آخری قسط
”التقصیرفی التفسیر“اورشیخ التفسیر
از: حکیم فخر الاسلام الہ آبادی
۴-توجیہات شیخ التفسیر- تنبیہات حکیم الامت
(مثال-۱)نص کے ظاہری معنی میں بے ضرورت تاویل
۱-توجیہ :” ہاروت و ماروت انسان فرشتہ سیرت بود،آنہا را خدا تعالی ایں چنیں قدرت دادہ بود“(۱)ہاروت و ماروت فرشتہ سیرت انسان تھے (نہ کہ حقیققةََ فرشتے) ، اُن کو الله تعالیٰ نے اِس قسم کی قدرت دی تھی کہ سحر کی حقیقت کو معجزہ سے ممتاز کر نے کے لیے، سحر کی عملی تعلیم لو گوں کے سامنے پیش کریں۔
۲-تنبیہ : ”اس کی بنا نہ کو ئی نقل صحیح ہے، جس کے سبب قرا ئت متواترہ کے حقیقی معنی کو چھوڑ دیا جاوے ،نہ کوئی دلیل عقلی ہے جس سے فرشتہ سے اِس فعل کے صدور کا امتناع ثابت ہو۔“ مطلب یہ کہ تاویل اُسی وقت درست ہے جب نصوص کو ظاہر ی معنی پر محمول کرنا متعذر ومحال ہو ۔اور مذکورہ توجیہ اِس قاعدہ کے خلاف ہے ۔
خیال رہے کہ مفسر لاہوری نے ”مقدمات اربعہ“کے عنوان کے تحت خود بھی یہ قاعدہ ذکر کیاہے،جس سے ظاہر ہے کہ تفسیر کرتے وقت اِس قاعدہ کی پابندی بھی ضرور کرتے ہوں گے، پھریہ عجیب بات کیسے ہوئی کہ یہاں اُس کی پابندی نہ ہو سکی؟قاعدہ کی اہمیت سمجھنے اور اِجرا کو نظرانداز کردینے کے اِسی تعارض کے پیشِ نظر حکیم الامت نے لکھا ہے کہ یہاں : ” ایک سوال ناشی ہو سکتا ہے کہ جو شخص اپنی تفسیر میں ان تعریفات و مقدما ت کو پیشِ نظر رکھے گا، اُس سے(آیتوں کی تفسیر کے وقت وہ) ابتداع و اختراع کیسے صادر ہو سکتا ہے؟،جس کو(”التقصیر فی التفسیر“ کی) فصلِ سوم میں ذکر کیا گیا ہے ۔“(۱)
(۱)مفسر لاہوری کا ایک مترجم و محشی قرآن ہے جو پہلی بار ۱۹۲۷ء=۱۳۴۵ھ میں شائع ہوا۔ہمارے سامنے مطبوعہ فرید بک ڈپودہلی ۱۳۸۲ھ کاجو نسخہ ہے،اُس میں اِس طرح درج ہے :”اور ہاروت و ماروت دو فرشتہ سیرت انسانوں پر جو ادعیہ نازل ہوئی تھیں جن کے باعث وہ لوگ میاں بیوی میں تفریق ڈالا کرتے تھے الخ۔“(حاشیہ ترجمہ لاہوری۲۴، البقرہ۲،آیت ۱۰۲)۔یہ گویا رسالہ قریش میں کی گئی توجیہ بہ حوالہ”التقصیر“کا اجمال ہے۔
ذرا سنیے !اِس سوال کاجواب حکیم الامت نے کیا دیا،فرمایا کہ:” جواب یہ ہے کہ اول تواِن ( تعریفات و مقدما ت)میں سے بعض پر کلام بھی ہو سکتا ہے،دوسرے اِس (کلام)سے قطعِ نظر کر کے بھی یہ سب(تعریفات وقواعد) برائے گفتن ہے۔(اکیس) تو جیہاتِ مذکورہ فصلِ سوم میں اِن کی ذرا بھی رعایت نہیں کی گئی،؛بلکہ خلاف کیا گیا ہے۔(۱)
یہ خلاف ،شاید فطرت کی موافقت میں کیا گیا ہو کہ جس قدر ممکن ہوسکے،اموراسباب طبعیہ کے تحت ہی محصور کیے جائیں؛مگر اِس پرحکیم الامت یہ سوال کرتے ہیں:”اگر فرشتہ میں اُس کا تقدس تعلیمِ سحر سے مانع ہے، تو فرشتہ خصلت انسان میں بھی بعینہ یہی تقدس مانع ہے۔ “
حکیم الامت آگے فرماتے ہیں:
جس طرح اِس زیرِ بحث توجیہ میں قاعدہ کی رعایت نہیں کی گئی:”اِسی طرح (اکیس توجیہات میں سے)ہر توجیہ…(میں قواعدکی)یہ عدمِ رعایت واضح ہو تی ہے۔ اور اگر بزعمِ خود رعایت کی ہے، تو اس رعایت کے استعمال کا طریق غلط ہو گا۔“
آگے حکیم الامت نے دوچھوٹی چھوٹی سورتوں میں بھی کی گئی فاسد توجیہات کی نشاندہی کی ہے۔یہ مزید نمونے کیوں ذکر کیے ، اِس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ توجیہات پرکی گئی تنبیہات کے متعلق اگر شبہہ ہو تو دور ہو جائے، فرماتے ہیں:
”شاید کسی کو یہ شبہہ ہو کہ ممکن ہے کہ اِن عبارات ِمذکورہ فصل سوم کی نسبت صاحب ترجمہ کی طرف، غیر واقعی ہو یا تخللِ واسطہ سے، اُس میں کچھ تغیر و تبدل ہو گیا ہو؟، اس لیے بہ طور تتمہ کے اُن دونوں رسالوں کے مضامین سے بھی بہت مختصر تعرض کرتا ہوں… ایک سورہ کوثر کی تفسیر، دوسری سورہ قریش کی، کیوں کہ قرائن عادیہ سے ان کی نسبت الی المترجم میں یہ احتمال نہیں۔ چناں چہ ان کی لوح پر مترجم کے نام کے ساتھ عبارت مرقوم ہے من العبد المذنب الراجی رحمة اللہ العلی۔ الخ ،جس سے صاف ظاہر ہے کہ مترجم صاحب اس نسبت کے خود مقر ہیں،احتمالِ غلطیِ نسبت تو اِس سے مدفوع ہو گیا۔(۲)باقی احتمال، اِس کے علم ِاعتبار ہونے کا، اِن رسالوں کی عبارتِ لوح سے مدفوع ہے جو فصل اول کے واقعہ دوم میں مذکور ہوئی ہیں(۳)۔
بہر حال،ان دونوں رسالوں… کی حقیقت پر اختصار کے ساتھ آگاہ کرتا ہوں کہ مقصود اس سے حاصل ہو جاوے گا…۔“
(۱)”التقصیر فی التفسیر“ص۳۵۔ایضاً حوالہ بالا ص۳۵۔(۲)دیکھیے ”التقصیر فی التفسیر“مکتبہ فیض اشرف دیوبند ۱۴۴۰ھ ص۱۱تا۲۱)
(۳)دوسراواقعہ حکیم الامت تھانوی کے الفاظ میں یہ پیش آیا تھاکہ:”مجھ کو ایک فاضل دوست( مولانا حبیب احمد کیرانوی:ف)نے دو رسالے (تفسیر میں افراط وتفریط روا رکھنے والے) اُنہی مترجم کے دیے۔ ایک میں سورہ قریش کی تفسیر تھی، دوسرے میں سورہ کوثر کی، جس کی لوح پر صریح لفظ ”سلسلہ تفسیر و تشریح مضامین سورہ“ لکھا ہے ،جس سے اُن تقریرات کا’ علم اعتبار ‘میں داخل ماننے کااحتمال بھی دفع ہو گیا، کیوں کہ علم ا عتبار نہ تفسیر ہو تا ہے اور نہ اُس کی معلومات نصوص کے مضامین یعنی مدلولات ہو تے ہیں؛(بلکہ) صرف اُن مضامین کے مشابہ ہو تے ہیں ۔“
(مثال۲)
خلاصہ رسالہ متعلقہ سورہ کوثر
توجیہ مفسر:کوثر سے مراد قرآن ہے جو ایک نعمت عظمیٰ ہے آیت ”انا اعطینا ک الکوثر“ میں اس کا ذکر کیا گیا ہے آگے ”فصل لربک وانحر“ میں اس نعمت کے شکر کا امر ہے اور وہ شکر دو عمل سے ہے ایک صلوٰة سے جو عبادات بدنیہ میں سے سب سے بڑی عبادت ہے جس سے مقصودبالذات قرآ ن کی تبلیغ ہے۔ گویا اشاعت کتاب کی ایک بہترین صورت شارع نے تجویزفرمائی۔
دوسرے قربانی سے جو عبادات مالیہ میں سب سے بڑی ہے ۔آگے ”ان شانئک ھوالابتر“ میں آخر نتیجہ یہ بتلایا ہے کہ جب ہر دو اصول مذکورہ پر عمل کرنے کے لیے آمادہ ہو جائیں گے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ جو اس خدا پرست جماعت کے مقابلہ میں آئے گا ذلت و نامرادی اور بربادی کا منہ دیکھے گا۔ “(۱)
کلام متعلق خلاصہ سورہ کوثر
درست امور:
(نمبر اول) کوثر کی تفسیر قرآن کے ساتھ مضائقہ نہیں۔
(نمبر دوم) ”فصل لربک وانحر“ کو شکر نعمت پر محمول کرنے میں کلام نہیں۔
نا درست امور:
(نمبر سوم) لیکن صلوٰةسے تبلیغ کا مقصود بالذات ہونا محض بلا دلیل بلکہ خلافِ دلیل ہے۔بلا دلیل ہو نا تو ظاہر ہے۔ اور خلافِ دلیل اس لیے کہ تبلیغِ قرآن کا خطاب مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں اور اقتدا ء فی الصلٰوة مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے۔ نیز اگر اس سے تبلیغ مقصود ہو تی، تو نمازیں سب جہری ہو تیں تبلیغِ غیر جہری سے تبلیغ کی غرض ہی حاصل نہیں ہو سکتی۔ وہ بات کہو جو کسی نے نہ کہی ہو۔
(۱)’التقصیر“میں ذکر کردہ جوتوجیہ تفصیل کے ساتھ ہے،وہی مترجم و محشی قرآن میں اِجمال کے ساتھ : ”سورة الکوثر:خلاصہ :اصول ہزیمتِ اعدائے اسلام۔ترجمہ آیت۱-بے شک ہم نے آپ کو کو ثر دی۔ تفسیری حاشیہ :ہم نے آپ کو خیر کثیر ( قرآن حکیم) عطا فرمایا ہے ۔آیت۲-پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے ۔تفسیری حاشیہ :لہذا یہ کام بالالتزام کیجیے ۔۳-بے شک آپ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہے ۔تفسیری حاشیہ :آپ کے دشمن ہی دم بریدہ ہوں گے، ان کی تحریک خود بخود فنا ہوجائے گی۔ (تفسیرلاہوری ،ص ۹۶۳)
(نمبرچہارم) اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَالْاَبْتَرُ کو فَصلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ پر مرتب کر نابالکل قرآن کی تحریف ہے۔ الفاظِ قرآنیہ کے بھی خلاف ہے، کیوں کہ یہاں کوئی کلمہ ترتیب کا نہیں۔ اور محض ترتیبِ ذکری ترتیبِ حکمی کو مستلزم نہیں۔ اور شانِ نزول کے بھی خلاف ہے، کیوں کہ جس کافر کی گستاخی پرآپ کے تسلیہ (تسلی) کے لیے یہ سورت نازل ہوئی، اُس کی ابتریت (بے نام ونشان ہونے) کا حکم خود مستقل و مقصود ہے۔ صلوٰة و نحر (نماز و قربا نی) پر مرتب نہیں ،یعنی یہ مراد نہیں کہ اگر آپ صلوٰة ونحر ادا کریں گے، تو وہ ابتر ہو گا، ورنہ نہیں۔
حاصل سورت کا یہ ہے کہ اِس بے ہودہ بکنے سے آپ رنج نہ کیجئے ؛بلکہ دو مضمونوں سے تسلی کیجئے: ایک، یہ کہ ہم نے آپ کو بڑی بڑی نعمتیں دی ہیں، اُن کا شکر کیجیے۔ دوسرے، یہ کہ ہم نے آپ کے دشمن کی نعمتوں کو منقطع کر دیا ہے۔ باقی صلوٰة ونحر کے خواص و برکات خود مستقلاََ نصوص میں وارد ہیں جو مصلی و ناحر (نمازی و قربانی کرنے والے) کے اعداء (دشمن) کے مغلوب و مخذول (پست ورسوا) ہونے سے بدرجہا اکثر و اعظم ہیں۔ پھر خواہ مخواہ اِس آیت میں اِن کا ٹھوسنا اور بلاغتِ قرآن کو برباد کرنا اور قرآن کوایک چیستاں بنانا کیا ضرور؟اگر ان برکات کا بیان کرنا ہے تو ان نصوص کی طرف مستند (نسبت) کرکے بیان کر نے سے کون ساامر مانع ہے؟
مگر جدت اور جدت سے شہرت کیسے ہوگی؟مصیبت تو تمام تر یہ ہے کہ وہ بات کہو جو کسی نے نہ کہی ہو۔یہ تو خلاصہ سورہ کوثر کے متعلق کلام تھا۔ آگے خلاصہ سورہ قریش(اور اس) کے متعلق عرض ہے۔ “
(مثال۳)
خلاصہ رسالہ متعلقہ سورہ قریش: ”الاعتبار والتاویل“
توجیہ مفسر
”جس طرح قریش شعائر اللہ میں سے بیت اللہ الحرام کے مجاور و محافظ تھے اور اسی عہدہ جلیلہ کے باعث رب البیت کی عبادت اور اس کے پیغمبر یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت اُن کا فرض منصبی قرار دی گئی تھی، بعینہ اِسی طرح علماء کرام اور صوفیائے عظام اللہ تعالیٰ کے دو شعائروں کے محافظ ہیں ایک کتاب اللہ دوسرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ کتاب اللہ کی حفاظت تو ظاہر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت سے مراد محافظت ِسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ حاصل یہ ہے کہ سورہ قریش سے اعتبارا ًو تاویلاً ربانی علمائے کرام و صوفیائے عظام کا فرض منصبی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ حضرات اِشاعت کتاب و سنت کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دیں، اپنے اوقات عزیزہ یعنی اپنی زندگی کا بہترین حصہ اِس کام کے لیے وقف کر دیں، پھرخواہ توکل قسم اول اختیار کریں یعنی ترک اسباب بالکلیہ یا قسم دوم یعنی تجارت، زراعت و صنعت وحرفت وغیرہ۔“(۱)
کلام متعلق خلاصہ سورہ قریش
”اس میں غنیمت ہے کہ قرآن کی تحریف نہیں کی گئی؛ بلکہ اپنے نزدیک ”الاعتبار والتاویل“ کا عنوان قائم کر کے اعتراض کو ،گویا دفع کر دیا؛لیکن دو سوال اب بھی ہیں:
(سوال نمبر۱) یہ کہ ( مفسر صاحب کی طرف منسوب رسالوں کی)لوح پر لفظ ”سلسلہ تفسیر“ اِس اعتبار و تاویل کی نفی کر رہا ہے، جیسا فصل اول کے واقعہ دوم میں مذکور ہے۔
(سوال نمبر ۲) یہ کہ علماء و صوفیاء کا یہ فرضِ منصبی (جسے سورہ قریش میں ان الفاظ میں ظاہر کیا گیا ہے کہ ”اعتبارا ًو تاویلاً ربانی علمائے کرام و صوفیائے عظام کا فرض منصبی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ حضرات اشاعتِ کتاب و سنت کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دیں۔ “ تو یہ فرض منصبی) دوسرے نصوص میں صراحةََ مذکور ہے، پھر اس کو اس سورہ میں ٹھوسنا اور قیاس سے ثابت کرنا، کیا ضرور ہے؟جیسا خلاصہ سورہ کوثر کے متعلق کلام میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے۔
ہاں، اگر ان مضامین کو ثابت کر نا ہے، تو اپنے محل سے کیا جاوے، اور (جہاں اعتبار و تاویل کا موقع ہو، وہاں مناسبت و مشابہت بطور”اعتبار“ کے، اُس کی شرائط ملحوظ رکھ کر ظاہر کر دی جائیں، دلالت نہ دکھلائی جا ئے بلکہ صرف) تائید ایسے مضامینِ مناسبہ سے بھی کر دی جائے (جو نصوص میں وارد ہیں) اور دلالت و تائید کی جدا جدا سرخیاں قائم رکھی جاویں، بشرطیکہ اُن حدود سے تجاوز نہ ہو جو مقدمہ میں مذکور ہوئی ہیں، تو مضائقہ نہیں۔ (۲)لیکن(مفسر لاہوری کے) ان رسالوں میں جو طرزاختیار کیا گیاہے، اس سے تو صاف دلالت کا شبہہ ہو تا ہے جوحقیقت کے خلاف اور بدعت وضلالت و محلِ وعیدِ شدیداور واجب ا لاجتناب ہے۔
(۱) ”التقصیر“میں ذکر کردہ جوتوجیہ مفسر تفصیل کے ساتھ ہے،وہی مترجم و محشی قرآن میں اِجمال کے ساتھ اس طر ح ہے :
ترجمہ : سورہ قریش :”خلاصہ :فرائض علمائے کرام و صوفیائے عظام ۔۱-اس لیے کہ قریش کو مانوس کر دیا ۔۲-ان کو جاڑے اور گر می کے سفر سے مانوس کرنے کے باعث ۔۳-ان کو اس گھر کے مالک کی عبادت کرنی چاہئے ۔۴-جس نے ان کو بھوک میں کھلایا اور ان کو خوف سے امن دیا ۔تفسیری حاشیہ ۱،۲ :قریش پر اللہ تعالی کا یہ احسان ہے ۔۳-۴:اس لیے ان کا فرض منصبی ہے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں ۔(تفسیرلاہوری ،ص ۹۶۲)
(۲)رسالہ ”التقصیر فی التفسیر“کے مقدمہ میں ”تنصیص“ یعنی نص سے ثابت شدہ مضمون، ”استنباط“، ”اعتبار“، ”تفسیر با لرائے“، نصوص میں معنوی تحریف اور غلو و تکلف، ان سب کی حدود و ماہیتیں ذکر کی گئی ہیں، اُن حدود سے تجاوز نہ ہو۔
لیکن اگر تائید کا عنوان اختیار کریں تو پھر ایسی تمام تر توجیہات کا تار و پود ہی درہم برہم ہو جاوے گا۔ (۱)اور وہی پرانی تفسیریں رہ جا ویں گی جن سے یہ نئے لوگ صرف ملول (رنجیدہ) ہی نہیں بلکہ نفور (و بے زار) ہو چکے ہیں۔ الّلٰھُمَّ اھْدِنَا وَ سَدِّدْنَا۔ “(۲)
یہ نمونے جو ذکر کیے گئے،اِن سے آپ خود اندازہ کیجیے کہ بے چارے اُن بزرگوں کو مفسرکے اِن ا ِلتباسی خیالات اور تفصیلات کی کیا خبر! مفسر لاہوری نے اپنے تفسیری مضامین، رسالوں اور قرآن کے تفسیری حاشیوں میں جو کچھ کیا ہے،وہ تو کیا ہے۔مگراِس بات پر زیادہ افسوس ہے کہ تفسیر کے باب میں اُن کے فکری التباسات کا جو رسالہ کچا چٹھا ظاہر کرنے والا تھا،یعنی ”التقصیر فی التفسیر“،پہلے تواُس رسالہ کو چھاپنے کا ارادہ رکھنے والے مولوی صاحب کو خط کے ذریعہ متاثر کر کے ،اُن کی ہمدردی سمیٹی اور یہ اثرڈالا کہ رسالہ چھپنے ہی نہ پائے۔پھر چھپ جانے کے بعدمصنف کے ساتھ حیل وحجت کی اور اِس سب سے بڑھ کر تفسیری رجحانات پرکیے گئے اِستدراکات کا تقریظ نگار بزرگوں کے سامنے ذکر تک نہیں کیا،حالاں کہ دیانتاً یہ ذکر ضروری تھا۔اور یہ امکان معدوم ہے کہ مفسر لاہوری کو اپنے کیے کی خبر نہ ہو۔
۵-روایات اہلِ خبر
تحریری یاد داشت خودملفوظات حکیم الامت میں موجود ہے،جس کے جامع حضرت مولانا اسعد الله صاحب (سابق ناظم اعلی مدرسہ مظاہر علوم سہارن پورو خلیفہٴ حکیم الامت ) نے ذکر کیاہے:”فلاں مفسر صاحب نے تفسیر میں بہت گڑبڑ کر رکھی ہے، چناں چہ پارہ دوم کی آیت ”وَ اِنْ اَرَدْتُمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْا اَوْلاَدَکُمْ“سے استنباط کیا ہے کہ باہر کے آدمیوں کوبلا کر نہر کھدوانا جائز ہے۔ دیکھ لیجئے !کیا لطیف استنباط ہے! اگر اس قسم کے اجتہاد اوراستنباط جائز ہوں تو دین سے امن ہی اٹھ جائے“۔ آگے جامعِ ملفوظ حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب قوسین میں لکھتے ہیں (اس سلسلہ میں حضرت کا رسالہ التقصیر فی التفسیر قابل دید ہے۔ ۱۲)(۳)
اِس تحریری یاد داشت کو اُس واقعہ سے تائید و تقویت حاصل ہوتی ہے جو زبانی روایات کے طور پر فصل اول میں مذکور ہوا ،جہاں واقعات اربعہ کے حواشی میں حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب کی ہی سند سے مولانا احمد علی کے نام کی صراحت ہے۔
(۱)نہ سورتوں کے موضوعات ڈھونڈے جا ئیں گے۔ نہ یورپ کے وضع کردہ فطری مذہب کے اصول پر منطبق کرنے کی فکر کی جا ئے گی۔ نہ قانون ِ فطرت کی موافقت اور خارقِ عادت کے انکار یا تاویل بعید کا خیال ستا ئے گا، نہ انسانیت دوستی اور علم الاجتماع کے مغربی مسلمات سے ہم آہنگی کی کاوش ضروری محسوس ہوگی، نہ تمدنی ترقی میں کسی اسلامی حکم کی مزاحمت کو دور کرنے کے خیال سے تاویل و توجیہ پر اِصرار ہوگا۔(۲)ترجمہ:اے الله ہدایت دے اور صحیح راستے پر قائم رکھ ۔(۳)اسعد الابرار، ملفوظات حکیم الامت: ج۲۵، ص-۱۹۸، ۱۷، ۱۹۳۸ء ء تالیفات اشرفیہ ملتان۔
۶- آپ بیتی
شریک دورہ مولانا عبد الرحمان حید رآ بادی
(فارغ التحصیل مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور۱۹۵۸ء)
مولانااحمد علی لاہوری کا انتقال فروری۱۹۶۲ء میں ہوا۔اُس سے چند سال پہلے
۱۹۵۸ء میں بہ غرضِ شرکتِ دورہٴ تفسیر سفرِ لاہور کا ایک قصد مولانا محمد عبد الرحمان صاحب (متوفی ۲۰۱۹ء،استاذِ حدیث و تفسیر و ناظم اول مجلسِ علمیہ حید رآباد،ہند)نے کیا اوراپنے خود نوشت حالات پر مشتمل کتاب”کاروانِ حیات“میں اِس کی تفصیل درج کی ۔ اُس کے جستہ جستہ اِقتباسات پیش خدمت ہیں،وہ لکھتے ہیں:
”دورانِ تعلیم یہ بات سننے میں آیا کرتی تھی کہ شہر لاہور میں مولانا احمد علی -جن کو عام طور پر شیخ التفسیر کہا جاتا تھا-قرآن پاک کی تفسیر کا سہ ماہی درس دیا کرتے ہیں اور اِس درس میں شرکت کے لیے صرف اُنہی طلبہ کو داخلہ ملتا ہے جوباضابطہ کسی مستند مدرسہ کے فارغ التحصیل ہوں۔ہند و پاک میں اُن کے اِس درس کی شہرت تھی۔جب کبھی اِس کا تذکرہ سننے میں آتا،میری طبیعت مچل جاتی اور تقاضا تازہ ہو جایا کرتا تھا کہ کسی طرح اِس درس کی تکمیل کر لی جائے؛لیکن اسباب میلوں نظر نہیں آتے تھے۔جوں ہی ہماری تعلیمی فراغت ۱۹۵۸ء میں ہوئی،تقاضا نے عملی صورت اختیار کر لی۔خط و کتابت کے ذریعہ داخلہ کی اجازت حاصل کر لی گئی۔…ضلع اعظم گڑھ (یو پی)کے ایک ہم سبق نے بھی ارادہ کر لیا،میری ہمت اور مضبوط ہو گئی۔…مدرسہ مظاہر علوم میں میرے سر پرست و نگراں مولانا سید ظہورالحسن صاحب ناظم کتب خانہ امداد الغرباء(سابق استاذ مظاہر علوم و مجازِ صحبت حکیم الامت) تھے۔اور میرے ابتدائی دو تین سال حضرتِ موصوف کی زیرِ نگرانی کتب خانہ میں ہی گزرے ہیں۔بہر حال حضرتِ موصوف کو جب اِس کا علم ہوا،تو میرا اِرادہ اُن پر بہت شاق گزرا۔پہلے تو نرم انداز میں اِس ارادہ سے باز رہنے کا مشورہ دیا،پھر جب یہ محسوس کر لیا کہ میں اپنے ارادہ میں مصمم ہوں،تو حضرت شیخ التفسیر کی تفسیری غلطیوں پر متنبہ کیا اور ارشاد فرمایا کہ اکثر علمائے دیوبند خاص طور پر حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے ان کی اِس تفسیر سے شدید اختلاف کیا ہے ،لہذا تم اِس میں اپنا
وقت ضائع مت کرو۔لیکن میں پھربھی مطمئن نہ ہوا،عربی کا مقولہ ہے :الانسان حریصٌ فیما مُنِعَ،حضرت استاذ کی اِس خیر خواہی نے مزید طلب و جستجو میں اِضافہ کر دیا۔اب تک تو صرف طلب علم کا تقاضا تھا ،اُستاذ مرحوم کی اِس آگاہی کے بعد شیخ التفسیر مولانا احمد علی صاحب سے ملاقات کا نیا تقاضا پیدا ہو گیا۔…
جب سفر کا جملہ انتظام پورا ہو گیا،تو استاذِ محترم مولانا سید ظہورالحسن صاحب سے ملنے گئے اور آخری ملاقات کی ۔ حضرتِ موصوف کی یہ عالی ظرفی تھی کہ وداعی ملاقات میں دعائیں دیں اور ایک چھوٹا سا رسالہ بھی عنایت کیااور فرمایا کہ اِس کو اپنے مطالعہ میں رکھو،اِس میں اُن تفسیری اغلاط کی وضاحت ہے۔
اِس رسالہ کا نام ”التقصیر فی التفسیر“تھا۔یہ وہی رسالہ تھا،جس میں حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب نے شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری کی تفسیرپر اعتراضات کیے ہیں اور جس میں شیخ التفسیر کے جوابات بھی نقل کیے گئے ہیں ، پھراُن جوابات پر حکیم الامت نے جواب الجواب بھی لکھا ہے(جس کی کچھ روداد گزشتہ صفحات میں ملفوظات کے حوالہ سے ذکر کی گئی)۔
جب یہ رسالہ ہاتھ آیا ،توارادے میں نئی تحریک پیدا ہوئی کہ اب تو اس درس کی تکمیل کرنی ہی ہے۔حضرت حکیم الامت کے سامانِ حرب و ضرب کا ذخیرہ موجود ہے،اب کس بات کا اندیشہ؛دل بالکل مطمئن ہو گیا کہ حکیم الامت ساتھ ہیں۔“لاہور پہنچ کر”نمازِ ظہر کے بعد حضرت شیخ التفسیر سے ملاقات کروائی گئی۔پہلی ہی نظر میں موصوف کی شخصیت نے متاثر کیا۔عالمانہ شکل و صورت ،تقوی و طہارت کے آثار نمایاں،نحیف و نا تواں بدن ؛لیکن عزم و ہمت سے بھرپور،چال ڈھال میں قدامت،سلفِ صالحین کا نمونہ،موٹا دھوٹا لباس ۔ہمارے مختصر تعارف کے بعد ارشادفرمایا ؛آج آپ آرام کریں،کل صبح درس میں آجانا۔بس ہمارا داخلہ ہو گیا۔
لاہور کی تفسیری درس گاہ
دارالتفسیر کی کوئی مستقل عمارت نہ تھی ،مسجد کے اندر ہی اِنتظام تھا۔صبح آٹھ بجے سے بلا وقفہ بارہ بجے تک مسلسل چار گھنٹے شیخ التفسیر درس دیا کرتے تھے،طلبہ کی تعداد بھی سو۱۰۰ سے اوپر تھی۔غیر منقسم پاکستان کے علاوہ سر حدی علاقوں کے طلبہ زیادہ تھے اور یہ سب طلبہ فارغ التحصیل علماء تھے۔ہندوستان کے صرف ہم دو شریکِ درس تھے۔ہمیں صفِ اول میں شیخ التفسیر کے بالمقابل جگہ دی گئی۔
ابتدائی ہفتہ تفسیرِ قرآن کی مبادیات میں گزرا جو علومِ تفسیر سے متعلق تھے،پھر شیخ التفسیر کا اپنا مخصوص درس شروع ہوا۔آغازِ درس سے پہلے خصوصیت سے ایک اہم نکتے پر متنبہ کیا،فرمایا :”ہمارا یہ درس تفسیر قرآن سے متعلق نہیں ہے؛بلکہ تاویلِ قرآن سے تعلق رکھتا ہے۔گویا پورا نصاب تاویلِ قر آن کا ہے۔تفسیر اور تاویل کی وضاحت اِس طرح فرمائی کہ مفہوم اور مرادِ قرآنی کو تفسیر کہا جا تا ہے،جیسا کہ عام مفسرین کرام بیان کرتے ہیں اور تاویل ایسے مضمون کا نام ہے جو قرآنی آ یات سے اخذ کیا گیا ہواور جو قرآن کے منشا و مراد سے ٹکراتا نہ ہو۔یعنی کسی آیت سے اُس کے حقیقی معنی و مراد سے ہٹ کر کوئی ایسی مفید بات لی جائے،جس کے لیے وہ آیت نازل نہ ہوئی ہوتاہم وہ آیت اُس مفید بات کے مخالف بھی نہ ہو،ایسی مفید بات کو تاویل قرآن کہا جاتا ہے۔“
”حضرت شیخ التفسیرنے قرآنی سورتوں کی چند مختلف آیات اور بعض چھوٹی چھوٹی سورتوں کا انتخاب کیا ہے جن کی وہ تاویل بیان کرتے ہیں۔ایسے تمام مضامین کو قرآن حکیم کے حاشیہ پر طبع کروا دیا گیا ہے جس کو انجمن خدام الدین لاہور نے شائع کیا ہے۔یہ قرآن سارے طلبہ میں تقسیم کر دیے جاتے ہیں۔اِسی کے مطابق ہر روز صبح آٹھ تا بارہ ساعتِ دن درسِ قرآن دیا کرتے۔
فکر سندھی پر مبنی خصوصی درس
”شیخ التفسیر نے قرآن حکیم کی بعض آیات کا خصوصی مفہوم مرتب کیا تھا،جو یقیناً حضرت موصوف کی ہی اِختراع تھی ،البتہ میرے ایک سوال پر فرمایا تھا کہ یہ خصوصی درس علامہ عبید الله سندھی کا نتیجہٴ فکر ہے۔
…بہر حال شیخ التفسیر کے درس میں ابتدائی آٹھ دس دن خاموشی سے سماعت کرتا رہا، اور حضرت کی تفہیم و تفسیر کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہااور جب حضرت کا درس اپنے نقطہٴ عروج پر آیا،تو وقتاً فوقتاً درمیانِ درس اعتراضات شروع کر دیے،شیخ التفسیر اُس کا جواب دیتے جاتے،میں اُس جواب پر پھراعتراض کرتا۔اب یہ سلسلہ روز مرہ کا معمول بن گیا۔در اصل یہ اعتراض وہی تھے جس کو حکیم الامت نے کتابی شکل دی تھی۔اُنہی اعتراضات کو میں بر وقت دہرا دیا کرتاحضرت شیخ التفسیر اُس کا وہی جواب دیتے ،جس کو حکیم الامت نے اپنے رسالہ میں نقل کیا ہے اور پھر اُس پر دوسرا اعتراض کیا ہے۔میرے اِس طرز پر ایک ماہ بھی گزرنے نہ پایا تھا کہ عام طلبہ نے بے چینی اور نا گواری محسوس کی؛لیکن کسی کی یہ ہمت نہ ہوتی تھی کہ مجھے ٹوکے یا منع کرے۔یہ اس لیے بھی کہ حضرت شیخ التفسیر میرے اعتراضات کا خندہ پیشانی سے جواب دیا کرتے تھے۔اس طرح سلسلہ چلتا رہا،طلبہ کو تو کیا معلوم ہوتا،شیخ التفسیرکو بھی اندازہ نہ ہو گا کہ میں حکیم الامت کا نقال ہوں ۔
بہر حال، جب کبھی سوال و جواب طوالت اختیار کر لیتا ،تواُس موقع پر شیخ التفسیراپنا آخری جواب دے کر خاموش کر دیا کرتے کہ جناب یہ تاویلِ قرآن ہے،میں نے تفسیر کا دعوی کب کیا ہے!اور تاویل میں آپ کو اختیار ہے،قبول کریں یا نہ کریں۔یہ میرا اپنا اِجتہاد و اِستنباط ہے۔اُس مقام پر بحث نہایت نازک مرحلے میں آ جاتی جب میں اُس پر حکیم الامت کا آخری قاہرانہ جواب نقل کر دیتا۔…درس میں میرے سوال و جواب کا سلسلہ دراز ہونے لگااور روز روز کا معمول بن گیا،ہر روز کم از کم دو سوال تو کرہی دیتا۔اِس غیر متوقع صورتِ حال نے شیخ التفسیرکو تو نہیں،ساتھیوں کو پریشان کر دیا۔دو ماہ کا عرصہ گزر گیا ،درس کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔
ایک دن درس گاہ سے حسب معمول اپنے کمرے آ یا ،کھانے سے فراغت کے بعداِستراحت کے لیے لیٹ گیا،میرے ہم سبق دوست بھی ساتھ تھے،اچانک چار پانچ سر حدی طلبہ دراز قد غضب ناک حالت میں گھس آئے،دو کے ہاتھوں میں لمبا چا قو تھا،میری جانب بڑھے،میرے ہم سبق توبے تحاشا بھاگ نکلے،چاروں نے میرا گھیرا کر لیا،میرے ہوش و حواس اڑنے لگے،اُن میں سے ایک نے کہا:
خبیث کا بچہ ! میرے استاذ کو پریشان کرنے آ یا؟
او خبیث! توبہ کر استاذ کو ستائے گا نہیں؟
درس میں خاموش بیٹھے گا؟“
سوالات نہیں کرے گا؟
میں نے بلا توقف توبہ توبہ کہہ دیا اور پھر رو پڑا۔
قاتلوں کو غالباً رحم آ گیا ،تاکید کرتے ہوئے واپس ہو گئے کہ استاذ سے اگر ہماری شکایت کی تو پھر تیری خیر نہیں۔بہر حال ایک قیامت تھی جو گزر گئی،عصر کے وقت تک ہوش و حواس غائب تھے،عصر کی نماز کے لیے مسجد آیا۔انجمن کے منتظم صاحب نے میری بد حواسی محسوس کی اور خیریت دریافت فرمائی؛لیکن میں پابند ہو چکا تھا کہ استاذ سے شکایت نہ کروں گا۔موصوف کے اصرار پر واقعہ تو میں نے بیان کر دیا ؛لیکن طلبہ(قاتلوں )کی شناخت سے انکار کر دیا جس کا اُنہیں شدید اصرار تھا۔قاتلانہ حملہ(والله اعلم)غالباً دھمکی کے طور پر ہوگا؛لیکن میری ساری دلچسپی، ذوق و شوق اور تکمیلِ درس کا جذبہ بالکل سرد پڑ گیا۔دل اُداس اُداس رہنے لگا ،روزانہ درس میں تو شرکت کر لیتا؛لیکن بے چوں و چرا۔ہفتہ عشرہ بعدوطن واپسی کا فیصلہ کر لیا۔حضرت شیخ التفسیرسے اجازت چا ہی۔حضرت موصوف کو اِس نا گہانی صورتِ حال کی اطلاع ہو چکی تھی،فرمایا:
صاحب زادے! چند دن اور صبر کر لو،تکمیلِ درس کے لیے دو تین ہفتے باقی رہ گئے ہیں،اس کے بعد تفسیر کی اعلی سند ملے گی،جس میں علامہ سندھی کے علاوہ حضرت شیخ الہند کی بھی سند شامل ہے۔لیکن میں فیصلہ کر چکا تھا،دوسرے دن اپنے مادرِ علمی مظاہر علوم(سہارن پور ) پہنچا، اساتذہٴ کرام خاص طور پرمولانا سید ظہور الحسن صاحب نے میری دل چسپ کہانی سنی اور بہت محظوظ ہوئے،فرمایا
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرہٴ خوں نہ نکلا(۱)
(۱)مولانا عبد الرحمٰن :”کاروانِ حیات“ ص۹۵،۹۶،۹۷،۹۸،۹۹،۱۰۰،۱۰۱۔
نظر اہلِ نظر
۱زمفتی عبدا لقدوس ترمذی
(مضمون ”التقصیر فی التفسیر اور شیخ التفسیر“برادر گرامی مفتی مجدالقدوس خبیب رومی حفظہ الله کے توسط سے مفتی عبد القدوس ترمذی دامت برکاتہم کے پاس پہنچا ،جواب میںآ ں موصوف کا صوتی خطاب جناب مفتی صاحب کے نام صادرہوا۔ ضبط کے بعد پیشِ خدمت ہے۔)
”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
برادرگرامی قدر حضرت مولانا مجدالقدوس خبیب رومی دامت برکاتہم
آں جناب کا والا نامہ کافی عرصہ کے بعد پہنچا ، حضرت ! بہت خوشی ہوئی آپ نے جو مضمون ارسال فرمایا ،جناب مولانا حکیم ڈاکٹر فخر الاسلام صاحب صدر شعبہ جامعہ طبیبہ دیوبند،تو مجھے بہت خوشی ہوئی ،ماشاء اللہ موصو ف نے بڑی محنت سے تفسیر لاہوری کا اور” التقصیر فی التفسیر“ کا جو تقابلی جائزہ پیش کیا ہے وہ نہایت قابل قدر ہے اور اس کی بہت ضرورت محسوس کی جارہی تھی اسے دیکھ کر پڑھ کر دل سے دعائیں نکلیں کہ :
ایں کار از تو آیدومرداں چنیں کنند
ماشاء اللہ انہوں نے بہت اچھے انداز سے مضمون تحریر فرمایا اور لکھا۔ اور تحقیق کا حق ادا کیا اور واضح فرمادیا کہ حضرت اقدس حکیم الامت تھانوی نوراللہ مرقدہ کا رسالہ ”التقصیر فی التفسیر“ حضرت لاہوری کے جو درسی ایسے افادات تھے جن سے تفسیر بالرائے کا مظنہ تھا، حضرت نے اُن کی جو تردید فرمائی اور بڑے اصول ذکر فرمادیے ہیں یہ بالکل ماشاء اللہ بہت اچھا ہوگیا۔
اس کے علاوہ رجوع کے حوالہ سے جو بات اس میں ذکر کی گئی ہے حضرت لاہوری نے(بیعت کے لیے) رجوع بھی فرمایا، وہ شائع ہوا، رجوع نامہ اس پر مجھے ذرا تردد ہے۔“
تردد بے جا نہیں۔ اگرچہ اِس حوالہ سے زیر دست تحریر میں بعد نظر ثانی ملفوظاتِ حکیم الامت جلد۲۵،۱۹۳۸ء ”اسعد الابرار“ کے حوالہ سے کچھ اضافات کرنے کے بعد ایک نوٹ لکھ دیا گیا ہے؛مگر راقم کو اِس پرنہ اصرار،نہ ہی اس سے کسی مقصود میں خلل۔ # 9084886709.hkmfislam@gmail.comحکیم فخر الاسلام الہ آبادی۔