اسلام کے عظیم سپہ سالار ( حضرت خالد بن ولید ؓ)کے مختصر حالات زندگی

محمد سبحان ارریاویؔ(استاذ جامعہ اکل کوا)

آپؓ کا نام ونسب :

             ابو سلیمان خالدؓبن ولید بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم بن تیقہ بن مرہ ۔

            ’’مرہ‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتویں دادا ہیں ۔ اس وجہ سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا شجرۂ نسب ساتویں پشت میں آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے ۔

والدہ کا نام و نسب :

            آپ کی والدہ کانام ’’لبابہ بنت صغریٰ بنت الحارث‘‘ ہے ۔آپ حضرت ام المو منین بنت حارث ؓ کی ہمشیرہ ہیں ۔ اس طرح آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے حقیقی خالوہوتے ہیں ۔

خاندان :

            آپ کے چھ بھائی اور دو بہنیں تھیں۔بھائیوں میں صرف ’’ ہشام ‘‘ اور ’’ ولید‘‘ مسلمان ہوئے ،بہنوں میں سے ایک کی شادی حضرت صفوان بن امیہ اور دوسری کی حارث بن ہشام کے ساتھ ہوئی ۔

            آپ رضی اللہ عنہ کے والد ’’ ولید‘‘ کا شمار مکہ کے رؤسا میںہوتا تھا۔مکہ مکرمہ سے لے کر طائف تک؛ ان کے باغات تھے ۔ آپ کا تعلق قبیلہ مخزوم سے تھا ، جوقریش کے قبیلہ بنوہاشم کے بعد مرتبہ میں دوسرے نمبر پر تھا ۔    آپ رضی اللہ عنہ کے والد کے مال و دولت کا یہ حال تھاکہ ایک سال بنوہاشم مل کرخانۂ کعبہ کا غلاف چڑھاتے اور ایک سال ’’ ولید ‘‘ تنہا غلاف چڑھاتے تھے ۔

آپ رضی اللہ عنہ کی تاریخِ پیدائش:

            آپ رضی اللہ عنہ کی پیدائش کی صحیح تاریخ کسی کتاب میںبھی مذکور نہیں ۔ تاہم مختلف حوالوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ظہور اسلام کے وقت آپ کی عمر مبارک ۱۷؍ سال تھی۔

ایام طفولیت وشباب :

            عرب کے رواج کے مطابق آپ رضی اللہ عنہ کی پرورش بھی مکہ سے باہر ایسے دیہاتی ماحول میں ہوئی، جہاں شمشیر آرائی اور جنگجو یانہ سرگرمیاں آخر وقت تک سامنے ہوتی تھی ۔ نیزہ بازی ،شہسواری ، شمشیر زنی ، جنگی داؤ پیچ سے ہر وقت پالا پڑتا تھا ۔ آپ صغر سنی سے ہی نہایت پھرتیلے ، بہادر ، نڈر اور صاحب تدبر انسان تھے ۔

            عالم ِشباب میں آپ کی شجاعت کا رنگ نکھرا اور آپ رضی اللہ عنہ قریش کے منتخب جوانوں میں شمار ہونے لگے ۔

حلیہ مبارک:

            آپ رضی اللہ عنہ کے چہرۂ مبارک پر چیچک کے نشانات تھے ، جسم نہایت مضبوط اورسینہ بہت کشادہ تھا ۔

قبولِ اسلام سے پہلے کی زندگی :

            آپ رضی اللہ عنہ بھی اپنے والد کی طرح اسلام سے پہلے اسلام کے شدید مخالف تھے ۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہر کارروائی میں پیش پیش رہتے تھے ۔ جنگ بدر اور احد میں آپ کی صلاحیتیں اسلام کے خلاف خوب استعمال ہوئیں۔ جنگ احد کے آخری مرحلے میں مسلمانوں کو جس شکست کا سامنا کرنا پڑا اس کی بڑی وجہ آپ ہی تھے ۔

قبولِ اسلام :

            آپ کا قبول اسلام بھی غیر معمولی سے کم نہ تھا ۔ مورخین کے مطابق صلح حدیبیہ کے موقعہ پر عرب کے بڑے بڑے سورما اسلام کے ظلِ عاطفت میں جگہ پاگئے ۔ آپ کے قلبِ مبارک میں بھی اسلام کا نور جگمگانے لگا اورغیر محسوس طور پر اسلام کی محبت پرورش پانے لگی ۔دل و جان سے آپ یہ محسوس کررہے تھے کہ کسی نہ کسی وقت سارے عرب پر اسلام کا پرچم بلند ہونے والا ہے ؛اسی خیال سے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل و حرکت ، انداز گفتگو، طرز عمل ، کردار اور اسوۂ حسنہ کا جائزہ لینا شروع کردیا ۔اور بہت جلد محسوس کرلیا کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقا بہت ہی پاکیزہ زندگی گزارنے والے لوگ ہیں ۔ان کی سچائی ، بے نفسی ، سادگی ، حسن سلوک ، رعب وجلال ، اخلاق و اطوار اور فکرو نظر کی جاذبیت دیکھ کر حد درجہ متاثر ہوئے ۔

            ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آپ کی ساری صلاحیتوں سے باخبر تھے ۔اور وحی کے ذریعہ معلوم ہوگیاتھا کہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا دل اسلام کی روشنی سے آراستہ ہورہا ہے ؛چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد رضی اللہ عنہ کے بھائی ’’ولید‘‘جو کہ ان سے پہلے آغوش ِاسلام میں آچکے تھے ؛سے فرمایا :

            ’’ خالد رضی اللہ عنہ پر اسلام کی سچائی ظاہر ہوچکی ہے ۔ پھر وہ اسلام کیوں نہیں لاتا ؟‘‘

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر حضرت ولید رضی اللہ عنہ نے بھائی کے نام ایک خط لکھا۔

            حضرت خالد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ بھائی ولید کا خط دیکھتے ہی میری یہ حالت ہوگئی کہ بے اختیار میری زبان سے کلمہ توحید جاری ہوگیا۔ اور جی چاہا کہ پر لگاکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جاؤں اور اپنا تن من سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نثار کردوں۔

            چناں چہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے مکہ سے مدینہ کا سفر کیا۔

حضرت خالد ؓ کا آغوش ِاسلام میں آنے کی کہانی خود ان ہی کی زبانی :

            حضرت خالد رضی اللہ عنہ اپنے ایمان لانے کا واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں :

            ’’ میں نے مدینہ پہنچتے ہی سفر کے کپڑے اتار کر عمدہ پوشاک زیب تن کیا اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہونے کا ارادہ کیا ؛اسی جگہ میرے پاس میرے بھائی ولید آگئے ۔ انہوں نے کہا کہ کئی روز سے مدینہ منورہ کے لوگ آپ کا انتظار کررہے تھے ، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماچکے ہیں کہ بہت جلد مکہ کے کئی بہادر ہماری طرف آجائیںگے ،اس سے لوگوں میں آپ کا بہت اشتیاق ہے ۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سخت انتظار میں ہیں جلد ی کرو، اس فقرے نے میرے تن من میں بجلی پیدا کردی ۔ بس پھر کیا تھا؟ میں جونہی تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوا ، میری حالت فرط ِعقیدت سے غیر ہوگئی ۔میں دیدار ررسول کی خوشی میں دیوانہ ہوگیا اور پروانہ وار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جاگرا۔‘‘

            جس وقت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حکم توحید پڑھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر یہ فرمایا:         ’’ الحمد للہ الذی ہداک الی الاسلام ۔‘‘

            تمام تعریفیں اس خدا کے لیے ہے، جس نے آپ کو اسلام کی طرف راغب کردیا ۔

حضرت خالد کی اسلامی خدمات:

            حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا اسلام قبول کرنا تھاکہ کفر پر غشی طاری ہوگئی۔آپ ؓ کے ساتھ عکرمہ بن ابوجہلؓ اورعمروبن عاص ؓ بھی حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ۔

            مؤرخین کے مطابق حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے چھوٹی بڑی ۱۲۵؍جنگیں لڑیں اور ایک بھی لڑائی میں شکست نہیں کھائی ۔ عرب میں مشہور تھاکہ جس جنگ میں حضرت خالد رضی اللہ عنہ ہوں گے، اس میں فتح غالب ہے۔ آپ کثرت و قلت کے اعداد و شمار سے بے نیاز تھے ۔

مشہور جنگیں:

            غزوۂ احد،فتح مکہ،فتحِ طائف،جنگِ موتہ،معرکہ دومۃ الجندل،جنگ یرموک،جنگ یمامہ،جنگ اجنادین،فتح حلب،فتنہ ارتداد کو ختم کرنے کی کوششیںوغیرہ۔

آغوشِ اسلام میں آنے کے بعد پہلی لڑائی اور فتح:

            آغوشِ اسلام میں آنے کے بعد سب سے پہلی لڑائی غزوۂ موتہ(جمادی الاولیٰ۸ھ ) کی لڑی اور یہ غزوہ آپ ہی کے ہاتھوں فتح ہوا ۔

            اس غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق جب سارے امرائے لشکر شہیدہوگئے تو حضرت ثابت بن اقرم ؓ نے’’ علَم اسلام ‘‘کو بلند کیا اور مشورے کے تحت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو امیر لشکر منتخب کیا گیا ۔پھر کیا تھا حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے حیرت انگیز پھرتی اور ہوش مندی کے ساتھ اپنی ساری جنگی صلاحیتیں جھونک دیں ۔ آخر کار تین ہزار کی تعداد ایک لاکھ پر غالب آگئی اور یہ مرعوب ہوکر راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔

سیف اللہ کا خطاب :

            جنگ ِموتہ میں لشکر ِاسلام کے امرا کے علاوہ دس اور جلیل القدر صحابی بھی شہید ہوئے ۔ معتبر ذرائع سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنگِ موتہ کے تمام حالات سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کردیا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو لڑائی کے حالات سے آگاہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا :

            ’’ اخذ الرایۃ زید فاصیب ثم اخذہا جعفر فاصیب ثم اخذہا ابن رواحۃ فاصیب ۔‘‘

            زید ؓ نے علم اٹھایا اور وہ شہید ہوگئے، پھر جعفر ؓ نے علم سنبھالا وہ شہید ہوگئے اور ان کے بعد ابن رواحہ ؓ نے علم اسلامی کو لیا تو وہ بھی شہید ہوگئے ۔

            ان الفاظ کو ادا کرتے وقت حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن رواحہ ؓ کے بعد خالد رضی اللہ عنہ جو ’’ خدا کی تلوار ‘‘ ہے،اس نے علم سنبھالا اور فتح پائی ہے۔ پھر فرمایا یا الٰہی ! خالد رضی اللہ عنہ تیری تلوار ہے تو ہمیشہ اس کو فتح مند رکھیو!

            اسی دن سے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا لقب’’ سیف اللہ‘‘یعنی اللہ کی تلوار ہوگیا ۔

حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی وفا ت:

            حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے پانچویں یا چھٹے سال حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں وفات پائی ۔

            آپ مرض الوفات میں فرماتے تھے :

            ’’ میں نے عرصہ دراز تک مشرکین کے خلاف جہاد کیا اور بیسیوں جنگوں میں جام ِشہادت کی طلب میں جان توڑ کر لڑائی کی ۔ آپ نے خود کو بارہا ہزاروں کفار کے نرغے میں ڈال دیا لیکن افسوس شہادت کی آرزو پوری نہ ہوئی ۔ میرے جسم پر کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تلوار یا نیزے کا نشان نہ ہو ۔ لیکن افسوس مجھے موت نے بستر پر آدبوچا ۔ میدان جہاد میں شہادت نصیب نہ ہو ئی ۔ ‘‘

            اسلام کا یہ بہادر سپاہی یہی حسرت لیے اللہ کو پیارا ہوگیا ۔ ان کے بدن کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں تیر، تلوار، نیزے یا کسی دوسرے ہتھیار کا زخم موجود نہ ہو لیکن انہیں شہادت نہ ملی۔

             علمائے کرام اس کی وجہ یہ بتاتے ہیںکہ انہیں چوںکہ سیف اللہ کا لقب دیا گیا تھا، اس لیے انہیں میدان جنگ میں شہادت نصیب نہیں ہو سکی۔ کیوںکہ کسی کو مجال نہیں کہ اللہ کی تلوار کوشکست دے سکے۔زندگی بھر خالدؓ بن ولید کے ہاتھ میں تلوار کا دستہ رہا اور وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے۔

تواضع و انکساری :         

             تاریخ شاہد ہے کہ جس نیک دلی اور حوصلے سے حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے امیرالمومنین کے احکام کی تعمیل کی اس کی مثال نہیں ملتی ۔ فوجوں کا سپہ سالار قدرت رکھتا تھا کہ اپنے احکام منوا لے ، لیکن جس نے اپنے آپ کو راہ خدا میں وقف کردیا ہووہ ذات شان و شوکت کا  محتاج نہیں ہوتا ۔

            حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد جب ان کے اثاثے کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ آپ نے ایک غلام، ایک گھوڑا اور چند ہتھیاروں کے سوا اورکچھ نہیں چھوڑا ۔

            اگرچہ امت ِمسلمہ کی تاریخ فنونِ حرب اور جنگی کارناموں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے، لیکن مغربی مورخین کی نظر اس پر کبھی نہیں پڑی۔ مورخین کو نپولین، بوناپارٹ، جولیس قیصر اور چنگیز خان کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ اگرچہ یہ جرنیل بھی اپنی جگہ فن ِحرب کے ماہر تھے اور انہوں نے بڑے بڑے دشمنوں کو شکست ِفاش دی تھی ۔لیکن تاریخ ِاسلام کا ایک ایسا جرنیل بھی ہے جس کا تذکرہ دنیا کی جنگی تاریخ میں لازمی ہونا چاہیے۔اس نڈر اور ناقابلِ شکست جرنیل کا نام ’’خالد بن ولید‘‘ ہے۔(مستفاداز کتاب ’’ سیدنا خالد بن ولید ؓ )