پر
منطق جدید کے تناظر میں اعتراضات و سوالات
(حصہ اول)
کاوش: محمد محسن گلزار
منطق جدید کے ہیومن ازم/ مذہب ِانسانیت پر بنیادی اعتراضات!
اعتراض نمبر 1
1. استدلال کا دائرہ (Scope of Reasoning) اور منطقی تضاد
اعتراض:
ہیومن ازم کہتا ہے کہ تمام حقیقتیں عقل کے ذریعے دریافت کی جا سکتی ہیں، لیکن یہ دعویٰ خود ہی منطقی تضاد میں مبتلا ہے۔
وضاحت:
1. اگر عقل ہی ہر چیز کی حتمی کسوٹی ہے، تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ’’عقل ہی سب کچھ ہے‘‘ یہ دعویٰ خود کسی عقلی دلیل سے ثابت کیا جا سکتا ہے؟
2. یہ دعویٰ ایک پیشگی مفروضہ (Presupposition) ہے، جسے خود کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں؛ بلکہ ایمان کی طرح تسلیم کیا گیا ہے۔
3. اگر کوئی کہے کہ عقل واحد معیار ہے، تو یہ ایک مطلق اصول ہوا، جب کہ ہیومن ازم خود مطلق اصولوں کو نہیں مانتا۔
تطبیق:
ہیومن ازم کا یہ اصول کہ ”صرف عقل ہی حقیقت کو جاننے کا ذریعہ ہے” بذاتِ خود ایک غیر عقلی (Irrational) دعویٰ ہے، کیوں کہ یہ بغیر کسی حتمی عقلی دلیل کے مانا جاتا ہے۔
تفصیلات:
آئیے اس فکری اور عقلی محاذ پر ایک مفصل اور منظم مقدمہ قائم کرتے ہیں:
1. مذہبِ انسانیت (ہیومن ازم) کا بنیادی دعویٰ اور منطقی تضاد:
دعویٰ:
ہیومن ازم کا یہ بنیادی مقدمہ ہے کہ:
’’انسانی عقل ہی کائناتی حقیقتوں کا واحد اور حتمی ذریعہ ہے۔‘‘
اعتراض:
یہ دعویٰ خود اپنے منطقی اصولوں کی خلاف ورزی پر مبنی ہے اور منطقِ جدید کی روشنی میں ایک داخلی تضاد (Self-referential contradiction) رکھتا ہے۔
وضاحت:
1.1 پیشگی مفروضہ اور ایمانِ غیر معلن:
ہیومن ازم عقل کو مطلق معیار مانتا ہے، مگر ”عقل ہی معیارِ مطلق ہے” یہ دعویٰ خود کسی عقلی دلیل سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک غیر مشروط ایمان (Unproven dogma) ہے، جو خود ہیومن ازم کی ضد ہے۔
1.2 منطقی تضاد (Logical Contradiction)
منطقِ جدید میں ہر دعوے کی صداقت کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔ ہیومن ازم کا دعویٰ کہ:
’’عقل کے بغیر کوئی صداقت ممکن نہیں‘‘ اسے ثابت کرنے کے لیے یا تو ماورائے عقل کوئی ذریعہ درکار ہوگا (جس کا انکار ہیومن ازم کرتا ہے)، یا پھر یہ دائرۂ علت میں خود تضاد پیدا کرے گا۔
1.3 مطلق اصول کی نفی:
ہیومن ازم مطلق اقدار کا انکار کرتا ہے، مگر عقل کو مطلق بنا کر خود اپنے اصولوں سے غداری کرتا ہے۔
2. مقاصد الشریعۃ: عقلیات و انسانیت کا فطری و آفاقی نمونہ
اسلام نے جو ہمہ گیر، کائناتی اور فطری نظامِ حیات دیا ہے، وہ نہ صرف عقلیات کے اصولوں پر پورا اُترتا ہے بلکہ انسانی فطرت، معاشرت، تہذیب، اور اخلاقی ارتقا کے لیے ایک تکاملی (evolutionary) اور حقیقی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔
مقاصدِ کلیہ (چار عالمی مقاصد)
1. تحقیق العبودیۃ للہ فی الارض کلھا۔
انسانی عقل کی اصل معراج: بندگی!
2. اقامۃ العدل تحت رایۃ الاسلام۔
انسانی سماج کا نکتۂ توازن: عدل!
3. الاعتصام بحبل اللہ والاخوۃ الاسلامیۃ۔
انسانی وحدت کا لازوال مرکز!
4. عمارۃ الارض ودفع الفساد۔
ترقی و تہذیب کی اصل بنیاد!
ضروریات ستہ (جو ہر انسان کو درکار ہیں):
1. حفظ الإیمان۔
2. حفظ النفس۔
3. حفظ المال۔
4. حفظ العرض۔
5. حفظ النسب۔
6. حفظ العقل۔
یہ وہ ستون ہیں جن پر شریعتِ مطہرہ نے انسانیت کی حقیقی عمارت کھڑی کی ہے، جب کہ ہیومن ازم ان میں سے کسی کو بھی مقدس حیثیت دینے سے قاصر ہے۔
3. مذہب انسانیت کا تنقیدی تجزیہ: منطق جدید، فلسفہ، نفسیات، ثقافت و عمرانیات کی روشنی میں
3.1 نفسیاتی تجزیہ:
ہیومن ازم انسان کو خود کفیل (self-sufficient) مانتا ہے، جب کہ انسان کی فطرت محتاجی، کمزوری، خوف، امید، اور تعلق کی طالب ہے۔
انسان کی فطرت میں بندگی کی پیاس ہے، جس کا انکار انسان کو نفسیاتی انتشار میں مبتلا کر دیتا ہے۔
3.2 فلسفیاتی تجزیہ:
ہیومن ازم مطلق خیر و شر کا انکار کرتا ہے، لہٰذا اخلاقیات کی کوئی بنیاد باقی نہیں رہتی۔
عقلی مطلقات (logical absolutes) کو مانے بغیر ہیومن ازم اخلاقی نسبیت (Moral Relativism) کا شکار ہوتا ہے، جو فسادِ عظیم ہے۔
3.3 ادبی و ثقافتی تجزیہ:
ہیومن ازم نے ثقافت کو مذہب سے الگ کر کے اسے بے رُخ اور کھوکھلا کر دیا۔
ادب، جس کا اصل سرچشمہ روحانی تجربہ ہے، وہ ہیومن ازم کے مادی معیار میں دم توڑ دیتا ہے۔
3.4 سماجی و عمرانیاتی تجزیہ:
ہیومن ازم فرد کو مرکز بناتا ہے، جس سے اجتماعی ذمہ داری کا تصور زائل ہو جاتا ہے۔
نتیجتاً، معاشرہ انتہا درجے کی انفرادیت (Extreme Individualism) کا شکار ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔
4. مقاصد الشریعۃ: کامل و جامع جواب
المقصد العام:
’’اِخراج المکلّف عن داعیۃ ہواہ إلی رضوان اللہ فی امور الحیاۃ الانسانیۃ کلھا‘‘
ہیومن ازم انسان کو اپنے نفس و خواہش کا غلام بناتا ہے، جب کہ شریعت اسے اللہ کی رضا کا طالب بناتی ہے۔
مقاصد سے پیدا ہونے والی صفات:
الرحمۃ، الاستقامۃ، التقوی، الشکر، الصبر، الصدق، العدل، الوفاء، السماحۃ۔
یہ صفات انسانی عظمت و تہذیب کی وہ منازل ہیں، جو ہیومن ازم کے ہاں صرف نعروں تک محدود ہیں۔
نتیجہ:
اسلام کی تعلیمات عقل، فطرت، تجربہ، وحی، اور سوسائٹی، سب کو ہم آہنگ کر کے انسان کو وہ روحانی، اخلاقی، علمی اور تہذیبی مرتبہ دیتی ہیں، جو ہیومن ازم کبھی فراہم نہیں کر سکتا۔
5. اسلام کی سماحت و فطرت کا غلبہ
اسلام کے چار عظیم اوصاف:
1. السماحۃ۔
2. التیسیر۔
3. رفع الحرج۔
4. موافقۃ الدین للفطرۃ۔
یہ وہ اصول ہیں جو انسان کو آسانی، سہولت، انسان دوستی، فطری ہم آہنگی فراہم کرتے ہیں، اور یہ سب ہیومن ازم کے سخت گیر مادہ پرستانہ فریم ورک میں غیر موجود ہیں۔
6. قواعد کلیہ مقاصدیہ کا لاجواب نظام:
ہر نکتہ، ہر قاعدہ، ہر اصول — اللہ کی حاکمیت، انسانی آزادی کا توازن، اخروی مقصدیت، مصالح کی بنیاد، ظلم و فساد کی نفی — یہ سب ایک ہمہ گیر، عقلی، عملی، فطری، تجرباتی، اور روحانی نظام کی تشکیل کرتے ہیں، جو ہیومن ازم کی ناپختگی، خود تضادی اور وقتی چمک دمک کے مقابلے میں ایک آفتابِ تاباں کی حیثیت رکھتے ہیں۔
نتیجہ:
ہیومن ازم کی بنیاد ایک مفروضہ عقل پر ہے، جو خود ناقابلِ اثبات ہے۔ اس کا اخلاقیات کا نظام نسبیت، انفرادیت، اور بے سمتی پر قائم ہے؛ جبکہ اسلام ایک مکمّل فطری و وحیانی نظامِ عقل و عدل و رحمت ہے، جو نہ صرف انسان کی فکری تسکین، بلکہ روحانی نجات اور اجتماعی ارتقا کا ضامن ہے۔
ہیومن ازم عقل کو محور بنا کر انسان کو غلام بناتا ہے۔ اسلام وحی کو مرکز رکھ کر عقل کو معراج بخشتا ہے۔
ہیومن ازم/مذہب انسانیت پر پہلا اعتراض: استدلال کا دائرہ
(Scope of Reasoning) اور منطقی تضاد:
اعتراض کا خلاصہ:
ہیومن ازم یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ”تمام حقیقتوں کا ادراک صرف عقل کے ذریعے ممکن ہے”۔ مگر یہ دعویٰ بذاتِ خود ایک غیر عقلی مفروضہ ہے، کیونکہ اس کا کوئی عقلی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ یہ ایک خودساختہ مطلق اصول ہے، جو خود ہیومن ازم کے اصولوں سے متصادم ہے۔
1. فلسفیاتی شکست (Philosophical Collapse):
ہیومن ازم کا یہ تصور کہ ”عقل ہی علم و حقیقت کا واحد ذریعہ ہے”، اپنے اندر ایک بدیہی تضاد رکھتا ہے، کیونکہ:
اگر عقل ہی علم کی آخری بنیاد ہے تو یہ اصول خود عقل سے ماورا ہو جاتا ہے، لہٰذا یہ خود refuted ہے۔
یہ نظریہ Epistemological Foundationalism کی ضد بن جاتا ہے، جس میں ہر اصول کو کسی حتمی معیار پر پرکھا جاتا ہے۔ مگر یہاں یہ معیار خود معیار بن بیٹھا ہے، جس کا کوئی خارجی ثبوت موجود نہیں۔
نتیجہ:
ہیومن ازم عقل کو معیار مان کر عقل ہی کے استدلالی میدان سے باہر نکل جاتا ہے — جو کہ فلسفہ میں ایک ”circular fallacy” ہے۔
2. ادبی و فکری شکست ( Literary & Aesthetic Collapse):
انسانی تاریخ میں فن، جمال، ادب، وجدانیات، اور شعریات جیسے شعبے ہمیشہ عقل سے ماورا محسوسات، الہام، تخیل، اور وجدانیات پر استوار رہے ہیں۔
حافظ، رومی، اقبال، ٹالسٹائی، دوستوئیفسکی، سارتر — کسی نے بھی صرف عقل کو حقیقت کا واحد دروازہ تسلیم نہیں کیا۔
ہیومن ازم کے اس دعویٰ سے انسان کی تخلیقی پرواز کا گلا گھونٹا جاتا ہے، اور وجودی جمالیات صرف مادّی عقل کی قید میں قید ہو جاتی ہے۔
نتیجہ:
ادب و جمالیات عقل کو بطور معاون تو مانتے ہیں، مگر بطور حاکم و محور نہیں۔ ہیومن ازم کا یہ دعویٰ انسانی شعور کے فطری ذوق کے خلاف ہے۔
3. نفسیاتی و روحانی شکست ( Psychological &Spiritual Collapse):
انسان کا شعور صرف منطق و عقل تک محدود نہیں، بل کہ:
لاشعور، وجد، روحانی تجربات، خواب، اشراق، مکاشفہ، اور باطنی طہارت انسانی وجود کا گہرا حصہ ہیں۔
ہیومن ازم ان تمام تجربات کو غیر معتبر قرار دیتا ہے، جو انسان کی داخلی ہستی کو جھٹلا دینے کے مترادف ہے۔
نتیجہ:
ہیومن ازم انسان کو فقط ایک عقلی روبوٹ سمجھتا ہے، جب کہ انسان کی روحانیت، عبادت، توبہ، تعلق مع اللہ، اور انکساری جیسے تجربات عقلی دائرے سے بہت بلند ہیں۔
4. منطقی شکست (Logical Collapse):
یہ نظریہ self-defeating proposition ہے، کیونکہ ”عقل ہی سب کچھ ہے” کا کوئی عقلی ثبوت ممکن نہیں۔
اگر کوئی عقلی دلیل دی جائے تو وہ پہلے سے تسلیم شدہ مفروضہ پر مبنی ہوگی، اور اگر کوئی دلیل نہ دی جائے تو دعویٰ خود بخود منہدم ہو جاتا ہے۔
نتیجہ:
ہیومن ازم کا یہ تصور ایک circular epistemology ہے، جو منطق جدید میں ایک بنیادی مغالطہ ہے۔
5. عمرانی و سماجی شکست (Sociological Collapse):
انسانی معاشرہ فقط عقل پر قائم نہیں ہوتا، بلکہ تقدس، مذہب، وفاداری، قربانی، اخلاقی روایت، اور اجتماعی شعور پر قائم ہوتا ہے۔
اگر ہر شئ کا معیار فقط عقل ہو، تو اجتماعی قربانی، شہادت، اطاعت والدین، اور وفاداری وطن جیسے اعلیٰ انسانی اقدار بھی صرف نفع و نقصان کی عقلی ترازو پر تولی جائیں گی — جو معاشرتی بربادی کی بنیاد ہے۔
نتیجہ:
مذہب انسانیت کا یہ تصور انسان کو اجتماعی معنویت سے محروم کرتا ہے۔
6. تاریخی شکست (Historical Collapse):
تاریخ انسانی کے بڑے فیصلے اکثر غیر عقلی عوامل پر ہوئے — جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت، سیدنا عمرؓ کے عدل کی بنیادیں — یہ سب عقل سے بالاتر فیصلے تھے، مگر تاریخ کے سب سے روشن ابواب بنے۔
جدید دور میں ہیومن ازم کے زیر اثر سیکولر ریاستیں، تعلیمی نظام، اور معاشرتی نظریات اخلاقی و روحانی بحران کا شکار ہو چکے ہیں۔
نتیجہ: ہیومن ازم کی عقلی معصومیت (rational absolutism) تاریخ میں ایک ناکام تجربہ ثابت ہوئی ہے۔
7. مذہب اسلام کی تقابلی بالادستی:
شریعت اسلامیہ مقاصد کلیہ کے تحت عقل کو ایک ضروری مگر محدود آلہ سمجھتی ہے:
مقاصد شریعت (مجموعی وژن):
1. تحقیق العبودیہ للہ تعالیٰ فی الارض کلھا۔
2. اقامۃ العدل تحت رایۃ الاسلام۔
3. الاعتصام بحبل اللہ و الاخوہ الاسلامیہ بین الناس۔
4. عمارۃ الارض و دفع الفساد۔
ضروریات ستہ:
حفظ الإیمان۔
حفظ النفس۔
حفظ المال۔
حفظ العرض۔
حفظ النسب۔
حفظ العقل (عقل کی حفاظت، عقل کا حاکم بنانا نہیں!)
المقصد العام للشریعۃ:
اخراج المکلف عن داعیۃ ھواہ الی رضوان اللہ فی امور الحیاۃ الانسانیۃ کلھا یعنی عقل کو تابع بنایا جائے، آلہ نہ کہ آقا!
8. القواعد المقاصدیۃ الاسلامیۃ کی روشنی میں ردّ:
1. لا حکم الا للہ: عقل حکم نہیں، شریعت حکم ہے۔
2. الشریعۃ جاریۃ علی الفطرۃ: انسانی فطرت عقل سے ماورا پہلو رکھتی ہے۔
3. المصلحۃ الأخرویۃ مقدمۃ علی الدنیویۃ: عقل دنیا تک محدود، شریعت آخرت تک محیط۔
4. المصلحۃ العامۃ مقدمۃ علی الخاصۃ: ہیومن ازم فرد کی عقل، شریعت امت کی مصلحت۔
5. الاحکام تتغیر بموجباتھا: عقل جامد، شریعت متحرک۔
نتیجہ:
ہیومن ازم کے نظریہ ”عقل ہی حقیقت کا واحد معیار ہے” کی بنیاد ہی کمزور، متضاد، اور خود منطقی شکست خوردہ ہے۔ جب کہ شریعت اسلامیہ:
عقل کو مقام دیتی ہے مگر پرستش نہیں کرواتی۔
عقل کو چراغِ راہ بناتی ہے، معبودِ راہ نہیں۔
حقیقت کے دروازے وجدان، وحی، فطرت، اور روحانیت سے کھولتی ہے، نہ کہ صرف مادّی عقل سے۔
یہی وہ توازن ہے جو انسان کو انسان بناتا ہے، اور دنیا کو امن، عدل، اور نجات کی جنت نظیر وادی میں بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔