پہلی قسط
(بعد از نظر ثانی،تنقیح و اضافہ) ”التقصیرفی التفسیر“اورشیخ التفسیر
از: حکیم فخر الاسلام الہ آبادی
بات بیسویں صدی عیسوی کے ثلثِ اول کی ہے ،جب لاہور کے شیخ التفسیر کی جانب سے علم اعتبارکے پسِ پردہ فاسد توجیہات پر مبنی کچھ تحریریں منظر عام پر آنا شروع ہوئیں ،ساتھ ہی فارغینِ مدارس کے لیے قائم شدہ دورہٴ تفسیرکے کچھ احوال اور نمونے سامنے آئے-جن میں تفسیر کے باب میں بے اصولی برتی گئی تھی-تو اُس وقت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (۱۸۶۳تا۱۹۴۳ء)نے مذکورہ دونوں باتوں پر تنبیہ و استدراک کرتے ہوئے۱۹۲۹ء (۱۳۴۷ھ) میں”التقصیرفی التفسیر“نامی رسالہ تصنیف فرمایا۔گویایہ رسالہ شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری (۱۸۸۵تا۱۹۶۲ء)کے تفسیری اِفراط و تفریط کے جائزہ پر مشتمل ہے اور اِس کے مخاطبِ اول وہی ہیں ، پھر اس وصف کے حامل(یعنی تفسیرمیں اِفراط و تفریط کرنے والے) دیگرلوگ بالواسطہ مخاطب ہیں۔
اِس وضاحت سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ رسالہ کا مقصدِ تالیف ،تفسیری کوتاہیوں پر توجہ دلانا تھا ؛مگراِس کے ساتھ حکیم الامت کے پیشِ نظر سادہ لوح فارغینِ مدارس کودورہٴ تفسیر لاہور میں شرکت سے باز رہنے کی خیر خواہانہ نصیحت بھی تھی۔چناں چہ یہ نصیحت موجود حضرات کے سامنے تو تقریری طور پر اور غیر موجودین کو رسالہ ہذا کے ذریعہ تحریری طور پر کر دی گئی ،تاکہ حقیقت سب کے سامنے آ جائے،پھر ہر ایک اپنے دین کا خود ذمہ دار ہے۔بایں معنی دیکھا جا ئے ،تویہ رسالہ بڑی اہمیت کا حامل ہے اورخواص کو خبرو اِطلاع ہونے کی حد تک ،یک گونہ شہرت بھی رکھتا ہے؛مگر اکثر اہلِ علم کی رغبت ونظراِلتفات سے محروم اور بیشتر کے لیے نامانوس ہے۔
لاہور کا دورہ تفسیر اور پس منظر
مفسرلاہوریاور اُن کے دورہٴ تفسیر کا مختصر تعارف یہ ہے کہعلامہ سندھی نے پہلے پہل ” نظارة المعارف القرآنیہ “دہلی(۱۹۱۳ء) میں علم اعتبار کا نام لے کر تفسیر بالرائے کو رواج دینا شروع کیا ۔اِس کے تین سال بعد علامہ سندھی اپنے شاگرد عزیزمولانا احمد علی لاہوری کو ادارہ کی باگ ڈور سونپ کر بیرونِ ملک سفرپر روانہ ہو گئے ۔ بعد ازاں ،مولانا احمد علی کو بھی تحریکات میں شرکت کے باعث قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں؛مگر ر ہائی کے بعدجب کئی ماہ کے لیے حدودِ لاہورمیں نظر بند کر دیے گئے،توموصوف نے دہلی والا سلسلہ لا ہور میں جاری کیا اور تا دمِ آخراُسے جاری رکھا۔اصل میں تو وہ سندھ کے رہنے والے تھے؛لیکن لاہور میں سکونت پذیر ہو جانے کی وجہ سے لاہوری، او راپنے سلسلہٴ درس تفسیر کے ذریعہ شیخ التفسیر کے نام سے مشہور ہوئے ۔اِس طرح ۱۹۲۴ء سے جاری سہ ماہی دورہٴ تفسیرلاہور میں تکمیل تفسیر کی غرض سے فارغین مدارس کے آنے کا ایک سلسلہ قائم ہو گیا اور رفتہ رفتہ ملک میں اِس دورہٴ تفسیرکی خوب شہرت ہوگئی ۔
”التقصیرفی التفسیر“کا موردِ خاص:ایک تجزیہ
ابھی اِس سلسلہ کی ابتدا کو،کوئی پانچ سال ہی ہوئے ہوں گے کہ بعض اہلِ بصیرت کواِس کے مضر اثرات کاشدید احساس ہوا اور اِس حوالہ سے سب سے پہلے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کو اصلاح کی فکر پیدا ہوئی ،جس کے نتیجہ میں رسالہ ”التقصیرفی التفسیر“کی تالیف وجود میں آئی(جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا)۔اِس طرح یہ بات تویقینی ہے کہ ۱۹۲۹ء میں منصہٴ شہود پر آنے والی تصنیف”التقصیرفی التفسیر“ کے براہِ راست مخاطب مولانا احمد علی لاہوری ہیں،نہ کہ قبل از ہجرت تفسیر بالرائے کو رواج دینے والے استاذسندھی(۱) یایورپ وغیرہ سے زائغانہ افکار لے کر(۱۹۳۹ء میں) واپسیِ وطن کرنے والے امام انقلاب علامہ عبید اللہ سندھی،کہ جن افکار سے خود مفسرلاہوری اِظہارِ برات کر چکے تھے۔
مولانالاہوری کا تفسیری طریقہٴ کار
ہاں، اِس میں شبہہ نہیں کہ قبل از ہجرت ،علامہ سندھی سے مولانا لاہوری نے اِستفادہ کیا تھا اوراِسی لیے یہ بات جاننی ضروری ہے کہ علامہ سندھی کے دورِ اول کا طریقہٴ کارکیا تھاجس سے مولانا لاہوری نے استفادہ کیا تھا؟ اس کی وضاحت خود مفسر لاہوری سے سنیے،وہ لکھتے ہیں:
”استاذ سندھی مرحوم… نے دہلی میں نظارة المعارف القرآنیہ قائم کیا،اُس وقت اُن کے ذہن میں دو چیزیں نمایاں تھیں:
۱-سیاست و حکومت و سلطنت کا تخیل زیادہ قوت کے ساتھ اُن کے ذہن میں تھا۔
۲- مسلمانوں کی موجودہ سیاسی غلامی پر قناعت کے زہر کا تریاق اِسی طریقہٴ تفسیر کو قرار دیتے تھے۔‘ “
(۱) حکیم الامت نے مولانا عبیدا لله سندھی کے تذکرہ میں ایک موقع پرفرمایا:”ان ہی مولوی صاحب نے دہلی میں تفسیر کا ایک مدرسہ جاری کیا تھا؛مگر تفسیر بالرائے کے طور پر پڑھاتے تھے۔“(ملفوظاتِ حکیم الامت جلد ۱۴”کلمة الحق“ ص ۱۲۰، ۱۲۱)
مفسر لاہوری نے یہ اعتراف علامہ سید سلیمان ندوی کے نا م ارسال کردہ اپنے ایک مکتوب میں کیاہے ، اُسی مکتوب میں وہ مزید لکھتے ہیں:
”جناب والا کو یہ بھی یاد ہوگا کہ” نظارة المعارف القرآنیہ “کی کلاس میں پانچ گریجوئیٹس اور پانچ روشن خیال عالم نوجوان لیے گئے تھے،اِسی لیے مولانا(سندھی) نے سیاست و حکومت و سلطنت کے تخیل کو مدِ نظر رکھ کر ہم لوگوں کو قرآن شریف پڑھایا تھا۔“(۲)
حاصلِ کلام یہ کہ،مقصد یہی تھاکہ مسلمانوں کی قومی اِجتماعی سیاست اور یورپ میں غالب سیاسی فکر و عمل کے درمیان موازنہ کیا جائے۔ اور معلوم ہے کہ اِس قسم کے مفکروں کے یہاں موازنہ کا مطلب تطبیق دیناہوتا ہے،جس کے لیے اِفراط و تفریط تقریباًلازم ہے۔تفسیر کے اِسی طریقہٴ کار کو مفسر لاہوری نے اپنے قائم کردہ دورہٴ تفسیر اور مترجم و محشی تفسیر قرآن میں جا ری کیا۔
جب اِس کی مضرت کے بعض نمونے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے سامنے آئے ،توآپنے واقعہ کی صحیح صورتِ حال اوراصل کیفیت سے اطلاع حاصل کرکے عملی طور پربر وقت نوٹس تو اِس طرح لیا کہ وہاں جانے کا قصد کرنے والے فضلائے مدارس کو جانے سے روکااور تحریری طور پر اِس طرح سد باب فرمایاکہ رسالہ ”التقصیر فی التفسیر“ تصنیف کر کے دوسروں کو اِس کی مضرت سے آگاہ کیا۔ملاحظہ ہورسالہ مذکورمیں مصنف کے الفاظ :
”احقر نے اُن صاحب کو تو وہاں جانے سے زبانی منع کر دیا۔“
خیال رہے کہ ” وہاں “کا مشار الیہ دورہٴ تفسیرلاہورہے۔اِس موقع پر یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ” وہاں “جانے سے روکنااور”التقصیرفی التفسیر“کی تصنیف ،دونوں واقعے ایک ہی سال (۱۹۲۹ء=۱۳۴۷ھ کو) ظہور میں اُس وقت آئے جب علامہ سندھی کو بیرونِ ملک روانہ ہوئے ۱۴ سال گزر چکے ہیں اور پھرکہیں ۹ سال بعد جا کر واپسیِ ہند کی صورت ممکن ہوسکی ۔اگر وہاں جانے سے منع کیا،کامطلب درسِ سندھی میں شرکت سے منع کیا،تواِس زمانہٴ فترت(دورانِ جلا وطنی ۱۹۱۵تا۱۹۳۹ء) میں درسِ سندھی سے منعِ شرکت چہ معنی دارد؟
دوسرے ،اگریہ واقعہ بیرون ملک سفر سے پہلے اُس وقت کا ہے جب علامہ سندھی دہلی میں تفسیری درس
(۲)مولانا سندھی کے افکار: ص۱۰۲۔نیزایشیا کی عہد ساز شخصیتیں اور خلافتِ الٰہی ص۷۷
دیا کرتے تھے -اور اُس وقت عزیز موصوف کے وہاں جانے سے حکیم الامت کو رنج ہوااور دلسوزی سے رسالہ ”التقصیر فی التفسیر“ ؛لکھنے کی طرف طبیعت مائل ومتوجہ ہوئی ،جیسا کہ مصنف کے احساسات کی جھلک فقرہٴ ذیل میں پائی جا تی ہے کہ ،اُن صاحب کو تو وہاں جانے سے زبانی منع کر دیااور تفسیری درس میں شرکت کے لیے جانے والے: ” اُن عزیز کے لیے بھی دلسوزی سے دل چاہا کہ اس کے متعلق کچھ مختصر سا لکھ بھی دوں، تاکہ حقیقت کی اطلاع ہو جا وے۔“-تو اِس کا اِمکان بھی معدوم ہے۔کیوں کہ تعبیرِ حکیم الامت میں عزیزسے مراد مولانا محمد طاہر قاسمی بن مولانا محمد احمد بن الامام محمد قاسم نانوتوی ہیں ،جن کی عمراُس وقت صرف گیارہ سال یا اُس سے کم ہے ۔اِتنی کم سنی میں تفسیری درس میں شریک ہو کر اِستفادہ کا تصورکیوں کر کیا جا سکتا ہے! علی سبیل التنزل،اگراس عمر میں شریک درس ہونافرض بھی کر لیں،تو عبارت کا سیاق و سباق اوررسالہ کا سن تصنیف اِس کا انکاری ہے،کیوں کہ تصنیف ۱۹۱۵ء میں نہیں،۱۹۲۹ء میں ہوئی ہے۔
ایک تیسری بات یہ ہے کہ حکیم الامت خود ،رسالہ ”التقصیر فی التفسیر “کا محرک خاص ،شیخ التفسیر کے تفسیری افراط و تفریط کوبتاتے ہیں اوررسالہ چھپ جانے کے بعد مخاطب پر ہونے والے اثر اور رد عمل کاذکرکرتے ہیں،تو بار بار اِس قسم کے فقرے ادا کرتے ہیں:
”ایک مولوی لاہوری کے مسلکِ تفسیر کے رد میں ،میں نے ایک مضمون لکھا تھا ۔“ ”فلاں درسگاہ کے شیخ التفسیر بیعت ہونا چاہتے ہیں، میں نے لکھ دیا ہے کہ جب تک آپ اپنی غلط اور خلا فِ شرع تفسیر سے رجوع نہیں کریں گے، میں آپ کی خدمت نہیں کر سکتا، انھوں نے لکھا کہ اگر نفع رجوع ہی پر موقوف ہے تو میں رجوع کرتا ہوں، اِس پر میں نے لکھا کہ اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ اس تفسیر کو حق سمجھتے ہوئے بامیدِ نفع رجوع کرتا ہوں، حالاں کہ وہ تفسیر اغلاط و اباطیل پر مشتمل ہے، اس سے رجوع واجب ہے، خواہ اور کوئی نفع ہو یا نہ ہو“وغیرہ۔
(ملفوظات حکیم الامت کے حوالہ سے اِس قسم کی ضروری تفصیلات آئندہ اپنے موقع پر آئیں گی)
اِن جیسے فقروں میں ’لاہور ی ‘ نسبت اور’ شیخ التفسیر‘کا لقب مولانا احمد علی پر تو صادق آتے ہیں،علامہ عبید ا لله سندھی پر نہیں،کیوں کہ جلا وطن کیے گئے مولاناعبید ا لله کے آگے سندھی لگتا ہے، لاہوری نہیں اور وہ’ امام اِنقلاب‘ تو کہے جا تے ہیں،’شیخ التفسیر‘ نہیں۔
مذکورہ بالا وضاحت کے بعد ، اِس کی گنجائش تو نہیں رہ جاتی کہ ”التقصیرفی التفسیر“ کا مخاطبِ اول مفسر لاہوری کے بجائے کسی اور کو ٹھہرایا جائے اورمولانا لاہوری کے متنازع فیہ دورہٴ تفسیر و مترجم محشی قرآن کی تفسیرجس کامخدوش و متہم ہونا”التقصیر“میں ثابت کیا گیا ہے، اُسے بر خلاف دلائل و حقائق کے محض خوش گمانی پر مبنی بعض اکابر کے تقریظی اقوال کے سہارے مستند باور کرایا جائے۔
موردِ خاص: شواہد ، دلائل اور حقائق
ہاں،اگر شواہد ، دلائل و حقائق کی روشنی میں مخاطبِ اول کی تفتیش ہی درکار ہے اور مفسر لاہوری کے تفسیری رسائل و مضامین اور دور ہ تفسیرکی اِستنادی حیثیت کے مخدوش و متکلم فیہ ہونے میں شک ہے،تودرج ذیل امور سے اِن باتوں کا پتہ لگاکر قلب کا اِطمینان کیا جا سکتا ہے:
۱- ”التقصیرفی التفسیر“ کی فصل اول میں مندرج واقعات اربعہ
۲- مورد خاص کی تعیین :بہ حوالہ ملفوظاتِ حکیم الامت
۳-تفسیر لاہوری اور تقریظاتِ اکابر کی اصل نوعیت
۴-توجیہاتِ شیخ التفسیر -تنبیہاتِ حکیم الامت
۵- باخبر حضرات کی زبانی روایات یا تحریری یاد داشت
۶-آپ بیتی شریک دورہٴ تفسیر،
آئندہ صفحات میں یہ سب امور بالترتیب ذکر کیے جا رہے ہیں۔
۱-”التقصیرفی التفسیر“ کی فصل اول میں مندرج واقعات اربعہ (۱)
تالیف کے پس منظر کے طورپر مصنف نے چار واقعات اور چند تحریروں کے حوالہ سے
اِس بات کی تنقیح و تفتیش کی ہے کہ تفسیر ی اِفراط و تفریط پر مبنی دورہٴ تفسیر کے تعدیہ کی مضرت کس نوعیت کی ہے؟ مفسر لاہوری کی کاوش علمِ اعتبار کے تحت آتی ہے یا نہیں؟نصوص کے مدلولات تفسیر بالرائے کے طور پر تو نہیں پیش کیے جارہے ہیں؟وغیرہ۔
(۱) اِن واقعات میں یہ رپورٹ دی گئی ہے کہ دورہٴ تفسیرلاہور کے اسباق اورالتقصیر فی التفسیر میں مندرج توجیہات سے مترشح افکار ایک دوسرے کے ساتھ منطبق ہیں،یعنی تقریری درس اور تحریری توجیہات،دونوں ایک ہی بزرگ مفسراحمد علی لاہوری مرحوم سے تعلق رکھتے ہیں۔
رسالہ”التقصیر فی التفسیر“میں حکیم الامت لکھتے ہیں:
۱-پہلا واقعہ یہ پیش آیا کہ ” اپنی جماعت کے ایک ذی اثر نو عمر عزیز (۱) ترجمہ یا تفسیر کی تحصیل کے لیے ایک ایسے مقام میں پہنچے جہاں تفسیر میں اسی قسم کے اِفراط وتفریط (جورسالہ کی تمہید ومقدمہ میں مذکور ہوئی ہیں) کا احتمال اہل علم کی روایت سے معلوم ہوا تھا۔“(۲)
”مگر چونکہ ہر سنی ہوئی بات موثوق نہیں ہو تی، اس لیے عزم تھا کہ اُن عزیز سے اِ س کی اصل دریافت کی جا وے گی۔ لیکن اتفاقاً اُن عزیز کو خود ایسی پریشانیوں کا سامنا ہو گیا جس سے ایسی تحقیق کی گرانی ان پر ڈالنے کو دل نے گوارا نہیں کیا۔ قریب ایک سال کے، اسی حالت راہنہ (حالت موجودہ) میں گذر گیا۔“(۳)
۲-دوسراواقعہ یہ پیش آیا کہ”غالباََ ایک مہینہ ہوا ہو گا کہ مجھ کو ایک فاضل دوست (مولانا حبیب احمد کیرانوی)(۴)نے دو رسالے (تفسیر میں افراط وتفریط روا رکھنے والے) اُنہی مترجم کے دیے۔ ایک میں سورہ قریش کی تفسیر تھی، دوسرے میں سورہ کوثر کی، جس کی لوح پر صریح لفظ ”سلسلہ تفسیر و تشریح مضامین سورہ“ لکھا ہے،جس سے اُن تقریرات کا’ علم اعتبار ‘میں داخل ماننے کا احتمال بھی دفع ہو گیا، کیوں کہ علم ا عتبار نہ تفسیر ہو تا ہے اور نہ اُس کی معلومات نصوص کے مضامین یعنی مدلولات ہو تے ہیں۔ صرف اُن مضامین کے مشابہ ہو تے ہیں، کما ذُکِرَ فی ا لمقدمة (۲)
(۱)راقم الحروف تک یہ روایت مفتی مجدالقدوس خبیب رومی کے واسطے سے پہنچی ،اُنہوں نے اِسے روایت کیا اپنے والد مفتی عبدالقدوس رومی مفتیِ شہر آگرہ تلمیذ خاص مولانا اسعد الله صاحب سے، کہ نام کی اِس تعیین کے ساتھ حضرت ناظم صاحب نے اُن سے یہ واقعہ ذکر کیا۔ (۲)تفسیری اِفراط وتفریط کا وہ مقام لاہور کا دورہٴ تفسیر تھا اور وہ مفسر مولانا احمد علی لا ہوری تھے،بہ روایت مفتی مجدالقدوس خبیب رومی صاحب بہ سلسلہ مذکور۔نیز یہ بات آئندہ اور زیادہ واضح ہو جائے گی،بہ ذریعہ مولانا ظہورا لحسن کسولویمجاز صحبت حکیم الامت و استاذ مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور بہ توسط مولانا عبد الرحمان حید رآ بادی فاضل مظاہر علوم سہارن پورشریک دورہ تفسیر لاہور۱۹۵۸ء۔ (۳)توضیح از راقم:عزیز سے مرادمولانا محمد طاہر قاسمی برادر مولاناقاری محمد طیب صاحب ہیں حسبِ روایت مولانا اسعد الله صاحب سابق ناظم مظاہر علوم سہارن پور۔نو عمر عزیز کو پریشانی لاحق ہونے کا جو ذکر ہے،وہ یہ تھی کہ اُن کے والد حضرت فخرالاسلام مولانا محمد احمد صاحب مہتمم خامس دارالعلوم دیوبند کا اُنہی ایام (۳/جمادی الاولی ۱۳۴۷ھ)میں انتقال ہو گیا تھا۔
(۴)نام کی اِس تعیین کا واسطہ بھی مفتی مجدالقدوس خبیب رومی صاحب حفظہ الله ہیں۔اور موصوف نے اِسے اپنے والد مفتی عبدالقدوس رومی مفتیِ شہر آگرہ مستفید خاص” مولانا حبیب احمد کیرانوی“ صاحب حل القرآن سے روایت کیا ہے، مولانا حبیب احمد کیرانویکو حکیم الامت نے تھانہ بھون میں پہلے تدریس کے لیے رکھا ،پھر اُنہیں تصنیف کے کام سے متعلق کردیا۔وہ حضرت کی تحریرات و تصنیفات کے لیے تنقیح کے کام کے ساتھ مفکرینِ عصر کی طرف سے کیے گئے فکری سوالات و اِشتباہات کے جوابات اور تحقیقات کے امور انجام دیتے تھے۔(۲)جیسا کہ مقدمہ میں مذکور ہوا۔
اُن کے دیکھنے سے (تفسیر میں اِفراط و تفریط کا)بہ درجہ اِجمال وہ احتمال مبدل بہ یقین ہو گیا۔“
۳-تیسرا واقعہ یہ پیش آیاکہ ”اپنی جماعت کے ایک صحیفہ شہریہ بابت شعبان ۱۳۴۷ھ میں اُن عزیز(مولانا طاہر قاسمی ابن مولانا حافظ محمد احمدصاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند ) کے ایک مضمون معنون بہ” نتائج القرآن “کے بعض مقدمات نظر سے گزرے۔ اُن کے طرزِ تحریر سے شبہ ہوا کہ عجب نہیں کہ یہ اُسی(لاہوری) شان کی تفسیر کا توطیہ (وتمہید) ہو۔“
۴-چوتھا واقعہ ”پھر وسط شعبان مذکور ( ۱۳۴۷ھ) میں اپنی جماعت کے بعض طلباء سے ملاقات ہوئی جو(دارالعلوم ، مظاہر علوم سے تحصیلِ درسیات کر کے دورہٴ تفسیرمیں شرکت کے لیے) اُسی مقام پر جانے کو تیارتھے اور اُن ہی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ متعدد(فارغ التحصیل) طلبہ جانے کو ہیں، جن کا سبب میرے گمان میں اُن عزیز(مولانا طاہر قاسمی) کا جا نا ہے جو واقعہ اولیٰ میں مذکور ہوا۔(پھرشرکت ِدورہٴ تفسیرلاہور کے لیے جانے کو تیارفارغ التحصیل) اُن ہی صاحب نے چند اجزاء قلمی لکھے ہوئے دکھلائے -جن میں مترجم مذکور (مفسر لا ہو ری) کے ایک شاگرد نے اپنے استاد کی بعض تقریرات ضبط کی تھیں اور وہ اجزاء اُن صاحب ( چوتھے واقعہ میں مذکور عازم بہ لاہور)کو نقل کے لیے دیے تھے-اُن کے دیکھنے سے ( مولانا حبیب احمد کیرانویکے فراہم کردہ دو رسالوں سے حاصل شدہ تفسیر میں اِفراط و تفریط کا)وہ امر محتمل مجمل جو واقعہ دوم میں مذکور ہوا (اور جو”سلسلہ تفسیر و تشریح مضامین سورہ“ قریش و کوثردیکھنے کے بعدمبدل بہ یقین ہو گیا تھا،اب )مفصلاً متحقق ہو گیا۔
نیز اُن (قلمی تفسیری)اجزاء( ضبط کردہ شاگرد مترجم لاہوری ) میں کچھ تعریفات اور کچھ مقدمات بھی تھے، اُن میں سے بعض مقدمات کا(مضمون،مولانا محمد طاہر قاسمی کے ) ”نتائج القرآن “کے بعض مقدمات سے بعینہ توافق دیکھ کر- جس پر فصل پنجم کے جزو دوم میں تنبیہ کی جاوے گی(۱) – اُس توطیہ(و تمہیدِ)مضمون ” نتائج القرآن “(موافق طرزِ تفسیرِلا ہوری) کا ظن، قریب بہ یقین غالب ہو گیا،جس کا ذکر واقعہ سوم میں ہوا ہے۔(یعنی یہ بات اورظاہرہو گئی کہ مولانا محمد طاہر قاسمی کا مضمون لاہوری شان کی تفسیر کی تمہیدہے۔)
احقر نے (دورہٴ تفسیرکے لیے تیار)اُن صاحب کو تو وہاں(لاہور) جانے سے زبانی منع کر دیا(۲)؛
(۱)تعریفات و مقدمات کے صحت و سقم اور تفسیری تو جیہات کے اِجراء و اِطلاق پر گفتگو کے موقع پرجو رسالہ ”التقصیر فی التفسیر“ میں مستقل عنوان کے تحت کی گئی ہے۔(۲)ظاہر ہے کہ علامہ سندھی کے درس میں دہلی جانے سے تو روکا نہیں گیا،کیوں وہ گزشتہ ۱۴ سال سے جلاوطن ہیں اور دس سال بعد واپسیِ ہند کی نوبت آ سکی ہے۔
مگر دوسرے غائب حضرات کے لیے بھی عموماََ اور اُن عزیز(مولانا محمد طاہر قاسمی ) کے لیے بھی دلسوزی سے دل چاہا کہ(جس تفسیری درس میں وہ شرکت کے لیے گئے تھے)، اُس کے متعلق کچھ مختصر سا لکھ بھی دوں، تاکہ حقیقت کی اطلاع ہو جا وے، پھر ہر ایک اپنے دین کا خود ذمہ دار ہے، پھر جانا نہ جانا اِس کا مصداق ہو گا:﴿لِیَہلِکَ مَنْ ہلَکَ عَنْ بَیِّنَةِِ وَّیَحْی مَنْ حَیََّ عَنْ بَیِّنة﴾ِِ۔(۱)
۲- مورد خاص کی تعیین بہ حوالہٴ ملفوظات حکیم الامت
واضح رہے کہ فاسد اصولوں پر مبنی قرآنی توجیہات کو علامہ سندھی نے ’علمِ اعتبار‘ کا نام دیاتھا۔ پھر ان کے تلمیذِ ذی وقار،دور ہٴ تفسیر خدام الدین لاہورکے بانی، مولانا لاہوری نے بھی اپنے دورہٴ تفسیرمیں صواب وسداد سے ہٹے ہوئے اُنہی اصولوں کو جا ری کیا،جس کا رد حکیم الامت نے لکھااور ایک سال بعد ایک مجلس میں اُس کا ذکر کچھ اس طرح فرمایا:
” ایک مولوی لاہوری کے مسلکِ تفسیر کے رد میں ،میں نے ایک مضمون لکھا تھا ۔ اُس کو ایک مدرسہ والے مولوی خود چھاپنے کے لیے مجھ سے لے گئے تھے،وہاں جا کر اُنہوں نے اُن مفسر کے ایک خط سے متاثر ہو کرلکھا کہ اِس کو چھاپا نہ جائے ؛بلکہ اُن کو بلا کر سمجھا دیا جائے۔میں نے کہا کہ بھائی میرا مضمون مجھے دے دو،میں خود چھپوا لوں گا،کیوں کہ اہلِ مدارس کی نظر، مصالح پر ہوتی ہے۔اور میں اُس کو سالن کے مزہ دار کرنے کے لیے خوب پیستا ہوں۔“(۲)
چھاپنے کا انتظام حکیم الامت نے خود کیا۔شائع ہونے ” کے بعداُن مفسر مولوی صاحب (شیخ التفسیرلاہور)نے لکھا کہ تم نے میرا رد لکھا ہے ،اگر میں نے بھی رد لکھا تو کیا عزت
رہ جائے گی!میں نے کہا کہ کسی خاص کا نام لے کر تو لکھا نہیں،جس کا ایسا خیال ہو وہی اس کا
مخاطب ہے، اگر تم ایسے ہو،تو تم ہی مخاطب ہو۔میں نے حق سمجھ کر لکھا ہے،آپ شوق سے ردلکھیں،ناظرین خود فیصلہ کر لیں گے۔پھر وہ خا موش ہو گئے؛بلکہ اُنہوں نے ایک کتاب لکھی تھی، میرے پاس اِصلاح کے لیے بھیجی،(مجلس کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا ) اتباعِ حق کا یہ اثر ہوتا ہے جو ابھی ذکر ہوا۔
(۱)ترجمہ آیت: تاکہ (حق کا نشان ظا ہر ہو جاوے اور) جس کو برباد (گمراہ) ہو نا ہے، وہ نشان آئے پیچھے برباد ہو اور جس کو زندہ (یعنی ہدایت یافتہ) ہو نا ہے وہ (بھی) نشان آئے پیچھے زندہ ہو۔ (بیان القرآن ج۴ ص ۹ ۷ ) (۲) جلد ۱۱ ” حسن العزیز جلد دوم “ص۱۱۷،۱۱۸۔
اور جو شخص سب کو راضی کرنا چاہتا ہے،وہ سب کو نا راض کر دیتا ہے۔“(۱)
مذکورہ بالا یہ فقرہ” کسی خاص کا نام لے کر تو لکھا نہیں،جس کا ایسا خیال ہو وہی اس کامخاطب ہے،اگر تم ایسے ہو،تو تم ہی مخاطب ہو۔“ بہت معنی خیز ہے۔اور اِس سے یہ سمجھ لینا چا ہیے کہ دوسرے مواقع پر مخاطب کی قرائن سے نشاندہی ہو جانے اور نام کی صراحت نہ ہونے سے اِس کی گنجائش نہیں نکلتی کہ عمومِ لفظ کا سہارا لے کر مرادِ مصنف سے تجاوز کیا جا ئے، کیوں کہ جیسے یہ اصول ہے کہ اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے،خصوص مورد کا نہیں،ویسے ہی مرادِ مصنف سے تجاوز کی اجازت نہ ہونا بھی مسلمات میں سے ہے۔(۲)لہذا قرائن سے ”التقصیر“ کا مخاطب متعین ہونے کے بعد،عموم لفظ کا سہارا لے کراس میں اِبہام پیدا کرنا درست نہیں ہو سکتا ۔اس لیے اِس کے پہلے مصداق مفسر لاہوری ٹھہرتے ہیں،پھر اُن کے واسطے سے دیگر غلطی کرنے والوں کو بھی یہ خطاب عام ہو گا ،کیونکہ قرائن سے موردِ خاص کی نشاندہی ہو گئی جو کہ مراد مصنف ہے ۔
”التقصیرفی التفسیر“ طبع ہونے کے بعد ،مفسر لاہوری کی نظر سے گزری تو مصنف کے ساتھ اُن کی مراسلت ہوئی ،پھرقصہ طویل ہے؛ لیکن آخرکار مولاناموصوف کو اپنی اصلاح کی فکر ہوئی اور اُنہوں نے بعد کے ایک مکتوب میں مصنف سے بیعت کی درخواست کی۔ واقعہ کی روداد ملفوظات حکیم الامت میں اس طرح ہے:
”فلاں درسگاہ کے شیخ التفسیر بیعت ہونا چاہتے ہیں، میں نے لکھ دیا ہے کہ جب تک آپ اپنی غلط اور خلافِ شرع تفسیر سے رجوع نہیں کریں گے، میں آپ کی خدمت نہیں کر سکتا، انھوں نے لکھا کہ اگر نفع رجوع ہی پر موقوف ہے تو میں رجوع کرتا ہوں، اِس پر میں نے لکھا کہ اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ اس تفسیر کو حق سمجھتے ہوئے بامیدِ نفع رجوع کرتا ہوں، حالاں کہ وہ تفسیر اغلاط و اباطیل پر مشتمل ہے، اس سے رجوع واجب ہے، خواہ اور کوئی نفع ہو یا نہ ہو۔ اس کے جواب میں آج خط آیا ہے کہ میں رجوع کا مسودہ بھیجتا ہوں، آپ اصلاح بھی فرمادیں اور جس
(۱)جلد۱۱”حسن العزیز جلد دوم “ص۱۱۷،۱۱۸۔ (۲)ایضاً۔یہاں چند باتیں قابلِ توجہ ہیں:جدید ملفوظات ، د وسراحصہ موسوم بہ ”ملحوظات “میں مندرج یہ ملفوظ ۱۳۴۸ھ کا ہے ۔اِس کے ایک سال قبل ۱۳۴۷ھ میں رسالہ التقصیر فی التفسیر تصنیف ہوا ۔ اِس کے ضابط مولانا محمد نبیہ ٹانڈوی ہیں۔ حکیم الامت نے اِس مجموعہ ملفوظات کی نظر ثانی فرمائی اور نام یہ تجویز فرمایا:”اشرف التنبیہ فی کمالاتِ بعض ورثة الشفیع النبیہ“۔لفظ ”النبیہ“کی مناسبت تو ظاہر ہے کہ اِس سے مراد ضابطِ مجموعہ ملفوظات ہیں ۔اور” الشفیع “کی مناسبت ضبطِ مجموعہ ملفوظات کی تحریک دلانے کی حیثیت سے مفتی محمد شفیع عثمانی کا نام تسمیہ ملفوظات کا جزوہے۔
طرح مناسب ہو چھپوا کر شائع بھی فرما دیں، میں نے مسودہ میں چند اصلاحات کردی ہیں مثلاً انھوں نے لکھا تھا کہ مجھ سے دانستہ تفسیر میں غلطیاں ہوگئی ہیں، میں نے اس کوکاٹ کر لکھ دیا ہے کہ وہ غلطیاں اہل زیغ کی صحبت کا اثر ہیں ، اور ان کا یہ لکھنا کہ چھپوا کر شائع کردو مجھ کو ناگوار ہوا،(۱) اس کا جواب میں نے لکھا ہے مجھ کوچھپوانے کی کیا ضرورت ہے آپ ہی کی مصلحت ہے، آپ ہی انتفاع چاہتے ہیں، آپ خود چھپوا کر شائع کیجیے یا نہ کیجیے، انھوں نے ایک خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ میں نے اپنی تفسیر کی غلطیاں معلوم کرکے آئندہ کے لیے اس کی اشاعت و طباعت بند کردی ہے، میں نے اس کے جواب میں لکھا کہ یہ تو آئندہ کا تدارک ہوا، اور جوگزشتہ اشاعت سے نقصان پہنچ چکا اور پہنچ رہا ہے، اس کی تلافی بجز اعلان رجوع کے اور کسی طرح نہیں ہوسکتی، میں ان کی ہمت کی داد دیتا ہوں کہ رجوع پر آمادہ ہوگئے، جب طلب صادق ہوتی ہے تو یہی حالت ہوتی ہے۔ “
جامع ِملفوظ حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب نے آگے یہ قوسینی عبارت لکھی ہے:
” (ان مفسر صاحب نے اس رجوع کو شائع فرما دیا ہے)۔“(۱)
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اعلانِ رجوع مفسر کی نظر میں اصلاح کی غرض سے تھااور مولانا عبد الباری ندوی کے مضمون ”سیرة السید کے انمول سبق“مطبوعہ” معارف سلیمان نمبر “۱۹۵۵ء،سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ مفسر نے حکیم الامت سے اصلاح کا رابطہ قائم کرنے کے بعد منقطع کر دیا۔اِس ا نقطاعِ تعلقِ اصلاح کا اثر بہ ظاہر یہ سامنے آیا (یا ممکن ہے مفسر موصوف کو ذہول ہوا ہو،جو بھی وجہ ہو)مفسر نے اپنی تفسیر میں- موافقِ اِستدراکاتِ حکیم الامت – ترمیم نہیں فرمائی۔اگر کہیں کچھ تبدیلی کی ،تو بہ کثرت جگہیں اصولِ صحیحہ کے تتبع کے بغیر ہی رہنے دیں،چناں چہ اُن کی تفسیر میں یہ مثالیں اب بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
ملفوظات جلد ۲۵کے اُسی مجموعہ اسعدالابرارچہار شنبہ ۴/رجب ۱۳۵۷ھ بعد عصر مسجد خواص کی مجلس کے ارشادات کتاب کے ص۱۱سے ۲۰،۲۱تک چلے گئے ہیں۔ ص۱۵ کی اخیر کی سطور میں درج ہے :
”لوگ تصوف کے مضامین کے اشارات کو تفسیر سمجھ لیتے ہیں۔ حالاں کہ نہ وہ اشارات یقینی ہیں،نہ اُن سے تفسیر مقصود ہے ۔یہ تو علم اعتبار کہلاتا ہے ۔“متصلاًارشاد ہے :”التقصیر فی التفسیر “(میں) میں نے ایسے استنباطات کا درجہ لکھ دیا ہے کہ یہ فقہی قیاس سے بھی کم درجہ کے ہیں۔‘اسی صفحہ پراگلا ملفوظ ہے :
(۱)دیکھیے: بوادرا لنوادر جلد ۲ ص۶۔
”آج کل بعض لوگوں نے قرآن کریم کی آیتوں سے نئی سیاست کو مستنبط کرنا شروع کر دیا ہے ، یہ ایک قسم کی تحریف ہے ۔ ایک صاحب نے اس مضمون کو کہ کافر کی حکومت پر(کذا) جائز نہیں، آیت ﴿وَلا تُنْکِحُوْا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّی یؤمِنوْا﴾ سے مستنبط کیا ہے کہ جب ایک مسلمہ کا کافر کے تحت میں رہناجائز نہیں، تو بہت سے مسلمانوں کاکسی کافر کے ما تحت رہنا کیسے جائز ہوگا۔
لیکن اِس مضمون کا اِس آیت سے کوئی تعلق نہیں؛ البتہ دوسری دلیلوں سے ثات ہے ۔ اور اگر اِسی دلالت کی بنا پر یہ کہاجائے کہ دوسری آیت میں ﴿وَلَا تَنْکِحُوْا الْمُشْرِکَاتِ حَتّی یُؤمِنَّ، ﴾جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکہ کا مسلمان کے تحت میں رہنا جائز نہیں، تو بہت مشرکوں کا مسلمانوں کی رعایا بن کر رہنابھی جائز نہ ہوگا، تو اِس کاکیا جواب دیں گے ۔ یہ حال ہے اِن استنباطوں کا، تعجب ہے کہ طلبہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد جوق در جوق یہ ترجمہ پڑھنے جا تے ہیں۔ “بہر حال مذکورہ ملفوظ سے متصلا بلا فصل آگے ارشاد ہے :
”آج کل ایک ایسے ہی مفسر نے مجھ سے تربیت کی در خواست کی ہے ۔ میں نے جواب لکھاہے کہ پہلے یہ بتاوٴ کہ جو تفسیر تم نے لکھی ہے وہ حق ہے یا نا حق؛ اگر حق ہے ، تو مجھ میں تم میں مناسبت نہیں۔ اور اگر وہ نا حق ہے ،تو کیا اس سے رجوع کااعلان کر لیا ہے ۔ اِس کا جواب گول لکھا ہے کہ اگر تربیت اِسی پر موقوف ہے تو میں رجوع کا اعلان کر دوں گا، جن لفظوں میں آپ لکھیں گے ، اعلان کر دوں گا۔ لیکن اِس کا تو یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ حق تواب بھی سمجھتے ہیں؛ مگر مجبوری کو اُس کیخلاف اعلان کر دیں گے ۔ آخر اِسی کی کیا ضرورت ہے کہ مجھ سے رجوع کریں۔“(۱)
نوٹ:حکیم لامت کے مواعظ،ملفوظات،مراسلات،مکتوبات،اصلاحات، استدراکات و تنبیہات کے حوالے سے میسر مواد کھنگال ڈالنے پربھی ، بہت مشکل ہے کہ قرآنی نصوص کو سیاسات کے ساتھ منطبق کرنے کے لیے علاوہ مفسرلاہوری کے کسی مفسر نے فن تفسیر میں ایک منظم انداز میں علم اعتبار کا سہارا لے کراِس بڑے پیمانہ پر التباسات پیدا کیے ہوں۔ دوسرے دوسرے پہلوٴ وں سے مغالطے دئے گئے اور حکیم الامت نے انہی پہلوٴوں سے اُن کی اصلاح بھی کی ۔ علم اعتبار کی راہ سے تفسیری اصولوں میں کلامی نوعیت کے مغالطے،یہ شیخ التفسیر کا کارنامہ ہے،جن کا ازالہ حضرت حکیم الامت نے انموذج کے طرز پر کیا ہے۔
(۱)ملفوظاتِ حکیم الامت ”اسعد الابرار“جلد ۲۵ص۱۵،۱۷،۱۹۸، ۱۹۳۸ء۔
رہا مسئلہ تربیت کی در خواست کا،یا بیعت کے لیے رجوع ہونے کا،تو چوں کہ مفسر لاہوری مستقل طور پر ایک متصوفانہ سلسلہ رکھتے تھے اور طبیعت میں خاصی نرمی، حلم اور اثر پذیری کا وصف رکھتے تھے ، اس لیے اگر بیعت و ارادت کی غرض سے مکاتبت ہوئی ہو تو کچھ زیادہ بعید نہیں ہے :لیکن یہ ذرا نفسیاتی بات ہے کہ ایک سمت میں مسلسل محنت کے ساتھ جاری رہنے والی کاوش -جس سے بڑے نتائج بھی ظہور میں آئے ہوں،تعلیم یافتہ طبقوں اور مفکروں میں مقبول ہو، نیزموجودہ تمدنی احوال میں مفیدبھی سمجھ جاتی ہو-کے مقابلہ میں وقتی اثر پذیری کچھ زیادہ دیر پا ثابت ہو سکے ، اس لیے ارادہ منقطع کر لیا ہواور یہ منقطع کرنا ، زیادہ اہم امر کے تحفظ کے لحاظ سے کچھ قباحت نہ رکھتا ہو۔
۳-تفسیر لاہوری پر تقریظاتِ اکابرکی حقیقت
مفسر لاہوری کاتفسیری حواشی کے ساتھ مترجم قرآن مطبوعہ فرید بک ڈپو دہلی ۱۳۸۲ھ،ہمارے سامنے ہے۔اِس پرعلامہ انور شاہ کشمیری مولانا حسین احمد مدنینے ۱۳۵۱ھ میں اورمفتی کفایت الله صاحب نے۱۳۵۰ھ میں تقریظات، مولانا لاہوری کی فرمائش پر لکھیں ۔ ان تائیدی تقریظات کے حاصل ہو جانے سے مولانا لاہوری کی خوشی کی انتہا نہ رہی ،وہ لکھتے ہیں :
”میں(نے) اِس مترجم قرآن مجید کا مسودہ جو آپ کے پیش نظر ہے ،استاذ العلماء زبدة الصالحین حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحب ،شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند…کو پیش کیا اور اُن سے عرض کیا کہ اِس مسودہ کا معائنہ فرمادیں، اگر یہ مسودہ صحیح ہوتو خدمتِ دین کی غرض سے شائع کیا جائے، ورنہ چھوڑ دیا جائے۔ چناں چہ اِن بزرگوں نے ناچیز کی اِس حقیر خدمت کو سراہا۔“ چناں چہ ان تقاریظ میں سے بعض بزرگوں کی چند تقاریظ بطورمشتے نمونہ ازخروارے کے آپ کو سناتا ہوں،تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ یہ ترجمہ اور یہ طرز ان بزرگوں کی نگاہوں میں کیسا ہے …۔“(۱)
یہاں اِتنی بات عرض کرنا ضروری ہے کہ اِن تقریظات سے جو نتیجہ سمجھ لیا گیا ہے ،وہ حاصل نہیں ہوتا،یہ محض خوش فہمی ہے، کیوں کہ علامہ انور شاہ کشمیری نے تفسیر کی منقبت میں جوکچھ لکھا،اُس میں اصل بات تو صرف اِتنی ہے :
”اب چوں کہ زمانہ کا اوردورہے اورتحریر و تقریر کا نیا طریقہ،مقاصدِ قرآن حکیم کی خدمت مناسبِ ضرورتِ وقت شروع ہوئی۔جنابِ مستطا ب مولانا احمد علی لاہوری دام ظلہ کی خدمت ظہور میں آئی جو عاجز نے متفرق دیکھی۔“
باقی جتنے فقرے ہیں،وہ اِس اِظہارِ مسرت کے نمائندے ہیں کہ نئے دور میں درست اصولوں پرجو کام ہو، وہ ظاہر ہے دین کی بڑی خدمت ،قابلِ قدراور نافع ہوگا۔پھر جتنا حصہ اُنہوں نے دیکھا ،اُس میں کوئی بے اصولی نظر نہیں آئی ۔بنا بریں، دیانت و لیاقت پرحسنِ ظن کے ساتھ حوصلہ افزائی اوردعائیہ کلمات ارشاد فرمائے گئے اور ستائش پر اِکتفا کیاگیا۔مگر وہ لائق نقد نہیں ہے،صرف قابلِ قدرہے اس کی ضمانت علامہ کشمیری کے اقتباس سے نکالنا ایک ایسے مفسر کے لیے کیوں کر درست ہو سکتا ہے جو اپنی تفسیر کی نوعیت سے خوب واقف ہو۔
توقع کی یہ خوش گمانی حاصل کرنے سے پہلے ،اگرحکیم الامت کا رسالہ حضرت تقریظ نگار کی نظر مبارک سیگزار دیا گیا ہوتا،تونہیں کہا جا سکتا کہ نتیجہ کیا ہوتا اور الفاظ کیاصادر ہوتے!
ظاہر ہے کہ یہ ستائش اَن دیکھے حصے یعنی نظرِ التفات سے محرو م چیزوں سے متعلق نہیں ہے ۔
مفسر صاحب نے مغالطہ دہی کے اِسی ذہن کے ساتھ مولانا حسین احمد صاحب مدنیکے سامنے مسودہ پیش کیا اور یہ لکھوانے میں کامیاب ہوئے کہ:
”میں نے مولانا احمد علی کی یہ تحریر دربارہ ربط آیا ت قرآنیہ و ایضاح معانی قرآنیہ مختلف مقامات سے دیکھی ،بحمداللہ نہایت مفید اور کار آمد تحریر پائی ،میری نظر سے کوئی مضمون ایسا نہیں
گذرا جو کہ مسلک اہل سنت والجماعت کے خلاف ہو یا اس پر کوئی گرفت ہوسکے ۔“(۱)
حضرت مفتی کفایت ا لله صاحب نے تقریظ کن حالات میں لکھی،اُس کا ذکر کرتے ہوئے مولانا احمد علی لاہوری لکھتے ہیں:
”میں اور حضرت مفتی اعظم ملتان سنٹرل جیل میں تھے…میں نے د ورانِ قید و بند میں فرصت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُن کو یہ مسودہ دے دیا۔ایک مہینہ تک یہ مسودہ اُن کی کوٹھری میں پڑا رہا اور چوں کہ وہ فارغ البال تھے اور میں نے وہ مسودہ تصویب و تصحیح کے لیے دیا تھا۔ “
اُس پر حضرت مفتی اعظم نے جو کچھ لکھا،اُس میں اصل بات یہ تھی:
(۱)زبدة القرآن :ضبط و ترتیب :ابوالامجد مولانا سیدشیر علی شاہ مدنی:ص۳۰۔
”میں نے اِس کو جستہ جستہ مقامات سے مطالعہ کیا اور اِس طرز کو مفید اور سہل اور اقرب الی الفہم پایا۔میری نظر میں کوئی بات مسلک اہلِ سنت والجماعت کے خلاف نہیں آئی۔“(۱)
اب تینوں بزرگوں کی تقاریظ سے مولانا احمد علی لاہوری کو جو مسرت ہوئی ،اُس کا حال اُنہی کی زبانی سنیے:”حضرت(انور) شاہ صاحب نباض تھے، چند جگہوں سے یہ معلوم کرلیتے کہ یہ کس قسم کا ترجمہ ہے ۔“(۲)
ذرا سوچیے! علامہ انور شاہ کے، متفرق دیکھنے کے باوجوداُن کی تقریظ سے مولانا احمد علی لاہوری کا اپنی مکمل تفسیر کے حق میں نتیجہ نکال لینا کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ موصوف اِسی انداز کی خوشی کا اِظہار مولانا حسین احمد مدنی کی تقریظ پربھی کرتے ہیں:
”الحمد لله مجھے اِس جملہ سے اِطمینانِ قلب اور خوشی ہے کہ اِن بزرگوں کے مصیبِ نظر نے اِس ترجمہ اور حواشی کو مسلک اہل سنت والجماعت کے مطابق ہونے کا فتوی دیا ہے۔ “(۳)
حضرت مفتی کفایت ا لله صاحب کے اِس قول پرکہ ”میری نظر میں کوئی بات مسلک اہلِ سنت والجماعت کے خلاف نہیں آئی“ مولانا لاہوری خوشی سے جھوم اُٹھے اور فرمایا:
”تمام ہندوستان کے مفتی اعظم کا یہ فتوی میرے لیے کافی ہے۔ “
اورغلبہٴ مسرت میں اِس چونکادینے والے جملہ کو قطعاًنظر انداز کر گئے کہ:
”میں نے اِس کو جستہ جستہ مقامات سے مطالعہ کیا“،جس میں مکمل دیکھنے کا انکار ہے ، اکثر حصہ دیکھنے کا بھی اقرار نہیں اوراپنے اندر یہ احتمال رکھتا ہے کہ معتد بہ حصہ بھی نہ دیکھا ہو۔
لمحہٴ فکریہ
اصل میں ایسی چیزوں سے متعلق اگرپہلے سے ایجنڈا معلوم ہو کہ کرنا کیا ہے،تو اُس وقت رائے دینے والے کے لیے آسانی رہتی ہے۔اِس حوالہ سے یہاں ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ تقریظ کی درخواست کے وقت مفسر موصوف نے تفسیر کے متعلق پیش آئے اُن احوال کو ظاہر نہیں کیا جن کا ذکرحکیم الامت کے ساتھ مراسلے میں آیاہے،جنہیں ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔
(۱)تقریظ مولانا حسین احمد مدنی برمولانا احمد علی لاہوری:مترجم قرآن مطبوعہ فرید بک ڈپو دہلی ۱۳۸۲ھ ص۱۱۔(۲)زبدة القرآن :ضبط و ترتیب: ابولامجد مولانا سیدشیر علی شاہ مدنی:ص۲۹۔(۳)زبدة القرآن :ضبط و ترتیب :ابولامجد مولانا سیدشیر علی شاہ مدنی:ص۲۹۔
اور حکیم الامت کے ”التقصیر فی التفسیر “ والی نشان زد اِفراط و تفریط،التباسات اورتفسیر و اعتبار میں کیے گئے خلط وغیرہ امور، مذکورہ بزرگوں کے سامنے آ ہی نہ سکے۔جب کہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ”التقصیر فی لتفسیر“ میں مفسر لاہوری کے اُن تفسیری زیغ و انحراف اورفاسد توجیہات والے عنا صر کی نشاندہی کی گئی تھی جس نے اُن کی تفسیرکو متنازع فیہ بنا دیا تھا۔اپنے متعلق یہ سب باتیں مفسر لاہوری کو – رسالہٴ مذکورکے ذریعہ-خوب معلوم تھیں؛لیکن اُنہوں نے اپنی اِس شبیہ کی پردہ دری نہ ہونے دی اور تقریظ نگار وں کو مغالطہ میں رکھا۔
بغیر ایجنڈا بتائے ہوئے ،صرف” متفرق دیکھی“، ” مختلف مقامات سے دیکھی“، ”جستہ جستہ مقامات سے مطالعہ کیا“ وغیرہ صورتوں میں، قابلِ نقد مقامات اُن بزرگوں کی نظروں میں نہیں آ سکے ،اس لیے ان بزرگوں نے مکمل تفسیر کے لیے حسن ظن رکھتے ہوئے اپنی آراء ظاہر فرمائیں، لیکن ان کے حسن ظن -جو کہ مفسر کی بے احتیاطی کی وجہ سے موافق واقعہ نہ رہ سکا -کہ بجائے اگلے عنوان”توجیہاتِ شیخ التفسیر -تنبیہاتِ حکیم الامت “ کی مثالوں کو دیکھ کرآج کے بھی قاری کو حقیقت سے آگہی ہوسکتی ہے۔
جاری………… (۱)
تقریظ مفتی کفایت ا لله صاحب برمولانا احمد علی لاہوری:مترجم قرآن مطبوعہ فرید بک ڈپو دہلی ۱۳۸۲ھ ص۱۰۔