں تمام انسانوں، تہذیبوں، ملکوں، قوموں اور بڑے بڑے اداروں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ انسان کو اس کے بنیادی حقوق ضرور دیے جائیں؛ لیکن عملی طور پر جو تصویر سامنے آتی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کے علمبردار ممالک اور موجودہ اقوام صرف اپنے پاس کھوکھلے نعرے رکھتے ہیں، یوں تو وہ انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، نہ صرف انسانی حقوق بلکہ جانوروں کے حقوق کی بھی وکالت کرتے ہیں، پرندوں کے حقوق کا بھی جائزہ لیتے ہیں اور ان کے متعلق ایک دوسرے سے لڑائی کرنے سے بھی باز نہیں آتے ہیں، اگر ان کو راستے میں کوئی پرندہ زخمی مل جائے تو اس کا بھی علاج کر کے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم نہ صرف انسانوں بلکہ حیوانوں، چرند اور پرند سبھی کے ہمدرد ہیں، سبھی کو ان کے حقوق دیتے ہیں، لیکن یہی لوگ، جب ان کے مفادات انسانی بنیادی حقوق سے ٹکراتے ہیں، تو اپنے مفادات کے حصول میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں، نہ صرف ایک بستی بلکہ پورا ملک تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔

                لوگوں کو قتل کرتے ہیں، ان کے مکانات اور پراپرٹی کو تباہ کر دیتے ہیں، بچوں کو یتیم اور خواتین کو بیوہ کر دیتے ہیں اور دنیا کے جن ممالک و اقوام کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے مفادات سے متصادم ہیں تو اس وقت وہ تمام انسانی حقوق سے صرف نظر کر کے انہیں صفحہٴ ہستی سے مٹا کر ہی دم لیتے ہیں۔

                 یہ واحد قرآن کریم کا مذہب اور اس کا طریقہ ہے کہ وہ اپنے متبعین کو ایسے انسانی حقوق کے سنہرے اصول اور ضوابط فراہم کرتا ہے کہ اگر کوئی قوم، ملک، معاشرہ یا سماج اسے اپنے لوگوں کے اوپر نافذ کرلے تو دنیا امن و امان کا گہوارہ بن سکتی ہے۔

                 یوں تو قرآن ِکریم نے انسانی حقوق کے متعلق بہت ساری باتیں کی ہیں اور ان کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور انہیں نسل ِانسانی کے سامنے ایک ایک کر کے پیش کیا ہے، تاہم؛ ہم اس چھوٹے سے مضمون میں انسانی حقوق کے چند اجزا کو نظر قارئین کرنے کی کوشش کریں گے۔

                 یہ ایک حقیقت ہے کہ جس معاشرے میں انسانوں کا وقار ملحوظ نہ رکھا جائے، ان میں باہم مساوات نہ ہوں تو وہ معاشرہ انسانی معاشرہ نہیں رہ سکتا ؛بلکہ وہ معاشرہ جنگل کی ایک تصویر پیش کرتا ہے۔ اس لیے ہم سب سے پہلے قران کی روشنی میں انسانی حقوق کے تناظر میں انسانی مساوات اور انسانی وقار کے متعلق چند باتیں کریں گے۔

 انسانی وقار اور مساوات:

                 قرآن ہر انسان کے موروثی وقار کو اجاگر کرتا ہے، چاہے اس کی سماجی حیثیت یا پس منظر کچھ بھی ہو۔ سورة الاسراء (17:70) میں کہا گیا ہے:

                ﴿ وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۔﴾

                ”اور یقینا ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی ہے اور انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا ہے اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا ہے اور ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی ہے۔( یقینی ترجیح)“

                یہ آیت خالق کی طرف سے انسانیت کو عطا کردہ الہی اعزاز کو اجاگر کرتی ہے، جو ہر فرد کی مساوی قدر و قیمت کی تصدیق کرتی ہے۔

                 مزید برآں، قرآن واضح طور پر نسل یا قومیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی مذمت کرتا ہے۔

سورة الحجرات (49:13) میں اعلان کیا گیا ہے:

                ﴿ یٰاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئلَ لِتَعَارَفُوْا-اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ-اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔﴾

                ”اے لوگو! بیشک ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنائے ؛تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والاہے ،تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار، بے شک اللہ جاننے والا اور باخبر ہے۔“

                 یہ آیت اللہ کے سامنے تمام انسانوں کی برابری پر زور دیتی ہے اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ حقیقی برتری تقویٰ اور نیکی میں ہے، دنیاوی صفات میں نہیں۔

 عقیدہ اور اظہار کی آزادی:

                 اسلام عقیدہ اور اظہار ِرائے کی آزادی کے اصول کو برقرار رکھتا ہے، لوگوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ بغیر کسی جبر کے اپنے مذہب پر عمل کریں۔

                سورة البقرہ (2:256) میں ارشاد ہے:

                 ﴿ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیّ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَہَا وَ اللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔﴾

                 زبردستی نہیں دین میں، بے شک خوب جدا ہوگئی ہے نیک راہ گمراہی سے، تو جو شیطان کو نہ مانے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے بڑی محکم گرہ تھامی جسے کبھی کھلنا نہیں اور اللہ سنتا جانتا ہے۔

                 یہ آیت عقیدے کے معاملات میں انتخاب کی آزادی پر زور دیتی ہے، اپنے ضمیر کی پیروی کرنے کے لیے افراد کی خود مختاری کی تصدیق کرتی ہے، تاہم اس میں یہ واضح اشارہ ہے کہ عقلمند آدمی کے لیے قبولِ حق میں تاخیر کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ کیوں کہ فرمایا جا رہا ہے کہ ﴿قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ﴾ہدایت گمراہی سے پوری طرح ممتاز اور واضح ہے۔ اس لیے عقل مند کو قبول اسلام میں تاخیر قطعی مناسب نہیں، البتہ کسی کافر کو جبراً مسلمان بنانا جائز نہیں، مگر مسلمان کو جبراً مسلمان رکھنا ضروری ہے۔

                کیوں کہ یہ دینِ اسلام کی توہین اور دوسروں کے لیے بغاوت کا راستہ ہے جسے بند کرنا ضروری ہے، لہٰذا کسی مسلمان کو مُرتَد ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

                 مزید برآں، قرآن کھلے مکالمے اور گفتگو کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، احترام کے ساتھ خیالات اور آرا کے تبادلے کو فروغ دیتا ہے۔

                 سورة الانعام آیت (6:108) مومنوں کو نرمی اور حکمت کے ساتھ بات کرنے کی نصیحت کرتی ہے:

                 ﴿وَلَا تَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّہِ فَیَسُبُّوا اللَّہَ عَدْ وًا بِغَیْرِ عِلْمٍ﴾۔

                ”اور جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ان کی توہین نہ کرو، ورنہ وہ بغیر علم کے دشمنی میں اللہ کی توہین کریں گے۔ “

                یہ آیت مختلف عقائد کے لوگوں کے ساتھ بات چیت، باہمی افہام و تفہیم اور تعاون کو فروغ دینے میں تہذیب اور رواداری کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔

                اس کے علاوہ اسلام نے ہمیشہ اسلامی تعلیمات کی اشاعت کے سلسلے میں ادب خلاف کا پورا پورا لحاظ رکھا ہے اور اسلامی تعلیمات کے فروغ میں کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دی ہے کہ انسان دوسروں کے ساتھ بات چیت میں اور اشاعت ِدین کی کوششوں میں ناشائستہ کلمات ادا کرے، بلکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

                ﴿ادع الی سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة وجادلہم بالتی ہی احسن ان ربک ہو اعلم بمن ضل عن سبیلہ وہو اعلم بالمہتدین﴾۔

 (نحل:125)

                اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے بہترین انداز میں استدلال اور مباحثہ کر۔ تیرا پروردگار ہر شخص کے بارے میں بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کس نے ہدایت پائی ہے۔

 جان و مال کا تحفظ:

                 قرآن انسانی جان کی حرمت اور انفرادی املاک کے حقوق کے تحفظ پر بہت زور دیتا ہے۔

                 سورة المائدة (5:32) میں بیان کیا گیا ہے:

                ﴿مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ اَنَّہ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَ مَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَا اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا وَ لَقَدْ جَآئَتْہُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِ ثُمَّ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ۔﴾

                اس کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ جو شخص کسی جان کو قتل کرے بغیر کسی جان کے، یا زمین میں فساد برپا کرنے کے لیے تو گویا اس نے اور جس نے کسی کو بچا لیا گویا اس نے تمام انسانوں کو بچا لیا اور یقیناً ان کے پاس ہمارے رسول کھلے دلائل لے کر آئے تھے، پھر ان میں سے بہت سے اس کے بعد بھی زمین میں مسرف تھے۔ “

                 یہ آیت غیر قانونی طور پر انسانی جان لینے کی کوشش کی حرمت کو نمایاں کرتی ہے اور زندگی کی حرمت کے تحفظ کے اصول پر روشنی ڈالتی ہے۔

                 مزید برآں، قرآن نے جائیداد اور مال کے ناجائز قبضے سے منع کیا ہے۔ سورہ البقرہ (2:188)یہ آیت دوسروں کے مال کو ناجائز طور پر کھانے کے خلاف نصیحت کرتی ہے:

                 ﴿ وَ لَا تَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِہَا اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔﴾

                 اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پرجان بوجھ کر کھالو۔

                  یہ آیت معاشی لین دین میں عدل و انصاف کو برقرار رکھنے، دوسروں کے اپنے مال کے حقوق کا احترام کرنے کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔ 

آخر میں، قرآن انسانی حقوق کے لیے ایک جامع فریم ورک فراہم کرتا ہے، جس میں وقار، مساوات، آزادی اور انصاف کے علاوہ زندگی کے تمام اصول شامل ہیں۔ یہ اصول اسلامی تعلیمات میں گہری جڑیں رکھتے ہیں اور ساتھی انسانوں کے ساتھ ان کے تعامل میں مومنین کے لیے رہنمائی کی روشنی کا کام کرتے ہیں۔ ان اصولوں کو برقرار رکھ کر، افراد ایک انصاف پسند اور ہمدرد معاشرے کے قیام میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں، جہاں ہر فرد کے حقوق اور وقار کا احترام کیا جاتا ہے۔