اسکول کے نصابِ تعلیم میںزیرِ تدریس کتابیں سائنسی اور مذہبی نقطۂ نظر سے قابلِ اصلاح

۲۴؍ قسط:                                                                                                                                                                                                                                              مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد صاحب وستانوی ؔ

معاشرتی مسائل کے حل میں مغربی سائنس ناکام ہوچکی ہے:

                ROZSAK   J.R. RAVETZ  اور IAN MITROFF جیسے معاصر ناقدینِ سائنس نے سائنس کی حقیقی کارکردگی کے نکتے کو واضح کیا ہے۔ ان کے مطابق اس عمل میں متعدد عوامل شامل ہوتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اب تک سائنس اپنے زیادہ تر دعووں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ زبردست تحقیقی سرگرمیوں کے باوجود بھی متعدد معاشرتی مسائل اب تک ناقابلِ حل ہیں اور تحقیقات سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔ سائنسی تحقیقات پر بے تحاشا دولت صرف کرنے کے باوجود متعدد مسائل اب تک حل نہیں ہو سکے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے نمایاں مثال کینسر پر قابو پانے کی زبردست کوشش ہے۔

ایک قدیم نظریہ کہ سائنس سراپا خیر ہی ہے غلط ثابت ہو چکا ہے:

                بلند بانگ دعووں کو پورا کرنے کے باعث عوام الناس سائنس سے بدظن ہو گئے ہیں۔ اب جدید سائنس کا پیدا کردہ ایک اور مسئلہ سامنے آیا ہے یعنی ماحول میں عدمِ توازن کے باعث ہولناک نتائج و اثرات، سائنس نہ صرف اپنے دعووں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے، بل کہ بعض منفی اثرات پیدا کرنے کے لیے بھی ذمہ دار ہے۔ سائنسی تحقیقات کی بدولت بعض ایسے نتائج و اثرات رونما ہوتے ہیں جو سائنس دانوں کے چشم تصور تک میں نہیں ہوتے۔ RAVETZ کے بہ قول:

                ’’مخلص ترین سائنس داں تک بھی ایک شدید غلط فہمی میں مبتلا ر ہے ہیں ،جس کا انہیں اب احساس ہو رہا ہے۔ یہ غلط فہمی عام تھی کہ سائنس سر اسر خیر ہے اور اس سے کسی نقصان کا احتمال نہیں۔ عرصۂ دراز سے یہ مفروضہ بل کہ عقیدہ مقبول رہا ہے کہ سائنس خیر سے عبارت ہے۔ یہ تصور سترہویں صدی سے مقبول و معروف ہے۔ فرانسس بیکن کے مطابق جادو او رسحر پر عقیدہ ہونا محض گناہ ہی نہیں، بل کہ یہ عقیدہ اس لحاظ سے بے بنیاد اور گمراہ کن بھی ہے کہ انسان بغیر کسی مشقت کے کسی شئ کا مالک ہوجاتا ہے۔ درحقیقت جادو اور سحر کی مدد سے انسان واقعتا کوئی شئنہیں کرتا ہے۔ اہلِ مغرب کے تصور میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ یہ خیال بھی مقبول ہوتا گیا کہ سائنس قطعاً غیر نقصان دہ ہے اور اس سے کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اس خیال کی بنیاداس فکرپرتھی کہ سائنس سے حاصل ہونے والے نتائج ہمیشہ معروف علتوں کے باعث ہوںگے، لہٰذا کسی نقصان کاخدشہ نہیں ہے ۔سائنس دانوں کے ہاںماحول میں عدمِ توازن واقع ہونے کے نتیجے میں پیداہونے والے لاتعدادمسائل کاسرے سے کوئی اندازہ ہی نہیں تھا۔جنگ ِعظیم کے بعدکے دورمیںیہ سنگین غلطی سائنس دانوںپر منکشف ہوئی ہے ؛چوںکہ سائنس کے نقصان دہ یاخطرناک ہونے کاابتدامیں کوئی تصورہی نہ تھا،اسی لیے آج مسائل اس قدرسنگین ہو گئے ہیں اورآج بنی نوع انسانیت اپنے وجودکی بقاکے جدوجہدمیں مصروف ہے‘‘۔

موجودہ مغربی سائنس میں اخلاقی پابندی نہ ہونے سے دنیا پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں:

                کسی تحقیق کے نتیجے میں برآمدہونے والے ناقابل تصورنتائج سے ہم اپنے آپ کوبری الذمہ نہیں قراردے سکتے ؛کیوںکہ تجسس وتحقیق کے نام پرآج دانستہ طورپر غیرانسانی اورغیراخلاقی اندازمیں مطالعات کیے جاتے ہیں۔مغربی سائنس کے تباہ کن اثرات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس پرکوئی اخلاقی پابندی نہیں ہے۔ یہ تصورکہ سائنس ایک خالصۃً نیک عمل ہے اتناہی احمقانہ ہے جتناکہ یہ تصورکہ تحقیق کی بہ دولت سائنس داں تزکیۂ نفس کے اہل ہوجاتے ہیں۔ مغربی سائنس دانوںکوبشری لغزشوں سے مبرامتصورکرتی ہے اورسائنسی مقاصدکے حصول کے لیے سائنس دانوں کوایک امتیازی مقام دیتی ہے، لیکن دوسری جانب سائنسی تحقیق میں کسی سائنس داں کے ذاتی اغراض و مقاصد کی موجودگی کے امکان کو یکسر تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ آج جب کہ سائنس پر نہ کوئی اخلاقی پابندی ہے اور نہ اس ضمن میں کسی تنقید کو برداشت کیا جاتا ہے، اس پس منظر میں ہم یہ بہ خوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ کس بری طرح مٹھی بھر سائنس دانوں کے شکنجے میں کسا ہوا ہے۔ سائنس دانوں کے برخلاف سیاسی قائدین کسی حد تک اخلاقیات اور معاشرتی اقدار کی حدود ہی میں کام کرتے ہیں۔

مغربی سائنس کی حیثیت ایسے کاروبار کی ہوچکی ہے جو مخصوص گروہ کے مفاد سے عبارت ہے:

                اپنے ضمیر کی آواز پر سائنس داں کو تحقیق کی ہمیشہ آزادی حاصل رہی ہے لیکن مغرب میں سائنس کا نظم و نسق بڑے بڑے اداروں کے ہاتھ میں ہے۔ ان اداروں کی اپنی مخصوص پالیسی ہوتی ہے اور کسی سائنس داں کے لیے انفرادی طور پر تحقیق کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس نظام سے وابستہ تجربہ گاہوں میں سائنس داں متعدد مسائل کے حل تلاش کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور ان کے سامنے کلی تصویر نہیں ہوتی۔ منظم سائنسی نظام کی بدولت اب بہ ظاہر ناممکنات کی انجام دہی ممکن ہوگئی ہے۔ سائنس اب ایک ایسا کاروبار ہوگیا ہے جو مفادات سے عبارت ہے۔ سائنس داں کی انفرادی تخلیقی امنگوں کی بہ نسبت تنظیمی امور و پالیسی کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور سائنس داں اپنے ذاتی مادی مفادات کو محفوظ رکھنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ منظم تنظیمی ڈھانچے کے باعث سائنس کا احتساب کرنا بھی دشوار ہو گیا ہے۔ کوئی بھی سائنس داں ان سائنسی پالیسیوں پر تنقید کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا ،جس سے اس کی تنظیم کے مفادات مجروح ہوں۔

مغربی سائنس نے ضرورت سے زیادہ آزادی کی وجہ سے خونخوار درندے کا قالب اختیار کرلیا ہے:

                اس غیر حقیقت پسندانہ رویے، ماحولیاتی عدمِ توازن، اخلاقیات کے فقدان اور منظم اداروں کی موجودگی کے باعث مغربی سائنس نے ایک خونخوار درندے کا قالب اختیار کر لیا ہے۔ (شکل نمبر۶) اس سائنس کی اپنی مخصوص حرکیات (Dynamics) ہے، جن کی بنیاد پر وہ کسی بھی معاشرے کو یکسر تبدیل کردینے پر قادر ہے۔ سائنس کی اس روش کے پیش نظر مادی اقدار پر استوار کسی معاشرے کا وجود او ربقا اب ناممکن ہوگیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو زمین پر انسان کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا اور علم و تحقیق کے نام پر پیدا ہونے والی آگ بھیانک انداز میں ہر شئ کو اپنی لپیٹ میں لے کر خاکستر کردے گی۔

                       تجسس۔ غیر اخلاقی رویہ                غیر تسلی بخش سائنس

عقائد و اوہام 



                                                                                ضروریات

                     تحقیق


 حقیقت


استعمالات       ناجائز استعمالات



                                                       (جنگ)

ہوس 


  غیر ماحولیاتی فیصلے              نامکمل ادارے(شکل نمبر۶)