اسلام میں اخلاقی قدروں کا تربیتی نظام

مولانا عبد الرحمن ملی ؔندویؔ جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا

                قوموں اور امتوں کی ترقی اور نیک نامی میں صحیح اخلاقی قدروں اور تربیتی نظام کا بہت بڑا کردار ہے ۔بل کہ اخلاق ہی کسی بھی معاشرہ کی تشکیل کا بنیادی پتھر ہے ۔ اخلاقی بلندی کا درس جو قرآن نے دیا ہے، دنیا کے کسی بھی مذہبی کتاب نے نہیں دیا ۔ اس لیے ابنیائے کرام کا اصلاحی اور اخلاقی پیغام ہی معاشرہ میں صحیح تربیتی روح پھونک سکتاہے۔ اور صحیح اخلاقی قدریں ہی دنیا و آخرت کی کامیابی اورفلاح کی ضامن ہیں ۔ اور اخلاق کی درستگی ہوتی ہے تزکیہ باطن اور اصلاحِ قلب سے اور قلب وضمیر کی صحیح اصلاح ہوگی ایمان و یقین کی پختگی اور کمال عمل کے ذریعہ۔ اس لیے قرآن کریم نے اکثر مقامات پر اصلاح باطن اور توبہ کی طرف انسانوں کو متوجہ کیا ہے : {فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِہٖ َو اَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰہَ یَتُوْبُ عَلَیْہِ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ }(المائدہ) جو شخص اپنی ظالمانہ کارروائی سے توبہ کرلے اور معاملات درست کرلے ، تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلے گا ۔ بے شک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے ۔ (تقی عثمانی )اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : {فَمَنِ اتَّّقٰی وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ} (الاعراف)

                اخلاقی اصلاح کا مطلب ہے اپنے آپ کو فکری گمراہی ، اخلاقی گراوٹ ، شاطرانہ مزاج ، حاسدانہ طبیعت ، باغیانہ کردار جیسی صفات سے دور رکھنا ۔ قرآن کریم نے کامیابی مشروط رکھی ہے تزکیہ قلب کے ساتھ {قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰ }(الاعلی)فلاح پائی اس نے جس نے پاکیزگی اختیار کی (تقی عثمانی )قَدْ اَفَْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہَا } (الشمس )  فلاح اس کو ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے اور نامراد ہوگا جس نے اس کو (گناہ میں ) دھنسا دیا ۔ (تقی عثمانی )

                قرآن کریم ایک روحانی تزکیتی کتاب ہے ،جو اپنے ماننے والوں کی بلند اخلاقی تربیت کرنا چاہتی ہے اوران اخلاقی کرداروں میں بنیادی عمل کسی کے ساتھ حسن سلوک کرنا بھی ہے ۔ اس لیے کہ حسن سلوک ہی انسانیت اور آدمیت کو فروغ دیتا ہے ۔ حسن سلوک کا فائدہ خود محسن کو بھی ملتا ہے{اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ } (الاسراء ) اگر تم اچھے کام کروگے تو اپنے ہی لیے کروگے ۔ (تقی عثمانی )

                کسی کے ساتھ حسن سلوک اور ہمدردانہ کردار اداکر نے والا خود اپنے دل میں سکون واطمینان محسوس کرتا ہے ۔اوردوسروں کے لیے محبت واحترام اور تشکرا نہ جذبات سے دور رکھتا ہے اس لیے کہ اللہ نے عدل وانصاف اورحسن سلوک کا حکم دیا ہے، بد سلوکی اور بد کردار ی کا نہیں ۔ {اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَائِ ذِی الْقُرْبیٰ وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ }(النحل)بے شک اللہ انصاف کا ، احسان کا اور رشتہ داروں کو ان کے حقوق دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، بدی اورظلم سے روکتا ہے ۔ (تقی عثمانی )

                قرآن کریم نے حسن سلوک اور احسان کے مقام و مرتبہ کو بلند کرتے ہوئے اخلاص اور حسن نیت کے ساتھ جوڑا ہے ۔ {وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْہَہُ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحْسِنٌ }(النساء)

                اوراس سے بہترکس کادین ہوگا،جس نے اپنے چہرے کواللہ کے آگے جھکادیاجب کہ وہ نیکی کاخوگربھی ہو۔(تقی عثمانی)

                محسنین کی اہم ترین صفات میں قیام لیل اورتہجدہے کہ وہ رات کے آخری وقت میں دن بھرکی کوتاہیوںاورغلطیوںکی اللہ سے معافی طلب کرتے ہیں۔اوراپنے ہم جنس انسانوںکواپنے حسن سلوک سے راضی کرتے ہیں۔انسانوںکی کوتاہیوںاورغلطیوںکوچھپاتے ہیں،اپنے دوستوںسے تعلقات رکھتے ہیں                                        اور ان کی غلطیوںکی پردہ پوشی کرتے ہیں۔اوردوستی اِس طریقہ سے نبھائی جاسکتی ہے ،ورنہ اگرانسان اپنے بھائیوںکے عیوب کواجاگرکرنے اورغلطیوںکومجلس میںظاہر کرے گا،تونہ زندگی صحیح طریقے سے گذرسکتی ہے اورنہ تعلقات استوارہوسکتے ہیں۔اس لیے کہ تقویٰ کامحل دل ہے بدن نہیں۔اگرمسلمان تقویٰ کی حقیقت جا ن لیں اوراس کاصحیح استعمال کریں تویقینادلوںسے بغض وحسد،کینہ وکپٹ اوردشمنی کی آگ خودہی بجھ جائے گی۔اورامن وسلامتی اورمحبت والفت کی فضاعام ہوگی۔انسان ،انسان کوپہچانے گا۔اس لیے سب سے اہم چیزجس کاایک مسلمان کی زندگی میں ہوناضروری ہے ،وہ ہے صفتِ صبر۔صبربلندترین وہ ایمانی وروحانی ہتھیارہے ،جس کے ذریعہ انسان اپنے مدمقابل کے دل میں محبت کی جگہ بنالیتاہے اوردل سکون اورروحانی اطمینان کامرکزبن جاتاہے ۔اسی لیے قرآن کریم نے صبراورصابرین کی خوب تعریف کی ہے اوراجرعظیم اورجنت کاوعدہ کیاہے ۔بلکہ ناپسندیدہ چیزوں پرصبرکوجہادسے تعبیرکیا ہے اورصابرین کوقیامت کے روزفضل ورحمت اوراپنی خاص عنایت والطاف سے نوازیںگے۔{وَلَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْااَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَاکاَنُوْایَعْمَلُوْنَ}(النحل)

                ترجمہ:  اورجن لوگوںنے صبرسے کام لیاہوگا،ہم اُنہیںان کے بہترین کاموںکے مطابق ان کااجرضرورعطاکریںگے۔(آیت:۹۵)

                اورصبرپیداہوتاہے عفوودرگذراورباہمی معافی کے ذریعہ۔اس لیے کہ ایک دوسرے کومعاف کرنابلنداخلاقی صفات میں سے ہے ۔کیوںکہ معافی ہرکس وناکس کے ذریعہ ظاہرنہیںہوتی،اس کے لیے بڑے سینہ اوردریائی جگرکی ضرورت ہے ۔معاف کرنا،حسن سلوک اورعمدہ تربیت کابہترین نمونہ ہے ۔معافی دلوںمیںاحسان کابیج بوتی ہے اوربدلہ لینا،انتقامی مزاج رکھنا،دلوںمیںنفرت وعداوت کی آگ بھڑکاتاہے۔      {وَاِنْ تَعْفُوْاوَتَصْفَحُوْاوَتَغْفِرُوْافَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ}(التغابن)

                ترجمہ: اوراگرتم معاف کردواوردرگذرکردواوربخش دوتواللہ بہت بخشنے والا بہت مہربان ہے۔

                ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:{وَلَاتَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَاالسَّیِّئَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَاالَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ} (فصلت)

                گویاکہ معافی اورراست گوئی انسانی ترقی کااہم ترین زینہ ہے ۔سچائی وہ بنیادی صفت ہے ،جس کے ذریعہ انسان معاشرہ میںاپناایک مقام بناسکتاہے۔باوجودیکہ آج کی دنیامیں جھوٹ کوایک ہنرکے طورپر دیکھا جاتاہے ۔جوجتناجھوٹاوہ اتناہی سچا،لیکن اِس کے باوجودسچائی اورحقیقت پسندی کامقام ومرتبہ کسی قدربھی کم نہیںہوسکتا۔قرآن کریم فرماتاہے:{یٰٓاَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوْااتَّقُوْااللّٰہَ وَکُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِیْنَ}(التوبۃ)اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہاکرو۔

                حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تاکیدی طور پر فرمایا ہے کہ ’’ عَلَیْکُمْ بِالصِّدْقِ فَاِنَّ الصِّدْقَ یَہْدِیْ اِلَی الْبِرِّ، وَاِنَّ الْبِرَّ یَہْدِیْ اِلَی الْجَنَّۃِ وَمَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَصْدُقُ وَیَتَحَرَّی الصِّدْقَ حَتّٰی یَکْتُبَ عِنْدَ اللّٰہِ صِدِّیْقًا ، وَاِیَّاکُمْ وَالْکِذْبَ فَاِنَّ الْکِذْبَ یَہْدِیْ اِلَی الْفُجُوْرِ وَاِنَّ الْفُجُوْرَ یَہْدِیْ اِلَی النَّارِ،حَتّٰی یَکْتُبَ عِنْدَ اللّٰہِ کَذَّابًا‘‘ (رواہ مسلم )

                ہمیشہ سچ بولو اس لیے کہ سچائی نیکی اور بھلائی کا راستہ بتاتی ہے اوربھلائی جنت تک پہنچاتی ہے ۔جب انسان سچ بولتا رہتا ہے تو اللہ کے پاس سچوں میں لکھا جاتا ہے ۔ جھوٹ سے بچا کرو اس لیے کہ جھوٹ انسان کو گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ انسان کو جہنم میں پہنچاتا ہے ۔ انسان جھوٹ بولتا رہتا ہے ،یہاں تک کہ اللہ کے پاس جھوٹوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔

                اِس حدیث پاک پر غور کیجیے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سچائی اور راست بازی پر کس بلیغ اور اچھوتے طریقے سے ابھارا ہے کہ کثر ت صدق سے بندہ اللہ کے پاس سچوں کی فہرست میں لکھا جاتا ہے اور جھوٹ بات کا عادی انسان اللہ کے پاس جھوٹو ں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ اب انسان کو دیکھنایہ ہے کہ وہ اللہ کے پاس اپنے آپ کوکن لوگوں میں شمار کرنا چاہتا ہے ۔ اور سچا انسان وہی ہوگا جو اپنی بات اور کام دونوں میں امانت دار اوردیانت دارہو گا ۔ اس لیے کہ سچائی اور امانت داری ایسی صفات ہیں، جن پر معاشرہ کی بنیاد قائم ہے ۔ {وَالَّذِیْنَ ہُمْ ِلاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُوْنَ }(المؤمنون)

                اور جو انسان سچائی ، راست بازی اورامانت و دیانت داری جیسی صفات کا عادی ہوگا یقینا وہ لوگوں کے ساتھ بھائی چارگی اور ہمدردی کا معاملہ کرے گا۔ لوگوں کے آپسی نزاعات اور جھگڑوں کو اپنی حکمت عملی سے بہترین اورحکیمانہ اسلوب میں سلجھائے گا ۔اس لیے کہ لوگوں کے ساتھ اصلاحی اورتربیتی برتاؤ رکھنا پختہ ایمان اور بلندی اخلاقی کردار کی علامت ودلیل ہے ۔ ایک حقیقی مومن کی یہی آرزو رہتی ہے کہ مسلمان آپس میںمحبتانہ اور مخلصانہ رہیں، بل کہ مسلمان عام انسانوں کے درمیان بھی اپنی محبت رکھتا ہے۔{اِنَّمَاالْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْابَیْنَ اَخَوَیْکُمْ}(الحجرات) تمام اہل ایمان بھائی بھائی ہیں تواپنے بھائیوںکے درمیان صلح کوقائم رکھو۔(بلال حسنی)

                 حقیقی مومن اورمسلمان وہی ہے ،جونہ صرف مسلمانوں،بل کہ عام لوگوںمیں بھی محبت واخوت کوفروغ دے ۔جس کے لیے ایک دوسرے کاتعاون اورمدددرکارہے ۔خیراورمخلصانہ محبت کے لیے ایک دوسرے کاتعاون لازم وضروری ہے ۔قرآن کریم نے اِس کی طرف اپنے بلیغ اسلوب میں اشارہ کیاہے :{وَتَعَاوَنُوْاعَلَی الْبِرِّوَالتَّقْوٰی وَلَاتعَاَوَنُوْاعَلَی اْلِاثْمِ وَالْعُدْوَانِ}(المائدۃ)نیکی اورتقویٰ کے کاموںمیںآپس میں ایک دوسرے کی مددکیاکرو۔اورگناہ وسرکشی میںایک دوسرے کی مددمت کرو۔( بلال حسنی)

                اس لیے ایک مسلمان کااخلاقی شیوہ اورتربیتی اسلوب یہ ہوناچاہیے کہ وہ اپنے آپس میںایثاروہمدردی سے کام لے ،شاطرانہ مزاج سے پرہیزکرے ۔اس لیے کہ ایثاروہمدردی انسانی زندگی میں بنیادی اورکلیدی صفات ہیں۔اوراس کے ذریعہ آپسی محبت والفت کے عادی بنتے ہیں۔اوراِنہی صفات سے معاشرہ تشکیل پاتاہے ۔دوسروںکوکم تراورحقیرنہ سمجھتے ہوئے ایثاروہمدردی کابرتاؤ کرے ۔قرآن کریم نے صحابہ کرام کی ایثاری صفت بتاتے ہوئے فرمایاہے :{وَیُوْثِرُوْنَ عَلیٰ اَنْفُسِہِمْ وَلَوْکَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَاُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ}(الحشر)

                ترجمہ: اوردوسروںکواپنی جانوںپرترجیح دیتے ہیںخواہ خودتنگ دستی کاشکارہوں۔اورجوبھی اپنے جی کی لالچ سے بچالیاگیاتوایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔(بلال حسنی)

                یہ آیت تربیت وتعلیم کے ٹھوس وپختہ طریقہ کارکی طرف اشارہ کررہی ہے ۔ظاہرہے کہ اپنی ذات پردوسروںکوترجیح دینایہ جگرگردے کی بات ہے ۔اورخاص طورپراِ س مفادی اورمطلبی دنیامیںتوکسی کرامت سے کم نہیں ہے ۔ظاہرہے کہ ان تمام صفات کے لیے شیریں بات اورمحبتانہ کلام کی اشدضرورت ہے ،بل کہ حسن کلام ہی تمام کامیابیوںکی کنجی ہے ۔اوراسی کے ذریعہ ہرمعاشرہ بنتاہے اورعام لوگوںمیں دلی محبت کے جذبات ابھرنے لگتے ہیں۔اورحسن کلام اورشیریں زبان کے ذریعہ انسان پورے معاشرہ میں محبوب بنتاہے اورلوگوںکے لیے مطلوب بھی ہوتاہے ۔قرآن کریم نے بہت بنیادی بات فرمائی کہ اپنی آوازکوپست رکھاکرو۔{وَقُوْلُوْالِلنَّاسِ حُسْنًا} (البقرۃ)

                ترجمہ: اورلوگوںسے اچھی بات کیاکرو۔

                حسن کلام والافردہمیشہ پست آوازرکھ کرہی کلام کرے گااوروہی انسان انسانی معاشرہ میںکامیاب بھی ہوتاہے ۔{وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ} (لقمان)

                ترجمہ:  اپنی آوازکوپست رکھاکرو۔

لوگوںسے ہمدردانہ ومحبتانہ تعلقات رکھنے ہوںتوزبان کوشیریں رکھناہوگا۔

                اور آواز کو پست اور لوگوں سے بات کرتے ہوئے کریمانہ اخلاق کا مظاہرہ کرنا ضروری ہوگا ۔ {فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ }(آل عمران )

                ترجمہ:  بس اللہ ہی کی رحمت تھی کہ آپ نے ان کے ساتھ نرمی فرمائی اوراگرآپ تندخواورسخت دل ہوتے ،تووہ آپ سے کب کے منتشرہوگئے ہوتے۔( بلال حسنی)

                قرآن کریم نے حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق بھی فرمایاکہ آپ اللہ کی رحمت اوراس کے فضل سے نرم خواوربلنداخلاق کے معیارپرفائز ہیں ۔اگر آپ بھی (نعوذباللہ)سخت دل اورتندخواورغیرمناسب مزاج کے حامل ہوتے ،توصحابہ کرام کی اتنی بڑی جماعت آپ کے پاس جمع نہ ہوتی۔ـلیکن قربان جائیے کہ خودقرآن کریم نے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلنداخلاق اورعالی ظرفی کی سند دی کہ {وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ }(القلم) اور آپ اخلاق کے بلند معیار پر فائز ہیں ۔

                اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے بلیغ وبلند ارشاد میں فرمایا کہ ’’اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ ‘‘ (البخاری ) میں اخلاقی قدروں کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں ۔ کہ اخلاقی قدروں کی تکمیل کے لیے ہی مجھے مبعوث کیا گیا ہے ۔ اور اخلاقی قدروں کا تعلق انسان کی زندگی کے تمام شعبہ جات سے ہے یعنی کہ انسان کو زندگی کے ہر شعبہ میں نبوی خلاق کا کریمانہ وحکیمانہ طریقہ رائج کرنا ہے اور اپنے بااخلاق و باکردار مسلمان ہونے کا عملی ثبوت فراہم کرنا ہے۔