امت مسلمہ کو درپیش تعلیمی چیلنجز اور ان کاحل

محمد مجاہد اشاعتی پھلمبری

امت مسلمہ کو درپیش تعلیمی چیلنجز اور ان کاحل

            حامداومصلیًا ومسلماً!امابعد

            روز اول سے یہ بات سب پر عیاں ہے کہ تعلیم انسانیت کا امتیاز ہے اور قرآن کریم کے مطالعہ کی بنیاد پر یقین کے ساتھ یہ بات ہم کہہ سکتے ہیں کہ تعلیم ہی فرشتوں پر حضرت انسان کی برتری کا باعث ہے،تخلیق انسانی کے بعد پہلے انسان کو جس چیز سے سرفرازکیا گیا وہ تعلیم ہی تھی۔عقل و شعور کو پختگی بخشنے کا ذریعہ بھی تعلیم ہی ہے، قوموں کے عروج کا باعث بھی تعلیم ہی ہے،جو قومیں اعلی تعلیم حاصل کرنے میں ناکام رہیں،وہ دنیا کے نقشہ سے مٹ گئیں،دنیامیں ان کا نام لینے والے بھی موجود نہیں رہے،اور جن قوموں نے علم میں بلند مقام حاصل کیا،ان کے نقش پا ترقی کے ضامن قرار پائے،تاریخ نے انہیں اپنے سینے پر فخر کے ساتھ جگہ دی،اور وہ زندہ پائندہ اور تابندہ ہوگئیں۔

            سر سید احمد خان صاحب کے حوالہ سے ایک مقولہ بڑامشہورہے اور واقعہ بھی یہی ہے!کہ

            When a nation becomes devoid of Arts and learning. It invites poverty and when poverty comes brings in its wake thousands of crimes

            (جب کوئی قوم فن اور علم سے عاری ہو جاتی ہے۔ تو یہ غربت کو دعوت دیتا ہے اور جب غربت آتی ہے تو ہزاروں جرائم کو جنم دیتی ہے۔)

نبیٴ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم :

            معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لئے دنیا کو تعلیم سے وابستہ کیا،علم کے چراغ روشن کئے،اور جہل کی تاریکی کاخاتمہ فرمایا۔اورسچ کہاجائے تو یہ بات بھی صدفی صد صحیح اوریقینی ہے کہ اسلام نے تعلیم کو جتنا بلد تر اور اہم گردانا ہے، تاریخ انسانیت میں کوئی مذہب کوئی مفکر کسی خیال کا حامل فرد علم کو اس سے زیادہ بلند مقام عطا نہیں کرسکا ہے۔

            حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو علم کی بلندیوں پر پہنچایا،ہر وقت تعلیم دی، سفرو حضر میں تعلیم دی، اسرارِ کائنات اور احکاماتِ خداوندی سے انھیں آشنا کرایا،دن رات کے الگ الگ اوقات میں تعلیم عطا فرمائی، مکہ مکرمہ میں تعلیم کے حلقے لگائے تو مدینہ منورہ میں مسجدنبوی میں صفہ قائم فرمایا۔مردحضرات کو دینی مسائل سے آگاہ فرمایا تو عورتوں کی تعلیم کے لیے مستقل انتظام فرمایا۔

            مسجد نبوی ہو یا آپ کا گھر ہر جگہ تعلیم دین کو آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے جگہ عطا فرمائی۔کبھی اجتماعی طور پر تعلیم دین،احکام شرعیہ اور آیاتِ قرآنیہ کا علم دیا تو کبھی فرداً فرداً علومِ دینیہ سے اپنے اصحاب کو آراستہ فرمایا۔

            حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جوانوں، بوڑھوں، بچوں اور عورتو ں ؛تمام ہی کو اس دولت عظمیٰ سے بہرمند کیا،جو آپ کے دامن سے منسلک ہوئے، وہ علمی دنیا میں محترم ہو گئے،کسی کو علم کا دروازہ ہونے کا شرف حاصل ہوا،تو کسی نے نظام جہاں بانی و حکمرانی کی عملی تصویر پیش کی۔ کوئی فقہ و تفسیر کا امام قرار پایا اورکوئی حکمت و دانائی کا بادشاہ ہے،کوئی شجاعت و بہادری کا پہاڑ ہے،علم سے ان کے قلوب روشن ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کائنات کے لیے ستاروں کے مانند قرار پائے،جس کے قدم ان اصحابِ نبی کے نقش پا کی اتباع کرنے میں کامیاب ہوئے، وہ بھی راہ یاب ہوگیا۔

عزت وسربلندی کا ذریعہ علم ہے:

            ہر دور اور ہر زمانہ میں عزت و سربلندی کاذریعہ علم رہاہے۔ رفعت و عظمت کو علم پر موقوف کیا گیا، قرآن نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے:

             ﴿یَرْفَعِ اللّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ﴾نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس دین سے نوازا گیا،اس کی ابتدا ہی تعلیم سے ہوئی۔غارِحرا میں سب سے پہلی جو وحی نازل ہوئی وہ سورہٴ علق کی ابتدائی چند آیتیں ہیں،جن میں نبی اُمّی کو کہا گیا:

            ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ  خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَم﴾

(العلق:۱-۵)

            اسی قرآنی علم کے ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۳/ سالہ قلیل عرصہ میں اس وقت کے عربوں کو نجومِ ہدایت بنایا ،بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھایا ، اچھے اور بروں میں تمیز پیدا کی، دشمن کو دوست بنایا، بے گانوں کو اپنا بنایا اور دنیا میں امن وامان کی فضا پیدا فرمائی اورجہالت کا خاتمہ فر مایااور اہل علم کومقامِ رفعت وعظمت پر اسی قرآن نے پہنچایا۔

            ﴿یَرْفَعِ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَالَّذِیْنَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ﴾(المجادلہ:۱۱)

            ”تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جن کو علم عطا ہواہے،اللہ اس کے درجات بلند فرمائے گا اورجو عمل تم کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔“

            دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے:

            ﴿قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَاب﴾(الزمر:۹)

            ”اے نبی!کہہ دیجیے کیاعلم رکھنے والے(عالم) اور علم نہ رکھنے والے (جاہل) برابر ہوسکتے ہیں۔نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔“

            تاریکی اور روشنی کی مثال دے کر عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیاہے۔

             اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:

﴿قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الأَعْمَی وَالْبَصِیْرُ أَمْ ہَلْ تَسْتَوِیْ الظُّلُمَاتُ وَالنُّور﴾(الرعد:۶۱)

            ”کہہ دیجیے!کیا برابر ہوسکتے ہیں اندھا(جاہل) اور دیکھنے والا(عالم) یا کہیں برابر ہوسکتا ہے اندھیرا اور اجالا۔)

            اس طرح کی بہت ساری آیتیں ہیں، جن سے صاف واضح ہوتاہے کہ اہل علم کا مقام ومرتبہ بہت اونچا ہے اورحصول علم ہی ان کی عزت وسربلندی کا ذریعہ ہے۔

اسلام کی نظر میں بنیادی طورپر علم کی دو قسمیں ہیں:

            پھرعلم بھی دوطرح کا ہے۔حضرت مولانا خالدسیف اللہ رحمانی صاحب اپنے ایک مضمون میں فرماتے ہیں:

            ”اسلام کی نظر میں بنیادی طورپر علم کی دو قسمیں ہیں:

            ایک وہ علم جو انسان کے لئے نفع بخش ہو، خواہ دنیا کے لیے ہو یا آخرت کے لیے۔

             اور دوسرے: وہ علم جو بے فائدہ ہو۔ پہلا علم مطلوب ہے اور اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور دوسری قسم کا علم مذموم اور ناپسندیدہ ہے؛ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے علم نافع کی دُعا کیا کرو اور بے فائدہ علم سے اللہ کی پناہ چاہو:

             ”سَلُوْا عِلْماً نَافِعاً، وَتَعُوْذُوْا بِاللّٰہِ مِنْ عِلْمٍ لَّا یَنْفَع۔ْ“

 (سنن ابن ماجہ، عن عبد اللہ بن جابر، حدیث نمبر: ۳۸۴۳)“

             آج کل انسان کی ہلاکت و بربادی اور دنیا کو تباہ و تاراج کرنے کے جو ہتھیار تیار کیے جارہے ہیں، یہ یقینا بے فائدہ علم میں شامل ہیں اور سوائے اس کے کہ کوئی ملک دفاع کے لیے اس پر مجبور ہوجائے، اس کو اپنے وسائل تعمیری مقاصد کے بجائے ایسے تخریبی کاموں میں خرچ نہیں کرنا چاہیے، مغربی طاقتیں جس طرح اپنی بہترین صلاحیتیں مہلک ہتھیاروں کے بنانے میں خرچ کررہی ہیں، یقیناً ان کو بدبختی کہا جائے گا۔

امتِ مسلمہ کا حال:

            ان ساری حقائق اور فضائل کے باوجود آج امت مسلمہ کا کیا حال ہے،یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے،جس امت کا آغازہی ﴿اِقْرَأْ﴾ یعنی تعلیم سے ہوا تھا ، آج وہ قوم ہراعتبار سے خصوصاً تعلیم سے کو سوں دور ہے۔اور جو تعلیم حاصل کررہے ہیں وہ بھی دینی تعلیم سے ناآشناہیں۔

آج امت مسلمہ کو دوطرح کے تعلیمی مسائل درپیش ہے:

            (۱)…تعلیمی ناخواندگی وپسماندگی۔

            (۲)…لادینی طریقہ تعلیم

            تعلیمی ناخواندگی وپسماندگی کے اعتبار سے امتِ مسلمہ ہندیہ کو بہت زیادہ فکر کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ جو حال آج ہندوستان میں مسلمانوں کا ہے ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ اگر مسلمانوں کی شرح خواندگی پر غور کیا جائے تو ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں اورہمیں مستقبل کے لیے کیا لائحہ عمل تیار کرنا ہے۔

مسلمانوں کی شرح خواندگی :

            اس وقت مسلمانوں کو اگر ہم قومی اور عالمی پیمانہ پر دیکھیں تو دینی ودنیوی دونوں علوم میں مسلمانوں کا شرح تناسب دیگرمذاہب کے لوگوں سے بہت کم ہے۔

            مجموعی سطح پر کیے گئے سروے کے نتیجے میں سامنے آنے والے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۲۲/ عرب ملکوں میں سالانہ۳۰۰/ کے قریب کتابوں کا ترجمہ ہوتا ہے، جب کہ صرف یونان میں اس کا پانچ گنا زیادہ ترجمے کا کام ہوتا ہے۔ اسلامی ملکوں میں کیے گئے تمام تراجم مذہبی اور اسلامی نوعیت کے ہوتے ہیں، جو کہ مستحسن ہے، جب کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے علوم پر کام صفر ہوتا ہے، جس پر کافی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

            مسلمانوں کی تعلیمی شرح صرف چالیس فیصد ہے جب کہ ۲۰۰۵ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ۷۸/ فیصد عیسائی تعلیم یافتہ تھے۔ ۱۷/ مسلم ممالک میں آدھی سے زیادہ بالغ آبادی پڑھنا لکھنا نہیں جانتی،جن کی اکثریت مسلم خواتین کی ہے۔

            بھارت میں ۲۰۰۶ء میں قائم کی گئی سچر کمیٹی کی پیش کردہ ۲۰۱۱ء کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی مجموعی شرح خواندگی کا تناسب ۵۷/ فیصد تھا، جب کہ دیگر قوموں کا مجموعی تناسب۴،۷۴فیصد تھا اور GARکی روشنی میں ۱۷/ سال کی عمر میں اسکول جانے والے بچوں کی شرح۱۷/ فیصد جب کہ دیگر قوموں کی شرح۲۶/ فیصد، مڈل اسکول کی تعلیم لینے والے مسلم طلبہ کا تناسب۵،۵۰/ فیصد جب کہ دیگر قوموں کا تناسب۶۲/ فیصد تھا۔ دیگر قوموں کا اگر انفرادی تعلیمی جائزہ لیا جائے تو ہندووٴں کا تناسب،جینیوں کا ۴،۸۶/ فیصد،عیسائیوں کا۳،۷۴، بدھسٹوں کا۸،۷۱/ اور سکھوں کا۵،۶۷/ فیصد تھا۔

            اور حالیہ ٹائمز آف انڈیا کی ۲۰۱۸ء میں پیش کردہ۷۵/ ویں رپورٹ کے مطابق مسلم شرح خواندگی کا تناسب دیگر اقلیتوں کے مقابلے میں خطرناک حد تک کم ہے۔ یہ سروے واضح کرتا ہے کہ سیکنڈری سطح پر مسلمانوں کی شرح تعلیم۹،۷۱/ فیصد جب کہ ST کا۸،۷۹/اور SC کا۸،۸۵/ فیصد ہے۔ اسی طرح ہائر سیکنڈری سطح پر مسلم کی شرح تعلیم ۵،۱۴/ فیصد ST کا۴،۱۴/ فیصد اور SCS کا۸،۱۷/ فیصد ہے۔ اور تین سے ۳۵/ سال کے درمیان مسلم طبقہ میں سب سے زیادہ شرح ان بچوں کی ملتی ہے جو کبھی کسی اسکول یا ادارے میں باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ نہیں ہوئے۔۲۰۱۰ء- ۲۰۱۱ء اور ۲۰۱۸ء- ۲۰۱۹ ء کے مابین کیے گئے آل انڈیا سروے ان ہائر ایجوکیشن رپورٹس کے مطابق(AISHE) اعلیٰ ایجوکیشن میں مسلم طبقہ کی شرح خواندگی محض۲،۵/ فیصد نظر آتی ہے جب کہ دیگر اقوام کی شرح خواندگی۳،۳۶/ فیصد پائی جاتی ہے۔

تعلیم کا انقطاع:

            ہمار ے مسلم معاشرہ کا تعلیم کے باب میں ایک بڑا غلط اقدام تعلیم کا انقطاع ہے،بل کہ ہندوستان میں مسلمان بچوں میں تعلیم کو منقطع کرنے کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔مسلمان بچے ذہین وفطین ہونے کے باوجودسلسلہ تعلیم کو منقطع کردیتے ہیں۔ساتویں،آٹھویں اور بہت زیادہ دسویں تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد گریجویشن سے پہلے پہلے تعلیم چھوڑدیتے ہیں۔جس کی چندوجوہات ہوتی ہیں۔من جملہ ان وجوہات کے اسباب کی عدم فراہمی ہے یا پھر والدین وسرپرستان کی بے توجہی ،تعلیم کی اہمیت نہ ہونایابچوں کی بے شعوری۔

            اس باب میں ملتِ اسلامیہ ہندیہ کو بہت زیادہ فکرکرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے بچے دینی وعصری دونوں تعلیم میں سلسلہٴ تعلیم کو منقطع نہ کریں،بل کہ اپنی منزل اور مقصود کو حاصل کرنے کی فکر کریں اور اس کے لیے والدین اور سرپرست حضرات کوئی لائحہ عمل ضرورتیارکریں۔

            بہر کیف ! ہراعتبار سے ہرجگہ مسلمان تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہیں۔آخر مسلمانوں کی ناخواندگی کے اسباب کیا ہیں۔اس پر اگر غور کیا جائے تو ہمیں چند اہم اسباب نظر آتے ہیں،جنہیں درج ذیل سطور میں نقل کیا جارہاہے تاکہ ان پر غور وفکر کرکے ان کے حل تلاش کیے جائیں!

مسلمانوں کی ناخواندگی کے اسباب:

پہلاسبب:تعلیمی اداروں کی کمی:

 پوری دنیا کا سرسری جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دنیا کے ۵۷/مسلم ممالک جو کہ آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (OIC)کے ممبر ہیں ان میں کل ۶۰۰/ سے کم یونیورسیٹیاں ہیں۔اوآئی سی کی آبادی ۴،۱ billionسے زیادہ ہے۔

            ہمارے ملک بھارت یونیورسیٹیاں اکثر غیراسلامی طرز پرقائم ہیں بل کہ ان کے فاوٴنڈرز اور منتظمین متعصب ذہنیت کے حامل افرادہیں۔

دوسراسبب: متعصبانہ فکر اور نا اہلی:

             ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا ایک اہم سبب حکومت اور یونیورسیٹی کے ذمہ داروں کی متعصبانہ فکر اور نا اہلی ہے ،نیز تعلیمی اداروں میں رشوت خوری کا بازار گرم ہے، جو حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے، کیوں کہ یہی وہ خامیاں ہیں جن سے متأثر ہو کر ایک قوم یا ملت تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہے۔

تیسراسبب:تعلیم کے تئیں ہماری بے شعوری:

             تعلیمی پسماندگی کا ایک بڑا سبب تعلیم کے تئیں ہماری بے شعوری ہے۔ مسلمانوں میں آج بھی ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو تعلیم کی اہمیت سے ناواقف ہیں۔ ”علم آدم الاسماء کلھا“ اور ”اقرأ“ کے فرمان کے پیروکار اسی لفظ کے مفہوم سے نابلد فکر معاش میں اپنے بچوں کو بچپن سے ہی ان عارضی کاموں پر لگانے میں مصروف ہیں، جن سے یومیہ دس بیس روپیہ حاصل کرنے کے ہی متحمل ہوسکیں، بجائے اس کے کہ علم کا ایک مستقل پلیٹ فارم تیار کرکے ہزاروں اور لاکھوں کی کمائی کرسکیں۔

چوتھاسبب: فکری بحران:

             تعلیمی پسماندگی کا ایک سبب فکری بحران ہے۔ ہماری قوم کے بیشتر افراد کے دماغ اس سوچ کے حامل ہیں کہ بچوں کو زیادہ تعلیم یافتہ بنا کر کوئی خاص آبگینہ نہیں تلاش کیا جا سکتا،جب کہ کم عمری میں ہی اگر بچوں کو روزگار سے جوڑ دیا جائے تو وہ بیش قیمت خزینہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے ان نونہالوں کا مستقبل تاریک کردیتے ہیں جنہیں قوم کا روشن چراغ بن کر ملت کی شاہراہ کو روشن کرنا تھا، وہ خود تاریکی کے سمندر میں غرقاب ہو جاتے ہیں،کیونکہ کاروبار میں اتار چڑھاوٴ فطری ہے، لیکن علم ایک ایسا بیش قیمت جوہر ہے جسے نہ لوٹا جا سکتا ہے نہ جلایا جا سکتا ہے۔ چناں چہ قرآن کہتا ہے:

            ﴿قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون﴾

            ”کہہ دیجیے! کہ علم والے اور بغیرعلم والے برابرہو سکتے ہیں؟“(الزمر: ۹)

پانچواں سبب: اسراف و تبذیر:

            تعلیمی پسماندگی کا ایک اور سبب جو معاشرے میں پوری طرح سے قدم جمائے ہوئے ہے وہ اسراف و تبذیر ہے۔ معاشرے میں شادی بیاہ، بچوں کی بسم اللہ، ختنہ، عیدی، اور عقیقہ جیسی دیگر تقریبات نیز موت سے متعلق خود ساختہ رسم و رواج کی تکمیل میں ہم بے دریغ پیسے بہاتے ہیں،یہاں تک کہ اس کے لیے بسا اوقات اپنی بعض بنیادی ضرورت کی چیزوں کی فروخت سے بھی گریز نہیں کرتے،جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ضروری احتیاج کی فراہمی کے متحمل نہیں ہو سکتے، چہ جائے کہ ہم کسی غریب بچہ کی تعلیمی کفالت کریں۔

چھٹاسبب: سماج کے بچوں اور ان کے اولیاء کے درمیان عدم تفاوت اور باہمی میل جول کا فقدان:

             تعلیمی پسماندگی کا ایک سبب سماج کے بچوں اور ان کے اولیا کے درمیان عدم تفاوت اور باہمی میل جول کا فقدان ہے۔ بعض اولیاء اپنے بچوں کو ایک بار اسکول میں داخل کرانے کے بعد کبھی خبر نہیں لیتے،جس کے باعث بسااوقات بچے خود نفع و نقصان سے قطع نظر مفوضہ کاموں میں لاپرواہی اور ڈسپلن شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں یا پھر تعلیم کو ہی خیر باد کہہ جاتے ہیں۔اس ضمن میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب مولانا سید نظام الدین کا یہ قول نقل کرتے ہیں:

            ”آج تعلیم کے حصول میں رکاوٹ بے کسی اور بے بسی نہیں بلکہ ہماری بے حسی ہے،جس کی وجہ سے ہمارے بچے تعلیم میں آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں۔ یہ بے حسی کبھی تو گارجین کی طرف سے ہوتی ہے اور کبھی بچوں کی طرف سے۔ بعض بچے زیادہ خرچیلے ہوتے ہیں،وہ اپنے گارجین کی مالی حیثیت کا غلط اندازہ لگاتے ہیں اور مختلف عنوانات سے ضروری اور غیر ضروری اخراجات کرکے گارجین کو پریشان کرتے ہیں۔ کبھی بچوں کا یہ رویہ بھی گارجین کو اس کی تعلیم بند کرنے پر آمادہ کرتا ہے، کبھی صورتحال اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہوجاتی ہے۔ ہمارے ایک ملنے والے کے پوتے نے ایک کوچنگ میں داخلہ کے لیے گارجین پر دباوٴ ڈالا، گارجین اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ پچپن ہزار روپے کوچنگ کی فیس ادا کر سکے۔ لڑکے نے خودکشی کی دھمکی دی۔ ماں دادی سب نے اپنے زیور گروی رکھ کر اس کی پسند کی کوچنگ میں داخلہ دلوادیا۔ دو روز کے بعد لڑکے نے انکار کردیا کہ ہم وہاں نہیں پڑھیں گے۔ وجہ جو بھی رہی ہو لیکن صورتحال یہ بنی کہ اب ماں اور دادی کی خودکشی کی نوبت آگئی کیونکہ جو روپے کوچنگ میں جمع ہوگئے وہ عام حالات میں تو ملنے سے رہے۔ ایسے میں گارجین کے پاس چارہ کار ہی کیا رہ جاتا ہے۔“

ساتواں سبب: مسلمانوں کے زیر انتظام تعلیمی اداروں کی زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کی پالیسی:

             مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا ایک اہم سبب مسلمانوں کے زیر انتظام تعلیمی اداروں کی زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کی پالیسی رہی ہے کیونکہ تعلیم اب ایک نفع خیز تجارت بن چکی ہے اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اسٹیج پر تو قوم کو تعلیم کی طرف متوجہ کرتے ہیں، مگر ہمارے زیر انتظام تعلیم گاہیں محض تجارت کا ذریعہ بن چکی ہیں۔

آٹھواں سبب: مخلوط تعلیمی نظام :

            تعلیمی پسماندگی کا ایک اور اہم سبب مخلوط تعلیمی نظام ہے جہاں اکثر مسلم گھرانے اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے مخلوط ادارے میں بھیجنے کے لیے پس و پیش میں رہتے ہیں تو بعض ان کی تعلیم کا سلسلہ یکسر منقطع کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں خواتین کی شرح خواندگی تشویشناک ہے۔

(ماخوذ:مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی عصرحاضرکے تناظر میں: ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی)

            مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی اور ناخواندگی کے یہ چند اسباب ہیں، جن کا حل تلاش کرنا امت مسلمہ پرلازم ہیں۔

            ان تمام بنیادی مسائل سے نمٹنے کے لیے درجہ ذیل نکات پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے:

            تعلیمی اداروں کی کمی دورکی جائے اور معیاری تعلیمی ادارے بنانے کی فکر کریں۔جس میں گرلز کالج اور گرلز یونیورسٹی کابھی قیام ہے تاکہ مسلم بچیوں کے لیے حصول تعلیم آسان ہو۔یہ کام عمائدین ملت کا ہے۔

            حکومت اور یونیورسیٹیوں کے ذمہ داروں کو متعصبانہ فکر اور نا اہلی کو ختم کرنا چاہیے،لیکن یہ کام حکومت اور یونیورسیٹیوں کے ذمہ داروں لوگوں کاہے کہ مسلمانوں کے تئیں مثبت سوچ رکھیں اور علمی لیاقت وصلاحیت کے حامل افرادکو موقع دیں اور رشوت بازاری کا خاتمہ کریں۔

            فکری بحران ختم کرنے کے لیے وہ تمام اسباب اختیارکیے جائیں جس سے فکری بحران ختم ہو،وسعت ظرفی اور اپنی اولاد کی مستقبل کی فکرکریں۔قوم کے ذمہ دار افرادکی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے پروگرام مرتب کریں جس سے لوگوں کی ذہن سازی ہو اور حالات سازگار ہوں۔اسراف وتبذیرسے بچ کرذہین طلبہ کی کفالت کریں اور ان کے والدین کی فکرمعاش میں معین ومددگا ر ہوں۔

والدین،اولیااور سرپرست حضرات :

            طلبہ وطالبات کا داخلہ کرانے کے بعد ہمارے یہاں عام ماحول یہ ہے کہ والدین،اولیااور سرپرست حضرات اپنے بچوں کے اساتذہ وٹیچرحضرات سے کوئی ربط نہیں رکھتے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے اسکو ل میں کیا تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ان کا معیارِ تعلیم کیا ہے پتہ نہیں چلتا۔بس داخلہ کرانے کے وقت اورامتحان کانتیجہ آنے کے بعد حالات معلوم کرلیے جاتے ہیں اور بس۔حالاں کہ ہونا یہ چاہیے کہ بچوں کی روزانہ خبرگیری کی جائے۔ان کے اساتذہ سے معلومات حاصل کی جائے اور طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جائے اور انھیں مفیدمشورے اور اچھی نصیحتوں سے آراستہ کیاجائے۔

ایک بہت اہم کام :

            مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی اور ناخواندگی ایک بڑا سبب صحیح رہبری اور رہنمائی کا حاصل نہ ہوناہے،لہٰذااس وقت بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں حکومت کی طرف سے جو سہولتیں دی گئی ہیں، ان تک رسائی کو ممکن بنایا جائے اور غریب اور ناواقف مسلمانوں کے لیے ان سے فائدہ اٹھانے کا انتظام کیا جائے، اور بڑے پیمانے پر معلومات فراہم کی جائیں، کیوں کہ آج بہت سی اسکیموں کے ہونے کے باوجود ہمارا طبقہ اس سے بے بہرہ علمی کسمپرسی کا شکار ہے جس کی وجہ سے ملک میں مسلمانوں کی شرح خواندگی خطرناک حد تک کم ہے۔نیز دسویں بارہویں کے بعد طلبہ کو صحیح رہبری اور رہنمائی حاصل نہیں ہوتی کہ وہ مستقبل میں کس شعبہ میں جائیں اور پھر وہ اپنی تعلیم یاتوروک دیتے ہیں یا پھر بغیر کسی سوچ وفکرکے کسی بھی شعبہ میں داخل ہوجاتے ہیں۔جس سے انھیں اور ملتِ اسلامیہ کو خاطرخواہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔

اہل مدارس متوجہ ہوں !

            اہلیان ِمدارس کو اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ اسلام ہمیں زمانے کی رفتار کے ساتھ چلنے کا حکم دیتا ہے اور حرفت و ٹیکنالوجی کی معرفت و آگاہی وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔لہٰذا اہل مدارس کو چاہیے کہ وہ طلبہ کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم سے آراستہ کریں۔سائنس وٹیکنالوجی میں انھیں ماہر بنائیں۔کمپیوٹر اور دیگر ضروروی چیزوں سے انھیں آراستہ وپیراستہ کریں۔انھیں عالم حافظ اور بہترین مفتی بنانے کے ساتھ ساتھ ایک اچھاڈاکٹر،ایک اچھا انجینئر اور قوم کا خادم بنائے۔اس موقع جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کے رئیس اور مدیر تعلیم وتنفیذ کا عمل قابل ذکر ہے کہ انہوں نے دینی و عصری تعلیم کے ادارے پورے ہندوستان میں مختلف مقامات پر کھول رکھے ہیں، ساتھ ہی جامعہ اکل کوا میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کو عصری تعلیم کے اہم اہم مضامین پڑھائے جارہے ہیں تا کہ طلبہ موجودہ دور میں عصری تعلیم سے محروم نہ رہیں۔یقینا اہل مدارس کے لیے جامعہ اکل کوا کے منتظمین کا یہ عمل قابل تقلید ہے۔

            الغرض! موجودہ دور اور حالاتِ حاضر ہ میں اب یہ کمان ہمارے اسلاف کی طرح عالم علماء کو ہی سنبھالنا ہوگا۔

دینی وعصری تعلیم میں امتیاز:

            اس وقت ایک بہت بڑاالمیہ یہ ہے کہ عصری علوم خاص طور پر سائنس وٹیکنالوجی کو مغربی اور غیرملکی چیزتصور کیا جارہا ہے۔ حالاں کہ اہل علم اس سے بخوبی واقف ہوں گے کہ سائنس اورٹیکنالوجی میں زمانہٴ قدیم میں مسلمانوں کا بڑا کرداررہاہے، بل کہ یہ مسلمانوں ہی کے دین ہے۔اس لیے ہمیں اس وقت تعلیم دین کے ساتھ ساتھ عصری علو م سے بھی آراستہ ہوناہوگا۔

جدیدعلوم وفنون کابانی اسلام ہی ہے:

            جیسا کہ ہمارے ذہن ودماغ میں اور خصوصاً طلبہ کے ذہن میں یہ بات گردش کرتی رہتی ہے کہ جدید علو م وفنون یہ مغربی دنیا کی دین ہے حالاں کہ با ت ایسی نہیں ہے چنانچہ شمیم اخترصاحب قاسمی فرماتے ہیں:

            ”دنیامیں رائج نظام تعلیم پرغورکریں، تومعلوم ہوگاکہ یورپ نے آج تک کسی نئے علم وفن کااضافہ نہیں کیا ہے،بل کہ سارے کے سارے علوم وفنون وہی ہیں جو مسلمانوں کے بتائے ہوئے ہیں۔ زمانے کے تقاضوں کے مطابق اس نے اس میں تخصیص پیدا کرکے اسے ایک نئے نام سے متعارف کرایااوراسے دنیاکے سامنے پیش کیا۔علم قرآن،حدیث، فقہ، میراث، عقائد، کلام، تصوف، اخلاق، نفس، بدائع، عجائب، صرف، نحو، لغة، اشتقاق،الٰہیات،منطق،ریاضیات، حساب، ہندسہ، مساحة، ہیئت، نجوم، رمل، طبیعیات، کیمیا، معدن، طب، فلاحت، معاشیات، عمرانیات، خواب،فال،مقامہ، محاضرات، فروسیہ، بحریات، جمال، ادب،سیرت،سوانح وغیرہ علوم وفنون کے یہ شعبے کیا آج کی پیداوار ہیں اوریہ سب یورپ نے ایجادکیے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ یہ وہ شعبے ہیں جن کی نشان دہی اسلام نے کی ہے اورقرآن و حدیث میں اس کاتذکرہ کسی نہ کسی صورت میں ہواہے۔“

ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں:”قرآن مجید میں مختلف علوم ہیں۔اس میں تاریخ کا بھی ذکر ہے۔اس میں ان علوم کا بھی ذکر ملتا ہے جنہیں ہم سائنس کا نام دیتے ہیں۔مثلا:علم نباتات،علم حیوانات، علم حجر،علم بحر،علم ہیئت،یہاں تک کہ علم جنین کا بھی ذکر ملتا ہے۔قرآن شریف میں علم جنین کی اتنی مفصل تشریحات آئی ہیں کہ ان کا اس جدید ترین دورتک بھی اثر رہاہے؛اسی طرح قرآن مجید میں ہمیں سمندری طوفان کا بھی ذکر ملتا ہے۔جہاز رانی،موتی اور مرجان کا بھی خاصا ذکر ملتا ہے۔“

            انبیائے کرام کی سرگزشت سے بھی پتا چلتاہے کہ وہ لو گ امانت خداوندی کو دوسروں تک پہنچاتے اور ان کے ایمان ویقین کی دنیا کو آلائشوں سے پاک کرکے ان کا رشتہ اللہ سے مضبوط کرنے کی کو شش کرتے تھے،نیز وقت کی ضرورت کے مطابق مختلف علوم و فنون کو ترقی دینے کی کوشش کی،یہاں تک کہ ان میں انہیں تخصص کا درجہ حاصل تھا۔ مستدرک حاکم کی روایت ہے،اس میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت داوٴد علیہ السلام زرہ بناتے تھے،حضرت آدم علیہ السلام کاشت کاری کرتے تھے، حضرت نوح علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے تھے،حضرت ادریس علیہ السلام سلائی کا کام کرتے تھے،حضرت موسیٰ علیہ السلام بکریاں چرانے کی خدمت انجام دیتے تھے۔(ماہنامہ دارالعلوم، شمارہ ۸، جلد: ۹۳ شعبان ۱۴۳۰ ھ مطابق اگست ۲۰۰۹ء)

امت کے لیے نفع بخش بنیں:

            اس سے انکار نہیں کہ مسلمان عصری علو م حاصل کررہے ہیں لیکن ان کی حدودمحدود ہوکر رہ گئی ہے۔ملت اسلامیہ ہندیہ کو آج جن افراد کی ضرورت ہے،ہمارامعاشرہ اس سے تہی دامن ہے۔اس سلسلہ میں حضرت مولانا خالدسیف اللہ صاحب رحمانی اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں :

            غور کرنے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ عصری تعلیم کے جن شعبوں کی طرف مسلمانوں کی توجہ بڑھی ہے، عام طورپر اس کا فائدہ ان کی ذات یا ان کے خاندان کو پہنچ سکے گا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس دور میں خاندان کا تصور بہت محدود ہوگیا ہے، بیوی بچوں کے سوا بمشکل والدین کو اس میں شامل کیا جاتا ہے، بھائی بہن کا تو ذکر ہی کیا ہے، تعلیم کے ان شعبوں سے فارغ ہونے والے نوجوان اپنے آپ کو سکہ ڈھالنے کی مشین سمجھتے ہیں، قومی و ملی مسائل سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہوتا؛ اس لیے یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کی تعلیم ملت کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا رہی ہے؛ بل کہ جو لوگ ایسے نوجوانوں پر بطور تعاون اپنا سرمایہ خرچ کرتے ہیں، وہ بھی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ملک کا جو سرمایہ ان پر خرچ کیا جارہا ہے، ملت کو اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے اور ایک ایسا گروہ تیار ہورہا ہے جس کی اکثریت خود غرضی اور مادہ پرستی میں مبتلا ہوجاتی ہے، کاش کہ جو تنظیمیں تعلیم کے ان شعبوں میں نوجوانوں کو امداد فراہم کرتی ہیں، وہ ان کی اخلاقی اور فطری تربیت کی طرف بھی توجہ دیں۔

            لیکن اس وقت ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ عصری تعلیم اور دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو ان شعبوں میں لایا جائے، جو فکر سازی، ملت کے مسائل کی ترجمانی، انصاف کے حصول اور ان کے نظم و نسق میں شمولیت کو آسان بناسکیں، اس سلسلہ میں خصوصی طورپر بعض شعبوں کا ذکر کرنا مناسب ہوگا، جیسے قانون کا شعبہ ہے، سپریم کورٹ،ہائی کورٹ اور دیگر ضلع اور تعلقہ سطح پر جو کورٹ ہیں ان میں اچھے مسلم وکلاکی ضرورت ہے،جو مسلمانوں کے مسائل کو حل کرسکیں۔

             اسی طرح موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ، بالخصوص انگریزی اور مقامی زبان کے میڈیا کی بڑی اہمیت ہے، اس کے بغیر پروپیگنڈہ کی جنگ میں عزت و آبرو کا بچانا مشکل ہے، ایسے انگریزی دانوں کی بھی ضرورت ہے، جن کو انگریزی کے معتبر ادیب اور مصنف کا درجہ حاصل ہو اور قومی سطح پر ان کو پذیرائی حاصل ہو۔

            خاص طورپر سول سرو سیز کا ذکر کروں گا، جس میں مسلمانوں کا تناسب نہایت حقیر ہے اور یہ تعداد کی کمی اس لیے نہیں ہے کہ مسلمان کی زیادہ تعداد شریک ہوتی ہو اور نسبتاً کم تعداد کامیاب ہوتی ہو؛ بل کہ حقیقت یہ ہے کہ امتحان میں شریک ہونے والے مسلمان اْمیدواروں ہی کی تعداد کم ہوتی ہے اور شرکت کے اعتبار سے کامیابی کا تناسب عام طورپر وہی ہوتا ہے، جو اکثریت کا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ مسئلہ ”کم صلاحیت“ ہونے کا نہیں ہے؛بلکہ کم ہمتی، پست حوصلگی اور جدوجہد میں کمی کا ہے۔

            اس لیے ضرورت ہے کہ اب تعلیم کے ان شعبوں کی طرف توجہ دی جائے، نوجوانوں کی اس سلسلہ میں حوصلہ افزائی کی جائے اورانھیں اس لائق بنایا جائے کہ ان کی صلاحیت کا فائدہ صرف ان کی ذات یا ان کے خاندان تک محدود نہ رہے؛ بل کہ پوری ملت کو ان کا نفع پہنچے، وہ صرف نوٹ چھاپنے والی مشین بن کر نہ رہ جائیں؛ بلکہ وہ ملت کی سرفرازی و سرخروئی کا ذریعہ بنیں۔

عصر حاضر کا نصابِ تعلیم اور نئی تعلیمی پالیسی ایک بڑا چیلنج:

            ایک طرف مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا یہ حال ہے کہ وہ تعلیم سے دور ہیں دوسری طرف جو لوگ تعلیم حاصل کررہے وہ بھی دینی تعلیم سے دور ہیں۔ ان کے عقائد وافکار کی فکرکرناوالدین اور قوم کے ذی شعور افراد کی ذمہ داری ہے۔

            ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے اس وقت ایک بڑا چیلینج حکومتِ ہندکی نئی تعلیمی پالیسی ہے،جسے یوں سمجھیں کہ لارڈ میکالے کے بعدنئی تعلیمی پالیسی ہم ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک نئی آزمائش ہے۔

(مزیدتفصیل کے لیے دیکھیے:“نئی حکومتی تعلیمی پالیسی اور مسلمانوں کے لیے لائحہ عمل: مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد صاحب وستانوی “ شاہراہ علم: مارچ۲۰۲۱ء)

            بہرحال نئی تعلیمی پالیسی ہو یامغربی ذہنیت یہ سیکولرزم کے نام سے الحادولادینیت کے نشرواشاعت کے ذرائع ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے جدیدتعلیم یافتہ احباب اس کو قبول بھی کررہے ہیں۔اس لیے ضرورت ہے کہ اس چیلینج کا مقابلہ کریں اور نئی تعلیمی پالیسی کے منفی پہلو پرغور وخوض کرکے صحیح اور مرتب لائحہ عمل تیارکریں اور اپنی آل واولاد اور نسل نو کی صحیح تعلیم وتربیت کی فکرکریں، جس کے لیے مسلمانانِ ہند کی کچھ ذمہ دار یاں ہیں۔

مسلمانان ہند کی کچھ ذمہ دار یاں:

  • مسلمانان ہند کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو عصری تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم ضروردیں اور ان کی صحیح تربیت کی فکرکریں۔
  • تعلیم کے ساتھ اسلامی تہذیب وتمدن اور اسلامی تشخص کی حفاظت کے لیے تدابیر اور لائحہٴ عمل تیارکریں۔
  • مکاتب دینیہ کے نظام کو موثر اور مضبوط بنایا جائے اور بچوں کو لازماً مکاتب میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجیں،تاکہ ان کے عقائد دینیہ مضبوط ہوں اور قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ وہ اتنی دینی تعلیم ضرورضرور حاصل کریں جو ایک مسلمان مردوعورت کے لیے ضروری ہے۔
  • اسکول وکالجز کے نصاب پرغوروفکر کرکے منفی پہلو پرگرفت کی جائے اور اس سلسلہ میں طلبہ کی صحیح رہبری اور رہنمائی کریں۔
  • قوم کے ذی شعود اور ذمہ دار افراد دینی اور تعلیمی بیداری پیداکریں اورعوام الناس کو حالات حاضرہ سے واقف کرائیں۔
  •     ائمہ اور خطباء خطبات ِجمعہ اور دیگراجتماعی وانفرادی مواقع پر اسلام کی حقانیت اور ابدیت کو دلائل عقلیہ ونقلیہ سے ثابت کریں۔امت کے نوجوانوں کو نت نئے فتنے اور چیلینجز سے نپٹنے کی راہیں دکھائیں اور امت کو بدعات وخرافات سے بچنے کی تلقین کریں اور احیائے سنت کی طرف راغب کریں۔
  • والدین اپنے بچوں اور بچیوں کے دلوں میں عشق الٰہی اور اطاعتِ رسول کا جذبہ پیدا کریں۔
  • گھروں میں صبح وشام کسی ایک وقت گھر میں دینی کتابوں کی تعلیم کریں۔جس میں بنیادی عقائد،مسنون اعمال،مسنون دعائیں،سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم،سیرتِ صحابہ وصحابیات اور دین کی بنیادی باتیں اور ضروری مسائل وغیرہ ہوں۔  

           اللہ تعالی امت مسلمہ کو درپیش چیلنج سے نمٹنے اور اس کے حل کی توفیق عطافرمائے۔تعلیمی پسماندگی اور ناخواندگی کاخاتمہ فرمائے۔الحاد اور لادینیت سے امت کے نونہالوں کی حفاظت فرمائے۔آمین!