الحاد کو عام کرنے کے لیے یہودی منصوبہ

            یہودی عرصہٴ دراز سے تمام عالم کے انسانوں کے خلاف بلا امتیاز مسلم وغیر مسلم اس قدرگھناؤنی سازشیں کرتے چلے آرہے تھے اوران کے خفیہ منصوبوں نے ساری دنیا کو درہم برہم کررکھا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی ان سازشوں کا دنیا کو شعورکیوں نہیں اوروہ اس کے توڑکے لیے اس عیار قوم کے خلاف کیوں نہیں اٹھ کھڑی ہوتی، خصوصاًمسلمان جن کے پاس تعلیمات الٰہیہ اپنی اصل میں موجود ہیں اورجذبہ جہاد جن کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے وہ ان منصوبوں کا ادراک کرکے ان کے بانیوں کو کیفرکردارتک پہنچانے میں کیوں سست ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ یہودیوں نے ایسی حکمت ِعملی اپنا رکھی ہے اوراپنے منصوبوں کو روبعمل لانے کے لئے ایسے زیر ِزمین طریقے وضع کررکھے ہیں کہ ان کی زد میں آنے کے بعد دنیا کو اپنا ہی ہوش نہیں رہا وہ ان کی چالوں کامقابلہ کیوں کر تے رہ گئے، مسلمان تو ان کی کامیابی کی تین بنیادی اورموٹی موٹی شرائط تھیں۔

            ۱۔ احکاماتِ الٰہیہ اورسنت نبویہ پر پورا پورا عمل۔

            ۲۔ فریضہ ٴ جہاد فی سبیل اللہ کی ادائیگی۔

            ۳۔ خلافت اسلامیہ کا قیام۔

             یہودیوں نے ایسا طریق کار اپنا یا کہ وہ رفتہ رفتہ ان تینوں میں کمزورہوتے ہوتے محروم ہونے کے قریب پہنچ گئے،مسلمانو ں میں سے جن افراد،تحریکوں یا اداروں کو ان باتوں کا شعور اور ملت اسلامیہ میں ان کے احیاء کی فکر ہے وہ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، اس شعور کو سلب کرنے کے لئے یوں تو یہودیوں نے بیسیوں نہیں سینکڑوں طریقے استعمال کئے لیکن بطورخاص ایک اصولی طریقہ اپنایاگیا یہ ایک پیچیدہ اورعام لوگوں کے لئے ناقابل فہم طریقہ ہے؛ لیکن چوں کہ یہ اتنا اہم ہے کہ سارے یہودی سازشی نظام کی بنیادیں اس پر کھڑی ہیں اس لئے اسے ذرا تفصیل سے اورخفیہ دستاویزات کے حوالوں کے ساتھ دکر کیا جاتا ہے۔ اللہ کرے مسلمان اس کو پڑھ کر فکر مندہوں اوراس نہج پر لوٹ آئیں، جو رسول اللہ ﷺ نے انہیں دیا تھا اورجسے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے عملاً بتاکران تک پہنچایا تھا اورجس کا خلاصہ اوپرلکھی گئی تین باتیں ہیں یہ اصولی طریق ِکار تعقلیت (Rationalisation)کہلاتا ہے،ریشنلائزیشن وہ عمل ہے جس سے ان کے نزدیک ریشنلزم (Rationalism)کا قیام مقصود ہے،ریشنلزم کامفہوم ہے عقل کو مذہب میں آخری فیصلہ کرنے والا قرار دینا اوران تمام نظریات کا رد کرنا، جو عقل سے مطابقت نہیں رکھتے،ریشنلائزیشن کی تین شاخیں مشہورہیں یعنی تین ایسے طریقے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہیں ،لیکن اصول کے اعتبار سے ایک یعنی عقل پر مبنی ہیں یہ تین طریقے درج ذیل ہیں۔

            ۱۔ سیکولرائزیشن (Secularisation)

            ۲۔ ڈیموکریٹائزیشن (Democratisation)

            ۳۔ کمرشلائزیشن (Commercialisation)

            گزشتہ پانچ سوسال سے یورپ میں ان مقاصد کے حصول کے لئے، بلا مبالغہ ہزاروں تحریکیں تنظیمیں حلقے اورزاویے مختلف ناموں سے کام کررہے ہیں،ان تینوں اصطلاحوں کا مختصر تعارف یہ ہے۔

            ۱۔ سیکولرائزیشن (Secularisation)سے مراد انسان کے فکر ونظر معاملات، تہذیب، ثقافت اورتمدن کو عقیدہ اوردین سے منقطع کرنا یعنی اسے ریگولر(Regular)یعنی متشرع کے بجائے سیکولر(Secular) بنانا ہے، دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ بنی نوع انسان کو آسمانی ہدایت اورپیغمبرانہ تعلیمات کی پیروی سے ہٹاکر اسے ہمہ قسم کی پابندیوں سے آزاد اورتمام حدود وقیودسے باغی بنادینے کا نام سیکولرائزیشن ہے، آج کل غیر مسلم دنیا اسی سیکرلرازم کا شکار ہوکر جانوروں کی طرح زندگی گزاررہی ہے،پیٹ کی بھوک اورشرمگاہ کی خواہش پوری کرنے کے بعد اسے دنیا ومافیہا سے کوئی سروکار نہیں،عیسائی دنیا تو یہودیوں کی برپا کردہ اس یلغارکے سامنے روندی جاچکی ہے،لے دے کر مسلمان رہ جاتے ہیں جو ابھی تک آسمانی وحی کی بنیاد سے چمٹے ہوئے ہیں، سیکولرائزیشن در اصل ایک وسیع وہمہ جہت عمل کا نام ہے، اس کا نصب العین حقیقی سیکولرازم قائم کرنا ہے جو ریشنلزم (Rationalisation)کی لازمی شرط ہے، ذرا چشم بصیرت سے ان خفیہ دستاویزات کادرج ذیل اقتباس پڑھئے اوراس کی بین السطورپر غورکیجئے۔

            ”عرصہ ہوا پرانے زمانے میں ہم نے سب سے پہلے عوام الناس کے سامنے آزادی، مساوات اوراخوت کے نعرے پیش کئے تھے، بعد کے زمانوں میں اطراف وجوانب کے احمق طوطے ان کی رٹ لگاتے ہوئے اس جال میں پھنستے چلے گئے اوراس کے ساتھ ہی دنیا سے خوشحالی بھی رخصت ہوگئی،یہ خوشحالی تھی فرد کی اصل آزادی جو عوام کے دباؤ سے محفوظ تھی۔

            غیر یہودی مفکرین ان مجر د الفاظ کے معنی کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکے، انہوں نے ان الفاظ کے معانی کے تضاد اورباہمی تعلق پر غورنہیں کیا، وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ مساوات اورآزادی نظام فطرت کے خلاف ہیں، قدرت نے انسانوں کو یکساں صلاحیتیں نہیں دیں، یہ اصول اتنا ہی ناقابل تبدیل ہے؛ جتنا خود یہ اصول کہ قانون قدرت سے انحراف ناممکن ہے۔

            ہمارے بھولے اورنا سمجھ گماشتوں کی وجہ سے جو ہم نے غیر یہودی معاشرے میں پیدا کردیے تھے، آزادی، مساوات اوراخوت کے الفاظ دنیا کے گوشے گوشے میں زبا ں زد خلائق ہوگئے، جوق در جوق لوگ سرگرمی سے ان الفاظ کے جھنڈے تلے آنے لگے اوررفتہ رفتہ یہ الفاظ غیر یہودکی خوشحالی کو گھن کی طرح چاٹ گئے، امن واستحکام رخصت ہوا اورغیریہودی سلطنتوں کی بنیادیں ہل گئیں،جیسا کہ بعد کے صفحات سے معلوم ہوگا اس عمل نے ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کافی مددکی خوشحالی کو گھن کی طر ح چاٹ گئے، امن واستحکام رخصت ہو ااور غیر یہودی سلطنتوں کی بنیاد یں ہل گئیں؛ جیسا کہ بعد کے صفحات سے معلوم ہوگا،اس عمل نے ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کافی مد د کی اورمنجملہ دوسرے فائدوں کے ہمیں ایک شاہ کلید حاصل ہوگئی۔

            جب ہم نے ریاست کے جسم میں آزاد خیالی کا زہرداخل کردیا تو اس کا پوراسیاسی نظام درہم برہم ہوگیا، ملک ایک لا علاج مرض میں مبتلا ہوگیا، زہراس کے خون میں سرایت کرگیا اب صرف یہ باقی رہ جاتا ہے کہ اسے سسکنے کیلئے چھوڑدیا جائے اوراس کی موت کا انتظار کیاجائے۔

            یہ سوچ دنیا کو کس نے دی؟سیکولر ذہنیت کا منبع کیاہے؟ اور ایک مخصوص مدت کے بعد یہ نعرے خود بخود کس طرح ختم کردیئے جائیں گے، آزاد خیا لوں(Libarals) اقوال یعنی ”آزادی ”اور اخو ت عملا ہمارے فری میسن (Freemasion) ہی کے دیئے ہوئے نعرے ہیں، جب ہم اپنی بادشاہت قائم کریں گے تو ان نعروں کی اتنی قلب ِماہیت کردیں گے کہ یہ ہمارے نعرے نہیں رہیں گے، اس کے بجائے یہ صرف خیالی تصور(Idealism)کا ذریعہ اظہار رہ جائیں گے یعنی ان کے معنی بدل کر ”آزادی کا حق“”مساوات کا فرض“اوراخوت کاتصور“رہ جائیں گے، یہ ہیں وہ معنیٰ جو ہم ان الفاظ کو دیں گے اوراس طرح ہم ان نظریات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں گے۔

            یہ آزادخیالی کے ذریعہ کس طرح مذہب سے بیزار اورروحانیت سے برگشتہ کیاجاتا ہے، اس کا طریق کار بھی اسی خفیہ کتاب سے پتہ چلتا ہے، درج ذیل اقتباس پر نگاہ بصیرت ڈالئے ”اس خیال کے پیش نظر کہ غیر یہودی ادارے مقررہ وقت آنے سے پہلے ہی نیست ونابود نہ ہوجائیں ،ہم نے اس کا بندو بست بڑی عیاری اورنفاست سے کیا ہے، ہم نے ان کمانیوں پر قبضہ کیا ہوا ہے جو اس مشین کو چلاتی ہیں یہ کمانیاں انتظامیہ کی مشین میں انتہائی حساس مقامات پر واقع ہیں۔ ہم نے وہاں آزاد خیالی کے نام پر افراتفری پھیلانے والوں کو بٹھایا ہوا ہے، ہمارے ہاتھ قانون نافذکرنے والے اداروں میں موجود ہیں،انتخابات کرانے والے اداروں میں موجود ہیں، پریس میں ہیں، انسانی حقوق کے علمبردار اداروں میں ہیں، خصوصیت کے ساتھ تعلیمی اورتربیتی اداروں میں ہیں ،جو آزاد وجود کاسنگ ِبنیاد ہیں، ہم ان خو د ساختہ نظریات اورمسالک کی تعلیم وترویج کے ذریعہ جن کے متعلق ہم خود جانتے ہیں کہ یہ غلط ہیں غیر یہود کے نوجوان طبقے کو ورغلاکراخلاقی طورپر کنگال اورذہنی طورپر پراگندہ کرچکے ہیں۔

            آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر غیر یہود کو معینہ وقت سے پہلے اس کا علم ہوجائے تو یہ ہوشیار ہوکر ہمارے خلاف شمشیر بکف صف بستہ ہوجائیں گے، اس متوقع خطرے کی ہم پہلے ہی پیش بندی کرچکے ہیں اوریہ منصوبہ اتنا خوفناک ہے کہ اسے سن کر بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہوجائے گا، زیر زمین خفیہ تنظیمیں ایسی بارودوی سرنگیں ہیں جومعینہ وقت آنے سے پہلے ہی تمام دارالحکومتوں کے نیچے بچھی ہوئی ہوں گی اورایسے دھماکے سے پھٹیں گی کہ ان کے سارے ادارے معہ ان کی یادداشتوں کے محافظ خانوں کے اپنے ساتھ اڑادیں گی۔

کمرشلائزیشن کیاہے؟

            کمرشلائزیشن کا مطلب ہے تمام انسانی زندگی اوراس زندگی کی تگ ودو کو مادیت میں محدود کردینا اورتمام مادی اشیاء خدمات بات ؛حتی کہ فطری خواہشات کو خالص مادی پیمانے کے اعتبار سے قابل تبادلہ بنانا یعنی بیع وشرا کے دائرے میں لانا، اس کے تحت ہر چیز خدمت جذبہ اورفطرت مادی اشیاء کی طرح مال ہوجاتی ہے اورقابل قیمت ٹھہرتی ہے؛ لہٰذا قابل بیع وشراہوکر قابل تبادلہ ہوجاتی ہے۔ کمر شلائزیشن کی انتہا یہ ہے کہ دنیا میں کوئی شئی خدمت ِجذبہ اورفطرت ایسی باقی نہ رہے، جو مال کی طرح قیمت نہ رکھتی ہو اورقابل ِتبادلہ بصورت بیع وشرا نہ ہو،کمرشلائزیشن کاہدف ہے دنیا میں پائے جانے والے تمام مادی غیر مادی انسانی وسائل بشمول حیاتیاتی وجماداتی وسائل پر یہودیوں کی اجارہ داری قائم کرنا اورساری دنیا کو اپنا دائمی غلام بنالینا ۔کمرشلائزیشن کے لئے ہزاروں طریقے روبہ عمل لائے گئے ہیں، اقوام متحدہ کی ساری کارروائیاں سلامتی کونسل کے فیصلے اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیمیں عالمی مالی اورعالمی بینک کی کارروائیاں، دیگر بین الاقوامی ادارہ جات، اسلحوں کی خفیہ کا رروائیاں، خاندانی منصوبہ بندی کی کوششیں،ماحولیاتی تحریکیں،اسقاط ِحمل کو قانونی قراردینا، سب کی سب کمرشلائزیشن کی ذیلی شاخیں ہیں ؛حتی کہ یو تھنیریعنی اپنے پسند سے اپنی موت کا فیصلہ کرنا اورمیڈیکل سائنس کے وہ تمام تجربے اور ایجادات کی کوششیں، جس میں انسانی جسم کی ہر چیز قابلِ استعمال اورقابل بیع وشرا ہو اسی کا حصہ ہے، چنانچہ فیملی پلاننگ اسقاطِ حمل کو قانونی بناناکے تجربات (جس کے تحت انسانی اعضاء مصنوعی طورپرتیار کرنے کے تجربات ہورہے ہیں حتی کہ مصنوعی جاندار بنانے کے تجربات ہورہے ہیں اوراب تو کلوننگ کے ذریعہ ہم شکل انسان پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہیں در اصل اس کمرشلائزیشن کی انتہائی منزل پرپہنچنے کی کوشش ہے ؛جہاں یہودی ایک عالمگیرطاقت کے اعتبارسے اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ کتنے لوگوں کو زندہ رہنا چاہیے اورکتنوں کو نہیں۔ساتھ ہی ساتھ یہودیوں کے علاوہ دیگرانسانی آبادی کے سلسلے میں ان کا منشاء وہی ہے، جو سامان اورآلہ جات کے بارے میں ہے یعنی اگر کسی وقت ِخاص میں انسانی وسائل کی زیادہ ضرورت ہے، تو اتنے انسان پیدا کرلئے جائیں اورجب ضرورت نہ ہو تو انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ٹیسٹ ٹیوب بے بی،کلوننگ اورمرغبانی کے مراکزمیں جو تجربات ہورہے ہیں (یعنی مثلاً وہ کسی دن ایک لاکھ چوزے نکالتے ہیں، اگر پچاس ہزار بک سکے تو بقیہ پچاس ہزار کو برقی چولہوں میں جلا ڈالتے ہیں، اس لئے کہ پچاس ہزار کو ایک دن پالنا دوسرے دن نئے پچاس ہزار پیدا کرنے کے مقابلے میں مہنگاہوتا ہے)اسی کمرشلائزیشن کا حصہ ہے۔

سیکولرائزیشن سے تحفظ کے کام:

            لوگوں کا فرض ہے کہ جب اصل حقیقت معلوم ہوجائے تو لوگوں کے سامنے ان کی حقیقت واضح کرے۔ ان کے پوشیدہ راز آشکار کرنے کی پوری کوشش کرے، انسانیت کے خلاف یہودیوں کے خفیہ منصوبوں کو ظاہر کردے؛ تاکہ ان کی رسوائی ہو اور ان کے کام ضائع ہوجائیں۔ مسلمان کو چاہئے کہ دینی اور دنیوی امور میں اپنے معاونین کی تلاش میں احتیاط سے کام لے ۔دوستوں کے انتخاب میں دوراندیش ہو؛ تاکہ دل کش پروپیگنڈے اور بظاہر شیریں الفاظ کے برے انجام سے محفوظ رہے اور مشرکوں کے جال میں نہ پھنس جائے ،ان کے اس پھندے میں نہ آجائے جو انہوں نے سادہ لوح‘ کم عقل اور خواہش پرستوں کے لئے لگا رکھا ہے۔

            اللہ اس دجالی فتنہ سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے اس لیے کہ اس قسم کے دجالی حربے اسلام کے دشمن، ازل سے استعمال کرکے اسلام کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

            امت مسلمہ کے نام قرآن عظیم کا یہ پیغام ہے کہ” ولن ترضیٰ عنک الیہود و لن النصاریٰ حتی تتبع ملتہم“۔اور تم سے نہ تو یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ عیسائی؛ یہاں تک کہ تم ان کی ملت (تجویز کردہ نظام یعنی عالمی صیہونی حکومت کے قیام) کی پیروی اختیار نہ کرلو۔ (اے حبیب مکرم) فرما دیجئے کہ حقیقت میں اللہ کی (عطاکردہ) ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے اور اگر تم اپنے پاس علم (قران وحی الٰہی پر مبنی ہدایت) کے آجانے کے بعد بھی ان کی خواہشات (غیر مسلموں کی ہدایات) پر چلو گے تو تمہیں (عذاب) خدا سے بچانے والا نہ کوئی دوست (میسر) ہوگا اور نہ کوئی تمہارا مددگار ہوگا (جو تمہیں تباہی سے نکال سکے)۔

(تحریر مصنف ڈاکٹر ابوبکر جواد)

سیکولرزم(Secularism)

             سیکولرزم کے مفاہیم انسان کی فکری تاریخ خصوصاً یونانی مفکرین کی تعلیمات کا حصہ رہے ہیں، تا ہم کہا جاسکتا ہے کہ اس نام کے بغیر اس کی ابتدا سولہویں صدی کے انگلستان میں اس وقت ہوئی، جب وہاں سیاسی اقتدار مذہبی حلقوں سے سیاسی حلقوں کو منتقل ہوا اور فیصلے مذہبی عدالتوں کی بجائے سول عدالتوں میں ہونے لگے۔ تاہم اس تحریک کی ابتداء اس نام سے انیسویں صدی کے وسط میں انگلستان میں ہوئی۔ اس کا بانی جارج جیکب ہولیوک (Holyoake) تھا جو ۱۸۱۷ء میں برمنگھم میں پیدا ہوا۔۸۴۱ ۱ء میں جب اس کا یقین خدا پر سے اٹھ چکا تھا، اسے مذہبی تعلیمات کی تو ہین کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا۔ وہ چوں کہ اسے نا انصافی گردانتا تھا اس لیے اس وقت کے مذہبی، سیاسی اور اخلاقی نظام کے خلاف اس کے دل میں کدورت پیدا ہو گئی۔ اس کے ساتھیوں میں سے چارلس ساؤتھ ویل، براڈلے،چارلس واٹ وغیرہ معروف ملحد تھے، لیکن ہو لیوک سیکولرزم اور الحاد کو مترادف نہ گرداننے پر اصرار کرتا تھا(۱) تا کہ مذہب کے ماننے والوں میں سے آزاد خیال لوگ اس کی تحریک میں شامل ہو سکیں۔

            سیکولرزم کا فلسفہ یہ ہے کہ موجودہ دنیوی زندگی اور اس کی بہتری اور خوش حالی ہی ہمارا مطمحِ نظر ہونا چاہیے۔ آخرت کی زندگی سے ہمیں کوئی سروکار نہیں کیوں کہ وہ ہمارے تجربے میں نہیں آئی۔ خدا اور مذہب اگر موجودہ زندگی کی خوشی اور خوش حالی پر منفی طور پر اثر انداز نہیں ہوتے تو ہمیں ان سے بھی کوئی سروکار نہیں۔

             G.J.Holyoake, Sixty Years of an Agitatator’s Life. vol.2,P-111 (۱)

             ہمارا مقصد یہ ہے کہ انسان کو ہر طرح کی مکمل آزادی ہونی چاہیے کہ وہ اس دنیا کی زندگی کے مسائل حل کر سکے اور اپنی مرضی اور خوشی سے جیسے چاہے جی سکے(۲)۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ مذہب کو موجودہ دنیوی زندگی اور اس کے مختلف شعبوں (سیاست، معیشت، معاشرت، قانون، تعلیم وغیرہ) میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور نہ اجتماعی زندگی کے ان شعبوں میں مذہبی تعلیمات کا کوئی کردار ہونا چاہیے۔ اپنی انفرادی زندگی میں اگر کوئی فرد اللہ یا آخرت کو مانتا ہے تو اس پر ہمیں اعتراض نہیں(۳)۔

            ظاہر ہے کہ یہ نقطہٴ نظر مذہب کی نفی کرتا ہے کیوں کہ ہر مذہب اللہ اور آخرت کے تصور پر موجودہ زندگی کی تنظیم کرتا ہے۔ اس طرح سیکولرزم نے بالواسطہ طور پر نہ صرف روایتی مذہب کی نفی کی ہے بل کہ خود عملاً اس کی جگہ لے لی ہے(۴)۔ اس نے مذہب کے دائرہ کار کو محدودکرنے اور اسے غیر مؤثر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

            سیکولرزم کا مطلب ہی یہ ہے کہ اللہ کا اقتدار مطلق اور لامحدود نہیں ہے۔ مغرب کا انسان دنیا کی زندگی اللہ کی مرضی کے مطابق نہیں بل کہ اپنی مرضی سے گزارنا چاہتا ہے گویا دنیا کی زندگی میں وہ خود اپنا اللہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رویہ نہ صرف اللہ اور وحی کی برتری کی نفی اور مذہب سے انکار کے مترادف ہے بلکہ یہ انسان کی اپنی خدائی والو ہیت کا اعلان بھی ہے۔ (۵)

            یورپ میں جب ہیومنزم کا نظریہ ابھرا تو اس سے یورپی معاشرے میں ارتعاش پیدا ہوا کیوں کہ عیسائیت جیسی کیسی بھی تھی، بہر حال صدیوں سے اُن کے معاشرے میں مروج تھی اور اُس کی جڑیں انسانی نفسیات میں گہری تھیں، لہٰذا مذہب سے متاثر حلقوں نے ہیومنزم کی مخالفت شروع کر دی۔

             ہیومنزم کے حامی مفکرین نے اس مشکل سے عہدہ برآ ہونے کا یہ حل نکالا کہ سیکولرزم کا نظریہ پیش کر دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم کسی شخص کو عیسائی ہونے اور رہنے سے اور انفرادی زندگی میں اسے مذہبی مراسم ادا کرنے سے نہیں روکتے لیکن معاشرے اور ریاست کی اجتماعی زندگی میں مذہب کا کوئی عمل دخل بہر حال نہیں ہونا چاہیے۔

(۲)محمد عطاء اللہ صدیقی، سیکولرزم کا سرطان در ماہنامہ محدث، لاہور شمارہ جولائی اگست ستمبر۰۰۰ ۲، ص: ۴۴،۵۳،۶۶،ومابعد۔

            (۳)211ff R.Flint. Anti – Theistic Theories, P-

 John Summerville. The Secularization of Early Modern England, P-8 (۴)

 Encyclopaedia of Religion and Ethics,s.v. Secularisim, vol.11,P-347(۵)

            سیکولرزم کا لفظ دینی، مذہبی، روحانی (انگریزی میں Religious, Spiritual Sacred Transcendental) سے متضاد ہے۔ مطلب یہ کہ فرد کی ذاتی زندگی اور مذہبی امور میں، یعنی وہ امور جو انسان اور خدا کے درمیان تعلق سے بحث کرتے ہیں، ان میں تو خدا اور مذہب کی پیروی کی جاسکتی ہے؛ جیسے اللہ کی عبادت کرنا یا اس سے دعا مانگنا لیکن جو دنیوی امور ہیں، یعنی جن کا تعلق انسانوں کے مابین تعلقات سے ہے؛ جیسے انسانوں کی اجتماعی زندگی یا معاشرے وریاست کے مسائل، تو ان میں خدا یا مذہب کی پیروی نہیں کی جائے گی۔

سیکولرزم کا خلافِ اسلام ہونا تین دلائل سے واضح ہے:

            ایک یہ کہ سیکولر کے معنی دنیاوی امور کے ہیں، برعکس مذہبی، دینی اور روحانی امور کے؛ جب کہ اسلام میں دین و دنیا کی کوئی تفریق سرے سے موجود ہی نہیں؛ کیوں کہ اسلام نام ہے اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت کا جو ہمیں دنیوی زندگی ،اس کی رضا اور تعلیمات کے مطابق گزار نے کا علم دیتی ہے؛ لہٰذا دنیا کی زندگی کے سارے اعمال عین دینی کام ہیں؛ بشرطیکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق کیے جائیں؛ لہٰذا اسلام میں کوئی عمل ان معنوں میں سیکولر ہوتا ہی نہیں کہ وہ حقیر، برا اور قابل ِمذمت ہو؛ بل کہ اسلام کی رو سے دنیا کا ہر کام دینی کام ہے؛ بشرطیکہ اللہ کی ہدایت کے مطابق کیا جائے۔

            دوسرے سیکولرزم کے مغربی تصور کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ یہ اختیار انسان کا ہے کہ وہ جہاں چاہے خدا کی بات مانے اور جہاں چاہے نہ مانے۔ گویا زمین میں اصل بادشاہی، اختیار اور حاکمیت انسان کی ہے نہ کہ خدا کی؛ جب کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ وہ انسان کو عبد قرار دیتا ہے، یعنی خدا کے مقابلے میں اس کی ہستی پیچ اور کمترین ہے۔ اور ”اسلام“ کا لغوی اور اصطلاحی مطلب ہی اللہ تعالیٰ کی غیر مشروط اور غیر محدود عبادت اور اطاعت ہے۔ اسی لیے قرآن کہتا ہے کہ”ادْخُلُوا فِی السّلْمِ کَآفَةً“۔(البقرة۲۰۸) اور اس چیز کی مذمت کرتا ہے کہ اللہ کے بعض احکام کو مانا اور بعض کو نہ مانا جائے۔ یہ رویہ اللہ کے نزدیک مردود اور ناقابل ِقبول ہے اور اسے اپنانے والا مستحق عذاب ہے۔( الصف:۲،۳ اور النساء: ۱۴۵)یہی وجہ ہے کہ اسلام میں دینی و دنیاوی امور کی کوئی تفریق نہیں۔

            سیکولرزم کے مغربی تصور کے غیر اسلامی ہونے کی تیسری دلیل یہ ہے کہ اسلام میں اللہ کے کسی ایک حکم کا انکار ہدایت کے سارے پیکج کا انکار ہے؛ جیسے ایک نبی کا انکار سارے انبیاء کے انکار کے مترادف ہے؛ یہی وجہ ہے کہ مسلمان سارے انبیائے سابقہ پر ایمان لاتے اور انہیں پیغمبر مانتے ہیں؛ اسی وجہ سے مسلمان قادیانیوں کو مسلمان نہیں مانتے؛ حالاں کہ وہ خدا، رسول، قرآن اور دین کے دیگر سارے احکام کو مانتے ہیں، سوائے ختم ِنبوت کے اور اسی وجہ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زکوٰة نہ دینے والوں کے خلاف جہاد کیا تھا؛ حالاں کہ وہ خدا، رسول، آخرت اور قرآن سب کو مانتے تھے، نماز پڑھتے تھے اور حج کرتے تھے، لیکن حضرت ابوبکر نے فرمایا جو ایک حکم الٰہی کا انکار کرتا ہے، وہ گویا سارے احکام کا انکار کرتا ہے۔ اس لیے وہ مسلمان نہیں ہے۔

لبرل ازم(Liberalism)

            لبرل ازم کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو لامحدود آزادی حاصل ہے۔ ہیومنزم اور سیکولرزم کالازمی نتیجہ لبرل ازم ہے یعنی جب انسان یہ کہے کہ وہ کسی خدا کا عبد نہیں ہے؛ بلکہ وہ خود مختار ہے اور جب وہ یہ کہے کہ اس کی مرضی ہے کہ جہاں جس بات میں چاہے وہاں اللہ کی مانے اور جہاں چاہے نہ مانے تو اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلے گا کہ وہ آزاد ہے، جو چاہے سوچے اور جو چاہے کرے۔ اس رویے کا خلافِ اسلام ہونا بالکل واضح ہے؛ کیوں کہ اسلام کا تو لغوی اور اصطلاحی معنی ہی یہ ہے کہ اپنی آزاد مرضی سے اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی کے بلا شروط وبلا حدود کلی طور پر اس کے تابع کر دینا اور اللہ کی کبریائی کو تسلیم کرتے ہوئے ،خود کو اس کا عبد قرار دینا۔ اسلامی روایت اور اردو محاورے میں لبرلزم کا مطلب ہے مادر پدر آزادی یعنی انسان ،جو چاہے کرے اُسے کوئی پوچھنے والا نہیں اور وہ کسی کو جواب دہ نہیں؛ چناں چہ ایسی غیر محدود آزادی کی وجہ سے مغرب میں ہر مرد اور عورت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ باہمی رضا مندی سے جب اور جس سے چاہیں جنسی لطف حاصل کریں۔ وہ بغیر نکاح کیے اکھٹے رہ سکتے ہیں، زندگی گزار سکتے ہیں اور بچے پیدا کر سکتے ہیں۔ عورت مرد کو طلاق دے سکتی ہے۔ عورت چاہے تو عورت کے ساتھ اور مرد چاہے تو مرد کے ساتھ اکٹھے رہ سکتا ہے اور نکاح کر سکتا ہے۔

            فرد کی لامحدود آزادی کے اثرات مغرب میں زندگی کے ہر شعبے میں دیکھے جاسکتے ہیں مثلاً فرد آزاد ہے کہ وہ چاہے تو کسی مذہب یا دین کو مانے یا نہ مانے۔ اس کی مرضی ہے چاہے تو چرچ جائے نہ چاہے تو نہ جائے۔ چاہے تو لباس پہنے نہ چاہے تو نہ پہنے۔ مغرب میں ننگوں کے کلب عام بنے ہوئے ہیں ،جن کا ہر رکن، خواہ مرد ہو یا عورت، جب تک کلب میں رہے لباس نہیں پہنتا۔ بعض عورتیں اور مرد بغیر لباس کے سڑک پر آجاتے ہیں۔ وہ بازاروں میں چلتے پھرتے ایک دوسرے کے گلے لگتے اور بوس و کنار کرتے ہیں اور کوئی کسی کو نہیں ٹوک سکتا۔ ہر مرد و عورت کو شراب پینے، جوا کھیلنے اور باہمی رضا مندی سے زنا کرنے کی آزادی ہے۔ یہ آزادی فرد سے اجتماعیت کو منتقل ہوتی ہے اور جس طرح فرد اپنے ہر معاملے میں آزاد ہے اور کسی خدا، رسول، وحی کا پابند نہیں اسی طرح آزاد افراد کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے پارلیمنٹ بھی آزاد اور مکمل پاور فل ہوتی ہے اور وہ جو قانون چاہے بنا سکتی ہے۔ حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دے سکتی ہے؛ چناں چہ عملاً مغربی ممالک نے شراب، جوا، زنا، لواطت اور ہم جنس پرستی کو حلال قرار دے رکھا ہے۔

            مغرب میں اس لا محدود آزادی (Unlimited Freedom) کو قانونی تحفظ حاصل ہے؛ چناں چہ مغربی ممالک نے اقوام ِمتحدہ میں بنیادی انسانی حقوق کا ایک چارٹر منظور کر رکھا ہے، جس پر ساری دنیا کے ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں (بشمول تمام مسلم ممالک کے) ،جس کی رو سے ہر فرد آزاد ہے کہ جو مذہب چاہے اختیار کرے اور جب چاہے بدل لے، جس مذہب کے فرد سے چاہے شادی کرلے وغیرہ وغیرہ۔ اور چوں کہ مغربی فکر و تہذیب اس وقت دنیا پر غالب ہے اور اس تہذیب کو ماننے والے مغربی ممالک ہی دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور ہیں؛ لہٰذا کسی ملک کی آزادی کو اقوامِ متحدہ اور یہ مغربی ممالک اس وقت تک تسلیم ہی نہیں کرتے اور اسے آزاد ملک قرار ہی نہیں دیتے ،جب تک اس کے دستور و آئین میں یہ بنیادی حقوق موجود نہ ہوں؛ چناں چہ اقوام ِمتحدہ اور مغربی ممالک (اور ان کے دباؤ میں آکر دنیا کے تمام دوسرے ممالک نے بھی) افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا (سوائے پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے) اس کے باوجود کہ سارے افغانستان پر ان کا قبضہ تھا اور وہ اچھے طریقے سے سارے ملک پر حکومت کر رہے تھے۔ ظاہر ہے لا محدود آزادی کا یہ تصور صریحاً غیر اسلامی ہے؛ کیوں کہ اسلام میں تو انسان اللہ کا عبدہوتاہے، وہ آزاد ہوتا ہی نہیں اور قرآن ِحکیم میں اللہ تعالیٰ نے صاف فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو پیدا ہی عبودیت (ایک اللہ کی پرستش و اطاعت) کے لیے کیا ہے۔(الذاریات:۵۶)

            اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر انسان مکلف ہوتا ہے یعنی ذمہ دار اور جواب دہ (الا یہ کہ وہ نا بالغ بچہ ہو یا فاتر العقل مریض ہو یا سویا ہوا ہو)۔ (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: ۲۰۴۱)

            اسلام کا لفظی مطلب تسلیم ورضا اور اطاعت و فرمانبرداری ہے اور مسلم کہتے ہی اس فرد کو ہیں جو اپنی آزاد مرضی سے اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی کے تابع کر دے، بلا حدود و بلا شروط، لہٰذا کوئی مسلمان مکمل آزاد ہو ہی نہیں سکتا۔ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مومن کی مثال ایک گھوڑے سے دی ہے، جو کھونٹے کے ساتھ رسی سے بندھا ہو، لہٰذا وہ اتنا ہی آزاد ہوتا ہے جتنی رسی لمبی ہوتی ہے، اس کے بعد اس کی آزادی ختم ہو جاتی ہے۔ اسی لیے مغرب کی آزادی کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا کہ 

 آزادیٴ افکار ہے ابلیس کی ایجاد

            کیوں کہ مومن تو مادر پدر آزاد نہیں ہوتا،اور ہوبھی نہیں سکتا وہ تو بخوشی ان پابندیوں کو قبول کرتا ہے، جو اللہ ورسول نے اس پر لگائی ہیں؛ کیوں کہ اسلام میں آخرت کا تصور ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک اور عالم آنے والا ہے، جس میں انسان کو دنیا میں اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہے کہ اس نے دنیا کی زندگی اللہ کی مرضی کے مطابق گزاری یا نہیں؟ اسی وجہ سے اقبال نے کہا کہ

 محمد کی غلامی ہے سند آزاد ہونے کی

 خدا کے دامنِ توحید میں آباد ہونے کی

             خلاصہ یہ کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے کوئی مسلمان مغربی لبرل ازم کے معنوں میں لبرل ہو ہی نہیں سکتا اور نہ مسلم معاشرہ اور مسلم ریاست مغربی لبرل ازم کے معنوں میں لبرل ہو سکتی ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مغربی لبرل ازم خلاف اسلام ہے، یہ کفر کو مستلزم ہے بلکہ صریح کفر ہے اور کوئی مسلمان جب تک وہ مسلمان ہونے کا مدعی ہے، لبرل نہیں ہو سکتا۔

            یہ بھی واضح رہے کہ ہم لبرل ازم کے اپنے پاس سے کوئی معنی وضع نہیں کر سکتے؛ کیوں کہ لبرل ازم مغرب کی اصطلاح ہے اور اس کے معنی و مفہوم وہی بتائیں گے، جن کی یہ اصطلاح ہے، نہ کہ ہم اپنی مرضی سے اس کے معنی و مفہوم کا تعین کر لیں۔

میٹریلزم(Materialism)

            مادہ پرستی کی اصطلاح اُردو میں بھی عام مستعمل ہے اور اس کا مفہوم مذہبی و اخلاقی تعلیمات (جو آخرت اور اعلیٰ انسانی اقدار پر زور دیتی ہیں) کے مقابلے میں یا ان کے علی الرغم دنیوی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھنا اور اسے ترجیح دینا ہوتا ہے؛ چناں چہ علمی اردو لغت میں مادہ پرست کے معنی لکھے ہیں ”مادے کو سب کچھ سمجھنے والا، دہر یہ خدا کا منکر(وارث سرہندی علمی اردولغت، بذیل ”مادہ پرست“، ص:۱۳۲۲)

             مادہ پرستی کا نظریہ شروع ہی سے مذہبی نقطہٴ نظر کے برعکس اور بالمقابل سمجھا جاتا رہا ہے؛ چناں چہ یونانیوں کے ہاں مادہ پرستی کے مفاہیم میں یہ عناصر شامل تھے:

            (ا) مادہ از لی اور غیر فانی ہے۔

            (۲) عالم میں کوئی ذہن یا شعور کارفرما نہیں ہے یعنی اس پر کوئی یزدانی قوت متصرف نہیں ہے۔

            (۳)عالم میں کوئی مقصد اور غایت نہیں ہے۔

            مغرب میں تحریک نشاةِ ثانیہ کی ابتداء میں چوں کہ پاپائیت نے فکری آزادی کی مخالفت کی؛ لہٰذا سائنسدانوں کو مذہب کوردّ کرنا پڑا اور مادہ پرستی کی طرف آنا پڑا۔ تھامس ہو بز (۱۶۷۹ء) نے مکمل مادیت کا ابلاغ کیا۔ اس کی رائے میں انسان سمیت کا ئنات کی ہر شے مادی ہے۔ وہ حسیات کے سوا کسی چیز کو علم کا ماخذ تسلیم نہیں کرتا، اس نے روح کے وجود سے انکار کیا اور مذہب کو غیر مرئی فرضی قوتوں کی دہشت قرار دیا۔ وہ قدر و اختیار کا بھی منکر تھا۔(L. Zusne, Names in the History of Psychology, P-23)

            تا ہم جدید مادیت پسندی کا بانی ڈیکارٹ (۱۶۵۰ء) کو سمجھا جاتا ہے، جو ذہن اور مادے کو مستقل بالذات مانتا ہے۔ اس کے نزد یک حیوانات کا جسم ایک خود کار مشین کی مانند ہے اور جسمانی لحاظ سے انسان بھی حیوان ہی کی طرح کی ایک مشین ہے۔

             اٹھارویں صدی میں سائنس کی ہمہ گیر ترقی نے عقلیت پسندی کو جنم دیا۔ فرانسیسی مادہ پرست قاموسیوں (Encyclopaedians) نے وحی کے بغیر ہیومنزم کی بنیاد پر ایک مذہب مرتب کرنے کی کوشش کی۔ لامتری نے انسانی قلب و ذہن کے تمام اعمال کو میکانکی قرار دیتے ہوئے اسے دیگر حیوانوں کی طرح ایک حیوان قرار دیا۔ ہولباخ نے اس مادی نظریے کو ایک باقاعدہ مابعد الطبیعیات کی شکل دی۔ اس نے روح کے وجود سے انکار کیا اور مادے کو غیر فانی قرار دیا۔ اس نے کہا کہ فطرت چند اٹل قوانین کے تحت کام کر رہی ہے، جن میں کوئی مقصدیت پنہاں نہیں۔ برٹرینڈ رسل نے اٹھارویں صدی کے مادی نقطہٴ نظر کا خلاصہ تین نکات کی صورت میں پیش کیا ہے:

            (۱)حقائق مشاہدے پر مبنی ہونے چاہئیں ،نہ کہ ایسی سند پر جو عقیدے کے تحکم پر بنی ہو۔

            (۲) مادی دنیا ایک ایسا نظام ہے جو خود کار ہے اور جس میں تمام تغیرات طبیعی قوانین کے تحت ہوتے ہیں۔

            (۳) کرہٴ ارض کا ئنات کا مرکز نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی مقصد و معنی ہے۔

(B. Russell, History of Western Philosophy, P-387)

            انیسویں صدی میں ہیگل اور ڈارون نے مادی نقطہ نگاہ کو مزید آگے بڑھایا۔ ہیگل نے کہا نیچر وہ ہے جس کا ادراک ہم حواسِ خمسہ سے کرتے ہیں، نیز اس نے شعور و ذہن کی تشریح عضویاتی پہلو سے کی۔ ڈارون نے حیاتیات کے مطالعے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انسان حیوان ہی سے ارتقاء پذیر ہوا ہے۔ سپنسر نے کہا کہ انسان سمیت سب ذی حیات پر طبیعی قوانین کا اطلاق ہونا چاہیے۔

            بیسویں صدی میں اگر چہ مادہ بحیثیت ایک شے کے غائب ہو گیا جب شرا ڈنگر، پلانک اور ہائزن برگ نے نظریہٴ مقادیر عنصری پیش کرتے ہوئے یہ کہا کہ مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ آئن سٹائن کی تحقیقات اور نظریہٴ اضافت نے ثابت کر دیا کہ مادہ ٹھوس نہیں ہے۔ اس طرح زمان و مکان کے قدیم تصورات تحلیل ہو گئے، لیکن بایں ہمہ مادہ پرستی کی روح (جس کا خلاصہ خدا کی خدائی کی نفی اور اس کی جگہ فطرت کو فعال ماننا، وحی کی برتری کا بطلان اور حسی علم کو اس کی جگہ دینا، حیوانات کے قوانین کا اطلاق انسان پر کرنا اور آخرت کے مقابلے میں دنیا اور مظاہر دنیا کو ترجیح دینا وغیرہ) مغرب کے فکر وعمل میں ہر سو جاری ہے۔

            ظاہر ہے مغربی فکر و تہذیب کی یہ مادہ پرستی خلافِ اسلام ہے۔ اسلام انسان کے مادی وجود اور اس کی احتیاجات اور مقتضیات کی نفی نہیں کرتا، لیکن ساتھ ہی اسے ایک اخلاقی وجود قرار دیتا ہے، جس کے اپنے تقاضے ہیں مثلاً :قرآن حکیم نے صرف سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے (البقرة:۱۸۳)اور مریض و مسافر کو استثنٰی د یا۔(البقرة:۱۸۴) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مسلسل روزے رکھنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا(صحیح بخاری، رقم الحدیث: ۵۰۶۳)اور فرمایا کہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے (صحیح بخاری، رقم الحدیث: ۱۹۶۸)۔ چناں چہ اسلام نفس کشی کی اجازت نہیں دیتا بلکہ تہذیبِ نفس کا قاتل ہے، اس لیے بعض صحابہ نے خصی ہونے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت نہیں دی۔(صحیح بخاری، رقم الحدیث: ۵۰۷۱)

             حضرت عثمان بن مظعون اور ان کے ساتھیوں کا واقعہ بھی مشہور ہے، جس میں انہوں نے حضرت عائشہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عبادت کے معمولات پوچھے، تو انہوں نے انہیں کمسمجھا کہ آپ تو معصوم عن الخطا تھے اور پھر ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ ساری رات عبادت کیا کرے گا۔ دوسرے نے کہا کہ وہ ہمیشہ روزہ رکھا کرے گا اور تیسرے نے کہا کہ وہ شادی نہیں کرے گا۔ حضرت عائشہ نے یہ باتیں سنیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر لوٹنے پر انہیں بتائیں، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پسند نہ آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے اور ان تینوں اصحاب کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور روزے رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں۔ رات کو سوتا بھی ہوں اور عبادت بھی کرتا ہوں اور میں نے شادیاں بھی کر رکھی ہیں۔

( صحیح بخاری، رقم الحدیث:۵۰۶۳)

            خلاصہ یہ کہ اسلام ایک توازن کے ساتھ انسان کے مادی اور اخلاقی وجود دونوں کے مطالبات پورے کرتا ہے۔

کیپیٹل ازم (Capitalism)

            کیپٹل ازم یعنی مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کی تین سطحیں یا حیثیتیں ہیں:

            ایک تو یہ کہ وہ ایک معاشی نظام ہے۔ معاشی نظام ہونے کی حیثیت میں بھی وہ غیر اسلامی ہے اور غیر عقلی و غیر فطری ہے یعنی خلافِ فطرتِ انسانی ہے۔ کیپٹل ازم کو غیر اسلامی اور غیر فطری وغیر عقلی ثابت کرنا خود ایک بڑا علمی موضوع اور تحقیقی پراجیکٹ ہے۔ اس پر کافی کام ہو چکا لیکن ابھی اس پر مزید علمی کام کی ضرورت ہے؛ بل کہ یہی کام ساری مغربی آئیڈیا لوجی، افکار و نظریات، ورلڈ ویو اور اداروں (جیسے نیشن سٹیٹ، ڈیموکریسی وغیرہ) کے بارے میں کیا جانا چاہیے؛ تاہم ظاہر ہے یہاں محض اس کام کی نشان دہی ہی کی جاسکتی۔

کیپٹل ازم کی بطور ایک معاشی نظام تین اہم خصوصیات ہیں:

            ایک یہ کہ وہ انسان اور محنت کے مقابلے میں سرمائے کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اسی بناء پر وہ سود (ربا) کو جائز ٹھہراتا اور استعمال کرتا ہے اور تیسرے یہ کہ وہ مادر پدر آزادی چاہتا ہے؛ یہاں تک کہ وہ ریاست کی ریگولیٹری / مانیٹرنگ اتھارٹی کو بھی تسلیم نہیں کرتا اور فری مارکیٹ اکانومی کا تصور دیتا ہے۔ معیشت کے یہ تینوں بنیادی اصول اسلام کی اقتصادی تعلیمات اور معاشی نظام کے خلاف بلکہ ان سے متضاد ہیں؛ کیوں کہ اسلام مغرب کی سرمایہ پر مبنی اور اشتراکیت کی محنت پر مبنی انتہا پسندی کے خلاف انسان اور اس کی متوازن اور مبنی بر عدل اجتماعی فلاح کا علمبردار ہے اور اس پر ترکیز کرتے ہوئے سرمائے اور محنت کے متوازن کردار کو اپناتا ہے؛ اسی طرح اسلام سود کی شدید مخالفت کرتا ہے، بل کہ اسے اللہ ورسول کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیتا ہے۔( البقرة:۲۸۹) اور یہ وہ واحد حکم ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ایسے سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ربا کا لازمی نتیجہ ارتکاز ِدولت ہے اور اس کے نتیجے میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے، جس کا مشاہدہ ہم آج اپنی آنکھوں سے کر رہے ہیں کہ اس سرمایہ دارانہ سودی نظام کی وجہ سے امریکہ و یورپ میں دولت کا ارتکاز ہو گیا ہے اور ایشیا و افریقہ کے اکثر ممالک، خصوصاً عالم اسلام، بھوک اورننگ کا شکار ہے، جب کہ اسلام تقسیم دولت کی تعلیم دیتا ہے۔( الحشر:۷) تا کہ معاشرے میں اقتصادی توازن برقرار رہے۔

            اسی طرح اسلام سرمایہ کے کردار پر ریاست و حکومت کی نگرانی کا اصول تسلیم کرتا ہے؛ کیوں کہ اگر اسلامی ریاست سرمائے کے کردار کو کنٹرول نہ کرے تو سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ منافع کے لالچ میں حرص و ہوس اور استحصال کی ہر حد کو پار کر لیتا ہے۔

             نظامِ سرمایہ داری کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ وہ محض معاشی نظام نہیں؛ بلکہ دین و مذہب و اخلاق کے مقابلے میں مادہ پرستی (میٹریل ازم) پر مبنی مکمل دین اور نظام حیات ہے۔ یہ دنیا، دولت اور معاشی ترقی (یعنی دنیا میں زیادہ سے زیادہ آسائشوں اور راحتوں کو یقینی بنانا) کو بنیاد بناتا ہے اور اخروی زندگی اور اس کی کامیابی اور دنیا پر اس کی ترجیح کے اسلامی اصول کو رد کرتا ہے۔ یہ انسان کو”عبد الدرہم والدینار“ بنا دیتا ہے اور اسے حرص وہوس وحسد کے جال میں جکڑ لیتا ہے، جس کی مذمت ہادی برحق ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے علی الاعلان فرمائی ہے۔( جامع ترمذی، رقم الحدیث:۲۳۷۵)اور آخرت کی ترجیح والی زندگی عملاً گزار کر دکھائی ہے کہ وہ کتنی سادہ، توکل، قناعت اور زہد پر مبنی ہوتی ہے، جس کا ہدف آخرت کی کامیابی اور اللہ کی خوشنودی کا حصول ہوتا ہے نہ کہ محض دنیا کی ترقی اور اس میں آسائشوں اور راحتوں کا حصول، راتوں رات امیر بننے کی خواہش، حلال و حرام کی عدم تمیز، معیار زندگی بلند کرنے کی دوڑ (یعنی ہر قیمت پر کار، کوٹھی اور بینک بیلنس کا حصول)، کرپشن، رشوت، چوری، ڈاکے، فراڈ اور بددیانتی مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے غلبے کے مظاہر ہیں۔

            کیپٹل ازم کے جس کردار کی طرف ہم نے سطور بالا میں اشارہ کیا ہے، اس کے بعد ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ مغرب کا نظام ِسرمایہ داری نہ صرف خلافِ اسلام ہے اور اس کی تعلیمات اور اصولوں سے متضاد ہے بل کہ وہ دین اللہ کے مقابلے میں طاغوت اور اسلامی طرز زندگی کے مقابلے میں کفر و جاہلیت پر مبنی نظام حیات ہے کہ مسلمان مادہ پرست (Materialist) ہوہی نہیں سکتا، پھر مغرب کا نظام سرمایہ داری کفر ہی نہیں کفر گر بھی ہے۔ (جیسے بادشاہ کے مقابلے میں بادشاہ گر) اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا کفر اس کے بعد وجود میں آنے والے مغربی افکار و نظریات اور اداروں میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ جمہوریت بظاہر ایک سیاسی نظام ہے، لیکن یہ صرف جمہوریت نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے یعنی جمہوریت کے سیاسی نظام میں سرمایہ دارانہ روح غالب اور فعال ہے۔ جمہوری انتخابات میں وہی فرد اور جماعت جیت سکتی ہے، جو زیادہ سے زیادہ سرمایہ خرچ کر سکتی ہو ؛چناں چہ پارلیمنٹ ہو یا اس کے ذریعے بننے والی حکومت، اس میں سرمایہ دار ہی غالب ہوتے ہیں، اسی طرح مغرب کا ایک معاشرتی نظام ہے، لیکن یہ بھی سرمایہ دارانہ معاشرتی نظام ہے، کیوں کہ اس معاشرے کے خدو خال سرمایہ ہی طے کرتا ہے (مردوں کے علاوہ عورتیں بھی کام کریں، بچے ڈے کیئر سنٹرز میں پلیں، مائیں بچوں کو دودھ نہ پلائیں، والدین اور بچوں میں رابطہ اور محبت کی کمی، بچہ بالغ ہونے پر والدین کی ذمہ داری نہیں۔ بوڑھے اولڈ ایج ہومز میں جائیں، اولاد کا والدین کی خدمت کرنے کا عدم تصور حرامی بچوں اور طلاقوں کی کثرت…. وغیرہ) غرض پوری معاشرتی زندگی پر نظام سرمایہ داری کی گہری چھاپ ہے؛ غرض یہ سمجھنے میں دقت پیش نہیں آنی چاہیے کہ کیپٹل ازم محض ایک معاشی نظام نہیں؛ بل کہ کفر پر مبنی نظام حیات ہے۔

تجربیت(Empiricism)

            مغرب کا تصورِ علم یا فلسفہٴ علم (Epistemology) یہ ہے کہ علم کا منبع عقل اور تجربہ و مشاہدہ ہے۔ ظاہر ہے جب ہیومنزم کی رو سے خدا کا انکار لازمی ٹھہرا اور اُس کے مقابلے میں انسان کی خدائی کا ڈنکا بجایا گیا تو اب علم کا منبع بھی انسان اور اُس کی عقل ہی ٹھہری اور عقل بھی وہ جسے تجربہ اور مشاہدہ کا تڑکا لگایا گیا ہو۔ اب چوں کہ نہ خدا نظر آتا ہے، نہ فرشتے اور نہ آخرت ،لہٰذا نہ صرف اُن کا وجود مشکوک ٹھہرا؛ بل کہ خدا کی طرف سے ملنے والی ہدایت بھی نا قابل توجہ ٹھہری۔ یہی وجہ ہے کہ اہل مغرب مذہبی علم اور عقائد کو ڈاگما (Dogma) یعنی الٰہی تحکم پر مبنی آراء اور تو ہمات سمجھ کر رد کر دیتے ہیں اور حقیقی و حتمی علم کا منبع انسانی عقل اور تجربہ و مشاہدہ کو قرار دیتے ہیں، جن سے حاصل ہونے والا علم قابل تصدیق (Verifiable)ہوتا ہے۔

            گویا تجربیت سے مراد ہے وحی اور عقل سے حاصل ہونے والے علم کے مقابلے میں حسیات سے حاصل ہونے والے علم کو یقینی اور قابل عمل ماننا۔ یہ تقابل شروع ہی سے فکر انسانی میں موجود رہا ہے۔ وحی کی برتری کو ماننے والے اہل مذاہب ہیں، عقل کومنبع ِعلم سمجھنے والے اکثر فلسفی ہیں؛ جب کہ سائنس دان (اور سائنسی منہج پر مبنی دیگر علوم کے ماہرین) حسی علم کو حتمی اور یقینی سمجھتے ہیں۔ یونان قدیم کے سوفسطائی حسیات کو علم انسانی کا ماخذ سمجھتے تھے ؛جب کہ افلاطون اور اس کے ہم خیال یہ سمجھتے تھے کہ عقل بذات خود، حسی تجربے اور مشاہدے کی تصدیق کے بغیر، صداقت کے انکشاف پر قادر ہے۔ رومیوں اور قرون مظلمہ سے گزر کر جب یہ علمی روایت احیائے علوم اور نشاةِ ثانیہ کے دور میں داخل ہوئی تو کائنات کی حقیقت سے متعلق دو نظریے وجود میں آئے: ایک وہ جو افلاطون اور ارسطو کی روایت کی یاد گار تھا اور جس کی رو سے امثال حقیقی ہیں اور دوسرا وہ جس کی رو سے کائنات کی حقیقی اشیاء خاص وہ اشیاء ہیں، جو ہمارے تجربے اور مشاہدے میں آتی ہیں۔ پہلی روایت سے (عیسائی) مذہب نے اپنی تصدیق کا کام لیا اور دوسری روایت نے جدید سائنس کی بنیادیں استوار کیں۔ سائنس میں گلیلیو اور فلسفے میں فرانسس بیکن ان رجحانات کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں۔

            بیکن کے نزدیک علم کا ماخذ حسیات ہیں اور علم صرف انسانی تجربے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس نے فلسفے کو مذہب سے جدا کر کے علم کلام کو بے مصرف اور بے ثمر رجحان قرار دیا۔ تھامس ہو بزنے بھی حسیات ہی کو علم کا ماخذ قرار دیا اور سائنس اور فلسفے کو مذہب (علمِ کلام) سے نجات دلانے کی دعوت دی۔ نیوٹن کی طرح جان لاک بھی تجربے اور مشاہدے سے علمی نتائج اخذ کرنا چاہتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ازلی و ابدی صداقتوں کا کوئی وجود نہیں ہے اور حس ہی ہمارے علم کا ماخذ ہے۔ اس نے ضمیر کے وجود کا بھی انکار کیا اور کہا کہ اخلاقی قوانین جبلی نہیں ہوتے ؛بلکہ حسیات کے واسطے سے حاصل کیے ہوئے علم کی روشنی میں ہم جو رائے (صحیح یا غلط) قائم کرتے ہیں وہی ضمیر ہے۔ سیاست میں وہ عوام کی حاکمیت کے نظریے کا علمبردار تھا۔(۱) ہیوم نے جو اٹھارہویں صدی کی تشکیک کا امام تھا، لاک کے فلسفہ تجربیت کو منطقی انجام تک پہنچادیا۔ اس نے کہا کہ انسانی تجربہ ہی انسانی علم کا ماخذ ہے اور صرف انہی اشیاء کا وجود ہے جن کا ادر اک کیا جا سکے۔ اس بناء پر اس نے نفس انسانی، روح اور خدا کا انکار کر دیا کیونکہ یہ تصورات قابل ادراک نہیں ہیں(۲)۔ انیسویں صدی میں کو متے، بنتھم اور ولیم جیمز نے ہیوم کے اثرات قبول کیے۔

            کو متے کو ایجابیت (Positivism) کا بانی کہا جاتا ہے جو تجربیت ہی کی ایک صورت ہے، اس کے نزدیک کائنات اور کائنات میں انسان کے مقام کا تعین انسانی مشاہدے اور تجربے ہی کی روشنی میں کیا جاسکتا ہے۔

            فلاح و بہبود کی کوشش ہی نیکی ہے؛ اسی طرح کو متے کے نزدیک انسانی ذہن تین مراحل سے گزرا ہے، مذہب، مابعد الطبیعیات اور مرحلہ موجودہ یعنی ایجابیت یا سائنس۔ اس کے نزدیک مذہب اور مابعد الطبیعیات

 John Locke, An Essay Concerning Human Understanding, P-275ff(۱)

 David, Hume, An Enquiry Concering th Principico of Morals, P-289(۲)

قصہٴ پارینہ بن چکے ہیں اور اب سائنس کی خدائی کا دور ہے۔ (۱) امریکہ کے نتائجیت پسند فلاسفہ ولیم جیمز اور ڈیوی اور دوسرے دور کے تجربیت پسندوں میں سے جان اسٹوارٹ مل اور بنتھم کو متے کے افکار سے متاثر ہیں۔ اسی طرح در خائیم، لیوی بروہل، تین اور رینان نے کومتے کے عمرانی نظریات کو بیسویں صدی میں نیا آہنگ دیا ہے۔

            جان سٹوارٹ مل بھی جرمی بنتھم کی طرح افادیت (Utilitarianism) کا قائل ہے اور اس کی طرح زیادہ سے زیادہ انسانوں کو زیادہ سے زیادہ مسرت بہم پہنچانے کو اخلاقیات کا نصب العین قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ چوں کہ صرف لذت کی خواہش کی جاتی ہے، اس لیے لذت ہی مستحسن ہے؛ جب کہ بنتھم تو یہاں تک کہتا ہے کہ لذت ہی خیر ہے اور اذیت ہی شر ہے اور افادیت ہی ہر شے کا معیار ہے۔

            امریکی نتائجیت پسندی (Pragmatism) کا شارح ولیم جیمز ہے جو لاک، ہیوم، کانٹ، پیرز اور کو متے کے افکار کا جامع تھا۔ ولیم جیمز کسی صداقت مطلقہ کا قائل نہیں تھا اوروجودِ مطلق (اللہ تعالیٰ) کو ”ما بعد الطبیعی عفریت“ کا نام دیتا تھا۔ اس کے خیال میں صرف وہی اشیاء موضوعِ بحث بن سکتی ہیں جو انسانی تجربے سے لی گئی ہوں۔ انسانی تجربہ ہی حقیقت ہے اور صرف انسانی مشاہدہ اور تجربہ ہی علم کا اصل ماخذ ہے۔ اس کے نزدیک نتائجیت پسندی ایک طرزِ فکر ہے، جس کا مقصد کسی نوع کی ازلی صداقتوں کا کھوج لگانا نہیں ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس بات سے انسانی تجربے یا طرز عمل میں کچھ فرق نہیں پڑتا کہ آیا وجودِ مطلق ہے یا نہیں؟ جیمز کی افادیت اور نتائجیت پسندی کا یہ عالم ہے کہ وہ مذہب کو بھی نتائج کی کسوٹی پر پرکھتا ہے۔ اس کے نزدیک ایمان کا جو ہر نہ جذبہ ہے نہ عقل بلکہ ایمان لانے کا ارادہ ہے، جسے سائنسی طریقوں سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ مذہب میں کسی صداقت ِمطلقہ کا کھوج نہیں لگایا جاسکتا؛ البتہ یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ اللہ، حیات بعد الموت اور قدر و اختیار پر عقیدہ رکھنے سے ہمیں کوئی عملی (دنیاوی) فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہو تو ان عقائد کے اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں(۲)۔

            نتائجیت پسندی کا ایک اور مشہور شارح جان ڈیوی ہے، جو جیمز ہی کی طرح فکر انسانی کو محض ایک آلہ سمجھتا ہے اس کے نزدیک کسی نظریے کی عملی کامیابی کی طرف رہنمائی ہی اس کی صداقت کا واحد معیار ہے۔

 History of Psychology P-212 E.A. Esper, A (۱)

L. Zusne, Names in the History of Psychology, P-98(۲)

             انگلستان کے پروفیسر شار نے نتائجیت پسندی کو انسان پسندی سے مربوط کرنے کی کوشش کی۔ اس کے نزدیک جو کچھ بھی انسان کے لیے صحیح ہے اسے کسی مافوق الفطرت ہستی کی بجائے انسانی مفاد ہی کی پرورش کرنی چاہیے۔ گو یا خدا کو بھی صرف اس لیے مانو کہ اس سے دنیوی فائدہ ہوتا ہے، ظاہر ہے اس سے بڑھ کر سیکولرزم اور لادینیت کا تصور کیا ہو سکتا ہے کہ عملی کامیابی، نتیجہ خیزی اور افادیت کو افکار کی صداقت کا معیار قرار دیا جائے؛ بل کہ یہ تو محض کاروباری ذہنیت کی عکاسی ہے۔

            تجربیت اور اس کی بعض ذیلی شاخوں کے اس مختصر بیان سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ تجربیت نے نہ صرف مذہب اور وحی کی برتری کو رد کیا؛ بلکہ ادراکِ حقائق کا انحصار محض انسانی مشاہدے اور حسی تجربے کو قرار دے کر اسے ایک متبادل مذہب اور نظریہٴ حیات بنا کر پیش کیا۔ اس نقطہٴ نظر کو دوسرے علوم و فنون پر بھی غالب کر دیا اور انہیں لا دینی بلکہ دین دشمنی کے رنگ میں رنگ دیا۔

             مندرجہ بالا تفصیل سے واضح ہے کہ مغربی فکر و تہذیب میں حسی علم اور تجربے سے حاصل ہونے والا علم ہی یقینی اور حتمی ہوتا ہے اور خدا، وحی، فرشتے اور آخرت کا تصور چوں کہ اس معیار پر پورے نہیں اُترتے، لہٰذا وہ قابل رد ہیں اور مغربی فلسفہ علم کی رو سے وہ علم کے معیار پر پورے نہیں اترتے؛ لہٰذا وہ تو ہّمات (Superstitions) ہیں یا آسمانی تحکم پر مبنی Dogma ہیں، وہ علم بہر حال نہیں ہو سکتے؛ کیوں کہ حسی اور تجربی علم کی رو سے وہ قابل تصدیق (Verifiable) نہیں ہیں۔ مغرب کا یہ نظر یہ ممکن ہے، سائنس میں ترقی کا ذریعہ اور سبب بنا ہو لیکن اس نے مذہب کو بہر حال دیس نکالا دے دیا ہے اور مغربی فکر و تہذیب کے ماننے والے اہل دانش، فلسفیوں اور سائنس دانوں کے ہاں مذہب کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔