اداریــہ:
مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد( صاحب)وستانویؔ
اسلام اللہ تعالی کا نازل کردہ آخری اور کامل ومکمل دین ہے ؛ لہذا اس دین حق کو مٹانے یا مسخ کرنے کی کوشش اور سازش پہلی وحی کے نزول سے آج تک تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ ان کاوشوں کے تسلسل میں کبھی انقطاع نہیںہوا، البتہ وقت اور حالات کے مطابق اس میں خفت اور شدت ہوتی رہی ۔ اہل کتاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشادِ خداوندی ہے: {ودکثیر من اھل الکتاب لو یردونکم من بعد ایمانکم کفارا}کہ اہل کتاب کی اکثریت تمھیں تمھارے دین پر آجانے کے بعد اُس سے منحرف کرنے ؛ بلکہ کافر بنا دینے تک کی کوشش میں مصروفِ عمل ہے۔ قرآن مجید نے آگے اس کی وجہ بھی بیان کردی ہے: {حسدًا من عند أنفسہم من بعد ماتبیین لھم الحق} اُس حسد کی وجہ سے جو ان کے دلوں میں ہے؛حالاںکہ حق ان کے سامنے واضح ہوچکا ہے۔
معاندین ِحق کی جانب سے پیش آنے والی اس فکری اور عملی یلغار کو تاریخی لحاظ سے چند مراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
مرحلۂ اولیٰ : نزولِ وحی کے بعد مکی عہد میں کفار مکہ کے سوالات کے ذریعے۔
مرحلۂ ثانیہ : مدنی دور میں براہ راست نامناسب سوالات کے ذریعے۔
مرحلۂ ثالثہ :وفاتِ نبویﷺ کے بعد مدعیانِ نبوت اور منکرینِ زکوٰۃ کے ذریعے۔
مرحلۂ رابعہ : حضرت عثمانؓ کے آخری دور میں سبائیت و رافضیت کے آغاز کی صورت میں ۔
مرحلۂ خامسہ : خلافتِ علیؓ کے دور میں خوارج کی صورت میں ۔
(ان ۵ ادوار میں اہل کتاب کی سازشوں سے واقفیت کے لیے اثر اہل الکتاب فی الحروب و الفتن الداخلیہ فی القرن الاول کا مطالعہ مفید رہیگا ان شاء اللہ اور الشیخ عبدالرحمن حبنکہ المیدانی کے تالیفاتی سلسلہ بعنوان ’’سلسلۃ اعداء الاسلام‘‘ میں سے مکائد یہودیۃ عبر التاریخ کامطالعہ۔ )
مرحلۂ سادسہ : حضرت حسن بصری ؒ کے دور میں اعتزال کے وجود میں آنے کی صورت میں۔
مرحلۂ سابعہ : خلافتِ امویہ کے آخری اور خلافتِ عباسیہ کے ابتدائی دور میں، فلسفۂ یونان کے عربی تراجم کی صورت میں ۔
مرحلۂ ثامنہ : امام غزالیؒ سے قبل امتِ مسلمہ میں یونانی عقلیات کی اسلام سازی کے ذریعے ۔
مرحلۂ تاسع : آٹھویں صدی ہجری سے قبل کفار کے بہت سے عقائد میں تشابہ کے ذریعے ۔
مرحلۂ عاشرہ : صلیبی جنگوں میں ناکامی کے بعد مستشرقین کی باقاعدہ تحریک کے آغاز کی صورت میں۔
مرحلۂ حادی عشر: استعماری حملے کے ساتھ سترہویں واٹھارہویں صدی عیسوی میں سیکولر تعلیمی نظام کے بجبر نفاذ کے نام پر۔
مرحلۂ ثانی عشر: خلافتِ اسلامیہ کے سقوط سے قبل مختلف فرق ہائے باطلہ مثلاً بابیت، بہائیت، قادیانیت، نیچریت، پرویزیت وغیرہ کے ظہور کی صورت میں۔
مرحلۂ ثالث عشر: سقوطِ خلافت کے زمانے میں ماڈرن ازم، لبرل ازم، سرمایہ دارانہ انقلاب،اور جدت پسندی کے نام پر آزادی، ترقی اور مساوات کو فرد اور معاشرے میں بنیادی قدر کے طور پر قابل تقلید بنانے کی منصوبہ بندی کی صورت میں۔
مرحلۂ رابع عشر: سقوطِ خلافت کے بعد گلو بلا ئزیشن کی صورت میں، خلافتِ عثمانیہ کے ضعف اور مغرب کے غلبہ کے آغازکے بعد تو فکری یلغار نے ایسی شدت اختیار کی ہے کہ الامان والحفیظ! بعض باحثین نے ماقبل ِسقوط یعنی خلافت کے کمزور ہونے سے لے کرسقوط تک بھی چند مراحل ذکر کیے ہیں:
مرحلہ اولیٰ:
مغرب کی نشأۃِ ثانیہ۔ لیونارڈو ڈاونچی (Leonardo-da-Vinchi ۱۴۵۲ء- تا- ۱۵۱۹ء) اِس مفکرنے انسانی جسم کا سائنٹفک مطا لعہ کر کے انسانی جذبات کو اپنی تصویروں میں پیش کیا، جس سے اس کو عظیم مصور تسلیم کیا گیا۔ رافیل (Raphael ۱۴۸۳ء – تا- ۱۵۲۰ء):رافیل کی شاہکار تصویریں اپنی خوبصورتی ، کشش اور رنگوں کے اِمتزاج کی وجہ سے ساری دنیا میں مشہور ہوئیں۔ مائیکل انجیلو (Angelo Michael ۱۴۷۵ء- تا -۱۵۶۴ء)۔
مرحلہ ثانیہ:
عہد عقلیت، عہد روشن خیالی (Age of Reason,Age of Enlightenment) سولہویں صدی: گلیلیوکی صدی۔
سترہویں صدی: سر فرانسس بیکن، تھامس ہابس، رینے ڈیکارٹ، بارُچ اسپینوزا، لبنز، جان لاک کی صدی۔
مرحلہ ثالثہ: دورِ جدید ۔
اٹھارہویں صدی: دور اِنقلاب:(الف)صنعتی انقلاب (ب)امریکہ کی جنگ آزادی (ج) انقلاب فرانس: وحی کا انکار، مذہب سے بے زاری، فطری مذہب کے اصول وفروع کی تدوین کی کاوش۔
انیسویں صدی: برکلے، والٹیئر، ڈیوڈ ہیوم، کانٹ، بینتھم، ہیگل، آگسٹ کامٹے، جان اسٹیورٹ مل کر کے گارڈ کی صدی۔
الشیخ عبدالرحمن حبنکہ المیدانی کے تالیفاتی سلسلہ بعنوان سلسلۃ اعداء الاسلام میں سے اجنخۃ المکر الثلاث کامطالعہ، اسی طرح کواشف زیوف کا مطالعہ اس کے لیے مفید ہے۔
خلاصہ یہ کہ اسلام جہاںایک کامل و مکمل دین ہے، جس کا اعلان قرآن کریم نے ’’الیوم أکملت لکم دینکم و أتممت علیکم نعمتی‘‘کے ذریعہ کیا، جو زندگی کے ہر شعبہ میں انسان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے، وہیں دوسری طرف یہ فطری بات ہے کہ شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے، وہ انسانوں ہی کے عاقبت نااندیش گروہوں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کی بھر پور کوشش کرتا رہتا ہے، جس کی اُسے قدرت حاصل ہے۔ مگر چونکہ اللہ تعالی نے دین حق کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے:
{إنا نحن نزلنا الذکر وإنا لہ لحافظون}کے وعدہ کے ذریعہ، اس لیے اللہ رب العزت ہر زمانے میں ایسے رجال اللہ کو کھڑے کرتے آئے ہیں ،جو اس زمانے کے حالات کے اعتبار سے اس کی حفاظت کی خدمت انجام دیتے ہیں؛ جب تک صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین تھے یعنی ۹۰ھ تک تو انھوں نے ہر اعتبار سے دین حق کا بھر پور دفاع کیا۔
منکرین زکوۃ کے خلاف حضرت ابوبکر کا اعلانِ جہاد اور یہ تاریخی جملہ’’ اینقص الدین وانا حی‘‘ روافض اور خوارج کے خلاف حضرت علیؓ کا طرزِ عمل، دفاع حق کا ایک لا زوال کارنامہ ہے۔جس کے بعد دین حق کی حفاظت کے لیے رجال اللہ کے ذریعے رونما ہونے والے کارناموں کا ایک سلسلہ قائم ہو گیا؛چناں چہ ’’منکرین قدر‘‘ کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عمر کے قول ”بریء منہم وہم براوء منی ”۔
پھر تابعین کے دور میں معتزلہ کے خلاف حضرت حسن بصریؒ کے کردار سے۔ خلق قرآن کے باب میں امام احمد ابن حنبلؒ کی قربانیاں۔ اس کے بعد امام ابو الحسن الاشعری، امام ابو منصور ماتریدی۔ اس کے بعد امام الحرمین الجوینی، حجۃ الاسلام امام غزالی وغیرہ کے علمی معرکوں اور عملی کوششوں نے فکری یلغاروں کا زوردار مقابلہ کر کے اسلام کا زبردست دفاع کیا۔
آخری دور میں جب فلسفہ مغرب نے سر اٹھایا تو اس کا رد بہت لوگوں نے کیا؛ مگر اسلامی مزاج کے مطابق اصولِ شرع اور عقلِ سلیم کی روشنی میں اس کا جو عادلانہ، عالمانہ اور پُرجوش دفاع کیا اس میں علمائے اہل سنت دیوبند کو ایک امتیازی شان حاصل ہے۔ وللہ الحمد علی ذالک!
خاص طور پر امام محمد قاسم نانوتویؒ اور حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی علمی کاوشوں نے تو ایک مستقل علم کلام کی بنیاد ڈال دی ہے، جو ایک طرف سلف کے طرز کے ساتھ مربوط ہے تو دوسری جانب "بصیرا بزمانہ” کا مظہر بھی ہے۔
مغرب کی’’ نشاۃ ثانیہ ‘‘اور ’’روشن خیالی‘‘ کی فکر کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فکری حملے کے مقابلہ کے لیے ہمارے اِس عہدِ جدید میں اب ایک بار پھر اسی رنگ اور اسلوب میں کام کرنے کی ضرورت ہے، جس طرز اور منہج کے مطابق حجۃ الاسلام امام غزالی قدس سرہ نے اپنے زمانے میں فلسفۂ یونان کا "تہافۃ” پیش فرمایا۔ جس کا پہلا مرحلہ بقولِ امام غزالی فلسفے کی درست تفہیم تھی اور مرحلۂ ثانیہ اس کی عالمانہ تردید۔
حق کے مدافعین کے لیے اعلی سطح کی علمی بصیرت اور منتہائی درجے کی صالحیت لازم ہے، ورنہ دفاع حق کی ہر کوشش دلیل کے اعتبار سے کمزور ثابت ہوگی اور کمزور دلیل سے سکوت اسلم ہے۔