مولانا عبد الرحمن ملی ندوی /استاذ تفسیر وحدیث وایڈیٹر مجلہ ” النور “ جامعہ اکل کوا
وحدت امت اوراتحاد فکر؛ اسلام کے بنیادی عناصر اور اصولوں میں سے ہے ۔ امت اسلامیہ کے ترقیاتی مراحل میں اتحاد اور امن وسلامتی کو کلیدی مقام حاصل ہے ؛بل کہ قوموں کی زندگی میں اختلافِ وطن ، اختلاف ِرنگ وبو اور اختلاف ِتہذیب وتمدن کے باوجود اتحاد ِفکر اوروحدت ِامت کو ایک بنیادی واساسی مقام حاصل ہے ۔ اتحاد اور امن پسندی اسلام کے بنیادی عناصر ہیں اور عملی طور پر ایک مسلمان کو تعلیم دی جاتی ہے کہ ہ معاشرہ میں امن و سلامتی کا پیغامبر بنے ، نہ کہ تشدد وانارکی کا ۔ اسی لیے اسلام میں ” سلام کے الفاظ میں سب سے پہلے لفظ ” السلام“ مقدم رکھا گیاہے۔” السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ “․
اسلام ہی وہ آفاقی اورعالم گیر مذہب ہے ،جس نے انسانیت کے سامنے سب سے پہلے امن و سلامتی ، محبت وبھائی چارگی کا ہمہ گیر درس دیا اور اس کو ایک پائیدار ضابطہٴ اخلاق بنایا ، جس کا نام ” اسلام “ ہے۔یعنی دائمی امن وسکون اورلا زوال سلامتی کا مذہب ۔ یہ امتیاز دنیا کے کسی مذہب کو حاصل نہیں ہے۔ اسلام میں ظلم کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے ، بل کہ اسلام دنیا میں آیا ہی ہے ظلم کومٹانے کے لیے؛اسلام و ہ تنہا مذہب ہے جس کی تعلیمات اور پیغام میں امن و سلامتی کا عنصر زیادہ ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے جو حالات تھے ، ان حالات کے اعتبار سے اس زمانے کو جاہلیت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ ایسے ناگفتہ بہ اورانسانیت دم توڑتی حالات میں رب ِکائنات نے بنی نوع انسان پر احسان فرمایا اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمة للعالمین بناکر مبعوث فرمایا کہ:
﴿ہو الذی بعث فی الامیین رسولا منہم یتلو اعلیہم آیا تہ ویزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمة وإن کانوا من قبل لفی ضلال مبین﴾․
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت بابرکت کے علاوہ کوئی اور نمونہٴ حیات نہیں بن سکتی اور نہ ہی اسلام کے سوا کوئی دوسرا مذہب انسانوں کی کامل رہ نمائی کرنے کی صلاحیت رکھ سکتا ہے۔ قرآن ِکریم نے بجا طور پر فرمایا ہے کہ ﴿لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوةٌ حسنة ﴾آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت واخوت کی فضا قائم کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سماجی ومعاشرتی انصاف کا درس دیا۔
” امرنی ربیّ بالقسط “ آپ نے آزادی کا تصور دیا ۔ ﴿لا اکراہ فی الدین﴾امن و سکون ایک ایسی نعمت ہے، جس کا کوئی بدل نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری انسانیت کو امن وسلامتی کا کلمہ بھی دیا اور تعلیم بھی دی۔
امن و سلامتی ایک ربانی نعمت :
امن وسلامتی ہرانسان کے حق میں ایک عظیم نعمت ہے۔اسی بیش بہا نعمت سے اتحاد ِملت اور اتحادِ فکر جیسی معاشرتی تعلیمات، وجود پذیر ہوتی ہیں۔ اس لیے کہ مصیبت وپریشانی میں مبتلا ہونا خود ایک مصیبت ہے ۔ کچھ ایسے امراض ہوتے ہیں ،جن کے شکارہونے سے انسان امراض ِقلب کا شکار ہوجاتا ہے اور جن کی وجہ سے انسان امن وسلامتی اور اتحاد جیسی نعمتوں سے محروم ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق دل کو رحمت ورأفت اور سکون واطمینان سے بھر دیتا ہے اور اسی رحمت کو امن وسلامتی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور رحمت ورأفت وہ تحفہ ٴربانی ہے جس کو قرآن نے یوں ذکر کیا ہے :
﴿فبما رحمة من اللّٰہ لنت لہم﴾ عبادات وطاعات معاشرہ میں امن و سلامتی اور سکون کی فضا قائم کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہیں ۔
اسلام نے ہمیشہ امن و سلامتی کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔ اس لیے کہ امن وامان انسانی زندگی میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں ؛جیسے انسان مادی غذا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ، اسی طرح انسان امن وسلامتی کے بغیر زندگی بسر نہیں کرسکتا،جس کی طرف قرآنِ کریم نے کچھ اس طرح اشارہ کیا ہے:
﴿فلیعبدوا رب ہذا البیت الذی اطعمہم من جوع وآمنہم من خوف ﴾․
امن وسلامتی کا فر ق:
کسی بھی تشویش ناک صورتِ حال کا پیش نہ آنا سلامتی کہلاتا ہے ۔ اور کسی تشویش ناک صورت کا اندیشہ نہ ہونا امن کہلاتا ہے ۔ کوئی چیز انسان کو تشویش میں مبتلا نہ کرے یہ سلامتی ہے اور انسان حالات سے مامون زندگی گزارے یہ امن کہلاتا ہے۔
دنیا میں ہر حکومت ، سوسائٹی اور تنظیم نے امن وسلامتی کو بنیادی وکلیدی اہمیت دی ہے ،امن وسلامتی کے ذریعہ ہی ہم دشمنوں کی شاطرانہ چالوں اور مکاریوں کو سمجھ سکتے ہیں ۔ امن کے ذریعہ ہی ہم دفاعی تدبیریں کرسکتے ہیں اور امن و امان اور سلامتی کے ذریعہ ہی ہم اہل ِوطن کی حفاظت کرسکتے ہیں اور امن وسلامتی کے ذریعہ ہی صف بندی کرکے منافقوں کو پہچان سکتے ہیں ۔ امن وسلامتی کا وجود ہی انسانی زندگی کی سعادت مندی کا ضامن ہے۔
”امن“ اسلام کا ایک ایسا جز اور بنیادی عنصر ہے ، جو اس سے کسی بھی حالت میں جدا نہیں ہوسکتا، اگر نماز جیسا فریضہ بھی ادا کرنا ہو تو امن وسلامتی لازمی ہے، جس کی طرف قرآن کریم اشارہ کرتا ہے۔
﴿فان خفتم فرجالا او رکبانا ، فإذا امنتم فاذکرو اللہ کما علمکم مالم تکونوا تعلمون ﴾․
اللہ تعالیٰ نے اہل ِحرم کو امن وسلامتی کی عظیم ترین نعمت سے نوازاہے ، جس کو قرآن کریم نے یوں بیان کیا ہے :
﴿اولم یروا انا جعلنا حرما آمنا ویتخطف الناس من حولہم ﴾․
اللہ تعالیٰ نے ” امن “ اور ”ایمان“ کے درمیان ایک مستحکم اور مضبوط ربط و تعلق رکھا ہے، جس کی طرف قرآ ن کریم نے اشارہ فرمایا ہے :
﴿واذ قال ابراہیم رب اجعل ہذا البلد آمنا واجنبنی وبنی ان نعبد الاصنام ﴾․
اسلام نے ہمیشہ امن وسلامتی کی ستائش وحوصلہ افزائی کی ہے اور معاشرہ میں اس کو ایک بنیادی درجہ بھی دیا ہے ؛ اسی امن وسلامتی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے قریش پر احسان فرمایا اورپوری ایک سورت کا نزول فرمایا :
﴿لإیلٰف قریش ، إیلافہم رحلة الشتاء والصیف ، فلیعبدوا رب ہذا البیت الذی اطعمہم من جوع وآمنہم من خوف﴾․
اس کے برخلاف جس نے امن وسلامتی کے مرتب نظام کو غارت کیا اور اس نعمت کی ناشکری کی ، اللہ تعالیٰ نے اس کو عذاب وعقاب میں گرفتار کیا اور حالات کا شکار بنایا۔
امن وسلامتی اور سکون واطمینان کے بغیر زندگی اورمعاشرہ کا کوئی نظام نہیں چل سکتا ؛اس لیے کہ حاکمِ وقت اور بادشاہ کی سب سے بڑی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کے دلوں میں امن وسلامتی کے ماحول کو یقینی بنائے اور معاشرہ میں عدل و انصاف قائم کرے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ایسے قائد و رہ نما ہیں ، جنہوں نے دنیا میں امن وسلامتی کے قیام اورعدل و انصاف کی فضا کو برقرار رکھنے کے لیے مضبوط ومرتب نظام قائم کیا۔ مکہ مکرمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی توحیدی دعوت کا آغاز خفیہ اور پوشیدہ طور پر اس لیے کیا تاکہ مکہ مکرمہ کا امن وامان متاثر نہ ہو اور لوگ دوری محسوس نہ کریں ۔
(السیرة النبویة دراسة تحلیلة ص : ۱۳۵)
تاریخ دعوت وارشاد میں ہجرت نبوی کا واقعہ ایک عظیم واقعہ شمار کیا جاتا ہے ، یہ واقعہ اپنے جلو میں بہت سی عبرتیں اور نصائح رکھتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے لیے بھی ایسے اصول وضوابط مرتب فرمائے ، جس میں امن وامان بحال رہتے ہوئے ہرایک کے لیے سلامتی وشانتی کا ابدی پیغام ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو یہ حکم فرمایا تھا کہ خفیہ طور پر ہجرت کریں؛ تاکہ قریش سے کسی قسم کا سامنا نہ ہواور ہر قسم کی اذیت سے محفوظ ہوا جاسکے ۔ بچاوٴاور تدابیر کا اختیار کرنا ہی امن وسلامتی کا ضامن ہوتا ہے۔ ہجرت کے باب میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امن وامان اورسلامتی ٴحالات کا بہت اہتمام فرمایا۔ خود پیغمبر علیہ السلام حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف دوپہر کے وقت نکلے، جس وقت عام طور پر لوگ آرام کرتے ہیں ۔ مدینہ جانے والے راستہ سے ہٹ کر یمن کی جہت سے نکلے ، غار ِثور میں تین دن آرام فرمایا ۔ ان تمام تدبیر سے صاف اشارہ مل رہا ہے کہ آپ علیہ السلام ہر حال میں امن و سلامتی کے خواہاں اور طلب گار تھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے مشرکین کا جنگی جائزہ لینے کے لیے بھی جب حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا تو آپ نے فرمایا کہ:
” قم یا حذیفہ فاتنا بخبر القوم ، فلم اجد بُدًا إذادعانی باسمی ان أقوم ، قال اذہب فأتنی بخبر القوم ولا تزعرہم علي “․
(صحیح مسلم، کتاب الجہاد والسیر )
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ حالات کا جائزہ لے کر آوٴ ، لیکن قوم کو میرے خلاف نہ اکساوٴ ، بل کہ امن و امان اور سلامتی کو پیش نظر رکھنا۔
”طاقت وقوت کی تیاری کرنا ، جنگ کے اہم عناصر واسباب میں سے ہے ؛اسی تربیت سے فوجی طاقت جمع ہوتی ہے اوریہ طاقت دشمن کو مرعوب کرنے کا سبب بھی ہے۔ اوراسلام کی حفاظت وصیانت امن وامان وسلامتی کے ماحول کے ساتھ جنگی قوت تیار کرنے میں ہے۔ “
(المدرسة النبویة العسکریة ص۱۱۰)
شاہوں کے نام خطوط :
قوموں اورملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہوں اور سربراہوں کو بھی خطوط ارسال فرمائے، اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امن وسلامتی کا پہلو نمایاں رکھا۔ بعض بادشاہوں نے دعوت ِحق قبول کی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوب کی قدر وعزت افزائی کی اور بعض بادشاہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوب کے ساتھ ناروا سلوک کیا ، بدتمیزی سے پیش آئے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی حکومتیں غارت کردی۔
شاہ مصر مقوقس کو لکھا ” أسلم تسلم “ اسلام قبول کرلو سلامت رہو گے۔
شاہِ حبشہ کو لکھا ” اسلم انت فانی احمد الیک اللہ الذی لا الہ الا ہو“․
اسلام قبول کرو ، میں تمہاری جانب خدا کی حمد بھیجتا ہوں ، جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
کسریٰ کے نام آپ نے لکھا : ” السلام علی من اتبع الہدی “․
سلام ہو اس پر جو راہ ِراست کی پیروی کرے۔
(” رہبر انسانیت “ مولانا محمد رابع ندوی ۲۷۴)
غرض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کو دعوت حق قبول کرنے کی ترغیب کے ساتھ امن وسلامتی کاپیغام دیا ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امن وسلامتی اور بھائی چارگی کے داعی وپیغامبر تھے؛ خوف و دہشت کے سفیر نہ تھے۔
قومی ، مذہبی اور علاقائی عصبیت سے بالاتر ہوکر صاف اور کھلے ذہن سے ،جو سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرے گا، وہ بخوبی جانے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ؛جہاں معلم اخلاق اور رہبر ِانسا نیت جیسی ممتاز صفات کے حامل ہیں ، وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی امن پسندی ، سلامت نوازی ، رحمت ومودت اور شفقت ودلداری جیسی اہم صفات سے متصف بھی ہے۔
فتح ِمکہ کے تاریخی موقع پر بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امن پسندی اور صلح و آشتی کے دامن کو نہیں چھوڑاکہ کہیں امن و سلامتی کا ماحول خراب نہ ہوجائے۔ یہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امن وسلامتی کے فروغ وترقی میں عملی نمونہ، جو آج امت کے ہر طبقہ اور معاشرہ کے ہر فرد کو اپنانا چاہیے؛ اسی امن وسلامتی کے فروغ اور بڑھوتری سے اتحادِ ملت اور اتحادِ فکر جیسی اہم اور بنیادی صفات امت میں پیدا ہوسکتی ہیں۔ اور اسی کے ذریعہ امت میں اخوت ومحبت کے جذبات پروان چڑھیں گے اور دل‘ بغض وحسد اور کینہ پروری سے خالی ہوکر محبت وبھائی چارگی جیسی صفات سے متصف ہوگا۔
اتحادِ امت کی اعلیٰ ترین مثال جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے تاریخی موقع پر پیش فرمائی تھی کہ:
”کسی بھی عربی کو عجمی پر ، کالے کو گورے پر کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے ، تمام لوگ آدم کی اولادہیں اور آدم مٹی سے بنے ہیں۔ “
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خطبہ عالمی امن اور اتحاد ومحبت کی اعلیٰ ترین مثال ہے، آج امت کو ہر دور اور ہر زمانے سے زیادہ اتحاد ِملت اور اتحاد ِفکر کی ضرورت درپیش ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری انسانیت کو عزت و احترام اور اتحاد ِفکر ، اتحاد ملت کا درس دیا ہے۔اور اسی اتحاد ِملت سے امت میں امن وامان اور سلامتیٴ ٴحالات کو فروغ ملے گا۔
آج بھی اگر قرآنی بصائر ، اس کی حکمت بھری تعلیمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اندیشانہ پیغامات سے بھر پور تعلیمات پر عمل کیا جائے تو یقینا امت میں امن وسلامتی کی فضا قائم ہوگی ۔ انسانی سوسائٹی سے ناانصافی ، اندورنی خلفشار وتنازع اور ذہنی وفکری تناوٴ جیسے مسائل ختم ہوجائیں گے۔ اور امت میں اتحاد واتفاق ، محبت وبھائی چارگی جیسی تعلیمات فروغ پانے لگیں گی۔ خدا کرے ہم قرآنی بصائر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کو امن وسلامتی اور اتحادِ فکر واتحاد ِملت کے لیے اختیار کرنے والے بنیں ۔
واللہ یقول الحق وہو یہدی السبیل