مولانا افتخار احمد قاسمی# بستوی
اللہ رب العزت نے اس عالمِ رنگ و بو میں دوام کسی کے لیے نہیں رکھا ہے۔ ساری دنیا اوردنیا کی ہر ہر شئ حادث و فانی ہے۔دوام وبقا صرف اسی ذات ستودہ صفات کے لیے ثابت ہے، جو برہم زنِ عالم ہے۔ ﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍo وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوْ الْجَلَالِ وَالْاِکْرَام ﴾(سورہ رحمن)زمین پر جو بھی ہے سب کو فنا کے گھاٹ اترنا ہے۔ رب ذوالجلال کی ذات گرامی کو ہی بقائے دوام حاصل ہے۔
لیکن دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے، ایک دوسرے کے احسانات وحقوق کے زیرِ سایہ رہنے کی وجہ سے آپس میں ایسی الفت ومحبت قائم ہوجاتی ہے کہ یک لخت کسی ایسے محسن کا جدا ہونا جس کا احسان ظاہری بھی ہو باطنی بھی۔ وجود انسانی پر صاعقہ رنج و الم بن کر گرتا ہے، جس پر صبر اللہ ہی دیتا ہے، ورنہ اپنا وجود بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔
کچھ ایسا ہی واقعہ بندے کے ساتھ پیش آیا۲/ شعبان المعظم ۱۴۴۲ھ مطابق ۱۶/ مارچ ۲۰۲۱ء سہ شنبہ کا آفتاب طلوع ہوا تو رنج و غم کا گویا پہاڑ ٹوٹ پڑا، جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کے استاذ مولانا رضی الرحمن قاسمی بستوی نے دوپہر کے بعد، تعلیمی گھنٹوں کے شروع ہونے سے ذرا قبل یہ خبر سنائی کہ آپ کے استاذ حضرت مولانا نثار احمد صاحب قاسمی بستوی ابھی ابھی اللہ کوپیارے ہوگئے۔ خبر سن کر صدمے سے بے قابو ہوگیا، مشکل سے انا للہ وانا الیہ راجعون کے الفاظ لرزتے ہونٹوں اور پھسلتی زبان سے ادا ہوئے، اور اس کے علاوہ کچھ نہ بول سکا۔
حضرت مولانا نثار احمد صاحب قاسمی بستوی رحمة اللہ علیہ میرے ان اساتذہ میں ہیں، جن کی شبانہ روز تربیتی محنتوں کا عکس جمیل بندے پر بھی پڑا اور عا لمیت کورس کی ابتدائی کتابوں سے لے کر درجہ علیا کی جلالین شریف کی تعلیم حضرت الاستاذ ہی سے حاصل کی۔
حضرتِ والا کی تعلیم وتربیت کا انداز بالکل نرالا اور اسلوب اچھوتا تھا، باتوں باتوں میں حضرت موصوف تربیت کا ایسا نقش چھوڑ جاتے جو صدیاں بیتنے کے باجود بھی نہ مٹے، ایک بار طلبہ اور ہم احباب ورفقا کو عزم و حوصلہ جواں رکھنے کی تلقین کررہے تھے۔ اسی اثنا میں آپ کی لسان تربیت مآب سے یہ نادر مثال نکلی، کہنے لگے:
بچو! عزم وحوصلہ ہردم جواں رکھو، سست روی چھوڑدو اور دیکھواپنی منزل تک پہنچنے میں اس ہوا کی مانند بنو جو بہت دور، کوسوں مسافت طے کرنا چاہتی ہے، اس عز م ِسفر میں راستے میں کوہِ گراں ، کہساربے اماں اور مضبوط مضبوط دیواروں اور عمارتوں کا سلسلہ بھی آتا ہے۔ لیکن ہوا اپنی منزل پانے کے لیے پہاڑ کی چوٹیوں، کہساروں ، مضبوط دیواروں اورلمبی لمبی عمارتوں سے دست وگریباں نہیں ہوتی، وہ اپنا راستہ بدل دیتی ہے۔ اسے منزل پر پہنچنے کی لگن ہے، وہ دیواروں کے سوراخوں ، جنگلوں اور دروازوں کے کھلے راستوں کو تلاش کرکے آگے کی منزل کی تلاش میں رواں دواں ،بر وقت پہنچنے کی تمنامیں سرگرم سفر رہتی ہے۔اگر ہوا راستے میں رک جائے، رکاوٹوں کو ہٹانے میں اپنا وقت صرف کرنے لگے، مزاحمتوں کو دور کرنے اور قدغن سے الجھنے میں اپنی صلاحیت واستعداد کی طاقت جھونکنے لگے تو وہ منزل پر پہنچنے میں بہت دیر لگادے گی، تب تک کاروانِ ترقی جاچکا ہوگا۔ شباب کا لطف کافور ہوچکا ہوگا، ہوا کو تو اسی میں لطف آتا ہے کہ محوِ سفر رہے، منزل پر جلدی پہنچنے کی تمنا میں ہر دوا دوش کو برداشت کرتی ہے اور دل میں یہ تمنا ہوتی ہے کہ
نشان منزلِ جاناں ملے ، ملے نہ ملے
مزے کی چیز ہے یہ ذوق جستجو مرا
ابتدائی درجات کے طلبہ سے لے کر جلالین شریف تک کے طلبہ کو (کہ یہی دارالعلوم الاسلامیہ بستی میں انتہائی جماعت) کثرت مطالعہ اور خوب لکھنے پڑھنے کی ترغیب دیتے ہوئے، یہ خاص طور پر کہتے :
بچو! حوصلہ اور عزم وارادہ بلند رکھو، اس بلند ارادے کے لیے شعرسناتے
نگہہ بلند، سخن دل نواز، چاں پُر سوز
یہی ہے رختِ سفر، میر کارواں کے لیے
عزم و حوصلے کی بلندی کے لیے طلبہ سے کہتے: ” عزم اونچا رکھو، بلندی پر خوب اونچائی پر چڑھنے کا عزم رکھو“ اسی میں یہ کہتے ” یہ سوچو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرح بنوں گا، تب نثار احمد کی طرح بنوگے اور اگر یہ سوچو گے کہ نثار احمد کی طرح بنوں تو مسجد کے لوٹا بھی نہ بنوگے۔“
تحریر و تقریر دونوں میں طاق تھے، زود نویس اور خوب نویس تھے، البتہ تقریر کو اپنا میدان بنایا تھا، ایک لمبے عرصے تک بستی سے دور فیض آباد چلے جاتے تھے، وہیں تقریر و بیاں اور تفسیر کرتے ، پھر فیض آباد یوپی میں تفسیر قرآن کے لیے جانے کا معمول بنا ہوگیا تھا۔ قرب و جوار کے تو ہر جلسے میں آپ کا رہنا گویا لازمی تھا۔
راقم سے حضرت الاستاذ سے جو آخری گفتگو فون پر ہوئی وہ فیض آباد یوپی میں آپ کے تفسیر قرآن کے لیے جاتے ہوئے دورانِ سفر ہوئی، خوب لوگوں کو فائدہ پہنچایا، آپ ہر بزم جنوں کے دیوانے تھے، ہر محفلِ خیر کے صدر اور اس کی زینت تھے۔ آپ جلسوں کی زینت تھے، تدریس کی زینت تھے، خانقاہ کی زینت تھے، شادی بیاہ کی محفلوں میں نکاح خوانی کی مجلس کی زینت تھے؛ حتی کہ پیدائش کے وقت بچوں کے کان میں اذان و اقامت اور نام تک رکھنے کے لیے آپ ہی کی طرف لوگ رجوع کرتے، اسی لیے آپ کے جنازے میں اتنا مجمع کہ لوگوں کی توقع کے خلاف تھا، کہنا چاہیے کہ ایک انبوہ کثیر تھا، جو ہر گلی کوچے سے مولانا مرحوم کی نماز جنازہ میں چیوٹیوں کی مانند شرکت کے لیے آرہا تھا، آپ کے بھائی مولانا عبید الرحمن صاحب قاسمی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔
آپ آج قبر کی مٹی کے حوالے کردیے گئے، مدرسے کی خاک سے اٹھنے والی وہ ” موج تند و جولاں “ آج خاک کی آغوش میں ہے؛ اس موجِ تند و جولاں نے مدرسے کے کتنے شاگردوں کو یہ شعر سنا کر کندن بنایا کہ طلبہ عزیز تم کو اسی مدرسے کی خاک سے تیار ہونا ہے
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موجِ تند و جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا
لیکن یہ دنیا فانی ہے اور یہ کون نہیں جانتا کہ یہ دنیا اور دنیا کی ساری چیزیں مٹنے اور بگڑنے والی ہیں۔ چند روزہ زندگی ہے، جس کے بعد حساب وکتاب کا مرحلہ پیش آنے والا ہے۔ سورہٴ عنکبوت : ۵۷/ میں ارشاد ربانی ہے: ﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ﴾ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے، پھر ہماری ہی طرف تم سب کو لوٹا یا جائے گا۔ اس قاعدے سے کوئی مستثنیٰ نہیں ، امیر ہو یا غریب ، شہری ہو یا دیہاتی ، حتی کہ نبی اور ولی ہی کیوں نہ ہو سب کو اللہ کے پاس جانا ہے۔
حضرت الاستاذگرامی قدر مولانا نثار احمد صاحب قاسمی بستوی نے بھی اس دنیا کو خیر باد کہا ، لیکن آپ نے بڑی ہی قابلِ رشک زندگی گزاری ، کہنا چاہیے کہ پوری زندگی درس وتدریس کے لیے وقف کردی تھی۔ تقریباً نصف صدی پر محیط درس و تدریس میں اشتغال کی زندگی کیسے نہ قابلِ تقلید اور لائقِ صد رشک ہو، جس نے علم کی ایک دنیا کو سیراب کیا اور اپنے شاگردوں کی ایک بڑی ٹیم ملک کے طول و عرض میں چھوڑی ، جوحضرت الاستاذکے لیے صدقہٴ جاریہ ہے۔
دارالعلوم دیوبند میں مولانا مصلح الدین صاحب سدھارتھ نگری ، مولانا مفتی افضل حسین صاحب قاسمی، مدرسہ امدادیہ مرادآباد میں مولانا محمد اسجد قاسمی ندوی اور جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا میں راقمِ سطور یہ سب آپ ہی کی ”نہر کوثر“ سے ”نوشیدہ وچشیدہ“ فرزندانِ ایمان واسلام ہیں، جو شمع علم کو ہواوٴں کی زد میں ہوتے ہوئے بھی بجھنے نہ دینے کا عزم مصمم لیے، اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے ” جام جم“ سے آب کوثر“ لٹارہے ہیں۔
آپ کی پیدائش ۶/ دسمبر ۱۹۴۹ء کو ضلع بستی کے ایک چھوٹے گاوٴں ”گلہریا“ میں ہوئی ، آپ کے دادا کا نام ”حکم دار“ تھا، علاقے کے زمین دار تھے، والد صاحب کا نام ”محمد صالح“ تھا، نام کی طرح واقعتا صالح تھے ۔ استاذ گرامی کی پرائمری تعلیم مدرسہ اسلامیہ گلہریا میں ہوئی۔ پرائمری کے استاذ ” مفتی محمد شائق “ صاحب مرحوم تھے۔ ۱۹۶۰ء میں پرائمری کے بعد حافظ سعادت حسین مرحوم کے پاس مدرسہ مصباح العلوم” برگدوا“ میں شروع کیا۔ (یہ برگد واضلع بستی کا ایسا گاوٴں ہے، جہاں ہر گھر میں حافظ عالم موجود ہیں۔ ) بارہ تیرہ پارہ حفظ کیا ہوگا کہ چیچک کا حملہ ہوا، بینائی پر اثر ہوا تو گھر والوں نے کہا حفظ کی تعلیم ترک کردو اور وہیں اپنے برادر اکبر کے ساتھ مولانا شفیع اللہ صاحب سے فارسی کی کتابیں پڑھنا شروع کردو۔ ۱۹۶۳ء میں یوپی کے ضلع بہرائچ کے نامور ادارہ نور العلوم بہرائچ میں عربی دوم میں داخلہ لیا اور عربی ششم تک یہیں نور العلوم میں پڑھتے رہے، جہاں بڑے بڑے جید علمائے کرام جیسے مولانا سلامت اللہ صاحب صدر المدرسین ، مولانا حبیب احمد صاحب اعمی وغیرہ موجود تھے، جو اپنے وقت کے امام سمجھے جاتے تھے۔ مولانا حیات اللہ صاحب سابق صدر جمعیة علمائے ہند اتر پردیش اور مولانا مجیب اللہ گونڈوی استاذ دارالعلوم دیوبند آپ کے نور العلوم کے درسی ساتھیوں میں ہیں۔
شوال ۱۳۹۰ھ مطابق دسمبر ۱۹۷۰ء میں دارالعلوم دیوبند میں پہنچے اور درجہ ہفتم موقوف علیہ میں داخلہ لیا، دوسال دارالعلوم میں رہے۔ جید اور صالح اساتذہ سے خوب خوب استفادہ کیا ، مولانا وحید الزماں کیرانوی سے خاص طور پر کسبِ فیض کیا۔ شیخ الحدیث مولانا فخر الدین صاحب مراد آبادی کے پاس بخاری شروع ہوئی، کیف کان بدء الوحی کا آغاز ہوا تھا کہ مولانافخر الدین صاحب بیمار پڑ گئے، اور اسی بیماری میں اللہ کو پیار ہوگئے، پھر قاری محمد طیب صاحب حکیم الاسلام نے بخاری پڑھائی۔ مولانا فخر الحسن صاحب سے ترمذی اور مولانا شریف حسن صاحب دیوبندی سے مسلم پڑھی۔ بخاری جلد ثانی حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی سے پڑھی ۔ ۱۳۹۲ھ مطابق ستمبر ۱۹۷۲ء میں راقم الحروف کی ولادت کے سال میں حضرت الاستاذ نے دورہ سے فراغت حاصل کی۔
مولانا بدر الحسن دربھنگوی ، مولانا عبد الرب اعظمی، مولانا عتیق احمد بستوی(استاذ ندوہ) مولانا عبد الخالق سنبھلی (نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند حال ہی میں وفات پاگئے) مولانا فضلِ حق خیر آبادی، مولانا ابو العاص بستوی، مولانا فضل احمد دربھنگوی، مولانا ڈاکٹر نسیم احمد نیپالی، مولانا عبد المعبود صاحب ، مولانا عرشی بستوی، مولانا عثمان اعظمی معروفی۔ یہ سب حضرات آپ کے رفقائے درس رہے ہیں۔
۱۳۹۲ھ میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد تادم واپسیں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ ۸/ سال تک راجستھان میں دار العلوم میل کھیڑ لا میں پڑھایا ، پھر حضرت مولانا باقر حسین صاحب رحمة اللہ علیہ کی دعوت پر دارالعلوم الاسلامیہ بستی میں تشریف لائے ،جہاں سات سال تک فارسی سے جلالین شریف تک راقم السطور کی تعلیم حضرت الاستاذ کی نگرانی میں ہوتی رہی اور ہر سال ۲/ ۳/ گھنٹے حضرت الاستاذ سے وابستہ رہے۔
جامعہ اکل کوا کے بانی و مہتمم حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم استاذ گرامی مرحوم کو بہت چاہتے تھے، جامعہ میں تشریف آوری کی دعوت بھی دی تھی، حضرت الاستاذ تشریف بھی لائے تھے، کوئی ۹۹-۱۹۹۸ء کا سال رہا ہوگاجب جامعہ آئے تھے۔ مولانا وستانوی مدظلہ کہا کرتے تھے کہ:
” بستی میں مولانا نثار احمد رہتے ہیں، طلبہ کی تربیت کا انداز ان کا بالکل اچھوتا ہے، مرغی اپنے بچوں کو جیسے اپنے پروں میں سمیٹ لیتی ہے ، اسی طرح مولانا بھی اپنے عزیز طلبہ کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں، ان کی تربیت کرتے ہیں، اور ان کو مستقبل کا داعی وہادی اور امام زماں بناکر نکالتے ہیں۔“
واقعی حضرت الاستاذ اصلاح وتربیت میں ایسے ہی تھے۔
حضرت الاستاذ مولانا نثار صاحب قاسمی رحمة اللہ علیہ کا اصلاحی تعلق حضرت مولانا مسیح اللہ خان جلال آبادی حضرت قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی اور حضرت مولانا سید اسعدمدنی رحمة اللہ علیہ کے خلیفہ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب سے رہا۔ مولانا عبد الرحیم صاحب سے آپ کو خلافت بھی ملی۔
آپ طلبہ کو حوصلہ دینے میں طاق تھے۔ اندورن میں ایسا جذبہ پیدا کردیتے جو کبھی نہ ختم ہوتا ، پڑھاتے پڑھاتے فرمانے لگتے #
ظلامِ بحر میں کھو کر سنبھل جا
ہزاروں پیچ کھا کھاکر بدل جا
نہیں ساحل تری قسمت میں اے موج !
ابھر کر جس طرف چاہے نکل جا
کبھی سناتے
حسنِ صورت چند روزہ حسنِ سیرت مستقل
اس سے خوش ہوتی ہے آنکھیں ، اس سے خوش ہوتا ہے دل
اور کبھی یہ بھی کہہ جاتے
جان کر منجملہٴ خاصانِ میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
واقعی حضرت الاستاذ ایسے ہی تھے، کتنے ”جام وپیمانہ “ آپ کے گذر جانے کے بعد آج بھی آنسو بہا رہے ہیں۔ راقم سطور یہ سطریں لکھ رہا ہے تو آنسو چھلک چھلک جارہے ہیں اور پلکیں بھیگی بھیگی ہیں، دعا ہے اللہ رب العزت حضرت الاستاذ کی بال بال مغفرت فرمائے۔
آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہٴ نور دستہ اس گھر کی نگہبانی کرے