اللہ تعالی کے نزدیک مومن کا مقام و مرتبہ

عبد المتین اشاعتی کانڑگانوی

            حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قربانی والے دن، یعنی منیٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں بتلاؤ یہ دن کون سا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ حرمت والا دن یعنی دس ذی الحجہ ہے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بتلاؤ یہ شہر کونسا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ حرمت والا شہر مکہ ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: بتلاؤ یہ مہینہ کون سا ہے؟ عرض کیا: یہ حرمت والا مہینہ یعنی ماہ ذی الحجہ ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بس تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزت ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں، جیسے اس دن کی حرمت اس شہر اور اس مہینے میں ہے… حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ وصیت اپنی تمام امت کے لیے ہے کہ یہاں موجود ہر شخص غیر موجود اور ناواقف لوگوں کو خدا کا پیغام پہنچا دے، میرے بعد تم منکر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔

مومن کی برتری فرشتوں پر:

            حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

            اللہ تعالی کے نزدیک مومن اس کے بعض فرشتوں سے بھی زیادہ معزز ہے۔

 مومن کی ہر حالت میں خیر اور بھلائی:

            حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

            مومن کی بھی عجیب شان ہے، اس کے سارے کام خیر ہی خیر ہیں، اور یہ بات صرف مومن کے ساتھ ہی مخصوص ہے، کوئی دوسرا اس خصوصیت میں شریک نہیں ہے، اگر اس کو کوئی نعمت اور خوشی حاصل ہوتی ہے، تو اللہ تعالی کے حضور شکر بجا لاتا ہے، تو یہ شکر اس کے لیے خیر اور بھلائی کا سبب ہوتا ہے۔اور اگر اس کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ صبر کا دامن تھام لیتا ہے، تو یہ صبر بھی اس کے لیے خیر و بھلائی کا باعث ہوتا ہے۔

کسی مومن کو قتل کرنا:

            حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہما دونوں سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

            اگر آسمان و زمین والے تمام لوگ کسی مومن کے خون یعنی قتل میں شریک ہو جائیں، یعنی سب مل کر کسی ایک مومن کو قتل کر دیں، تو اللہ تعالی ضرور ان سب کو اوندھے منہ جہنم میں گرا دیں گے۔

 کسی مومن پر الزام تراشی:

            حضرت معاذ بن انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

            جو شخص کسی مسلمان کی عزت و آبرو کو کسی منافق کے شر سے بچائے گا، اللہ تعالی اس کے لیے ایک فرشتہ بھیجے گا جو اس کو قیامت کے دن تک دوزخ کی آگ سے بچائے گا، اور جو شخص کسی مسلمان پر تہمت لگائے، جس کے ذریعے اس کا مقصد اس مسلمان کی ذات کو عیب دار کرنا ہو، تو اللہ تعالی اس کو دوزخ کے پل پر قید کر لے گا، یہاں تک کہ وہ اس تہمت لگانے کے وبال سے نکل جائے۔

کسی مومن کو دھوکہ دینا:

             حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایسا شخص ملعون یعنی اللہ کی رحمت سے دور ہے، جس نے کسی مومن کو نقصان پہنچایا یا اس کے ساتھ مکر و فریب والا معاملہ کیا۔

مومن کے ساتھ خیر خواہی:

             حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص دنیا کی سختیوں میں سے کسی مسلمان کی تنگی اور سختی کو دور کر دے، تو اللہ جل شانہ قیامت کے دن وہاں کی سختیاں اس سے دور کر دے گا، اور جس شخص نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالی دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی کریں گے، اور اللہ تعالی اس وقت تک اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے، جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔

 مومن سے تعلقات ختم کر لینا:

             حدیث شریف میں ہے: جس شخص نے اپنے بھائی یعنی مومن سے ایک سال تک قطع تعلق کر لیا، یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اس کا خون بہا دیا۔

اللہ تعالی کے نزدیک کفار کی حیثیت:

 سورہ ٴاعراف میں اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے:

            یہ لوگ چوپایوں کی مانند ہیں؛ بلکہ یہ ان سے بھی زیادہ بے راہ ہیں۔

 سورہٴ محمد میں ارشاد ہے:

             اور وہ لوگ جو منکر ہیں وہ عیش کر رہے ہیں اور اس طرح کھاتے ہیں جیسے چوپائے کھایا کرتے ہیں اور ان کافروں کا ٹھکانہ آگ ہے۔

 سورہٴ جمعہ میں کفار یعنی یہودیوں کو گدھے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ ارشاد ہے:

            ان لوگوں کی مثال جن پر تورات کے علم و عمل کا بار ڈالا گیا تھا، پھر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا اس گدھے کی سی ہے، جو بہت سی بڑی بڑی کتابیں اٹھائے ہوئے ہوں، جن لوگوں نے خدا کی آیتوں کی تکذیب کی ان کی بری مثال ہے۔

 سورہٴ اعراف میں کفار کو کتے کے ساتھ تشبیہ دی گئی فرمایا:

 سو آیات کو چھوڑ کر جو پریشانی اور ذلت دائمی اس کو نصیب ہوئی اس کے اعتبار سے اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تو اس پر حملہ کرے اور مار کر نکال دے، تب بھی ہانپے یا اس کو اس کی حالت پر چھوڑ دے تب بھی ہانپے، کسی حالت میں اس کو راحت نہیں۔ اسی طرح یہ شخص ذلت میں تو کتے کے مشابہ ہو گیا اور پریشانی میں کتے کی اس صفت میں شریک ہوا، پس جیسی اس شخص کی حالت ہوئی یہی حالت عام طور پر ان لوگوں کی ہے، جنہوں نے ہماری آیتوں کو جو کہ توحید و رسالت پر دلالت کرتی ہیں جھٹلا دیا، کہ وضوح ِحق کے بعد محض ہوا پرستی کے سبب حق کو ترک کرتے ہیں۔سو آپ اس حال کو بیان کر دیجیے، شاید وہ لوگ اس کو سن کر کچھ سوچیں، حقیقت میں ان لوگوں کی حالت بھی بری ہے ،جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں اور اس تکذیب سے وہ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔

 سورہٴ عنکبوت میں کفار کو مکڑی کے ساتھ تشبیہ دی گئی. فرمایا:

 جن لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر اور لوگوں کو کارساز بنا رکھا ہے، ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ اس مکڑی نے ایک گھر بنا رکھا ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ تمام گھروں سے بودا اور کمزور مکڑی ہی کا گھر ہوتا ہے، کاش! وہ اتنی بات کو سمجھتے۔

خلاصہ ٴکلام: الغرض اللہ جل شانہ کے نزدیک کفار دنیا میں بھی ذلیل اور حقیر ہیں اور آخرت میں بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خائب و خاسر۔ اس کے برخلاف اہل ِایمان دنیا میں بھی رب العالمین کے نزدیک مکرم و محترم ہیں اور آخرت میں بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کامیاب و کامران۔

آخرت کی حقیقت:

            ایسے لوگ جو دولت ایمان اور نعمت ِاسلام سے محروم ہیں، ان کے لیے ایمان کی دولت حاصل کرنا اختیاری بھی ہے اور نہایت سہل اور آسان بھی۔اور جن کو اللہ تعالی نے دولت ِایمانی سے مشرف فرما دیا ہے، ان کے لیے ایمان کی حفاظت اختیاری ہے اور نہایت سہل اور آسان بھی۔ایمان اطمینان قلبی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔دنیاوی زندگی میں راحت و سکون حاصل کرنے کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ اپنے قلب کو دولت ِایمان سے منور کیا جائے۔اور زندگی ایمانی تقاضوں کے مطابق بسر کی جائے،کفر کی حالت میں قلبی اطمینان اور راحت کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔چاہے تحصیل کے لیے دنیا بھر کے اسباب ِراحت اور سہولتیں جمع کر لی جائیں؛وجہ یہ ہے کہ کافر شخص نے منزل ِمقصود کی طرف جانے والے صراط ِمستقیم کو چھوڑ کر اس کی مخالف سمت میں سفر کا آغاز کر رکھا ہے۔یہ جنت کے راستے کو ترک کر کے دوزخ کے راستے پر سفر کر رہا ہے۔

            مومن چاہے ظاہری طور پر کتنے ہی افلاس فقر و فاقہ بیماریوں اور تکلیفوں میں مبتلا ہو، چونکہ ایمان کی برکت سے اس کے سفر ِآخرت کا رخ بالکل درست ہے، وہ سمت پر جنت کی طرف سفر کر رہا ہے؛ اس لیے دنیاوی زندگی میں پیش آنے والی تکالیف کو ہنسی خوشی برداشت کر لیتا ہے، اور اس تصور سے ہی اس کے قلب کو وہ سکون محسوس ہوتا ہے کہ چند روزہ زندگی میں تکالیف برداشت کر لینے کے بعد بالآخر انتہائی راحت و سکون، لذت و نعمت کی جگہ جنت میں ٹھکانہ ہے؛پھر تو من چاہی زندگی ہے اور اپنی ہی حکومت ہے اور اپنے مزے ہی مزے ہیں،جب کہ کافر اپنے کفر کی وجہ سے جنت سے ہٹ کر جو کہ تمام اولاد ِآدم کا اصلی گھر ہے،اس سے ہٹ کر جہنم کے راستے پر سفر کر رہا ہے،اب چاہے یہ دنیاوی زندگی میں کتنے ہی اسباب ِراحت حاصل کر لے،رہائش،کھانے،پینے کی عمدہ اشیاء،سواری،نوکر چاکر، دوست احباب وغیرہ اعلی ترین اپنائے، مگر چونکہ لمحہ بہ لمحہ اپنی اصلی منزل سے دور ہو کر درد ناک عذابوں والی جگہ کی طرف رواں دواں ہے،اس وجہ سے اس کی روح ہر وقت پریشانی و بے سکونی میں مبتلا رہتی ہے۔ہاں! اہل کفر اگر آج بھی دولت ِاسلام سے مشرف ہو کر قلب کو نور ایمانی سے منور کر لیں، زندگی اسلامی سانچے میں ڈھال کر اپنے سفر ِآخرت کا رخ درست کر لیں، تو ان کو بھی قلبی لذت و آرام حاصل ہو سکتا ہے۔

ایمان لانا سب سے زیادہ آسان عمل ہے:

            اعمال دو طرح کے ہوتے ہیں: اعمال ظاہرہ ،اعمال باطنہ۔بعض اعمال وہ ہیں جن کا تعلق انسان کے اعضائے ظاہرہ سے ہے ،جیسے کھانا پینا ،لڑنا دوڑنا اور اسلامی احکام میں سے نماز ،زکوة،حج،جہاد وغیرہ اور بعض اعمال وہ ہیں جن کا تعلق اعضائے ظاہرہ سے نہیں ہے، محض دماغی سوچ اور فکر سے ہے، ایمانیات و عقائد کا تعلق اسی قسم کے ساتھ ہے، جیسے یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے اور ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے نبی اور رسول ہیں۔آخرت برحق ہے۔جنت و دوزخ برحق ہے وغیرہ۔

            پہلی قسم کے اعمال میں ارادے کے ساتھ انسان کو اعضائے ظاہرہ کو استعمال کرکے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے،قوت و توانائی صرف ہوتی ہے،مگر دوسری قسم کا عمل یعنی ایمان لانا اس قدر آسان اور سہل ہے کہ اس کے انجام دینے کے لیے محض دل کا یقین کر لینا ہی کافی ہے۔ظاہر ہے کہ دل کے عقیدے اور یقین کے لیے ظاہری اعضاء کی ذرہ برابر بھی توانائی صرف نہیں ہوتی۔مثلا: اگر کوئی شخص اندھا،گونگا،بہرا ہے،ظاہری طور پر ہر عضو سے معذور ہے، دماغی سوچ اور فکر اس کی صحیح سالم ہے، تو اعتقادی عمل یعنی ایمان میں کمال درجہ حاصل کر سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص آخرت وغیرہ کے نہ ہونے کا عقیدہ رکھا یا شک و شبہ میں گرفتار رہا اور پھر آخرت برپا ہوگئی، تو پھر سوائے ندامت، حسرت اور کف ِافسوس ملنے کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔کتنا دانا اور عقل مند ہے وہ شخص جو عمل میں کمزوری اور اسلام کے ظاہری احکام میں غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے بہت بڑی خیر اور نعمت عظمیٰ یعنی ایمان سے دست بردار نہیں ہوتا۔

            بعض لوگ جنت و دوزخ کے عجیب و غریب احوال کو اپنی عقل سے پرکھنے کی کوشش کرتے اور وسوسوں اور شبہات کا شکار ہو کر ایمان کھو بیٹھتے ہیں، جب کہ واقعہ یہ ہے کہ عالم ِآخرت اس دنیا کے مقابلے میں اسی طرح بے حد وسیع اور بے انتہا ترقی یافتہ ہوگا، جس طرح ماں کے پیٹ کے مقابلے میں ہماری یہ زمین اور آسمان والی دنیا بے حد وسیع اور ترقی یافتہ ہے اور جس طرح بچہ ماں کے پیٹ سے اس دنیا میں آنے کے بعد وہ سب کچھ دیکھ لیتا ہے، جس کو وہ ماں کے پیٹ کے زمانے میں سمجھ بھی نہیں سکتا تھا، اسی طرح آخرت کے عالم میں پہنچ کر سب انسان وہ سب کچھ دیکھ لیں گے، جو اللہ کے پیغمبروں نے وہاں کے متعلق بتلایا۔ ہماری عقل ِنا رساں کی پرواز کا عالم تو یہ ہے کہ اگر ایک دو صدیاں پہلے اس سے کہا جاتا کہ ایک ایسی سواری ایجاد ہونے والی ہے؛ (مراد ہوائی جہاز ہے) جو منوں اور ٹنوں وزن اٹھائے ہزاروں فٹ بلندی پر بہت تیزی سے پرواز کرے گی، دنوں کا سفر گھنٹوں میں اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے کرے گی، تو یہ عقل ہر گز اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوتی، مگر آج کھلی آنکھوں اسی چیز کا دن رات مشاہدہ ہو رہا ہے۔آج سے کچھ عرصہ قبل ہوائی جہاز، خورد بین، ایٹم بم،میزائل اور جدید ہتھیار و آلات اور مشینیں انسان کے عقل میں بھی نہیں آ سکتی تھیں، لیکن جب آج کھلی آنکھوں سے ان چیزوں کا مشاہدہ کیا تو انسان مان بھی گیا۔ جب ہماری عقل اس قدر لاچار ہے کہ ایک دو صدی بعد رونما ہونے والے واقعات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، تو اس عقل سے لا محدود زندگی یعنی آخرت کی زندگی اور جنت و دوزخ کے واقعات کا اندازہ لگانا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ معلوم ہوا کہ عقل کی کسوٹی پر عالم آخرت کو پرکھنا سخت ناواقفی کی بات ہے۔

علم حاصل کرنے کے تین ذرائع ہیں:

             اللہ تبارک وتعالی نے انسان کو چیزوں کا علم حاصل کرنے کے لیے تین ذرائع عطا فرمائے ہیں:

             سب سے پہلے حواسِ خمسہ، اس کے بعد عقل اور اس کے بعد وحی۔

 حواس خمسہ: یعنی آنکھ کان،ناک، زبان اور ہاتھ۔

            انسان آنکھ کے ذریعے دیکھ کر کسی چیز کے خوب صورت ہونے یا بد صورت ہونے کا علم حاصل کرتا ہے۔کان کے ذریعے سن کر کسی چیز کا علم حاصل ہوتا ہے۔ زبان کے ذریعے چکھ کر علم حاصل ہوتا ہے۔ ہاتھ کے ذریعے چھو کر علم حاصل ہوتا ہے۔

            اللہ تعالی نے ان حواس خمسہ کا دائرہٴ کار محدود رکھا ہے، جس کام کے لیے ان کو پیدا کیا گیا، بس اسی چیز کا علم حاصل ہو سکتا ہے، اس کے علاوہ کا علم حاصل کرنا نا ممکن بھی ہے اور اس عضو پر ظلم بھی۔ جہاں پر ان حواس خمسہ کی کار کردگی کی انتہا ہوتی ہے ،وہاں پر علم حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالی نے عقل بطور اعلیٰ علم کے عطا فرمائی۔ مثلاً کسی چیز کی اچھائی یا برائی، فوائد و مضرات معلوم کرنے کے لیے محض ظاہری اعضاء کار آمد نہیں، بلکہ یہاں عقل کے ذریعے مقصود حاصل ہوتا ہے؛ لیکن یہ بات یاد رہے کہ جس طرح اللہ تعالی نے حواس ِخمسہ کا دائرہٴ کار محدود رکھا ہے، اسی طرح عقل کا دائرہٴ کار بھی محدود ہے۔بہت سی اشیاء ایسی بھی ہیں جن کا علم حاصل کرنے سے عقل بھی قاصر ہے؛یہاں پر علم حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالی نے تیسرا ذریعہ وحیٴ الٰہی کو بنایا؛جہاں عقل کی انتہا ہوتی ہے وہاں سے وحیٴ الہی کی ابتدا ہوتی ہے، جو تحصیل علم کا ایک لا متناہی ذریعہ ہے۔ مثلاً امورِ آخرت کے متعلق علم حاصل کرنا، برزخ، قیامت، جنت، دوزخ وغیرہ کی حقیقت معلوم کرنا وغیرہ۔ ان کا علم خالص وحیٴ الہی پر موقوف ہے۔ جیسے اس میدان میں حواس ِخمسہ کو استعمال کرنا بے سود و بے فائدہ ہے، اسی طرح اس میدان میں عقلی گھوڑے دوڑانا بھی سخت جہالت ہے۔

             حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عقل جب بڑھتی ہے تو اتنا پریشان کرتی ہے کہ زندگی تباہ کر دیتی ہے اور یہی وجہ ہے بہت سے عقلا ء کے تباہ ہونے کی، کہ انہوں نے عقل سے وہ کام لیا جو اس کی حد سے آگے تھااور ہر چیز کا اپنی حد سے نکل جانا مضر ہے ،میں تو عقل کے متعلق ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ یہ ایسی ہے جیسے گھوڑا پہاڑ پر چڑھنے والے کے لیے، اب تین قسم کے لوگ ہیں:

            ایک تو وہ جو گھوڑے پر سوار ہو کر پہاڑ تک پہنچے، پھر پہاڑ پر بھی اس پر سوار ہو کر چڑھنے لگے، یہ غلطی پر ہے۔ضرور کسی سیدھی چڑھائی پر سوار اور گھوڑا دونوں گریں گے۔

            اور ایک وہ ہے جو یہ سمجھ کر کہ گھوڑا پہاڑ پر تو کام دیتا ہی نہیں، تو اس سے صاف سڑک پر بھی کام لینے کی کیا ضرورت، وہ گھر ہی سے پیدل چل پڑے، نتیجہ یہ ہوا کہ پہاڑ تک پہنچ کر تھک گئے، یہ بھی نہ چڑھ سکے، تو ان دونوں کی رائے غلط تھی۔

            پہلی جماعت نے گھوڑے کو ایسا با کار سمجھا کہ آخر تک اسی سے راستہ طے کرنا چاہا اور دوسرے نے ایسا بے کار سمجھا کہ پہاڑ تک بھی اس سے کام نہ لیا۔صحیح بات تو یہ ہے کہ گھوڑا پہاڑ تک تو کار آمد ہے اور پہاڑ پر چڑھنے کے لیے بے کار، اس کے لیے اور سواری کی ضرورت ہے ؛یہی حال عقل کا ہے کہ عقل سے بالکل کام نہ لینا بھی حماقت ہے اور آخر تک کام لینا بھی غلطی ہے۔بس عقل سے اتنا کام تو لو کہ توحید اور رسالت کو سمجھو، اور کلام اللہ کا کلام اللہ ہونا معلوم کر لو، اس سے آگے یعنی برزخ، جنت و دوزخ ،اس میں عقل سے کام نہ لینا چاہیے، بلکہ اب خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے آگے گردن جھکا دینا چاہیے،چاہے ان کی حکمت عقل میں آئے یا نہ آئے۔

            غرض عقل سے اس وقت تک کام لو جب تک وہ کام دے سکے اور جہاں اس کا کام نہیں وہاں اس کو چھوڑ دو،حکم کا اتباع کروتو عقل کی بھی ایک حد ہوئی، اس سے آگے وحی سے کام لو؛ ورنہ یاد رکھو کہ عمر بھر راستہ نہ ملے گا۔

 خلاف پیمبر کسے رہ گزید

 ہرگز بہ منزل نہ خواہد رسید

            پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کے خلاف جس نے اور راستہ اختیار کیا وہ ہرگز منزل ِمقصود تک نہ پہنچے گا۔

موت کے وقت اللہ تعالی کا مومن اور کافر کے ساتھ معاملہ:

            حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

             جب بندہ قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے اعزہ و احباب واپس آجاتے ہیں ،تو وہ مردہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے اور اس کے پاس قبر میں دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو اٹھا کر پوچھتے ہیں کہ تم اس شخص سے یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ اس کے جواب میں بندہٴ مومن کہتا ہے کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ (محمد صلی اللہ وسلم) بلاشبہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں؛پھر اس بندے سے کہا جاتا ہے کہ تم اپنا ٹھکانہ دوزخ میں دیکھو، جس کو خدا نے بدل دیا ہے اور اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں جگہ دی گئی ہے۔وہ مردہ دونوں مقامات کو دیکھتا ہے اور جو مردہ منافق یا کافر ہوتا ہے ،اس سے بھی یہی سوال کیا جاتا ہے کہ اس شخص سے یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو کیا کہتا ہے؟ وہ اس کے جواب میں کہتا ہے کہ کچھ نہیں جانتا، جو اور لوگ کہتے تھے میں بھی وہی کہتا تھا،اس شخص سے کہا جائے گا کہ تو نے نہ تو خود عقل سے پہچانا اور نہ تو تونے قرآن شریف پڑھا۔یہ کہہ کر اس کو لوہے کے گرزوں سے اس طرح مارا جاتا ہے کہ اس کے چیخنے چلانے کی آواز سوائے، جنوں اور انسانوں کے قریب کی تمام چیزیں سنتی ہیں۔

             حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

             قبر میں مردے کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے میرا رب اللہ ہے۔پھر فرشتے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب میں کہتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے،پھر فرشتے اس سے سوال کرتے ہیں: جو شخص خدا کی طرف سے تمہارے پاس بھیجا گیا تھا وہ کون ہے؟ وہ کہتا ہے کہ وہ خدا کا رسول ہے،پھر فرشتے اس سے پوچھتے ہیں کہ یہ تجھے کس نے بتایا؟ وہ کہتا ہے میں نے خدا کی کتاب پڑھی اور اس پر ایمان لایا اور اس کو سچ جانا، یعنی جو کلام اللہ پر ایمان لائے گا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلے ایمان لائے گا۔

             حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہی مطلب ہے اللہ تعالی کے اس قول کا، یعنی اللہ تعالی ان لوگوں کو ثابت قدم رکھتا ہے جو ثابت بات پر ایمان لائے۔

            آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آسمان سے پکارنے والا یعنی اللہ تعالی یا اس کے حکم سے فرشتہ پکار کر کہتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا؛ لہذا اس کے لیے جنت کا فرش بچھاؤ اور جنت کی پوشاک پہناؤ اور اس کے واسطے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو؛ چناں چہ جنت کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس جنت کے دروازے سے اس کے پاس ہوائیں اور خوشبو آتی ہیں اور حد نظر تک اس قبر کو کشادہ کر دیا جاتا ہے۔ اب رہا کافر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی موت کا ذکر کیا اور اس کے بعد فرمایا کہ پھر اس کی روح اس کے جسم میں ڈالی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو بیٹھا کر پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے؟

            وہ مارے دہشت کے کہتا ہے: میں نہیں جانتا۔

            پھر وہ پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔

             پھر وہ پوچھتے ہیں یہ شخص کون ہے، جو خدا کی جانب سے تم میں بھیجا گیا؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔

            پھر آسمان سے ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا: یہ جھوٹا ہے اس کے لیے آگ کا فرش بچھاؤ۔آگ کا لباس اس کو پہناؤ اور اس کے واسطے ایک دروازہ دوزخ کی طرف کھول دو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دوزخ سے اس کے پاس گرم ہوائیں اور لو آتی ہیں اور فرمایا اس کی قبر اس کے لیے تنگ کر دی جاتی ہے، یہاں تک کہ ادھر کی پسلیاں ادھر اور ادھر کی پسلیاں ادھر نکل آتی ہیں؛ پھر اس پر ایک اندھا اور بہرا فرشتہ مقرر کر دیا جاتا ہے، جس کے پاس لوہے کا ایک ایسا گرز ہوتا ہے کہ اگر اس کو پہاڑ پر مارا جائے، تو وہ پہاڑ مٹی ہو جائے اور وہ فرشتہ اس کو اس گرز سے اس طرح مارتا ہے کہ اس کے چیخنے چلانے کی آواز مشرق سے مغرب تک تمام مخلوقات سنتی ہیں ،مگر جن و انس اسے نہیں سنتے، اس کے مارنے سے وہ مٹی ہو جاتا ہے،اس کے بعد پھر اس کے اندر روح ڈالی جاتی ہے۔

             حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 کافر کے اوپر اس کی قبر میں ننانوے اژدہے مسلط کیے جاتے ہیں ،جو اس کو قیامت تک کاٹتے اور ڈستے رہتے ہیں اور وہ اژدہے ایسے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی اژدھا بھی زمین پر پھنکار مار دے، تو زمین سبزہ اگانے سے محروم ہو جائے۔

 اور ایک حدیث شریف میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن کا تحفہ موت ہے۔

            اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے، تو رحمت کے فرشتے سفید ریشمی کپڑا لے کر آتے ہیں اور روح سے کہتے ہیں کہ تو جسموں سے نکل ،اس حال میں کہ تو اللہ تعالی سے راضی ہے اور اللہ تعالی تم سے خوش ہے۔اور اللہ تعالی کی رحمت اور پرور دگار کی طرف (جو تجھ پر غضب ناک نہیں ہے) چل، چنانچہ روح مشک کی بہترین خوشبو کی طرح جسم سے نکلتی ہے اور فرشتے اس کو از راہ ِتعظیم و تکریم ہاتھوں ہاتھ لیے چلتے ہیں، یہاں تک کہ اسے لے کر آسمان کے دروازوں تک آتے ہیں۔وہاں فرشتے آپس میں کہتے ہیں کہ کیا خوب ہے یہ خوشبو جو تمہارے پاس زمین سے آرہی ہے،پھر اسے ارواحِ مؤمنین کے پاس لاتے ہیں؛چنانچہ وہ روح اس روح کے آنے سے اسی طرح خوش ہوتی ہے، جس طرح تم میں سے کوئی شخص اس وقت خوش ہوتا ہے؛ جب کہ اس کے پاس اس کا غائب آتا ہے، یعنی تم میں سے کوئی شخص جب سفر سے واپس آتا ہے، تو جس طرح اس کے اہل و عیال اس کی واپسی پر خوش ہوتے ہیں؛ اسی طرح آسمان میں مؤمنین کی روحیں اس وقت بہت زیادہ خوش ہوتی ہیں؛ جب کہ کسی مومن کی روح زمین سے ان کے پاس آتی ہے،پھر تمام روحیں اس روح سے پوچھتی ہیں کہ فلاں کیا کرتا ہے؟ اور فلاں کہاں ہے؟ یعنی روحیں ان لوگوں کے بارے میں جنہیں وہ دنیا میں چھوڑ کر آئی تھیں ایک ایک کر کے پوچھتی ہیں کہ فلاں فلاں شخص کا کیا حال ہے؟ مگر پھر روحیں آپس میں کہتی ہیں کہ اس روح کو چھوڑ دو ابھی کچھ نہ پوچھو؛ کیوں کہ یہ دنیا میں تھی، جب اسے ذرا سکون مل جائے تو پوچھنا؛چنانچہ روح جب سکون پا لیتی ہے تو خود کہتی ہے کہ فلاں شخص جو بدکار تھا اور جس کے بارے میں تم پوچھ رہے ہو مر گیا، کیا وہ تمہارے پاس نہیں آیا؟ چنانچہ اسے بتاتی ہیں کہ اسے تو وہ دوزخ کی آگ میں لے گئے۔ اور جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو عذاب کے فرشتے اس کے پاس ٹاٹ کا فرش لے کر آتے ہیں اور اس کی روح سے کہتے ہیں کہ اے روح ِکافر! اللہ عز وجل کے عذاب کی طرف نکل اس حال میں کہ اللہ تعالی تجھ سے ناراض ہے اور تجھ پر ناراضگی کی مار ہے۔چنانچہ روح کافر کے جسم سے مردار کی بدبو کی طرح نکلتی ہے؛پھر فرشتے آسمان کے دروازوں کی طرف لاتے ہیں، وہاں فرشتے کہتے ہیں کہ کتنی بری ہے یہ بدبو پھر اس کے بعد اسے کافروں کی ارواح کے پاس لے جایا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہماری روحوں کا معاملہ صالحین بندوں سا فرمائے۔ آمین