Concept of Justice In Islam
( الامام محمدقاسم نانوتویکے اِفادات کی روشنی میں)
(نوٹ :یہ مضمون اُس مقالہ کی تلخیص ہے جو۷ ۲۰۱ء میں شعبہ پالیٹیکل سائنس علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سیمینار میں پیش کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا؛مگریوپی الیکشن کی وجہ سے وہ سیمنیار ملتوی ہوگیا اور بعد میں پیش نہیں کیا جا سکا۔)
مولانا حکیم فخرالاسلام مظاہری#
”نظریہٴ سیاست میں عدل کی مرکزی اہمیت ہے۔یہ فرد کی دلچسپیوں اور معاشرے کے تقاضوں کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کا رول نبھاتا ہے۔ “
”فلسفے میں عدل کا تصور یہ ہے کہ افراد جن چیزوں کے مستحق ہیں،اُن کے اور اُن صحیح و غلط چیزوں کے درمیان میں-جو اُنہیں عطا کی جائیں یا وہ اُن سے محروم رکھے جائیں- ایک تناسب قائم رہے۔“(Speech on justice…..your article library)،(Justice/ Social concept/Britanica.com)
قدیم فلسفہ اور موجودہ دورکے جدید رجحان کے زیر ِاثر عدل و اِنصاف کا یہ ایک اِجمالی تصور ہے؛لیکن جہاں تک عدل کے اسلامی تصور کا تعلق ہے،تواِس حوالے سے یہ بات ذہن نشیں رہنا ضروری ہے کہ شریعت ِ اسلامی کا اصلی مقصد خالق اور مخلوق کے حقوق کی ادئیگی ہے ،اِس حیثیت سے کہ اُسے رضائے الٰہی کا ذریعہ بنا یا جائے(To pay the rights of Creator and creatures as God’s pleasure)۔اوراِس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے خالق کا خالق ہونا اور خالقِ کائنات کا ایک ہونا]توحید [ ثابت ہو۔پھرجب ایک مرتبہ توحید کا ثبوت فراہم ہو گیا، تو”توحید“کے ثابت ہو جا نے کے بعدمنطقی طور پر(logically)اِس بات سے اِنکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جا تی کہ جب کسی کو خالق و مالک تسلیم کرلیا ،تو اُس کی ہر بات اور تمام حکم ،بھی تسلیم کرنا ضروری قرار پاتا ہے۔
رہا یہ مسئلہ ، کہ خالق کے احکام کیا کیا ہیں؟اور اُن کی اِطلاع بندوں کو کس طرح ہواور کیوں کر ہو؟تو مذہب میں رسالت کا جو تصورموجود ہے،وہ در حقیقت اِسی سوال کا جواب ہے،کہ خالق کے احکام بندوں تک پہنچا نے کے لیے کسی پیغام بر اور رسول کی ضرورت ہوتی ہے،اِسی قاصد اورپیغام بر کو مذہب کی اصطلاح میں رسول اور نبی کہتے ہیں۔ہاں ،یہ بات،البتہ باقی رہ جاتی ہے کہ کسی کو رسول اور نبی کیوں کر تسلیم کیا جا ئے؟ یہ سوال یقیناًنہایت اہم ہے۔اور اِس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نبی اور رسول کے اندر تین صفات دیکھی جائیں۔۱:اپنے خالق و مالک کے تئیں اعلی درجے کااِخلاص ۔۲:اعلی درجے کی عقل۔۳:اعلی درجے کی خوش خلقی اورحسنِ تعلیم۔(۱)
یہاں تک تو تمام مذاہب کے معیارات مشترک ہیں۔اِس کے بعد اسلام کا یہ دعوی ہے کہ محمد ﷺ نہ صرف نبی ہیں؛بلکہ خاتم النبیین ہیں۔تواب دو باتوں کا طے ہو نا ضروری ہے۔
۱- یہ کہ محمد ﷺ میں نبوت کی مذکورہ بالا تینوں صفات ثابت ہونا چاہئیں۔
۲- محمد ﷺ میں اور اُن کی تعلیمات میں بعض ایسی اِ متیازی صفات اور خدا تعالی کی طرف سے خاتمیت کا سرٹیفیکٹ ہونا ضروری ہے، جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ آپ ﷺ کی بعثت کے بعد آپ کی اتباع کے بغیراور تعلیم پر عمل کے بغیرخدا تعالی کی رضا حاصل ہونا ممکن نہیں۔
انہی دو چیزوں(توحید و رسالتِ محمدی)پر اِسلامی عدل کی بنیاد ہے اور یہ تمام اموراپنے موقع پر عقلی حیثیت سے ثابت شدہ ہیں۔(۲)
اِن اصولی باتوں کے گوش گزار ہو جانے کے بعد یہ امر خود بہ خود طے ہو جا تا ہے کہ چوں کہ تمام اسلامی احکام خدا و رسول کی ہی جانب منسوب ہیں اور خداورسول وکی جانب سے آنے والے جملہ احکام عدل پر مبنی ہیں۔اورعقلی حیثیت سے بھی اِن کا عدل پر مبنی ہونا ثابت شدہ ہے ، جنہیں علماء نے اپنے موقع پر بیان کیا ہے۔
اِس کے لیے امام غزالی کی ”حجة الاسلام“،شاہ ولی الله دہلوی کی ”حجة الله البالغہ“وغیرہ کے علاوہ اِس آخری دورمیں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی ”المصالح العقلیة للاحکام النقلیة“(احکام اسلام عقل کی نظر میں)دیکھی جا سکتی ہیں۔رہی یہ بات خالص عقلی بنیاد پر خود عدل کا معیار کیاہے ،یعنی عقلی طور پروہ کون سے آفاقی معیار ہیں، جن پربنیاد رکھ کر معاشرتی اور سیاسی ا مورکو عد ل و اِنصاف پر مبنی قرار دیا جا سکتا ہے؟پھر یہ دیکھا جائے کہ یا تو اسلام اُن کی پاسداری کرتا ہے یا وہ اسلامی احکام کی تائید و حمایت کرتے ہیں۔
(۱)تفصیلی کے لیے ملاحظہ ہو:الامام محمد قاسن نانوتوی:حجةا الاسلام“
(۲)تفصیلی دلائل کے لیے ملاحظہ ہو:الامام محمد قاسن نانوتوی:حجةا الاسلام“
اِس حوالے سے معلوم ہو نا چا ہیے کہ الامام محمد قاسم نانوتوی(۱۸۳۳-۱۸۸۰) نے ایک معروضی گفتگو پیش کی ہے،جس کا حاصل یہ ہے کہ:
” چار باتیں اخلاق میں سے ایسی ہیں کہ اُن کی بھلائی میں عالم کو … اتفاق ہے ۔
۱:” عدل و انصاف، یعنی حق والوں کے حقوق ادا کرنے۔“
۲:”دوسروں کے ساتھ احسان اور بھلائی کرنی۔“
۳:” متانت، یعنی سبک حرکت نہ ہونا(جلد بازی نہ کرنا) اور بے فائدہ اور بے ہودہ کام نہ کرنے۔“
۴:”نفاست اور پاکیزگی۔“
یہ چار باتیں ذکر کرکے ،اِن کے متعلق ۱۹ صدی کے مفکر وعبقری الامام محمد قاسم نانوتویفرماتے ہیں کہ:
”… یہ چار باتیں کہنے میں تو چار ہیں، پر غور سے دیکھیے، تو اِن کا پھیلاوٴ رشتہٴ خیال کو بھی تنگ کیے دیتا ہے۔“
اِس موقع پر معاشرتی اور سیاسی تمام ا مورکو عد ل و اِنصاف پر مبنی قرار دیے جانے کے مذکورہ بالا چار معیارات میں سے بہ طور نمونہ کے ۱:” عدل و انصاف، یعنی حق والوں کے حقوق ادا کرنے۔“ کے متعلق اِختصار کے ساتھ کسی قدر عرض کیا جا تا ہے۔
۱:عدل و اِنصاف یعنی حق والوں کے حقوق ادا کرنا:
اِس باب میں سب سے پہلے خدا تعالی کے حقوق آتے ہیں اور وہ تین قسم کے ہیں:
الف:عبادتِ قلبی:
” خدائے تعالیٰ کے حقوق …(قلب سے متعلق مثلاً یہ ہیں): خدائے بزرگ کے برابر کسی کو نہ جاننا، اُس کو محبت سے ہر دم یاد رکھنا، اُس کے احسانوں کو نہ بھولنا، اُس کے آگے اپنے آپ کو ہر دم ذلیل و خوار سمجھنا، اُس سے ڈرتے رہنا، اُس کی رحمت سے ناامید نہ ہونا “وغیرہ۔
ب:عبادتِ بدنی:
” سجدہ سجود وغیرہ -جو جوتپسیوں کے کام خاص اُسی کی تعظیم کے لئے ہوتے ہیں-“
ج:عبادتِ مالی:
” خدا کے محتاج بندوں کو خدا کے دیے ہوئے مال میں سے دینا۔ “
”یہ تینوں قسم کی بندگیاں( قلبی ،بدنی ا ور مالی) عدل و انصاف ہی میں داخل ہیں۔“
قلبی،بدنی اور مالی عبادتیں حقوق الله میں کیوں داخل ہیں:
کیوں کہ جب ہم خدا کی بنائی -۱۵۴- چیزوں کو خرید و فروخت وغیرہ کے سبب اپنی ملک تصور کرتے ہیں، اگر اُن کو کوئی ہماری خلافِ مرضی اپنے تصرف میں لائے، تو اس کو ظلم سمجھتے ہیں۔تو وہ مالک الملک -کہ جو اِن کا اصل خالق ہے- بدرجہٴ اولی مالک ہوگا۔ بل کہ(اُس کی ملک کا اِستحکام اِس قدر قوی اور محیط ہے کہ) ہماری، تمہاری ملک تو فقط مال ہی میں چلتی ہے،اپنے دل اور بدن اور بدن کے آلات: ہاتھ، پاوٴں، آنکھ وغیرہ میں ملکِ مالکیت کی گنجائش نہیں۔ اسی لیے خرید، فروخت، ہبہ، وصیت، میراث وغیرہ اسباب تملیک کے …( دل ، بدن ، ہاتھ، پاوٴں وغیرہ میں) جاری نہیں ہوتے۔ پر خدائے مالک الملک سب چیزوں کا مالک معلوم ہوتا ہے۔
مالک الملک ہونے کی دلیل:
کیوں کہ سب اُسی کے بنائے ہوئے، عطا فرمائے ہوئے ہیں۔ اپنے پاس اِن کو ایک مستعار سمجھنا چاہیے۔ اِس صورت میں ہر چیز کواِن تینوں قسموں (عبادات دلی،عبادات بدنی،عبادات مالی)میں سے اسی (خالق و مالک)کے کام میں لانا چاہیے۔ ورنہ انصاف کہاں، اور عدل کجا؟“
”حق ،حقوق“کی ماہیت:
”کیوں کہ وہ چیز -کہ جس کا نام ”حق“ ہے اور اُس کے ادا کرنے کو لازم اورواجب سمجھنا چاہیے- بعد تفتیش کے یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ مبادلہٴ احسان ہے فقط اورکچھ نہیں۔ (خرید و فروخت کے باب میں خریدنے والے )… کے ذمے جو قیمت واجب ہو جاتی ہے، تو اِسی لیے ہو جاتی ہے کہ …(بیچنے والے) نے اُس کے ساتھ بھلائی کی ا ور اپنی چیز اُسے دے دی، اِسے بھی چاہیے کہ اُس کے ساتھ بھلائی کرے۔“
یہ چند سطوربہ طور نمونہ کے ذکر کی گئیں۔الامام محمد قاسم نانوتوی نے باقی تینوں ،یعنی دوسرے:”دوسروں کے ساتھ احسان اور بھلائی کرنی۔“
تیسرے:” متانت، یعنی سبک حرکت نہ ہونا(جلد بازی نہ کرنا) اور بے فائدہ اور بے ہودہ کام نہ کرنے۔“اور چوتھے معیار:”نفاست اور پاکیزگی۔“،معیار پر بھی گفتگو اِسی طرح فرمائی ہے۔
تفصیل کے لیے تقریر دل پذیر ص۱۴۵، و مابعد کا مطالعہ کرنا چا ہیے۔
#…#…#