اللہ کی محبت کی چاشنی اور لذت آخرت کی کامیابی کی شاہ کلید ہے

اداریہ:                                                                                        قسط ثانی:

مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد وستانوی#

عشق الٰہی کی لذت:

            شیخ محمد الحجار فرماتے ہیں: کہ جس کا دل سچی محبت سے سرشار ہو، اسے راحت کی فکر نہیں ہوتی اور نہ اپنے آپ کو بنانے سنوارنے کی،بل کہ اس کی شان تو یہ ہوتی ہے کہ جیسے کوئی عاشقِ زار اپنے محبوب کے فراق اور جدائیگی پر بے چین ہوتا ہے اور اس کو ملنے کے شوق میں سب کچھ برداشت کر کے لگا رہتا ہے۔

            عشقِ الٰہی سے سرشار بندے کا حال تو ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے خالق ِحقیقی کو ملنے کے لیے بے قرار ہوتا ہے، اسی لیے وہ اس کے کلام کو سننے اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہونے میں لذت محسوس کرتا ہے، نہ کہ اس سے دور بھاگتا ہے۔ اس کے بعد موصوف نے” الاسلام الممتحن “سے ایک محبت سے لبریز اقتباس پیش کیا ہے:

            ”ان المسلم الیوم لم یفقد العلم، ولم یفقد المال، ولم یفقد القیادة ولم یفقد النظام-رغم أہمیة لکل من ہذہ النواحی- بمثل ما فقد القلب الولوع الحنون ،القلب المشرق العامر بالایمان ،القلب النابض الحی، القلب الذی یتحرق علی خسارة الروح والضمیر اکثر مما یتحرق علی خسارة التصدیر والتورید۔

( الاسلام الممتحن:۲۸۷)

            عصر حاضر میں مسلمان نہ علم سے محروم ہے نہ مال سے، نہ قیادت سے نہ نظام سے۔ ہاں اگر مسلمان محروم ہے تو زندہ دلی سے ،رحم دلی سے؛ ایسے دل سے جو ایمان کی حرارت سے سرشار ہو، زندہ اور نباضہو، ایسے دل سے جو روحانیت اور ضمیر کے فقدان پرجلا جا رہا ہو۔ نہ کہ ایسے دل سے جو تجارتی خسارے پر بے چین ہو جائے۔اللہ اکبر!

            مولانا محمد الحسن ندوی نے بالکل صحیح فرمایا کہ آج مسلمانوں کے پاس سب کچھ ہے، مگر ایمان سے مامور دل نہیں۔ اللہ ہمیں ایمان سے معمور دل کی نعمت سے مالا مال فرمائے ۔اس کے بعد محمد الحجار رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

            دراصل شیخ‘ مولانا جلال الدین رومی سے بہت متاثر ہیں اور آپ نے اپنی کتاب کے لیے موصوف کا خاص طور پر انتخاب کیا ہے۔

            آگے بڑھنے سے پہلے ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ حضرات ِصوفیہ کے بارے میں پچھلے تقریباً سو دوسو سال سے امت میں تین طرح کے افراد ہیں:

            (۱) شدید مخالف۔ (۲) شدید موافق۔(۳) معتدل۔

            ایک جماعت تو تمام حضراتِ صوفیا العیاذ باللہ کو زندیق کہتی ہے۔ ایک جماعت ان سے محبت میں غلو کرتی ہے اور بہت ساری غیرشرعی باتیں اور حرکتیں بھی ان کی جانب منسوب کرتی ہے۔ مگر ایک جماعت جو اعتدال پر قائم ہے ان کا نظریہ ہے کہ تصوف ِصحیحہ کے حامل ہمارے صوفیاء نے ہر اعتبار سے امت میں دینی بیداری کے لیے بڑی کاوشیں کی ہیں؛ انہی میں سے جلال الدین رومی ہیں۔

             شیخ فرماتے ہیں :ساتویں صدی ہجری میں مسلمان معاشرے کو عقلیت پرستی کی آندھی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، جس کی ایک وجہ ضرورت سے زیادہ کلامی مباحث میں الجھنا بھی تھا۔ عقلیت پرستی کے اس طوفان میں روحانیت اور باطن کی جانب سے توجہ مفقود ہوگئی تھی، عالم اسلام کی صورتحال روحانی اعتبار سے بہت ہی ناگفتہ بہ تھی، ایسے بدترین حالت میں جلال الدین رومی رحمة اللہ علیہ نے آنکھ کھولی اور ماشاء اللہ! عشقِ الٰہی کے دیے جلانے شروع کر دیے، ایسا محسوس ہوتا ہے؛ جیسے آپ نے مردہ جسم میں جان پھونک دی اور عالمِ اسلام جو عشق الٰہی سے غافل ہو چکا تھا، اسے جگایا۔

            حضرت جلال الدین رومی رحمة اللہ علیہ نے بڑے خلوص اور للہٰیت کے ساتھ حب ِالٰہی کی جانب لوگوں کو متوجہ کیا اور عشق ِالٰہی کے اسرار و رموز بیان کرنا شروع کر دیا اور بہت زیادہ تفصیل کے ساتھ اس پر روشنی ڈالی، آپ کے مواعظ کی برکت سے دلوں سے قساوتِ قلبی دور ہوئی اور اس طرح گویا روحانی بیداری کا آغاز ہو گیا۔

            امام جلال الدین رومی رحمة اللہ علیہ کی خدمت پر روشنی ڈالنے کے بعد شیخ محمد الحجار نے حب ِخالد یعنی عشق الٰہی سے متعلق ان کے اقوال ذکر کیے ہیں ، جو پیش خدمت ہیں:

ایمان نام ہی ہے عشق الہی ومحبوب الہی کا:

            ایمان کے معنی کیا ہیں؟ اور کس طرح سے ہمارے اندر آتا ہے؟ اور اس کے آثار کیا ہیں؟ اور کیسے پہچانا جائے؟

             تو سنئے ایمان کی حقیقت محبت ہے ، اگر اللہ کی محبت کامل ہے تو کہیں گے کہ اس کا ایمان کامل ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل میں رچ گئی ہے تو کہیں گے کہ ایمان آ گیا، اسی لئے قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے:

 ”وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ “

            جو لوگ ایمان لائے ہیں ان میں اللہ کی محبت اور عشق سرایت کئے ہوئے ہے، اگر عشق ،محبت نہ ہوتا تو ایمان بھی نہ آتا، اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دل کے رگ و پے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بس گئی ہے اور اللہ کی محبت جم گئی ہے۔ تو محبت در حقیقت ایمان کا دوسرا نام ہے۔ ایمان نہیں تو محبت نہیں، محبت نہیں تو ایمان نہیں۔ اصل چیز اللہ اور رسول کی محبت ہے ؛یہی چیز ایمان بناتی ہے۔ یہی اعتقاد قائم کرتی ہے اسی کو فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ

            ”لَا یُؤْ مِنُ اَحَدُ کُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّلَدِہ وَوَالِدِہ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ“

             کوئی بھی تم میں مؤمن نہیں بنے گا جب تک کہ قلب میں میری اتنی محبت نہ ہو کہ، اس کو اتنی نہ اپنے ماں باپ کی اور نہ اولاد سے محبت ہو، اور نہ کسی اور سے اتنی محبت ہو۔ بغیر حب ِنبی کہ ایمان کامل نہیں ہوتا ہے۔

(ماخوذ از خطبات طیب، صفحہ نمبر۴ ۵-۵۳)

عشقِ الٰہی کے فوائد:

            حضرت رومی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :عشق الٰہی ایسی دوا اور ایسا تریاق ہے، جو کڑوے کو میٹھا بنا دیتا ہے ، مٹی کو تبر(سونے یا چاندی کا بغیر ڈھلا ہوا ڈلا) بنا دیتا ہے ، گندگی کو دور کر دیتا ہے، بیماری کو شفا میں تبدیل کر دیتا ہے اور قید خانہ کو روضہ بنا دیتا ہے۔ بیماری اس کی برکت سے نعمت محسوس ہونے لگتی ہے ۔ غضبناکی رحمت میں، رات دن میں، تاریکی نور میں اور قساوت نرمی میں تبدیل ہو جاتی ہے؛ بل کہ عشق ِالہی سے تو لوہا موم ہو جاتا ہے، پتھر دل پانی پانی ہو جاتا ہے ، سرد بدن میں روح پڑجاتی ہے ؛ گویا دل کو نئی زندگی میسر آ جاتی ہے ۔

عشقِ الٰہی کی طاقت:

            اللہ کی حقیقی محبت ایسی زبردست شیٴ ہے، جو انسان پر اس طرح اثر انداز ہوتی ہے،کہ مادی ثقیل جسم بھی فضا میں اڑنے لگتا ہے اور خالق ِارض و سماوات تک اسے رسائی حاصل ہو جاتی ہے اور انسان کو تحت الثراء سے اٹھا کر ثریہ تک اور عالم ِکثیف سے اٹھا کر عالمِ لطیف تک پہنچا دیتا ہے۔

            عشقِ الٰہی کی یہ چنگاری اگر مضبوط پہاڑوں سے مس کر جائے، تو وہ بھی اچھلنے اور کودنے لگیں اور اضطراب کی لپیٹ میں آجائیں؛ جیسا کہ قران ِکریم میں ارشادِ خداوندی ہے:

            ﴿فَلَمَّا تَجَلّیٰ رَبَّہ‘ لِلْجَبَلِ جَعَلَہُ دَکًّا وَّخَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا۔﴾

( سورة الاعراف:۱۴۳)

عشقِ الٰہی کے حصول کے بعد کی کیفیت:

            عشق ِالٰہی کا حصول جب کسی خوش نصیب کو ہو جاتا ہے، تو وہ دنیا و ما فیہا سے بالکل بے پرواہ ہو جاتا ہے، نہ اسے دنیاوی سلطنت سے سروکار ہوتا ہے، نہ مال و متاع اور جا ہ و جلال سے۔عشق ِالٰہی کا گھونٹ پی لینے کے بعد اسے کسی اور چیز میں کوئی مزہ نہیں آتا۔

            عشق الٰہی انسان کو ہر چیز سے بے نیاز کر دینے والی قیمتی شیٴ ہے؛ جب اللہ کی محبت غالب آ جاتی ہے تو دل سے ہر چیز کی محبت رخصت ہو جاتی ہے اور دنیا کی نگاہ میں وہ مجنونوں کا سردار معلوم ہونے لگتا ہے۔

عشقِ الٰہی کے مریض کا عجیب انداز:

            جو شخص عشق ِالٰہی کی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے، اس کا معاملہ کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ دوسری بیماری والے تو شفا کے طالب ہوتے ہیں، مگر یہ مریض عشق ِالہی کے مرض میں اضافہ کا خواہاں ہوتا ہے۔ وہ مشقت میں بھی زیادتی کا طالب ہو جاتا ہے؛ اسی لیے میں نے اس زہر سے زیادہ شیریں کوئی چیز نہیں دیکھی اور اس بیماری سے زیادہ بہترکوئی تندرستی نہیں دیکھی!!!

عشق الٰہی کے حامل پر کوئی زوال نہیں:

            عشقِ الٰہی کا نور انسان کو انتہائی درجہ قیمتی بنا دیتا ہے ،جس کو یہ نعمت میسر ہو گئی اس پر کوئی زوال نہیں اور نہ اسے فنا ہے، گویا عشق ِالہی دوام بخشنے والی نعمت ہے ،اس لیے حضرت ابراہیم علیہ الصلاة والسلام نے کہا تھا”لااحب الافلین“ کہ میں زوال پذیر سے محبت نہیں کرتا۔

عشق الٰہی کو لازم پکڑ لو:

            حضرت رومی رحمة اللہ علیہ جذب میں آ کر کہتے ہیں کہ: میرے پیارے!! عشق ِالہی کی اس نعمت کو کسی طرح حاصل کر! اور پھر اس کا ہو کر رہ جا؛ اس لیے کہ یہ سرمد ی نعمت ہے، جو ہمیشہ باقی رہے گی ،کبھی اس پر فنا نہیں، اس کے علاوہ ہر چیز فنا ہو جائے گی۔ عشق ِالہی کا سورج وہ سورج ہے، جس پر کبھی افول اور زوال طاری نہیں ہوتا۔

            اے میرے پیارے! عشق ِالہی کا جام پی لے اور اس سے اپنی قلبی پیاس بجھا لے۔

            میرے پیارے !عشق ِالہی کی نعمت کو کسی طرح حاصل کر لے! یہ نعمت انبیائے کرام اور اتقیہٴ عظام ہی کو ملی ہے؛ اسی لیے وہ زبان ِحال سے کہتے تھے؛ جسے عشق ِالہی کی نعمت مل گئی، گویا اس نے اپنے دامن میں خیر کو مکمل طور پر سمیٹ لیا اور جو اس نعمت سے محروم ہو گیا وہ ہر چیز سے محروم ہے۔

            عشقِ الٰہی اگر واقعتا حاصل ہو جائے تو وہ بدن میں خون کی طرح دوڑنے لگتا ہے۔

عشق الٰہی کی تاثیر:

            بظاہر محبت بیماری محسوس ہوتی ہے؛ جب کہ وہ ایسی نعمت ہے جو تمام بیماریوں کو دور کر دیتی ہے، جسے عشق الٰہی کا مرض لگ جاتا ہے، پھر وہ کسی بیماری سے دوچار نہیں ہوتا ۔عشق ِالہی ہی دراصل دل ، قلب اور روحانی تندرستی کا نام ہے؛ بل کہ تندرستی کی روح ہی عشق الہی ہے۔ جو اسے محسوس کر لے وہ اپنے پاس موجود تمام نعمتوں کے مقابلے میں اسے لینے پر امادہ ہو جائے گا؛ اسی لیے کسی صاحب ِدل نے خوب کہا ہے۔

            ”نحن فی لذة لوعلمہا الملوک لجالدونا علیہا بالسیوف“۔

            عشقِ الٰہی کی لذت ایسی ہے کہ اگر بادشاہوں کو اس کا علم ہو جائے تو وہ تلواروں کے ذریعے ہم سے چھیننے کی کوشش کریں گے۔

محبت ِالٰہی کا اکسیر اور اس کے عجائبات:

            محبت الٰہی انسان کو بہت جلد اس مقام تک پہنچا دیتا ہے، جہاں انسان بکثرت مجاہدات اور ریاضتوں کے بعد بھی نہیں پہنچ سکتا۔

            بندہ گزرتے ہوئے لمحات ِزندگی میں،اگر محبت ِالہی کا مزہ چکھ لے، تو یہ لمحات چٹکیوں میں گزر جائیں گے؛ کیوں کہ جب اللہ کی محبت بندہ پر غالب آ جائے گی، تو عمل کے بغیر چین نہیں آئے گا۔

            اسی لیے کہتے ہیں کہ عشق ِالٰہی کے بعد بندہ نہ کسی بیماری کا شکار ہوتا ہے اور نہ کبھی زندگی میں کسی کو دھوکہ دیتا ہے۔

شہید ِمحبت الٰہی:

            جو خون حب الہی سے سرشار شخص کے بدن سے نکلے وہ سب سے پاک ہے، ایسے شہید کو غسل تک نہیں دیا جاتا؛ کیوں کہ شہدا کا خون یہ سب سے پاک اور صاف ہے۔سبحان اللہ!

             بقیہ آئندہ ان شاء اللہ! اللہ ہمیں عشق الٰہی کی نعمت سے مالا مال فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!             (جاری…)