اللہ کی محبت کی چاشنی اور لذت آخرت کی کامیابی کی شاہ کلید ہے

اداریہ:  قسط اول:

مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد وستانوی

            اللہ ہم تیرا کیسے شکر اداکریں !! کہ تونے ایمان جیسی بے پناہ عظیم دولت سے نوازا، جو ایمان ہمیں ایسا راستہ بتاتا ہے، جس پر چل کر مقصد ِحیات کا حصول اور دنیا وآخرت کی کامیابی یقینی ہوجاتی ہے؛ مگر افسوس ہمارے حال پر کہ ہم اس کی کماحقہ قدر نہیں کررہے ہیں، جس کی وجہ سے اللہ کی رحمت اور نصرت سے دوری ہو رہی ہے اور سنت اللہ کے مطابق ہمارے دل اس کی محبت ِحقیقی سے محرورم ہورہے ہیں، جس کا اثر ہماری نسل پر ہورہا ہے کہ وہ ایمان کی قدر داں نہیں رہی، اس سے بڑا خسارہ اور کیا ہوسکتا ہے؟ لاحول و لا قوة الا باللہ العلی العظیم ۔

جوئندہ پائندہ :

            جب آدمی کسی چیز کی جستجو میں لگتاہے تو اللہ اسے ضرور وہ نعمت دیر سویر ہی سہی کسی طرح عطا فرماتے ہیں۔

قصہ ایک بے مثال کتاب کا :

            آج سے تقریباً دس پندرہ سال قبل کی بات ہے، بندہ والد بزرگوار کے دوست شیخ یوسف نورولی کی دعوت پر ان کے گھر جدہ میں تھا، وہاں ایک کتاب پر نظر پڑی ”الحب الخالد“ (مؤلف شیخ محمد الحجّار رحمہ اللہ) بندہ نے اس کی ورق گردانی شروع کی تو دل کو بہت بھاگئی، مگر شیخ سے مانگنے میں حجاب محسوس کیا، لہٰذا واپسی پر اس کی جگہ پر رکھ دی، البتہ دل شدت سے اس کا مشتاق تھا، بسیار جستجو کے باوجود نہیں مل سکی، اس بار حج پر تھا تو اللہ نے اس کے حصول کی عجیب صورت نکالی، حج سے فراغت پر ہمارا قیام اکبر بھائی حیدرآباد( مقیم مکہ مکرمہ کلاک ٹاور) کے اصرار پر ان کے زیر نگرانی ”ریتاج ہاٹل“ میں تھا ،جو بالکل حرم سے لگ کر ہے۔ ایک دن فجر کے بعد ایک ہال میں بیٹھے تھے جہاں سے حرم نظر آرہا تھا دیکھا کہ چند کتابیں وہاں پر رکھی ہیں، بندے کو اللہ نے کتاب کے ساتھ والہانہ عشق نصیب فرمایا ہے۔الحمدللہ۔ کتاب پر نظر پڑے اور اس کو الٹ پلٹ نہ کرے یہ ممکن ہی نہیں؛ لہٰذا اپنی عادت کے مطابق دیکھنے لگا ،اتفاق سے شیخ محمد الحجار کی تین چار کتابیں تھی، اس میں ”الحب الخالد“ بھی تھی، بس پھر کیا تھا بندہ کی خوشی کاٹھکانا نہ رہا، اکبر بھائی پوچھنے لگے مولانا کتاب چاہیے؟ میں نے کہا بالکل! اس سے زیادہ بہتر اور کیا ہوسکتا ہے؟ بندہ نے فورا ”الحب الخالد“ اور مؤلف کی دیگر کتابیں لے لی اور اکبر بھائی کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا۔

            سفر کے دوران” الحب الخالد“ کا مطالعہ کرنے لگا تو بہت لطف آیا، ساتھ ہی دل میں خیال آیا کہ ہوائی جہاز کے لمبے سفر میں سب سے اچھا موقعہ ہے کہ اسی کتاب سے چنندہ اقتباسات کا ترجمہ کردیا جائے؛ تاکہ مادیت کے دور میں اللہ کی محبتِ حقیقی کے جام سے قارئین کی پیاس بجھائی جاسکے، تو آیئے چند مؤثر اقتباسات پیش خدمت ہے ۔

            شیخ محمد الحجار مقدمہ میں رقمطراز ہیں کہ

            ” مفکرِ اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی نوراللہ مرقدہ کی ایک چھوٹی سی کتاب” ربانیة لا رہبانیة“ میری نظر سے گزری،جس میں علمائے ربانیین کے اللہ کے ساتھ والہانہ عشق و محبت پر مشتمل واقعات اور دل کو چھونے والے اقوال زریں کو سلیقہ سے جمع کیا گیاہے۔ بندہ کو خیال آیا کہ حضرت ندوی رحمہ اللہ نے اختصار سے کام لیا ہے، لہٰذا میں نے عشقِ الٰہی کے متوالوں کے احوال کا مطالعہ شروع کیا اور قدرے تفصیل کے ساتھ محبتِ حقیقی پر مشتمل ان احوال و اقوال کو یکجا کرنے لگا، جو اچھی خاصی کتاب کی شکل اختیار کرگیا، جس کا نام میں نے ”الحب الخالد“ رکھا ،جو حاضرِ خدمت ہے۔

             کتاب کا ایک ایک لفظ علما اور طلبہ کے لے عظیم سرمایہ ہے۔ شیخ حجار کی عربی بھی بڑی جاندار و شاندار ہے اور اہلِ دل کے احوال و اقوال پر ان کی تشریحات بھی لاجواب ہے۔ گویا کتاب روحانیت اور ادبیت دونوں کے مجموعہ کا مرقعہ ہے۔ عربی ادب کے ذوق کے حامل طلبہ اس سے عربی تقریرکی تیاری میں بھی مدد لے سکتے ہیں۔

            ”شاہراہِ علم“ کے قارئین چوں کہ اکثر وبیشتر طلبہ و علما ہیں، لہٰذا عربی عبارت اور اس کے ساتھ اردو ترجمہ حاضر خدمت ہے؛ تاکہ روحانیت اور ادبیت دونوں کا مزا چکھ سکیں ۔

            بندہ نے اسبابِ ضلالت و ہدایت پر اداریہ لکھنا شروع کیا تھا، مگر اس کتاب نے عشقِ الٰہی کا ایسا چسکا پلایا کہ اسی کا ہوکر رہ گیا۔ اللہ مؤلف کے درجات بلند فرمائے اور ہم سب کو عشقِ الٰہی جیسی سب سے عظیم نعمت سے اس بابرکت کتاب کے ذریعہ مالا مال فرمائے ۔آمین یارب العالمین!

            شیخ حجار نے عشق الٰہی سے متعلق چند آیاتِ قرآنیہ سے کتاب کا آغاز کیا ہے :

            ﴿وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَیْہِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَ لَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَةٌ ، وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہ فَاُولئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾(سورة الحشر آیت :۹ )

            (اور یہ مال فیء) ان لوگوں کا حق ہے جو پہلے ہی سے اس جگہ (یعنی مدینہ میں) ایمان کے ساتھ مقیم ہیں۔ جو کوئی ان کے پاس ہجرت کرکے آتا ہے یہ اس سے محبت کرتے ہیں، اور جو کچھ ان (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے، یہ اپنے سینوں میں اس کی کوئی خواہش بھی محسوس نہیں کرتے، اور ان کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، چاہے ان پر تنگ دستی کی حالت گزر رہی ہو۔ اور جو لوگ اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ ہوجائیں، وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔

            ﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَ اللّہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ (سورة آل عمران :۱ ۳)

            (اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔

            ﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّہ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَہمْ کَحُبِّ اللّہِ وَ الَّذِیْنَ امَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّہِ وَ لَوْ یَرَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّہِ جَمِیْعًا وَّ اَنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ﴾

(سورة البقرہ :۱۶۵)

            اور (اس کے باوجود) لوگوں میں کچھ وہ بھی ہیں ،جو اللہ کے علاوہ دوسروں کو اس کی خدائی میں اس طرح شریک قرار دیتے ہیں کہ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسے اللہ کی محبت (رکھنی چاہیے) اور جو لوگ ایمان لاچکے ہیں وہ اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں، اور کاش کہ یہ ظالم جب (دنیا میں) کوئی تکلیف دیکھتے ہیں ؛اسی وقت یہ سمجھا لیا کریں کہ تمام تر طاقت اللہ ہی کو حاصل ہے اور یہ کہ اللہ کا عذاب (آخرت میں) اس وقت بڑا سخت ہوگا۔

            ﴿اَنِ اقْذِفِیْہِ فِی التَّابُوْتِ فَاقْذِفِیْہِ فِی الْیَمِّ فَلْیُلْقِہِ الْیَمُّ بِالسَّاحِلِ یَاْخُذْہُ عَدُوٌّ لِّیْ وَ عَدُوٌّ لَّہ وَ اَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّةً مِّنِّیْ وَ لِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ﴾۔

(سورة طہ : ۳۹)

            کہ اس (بچے) کو صندوق میں رکھو، پھر اس صندوق کو دریا میں ڈال دو۔ پھر دریا کو چھوڑ دو کہ وہ اسے ساحل کے پاس لاکر ڈال دے، جس کے نتیجے میں ایک ایسا شخص اس (بچے) کو اٹھالے گا جو میرا بھی دشمن ہوگا، اور اس کا بھی دشمن۔ اور میں نے اپنی طرف سے تم پر ایک محبوبیت نازل کردی تھی۔ اور یہ سب اس لیے کیا تھا کہ تم میری نگرانی میں پرورش پاؤ۔

            ﴿قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُنِ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَا اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہ وَ جِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہ وَ اللہ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفسِقِیْنَ﴾

(سورة التوبة : ۲۴)

            (اے پیغمبر! مسلمانوں سے) کہہ دو کہ: اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، اور تمہارا خاندان، اور وہ مال و دولت جو تم نے کمایا ہے اور وہ کاروبار جس کے مندا ہونے کا تمہیں اندیشہ ہے، اور وہ رہائشی مکان جو تمہیں پسند ہیں، تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے، اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں۔ تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرما دے۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو منزل تک نہیں پہنچاتا۔

عشق حقیقی پر مشتمل احادیث نبویﷺ:

            عن مُعَاذٍ رضی اللّٰہ عنہ أَنَّ رَسُولَ اللَّہ ﷺ، أَخَذَ بِیَدِہِ وَقالَ:

            ” یَا مُعَاذُ واللَّہِ إِنِّی لأُحِبُّکَ، ثُمَّ أُوصِیکَ یَا مُعاذُ! لاَ تَدَعَنَّ فی دُبُرِ کُلِّ صلاةٍ تَقُولُ: اللَّہُم أَعِنِّی عَلَی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ، وحُسنِ عِبَادتِک۔“

( رواہ أَبُو داود والنسائی بإسناد صحیح.الأحادیث النبویة)

            معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ‘معاذ، اللہ کی قسم! مجھے تجھ سے محبت ہے۔ پس تجھے نصیحت کرتا ہوں، اے معاذ! ہر نماز کے ہ دعاضرور کرنا کہ: اے اللہ! اپنے ذکر، شکر اوراپنی بہترین عبادت پر میری مدد فرما۔“

            وعنہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول:قال اللہ عز وجل:

            ”اَلْمُتَحَابُّوْنَ فِیْ جَلَالِیْ، لَہُمْ مَنَابِرُ مِنْ نُورٍ، یَغْبِطُہُمْ النَّبِیُّوْنَ وَالشُّہَدَاءُ“۔

(رواہ الترمذی وقال: حدیث حسن صحیح.)

            حضرت معاذ بن جبل (رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”میری عظمت وبزرگی کے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کے لیے قیامت کے دن نورکے ایسے منبر ہوں گے ،جن پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کریں۔“ (ترمذی )

            وعن أبی ہریرة – رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ – قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ:

            ”وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہِ، لَا تَدْخُلُوْا الْجَنَّةَ حَتَّی تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتی تَحَابُّوْا، أوَلَااَدُلُّکم عَلٰی شَیْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ: اَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ ۔“(رواہ مسلم.)

حضرت ابو ہریرہ (رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ)سے متعلق یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

            ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہو گے جب تک تم ایمان نہ لاؤ، اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاوٴں، جس پر عمل کرنے سے تم ایک دوسرے کو پسند کروگے؟ سلام کو آپس میں عام کرو۔(مسلم)

            ویروی أن رجلا قال: یا رسول اللّٰہ إِنِّی أُحِبُّکَ! فقال علیہ الصلاة والسلام: ”استَعِد للفَقْر!“ فقال: إن أحبک.قال:”استعد للبلاء“

( أخرجہ الترمذی من حدیث عبد اللہ بن مُغَفّل بلفظ: فَأَعِدَّ لِلْفَقرِ یَجْفَافاً، وقال:حسن غریب)

            ایک بار ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:”تو تیار رہ فقر کے لئے!“ اس شخص نے پوچھا: ”اگر میںآ پ کو پسند کروں؟“ تو رسول اللَّہ ﷺ نے فرمایا:”تیار رہ آزمائش کے لئے!“(ترمذی)

            وقد جعل علیہ الصلاة والسلام اَلْحُبُّ للَّہ مِنْ شُروطِ الإِیمَانِ، إِذْ قال أبو رزین العقیلی: یا رسول اللّہ! مَا الإیمانُ؟.

            قال: ” أن یکونَ اللّٰہُ ورسولُہُ أحبَّ إلیہ مما سِوَاہُمَا.“

            وفی روایة: ”لَایُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا سِوَاہُمَا۔“

            وفی روایة: ”لَا یُوْمِنُ الْعَبْدُ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إلیْہِ مِنْ أَہْلِہِ وَمَالِہِ والنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ “

            وفی روایة: ” مِنْ نَفْسِہ “

ّ  وقال البخاری: مِنْ وَالِدہ وَوَلَدِہِ.

            وفی حدیث عمر: لأنتَ أحبُّ إلیَّ مِنْ کُلِّ شیءٍ إلَّا نَفْسِی.

            فقال علیہ الصلاة والسلام: ” لا والذی نفسی بیدہ، حتی اکون أحب إلیکَ مِنْ نَفْسِکَ“.

            فقال عمر: فأنت الآن واللّٰہِ أَحَبُّ إِلیَّ مِنْ نَفْسِی۔

            فقال علیہ الصلاة والسلام: ”الآن یاعُمرُ!! أی تَمَّ إیْمَانُکَ۔“

             وقد أمر رسول اللہ ﷺ بالمحبة فقال:” أحِبُّوْا اللّٰہَ لَا یَغْذُوْکُمْ مِنْ نعمہ، وأحِبُّوْنِیْ لِحُبِّ اللَّہِ تَعَالَی۔(اخرجہ الترمذی من حدیث ابن عباس وقال: حسن غریب)

            اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے محبت کو ایمان کی شرطوں میں سے قرار دیا جیسا کہ ابو رزین عقیلی نے کہا: یا رسول اللہ! ایمان کیا ہے؟

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” اللہ اور اس کا رسول اسے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہو۔“

            اور ایک روایت میں ہے: ”تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا ،جب تک کہ اللہ اور اس کا رسول ہر چیز سے زیادہ محبوب نہ ہو جائیں۔“

            اور ایک روایت میں ہے: ”بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوتا، جب تک کہ میں اسے اس کے اہل و عیال، اس کے مال اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔“

            اور ایک روایت میں ہے:”خود سے“

            امام بخاری نے کہا: اپنے باپ اور بیٹے سے۔

            اور حضرت عمر کی حدیث میں ہے:”آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں سوائے میری جان کے۔“

            تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

            ”نہیں، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، یہاں تک کہ میں تمہیں تمہاری جان سے زیادہ عزیز ہو جاؤں۔“

            حضرت عمر نے کہا: اللہ کی قسم ! اب آپ مجھے میری جان سے زیادہ عزیز ہیں۔

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب اے عمر! یعنی تمہارا ایمان پورا ہو گیا۔

            اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کا حکم دیا اور فرمایا: اللہ سے محبت کرو!کیوں کہ وہ تمہیں اپنی نعمتیں کھلا رہا ہے، اور مجھ سے اللہ تعالیٰ کی محبت کے لیے محبت کرو۔

 (ترمذی نے اسے ابن عباس کی حدیث سے لیا اور کہا: حسن غریب)

عشق حقیقی پر عربی اشعار:

شربت الحب کأسًا بعد کأس

فما نفذ الشراب و ماوریت

شراب محبت کو میں جام در جام پیتا ہی گیا

نہ شراب عشق ختم ہوئی اور نہ میری پیاس بجھی

علق فؤادک بالحبیب موحدًا

و اغمض عیونک معرضا عن غیر

صرف ایک ہی ذات سے اپنا دل وابستہ کرلے

اس کے علاوہ کسی اور کی جانب نظریں نہ اٹھا

حصول عشق الٰہی کے لیے ادعیہٴ ماثورہ:

            ”اَللّٰہُمَّ إنِّیْ أَسْأَلُکَ حُبَّکَ، وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ، وَحُبَّ عَمَلٍ یُّقَرِّبُنِیْ اِلٰی حُبِّکَ، وَاجْعَلْ حُبَّکَ أَحَبَّ إِلیَّ مِنْ نَفْسِی، واَہْلِیْ، وَوَالِدِیْ وَمَالِیْ، وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ عَلَی الظَّمَاِٴ.“

            ”اَللّٰہُمَّ حَبِّبْنِیْ إِلَیْکَ، وَإِلٰی مَلَائِکَتِکَ، وَأَنْبِیَائِکَ، وَجَمِیْعِ خَلْقِکَ۔“

            ” اَللّٰہُمَّ أَذِقْہُ قَلْبِیْ بَرْدَ عَفُوِکَ، وَحَلَاوَةَ حُبِّکَ!“

            اے اللہ! میں تیری محبت ، اور آپ سے محبت کرنے والے کی محبت کا وسوال کرتا ہوں، اور ایسے عمل کی رغبت کی درخواست کرتا ہوں جو مجھے آپ کی محبت کے قریب کردے۔ اور میری ذات، میری بیوی، میرے ماں باپ، میرا مال و دولت اور سخت پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ تیری محبت کو محبوب بنانے کی درخواست کرتا ہوں۔

            اے اللہ! مجھے اپنے نزدیک،ملائکہ،انبیاء اور تمام مخلوق کے نزدیک محبوب رکھیے۔

            اے اللہ! میرے دل کو تیرے عفو ودرگزرکی ٹھنڈک اور تیری محبت کی حلاوت کا مزا چکھادے۔

تزکیہٴ نفس کے لیے معین دعائیں:

            ”یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ، یَا بَدِیْعَ السَّموتِ وَالأَرْضِ، یَاذَ الْجَلالِ وَالإِکْرَامِ، لَا إِلہَ إِلا أَنْتَ، بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیْثُ، أَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ، وَلَا تَکِلْنِیْ إِلی نَفْسِیْ طَرْفَةَ عَیْنٍ!“

            اے زندہ اور قائم رہنے والی ذاتِ اقدس! اے آسمانوں اور زمین کو انوکھے انداز میں بنانے والی ذات! اے جلال اور اکرام کے مالک! تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تیری رحمت کے ذریعے میں مدد مانگتا ہوں، میرے کام کو درست کر، اور مجھے پلک جھپکنے کے بقدر بھی میرے نفس کے حوالے مت کر۔

            ”اَللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ رَحْمَةً تَہْدِی بِہَا قَلْبِیْ، وَتَجْمَعُ بِہَا أَمْرِیْ، وَتَلُمُّ بِہَا شَعْبِی، وَتَحْفَظُ بِہَا غَائِبِیْ، وَتَرْفَعُ بِہَا شَاہدِیْ، وَتَبْیَضُّ بِہَا وَجْہِیْ، وَتُزَکِّیْ بِہَا عَمَلِیْ، وَتُلْہِمُنِیْ بِہَا رُشْدِیْ، وَتَرُدُّ بِہَا اُلْفَتِیْ، وَتَعْصِمُنِیْ بِہَا مِنْ کُلِّ سُوءٍ.“

            اے اللہ: میں آپ سے ایسی ہدایت کی درخواست کرتاہوں ،جو میرے دل کوراہیاب کردے،میرے(بکھرے) کاموں کو جمع کردے اور میرے خاندان والوں کومتحد کردے اور اس رحمت سے میرے غائبانے میں حفاظت فرما اور میری موجودگی میں بلندی عطا فرما اور میرے چہرے کو روشن کردے،اورمیرے عمل کو ریاکاری سے پاک صاف کردے اورسیدھے راستے کا الہام فرما اور میری محبت کو دوبالا کردے اور اے اللہ!اس رحمت کی بدولت ہر قسم کی برائی سے میری حفاظت فرمادے۔

   ”اَللّٰہُمَّ آتِ نَفْسِی تَقْوَا ہَا، وَزکِّہَا أَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکَّاہَا، أَنْتَ وَلِیُّہَا وَمَوْلَاہَا.“

            اے اللہ! مجھے تقویٰ والی زندگی عطافرما۔ اورمیرے دل کو پاک کردیجیے، اورآپ پاک کرنے والوں میں سب سے بہتر پاک کرنے والے ہیں ،آپ ہی اس کے مالک اورکارساز ہیں۔

            ”اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنِیْ ذکارًا لَکَ، شَکَّارًا لَکَ، مِطْوَا عًا لَکَ، مُخْبِتًا إِلیکَ، أوَّاہًا مُنِیْبًا، رَبِّ تَقَبَّلْ تَوْبَتِیْ، وَاغْسِلْ حَوْبَتِيْ، وَأَجِبْ دَعْوَتِیْ، وَثَبِّتْ حُجَّتِیْ، وَاہْدِ قَلْبِیْ، وَسَدِّدْ لِسَانِیْ، وَاسْلُلْ سَخِیْمَةَ صَدْرِیْ.“

            اے اللہ! مجھے تیرا خوب ذکر کرنے والا، شکرکرنے والا، اطاعت کرنے والا، عجز و انکساری کرنے والا،تیری طرف رجوع اور انابت کرنے والابنادیجیے۔

            اے میرے رب! میری توبہ قبول فرمااورمیرے گناہوں کو معاف فرما،میری دعا قبول فرما اور میری حجت کو ثابت فرما اور میرے دل کو سیدھا رکھ اور زبان کو قابو میں رکھنے کی توفیق عطافرما اور میرے سینے سے حسد اورکینہ کو نکال دے۔

     ”اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ عَیْنَیْنِ ہَطَّالَتَیْنِ، تَشْفِیَانِ الْقَلْبَ بِذُرُوْفِ الدُّمُوْعِ مِنْ خَشْیَتِکَ قَبْلَ أَنْ تَکُوْنَ الدُّمُوْعُ دَمًا، وَالْأَضْرَاسُ جَمْراً.“

            اے اللہ! مجھے مسلسل رونے والی آنکھیں عطافرما، جو آنسو کے خون بن جانے اور داڑھ کے انگارے میں بدل جانے سے پہلے، تیرے خشیت کے آنسوں کے بہاوٴ سے دل کو شفایاب کردے۔

            ”اَللّٰہُمَّ افْتَحْ مَسَامِعَ قَلْبِیْ لِذِکْرِکَ، وَارْزُقْنِیْ طَاعَتَکَ، وَطَاعَةَ رَسُوْلِکَﷺ. “

            اے اللہ!میرے دل کے مسامع کو تیرے ذکر کے لیے کھول دے اور تیری اور تیرے رسول کی اطاعت کو میری غذا بنادے۔

            ”اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ حُبَّکَ، وَحُبَّ مَنْ یَنْفَعُنِیْ حُبُّہُ عِنْدَکَ، اَللّٰہُمَّ فَکَمَا رَزَقْتَنِیْ مِمَّا أُحِبُّ فَاجْعَلْہُ قُوَّةً لِیْ فِیْمَا تُحِبُّ.“

            اے اللہ!اپنی محبت عطافرما اوران لوگوں کی محبت جن کی محبت تیرے پاس مجھے نفع دے۔

            اے اللہ!جیسا کہ آپ نے عطاکیامجھے ان کی محبت جن سے میں محبت کرتاہوں تو اس کو میرے لیے قوت و طاقت بنادے ان میں جسے تو محبت کرتاہے۔

            ” اَللّٰہُمَّ احْفَظْنِیْ بِالْإِسْلَامِ قَائِماً، وَاحْفَظْنِیْ بِالإِسْلَامِ قَاعِدًا، وَاحْفَظْنِیْ بِالْإِسْلَامِ رَاقِدًا، وَلَا تُشْمِتْ بِیْ عَدُوًّا وَلَا حَاسِداً۔“

            اے اللہ!اسلام پر قائم رکھ کر میری حفاظت فرمااور میری حفاظت فرمااسلام پرجما کر اور میری حفاظت فرمااسلام پر موت دے کر اور مجھ پر دشمن اور حاسد کو ہنسنے کا موقع نہ دے۔

            ”اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ أَحَبَّ الأَشْیَاءِ إِلَیَّ، وَاجْعَلْ خَشْیَتَکَ أَخْوَفَ الأَشْیَاءِ عِنْدِیْ، وَاقْطَعْ عَنِّیْ حَاجَاتِ الدُّنْیَا بِالشَّوْقِ إلیٰ لِقَائِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ. وَإذَا اَقْرَرْتَ اَعْیُنَ اَہْلِ الدُّنْیَا مِنْ دُنْیَاہُمْ، فَاقْرِرْ عَیْنِیْ مِنْ مَحَبَّتِکَ وَعِبَادَتِکَ یَاذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ.“

            اے اللہ!آپ کی محبت کومیرے نزدیک تمام چیزوں کی محبت سے زیادہ کردیجیے او رمجھے تمام چیزوں کے خوف سے زیادہ تجھ سے ڈرنے والا بنادیجیے اور میری تمام دنیاوی حاجات آپ کی ملاقات کے شوق میں ختم فرما، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے(رحم فرما) اور جب آپ اہل دنیا کی آنکھوں کو ان کی دنیا سے قرار عطافرمائیں، تو میری آنکھوں کو اپنی محبت سے قرار دے، اے عظمت اور اکرام والے۔

            ”اِلَیْکَ رَبِّ فَحَبِّبْنِيْ، وَفِیْ نَفْسِیْ لَکَ رَبِّ فَذَلِّلْنِيْ، وَفِيْ أَعْیُنِ النَّاسِ فَعَظِّمْنِیْ، وَمِنْ سَیِّءِ الْاَخْلَاقِ فَجَنِّبْنِيْ۔“

            اے میرے رب! آپ اپنے نزدیک مجھے محبوب بنالیجیے اورمجھے میرے نزدیک آپ کی خاطرکمتر بنادے اور لوگوں کے نزدیک مجھے عظمت اور شان والا بنادے اور برے اخلاق سے مجھے بچالیجیے۔آمین

(الحب الخالد ص: ۱۶ تا ۱۸)

عشق الٰہی پر صحابہ اور اولیاء اللہ کے اقوال :

حضرت ابوبکر :

            ”من ذاق من خالص محبة اللہ تعالی شغلہ ذالک عن طلب الدنیا و توحشہ عن جمیع البشر ۔“

            جس شخص نے اللہ کی اصل اور خالص محبت کا مزا چکھ لیا، وہ کبھی دنیا طلبی کی طرف رغبت نہیں کرے گا اور تمام انسانوں سے ایک طرح سے اسے وحشت ہونے لگے گی ۔

            یہ ہے افضل البشر بعد الانبیاء سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا عشق الٰہی سے لبریز قول ؛ اسی لیے آپ صدیق اور عتیق کہلائے۔

حضرت حسن بصری فرماتے ہیں:

            ”من عرف ربہ احبہ و من عرف الدنیا زہد فیہ۔ “

            جس کو معرفت الٰہی حاصل ہوجاتی ہے وہ ٹوٹ کر اللہ سے محبت کرنے لگتا ہے اور جو دنیا کی حقیقت جان لیتا ہے وہ اس کا ہوجاتا ہے ۔

یحی بن معاذ فرماتے ہیں:

            ”مٹقال خردلة من الحب احب الی من عبادة سبعین سنة۔“

            اللہ کی محبت کی معمولی مقدار کا مل جانا،مجھے ستر سال کی عبادت سے زیادہ محبوب ہے ۔

            ہرم بن حیان فرماتے ہیں:

            ”المؤمن اذا عرف ربہ احبہ و اذا احبہ اقبل الیہ و اذا وجد حلاوة الاقبال الیہ لم ینظر الی الدنیا بعین الشہوة و لم ینظر الی الآخرة بعین الفترة۔“

            بندہ مؤمن کو جب معرفة الٰہی حاصل ہوجاتی ہے تو ساتھ ساتھ محبت الٰہی سے بھی سرشار ہوجاتا ہے اورجب عشق الٰہی سے نواز دیا جاتا ہے تو اس کی جانب متوجہ ہوجاتا ہے اور جب توجہ الی اللہ کی حلاوت مل جاتی ہے تو دنیا کی جانب شہوت اور خواہش کی نگاہ سے نہیں دیکھتا اور آخرت کی جانب سے غافل نہیں ہوتا ہے ۔

بعض صالحین نے عجیب بات ارشاد فرمائی :

            ”و ہجرہ اعظم من نارہ و وصلہ اطیب من جنتہ ۔“

            اللہ سے دوری اور جدائی جھنم سے زیادہ خطرناک ہے اور اس کا وصال اور قرب جنت سے بھی بڑی چیز ہے۔ (اللہ اکبر)

            شیخ حجار فرماتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ دو لذتیں ہے لذتِ جسم اور لذتِ قلب ۔جسم کی لذت کھانے پینے اور نکاح وغیرہ میں ہے، جنت میں حسی لذتیں اپنی انتہا کو پہنچی ہوں گی؛ جب کہ دل اللہ کی محبت کا گہوارا ہے لہٰذا اسے اللہ کی ملاقات اور اس کے دیدار ہی سے قرار آئے گا کسی اور چیز سے نہیں!!!

            عشق الہی اور محبت خداوندی پر اپنے اکابرین کے چند ملفوظات نظر سے گذرے اور بہت مفید معلوم ہوئے،پیش خدمت ہے۔

عشق الٰہی اکابرین کے ملفوظات کی روشنی میں:

            اللہ تعالیٰ کی محبت جب انسان کے دل ودماغ میں رچ بس جاتی ہے تو……

            ا …انسان دلیر و بہادر ہو جاتا ہے، دنیا والوں سے اسے کوئی خوف نہیں رہتا؛ یہاں تک کہ وحشی درندوں سے بھی نہیں ڈرتا، کیوں کہ اللہ سے محبت کرنے والوں کا ہر چیز سے خوف اٹھ جاتا ہے ،بل کہ ہر چیز احترام کرتی ہے اور کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاتی۔

            ۲…انسان سخی ہو جاتا ہے، اس کے دل میں مخلوق کے لیے ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے اور اس طرح بخیلی، کنجوسی اور خود غرضی ختم ہو جاتی ہے… خود غرضی ختم ہو جاتی ہے تو انصاف پیدا ہو جاتا ہے،جب انصاف پیدا ہو جاتا ہے تو لوگوں کے دلوں میں اس کی عزت واحترام پیدا ہو جاتا ہے۔

            ۳… انسان کے دل سے دنیا کی چیزوں کی وقعت ختم ہو جاتی ہے… جب وقعت ختم ہو جاتی ہے تو سادگی پیدا ہو جاتی ہے، جب سادگی پیدا ہو جاتی ہے تو حرص و ہوس ختم ہو جاتی ہے، جب حرص و ہوس ختم ہو جاتی ہے تو قناعت پیدا ہو جاتی ہے اور جب قناعت پیدا ہو جاتی ہے، تو انسان غنی ہو جاتا ہے اور دنیا کے غموں سے نجات مل جاتی ہے۔

            ۴…اللہ کی عظمت و شان کبریائی جب دل و دماغ پر چھا جاتی ہے، تو اس کا اپنا کبرو تکبر ختم ہو جاتا ہے اور عاجزی پیدا ہو جاتی ہے۔

            ۵…جس انسان کے دل میں اللہ کی محبت ہوتی ہے تو اسے اللہ کی مخلوق سے بھی پیار ہو جاتا ہے اور جب مخلوق سے پیار ہو جاتا ہے تو غیبت، نفرت، بغض و حسد اور عناد و دشمنی ختم ہو کر تواضع پیدا ہو جاتی ہے اور مخلوق کی خدمت کر کے اسے خوشی حاصل ہوتی ہے۔

            ۶…جب کوئی بندہ اللہ سے محبت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس بندے سے محبت کرتے ہیں اور جس بندے سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتے ہیں اس کو دین کی سمجھ بو جھ عطا فرما دیتے ہیں اور جس کو دین کی سمجھ مل جاتی ہے اس کے لیے دین پر چلنا آسان ہو جاتا ہے۔

            ۷…اور جودین پر چلنے لگتا ہے تو جہنم سے دور ہوتا جاتا ہے اور جنت سے قریب ہوتا جاتا ہے۔

            ۸…جب اللہ سے محبت ہو جاتی ہے، تو دنیا کے مال و دولت اور جاہ و حشم سب ہیچ ہو جاتے ہیں، نہ کسی چیز کے جانے کا غم ہوتا ہے نہ آنے کی خوشی ،ہر چیز کو بندہ اللہ کی امانت سمجھتا ہے اور اس وجہ سے چوری دغا بازی فریب اور ظلم و تشدد سے کوئی چیز حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا، کوئی چیز چلی جائے تو صبر کر لیتا ہے اور اگر مل جائے تو شکر بجالاتا ہے، یعنی صبر وشکر کی خوبی پیدا ہو جاتی ہے۔

             اس محبت کے حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ دنیا کی محبت اور اس کی چیزوں کی محبت دل سے نکال دو اور صرف اللہ کی محبت دل میں بسا لو، پھر دیکھو تم میں کیا کچھ خوبیاں پیداہو جاتی ہیں…

             اللہ تعالیٰ کی محبت انسان کو انسان بنادیتی ہے، ولی بنادیتی ہے اور سب سے بڑھ کر صحیح معنوں میں اشرف الخلوقات بنادیتی ہے۔

 میں چھوڑ کر کاروبار سارے کروں گا ہر وقت کام تیرا

جماؤں گا دل میں یاد تیری رٹونگا دن رات نام تیرا

 (کشکول مجذوب) (شمارہ ۷۵)

اللہ تعالیٰ کی محبت کا نشہ:

            نشہ عجیب چیز ہے، جس کا بھی ہو۔ کاش ہمیں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا نشہ لگ جائے اور یہ جس کو بھی لگتا ہے اس کا عجیب حال ہوتا ہے۔کسی کو شراب کا نشہ لگ گیا یا اور نشے ہیں مشکل سے چھوٹتے ہیں… اور اس کو عام طور پر لوگ معذور سمجھنے لگتے ہیں اور وہ خود بھی معاشرہ اور خاندان میں ایک عذاب کی صورت میں ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا نشہ اس سے کہیں لذیذ اور مزیدار ہے اور پورے معاشرہ میں ایسے نشے والا معزز اور خاندان کے لیے رحمت اور بابرکت ہوتا ہے اور اس کی عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ بظاہر دنیا میں ہوتا ہے، لیکن عرش کی سیر کر رہا ہوتا ہے اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کی محبت میں چور ہوتا ہے اور بزبانِ حال یہ کہہ رہا ہوتا ہے، جس کو ہمارے حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

کوئی مزا مزا نہیں کوئی خوشی خوشی نہیں

تیرے بغیر زندگی موت ہے زندگی نہیں

            پھر وہ یہ کہتا پھرتا ہے کہ

 مجھے دوست چھوڑ دیں سب، کوئی مہربان نہ پوچھے

 مجھے میرا رب ہے کافی، مجھے کل جہاں نہ پوچھے

             بس کیا عرض کیا جائے کیا حال ہوتا ہے اور کیا کیفیت ہوتی ہے پھر تو کوئی پریشانی پریشانی نہیں رہتی، کیوں کہ وہ نشہ میں ہوتا ہے اس کی نظر ہر وقت اپنے آقا اور محبوب کی طرف ہوتی ہے کہ میرا محبوب مجھے دیکھ رہا ہے۔

            میرے حضرت حاجی محمد شریف صاحب رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک شخص کو سزا میں نناوے چابک لگے، تو اس نے اُف تک نہ کی، جب سوواں چابک لگا ،تو اس نے چیخ ماری، کسی نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ تو نے نناوے چابک تک تو اُف نہ کی اور سوویں پر چیخ اٹھا، تو اس نے کہا کہ در اصل بات یہ ہے کہ نناوے چابک تک تو میرا محبوب مجھے دیکھ رہا تھا اور سوویں میں وہ جا چکا تھا، اس وقت مجھے تکلیف کا احساس ہوا۔

            یہ حالت تو ایک عشق مجازی پر ہوئی اور جسے عشقِ حقیقی نصیب ہو اس کے کیا کہنے، اس کو تو کیسی بھی تلخیوں کا سامنا ہوگا تو اس کے لیے وہی شیریں بن جائیں گی…

از محبت تلخہا شیرین بود

            بہر حال جسے خدا تعالیٰ کی محبت مل گئی اسے ساری نعمتیں مل گئیں۔

             میرے حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ بادشاہ نے اعلان ِعام کیا کہ ہمارا دربار لگے گا، جو شخص جو مانگے گا اس کو دیں گے، بس پھر کیا تھا کسی نے کچھ مانگا کسی نے کچھ مانگا بادشاہ کے ساتھ اسکی باندی کھڑی تھی، بادشاہ نے غصہ کے ساتھ اسکودیکھا اور کہا تو کچھ نہیں مانگتی؟ اس نے فوراً بادشاہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا کہ مجھے تو بادشاہ چاہیے۔ اور کہا یہ لوگ بیوقوف ہیں کہ کوئی کچھ لے رہا ہے، کوئی کچھ لے رہا ہے، مجھے تو آپ چاہیے اور جسے آپ مل گئے اسکو سب کچھ مل گیا…

            ہمارے روحانی جد امجد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ اپنی ایک مناجات میں فرماتے ہیں…

کوئی تجھ سے کچھ کوئی کچھ چاہتا ہے

میں تجھ سے ہوں یا رب طلب گار تیرا

            بس جب صحیح معنی میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا نشہ نصیب ہوجاتا ہے… بس پھر اس کو کوئی فکر نہیں ہوتی، کسی سے کوئی ڈرخوف نہیں،آج کسی کو کسی بڑے دنیا دار، عہدہ دار سے تعلق ہوتا ہے وہ بڑا بے خوف ہوتا ہے کہ بس جی کیا ہے ایک فون کر دوں گا؛ حالاں کہ یہ خود عاجز بے بس اور جس پر گھمنڈ ہے وہ بھی محتاج اور بے بس…

            حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ دہلی کی جامع مسجد کے منبر پر کھڑے ہوئے اور شاہانِ مغلیہ کو خطاب کیا اور فرمایا:

             اے لوگو! ولی اللہ دہلوی اپنے سینے میں ایک دل رکھتا ہے، اس میں اللہ کی محبت کے کچھ موتی پنہاں ہیں… آسمان کے نیچے مجھ سے زیادہ کوئی رئیس ہو تو میرے سامنے آئے؟ کیوں کہ تمہاری دولتیں، تمہاری وزاراتیں، تمہاری سلطنتیں ،سب زمین کے اوپر رہ جائیں گی اور تمہیں دو گز کفن میں لپیٹ کر خاک میں ڈال دیا جائے گا اس وقت پتہ چلے گا کہ دنیا کی کیا حقیقت تھی ۔

            یہ چند باتیں جو اپنے بزرگوں سے سنی ہوئی ہیں، وہ پیش کر دی ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنی محبت کا نشہ عطا فرمائیں۔

محبتِ الٰہیہ کے انوار

محبت ِالٰہیہ بنیادی چیز ہے:

            محبت ہو تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ… اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی سے بھی محبت ہو تو اس میں بھی خود غرضی یا نفسانی خواہش مطلوب نہ ہو،بل کہ اس میں بھی حق تعالیٰ جل شانہ کی محبت کا ثبوت و ظہور ہونا چاہیے… اللہ تعالیٰ جل شانہ کی محبت بنیادی چیز ہے، تمام نیکیوں کے کرنے اور سب گناہوں سے بچنے میں اسی محبت کو دخل ہے، جس کو جتنی زیادہ حق تعالیٰ جل شانہ سے محبت ہوگی، اس کے لیے سلوک اور دین کے راستے اور آخرت کی تمام منزلیں آسان ہوتی چلی جائیں گی۔ یہی وہ محبت ہے جو دار فانی (دنیا) اور دار باقی (آخرت) میں عافیت اور سکون کا باعث ہے… کسی کی نماز محبت سے پڑھی جاتی ہے اور کسی کی بوجھ سمجھ کر اور کوئی گناہ سے بڑے شوق سے بچتا ہے اور کوئی بڑی مصیبت سے محبت والے کے اعمال و افعال و حرکات سب محبوب کی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں۔

            آئیے! ہم چند اللہ والوں کے واقعات یاد کر لیں تا کہ ہمیں بھی دلی محبت کا شوق پیدا ہو…

(دین و دانش جلد ۴)

اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے ساتھ بے انتہا محبت:

             اب ذرا اس بات کو ملاحظہ فرمایئے کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ اپنی مخلوق کے ساتھ کس قدر محبت فرماتے ہیں اور ساتھ اس بات کا دھیان رکھیے کہ ہم کس درجے میں محبت کرتے ہیں۔

            ۱…حق تعالیٰ جل شانہ نے ہمیں مسلمان گھرانے میں پیدا فرمایا ، یہ ان کی محبت ہی کا نتیجہ ہے۔

            ۲… ہمیں آخری نبی کا امتی بنایا ہے یہ بڑی محبت کا نتیجہ ہے۔

            ۳…بے شمارنعمتیں عطا فرمائی ،جن میں سب سے بڑی دولت قرآن پاک کی دولت ہے۔

            ۴… قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ جل شانہ نے فرما بھی دیا ہے کہ ایمان والے بڑی محبت رکھنے والے ہیں یہ بھی ان کی محبت اور شفقت کا نتیجہ ہے۔

            ۵…جب بندہ سورہٴ فاتحہ پڑھتا ہے تو حق تعالیٰ جل شانہ ایک ایک آیت سن کر جواب دیتے رہتے ہیں یہ خالص محبت ہی کی علامت ہے۔

            ۶…حق تعالیٰ جل شانہ فرماتے ہیں (قرآن مجید میں) کہ تم میرا نام لو میں تمہارا نام لوں گا اور (حدیث میں) فرماتے ہیں کہ جومیرا تنہائی میں نام لے گا، میں بھی اس کا تنہائی میں نام لوں گا اور جوکسی مجلس میں میرا نام لے گا میں اس سے بہتر مجلس (فرشتوں کی مجلس) میں نام لوں گا…

            ۷…حق تعالیٰ جل شانہ بندے کی کوشش دیکھتے ہیں…بندہ ایک بالشت بڑھتا ہے وہ ایک (گز) بڑھتے ہیں، جب بندہ اور ایک ہاتھ بڑھتا ہے، تو حق تعالیٰ جل شانہ دو ہاتھ بڑھتے ہیں، جب بندہ دو ہاتھ بڑھتا ہے تو حق تعالیٰ بھاگ کر پکڑ لیتے ہیں…

            ۸…ہر روز رات کے آخری تیسرے حصے میں ہم سے باتیں کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

             کوئی بخشش مانگنے والا ہے؟ کوئی صحت مانگنے والا ہے؟ کوئی رزق مانگنے والا ہے؟ میں اسے عطا کروں۔ کئی بار یہ فرما کے ہمیں سویا ہوا دیکھ کر بھی ناراض نہیں ہوتے،جب کہ آسمان دنیا یعنی ہماری چھتوں پر تشریف فرما ہوتے ہیں اور ہم پھر بھی غافل رہتے ہیں۔

            ۹…حق تعالیٰ جل شانہ کی کتنی بڑی محبت کا اظہار اس طرح بھی ہوتا۔ گناہوں پر پردہ ڈالتے رہتے ہیں۔

            ۱۰…حق تعالیٰ جل شانہ کی محبت کا اس طرح بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ ہم سے معمولی مزدوری لے کر لامحدود زندگی کے لیے بے انتہا اجر و ثواب دے دیتے ہیں۔

            ۱۱… حق تعالیٰ جل شانہ نے ہمیں دنیا میں بھیجا اور ہماری سہولتوں اور ضرورتوں کا خیال فرما کر ہمیں بشری تقاضے پورے کرنے کی بھی اجازت دی؛ جیسے کوئی بادشاہ دوسرے ملک سے ملازمت کے لیے کسی کو بلاتا ہے اور اس کی سہولت کی خاطر اپنے خرچے پر اس کے بیوی بچے بھی بلوا دیتا ہے؛ تا کہ اس کی ضرورتیں پوری ہوسکیں اس طرح حق تعالیٰ جل شانہ کی کیسی عمدہ محبت ہے کہ وہ دنیا میں رہ کر نکاح کرنے والے سے خوش ہوتے ہیں اور تمام بشری تقاضوں کی بھر پورا جازت دیتے ہیں کبھی سخت کام یا مجاہدے نہیں کرواتے۔

            ۱۲…اس امت کو آخر میں بھیجا اور حساب کتاب اس کا پہلے لے لینا بے انتہا محبت کا ثبوت ہے۔

            ۱۳…اللہ کے لیے آپس میں محبت کرنے والے دو شخص عرش کے سایہ کے نیچے ہوں گے۔ یہ بھی محبت ہی کا پھل ہے۔

            ۱۴…بندہ جب غفلت سے بھی اللہ تعالیٰ جل شانہ کو یاد کر لے تو وہ پھر بھی بندہ کا نام لیکر یاد کرتے ہیں ؛جیسا کہ واقعہ مشہور ہے کہ ایک آدمی کئی سالوں سے بت کی پوجا کرتے ہوئے یا صنم یا صنم کہ رہاتھا کہ غلطی سے ایک دفعہ یا صمد (اللہ تعالیٰ کا نام) منہ سے نکل گیا، اسی وقت پیارے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لبیک یا عبدی (اے میرے بندے میں حاضر ہوں مانگ کیا مانگتا ہے) فرشتوں نے عرض کیا کہ یا اللہ یہ تو اپنے بت کی عبادت کر رہا تھا اس کے منہ سے غلطی سے آپ کا نام نکل آیا، تو اللہ تعالیٰ جل شانہ نے فرمایا کہ اگروہ بھی جواب نہ دے اور میں بھی جواب نہ دوں تو میرے اور اس میں کیا فرق ہوگا۔…   

        اس پر فتن دور میں ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ ایمان میں کمزوری کی بیماری مسلمانوں میں عام ہوتی جارہی ہے ؛ایسے میں عشق ِالہی اور محبت حقیقی کی معرفت از حد ضروری ہے ،اس لیے ہم نے اس موضوع کو شروع کیا ہے ۔اللہ اس نعمت سے ہم سب کو مالا مال فرمائے۔آمین۔