مولانا الطاف اشاعتی کشمیری / استاذ جامعہ اکل کوا
نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت دنیا میں ہر طرف کفر وشرک، فتنہ وفساد، ظلم وجور، جہالت و ضلالت، فحاشی و بے حیائی اور انارکی و بے راہ روی کا دور دورہ تھا۔ کیا عرب کیا عجم ؛سب کے سب تباہی کے دہانے پر تھے۔بحر وبر انسانوں کے شامت ِاعمال سے نالہ کناں تھے؛ ایسے وقت میں اللہ رب العزت نے اپنی رحمت سے ان تمام برائیوں کے خاتمہ اور بیخ کنی کرنے اور سسکتی ہوئی انسانیت پر اپنا خصوصی فضل فرمانے کا ارادہ کیا۔ اپنے سب سے معزز اور محبوب پیغمبر، خزانہٴ قدرت کے دُرِ یکتا، فطرت کے سب سے عظیم شاہ کار، نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور آپ کو تمام برائیوں کو مٹانے، رشد وہدایت کو عام کرنے کے لیے ایک نسخہ ٴکیمیا عطا فرمایا۔ اور وہ نسخہ کیمیا کچھ اور نہیں ”قرآن کریم “تھا۔ قرآن ِکریم میں سب سے پہلے یہ پانچ آیتیں نازل ہوئیں:
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ (۱) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (۲) اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ (۳) الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ(۴) عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ(۵) (سورة العلق )
اے محمد(ا)! اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو، جس نے (عالم کو) پیدا کیا، جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے بنایا، پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں ،جس کا اس کو علم نہ تھا۔
یہ کتابِ الٰہی کا پہلا سبق اور صحیفہٴ ہدایت کا اولین ورق ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنی وحی کا آغاز ہی پڑھنے کے حکم سے فرمایاہے؛گویا کہ اس بات کی طرف واضح اشارہ فرمادیا کہ ساری کی ساری اخلاقی، سماجی اور معاشرتی برائیوں کا علاج پڑھنے میں مضمر ہے۔ پڑھنا ہی ہر مرض کا علاج ہے، ہزاروں موضوعات میں سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کے آغاز کے لیے تعلیم کے موضوع کا انتخاب فرمایا، جس سے اس موضوع کی قدر و قیمت اور انسان اور معاشرے کے سدھارنے میں اس کے غیر معمولی کردارکا انکشاف ہوا۔ اس امت کو روز اول سے ہی قلم وقرطاس سونپ دیا گیا اور امت ”اقرأ “ہونے کے اعزاز سے نوازا گیا۔ اسلام نے پہلے ہی دن یہ اعلان کردیا کہ جو اس دین سے مربوط ہونا چاہے، وہ پڑھنے پڑھانے اور سیکھنے سکھانے میں اپنی تمام توانائیاں صرف کردے۔ اسلام نے جاہل، جہالت اور جاہلیت کے الفاظ کے خلاف جنگ کا محاذ قائم کرکے یہ واضح کردیا کہ جاہلیت اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں، جو کبھی بھی اکٹھا نہیں ہو سکتیں۔
قرآنِ کریم نے علم کی تحریض سے صرف آغاز کردینے پر اکتفا نہیں کیا، بل کہ اس کتابِ معجز اور دستورِ خالد کی کوئی سورت بلا واسطہ یا بالواسطہ علم کی قدر ومنزلت اور اہمیت وضرورت کے بیان سے خالی نہیں۔ آپ قرآن کریم کو اٹھا کر دیکھیں،اس کثرت سے جابجا علم اور اس کے مشتقات ملیں گے کہ آپ کی حیرت کی انتہا نہ رہے گی۔ ۹۷۷/ مرتبہ لفظ ”علم “اور اس کے مشتقات موجود ہیں، جس کا اوسط ہر سورت میں تقریبا ًسات نکلتا ہے۔ صرف کلمہ ” علم “معرفہ اور نکرہ ۸۰/مرتبہ موجود ہیں اور مشتقات تو سیکڑوں مرتبہ ہیں۔ اور علم پر دلالت کرنے والے دوسرے الفاظ بھی بکثرت قرآن ِکریم میں وارد ہوئے ہیں۔کلمہ ”عقل “ بطور اسم یا مصدر کے قرآن میں وارد نہیں، مگر اس کے مشتقات ۴۹ /مرتبہ وارد ہوئے ہیں۔کلمہ ”الألباب “ ۱۶/ مرتبہ اور”النُّہَی “دو مرتبہ مذکور ہیں۔ اسی طرح کلمہ ”فکر “ کے مشتقات ۱۸/ مرتبہ۔ کلمہ”فقہ “ کے مشتقات ۲۱/ مرتبہ۔ کلمہ ”حکمة“ کے مشتقات ۲۰/ مرتبہ۔ کلمہ ”برھان“ اضافت کے ساتھ اور بغیر اضافت کے ۷/ مرتبہ وارد ہوا ہے۔ اسی طرح علم وفکر پر دلالت کرنے والے کلمات ”انظروا “ اور ”ینظروا“ وغیرہ بھی دسیوں مرتبہ آئے ہیں۔وحیِ متلو کے بعد وحیِ غیر متلو سنت ِنبویہ علی صاحبہا الصلاة والسلام میں بھی کلمہٴ علم اس کثرت سے وارد ہوا ہے، جس کا شمار کرنا شبیہِ مُحال ہے۔صرف صحیح بخاری میں کلمہٴ”علم“ ۳۰۰/سے زائد مرتبہ وارد ہوا ہے۔ جب کہ بخاری شریف حَجم کے اعتبار سے دوسرے دواوین ِسنت سے بڑی اور ضخیم نہیں، حدیث کی بہت ساری کتابیں بخاری سے حجم میں کئی گنا بڑی ہیں۔ تو ان کتابوں میں کس کثرت سے یہ مبارک لفظ آیا ہوگا اس کا اندازہ بھی دشوار ہے!
ان تمام تفصیلات سے اسلام کا تعلیم پر خاص توجہ دینا، اس پر ابھارنا اور آمادہ کرنا روز ِروشن کی طرح عیاں ہے؛بل کہ قابل غور ِبات یہ ہے کہ علم کے ساتھ یہ اہتمام صرف نزول ِقرآن کے ساتھ خاص نہیں، بل کہ کائنات کے آغاز اور تخلیقِ انسان کے وقت سے ہی یہ قضیہ مرکز ِتوجہ رہا ہے۔ اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا، زمین میں اپنا خلیفہ مقرر کیا، فرشتوں کو ان کے سامنے سجدہ ریز کیا، انہیں عزت و رفعت سے نوازا، پھر اس سب عزت افزائی اور تکریم وتعظیم کا سبب”علم “ہی کو قرار دیا۔ آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر فضیلت و فوقیت ،ذکر وتسبیح، عبادت وبندگی اور معجزات کی وجہ سے حاصل نہیں تھی، بل کہ ان کی فوقیت کا پورا دار ومدار قضیہ علم پر تھا۔
سورہٴ بقرہ میں حق تعالیٰ نے اس مضمون کو بڑی تفصیل سے بیان فرمایا اور علم ِاشیاکی جہاں گیری کو خوب واضح کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿ وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَائِکَةِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِیہَا مَن یُفْسِدُ فِیہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّی أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (30) وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلَائِکَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِی بِأَسْمَاءِ ہَٰؤُلَاءِ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ (31) قَالُوا سُبْحَانَکَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنتَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ (32) قَالَ یَا آدَمُ أَنبِئْہُم بِأَسْمَائِہِمْ فَلَمَّا أَنبَأَہُم بِأَسْمَائِہِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّکُمْ إِنِّی أَعْلَمُ غَیْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ (33) وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیسَ أَبَیٰ وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِینَ﴾ (34).(سورة البقرة).
اور (وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں (اپنا) نائب بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا: کیا آپ اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتے ہیں ،جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور ہم آپ کی تعریف کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں۔ فرمایا: میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔اور اللہ نے آدم کو سب (چیزوں کے) نام سکھائے، پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ۔ انہوں نے کہا، تو پاک ہے۔ جتنا علم تو نے ہمیں بخشا ہے، اس کے سوا ہمیں کچھ معلوم نہیں، بے شک تو دانا (اور) حکمت والا ہے۔(تب) اللہ نے (آدم کو) حکم دیا کہ آدم! تم ان کو ان (چیزوں) کے نام بتاؤ۔ جب انہوں نے ان کو ان کے نام بتائے تو (فرشتوں سے) فرمایا ،کیوں میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) پوشیدہ باتیں جانتاہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو پوشیدہ کرتے ہو (سب) مجھ کو معلوم ہے۔اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو وہ سجدے میں گر پڑے مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آ کر کافر بن گیا۔
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ ان آیات کے تحت لکھتے ہیں: اس سے علم کی فضیلت عبادت پر ثابت ہوئی دیکھیے عبادت میں ملائکہ اس قدر بڑھے ہوئے ہیں کہ معصوم، مگر علم میں چوں کہ انسان سے کم ہیں اس لیے مرتبہٴ خلافت انسان ہی کو عطا ہوا اور ملائکہ نے بھی اس کو تسلیم کرلیا ۔اور ہونا بھی یوں ہی چاہیے کیوں کہ عبادت تو خاصہٴ مخلوقات ہے خدا کی صفت نہیں، البتہ علم خدائے تعالیٰ کی صفت ِاعلیٰ ہے ،اس لیے قابل ِخلافت یہی ہوئے؛ کیوں کہ ہر خلیفہ میں اپنے مستخلف عنہ کا کمال ہونا ضروری ہے۔
آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں اشیائے کائنات کے اسما اور آثار و خواص کا علم عطا فرمایا۔ ہر چھوٹی بڑی چیز کا نام اس کا مطلب ومعنی اس کی تاثیر، اس کا نفع اور نقصان سب کی تعلیم القا فرمائی اور ابتدا سے ہی یہ قضیہ واضح ہوگیا کہ خلافتِ ارضی کا سزاوار وہی ہو سکتا ہے، جو کمالِ علم سے متصف ہوگا۔ اس کی تحصیل میں کد وکاوش کرے گا، اس لیے کہ خلیفہ خداوندی کو تمام تر انتظام و انصرام اور اصلاح کے کام انجام دینے ہوں گے، جس کے لیے اسے تمام اشیا کی حقیقت اس کے نشیب وفراز سے پورا واقف اور ماہر ہونا ضروری ہے؛ کیوں کہ اگر وہ رعایا کی عادات ورسوم ومزاج اور مصالح ومضار سے واقف نہ ہو تو کبھی اس کے ہاتھوں ان کا انتظام درست نہیں ہوسکتا؛اسی طرح خلیفہ خداوندی کو جب طبائع کی اصلاح کا کام کرنا پڑے گا تو اختلافِ طبائع اور ان کی کیفیات و خصوصیات اور ان کے تغیر وتبدل سے اس کو پوری آگاہی حاصل ہونا ضروری ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: ” علّمہ اسم کل شیء حتی القصعة والمغرفة ۔“” اللہ نے انہیں ہر چیز یہاں تک کہ پیالے، ڈونگے اور کف گیر کے نام بھی سکھائے۔“
آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کا علم ِتام عطا فرمایا گیا، پھر اولاد ِآدم میں بھی سیکھنے اور حاصل کرنے کی اہلیت و صلاحیت ودیعت فرمادی گئی۔اب جو علم کی خاطر جس قدر تگ و دو کرے گا اسی مقدار اسے پائے گا اور خلافت ِارضی کا مستحق ہوگا، مگر جو -فرد یا جماعت – جہالت پر راضی رہا، علم سے بے رغبتی، بے رخی اور دوری اختیار کر لی، تو وہ اس خلافت ِارضی کی اہلیت وصلاحیت سے محروم کردیا جائے گا۔
علم کی یہ قدرت ومنزلت اور رفعت وجلالت تخلیق ِانسانی سے ہی نہیں ،بل کہ انسان کی تخلیق سے کئی پہلے سے ہے۔قلم جو علم کا سب سے مضبوط اور پائیدار ذریعہ ہے، بل کہ علم کا صیاد ہے، ہر بات کے حاصل کرنے کا وسیلہ اور بہت بڑی نعمت ہے، جس کے بارے میں حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”لولا القلم لما قام الدین ولا صلح العیش “ اگر قلم نہ ہوتا نہ دین قائم رہتا نہ ہی زندگی درست ہوتی، اسے اولِ خلق ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ” إن أوّلَ ماخلق اللہُ القلمَ فقال: اُکْتُبْ، فقال: ما أَکْتُبُ؟ قال اُکْتُبْ القَدَرَ ما کان و ما ہو کائنٌ إلی الأَبَدِ “(رواہ الترمذی)
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا، پھر اس سے فرمایا: لکھ، قلم نے عرض کیا، کیا لکھوں؟ فرمایا: تقدیر لکھ، جو ہوچکا اور جو جو آئندہ ہونے والا ہے۔اس سے بھی علم اور آلات ِعلم کی قدر ومنزلت معلوم ہوتی ہے۔
ایک حدیث میں اللہ کے ذکر اور عالم اور طالب علم کے سوا دنیا کی تمام چیزوں کو ملعون قرار دیا گیا۔ ارشاد مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
” الدنیا ملعونة ملعون ما فیہا، إلا: ذکرَ اللہ، وما والاہ، أو عالما أو متعلما “۔
(رواہ الترمذی).
دنیا اور دنیا کی تمام چیزیں ملعون ہیں، سوائے ذکر ِالٰہی، اس سے محبت و تعلق رکھنے والوں اور عالم وطالب علم کے۔
بغیر علم کے کرہ ٴارض پر زندگی دشوار ہے، بل کہ علم کے مٹ جانے اور کم ہوجانے کو دنیا کے زوال اور قرب ِقیامت کی علامت بتایاگیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ِگرامی ہے:
” إنَّ مِنْ أشراطِ الساعة أَنْ یُرْفَعَ العلمُ ویَثْبُتَ الجہْلُ ویُشْرَبَ الخَمْرُ ویَظْہَرَ الزنا۔“
قیامت کی علامات میں سے یہ ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا، جہالت عام ہوجائے گی، شراب پی جائے گی اور زنا کی کثرت ہوگی۔
علم کا اٹھایا جانا سینوں سے محو کرنے سے نہیں بل کہ علما کے اٹھا لیے جانے سے ہوگا، اسی لیے عالم کی وفات حقیقت میں ایسا حادثہٴ فاجعہ اور نا قابل تلافی نقصان ہوتی ہے، جو زلزلوں اور آتش فشاؤں سے بھی کئی زیادہ سنگین ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: ہزار شب بیدار دن بھر روزہ رکھنے والے عابدوں کی موت، حلال وحرام کی بصیرت رکھنے والے ایک عالم کی موت سے کمتر ہے۔
جب حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو دیکھنا چاہے کہ علم کیوں کر رخصت ہوتا ہے، تو وہ ان کے دنیا سے تشریف لے جانے کو دیکھ لے۔
اسلام میں علم کا تصور کامل:
کلمہ ”علم“ کتاب و سنت میں بغیر کسی قید کے مطلق آیا ہے، جو ہر ایسے نفع بخش علم کو شامل ہے، جو انسان کی دنیااور آخرت کی بھلائی اور سعادت مندی کا ضامن ہو، جس کے تحت تمام نافع اور فائدہ مند دینی اور دنیوی علوم آجاتے ہیں۔
درستگی نیت سے دنیوی امور دین بن جاتے ہیں:
علامہ یوسف بنوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: علم دین کا ہو یا دنیا کے کسی شعبے کا، وہ بہر حال انسانیت کے لیے تمغہٴ فضلیت اور طرہٴ امتیاز ہے اور تعلیم کا مقصد فضل وکمال سے آراستہ ہونا اور میراثِ انسانیت کا حاصل کرنا ہے۔ موضوع کے لحاظ سے علم کی دو قسمیں قرار پاتی ہیں:
( ۱) دینی علوم اور( ۲) دنیاوی علوم۔
دینی علوم کے اصل ثمرات وبرکات تو آخرت ہی میں ظا ہر ہوں گے، تاہم جب تک دنیا میں اسلام کی عزت ورفعت کا دور دورہ رہا دنیا میں بھی اس کی منفعتیں ظاہر ہوتی تھیں۔ علمائے دین، قاضی، قاضی القضاة، مفتی اور شیخ الاسلام کی حیثیت سے محاکمِ عدلیہ اور محاکمِ احتساب کے مناصب پر فائز ہوتے تھے۔ ملک وملت کے لیے ان کا وجود سایہٴ رحمت سے کم نہیں تھا،ان کی خدا ترسی، حق پسندی اور عدل پروری کی بدولت معاشرہ میں امن وعافیت کی فضا قائم تھی اور اسلام کے عادلانہ احکام کا نفاذ بہت سے معاشرتی امراض سے حفاظت کا ضامن تھا۔ الغرض دینی مناصب کے لیے علمائے دین ہی کا انتخاب وتقرر ہوتا تھا اور آج بھی جن ممالک میں اسلامی نظام کسی حد تک رائج ہے، اس کے کچھ نمونے موجود ہیں۔ اور دنیوی علوم؛ جن کا تعلق براہِ راست دنیا کے نظام سے تھا، مثلاً: فلسفہ، منطق، تاریخ، جغرافیہ، ریاضی، ہیئت، حساب اور طب و جراحت وغیرہ۔ ان کے لیے تو حکومتی منا صب بے شمار تھے۔ اور علوم کی یہ تقسیم کہ کچھ علوم دینی ہیں اور کچھ دنیاوی، محض موضوع کے لحاظ سے ہے، اس کے معنی دین ودنیا کی تفر یق کے ہرگز نہیں؛چناں چہ دنیوی علوم اگر بے ہودہ اور لایعنی نہ ہوں اور انہیں خدمت ِخلق، اصلاحِ معاش اور تدبیرِ سلطنت کی نیت سے حاصل کیا جائے، تو وہ بھی با لواسطہ رضائے الٰہی کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور دین ودنیا کی تفریق ختم ہوجاتی ہے۔ اور اس کے برعکس جب دینی علوم کی تحصیل کا مقصد محض دنیا کمانا ہو تو یہ علوم بھی بالواسطہ دنیا کے علوم کی صف میں آجاتے ہیں اور اس کے لیے احادیث ِنبو یہ میں سخت سے سخت وعید یں بھی آئی ہیں، مثلاً:
ایک حدیث میں ہے: ”من تعلم علمًا مما یُبتغی بہ وجہ اللّٰہ لا یتعلمہ إلا لیصیب بہ عرضًامن الدنیا لم یجد عَرَفَ الجنة یوم القیامة، یعنی ریحَھا“۔ (مشکوٰة)
جس شخص نے وہ علم سیکھا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل ہوسکتی ہے اور پھر اس کو متاعِ دنیا کا ذریعہ بنایا تو ایسا شخص قیامت کے دن جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا۔“
ایک اور حدیث میں ہے: ”من طلب العلمَ لیُجاریَ بہ العلماءَ اولیُماریَ بہ السفھاء اویصرف وجوہَ الناس إلیہ ادخلہ اللّٰہُ النارَ۔“ (مشکوٰة،کتاب العلم).
جس شخص نے اس غرض سے علم حاصل کیا کہ اس کے ذریعہ علماسے مقابلہ کرے یا کم عقلوں سے بحث کرے یا لوگوں کی تو جہ اپنی طرف مائل کرے اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو آگ میں ڈالیں گے۔“
بہر حال! ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ دینی علوم بھی دنیا کے علوم بن جاتے ہیں اور دنیوی علوم بھی رضا ئے الٰہی اور طلبِ آخرت کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور دین ودنیا کی تفریق ختم ہوجاتی ہے۔ گویا اصل مدار مقاصد و نِیَّات پر ہے کہ اگر مقصد رضا ئے الٰہی ہے تو دنیوی علم بھی دین کے معاون ومددگار اور صنعت وحرفت کے تمام شعبے اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کے وسائل بن جاتے ہیں۔علوم خواہ قدیم ہوں یا جدید اور دینی ہوں یا دنیوی ان سب سے مقصد رضا ئے الٰہی کے مطابق ایک صالح معاشرہ کا قیام ہونا چاہیے۔
گنواں دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی :
اسلام میں حکمت اور دانشمندی کی بات کو مومن کی متاعِ گمشدہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔حالی مرحوم مسدس میں فرماتے ہیں:کہ
حکمت کو ایک گم شدہ لال سمجھو
جہاں پاؤ اپنا اسے مال سمجھو
تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ علم وحکمت اور صنعت وحرفت کے وہ ذخائر ؛جن کے مالک آج اہل ِیورپ بنے بیٹھے ہیں ان کے حقیقی وارث تو ہم لوگ ہیں، لیکن اپنی غفلت وجہالت اور اضمحلال وتعطل کے سبب ہم اپنی خصوصیات کے ساتھ اپنے تمام حقوق بھی کھوبیٹھے۔
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر وارثِ میراث پدر کیوں کر ہو
ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ دینی علوم کے علاوہ دنیاوی وعمرانی علوم کا کوئی شعبہ یا پہلو ایسا نہیں ہے ،جو اہل ِاسلام کے ہاتھوں فروغ نہ پایا ہو۔ علم کیمیا، طب، جراحی، ہندسہ، ریاضیات یا ہیئت وفلکیات، طبیعات وحیوانیات ارضیات وحیاتیات، معاشیات و اقتصادیات، تاریخ وجغرافیہ اور خدا جانے کتنے بے شمار علوم وفنون اور بیش بہا ایجادات واختراعات کے ایسے ماہر وموجد گذرے ہیں کہ اس دورِ جدید میں بھی ترقی یافتہ قومیں اپنے جدید سے جدید انکشافات وتحقیقات کے لیے ہمارے آبا واجداد کی تشریحات وتسخیرات کی خوشہ چین اور رہینِ منت ہیں۔
حالی مرحوم نے مسدس میں کیا خوب کہا ہے!
غرض فن ہیں جو مایہ دین و دولت
طبیعی ، الٰہی ، ریاضی و حکمت
طب اور کیمیا ، ہندسہ اور ہیئت
سیاست ، تجارت ، عمارت ، فلاحت
لگاؤگے کھوج ان کا جاکر جہاں تم
نشاں ان کے قدموں کے پاؤگے واں تم
اسلام نے ہر مفید علم کی پشت پناہی کی اور اس کے حصول پر آمادہ کیا ہے۔ خواہ وہ قدیمِ صالح ہو یاجدید نافع، اگر اللہ کی کتاب کتاب مقروء ہے تو کائنات اللہ کی کتاب منظور اور کتاب مقروء کو سمجھنے کے لیے کتاب منظور کو دیکھنا بھی ضروری ہے، جن کے لیے عصری علوم سے لیس ہونا بھی ضروری ہے۔ در حقیقت علوم وفنون بگاڑ پیدا نہیں کرتے؛ بل کہ ماحول اور وہ لوگ جن کے ہاتھ میں ان کی باگ دوڑ اور زمام ہوتی ہے، وہ علوم وفنون کا غلط اور نادرست استعمال کرتے ہیں۔
علم اشیا کی جہاں گیری:
علم کی زمام اقتدار جب ایک نبی امّی – فداہ ابی وامی – کے ہاتھ میں دی گئی تو دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے عرب جیسی جاہل ِمطلق قوم کو زمین کے تہ خانوں سے نکال کر فلک الافلاک پر پہنچادیا۔ عرب کے خانہ بدوش چرواہوں کے سرپر دنیا کی بادشاہت کا تاج رکھ دیا اور یاد رہے کہ یہ عظیم الشان انقلاب کل ۲۳/ سال کی مختصر سی مدت میں کردکھایا۔ ان ہی قرآنی تعلیمات کے زیراِثر عالم ِاسلام میں ایسی جلیل القدر شخصیتیں اور اولوالعزم ہستیاں رونما ہوئیں کہ دنیا کی کسی قوم نے آج تک ایسی عدیم النظیر مثالیں پیش کی ہے نہ قیامت تک کرسکتی ہے۔ عرب کے ریگستان سے نکل کر عرب کے شتربان دیکھتے ہی دیکھتے اقصائے عالم میں پھیل گئے اور جہاں کہیں پہنچے وہاں قرآن کے نور ِہدایت اور علم وحکمت سے اس خطہ اوراس آبادی کو منور کردیا۔ علوم وفنون کی بڑی بڑی درس گاہیں قائم کیں، بڑے بڑے متمدن شہر آباد کیے، جن کی ترقی وعروج کی یہ شان تھی کہ آج جس طرح طلبہ یورپی ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جاتے ہیں کسی زمانے میں یورپی ممالک سے بلاد ِاسلامیہ کی طرف علم وحکمت کے موتیوں سے اپنے دامن ِمراد بھرنے کے لیے آتے تھے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
الکلمة الحکمة ضالة المؤمن فحیث وجدہا فہو أحق بہا .(حدیث ضعیف رواہ الترمذی)
حکمت اور دانائی مومن کی گمشدہ متاع ہے، وہ جہاں کہیں اسے پائے اس کا زیادہ حقدار ہے۔
آج مغربی اقوام سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں جن ترقیوں کے بام عروج پر ہیں، یہ سب مسلمانوں کے علوم اور ان کی کتابوں سے فائدہ اٹھا کر پہنچی ہیں۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں جاکے یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
سائنس؛ تقویت ِدین کا ذریعہ ہے:
حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ نے مولانا مفتی محمود اشرف عثمانی دامت برکاتہم کوایک انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا تھا:” مبادیات سائنس، فلسفہ جدیدہ، ہئیت جدیدہ انہیں ہی لوگ دینیات کی تردیدکا ذریعہ بناتے ہیں؛حالاں کہ یہ ذریعہ ہیں تقویت ِدین کا۔ سائنس جتنی بڑھے گی میں سمجھتا ہوں اسلام کو اتنی ہی تقویت ملے گی۔ اس لیے کہ اسلام نے عقائد ونظریات کے لحاظ سے جو دعوے کئے ہیں، ان کے دلائل سائنس مہیا کررہی ہے۔ تو دعوی ہم کرتے ہیں مگر دلائل وہ لوگ مہیا کرتے ہیں ،جو اس کے منکر ہیں۔ اللہ تعالی انہیں کے ہاتھ سے دلائل مہیا کرتے ہیں، اس لیے سائنس منافی تو کیا ہوئی معین ومددگار ہے۔ خرابی ہے در اصل ماحول کی؛ کیوں کہ اس کے پڑھانے والے وہ ہیں جو غلط نظریات اور غلط فکر لیے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان فنون کا اثر برا پڑتا ہے، لیکن اگر صحیح پڑھانے والے ہوں تو وہی ذریعہ بن جائیں گے تقویت دین کا۔آخر یہ قدیم فلسفہ، منطق، ہیئت، ریاضی پڑھاتے ہیں، اس کا برا اثر کیوں نہیں پڑتا اور موجودہ فنون کا کیوں پڑ رہا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو پڑھانے والے وہ ہیں کہ دین ان میں پہلے سے راسخ ہوتا ہے، اس لیے عقائد پر برا اثر نہیں پڑتا۔ اور موجودہ زمانے میں (عصری علوم وفنون سائنس تاریخ وغیرہ) عموماً پڑھانے والے وہ ہیں کہ نہ ان کی اخلاقی حالت درست ہے، نہ ماحول درست اس کا اثر یہ پڑتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں علم کا اثر برا ہے؛ حالاں کہ در اصل وہ عالم کا اثر ہے، جو برا پڑ رہا ہے۔ ورنہ اسلام میں تنگی نہیں، اسلام نے ہر علم وفن کی تحقیق کی اجازت دی ہے، سوائے مخصوص چند علوم (جادو وغیرہ) کے جن سے روکا ہے ؛کیوں کہ وہ علوم نافع نہیں ہیں۔“
مفتی محمود اشرف عثمانی اپنے دادائے محترم مفتی شفیع عثمانی رحمہمااللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں: اگر استاذ درست نہ ہوتو نورالایضاح سے بھی طلبہ کا ذہن بگاڑ دے گا۔ اور اگر استاذ درست ہوتو وہ عصری مضامین سے بھی علم اور تقوی پیدا کردے گا۔
تجرباتی علوم انسانیت کا مشترکہ اثاثہ ہیں:
ان اکابر علمائے امت کی تحریروں کے نتیجے میں یہ بات بلا جھجک کہی جاسکتی ہے کہ:
ایک دینی طالب علم اور عالم دین کو عصری علوم سے بھی آگاہی پیدا کرنا چاہیے اور یہ بات کھلے دل ودماغ سے سمجھ لینا چاہیے کہ علوم ِجدیدہ ریاضی، فلکیات، سائنس، سوشل سائنس،میڈیکل سائنس، انجینئرنگ، کیمسٹری، قانون، فلسفہ ٴجدیدہ، جغرافیہ اورپالٹیکل وغیرہ یہ اسلام کے منافی اور ضد نہیں، بل کہ فہم ِاسلام اور تبلیغ ِاسلام کے لیے معین ومددگار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشی مسائل کے لیے بہترین ہنر ہیں۔ اور” ہنر از ہمہ اولیٰ است“۔
ہم دنیوی امور میں غیر قوموں کے علم وتجربہ اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ان سے استفادہ کریں، جس کے ذریعے ہم اپنی معیشت بھی درست کرسکتے ہیں اور ان علوم کو دینی خدمات کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے دوسری قوموں کی ہنرمندی، صنعت کاری اور تجربات سے فائدہ اٹھایا ہے۔ مشرکین ِمکہ کے قیدیوں سے مسلمان بچوں کو تعلیم دلانے اور جہالت کو مٹانے کا کام لیا، منجنیق (گولہ پھینکنے والی مشین) کی تجویز سے طائف کے محاصرے میں استفادہ کیا، غزوہٴ احزاب میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے کے مطابق اہل ِفارس کے تجربہ سے فائدہ اٹھایا، آپ کے لیے جو منبر تیار کرکے لایا گیا وہ ایک رومی بڑھئی نے تیار کیا تھا۔
قرآنِ کریم کی سائنسی تفسیر:
قران کریم کی سیکڑوں آیات میں فلکیات کا ذکر موجود ہے۔ اسی طرح جیولوجی اوربائیولوجی کی طرف بھی بہت سی آیات میں واضح اشارے موجود ہیں، بہت ساری آیات کا فہم صحیح جغرافیہ پر موقوف ہے۔ صلاة و صوم کی آیات کا گہرا تعلق فلکیات اور ہیئت سے ہے، آیات ِمیراث کا تعلق ریاضی اور حساب دانی سے ہے، سائنس کی نت نئی تحقیقات اور انکشافات سے کتاب وسنت کی فہم کے کئی دریچے کھلے ہیں، بہت سے معاصر علما نے اس جانب بھی توجہ فرماکر بہت سے علمی اور تحقیقی کام سر انجام دیے ہیں، جدید سائنس کی روشنی میں قرآن ِکریم کی آیات میں تدبر کرکے بہت سارے نئے انکشافات کا ثبوت پیش کیا ہے، جو اعجاز ِقرآنی کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اور قرآن کی حقانیت اور کلام ِالٰہی ہونے کی ایک مزید واضح دلیل ہے، ایک معاصر عالم د کتورمرھف عبدالجبار سقا حفظہ اللہ نے ”التفسیر والإعجاز العلمی فی القرآن الکریم ضوابط و تطبیقات“ کے نام سے قرآن ِکریم کی سائنسی تفسیر پر بہت عمدہ کام کیا ہے۔تفسیر ِقرآن کے اصول و ضوابط کی روشنی میں سائنسی تفسیر کا صحیح نہج اور قواعد و ضوابط بیان کیے، پھر سورہٴ نحل کی روشنی میں اسے تطبیقی شکل میں پیش فرمایا ہے ۔
﴿ وعلم آدم الأسماء کلہا﴾کے تحت ان معروضات اور علما کی نگارشات سے اسلام کا جامع تصور علم واضح ہوگیا۔ اور یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ اسلام میں اصل توجہ علم کے نافع اور ضار ہونے پر مرکوز ہے، ہر نافع علم محمود و مقبول ہے، حاصل کیے جانے اور محنت صرف کرنے کے سزاوار ہے۔ہر ضار مذموم و مردود اور قابل ِترک ہے۔ دینی اور دنیوی تقسیم کی وضاحت بھی علامہ بنوری رحمہ اللہ کے مضمون سے آشکارا ہوگئی۔
اسلام میں دین اور دنیا ساتھ ساتھ :
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اسلام اپنے تمام تر تصورات میں کامل اور مکمل ہے، اسلام میں دین ودنیا ساتھ ساتھ ہیں،مسجد اور بازار دونوں دوش بدوش ہیں، عبادات و معاملات و معاشرت ہر ایک کے احکام وآداب اور حقوق متعین ہیں،ہر چیز کا ایک معین اور محدد دائرہ ہے، ایک چیز دوسری سے مزاحم نہیں، ایک کا دوسری سے کوئی ٹکراؤ نہیں۔
دین کو دنیا سے الگ کرنے،اسے نجی زندگی تک محدود کرنے، اسے معاشی، معاشرتی، سیاسی زندگی سے الگ کرنے ، دنیا کو دین پر غلبہ اور ترجیح دینے کی ناپاک اور گھناؤنی سازش مادہ پرست استعماری قوتوں نے بڑے شاطرانہ اور عیارانہ انداز سے انجام دی۔ اسلامی ملکوں میں اس پروپیگنڈے کو عام کیا گیا کہ دین اور مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، اس لیے اسے پس ِپشت ڈال دیا جائے۔اور اس کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکا جائے، مادہ پرست استعماری قوتوں کے یہ حربے کارگر ہوئے اور مسلمان کا ایک بڑا طبقہ ان کے دام ِفریب میں مبتلا ہوگیا اور اس نے بھی وہی راگ الاپنا شروع کردیا جو اسے اس کی یورپی آقاؤں نے سکھایا تھا۔ ورنہ اسلام کے تمام ادوار میں دین اور دنیا، دینی اور دنیوی علوم ایک ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے پڑھے پڑھائے جاتے تھے، ایک ہی دانش گاہ کے طلبہ دینی امور بھی سر انجام دیتے اور حکومتی اور سیاسی اداروں میں بھی اعلیٰ مناصب پر فائز ہوکر نہایت خوش اسلوبی سے اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کو بجا لاتے تھے۔اس کی واضح مثالیں اسلام کے دور ِعروج کی درس گاہوں اور ان کے تلامذہ پر نظر ڈالنے سے مل جائیں گی۔
ہمیں جامع القزوین کی ضرورت ہے:
شیخ الاسلام مفتی محمدتقی عثمانی دامت برکاتہم فرماتے ہیں:
اگر ہم اسلامی تاریخ کی مشہور اسلامی جامعات کا جائزہ لیں تو چار اہم اسلامی جامعات ہماری تاریخ میں نظر آتی ہیں۔ ان میں سب سے پہلی ”جامعة القزوین“ ہے، دوسری تیونس کی” جامعہ زیتونة “ہے تیسری مصر کی” جامعة الازھر “ہے اور چوتھی دارالعلوم دیوبند ہے، تاریخ کی ترتیب اس طرح ہے۔
اس میں سب سے پہلی یونی ورسٹی ”جامعة القزوین“ جو فارس کے اندر قائم ہوئی ،وہ تیسری صدی ہجری کی یونی ورسٹی ہے۔ اور یہ صرف عالم ِاسلام ہی کی نہیں ،بل کہ ساری دنیا کی قدیم ترین یونی ورسٹی ہے۔”جامعة القزوین“ کے اندر جو علوم پڑھائے جاتے تھے ان علوم میں اسلامی علوم، تفسیر، حدیث، فقہ اور اس کے ساتھ ساتھ طب، ریاضی، تاریخ اورفلکیات ؛جن کو آج عصری علوم کہا جاتا ہے وہ سارے علوم پڑھائے جاتے تھے۔ ابن خلدون نے وہاں درس دیا، ابن رشد نے وہاں درس دیا، قاضی عیاض نے وہاں درس دیا، اسلاف کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے وہاں درس دیا اور ان کی جگہیں آج بھی محفوظ ہیں کہ یہ جگہ وہ ہے، جہاں ابن خلدون درس دیا کرتے تھے ۔یہ جگہ وہ ہے ،جہاں ابن رشد درس دیا کرتے تھے ۔یہ جگہ وہ ہے ،جہاں قاضی عیاض نے درس دیا ہے۔ یہاں ابن عربی مالکی نے درس دیا ہے ،یہ سب جگہیں محفوظ ہیں۔ یہ دنیا کی قدیم ترین یونی ورسٹی ہے۔ مدارس تو چھوٹے چھوٹے ہر جگہ ہوں گے لیکن جامع القزوین ایک یونی ورسٹی کی حیثیت رکھتی تھی جس میں تمام عصری، دینی و دنیاوی علوم پڑھائے جاتے تھے اور اس میں آج بھی اُس زمانے یعنی تیسری صدی اور چوتھی صدی کی جو سائنٹفک ایجادات ہیں، ان کے نمونے رکھے ہوئے ہیں کہ اس زمانے میں اسی ”جامعة القزوین“سے لوگوں نے جو ایجادات کی ہیں، گھڑی وغیرہ۔ ان ایجادات کے نمونے آج بھی وہاں موجود ہیں۔
تصور کیجیے کہ یہ تیسری صدی ہجری کی یونی ورسٹی ہے اور اسلامی علوم کے بادشاہ بھی وہیں سے پیدا ہوئے۔ ابن ِرشد فلسفی وہیں سے پیدا ہوئے اور وہیں سے بڑے بڑے سائنسدان بھی پیدا ہوئے۔ تو ہوتا کیا تھا کہ جتنا علم فرضِ عین ہے وہ تو سب کو اکٹھا دیا جاتا تھا اور اس کے بعد اگر کسی کو علم ِدین کے اندر اختصاص حاصل کرنا ہے تو وہ علم ِدین کے دروس اسی جامع القزوین کے اندر پڑھے گا اور اسی میں ریاضی پڑھانے والا ہے تو ریاضی بھی وہاں پڑھا رہا ہوگا۔ طِب پڑھانے والا ہے تو طب بھی وہاں پڑھا رہا ہوگا یہ ساراکا سارا نظام اس طرح چلا۔
جامعة القزوین اس طرح چلی۔جامعة زیتونہ اور جامعة الازھر اسی طرح چلی۔یہ تینوں یونیورسٹیاں ہی ہمارے قدیم ماضی کی یونی ورسٹیاں ہیں۔ ان میں اس طرح تعلیم دی گئی کہ دینی اور عصری دونوں چیزیں اس طرح ساتھ ساتھ چلیں کہ ایک ہی چھت کے نیچے سارے علوم پڑھائے جاتے تھے۔
شیخ الاسلام اسی سیاقِ کلام میں آگے چل کے فرماتے ہیں:
ہمیں جامع القزوین کی ضرورت تھی، ہمیں جامع زیتونہ کی ضرورت تھی؛ جہاں سارے کے سارے علوم اکٹھے پڑھائے جائیں اور سب دین کے رنگ میں رنگے ہوئے ہوں۔چاہے وہ انجینئرہو، چاہے وہ ڈاکٹر ہو، چاہے کسی بھی شعبہٴ زندگی سے وابستہ ہو وہ دین کے رنگ میں رنگا ہوا ہو ؛لیکن ایک ایسا نظامِ تعلیم لاکر ہم پر لاد دیا گیا ،جس نے ہمیں سوائے ذہنی غلامی کے کچھ نہ دیا۔
مفتی صاحب دامت برکاتہم دینی اور دنیوی تعلیم کے الگ اور جدا ہونے کے نقصانات گنواتے ہوئے فرماتے ہیں: اس نظام ِتعلیم کا نقصان یہ ہوا کہ اس میں تصورات بدل دیے۔ پہلے علم کا تصور اعلیٰ تھا جس کا مقصد معاشرے کی خدمت تھی مخلوق کی خدمت تھی یہ اصل مقصود تھا۔ اس کے تحت اگر معاشی فوائد بھی حاصل ہوجائیں تو وہ ثانوی حیثیت رکھتے تھے؛ لیکن آج معاملہ الٹا ہوگیا ہے، علم کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے، علم کا مقصد یہ ہے کہ اتنا علم حاصل کرلو ،جس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی جیب سے پیسے نکال سکو۔ تمہارا علم اس وقت کار آمد ہے جب تم لوگوں سے زیادہ سے زیادہ پیسہ کماسکو۔ جو لوگ پڑھ رہے ہیں گریجویشن کررہے ہیں، ماسٹر اور پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں لے رہے ہیں، ان کے ذہن پڑھ کر دیکھو، کیوں پڑھ رہے ہیں؟ اس لیے پڑھ رہے ہیں کہ کیرئیر اچھا ہو، اس لیے پڑھ رہے ہیں کہ اچھی ملازمتیں ملیں، اس لیے پڑھ رہے ہیں کہ پیسے زیادہ ملیں۔ تعلیم کی ساری ذہنیت بدل کر یہ کردی کہ علم کا مقصد پیسہ کمانا ہے۔ معاشرے کی کوئی خدمت کرنی ہے، مخلوق کی کوئی خدمت کرنی ہے، اس کا کوئی تصور اس موجودہ نظام تعلیم کے اندر نہیں ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر شخص پیسہ کمانے کی دوڑ میں لگا ہواہے۔ اس کو نہ وطن کی فکر ہے نہ ملک وملت کی فکر ہے۔ نہ مخلوق کی خدمت کرنے کا کوئی جذبہ اس کے دل میں پیدا ہوتا ہے؛ بل کہ دن رات وہ اسی دوڑ دھوپ میں مگن ہے کہ پیسے زیادہ بننے چاہئیں ۔الّاماشاء اللہ !نتیجہ یہ کہ بدعنوانیاں پھیلی ہوئی ہیں،مستثنیات ہر جگہ ہوتے ہیں، یہاں بھی ہیں، لیکن بحیثیت مجموعی موجودہ نظام ِتعلیم کے تحت جو لوگ تیار ہورہے ہیں ،بتایئے انہوں نے مخلوق کی کتنی خدمت کی اور کتنے لوگوں کو فائدہ پہنچایا ہے؟ہمیں تو پیغمبر ِانسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا تلقین فرمائی تھی کہ:
”اللھم لاتجعل الدنیا اکبر ھمنا ولا مبلغ علمنا ولاَ غایة رغبتنا۔“
”اے اللہ! دنیا کو ہمارے لیے ایسا نہ بنائیے کہ دھیان دنیا ہی کی طرف رہے، نہ ہمارے علم کا سارا مبلغ، دنیا ہی ہوکر رہ جائے اور نہ ہماری ساری رغبتوں اور شوق کا مرکز دنیا ہوکر رہ جائے۔“
لیکن اس نظام ِتعلیم نے کایا پلٹ دی۔
علما اور طلبہ کے لیے ایک بہترین آئیڈیل:
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم جس نظام ِتعلیم کے داعی ہیں، اس کی سب سے جامع مثال خود ان کی ذات ِبابرکات ہے۔ وہ جہاں ایک طرف علوم ِدینیہ اور اسلامیہ میں درجہٴ اجتہاد پر فائز ہیں، وہیں عصری تعلیم میں بھی ایک جانا پہچانا نام اور بصیرت مندانہ رائے کے مالک ہیں۔تقریباً ۱۷/ سال تک عہدہٴ قضا پر فائز رہ چکے ہیں اور اپنے تاریخی فیصلوں سے اپنی ہمہ جہتی مہارت، قابلیت اور خداداد صلاحیت کا لوہا منواچکے ہیں۔
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب کو اگر فقہ الاقتصاد کا ”مجدد“کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔حضرت شیخ الاسلام صاحب کی اس میدان میں خدماتِ جلیلہ کا اعتراف صرف اسلامی ممالک کی سطح پر نہیں،بل کہ عالمی سطح پر کیا جا چکا ہے،مفتی صاحب اسلامی مالیاتی اداروں کے اکاوٴنٹنگ ، آڈیٹنگ اورآرگنائزیشن کے چیر مین بھی ہیں، آپ نے اسلامی بینکاری کو متعارف کروا کے سودی نظام سے چھٹکارا پانے کی راہیں ہموار کردی۔
آپ ایک جامع علمی شخصیت ہیں۔ آپ کو اردو ،عربی اور انگریزی زبانوں میں مہارت ِتامہ حاصل ہے، تینوں زبانوں میں آپ کی مبارک زبان اور آپ کا اشہب ِقلم اپنی تمام تر جولانیوں اور رعنائیوں کے ساتھ خدمت اسلام میں سرگرمِ عمل ہے۔ آپ کے قلم سے نکلنے والے سفر نامے مستقل ایک دبستان ِعلم وفن، تاریخ کا ایک بہترین مرقع، قلم کی رنگینی اور دلکشی کا عمدہ ترین مظہرہے۔ آپ کے ادبی ذوق ومزاج کی بہترین تصویر کشی اور قارئین کے لیے گھر بیٹھے دنیا جہاں کی سیر وسیاحت کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ آپ کے یہ سفرنامے طلبہ، علما، ادبااور موٴرخین کے لیے بھی سب سے منفرد اور دلفریب ہیں،جس میں ادب کی حلاوت و چاشنی بھی اور ذوق و جذبات کو تسکین دینے والی شاعری کا امتزاج بھی، تاریخ اور جغرافیہ،حالات کا تجزیہ اورامت کے درپیش مسائل کا حل بھی موجود ہے۔ آپ کے سفر نامے اگر ایک طرف تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں تو دوسری طرف اردو ادب کے حوالہ سے نہایت معتبر اور مستند مقام کے حامل ہیں۔ آ پ کے سفر ناموں کے تین مجموعے ”جہانِ دیدہ“،”دنیا میرے آگے“اور”سفر در سفر“کے نام سے مقبول خواص و عوام ہیں اور تازہ اسفار کی روداد ماہنامہ” البلاغ “کی زینت بنتی رہتی ہے۔
شیخ الاسلام نے اتنے بڑے پیمانہ پر جو خدمات ِدینیہ انجام دی ہیں اور دے رہے ہیں، وہ ان کے اخلاص وللہیت، دینی علوم میں درک اور کمال کے ساتھ ساتھ جدید علوم میں مہارت ِتامہ کی مرہون منت ہیں۔ دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کو حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم کو آئیڈیل بنا کر اپنے لیے راہ ِعلم کا لائحہ تیار کرنا چاہیے۔ اس لیے طلبہ کرام عصر حاصر کے ماحول اور مزاج کو سمجھیں۔ اہل ِزمانہ کی ذہنی سطح اور نفسیات کے مطابق ان تک دین پہنچانے کے لیے اپنے آپ کو مکمل تیار کریں؛جہاں آپ ایک طرف علوم ِدینیہ میں درک ومہارت رکھتے ہوں وہی دوسری طرف علوم ِعصریہ پر بھی آپ کی نگاہ ہو۔اور اس میدان میں بھی آپ محنت کرکے مہارت و اہلیت کی بنیاد پر ڈگریاں حاصل کریں۔
دینی علوم کو موجودہ حالات کے تناظر میں پڑھیں: مولانا زاہد الراشدی دامت برکاتہم فرماتے ہیں:
قرآن و سنت اور حدیث و فقہ کو بھی آج کے حالات کے تناظر میں اس طور پر پڑھنے پڑھانے کی ضرورت ہے کہ نسل انسانی کے موجودہ مسائل کو سامنے رکھ کر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کے حل کی نشاندہی کی جائے اور اس سلسلہ میں معاشرتی و سماجی مسائل و امور کی طرف زیادہ توجہ دی جائے۔
خدمت ِدین میں جدید ٹیکنالوجی سے کام لیجیے:
عصرِحاضر سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہے۔کتب و رسائل کی اشاعت کے ساتھ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی نے معلومات تک رسائی کو انتہائی آسان بنادیا۔ہر موضوع سے متعلق بلا مبالغہ ہزاروں ویب سائٹس موجود ہیں، جن کے ذریعہ استفادہ اور بحث وتحقیق بہت آسان ہوگئی ہے۔ اعدائے اسلام جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے باطل کو پھیلانے اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کرتے رہتے ہیں، تو ہمیں بھی جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کو تعلیم وتعلم ، دین کی نشر واشاعت ، جائز اور حلال معاشی فوائد ومنافع کے لیے ضرور استعمال کرنا چاہیے۔
دینی اور عصری علوم کے امتزاج کی ضرورت:
مذکورہ بالا تفصیل میں آپ نے دینی اور عصری علوم کے امتزاج کی اہمیت اور ضرورت اور دونوں کے مابین پائی جانے والی خلیج اور دوری کے نقصانات ملاحظہ فرمائے۔ اور یہ بات بھی صراحت کے ساتھ سامنے آگئی کہ اسلام نے ہر قسم کے نفع بخش علم کی صرف اجازت ہی نہیں دی ؛بل کہ اس کی تحصیل پر ابھارا اور آمادہ کیا ہے، تاکہ ایک مسلمان دنیا اور آخرت ہر دو کی سعادت مندی اور سرخروئی سے بہرہ ور ہوسکے۔ اس لیے مسلمانوں کو ایسے ادارے اور ایسی اکیڈمیاں قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے ،جو قدیم صالح اور جدید نافع بالفاظ دیگر دینی اور عصری علوم کے حسین سنگم ہوں، جن میں دونوں قسم کے علوم ایک احاطہ اور ایک چھت کے نیچے مہیا کرنے کی کام یاب کوشش کی جائے۔ ان کے طلبہ دینی بصیرت کے ساتھ ساتھ اعلی ہنرمندانہ صلاحیت سے آراستہ ہوں، انہیں حلال وحرام کی بھی جانکاری ہو اور وہ معاشی اعتبار سے بھی خود کفیل بننے کی پوزیشن میں ہوں۔ انہیں کسی کا دست نگر بننے کی ذلت نہ اٹھانا پڑے اور نہ وہ کوشش وکاوش کرنے اور محنت ومشقت اٹھانے کے بعد علم ِدین سے ناواقف ہونے کی بنا پر حرام کمانے اور کھانے کے جرم ِعظیم کے مرتکب ہوں۔دینی علوم پڑھنے والے عصری علوم سے استفادہ کرکے دینی خدمات بطریق ِاحسن انجام دے سکیں، عصر حاضر کے انداز، زبان اور طور طریق کو پوری بصیرت کے ساتھ معلوم کرسکیں، تاکہ انہیں عالمی نبی کا عالمی پیغام اقوامِ عالم تک پہنچانے میں کسی دشواری اور رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ وہ جدید ذہنیت سے اچھی طرح واقف ہوں اور اسے مطمئن کرنے اور اس کے شکوک وشبہات کا ازالہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہوں، جدید علوم سے آراستہ ہونے کے ذریعے زیادہ سے زیادہ بہتر ین انداز میں دین وملت اور انسانیت کے لیے نافع اور مفید بنیں اور ”خیر الناس من ینفع الناس“ کا مصداق بن کر لسان ِرسالت سے خیریت کا سر ٹیفکیٹ اور مژدہٴ جانفزا حاصل کریں۔
الحمد للہ بہت سے علاقوں میں اس سمت پیش رفت ہوئی ہے، مگر مزید پیش رفت اور فعالیت کی ضرورت ہے۔بعض مقامات پر دونوں کو جمع کرنے کے دعوے تو ہیں، مگر بنظر غائر دیکھنے سے کسی ایک جانب جھکاؤ اور دوسری جانب بے توجہی سامنے آتی ہے۔ اس لیے دینی فکر وحمیت رکھنے والے رجال ِکار کو اعتدال اور سلامت ِفکری کے ساتھ اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اللہ ہم تمام کو اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور دنیا و آخرت میں ہمارا والی وناصر ہو۔آمین!