مفتی یحیٰ آسام استاذ جامعہ اکل کوا
امت مسلمہ کو در پیش اخلاقی چیلنجز اور اس کا حل
معزز قارئین! جب ہم امت اسلامیہ کے موجودہ منظر نامے پر نظر ڈالتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت یہ امت نوع بنوع کے فکری، اعتقادی، تعلیمی، ثقافتی اور اخلاقی مسائل کی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی ہے، جس کی بنا پر اسلامی معاشروں میں غیر معمولی تشویش اور بڑی بے چینی پائی جاتی ہے؛ کیوں کہ وہ فطری طورپر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان حالات نے ان کے سامنے جو مسائل اور چیلنجز پیش کیے ہیں، ان کے مقابلے کے لیے انہیں کن وسائل وآلات کو بروئے کار لانے کی حاجت ہوگی اور اس راہ میں ان کے لیے کار آمد تدابیر کیا ہوسکتی ہیں؟!
مندرجہ ذیل سطور میں امت مسلمہ کو در پیش اخلاقی تحدیات (چیلنجز) اور ان کے مناسب حل کے حوالے سے کچھ ناگزیر گزارشات و ہدایات کو سپرد قرطاس کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔
بہ حیثیت مسلمان ہمارا یہ اعتقاد وایمان ہے کہ دین اسلام ایک کامل دین ومکمل دستور حیات ہے، جو زندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے۔ اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتاہے، وہیں اجتماعی زندگی کے لیے زرین اصول وضع کرتا ہے۔اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے زرّیں اصولوں میں اخلاق کو ایک کلیدی واساسی مقام حاصل ہے۔
قرآن کریم نے اقوام عالم کے عروج وزوال کے اہم تاریخی نشاناتِ راہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے متعدد اسباب و عوامل کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے ذریعے غور وفکر کی راہیں روشن فرمائی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ قرآنِ پاک نے معاشی، سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی عروج و زوال کااصل سبب اخلاق کو قرار دیا ہے۔ یہ اخلاق انفرادی،خاندانی، معاشرتی اور معاشی و سیاسی سطح پر فیصلہ کن عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔مغربی فکر میں اخلاق کے لیے عموماً دواصطلاحات، یعنی Ethics (اخلاقیات)اورMorality (سیرت، کردار)کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اوّلین اصطلاح فکری اور نظری پہلو کو اور ثانی الذکر اصطلاح اخلاق کے عملی پہلو کو ظاہر کرتی ہے۔
اسلامی روایت میں قرآن ِکریم اخلاق کی جامع اصطلاح میں نظری اور عملی پہلو کو یک جا کرتے ہوئے سیرت پاک کو اخلاق کی کسوٹی قرار دیتا ہے۔ اس جامع اصطلاح میں عقیدے اورعمل کی بنیاد پر اخلاقی رویے کو انسانی تہذیب اور ثقافت کے عروج و زوال کا بنیادی سبب قرار دیا ہے۔
دین اسلام اخلاق کو ترقی کا پیمانہ قرار دیتے ہوئے یہ اصول پیش کرتا ہے کہ جو اقوام اخلاقی لحاظ سے مستحکم ہوں گی، وہی مادّی ترقی اور خود انحصاری حاصل کر سکیں گی۔ جن اقوام کے اخلاق اچھے ہیں ان کو ترقی کی ضمانت دی گئی اور اگر اخلاق بدتر،ناپسندیدہ اور باطل ہیں تو انھیں متوقع تباہی و بربادی سے آگاہ کرنے کے لیے ماضی سے ایسی مثالیں پیش کی گئیں، جنہیں کوئی فرد بھی جو دو آنکھیں اور دماغ رکھتا ہو، رد نہیں کر سکتا؛چناں چہ حضرت داود علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام نے جن اصولوں کو اپنایا، ان کے نتیجے میں تجارت، کاشت کاری،صنعتی ترقی، لوہے اور فولاد سے تیار کردہ ہتھیار وغیرہ اورغلے کی پیداوار میں فراوانی اور دولت میں کثرت پیدا ہوئی۔ اگر حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے ناپ تول میں کمی کی، وعدوں کو پورا نہیں کیا اور حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے اپنے خاندانی اخلاق کو ایک ایسے عمل سے تباہ کر دیا، جس کا ارتکاب اس سے پہلے کسی انسان نے نہیں کیا تھا، تو اللہ کا غضب اور عذاب ان پر نازل ہوا۔ ان کے تعمیر کردہ محل،اس زمانے کی ایمپائر سٹیٹ بلڈنگیں اور وائٹ ہاوٴس اور آزادی کے علامتی مینار زمین بوس ہوکر خاک میں مل گئے۔ ان کی مادی عظمت ان کے کسی کام نہ آئی اورتباہی کو نہیں روک سکی۔
ترقی اور خوش حالی کے لیے اسلام نے جس چیز کو معیار اور بنیادی پیمانہ قرار دیا، وہ انسان کا اخلاق ہے، جس کے ثمرات کے طور پر ذاتی زندگی میں تزکیہ اور انسانی معاشرے میں تعاون، اخوت، عدل وانصاف اور حقیقی خوش حالی رونما ہوتے ہیں۔
انسانی زندگی میں حسنِ اخلاق کو جو اہمیت وعظمت حاصل ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں؛ ہر مذہب اور ہر دھرم کے لوگ،بل کہ دنیا میں بسنے والا ہر انسان اچھے اخلاق و کردار اور اچھے برتاؤ کا قائل ہے اور یقینا کسی کو بھی اس سے انکار نہیں ہو سکتا؛ کیوں کہ اخلاقی خوبیوں کو حاصل کرنا فطرت ِانسانی کااہم تقاضہ ہے؛ بل کہ بنیادی ضروریات میں سے ہے، اس کے بغیر انسان میں انسانیت اور حسن وخوبی نہیں آتی، یہی وہ عظیم اور قابل قدر جوہر ہے، جس کے ذریعہ معاشرے میں آپسی بھائی چارہ، اتحاد واتفاق، پیار و محبت، عفو و در گزر، رفق و نرمی اور توافق و ہم آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے اور اسی طاقت کے ذریعہ آپسی اختلاف وانتشار، باہمی چپقلش ورنجش، نفرت و بعد، بڑی سے بڑی عداوت ودشمنی، بغض و کینہ، اور ہر طرح کے تضادات دور کیے جا سکتے ہیں،حسن ِاخلاق در حقیقت انسان کا زیور اور اس کا حسن وخوبصورتی ہے، اسی کے ذریعہ اجتماعی وانفرادی زندگیوں میں توازن اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور لوگوں کے دلوں پر فتح حاصل کی جاتی ہے؛ جب کہ بد خلقی اور بدسلوکی سے تمام برائیاں: نفرت وعداوت، اختلاف وانتشار باہمی چپقلش و رنجش وغیرہ جنم لیتی ہیں اور اخلاق سے عاری ہو جانے کے بعد انسان لوگوں کی نظر میں عیب دار ہوجاتا ہے، اس کے پاس کوئی قابل قدر شیٴ اور کوئی ایسی امتیازی صفت باقی نہیں رہتی، جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کرے۔ گویا حسن اخلاق اور حسن سلوک انسانی زندگی کا قیمتی سرمایہ اور عظیم اثاثہ ہے۔
حسن ِاخلاق کے معنی اور اس کی حقیقت:
آج کل لوگوں نے حسن ِاخلاق کے مفہوم کو بہت محدود اور خاص کر دیا ہے اور وہ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ حسن اخلاق کا مطلب صرف لوگوں سے خندہ پیشانی اور بشاشت کے ساتھ ملنا، مہربانی اور شفقت کا معاملہ کرنا، مسکرا کر بات کر لینا اور ہمدردی کے الفاظ کہہ دیناہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اخلاق کا مفہوم بہت وسیع ہے اور اپنے اندر پوری انسانی زندگی کو سمیٹے ہوئے ہے، وہ صرف مذکورہ چیزوں ہی کو شامل نہیں ہے؛بل کہ اس کے بہت سے شعبے ہیں: شیریں و میٹھے بول، عفو و درگزر،رفق و نرمی،شفقت و مہربانی، انس و محبت، اکرام و اعزاز، حلم و بردباری، حیا و شرم، وسعت ظرفی و سخاوت، صلہ رحمی و حاجت روائی، تعاون و امداد، صبر و شکر، متانت و سنجیدگی، عدل و انصاف، امانت و دیانت، ماں باپ، بھائی بہن، عزیز و اقارب، بیوی بچے، یتیموں مسکینوں، پڑوسی، مسلمان اور غیر مسلم حتی کہ جانوروں اور پرندوں کے ساتھ بھی حسن سلوک و حسن معاملہ وغیرہ، یہ تمام حسن اخلاق کے شعبے ہیں ،جن کی شریعت مطہرہ میں تعلیم دی گئی ہے اور ان تمام شعبوں میں اچھا رویہ اختیار کرنے والا ہی اچھے اخلاق کا حامل اور اس عظیم صفت سے متصف کہلانے کا مستحق ہوگا۔ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم اخلاق کے مفہوم میں وسعت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”آج کل عرفِ عام میں ”اخلاق“ کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی دوسرے سے خندہ پیشانی سے پیش آئے، مسکرا کر اس سے ملے اور نرمی سے بات کر لے، ہمدردی کے الفاظ اس سے کہہ دے، بس اسی کو اخلاق سمجھا جاتا ہے۔
خوب سمجھ لیجیے کہ شریعت کی نظر میں ”اخلاق“ کا مفہوم بہت وسیع اور عام ہے، اس مفہوم میں بے شک یہ باتیں بھی داخل ہیں کہ جب انسان دوسرے سے ملے تو خندہ پیشانی سے ملے، اظہار محبت کرے اور اس کے چہرے پر ملاقات کے وقت بشاشت ہو، نرمی کے ساتھ گفتگو کرے؛ لیکن ”اخلاق“ صرف اس طرز عمل میں منحصر نہیں ہے؛ بل کہ ”اخلاق“ در حقیقت دل کی کیفیات کا نام ہے، دل میں جو جذبات اٹھتے ہیں اور جو خواہشات دل میں پیدا ہوتی ہیں، ان کا نام اخلاق ہے۔ پھر اچھے اخلاق کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے جذبات میں اچھی اور خوشگوار باتیں پیدا ہوتی ہوں اور برے اخلاق کے معنی یہ ہیں کہ اس کے دل میں خراب جذبات اور غلط خواہشات پیدا ہوتی ہوں۔
(اصلاحی خطبات، ۵۱/۵۸)
حسن ِاخلاق قرآن کی نظر میں :
حسن ِاخلاق کی قدر وقیمت اس وقت مزید دو چند ہو جاتی ہے، جب ہم اسے اسلام اور شریعت کی نظرسے دیکھتے ہیں؛ کیوں کہ قرآن وسنت میں اس کی بڑی اہمیت وارد ہوئی ہے۔ اللہ تبارک وتعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اہم صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وإِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾ (القلم:۴) ترجمہ: اور بیشک آپ (ﷺ)اخلاق(حسنہ) کے اعلیٰ پیمانے پر ہیں۔
اس آیت میں اللہ رب العزت نے دین ِاسلام، شریعت ِمطہرہ اور قرآنی تعلیمات کو خلق عظیم فرمایا ہے، گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی ایک ایک آیت کا عملی نمونہ ہیں۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمة اللہ علیہ معارف القرآن میں لکھتے ہیں: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ خلق سے مراد دین عظیم ہے کہ اللہ کے نزدیک دین اسلام سے زیادہ کوئی محبوب دین نہیں ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کہ آپ کا خلق خود قرآن ہے: یعنی قرآن کریم جن اعلیٰ اعمال واخلاق کی تعلیم دیتا ہے آپ ان سب کا عملی نمونہ ہیں۔ حضرت علی۔کرم اللہ وجہہ۔ نے فرمایا: کہ خلق عظیم سے مراد” آداب القرآن“ ہیں: یعنی وہ آداب جو قرآن نے سکھائے ہیں، حاصل سب کا تقریباً ایک ہی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجُود میں حق تعالیٰ نے تمام ہی اخلاق فاضلہ بدرجہ کمال جمع فرما دیے تھے۔
(معارف القرآن، ۸/۲۳۵)
اسی مفہوم کو ایک دوسرے انداز سے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اخلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ زندگی میں ایک اہم مشروع کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا:”إنما بعثت لأتمم مکارم الأخلاق“ (میں اس لیے مبعوث کیا گیا ہوں کہ مکارم اخلاق کی تکمیل کروں) قرآن میں اس مشروع کا اثبات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے ان لفظوں میں کیا گیا ہے:
﴿اِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾”آپ عظیم اخلاق سے متصف ہیں۔“
اسلامی معاشروں کا اخلاقی بحران :
یہ ایک ناقابل ِتردید حقیقت ہے کہ اخلاقی بگاڑ آج ہماری زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہوچکا ہے۔ امانت، دیانت، صدق، عدل،ایفاے ٴ عہد، فرض شناسی اور ان جیسی دیگر اعلیٰ اقدار کمزور پڑتی جارہی ہیں۔
کرپشن اور بدعنوانی ناسور کی طرح معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے۔ ظلم و ناانصافی کا دور دورہ ہے۔ لوگ قومی درد اور اجتماعی خیر و شر کی فکر سے خالی اوراپنی ذات اور مفادات کے اسیر ہوچکے ہیں۔ یہ اور ان جیسے دیگر منفی رویے ہمارے قومی مزاج میں داخل ہوچکے ہیں۔ یہ وہ صورت ِحال ہے جس پر ہر شخص کف ِافسوس ملتا ہوا نظر آتا ہے۔
اخلاقی اقدار کی اہمیت :
اللہ تبارک وتعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات کا شرف عطا فرمایا ہے، لیکن ہمیں ایک لمحے کے لیے رک کر یہ سوچنا چاہیے کہ انسان کو جانوروں سے ممتاز کرنے والی چیز کیا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ جانور صرف اور صرف اپنی جبلت کے تابع ہوتے ہیں۔ مثلاً جب کسی جانور کو بھوک لگتی ہے تو اس کے لیے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔
اس کے برعکس ایک انسان زندگی کے ہر معاملے میں کچھ مسلمہ اخلاقی حدود کے لحاظ کا پابند ہوتا ہے۔وہ جب اپنی کسی ضرورت کو پورا کرنا چاہتا ہے تو اس کی اخلاقی حس اسے خبردار کرتی ہے کہ وہ اپنی ضرورت کی تکمیل کے لیے کوئی غلط راستہ اختیار نہ کریں۔ تاہم جب انسان کی اخلاقی حس کمزور ہوجاتی ہے تو وہ صحیح اور غلط کی تمیز کھونے لگتا ہے۔ وہ ایک جانور کی طرح ہر کسی کے کھیت کھلیان میں گھس جاتا ہے۔وہ اپنی ضرورت کے لیے ہر جائز و ناجائز راستہ اختیار کرلیتا ہے؛ ایسا رویہ اختیار کرنے والوں کے سفلی جذبے آہستہ آہستہ ان پر غلبہ پالیتے ہیں، جس کے بعد انسانوں کے معاشرے میں جنگل کا قانون رائج ہوجاتا ہے اور آخر کار پوری قوم تباہی کا شکار ہوجا تی ہے۔
اس تباہی کی وجہ یہ ہے کہ انسان اصلاً ایک معاشرتی وجود ہے۔معاشرتی زندگی ”اخذواعطاء“یعنی:کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر قائم ہوتی ہے۔انسان کا حیوانی وجود دینا نہیں جانتا، صرف لینا جانتا ہے۔چاہے اس کا لینا دوسروں کی موت کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہو! یہ اصلاً انسان کی اخلاقی حس ہے، جو حقوق کے ساتھ فرائض سے بھی انسان کو آگاہ کرتی ہے۔ اجتماعی زندگی کا اصل حسن احسان، ایثار اور قربانی سے جنم لیتا ہے۔
جب تک اخلاقی حس لوگوں میں باقی رہتی ہے، اپنے فرائض کو ذمہ داری اور خوش دلی سے ادا کرنے والے اور ایثار و قربانی کرنے والے لوگ اکثریت میں رہتے ہیں۔جب اخلاقی حس مردہ ہونے لگے توایسے معاشرے میں ظلم و فساد عام ہوجاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں پہلے معاشرہ کمزور اور پھر تباہ ہوجاتا ہے۔یہ تباہی کبھی غیر ملکی حملہ آوروں کی مرہون منت ہوتی ہے، کبھی باہمی آویزشوں کے نتیجے میں جنم لیتی ہے۔
یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں بل کہ قوموں کی تاریخ پر نظر رکھنے والے عظیم مسلمان عالم ”ابن خلدو ن”کا بھی یہی ماننا ہے، چناں چہ وہ اپنی شہرہٴ آفاق کتاب ”مقدمہ ابن خلدون“ میں فرماتے ہیں کہ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے، جب کہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پزیر ہوجاتی ہے۔
ابن خلدون نے جوبات کہی ہے، آج کے حقائق بھی اسے بالکل درست ثابت کرتے ہیں؛چناں چہ ہم دیکھتے ہیں ہے کہ عصرحاضر میں جو اقوام عروج و ترقی میں سب سے آگے ہیں، وہ مسلمہ اخلاقی اقدار کی پابندی میں بھی مثالی رویے کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
اخلاقی انحطاط وبگاڑ کے اسباب :
اخلاقی انحطاط وبگاڑ انسان کی اصل فطرت ورویہ نہیں؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو دین فطرت پر پیدا کرتا ہے۔ خیر و شر کا تصور انسانی فطرت میں اس طرح راسخ ہے کہ انسان اگر عام حالت میں ہے تو کبھی اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔یہ رویہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان کا وجود کچھ بیماریوں کا شکار ہوجائے۔ ذیل میں انہیں کچھ بیماریوں کا جائزہ لے کر مناسب حل پیش کی جاتی ہے۔
اخلاقی انحطاط وپستی کے من جملہ اسباب میں سے ایک بنیادی سبب ہے:
دنیا پرستی کا مرض :
اخلاقی بگاڑ کا سب سے بنیادی سبب دنیا پرستی کی وہ لہر ہے، جس میں لوگ وقتی مفاد کے آگے ہر چیز کو ہیچ سمجھتے ہیں۔دنیا جتنی حسین آج ہے اتنی کبھی نہیں تھی، خصوصاً جن سہولتوں تک ایک عام آدمی کی پہنچ آج ممکن ہے، وہ پہلے کبھی ممکن نہ تھی؛تاہم یہ دنیا بلا قیمت دستیاب نہیں،اس کے حصول کے لیے مال چاہیے؛چناں چہ مال کمانا اور اس سے دنیا حاصل کرنا اب ہر شخص کا نصب العین بن چکاہے، مگر یہ مال آسانی سے نہیں ملتا۔ خاص طور پر اس شخص کو جو حلال و حرام، جائز و ناجائز، عدل و ظلم ا ور خیر و شر کو اپنا مسئلہ بنالیتا ہے۔ چناں چہ ایک انسان جس کا سب سے بڑا مسئلہ مال و دنیا بن جائے، اپنے مفادات کی خاطر اخلاقی اقدار سے چشم پوشی شروع کردیتا ہے۔ جب کبھی کوئی اخلاقی قدر حصول زر کے عمل میں رکاوٹ بنتی ہے تو وہ پرکاہ کے برابر بھی اسے اہمیت نہیں دیتا۔ رفتہ رفتہ اس کا اخلاقی وجود کمزور ہوتا چلاجاتاہے اور ایک روز دم گھٹ کر مرجاتا ہے۔
انسانوں کے اخلاقی وجود کی موت کے بعد زمین فساد سے بھر جاتی ہے۔ رشوت و بدعنوانی کا باعث یہی ہے، ظلم و ناانصافی اسی کی پیداوار ہے، خیانت و بددیانتی یہیں سے پھوٹتی ہے، ملاوٹ و جعل سازی اسی طرح جنم لیتی ہے اور جھوٹ ودروغ گوئی اسی کا نتیجہ ہے۔غرض دنیا پرستی اخلاقی زندگی کی عمارت کے ہر ستون کو دیمک کی طرح کھاجاتی ہے۔خاص طور پر نوجوان جو کسی بھی قوم کی امیدوں کا مرکز ہوتے ہیں اور بلند مقاصد کے لیے قربانی دینے میں سب سے آگے ہوتے ہیں، جب ان کی منزل صرف مادی منفعتوں کا حصول بن جائے تو اس سے بڑا سانحہ کوئی نہیں ہوسکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے نوجوان آج اس سانحہ سے دوچار ہیں۔
مال وزر کی ہوس کس طرح انسانی اخلاقیات کی دشمن ہے، اس کا اندازہ اس تنقید سے ہوتا ہے جو قرآن نے قریش کی قیادت پر کی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰہُ رَبُّہ فَاَکْرَمَہ وَنَعَّمَہ لا فَیَقُوْلُ رَبِّیْ اَکْرَمَنِ وَاَمَّآ اِذَا مَا ابْتَلٰہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہ لا فَیَقُوْلُ رَبِّیْ اَھَانَنِ کَلَّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ وَلَا تَحضُّوْنَ عَلی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ وَتَاْ کُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا ﴾
”لیکن یہ انسان، اس کا رب جب اسے آزماتا ہے، اور عزت بخشتا اور نعمتیں عطا کرتاہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے میری شان بڑھائی ہے۔ اور جب اسے آزماتاہے اور اس کی روزی تنگ کردیتا ہے، تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کرڈالا، ہرگز نہیں؛بل کہ(یہ سب تمھیں آزمانے کے لیے ہوتا ہے، مگر اس آزمائش سے بے پروا اس طرح زندگی بسر کرتے ہوکہ)یتیم کی قدر نہیں کرتے، اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کے لیے ایک دوسرے کو نہیں ابھارتے اور وراثت کو سمیٹ سمیٹ کر ہڑپ کر جاتے ہو اور (تمھارا یہ رویہ اس لیے ہے کہ تم) مال کی محبت میں متوالے ہوئے رہتے ہو۔“
(الفجر ۹۸: ۵۱۔۰۲)
دنیا پرستی کے یہی وہ نتائج ہیں، جس پر قرآن و حدیث اور انبیا کی تعلیمات میں شدید ترین تنقید کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
﴿اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَزِینَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ، کَمَثَلِ غَیْثٍ أَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہُ ثُمَّ یَہِیجُ فَتَرَاہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَکُونُ حُطَامًا وَفِی الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَانٌ ، وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ﴾
(سُورَةُ الحَدِید)
”جان رکھو کہ دنیا کی زندگی لہو ولعب، زیب وزینت اور مال و اولاد کے معاملے میں باہمی فخر و مسابقت کی مثال اس بارش کی ہے، جس سے ہونے والی فصل کافروں کے دل کوموہ لے، پھر وہ پک جائے اور تم اسے زرد دیکھو، پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجائے۔ اور آخرت میں ایک عذاب ِشدید بھی ہے اور اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوش نودی بھی۔ اور دنیا کی زندگی تو بس دھوکے کی ٹٹی ہے۔“(الحدید۵۷:۰ ۲)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بات کی بڑی وضاحت فرمائی ہے:
فرمایا کہ ”ہلاک ہوا درہم اور دینار کا بندہ۔“(صحیح بخاری)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر دنیا کی اہمیت مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہیں دیتا۔“(سنن ترمذی)
ایک اور روایت میں فرمایا کہ ”ہر امت کا ایک فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔“
(ترمذی، نساء واحمد)
ظاہر پرستی :
اخلاقی اقدار کا شعور ہر انسان اپنے ساتھ ماں کے پیٹ سے لے کر آتا ہے۔ دنیا میں آنے والا ہر انسان، مدرس فطرت سے، اخلاقیات کے میدان میں فارغ التحصیل ہوکر آتاہے؛اسی بنیاد پر قیامت کے دن اس کے اعمال کی جانچ ہوگی۔ تاہم انسان اپنی بعض کمزوریوں کے باعث انحراف کا شکار ہوتے رہے ہیں۔انسانوں میں پیدا ہونے والے اس بگاڑ کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں اپنے انبیا اور رسول دنیا میں بھیجے ہیں، جو لوگوں کو واپس فطرت کے راستے کی طرف بلاتے ہیں۔
حضرات انبیا۔علیہم السلام۔ کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف لوگوں کی بد اعمالیوں پر انہیں تنبیہ کرتے اور صحیح راستے کی طرف ان کی رہنمائی کرتے ہیں، بل کہ جو لوگ ان کی بات مان لیتے ہیں، ان کو راہ ِراست پر رکھنے کے لیے کچھ اعمال مقرر کرتے ہیں۔یہ اعمال دین کا ظاہری ڈھانچہ تشکیل دیتے ہیں۔یہ ظاہری ڈھانچہ اپنی جگہ عین مطلوب ہوتا ہے، مگر جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، اس کا اصل مقصد لوگوں کو شاہراہِ فطرت پر قائم رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین کے ہر ظاہری حکم کا کوئی نہ کوئی نتیجہ اخلاق اور فطرت کی دنیا میں نکلتا ہے۔ مثلاً خدا کو تنہا معبود اور سب سے بڑا ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور سوائے اچھے عمل کے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ نماز ایک طرف خدا کی یاد ذہن انسانی میں زندہ رکھتی ہے تو دوسری طرف فواحش و منکرات سے روکنا بھی اس کی خاصیت ہے۔
روزہ اگر خد اکی نعمتوں کی قدر و قیمت کا احساس دلاتا ہے تو ساتھ ساتھ خدا کے حدود کی پابندی کی تربیت اور غربا و مساکین کے حالات کی طرف بھی انسان کی توجہ کو مرکوز کرتا ہے۔ زکوٰة خدا سے محبت کے ساتھ مال ودنیا سے بے رغبتی اور ضعفا کی مدد کا بھی ذریعہ ہے۔حج وعمرہ خدا کے شوق کو بھڑکا تا ہے تو ساتھ ساتھ اس اجتماعی زندگی کی تربیت بھی کرتا ہے، جس میں لوگ تکلیف دہ حالات کے باوجود اپنے اوپر قابو رکھتے اورایک دوسرے کا خیال کرتے ہیں۔
حضراتِ انبیا کی یہ تعلیمات اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بے حد موٴثر ہیں، مگر امتوں پر جب زوال کا دور آتا ہے، تو ان کی تمام تر توجہ دین کے ظاہری ڈھانچے کی طرف ہوجاتی ہے۔ خدا پرستی اور اتباع شریعت کا معیار کچھ ظاہری اعمال بن جاتے ہیں۔ علامتی چیزوں کو حق و باطل کا معیار قرار دے دیاجاتا ہے۔
دین کا ظاہری ڈھانچہ جو اصلاً دین داری کا نقطہٴ آغاز ہوتا ہے اسے دین کا آخری مطلوب قرار دے دیا جاتا ہے۔
اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ دین کے اس سادہ ظاہری ڈھانچے میں لوگ اپنی طرف سے طرح طرح کے اضافے کرنا شروع کردیتے ہیں۔ان کی ساری تگ ودو اور دلچسپی کا مرکز اگر کوئی چیز رہ جاتی ہے، تو یہی فروعی اور اضافی چیزیں ہیں جن کی کوئی نظری یا عملی اہمیت نہیں ہوتی۔
اس صورت حال کا ایک برا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ دین کے ظاہری ڈھانچے سے حاصل ہونے والے اخلاقی نتائج کو یک سر فراموش کردیتے ہیں۔ شریعت کے احکامات سے وابستہ مقاصد جن کا ظہور اخلاقی سطح پر مطلوب ہے، وہ معاشرے کا موضوع ہی نہیں رہتے اور نہ کسی کو ان کے پیدا کرنے کی فکر ہوتی ہے۔نتیجةً لوگوں کی اخلاقی حس مردہ ہونے لگتی ہے۔لوگ دین کے تمام ظاہری اعمال کی پابندی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، مگر عین اس کے ساتھ اخلاقی سطح پر وہ بدترین انسان ثابت ہوتے ہیں۔
اجتماعی نصب العین کا فقدان :
اخلاقی انحطاط کا ایک سبب قومی زندگی میں کسی اجتماعی نصب العین کی عدم موجودگی ہے۔اخلاقی زندگی اصلاً قربانی کی زندگی ہے۔ انسان عام حالات میں خود پرستانہ اور ذاتی مفادات پر مبنی زندگی گزارتے ہیں۔
ایسا کرنا ان کے لیے ضروری ہے، کیوں کہ اس کے بغیر وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے، مگر جب سامنے کوئی بلند تر مقصد ہوتو انسان دوسروں کی خاطر دکھ جھیلتا اور ایثار کرتا ہے۔
اس کی سب سے نمایاں مثال ایک خاندان اور بچوں کے لیے ماں اور باپ کی قربانیاں ہیں۔ یہ دونوں اگر اپنے بہت سے حقوق سے دست بردار ہوکر اپنا مال، وقت اور محبت بچوں کو نہ دیں اور ان کے لیے مشکلات کا سامنا نہ کریں تو کبھی کوئی خاندان وجود میں نہیں آسکتا۔ٹھیک یہی معاملہ ایک معاشرے کا ہوتا ہے۔ایک مضبوط قوم اور مستحکم معاشرہ اس وقت وجود میں آتا ہے جب افراد کسی خارجی دباؤ کے بغیر خود اپنے اوپر کچھ پابندیاں عائد کرلیں۔خاندان کے معاملے میں تو یہ چیز اس لیے با آسانی حاصل ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی جبلت میں اولاد کی بے پناہ محبت ڈال رکھی ہے، مگر قوم کے معاملے میں لوگ ایسا صرف اس وقت کرتے ہیں جب ان کے سامنے اپنی ذات سے بلند ترکوئی اجتماعی مقصد اور نصب العین ہوتا ہے۔
چیلنجز کا حل :
گزشتہ سطور میں ان بنیادی اسباب کا ایک خاکہ پیش کیا گیا ہے، جو ہمارے اخلاقی انحطاط کے پیچھے کارفرما ہے۔ جب تک کوئی معاشرہ ان وجوہات کو دور نہیں کرتا، اس وقت تک اخلاقی انحطاط کا یہ کینسر اسے اندر ہی اندر کھاتا رہے گا اور ایک روز اسے کسی بڑی تباہی سے دوچار کردے گا۔
اس مسئلے کے حل کے دو بنیادی پہلو ہیں۔ایک فکری اور دوسرا عملی۔ انسان کے متعلق یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ حیوانات سے بلند ترایک مخلوق ہے۔ اس برتری کا باعث قلب ونظر کی وہ صلاحیتیں ہیں جو حیوانی جبلتوں کے ساتھ اسے عطا کی گئی ہیں۔انسان سے صادر ہونے والے تمام اعمال، خواہ وہ جبلی تقاضوں سے متعلق ہوں، قلب و ذہن کی بارگاہ سے اجازت طلب کرکے ہی دنیا میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔اس لیے بگاڑ جب بھی آتا ہے، وہ اولاً فکری طور پر آتا ہے اور پھر عملی دنیا میں اس کا ظہور ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے مذکورہ بالا تجزیے میں دیکھا کہ اخلاقی بگاڑ کے مذکورہ اسباب فکری سطح پر غلط نقط نظر کے فروغ اور درست نظریہ کی عدم موجودگی سے پیدا ہوئے ہیں۔
چناں چہ اصلاح کی راہ پر پہلا قدم یہ ہے کہ ایک فکری اساس متعین کی جائے ،جو مذکورہ بالا اسباب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اس کے ساتھ عام لوگوں کے لیے اس عملی لائح ِعمل کی نشان دہی بھی ضروری ہے؛ جسے اختیار کرکے وہ اس صورت ِحال کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرسکیں؛ اس لیے کہ یہ اخلاقی بگاڑ عوام الناس تک سرایت کرگیا ہے اور جب تک وہ عملاً اصلاح احوال کے لیے پوری قوت سے کوشش نہیں کریں گے کسی اور کے اصلاحی اقدامات کے نتیجے میں صورت حال میں بہتری کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔
اصلاح کی فکری اساس :
جہاں تک درست فکری اساس کا سوال ہے تو یہ اس مقصد کا صحیح شعور ہے، جس کے لیے اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو پیدا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں مسلمانوں کو اس لیے پیدا نہیں کرتے کہ اسے کچھ نہ کچھ لوگوں کی تو بہرحال ضرورت ہے، جو اس کی جنت کو ویران ہونے سے بچاسکیں۔ وہ کردار واخلاق کا بدترین نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں اور اللہ تعالیٰ اس کے باوجود انہیں فردوس کے باغوں میں آباد کر دیں!۔ امت ِمسلمہ سے جو چیز اصلاً مطلوب ہے، وہ دنیا کے سامنے ایک خدا پرستانہ معاشر ے کا جیتا جاگتا اور چلتا پھرتا نمونہ پیش کرناہے۔ مسلمانوں کا یہ معاشرہ توحید سے وفاداری اور شریعت کی پاس داری کے اصول پر قائم ہوتا ہے۔ یہی وہ فکری اساس ہے جس کا صحیح ادراک پیدا ہونے کے بعد مذکورہ بالا منفی اسباب ختم ہوجاتے ہیں۔
توحید پرست فرد دنیا پرست نہیں ہوسکتا؛ کیوں کہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اپنے رب کو راضی کرنا اور جنت کی اس ابدی بادشاہی کا حصول ہوتا ہے ،جس میں داخلے کی شرط یہی ہے کہ فرد اپنے وجود کو اخلاق و کردار کی ہر گندگی سے پاک کرکے اپنے رب کے حضور پیش ہو۔اس کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی خدا پرست اپنے آپ کو دنیا کی عارضی نعمتوں کی خاطر ان اخلاقی برائیوں سے آلودہ کرے، جو اسے ابدی جنت سے دور کردیں گی۔آخرت کی کامیابی کا یہ نصب العین انسان کی نفسیات پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔انسان اپنے اندر ہمیشہ کی زندگی اور ابدی بادشاہی کی جو طلب پاتا ہے، جنت اور اس کی نعمتیں آخری درجے میں اسی تصور کا جواب ہیں۔ جنت کاحسن و جمال، اس کی رعنائی و دل کشی، سکون و راحت، سرور ولذت، توقیر وعزت، وسعت ورحمت، عطا ونعمت،خوشی و مسرت، آسانی و فراغت، دوام وابدیت اور بخشش وعافیت کے تصورات جب قلبِ انسانی میں راسخ ہوجاتے ہیں تو اس کے لیے وہ اخلاقی زندگی گزارنا بے حد آسان ہوجاتا ہے، جو سر تا پیر قربانی سے عبارت ہے۔ بالکل اس طالب علم کی طرح کہ کامیابی کی امید جس کے لیے امتحان کی ہر شدت کو آسان اور تیاری کے ہر مرحلے کو سہل بنادیتی ہے۔
ایسا انسان آخرت کی اس کامیابی کے لیے شریعت پر اس کی صحیح روح کے ساتھ عمل کرتا ہے۔شریعت کا صحیح علم اسے ظاہر پرستی سے بچاتا اور دین کی ترجیحات سے آگاہ کرتا ہے۔سچی شریعت بتاتی ہے کہ اعمال میں اصل اہمیت تعداد سے زیادہ اخلاص کی ہے۔ جزئیات سے زیادہ اصول کی ہے۔
شریعت کا ہر عمل اوردین کا ہر حکم اخلاقی دنیا میں اپنا ایک نتیجہ چاہتا ہے۔ جو اگر نہ نکلے تو پھر خدا کی بارگاہ میں اس کی قبولیت مشکوک ہے۔ دین وشریعت ایک بندہٴ مومن کو قدم قدم پر بتاتے ہیں کہ بندوں کے حقوق مار کر رب کو راضی نہیں کیا جاسکتا۔
پھر جن لوگوں کی زندگی کا مقصد توحید اور اس کا فروغ ہو، وہ دوسروں کی ”سازشوں“ کے پرچار کے بجائے ان تک حق پہنچانے میں دلچسپی لیتے ہیں۔وہ دوسروں کے فرائض انھیں یاد دلانے کے بجائے اپنی ذمہ داریاں یاد رکھتے ہیں۔وہ ان سے دنیوی امور پر جھگڑے کھڑے کرنے کے بجائے ان کی آخرت کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔وہ نفر ت کے بجائے خیرخواہی اور ذمہ داری کے اس احساس میں جیتے ہیں، جو حضرات انبیا کا خاصا ہے۔ وہ لوگوں کی زیادتیاں سہہ کر انہیں اپنا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اصلاح کا عملی طریقہ :
پیچھے جو کچھ بیان کیا اس کے حصول کا عملی ضابطہ بھی دین نے خود ہی بیان کیا ہے۔ اصلاح معاشرہ کے اس ضابطے کے تین بنیادی عناصر ہیں۔ ریاست، علما اور فرد۔
راقم الحروف اس تحریر میں صرف فرد سے متعلق دیے گئے طریق کار پر گفتگو کرے گا؛ کیوں کہ وہی اصل مخاطب ہے۔ نیز اس دور میں اصلاح ِمعاشرہ سے متعلق فرد کی ذمہ داریوں کے بارے میں افراط و تفریط کا رویہ عام ہوگیا ہے۔ جس کے نتیجے میں عام لوگوں پر ان کی استعداد سے زیادہ بوجھ ڈالاجاتا ہے اور پھر بھی مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوتے۔ اس لیے فرد کو اس کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں باشعور بنانا ضروری کام ہے۔
ایک عام فرد سے، عام حالات میں جو دینی مطالبات لازماً مطلوب ہیں، وہ قرآن کریم کی سورہٴ عصر میں اس طرح بیان کیے گئے ہیں:
﴿وَالْعَصرِ إِنَّ لإِنسَانَ لَفِی خُسرٍ إِلَّا لَّذِینَ امَنُوا وَعَمِلُوا لصَّلِحَاتِ وَتَوَاصَوا بِلحَقِّ وَتَوَاصَوا بِلصَّبرِ﴾
ترجمہ : ”زمانے کی قسم! انسان درحقیقت بڑے گھاٹے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائیں،اور نیک عمل کریں،اور ایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کریں،اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کریں۔“
قرآن ِکریم کی یہ سورت واضح طور پر یہ بتاتی ہے کہ مذکورہ بالا اعمال خسارے سے بچنے کا یقینی ذریعہ ہیں۔ بلاشبہ یہ خسارہ آخرت کا ہے، مگر ایک مسلمان گروہ کے لیے یہ اعمال دنیا میں بھی نجات کے ضامن ہیں۔
ہمیں یہاں رک کر ایک ضروری بات یہ سمجھنا ہے کہ” تواصی بالحق اور تواصی بالصبر“ کا کیا تقاضہ ہے؟ اور اس پر عمل پیرا ہوکر ایک معاشرہ کس طرح بے شمار برائیوں اور بدعنوانیوں سے محفوظ رہ سکتا ہے؟! تو یاد رکھیں کہ کسی بھی معاشرے میں برائیاں اس وقت پھیلتی اور پنپتی ہیں ،جب لوگ اپنے اردگرد کے ماحول سے بے پروا ہوکر زندگی گزارنا شروع کردیتے ہیں۔ انسان اپنی زندگی تنہا کسی کھوہ، جنگل یا غار میں نہیں گزارتا، بل کہ لوگوں کے درمیان ایک خاندان کی صورت میں رہتا بستا ہے۔ وہ جب کسی برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ اس کے دوست، احباب، اہل خانہ اور متعلقین اس بات سے بے خبر رہ جائیں۔
ایسے میں اس شخص کے قریبی حلقے کے لوگ اگر اس برائی کے ارتکاب پر اسے فوراً ٹوک دیں تو اس کے رجوع کرنے اور پھر سے اس جرم کے ارتکاب کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں، لیکن اس کے برخلاف اگر یہ لوگ اس کی بدعملی کو معمولی بات سمجھ کر نظر انداز کردیں یا اس کے شریک کار اور دوست واحباب اس کی حوصلہ افزائی کرنے والے بن جائیں تو ایسا شخص اطمینان کے ساتھ بدترین جرائم کا ارتکاب کرتا چلا جائے گا اور اسے احساس تک بھی نہ ہوگا۔
ہمارے معاشرے میں جب ایک شخص رشوت لیتا ہے تو اکثر و بیش تر اس کے گھر والے اس بات سے آگاہ ہوتے ہیں۔ وہ اگر حرام کے اس پیسے کو قبول کرنے سے انکار کردیں، اسے سمجھائیں کہ یہ پیسہ نہیں، جہنم کے انگارے اور سانپ اور بچھو ہیں تو کسی بھی رشوت خور کے لیے اس پیسے کو گھر لے جانا بہت مشکل ہوگا۔ اس کے برخلاف جب گھر والے اپنے مفادات کی خاطر اس گناہ پر آنکھیں بند کرلیتے ہیں تو معاشرے پر ایک ظالم اور بد عنوان شخص مستقل طور پر مسلط ہوجاتا ہے۔ پھراس کے ساتھی اہلکار اور ماتحت اسے روکنے کے بجائے اسے رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو یہیں سے اس اخلاقی بگاڑ کا پوراسلسلہ شروع ہوتا ہے جس کی قدرے تفصیل اوپر آچکی ہے۔
اس پس منظر میں آپ ”تواصو بالحق و تواصو بالصبر“ کے اس حکم کی اہمیت کو سمجھیں جس کے تحت ایک شخص جب دوسروں کو حق سے دور دیکھتا ہے تو اسے اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے اور جب کوئی فرد کسی بنا پر حق کو چھوڑنے لگتا ہے تو وہ اسے اس حق پر ڈٹے رہنے کی تلقین کرتا ہے۔اس حکم کا لازمی نتیجہ ہے کہ زندگی میں پہلی دفعہ رشوت لینے والے کے دوست، احباب اور متعلقین میں سے کوئی نہ کوئی اسے ٹوک دے گا۔ کسی قریبی آدمی کا برائی پر اس طرح ٹوکنا کوئی معمولی بات نہیں۔ ہر شخص اپنے قریبی لوگوں میں،جن میں وہ زندگی گزارتا ہے، صاحب عزت و شرف بن کر رہنا چاہتا ہے،ان کی نصیحت اور فہمایش سے اس کی ہمت ٹوٹ جائے گی۔ برائی کی طرف اٹھنے والے اس کے قدم کمزور پڑ جائیں گے،کچھ نہ بھی ہو تو کم از کم برائی اس کی نظر میں برائی کے طور پر زندہ رہے گی۔ یہی احساس ایک دن اسے توبہ پر آمادہ کردے گا۔
”تواصو بالحق و تواصو بالصبر“ ایک لازمی حکم :
”تواصو بالحق و تواصو بالصبر“ کے حکم کے متعلق یہ بات جان لینی چاہیے کہ دین کا یہ حکم ایک مسلمان کی لازمی ذمہ داریوں میں سے ہے ،جو ایمان و عمل صالح کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ قرآن میں بیان ہوئی ہے۔قرآن و حدیث میں جگہ جگہ اس ذمہ داری کی طرف لوگوں کو توجہ دلائی گئی ہے۔اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کی تشریح کرتے ہوئے ایک دوسری تعبیر بھی اختیار کی ہے جسے ہم عام طور پر ”امربالمعروف اور نہی عن المنکر“ کے نام سے جانتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ ایک دوسرے کو نیکی کی نصیحت کرنا اور برائی سے روکنا ہرصاحب ایمان مرد و عورت کا لازمی وصف ہے، سورہٴ توبہ میں اس بات کو یوں بیان کیا گیا ہے:
﴿وَالمُؤمِنُونَ وَالْمُؤمِنَٰتُ بَعضُہُم أَولِیَاءُ بَعض یَأمُرُونَ بِالمَعرُوفِ وَیَنہَونَ عَنِ المُنکَرِ وَیُقِیمُونَ الصَّلَوٰةَ وَیُؤتُونَ الزَّکَوٰةَ وَیُطِیعُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ أُولَئِکَ سَیَرحَمُہُمُ اللَّہُ إِنَّ اللَّہَ عَزِیزٌحَکِیم﴾(سُورَةُ التَّوبَةِ)
ترجمہ: ”مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ وہ نیکی کی تلقین کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں، اور زکوة ادا کرتے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ اپنی رحمت سے نوازے گا۔ یقینا اللہ اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔“
”تواصو بالحق و تواصو بالصبر“ پر چند اہم نکات :
دین کے اس بنیادی حکم پر عمل کرتے ہوئے چند باتیں واضح رہنی چاہیے!
پہلی بات یہ کہ نماز روزے کی طرح اس حکم کے کوئی مخصوص اوقات متعین نہیں، بل کہ ایک مسلمان کو اس فریضے کی ادائیگی کے لیے ہمیشہ ذہنی اعتبار سے تیار رہنا چاہیے۔جب کبھی حق سے کوئی انحراف اس کے سامنے آئے تو ضروری ہے کہ وہ کسی مفاد یا اندیشہ کی پروا کیے بغیر اپنی ذمہ داری پوری کرے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ عمل دو طرفہ ہوتاہے: یعنی ایک وقت میں اگر ایک آدمی دوسر ے کو کسی حق کی تلقین و نصیحت کررہا ہے تو کسی اور وقت میں دوسرا پہلے کی توجہ اس کی کسی کوتاہی کی طرف دلا سکتا ہے۔آج ایک شخص کی کسی برائی کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے تو کل یہی شخص دوسرے کو اس کی غلطی پر نصیحت کرے گا۔ اس طرح مسلم معاشرہ کا ہر شخص دین و اخلاق پر عمل کرنے والا بھی بن جاتا ہے اور اس کی رکھوالی کرنے والا بھی۔
تیسری بات یہ ہے کہ یہ کام اصلاً اپنے ماحول اور حلقے میں کرنے کا ہے۔ یعنی اس کام میں انسان کا دائرہٴ عمل وہ ہے جہاں وہ خود بنفس نفیس موجود ہوتا ہے۔یعنی اس کا گھر، دفتر، دوست، محلہ وغیرہ۔اس میں کوئی خیر نہیں کہ ایک انسان دنیا بھر میں تو نیکی کو عام کررہا ہو، مگر اس کا اپنا قریبی حلقہ اس کے فیض سے محروم رہ جائے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ اس حلقے میں بھی جو جتنا قریب ہوگا، اسی قدر یہ ذمہ داری زیادہ ہوگی۔ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ انسان سے سب سے قریب اس کے گھر والے ہوتے ہیں، جن میں اس کے وقت کا بیش تر حصہ بسر ہوتا ہے؛چناں چہ اپنے گھر والوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے انسان کو سب سے زیادہ حساس ہونا چاہیے۔
پانچویں بات یہ ہے کہ جس قریبی حلقے اور ماحول کو انسان کا دائرہٴ عمل قرار دیا گیا ہے، وہیں اس کا ایک دائر ہٴ اختیار بھی ہوتا ہے۔ مثلاً شوہر کے لیے بیوی اورماں باپ کے لیے اولاد وغیرہ؛ چناں چہ اس دائرے کے بارے میں ہدایت دی گئی ہے کہ یہاں انسان اپنا اختیار استعمال کرکے ہر منکر کو روکنے کی کوشش کرے۔ یہ بات ایک حدیث میں اس طرح بیان ہوئی ہے:عن أبی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول:”من رأی منکم منکراً فلیُغیِّرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ، وذلک أضعف الإیمان“۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”تم میں سے جو شخص (اپنے دائرہٴ اختیار میں) کوئی منکر دیکھے اس کو ہاتھ سے روک دے، اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے روکے، اگر اس کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو تو دل سے براجانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔“ (صحیح مسلم)
اس حدیث میں طاقت رکھنے کے الفاظ اپنے اختیار کو نافذ کرنے کے حوصلہ وہمت کو بیان کررہے ہیں۔ جیسے ایک باپ کے لیے بیٹی اس کے اس دائرہٴ اختیار میں ہے، چناں چہ اس کے کسی غلط عمل کو دیکھ کر باپ کو اسے روکنا چاہیے۔ مثلاً اگر وہ گھر سے باہر جسم کشا لباس پہن کر نکلتی ہے تو بیٹی کو روکنا اس کی ذمہ داری ہے،اگر وہ اپنی بیٹی کو نہیں روکتا تو ضعف ایمان کا ثبوت دیتا ہے۔
چھٹی بات یہ ہے کہ قرآن میں بیان کردہ معروف و منکر کے الفاظ سے مراد عقل و فطرت اور دین و شریعت کے مسلمات ہیں۔ مثلاً امانت و دیانت مسلمہ اخلاقی اقدار ہیں، جھوٹ ایک ثابت شدہ برائی ہے۔ زنا مذہب ومعاشرے کی نگاہ میں یکساں طور پر جرم ہے؛اسی طرح عبادات میں نماز مسلمہ طور پر شریعت کا حکم ہے، لیکن وہ معاملات جن پر علمی طور پر ایک سے زیادہ آرا پائی جاتی ہیں، اس دائرے میں نہیں آتے۔
ساتویں اور آخری بات یہ ہے کہ ایمان اور عمل صالح کے برخلاف جو انسان کا ذاتی فعل ہے، حق کی نصیحت اور اس پر صبر کی تاکید کا عمل چوں کہ دوسروں سے متعلق ہے؛ اس لیے اس میں حکمت کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے۔ اس حکمت میں مخاطب کی ذہنی استعداد اور اس کی نفسیات وغیرہ کا لحاظ رکھنا بہت اہم ہے۔ اسی طرح اپنی حد کو پہچاننا اور اسی تک محدود رہنا بھی ناگزیر ہے۔مخاطب کے لیے دل میں محبت وخیر خواہی کا جذبہ اور گفتگو میں نرمی اور حکمت کا ہونا بھی مطلوب ہے۔ ان چیزوں کو نظر انداز کرکے جب یہ کام کیا جائے گا تو ہمیشہ الٹے نتائج سامنے آئیں گے اور لوگوں کے دل میں دین کی بے وقعتی اور معاشرے میں فساد پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔
لمحہء فکریہ :
امت مسلمہ اور اسلامی معاشروں کے لیے یہ لمحہء فکریہ ہے کہ جس امت کے نبی کی بعثت کا مقصد ہی مکارم اخلاق کی تکمیل قرار پایا ہو، جس نے اخلاق کو اعلیٰ ترین اخلاقی اور روحانی اقدار سے نوازا ہو، اس کی امت کا اخلاق وکردار نہایت پستی کی حالت اختیار کرچکے ہیں۔ آج اغیار ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ پر عمل پیرا ہوکر انسانیت اور اخلاق کی عظیم مثالیں قائم کررہے ہیں؛ ہم اقوام ِمغرب کو دیکھ لیں! وہ سچائی، راست بازی، محنت، عدل و انصاف اور اخوت و ہمدردی جیسے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ وہ کسی کی ذاتیات میں دخل اندازی کو معیوب گردانتے ہیں،محنت کو عار نہیں سمجھتے۔ اپنے کام کاج اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔ چوری، غیبت بلا اجازت کسی کی چیز کو استعمال کرنے کی عادت ہی ان میں نہیں پائی جاتی۔
چناں چہ آج اگر وہ دنیا میں کامیاب اور ترقی یافتہ ہیں تو یقینا یہ وہی اصول و ضوابط ہیں ،جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں، جن کی طرف قرآن کریم راہ نمائی کی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی زندگی میں کرکے دکھایا؛چناں چہ انہیں تعلیمات نبویہ کی بدولت اور مسلمانوں کے عمدہ اخلاق اور حسن معاشرت کو دیکھ کر بے شمار لوگ دامن اسلام میں داخل ہوئے۔
یہ ایک بدیہی اور واضح حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں اسلام کی نشر واشاعت میں اچھے اخلاق وکردار کا بڑا اہم رول رہا ہے؛ لیکن بدقسمتی سے آج مسلمانوں کے اندر سے یہ صفت بالکل معدوم سی ہو گئی ہے۔ تاجر ہو یا کاشتکار، ڈاکٹر ہو یا انجینئر، استاد ہو یا شاگرد، ملازم ہو یا نوکر،مزدور ہو یا مستری اور مرد ہو یا عورت سبھی کسی نہ کسی درجہ میں بد اخلاقی کا شکار ہیں؛ جب کہ حسن خلق شرعی تقاضہ کے ساتھ ساتھ فطری تقاضہ بھی ہے، جیسا کہ گزشتہ سطور میں اس کی تفاصیل آچکی ہیں۔
اللہ تبارک وتعالی ہمیں اور تمام امت مسلمہ کو اسلامی اخلاق، حسن معاملہ، صلہ رحمی، وسعت ظرفی، حسن معاشرت اور حق وصبر کی تلقین وتواصی جیسی عظیم صفات سے متصف فرمائے اور زندگی کے تمام شعبوں میں انہیں اپنانے کی توفیق عطا فرمائے!آمین۔