مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد صاحب وستانویؔ
اسلامی سائنس کا مستقبل :
مسلم معاشرے کی گوناگوں ضر وریات پورا ہونے کی واحد صورت صرف یہ ہے کہ ایسی سائنس کو فروغ دیا جائے جو اسلامی تصورِکائنات سے ماخوذ ثقافتی اورروحانی اقدار وروایات پراستوار ہو۔ میں نے زیر نظر مضمون میں ان نکات کو ثابت کیا ہے کہ ہر تمدن کے زیر اثر ایک مخصوص تصور کائنات کی حامل سائنس کا فروغ ہو۔ اور جس طرح مغربی سائنس یہودیت وعیسائیت کے مجموعۂ تمدن کی آئینہ دار ہے اسی طرح اسلامی سائنس کا بھی اپنا مخصوص مزاج اور منفرد ماہیت تھی ۔میں نے اس امر کی جانب بھی اشارہ کیاہے کہ مغربی سائنس بنیادی طور پر تباہ کن ہے اور مسلم معاشرے میں مغربی سائنس ٹیکنالوجی کے اختیار کرنے سے ہماری اقدار وثقافت ملیامیٹ ہورہی ہے اور ہماری ضروریات بھی نہیں پوری ہورہی ہیں۔ اس پس منظر میں معاصر اسلامی سائنس کی ضرورت ناگزیر ہے۔
میرا یہ نقطۂ نظر ہے کہ اسلام کا تصورِ کائنات جامع وہمہ گیر ہونے کی بدولت آفاقی اقدار وروایات اور حیات بخش تصورات کا مجموعہ ہے اور یہی صفت اسلامی تمدن اور اسلامی تصور کائنات کو ایک منفرد خصوصیت عطا کرتی ہے ۔ اسلام ایک جامع نظام ہے ، اسی لیے یہ روایات ہر شعبۂ زندگی میں جاری وساری ہیں۔ اسلام نے کسی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے ، خواہ وہ سیاسی وسماجی ادارے ہوں یا معاشی مسائل ، نصاب تعلیم ہو یا ماحولیات کے بارے میں طرز ِعمل یا ٹیکنا لوجی کی علمی وتحقیقی سرگرمیوں کا طریقۂ کار ۔ مذکورہ اقدار ہی مسلم معاشرے کا تعین کرتی ہیں اور تمدن اسلامی کو اس کی مخصوص سمت پر گامزن کرتی ہیں ۔
توحید، خلافت ، آخرت ، عبادت ، عدل اور انصاف جیسے تصورات اور اقدار کے بنیادی دائرے کے اندر فرد و معاشرہ اپنی انفرادیت کے اثبات کے لیے اور اپنی خواہشات اور اپنے وسائل کے پیش نظر اپنی ضروریات کا حل تلاش کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ تاریخِ اسلام میں ایسے متعدد معاشروں کا ذکر ملتا ہے، جہاں ان اقدار و روایات پر اپنے اپنے انداز میں عمل درآمد کیا گیا۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کے باعث تمدن اسلامی ترمیم و تنسیخ کا اہل ہونے کے باوجود اپنا مخصوص مزاج اور منفرد صفات برقرار رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔
معاصر مسلم معاشرے کی مخصوص ضروریات اور تقاضے ہیں، جس کو صرف اسلامی تصور ِکائنات کے تناظر ہی میں پورا کیا جاسکتا ہے۔ بعض ضروریات مثلاً غذا اور رہائش سے متعلق معاملات تمام انسانوں کے لیے یکساں ہیں، جب کہ انحصار اور تکنیکی استحصال جیسے مسائل ایک مخصوص تاریخی صورت حال کا نتیجہ ہیں اور اسی طرح بعض مسائل مسلم ثقافت سے مخصوص ہیں۔ اسلامی طرزِ رہائش کے لیے ایک خاص قسم کے مکان ہی مناسب ہیں۔ اسی طرح مسلم آبادیوں اور شہروں کو بھی اسلام کی جمالیاتی اور ثقافتی خصوصیات کا آئینہ دار ہونا چاہیے اور ایسا قدرتی ماحول ہونا چاہیے، جس میں انسان اور فطرت کے مابین کا پیش کردہ رشتہ قائم ہو۔ یہ تمام تقاضے اسلامی نظام اقدار کے تحت ہی پورے ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح اس تصور کی موجودگی لازمی ہے کہ اسلام ایک ایسا جامع نظام ہے، جس کی رو سے تمام اشیا باہم دگر منسلک و مربوط ہیں کوئی شئ علاحدہ نہیں ہے اور اسی طرح کوئی مسئلہ یاضرورت بھی جدا نہیں ہے۔ معاصر مسلم معاشرے کی مذکورہ ضروریات کو پورا کرنے والے تمام طریقہ کار اور ذرائع کو اسلامی ثقافت اور اسلامی اقدار کا حامل ہونا چاہیے۔ اس سے یہ مراد بھی ہے کہ بنی نوع آدم کے مسائل کو حل کرنے اور ضروریات کو پورا کرنے والے مؤثر ترین وسیلے یعنی سائنس کو اسلام کی آفاقی اقدار و روایات کا تابع ہونا چاہیے۔
اسلامی سائنس کی تاریخ بتاتی ہے کہ اسلامی اقدار کی تابع سائنس کا اپنا ایک مخصوص مزاج ہوتا ہے اور یہ سائنس موضوعی انداز میں معروضی ہوتی ہے۔ اسلام کی آفاقی اقدار و تصورات کے تحت ہی مسائل کا معروضی حل تلاش کیا جاتا ہے۔ اسلامی سائنس کے اغراض و مقاصد اسلامی اخلاقیات کے تابع ہوتے ہیں۔ غرض کہ سائنس کے اغراض و مقاصد، ذرائع اور طریقۂ کار سب ہی اسلامی احکام کے زیر نگیں ہوتے ہیں۔ ان احکام کا عقائد سے نہیں بل کہ اخلاقیات سے تعلق ہوتاہے ۔اسلامی سائنس عقیدے سے ماوراء ہے اور تحقیق محض کانام نہیں، بل کہ یہ تلاش حق اور حقیقت مطلق کے ادراک سے متعلق ایک منظم اور معروضی عقلی شرگرمی کا نام ہے،جامعیت اور امتزاج اس کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ یہ اپنے معروض کی تفہیم کے علاوہ اس کی بقا وتحفظ کا بھی اہتمام کرتی ہے۔ اسلامی سائنس کے مطابق سائنس داں بشری لغزشوں کے خطاوار ہو سکتے ہیں اور سائنس داں ملت کا جزو ہوتے ہیں، اسلامی سائنس چنیدہ افراد کے نہیں ،بل کہ عوام الناس کے مسائل کے حل کی کوشش کرتی ہے اور اس طرح پوری ملت اسلامیہ کی آرزوؤں اور امنگوں کی ترجمان ہوتی ہے۔ اسلامی سائنس کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ مسلم امت امر با لمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ کی انجام دہی کی مکلف ہے ، مسلمانوں کو معاشرے میں سائنس کابہ طور ایک مثبت قوت استعمال کرنا چاہیے۔ہمیں اسلامی سائنس کی حاجت اس لیے بھی ہے کہ مسلم معاشرے کی ضروریات مغربی تمدن کی نمائندہ سائنس سے قطعاً مختلف ہیں، اس کے علاوہ وہ تمدن مکمل نہیں قرار دیا جاسکتا ،جس کے مسائل حل کرنے کا نظام اس تمدن کے تصورات کے تابع نہیں ہوتا ۔اسلامی سائنس کے بغیر مسلمان مغربی تہذیب وتمدن کا ضمیمہ بنے رہیں گے۔ مختصراً اسلامی سائنس کے بغیر ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے۔(جاری )