اسلام اوراعتزال ِ نو -اسلام کی تشکیل نو

حکیم فخرالاسلام مظاہری

            دین کی حفاظت کے لیے جن علوم کی ضرورت ہے،اُن میں سے ایک ”علم کلام “ہے۔ حسبِ بیان حکیم الامت: چوں کہ ہر وہ چیز جس کا باقی رکھنا مقصود ہو،اُس” کے لیے اندرونی انتظام کے ساتھ بیرونی حفاظت کی بھی ضرورت ہوتی ہے ،(اور)دینِ اسلام بھی اِس قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتا،اِس لیے بیرونی” حملوں سے اسلام “ کی مدافعت بھی ایک لابدی امر ٹھہرا، اِس کے لیے علومِ مجادلہ و کلام کی ضرورت قرار پائی۔” اِسی تناظر میں وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جن امور کو ثابت کرنا ضروری ہے ،اُنہیں ثابت کرنے کے لیے اور جنہیں رد کرنا ضروری ہے اُن کی تردیدد کے لیے“ کچھ عقلی قوانین کی حاجت ظاہر ہے،اِس بنا پر بعض علومِ آلیہ عقلیہ کی حاجت ہے۔ یہ وہ راز ہے جس کی بنا پر مدرسہ کے متداول نصاب میں عقلی علوم داخل چلے آرہے ہیں۔ڈاکٹر ضیاء الحسن فاروقی لکھتے ہیں:

             ”عباسیوں کے عہد میں راسخ العقیدہ مسلمانوں کی جماعت کو معتزلی اور شیعی گروہ سے سخت خطرہ پیدا ہو گیا تھا،شیعوں کی کئی شاخیں بن گئی تھیں، جن میں’غلاة‘وہ تھے جو کسی طرح بھی مسلمانوں کے سوادِ اعظم سے میل نہ کھاتے تھے۔’باطنیوں‘ نے تو وہ کیفیت پیدا کر دی تھی کہ ہم سنی علماء،وُزراء اور سلاطین کی جان ہر وقت خطرے میں رہتی تھی اور اُن میں سے کتنے ایسے تھے جنہیں ’باطنیوں‘ کے خنجر نے شہید کیا۔(وجدانیات کا مدعی فرقہ )’اسماعیلی تھیوسوفی‘ نے ابو یعقوب سجستانی(ف:۹۴۳ء)اور حمید الدین کرمانی (۱۰۱۹ء)کی تصانیف اور ”اِخوان الصفا“ کے رسائل کی شکل میں سلف کے عقائد کی،یہاں تک کہ خود قرآن کی نئی تعبیریں کر ڈالیں۔“(۱)”فاطمیین و ہمدانیین بھی اِس امر میں کسی سے پیچھے نہ رہے؛لیکن بارہویں صدی( عیسوی) کے وسط تک کم از کم نئی مشرقی دنیائے اسلام میں اور اُدھر مغرب میں سنی علماء نے شیعوں کے مقابلے میں کا میابی حاصل کر لی تھی اورمعتزلہ کو تو اِس سے پہلے ہی ہتھیار ڈال دینا پڑا تھا۔“

(۱) ”اِخوان الصفا“:یہ اہلِ زیغ کا ایک گروہ یا جماعت ہے ”اِس جماعت کا پورا نام اِخوان الصفاء و خلان الوفاء و اہل العدل و ابناء الحمدو ارباب الحقائق و اصحاب المعانی “تھا…اِس پورے نام کا سلیس اردو میں ترجمہ ہوگا: ”پاکیزگی پسند اور وفا شعارلوگ،عدل کے خواہاں اور حمد و ثنا کے خوگر،عارفینِ حقائق،واقفانِ معانی“۔(محمد کاظم:”مسلم فکر و فلسفہ“ ص۱۶۴ جدید پریس لاہور)

            اب سنی علماء” نے اپنے علوم کو مدون و مرتب کر لیا تھا اور اُن علوم کی تعلیم وترویج اِس طرح کرتے تھے کہ اُن کی ترتیب دی ہوئی درسیات کا ڈھانچہ ہر بلا سے محفوظ رہے۔نظامِ مدرسہ تو اِس قسم کے تحفظ کا ایک خارجی عنصر تھا ،اصل چیز درسیات اور اُن کا علمی موادو دیگر مشمولات (تھے)۔اُنہیں اِس طرح مرتب کیا گیا تھا کہ اُنہیں اپنے سے باہر کے کسی قسم کے چیلنج،مخالفت یا علمی تقاضے سے کوئی سرو کار نہ ہو۔ اِن مذہبی علوم کے داخلی تشکیلات کے تار و پودکچھ اِس طرح کے تھے کہ وہ مکمل طور پر خود کفیل اور علم کے ہر شعبے پر حاوی سمجھے جاتے تھے۔“

            مقالہ نگار آگے لکھتے ہیں: ”اِس میں کوئی شبہہ نہیں کہ غیر حقیقی اور بے سود فکری کاوشوں کواِس بنا پر رد کر دینے میں-کہ اُس کا تعلق براہِ راست عمل سے نہیں ہے-کوئی ایسی نا معقو لیت نہیں ہوتی۔اور جدید ذہن کو تواِس پر بالکل نہیں چونکنا چا ہیے۔کیوں کہ جدید نظریہٴ علمیت کا فکر محض سے متعلق کم و بیش یہی رویہ ہے …“(۱)

 ”سلف صالح“کے نام پر تجدد پسندی :

            مدرستی نظام و نصاب ِتعلیم کا جو تعارف پیش کیا گیا،ابتدا سے ابھی ڈیڑھ سو سال پہلے تک متداول رہا اور اب بھی کسی نہ کسی صورت متداول ہے اوراُس کی حمایت و حمیت جاری ہے؛مگر اُس سے مزاحمت بڑھتی چلی جا رہی ہے ،اِس مزاحمت کا پسِ منظر یہ ہے کہ گزشتہ۱۹ویں صدی عیسوی کے نصفِ اول کے بعد عالمِ اسلام جدید نظریہٴ علمیت پر مبنی مغربی افکار سے متاثر ہوا ،جس کے زیرِ اثر مسلمان ممالک میں اصلاحِ مذہب کے لیے تحریکیں اُٹھنی شروع ہوئیں۔ ”انیسویں صدی کے آغاز میں دنیائے اسلام میں (اِن) اصلاحی تحریکات کی ابتدا(تو) ”سلف صالح“کے مذہب کے اِحیا ( ایک سادہ عنوان)سے ہوئی ۔“(۲) ؛لیکن بعد میں یہی ”تجدد پسندی “کی بنیاد بن گئی۔اور مغربی نظریہٴ علم کے سہارے جب مستشرقین نے اہلِ اسلام پر یہ اعتراض کیا کہ ”اسلام عقلیت (۳)کا دشمن ہے“۔

(۱)ضیاء الحسن فاروقی:”دینی مدارس کا نصابِ تعلیم اور فکر اسلامی“ ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید “ سن اِشاعت ۱۹۷۷ص۲۳۶،۲۳۷۔

(۲)محمود الحق:”شیخ محمد عبدہ کے مجتہدانہ کارنامے،ص۳۷۷“ ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید “ ص۲۴۵۔

(۳) ”عقلیت “سے مراد وہ جسے مغرب عقلیت کہتا ہے ،یعنی ما بعدالطبیعات،وحی و معاد کی حقیقتوں سے گریزاں۔

            ”تومسلم معاشرے میں… انیسویں صدی کے نصف آخر میں(مغربی عقلیت سے مطابقت دکھانے کی طمع میں)”سلفِ صالح“ کے ”مذہب کی ”نشاةِثانیہ “شروع ہوئی ،جس کاآغازسید جمال الدین افغانی…کی مساعی سے ہوا ۔“(۱) جودینی مسائل کی تشریح مغربی فلسفہ کے رجحان کے تحت ”خالصتاًمعروضی اور عقلی انداز سے کرنے کے قائل تھے۔“(۲)

            مغربی افکار سے تجدد پسندی کے ربط کی تفصیل سے باخبر ہونے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ مغربی افکاراِس خاص نظریہٴ علم کے تحت پیدا ہوئے کہ” علم بنیادی طور پر وہ ہے جسے ذہنِ انسانی تلاش اور دریافت کرے۔“اِس ذہنیت کے پیدا ہونے کی بھی ایک تاریخ ہے،یعنی اِس بات کو ذرا پیچھے سے سمجھنا پڑے گا۔ یورپ میں سلطنتِ روم کے اِنحطاط کے بعد جو نظام جاری تھا”اُس نظام میں اَقدار کی وقعت کا تعین مذہبی پیمانوں پر تھا۔پندرہویں صدی کے مارٹن لوتھر (۱۴۸۳تا ۱۵۴۶ء)کی تحریک نے ’دنیا پرستی‘ کو مذہبی جواز فراہم کرنا شروع کر دیا۔اُس نے احتکار اور اِرتکازِ دولت کو خدائی نظام کا تصور دیا،اُس کے بعدفلسفہٴ تنویر (یعنی اٹھارہویں صدی عیسوی کی تحریکِ روشن خیالی)کے بیشتر مباحث اور نتائج کو مذہبی رہنماوٴں نے قبول کر لیا۔سترہویں صدی کے بعد کیتھولک اور پروٹسٹینٹ دونوں دنیاوی حرص و حسد کی معاشرتی تقویم کو جواز فراہم کرنے لگے۔“ (۳)یعنی ”حوادثاتِ عالم اور انسانی زندگی اور معاشروں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی تشریح و تعبیر میں انسانی نقطہٴ نگاہ سے غور کرنے کے رویہ “کا نام ”علم“پڑا۔”دوسرے لفظوں میں وحی سے حاصل ہونے والے علم کی روشنی میں اِس کائنات اور انسانی معاشروں کو سمجھنے کی کوشش کرنا…معتبر علم نہیں ہے۔“ (۴)

سید جمال الدین افغانی کا نظریہٴ علم :

             مغربی نظریہٴ علم سے متاثر ہونے والوں میں ابتدائی اہم نام سید جمال الدین افغانی کا ہے۔سید جمال الدین افغانی(۱۸۳۸-۱۸۹۷ء ) کا نظریہ علم یہ تھا کہ وہ” ……علوم کے اِرتقائی مظہر کے قائل تھے اور سمجھتے تھے کہ

(۱)محمود الحق:”شیخ محمد عبدہ کے مجتہدانہ کارنامے،ص۳۷۷“ ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جد ید “ ص۲۴۵۔

(۲) انور معظم:”جمال الدین اور علماء“”فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید“ص۳۹۱

(۳) سفر الحوالی-مترجم :محمد زکریا رفیق:”سیکولرزم“ ص۳۵۷۔

(۴ )ایضاًص۳۷۰۔

مختلف علوم انسان کی سماجی ضروریات کے جواب کے طور پروجود میں آئے(اور)تہذیبی اِرتقا کی مختلف منزلوں پر مختلف علوم تشکیل پاتے گئے۔دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ انسان نے روح کے تقاضوں پربھی توجہ دی“اورچوں کہ”اخلاقی فساد کے ساتھ مادی خوش حالی ممکن نہیں،چناں چہ فلسفہٴ اخلاقیات اور فقہ کے علوم وجود میں آئے۔“ (۱)

             جمال الدین افغانی نے جب اپنے زمانہ قیامِ ترکی میں اسلامی عقائدکے مزاحم خیالات کا اِظہارکرنا شروع کیا تھا ،تواُس وقت استنبول کے علماء نے حسین آفندی(الجسرجن کا تذکرہ آگے آ رہا ہے) کی سر کردگی میں افغانی کے خلاف بڑے پیمانے پر مہم چلائی،حتی کہ افغانی کو ترکی چھوڑ نا پڑا اور وہ مصر آ گئے، جہاں وہ ۱۸۷۱ سے۱۸۷۹ ء تک قیام پذیر رہے۔۱۸۷۹ء سے۱۸۸۲ء تک ہندوستان کے حید رآباد و کلکتہ کے خطوں میں رہے اوریہیں ”اپنا مشہور رسالہ ”رد نیچریت“(سر سید کے رد میں)سپرد قلم کیا۔موصوف نے ” بعض بڑی عظیم الشان شخصیت کو متاثر کیا جن میں شیخ محمد عبدہ کا نام خاص امتیاز رکھتا ہے،(۲)

            سید جمال الدین خود بھی نیچریت ہی کے شکار رہے؛البتہ ا نگریز کی موافقت و مخالفت اور مسلمانوں کو ترقی دلانے کے اصول میں دونوں میں بڑا اختلاف رہا۔

شیخ محمد عبدہ:

            شیخ محمد عبدہ(۱۸۴۹-۱۹۰۵ء ) نے جمال الدین افغانی کے رسالہ ”رد نیچریت“کا عربی ترجمہ”رددہرین“ کے نام سے کیا اورمصر میں جمال الدین افغانی کے تتبع میں ” اعتزالِ نو“کی بنیاد ڈالی۔ اِس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے طرابلس کے مشہور عالم شیخ حسین الجسر آفندی (۱۸۴۵-۱۹۰۹ء )نے ۱۳۰۶ھ(۱۸۸۹ء) میں ممالکِ عثمانیہ کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے خیالات کی اصلاح کی غرض سے ”رسالہٴ حمیدیہ“ تصنیف فرمایا جس پر شام کے بارہ جلیل القدر عالموں نے اور روم و شام و مصر کے بہت سے نام ور اخباروں نے تقریظیں اور ریویو لکھے۔ (۳)دارالعلوم دیوبند کے شعبہٴ تکمیلات میں ایک مدت تک داخلِ نصاب رہا ۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی نگرانی میں کیا گیا اردو ترجمہ ”سائنس اور اسلام“کے نام سے شائع ہوا۔

( ۱)انور معظم:”جمال الدین اور علماء“”فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید“ص۳۹۷،۳۹۸ بہ حوالہ مرزا لطف ا لله خاں شیرازی:”مقالاتِ جمالیہ “(طہران) ص۱۳۵-۱۳۷۔(۲)شیخ محمد اِکرام:”شبلی نامہ“ص۲۰۶،۲۰۷ سن ندارد۔

(۳)اِس رسالہ پرہندوستان میں ایک طرف الطاف حسین حالی(۱۸۳۷تا۱۹۱۴ء) نے ”حیاتِ جاوید “میں تنقیدات کیں اور انصاف سے کام نہیں لیا۔دیکھیے: الطاف حسین حالی”حیات جاوید“ ص۶۲۴-۶۲۸ ترقی اردو بیورو،دہلی ۲۰۱۲ء۔

            پھر محمد عبدہ کے شاگرد رشید رضا(۱۸۶۵-۱۹۳۵ء ) بھی اِسی نیچریت کی راہ پر چلے۔اِنہوں نے ” جو تفسیر لکھی ہے وہ بالکل سر سید کی تفسیر کے اصولوں پر ہے۔“(۱)

            بنا بریں، جس کسی نے یہ لکھا، درست لکھا کہ:اگر”محمد عبدہ کا علم کلام ایک نیا اعتزال ہے‘،توسر سید احمد خاں(۱۸۱۷-۱۸۹۸ء ) کے مذہبی خیالات معتزلہ کے بہت سے خیالات کی تجدید کرنے کے با وجودنو فلسفیانہ(یعنی مغربیت و نیچریت زدہ) ہیں۔“(۲)

             خلاصہ یہ کہ ”مصر میں محمد عبدہ ہندوستان میں سر سید اُس ذہنی ”نشاة ثانیہ “کی علامت تھے(جو اِسلام میں مغربی افکار کے فروغ کے لیے کو شاں تھی)۔(۳)

نو اعتزالی یا نو راسخ العقیدگی کی تحریک:

            انورعلی خاں سو زنے نئے ا عتزال کے لیے ”نو راسخ العقیدگی“کی اِصطلاح استعمال کی ہے اور اِس ضمن میں وہ لکھتے ہیں:

            ”…نو راسخ العقیدگی ایک آزاد مکتبِ فکر ہے …اِس حلقے کے افراد میں بے شمار اِختلافات پائے جاسکتے ہیں۔اِس کے بعض اساطین راسخ العقیدگی سے قریب تر ہیں اور بعض جدید اِنحراف عن الروایات سے۔“(۴)

            وہ مزید لکھتے ہیں:”نو راسخ العقیدگی وہ نقطہ نظر ہے، جوروایت سے اِنحراف کے بجائے روایت کی توسیع کا قائل ہے،جو دینی ورثے کو کسی قیمت پر برباد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے،جو قدامت پسند ہونے کے باوجود متجددانہ انداز سے سوچنے کے لیے تیار ہے،جومسلمہ دینی اقدار و اصول کے معاملے میں متشدد ہونے کے باوجودنئی تاویلوں اورتوجیہوں پر نہ صرف غور کرنے کے لیے تیار ہے؛بلکہ اگروہ اُس کے ورثے اور اُس کی روایت سے متصادم نہ ہوں،تو اُنہیں اختیار کرنے میں بھی اُسے کوئی باک نہیں ہو تا۔“(۵)

(۱)شیخ محمد اِکرام:”شبلی نامہ“ص۲۰۶،۲۰۷ ۔(۲)کرسچین ڈبلیو ٹرال:”سر سید احمد خاں اور انیسویں صدی میں علم الکلام کا احیا“”فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید “ ص۲۱۹۔(۳)ضیاء الحسن فاروقی:”دینی مدارس کا نصابِ تعلیم اور فکر اسلامی“ ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جد ید “ ص۲۴۵۔

(۴)انورعلی خاں سوزوقی:”نو راسخ العقیدگی اور فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید“ ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جد ید “ سن اِشاعت ۱۹۷۷ء،ص۲۷۲-۲۸۰۔

(۵)انورعلی خاں سوز:”نو راسخ العقیدگی اور فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید“ ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جد ید “ ص۲۷۲،۲۷۹۔

            مقالہ نگارترغیب دلاتے ہوئے لکھتے ہیں:”نو راسخ العقیدگی کے اِس تصور کی طرف ہر اُس شخص کا ذہن منتقل ہونا چا ہیے جو فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید کے مسئلے پر غور کرے۔“

ہیٹروڈاکس:

            مقالہ نگارنے’آرتھوڈاکس‘(روایت پسندی)کے مقابلہ میں ایک اصطلاح ’ ہیٹروڈاکس‘ استعمال کی ہے،اِس حوالہ سے وہ لکھتے ہیں:انیسویں صدی کے اواخرمیںآ رتھوڈاکس (۱) اور ہیٹروڈاکس(۲)میں فطری طور پر شدید قسم کاتضاد وتخالف پایا جاتا تھا،جو در اصل ”دعوی“ (Thesis)”جوابِ دعوی“(Anti thesis)کاٹکراوٴ تھا،جس کے نتیجے میں ایک امتزاج یا Synthesis(زیادہ درست تعبیر میں نئی تعمیر)وجود میں آئی۔(۳)

            ہندوستان میں سر سید نے تو جدت پسندی کو فروغ دیا؛لیکن ”نو راسخ العقیدگی“علامہ شبلی(۱۸۵۷-۱۹۱۴ء )

 سے مستحکم ہوئی۔اور جس کسی مفکر نے یہ لکھا کہ :”بیسویں صدی میں ایک حد تک شبلی اور ابو الکلام آزاد(۱۸۸۸-۱۹۵۸ء )؛لیکن بھر پور طور پر اقبال نے جرات آموز تجدد و اصلاح کی نمائندگی کی۔“(۴)

            وہ اِسی معنی میں ہے اور اِسی معنی میں”مصر میں مفتی محمد عبدہ اوررشید رضا اِس کے علم بردار تھے،ترکی میں الاستاد سعید نورسی (۱۸۷۳-۱۹۶۰ء )کم و بیش اِسی فکر کے حامی تھے۔…عالم عرب میں ناصرالدین البانی(۱۹۱۴-۱۹۹۹ء ) اور ایران میں سید حسین نصر(۱۹۳۳ء )اِس طرزِ فکر کے علم بردار تھے۔…پاکستان کے ڈاکٹر فضل الرحمان (۱۹۱۹تا۱۹۸۸ء)اور ہندوستان میں ڈاکٹر سید عابد حسین((۱۹۲۶-۲۰۱۲ء، مترجم ’تنقید عمل محض ‘) اِسی فکر کے علم بردار ہیں۔“

            مقالہ نگار کی رائے میں ہندوستان کے اسلامی مفکروں میں”مولانا تقی امینی (۱۹۲۶ تا ۹۱ ۱۹ء )کا نام سرِ فہرست دکھائی دیتا ہے اور بیرونِ ہند کے مفکروں میں سب سے آگے سید حسین نصر معلوم ہو تے ہیں۔ مولانا تقی امینی کی کتاب”احکامِ شرعیہ میں حالاتِ زمانہ کی رعایت“اِس سلسلے میں اہم ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔

(۱)انورعلی خاں سو:”نو راسخ العقیدگی اور فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید“ ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید “ ص۲۷۳۔مقالہ نگار کی مراد قدیم اصولوں پر قائم علمائے اہلِ حق سے ہے۔(۲)مقالہ نگار کی مراد شرعیات کے باب میں تشکک کے حاملین مثلاًعبدا لله چکڑالوی،سر سید احمد خاں وغیرہ سے ہے۔(۳)مقالہ نگار نے یہاں ہیگل کے فلسفہ کا سہارا لیا ہے۔ہیگل کے فلسفہ سے واقفیت کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب:”منہاج علم و فکر:فکر نا نوتوی اور جدید چیلنجزص۲۰۴تا ۲۰۶“حجة الاسلام اکیڈمی دارالعلوم وقف دیوبند۔ (۴)ضیاء الحسن فاروقی:”دینی مدارس کا نصابِ تعلیم اور فکر اسلامی“ ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید “ ص۲۴۵۔

            سید حسین نصر کی کتاب”Ideals and Realities of Islam“اِس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔…اِس کتاب میں اُس چیز کی جھلکیاں دکھائی دیں گی جسے وہ ہٹیروڈاکسی یااِنحراف سمجھتے رہے ہیں۔… نصر کٹّر روایتی مسلمان ہونے کے باوجود تجدد پسندانہ نقطہٴ نگاہ رکھتے ہیں۔“

            بعض نو راسخ العقیدوں کے افکار کا مزید جائزہ لیتے ہوئے مقالہ نگارلکھتے ہیں:

            ”شیخ محمدعبدہ کی مجتہدانہ سر گرمیاں اپنے عروج پر تھیں جب وہ مصر کے مفتیٴ اعظم مقرر کیے گئے ۔اِس عہدے پر وہ تا دمَ مرگ فائز رہے۔…اُن کی یہ زبردست خواہش ہر فتوے میں دکھائی دیتی ہے کہ :اسلام اِس طرح پیش کیا جا ئے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ وہ تہذیبِ جدید اور عصری تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔…یہ وہی زمانہ ہے جب ترکی اصلاحات کے دورِ ثانی سے گزر رہا تھا۔مصر میں خدیو اسماعیل ۱۸۳۰تا۱۸۹۵) کا زمانہ تھا جو مغربی تہذیب و تمدن کا زبردست د ل دادہ تھا۔جہاں تک جدید تعلیم یافتہ طبقے کا تعلق ہے،وہ مغربی روایات کو مِن و عَن قبول کرنے پر زور دیتا تھا؛لیکن شیخ محمد عبدہ کے نزدیک مسئلے کا یہ حل قطعاًنہیں تھا کہ جدید اداروں کو اختیار کر لیا جائے۔…وہ چاہتے تھے کہ تبدیلیاں شریعت کے دائرے میں رہ کر کی جائیں اور شریعت میں اتنی لچک پیدا کی جائے کہ وہ جدید اقدار اور اِداروں کو اپنے اندر سمو سکے۔اِسی مقصد کے تحت وہ ”اِجتہاد“ کا اِحیا چا ہتے تھے۔…وہ جدید علماء کی ایک ایسی نسل پیدا کرنا چا ہتے تھے، جواِجتہاد کے ذریعے نئے مسائل کا(عصری ہم آہنگی کے ساتھ) حل پیش کرے اورزندگی کے اُن اقدار کوجو امت کی بقا و ترقی کے لیے ضروری ہیں،اخذ و جذب کرے۔اِس سلسلے میں شیخ محمد عبدہ کا نقطہ واضح طور پر”اِنتخابیت“پر مبنی تھا ۔وہ مختلف مکاتبِ فکر سے خوشہ چینی کر کے شریعتِ اسلامیہ کی تشکیلِ جدید چا ہتے تھے۔“یعنی”جدید فکر کے چیدہ عناصر کو قدیم اسلامی اُسلوب کا قالب عطا کیا جائے۔“شیخ محمد عبدہ ”کی کوشش یہ تھی کہ اقل قلیل عقائد واضح کر دیے جائیں ،یہ عقائد پائے دار اور مستحکم ہوں۔“یعنی اِس کے اِستحکام کی بنا اُن سادہ فطری اصولوں پر ہو جنہیں نیچر کی را ہ سے مغرب نے دریافت کیا ہے ،یعنی وہی شبلی والی کوشش۔ شریعتِ اسلامیہ کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے وہ دو باتوں پر خاص طور پر زور دیتے تھے۔

            ۱-مصالح مرسلہ ،۲-تلفیق۔

            ۱-”مصالح مرسلہ“کا مطلب ہے ضرورت پڑنے پر حالات کے تحت مسائل میں ترمیم۔ایسی صورت میں ضرورتِ وقتیہ خود دلیلِ شرعی ہوگی۔”شیخ محمد عبدہ کے نزدیک شریعت کی اساس مصلحتِ عامہ پر ہے۔…اور مصلحت زمانے کے ساتھ بدلتی رہتی ہے،اس مقصد کے تحت وہ نصوص کے خلاف عمل در آمد کو بھی روا سمجھتے تھے۔“اسی زاویہٴ نظر سے اُنہوں نے ”سود کی اِباحیت کا فتوی دیا۔…تصویر کشی اورمجسمہ سازی کو بھی جائز قرار دیا۔“

            اُنہوں نے کہا:” یہ اسلامی شریعت کی روح کے خلاف ہے کہ تصویر کشی اورمجسمہ سازی کو ممنوع قرار دے،جب کہ یہ علم حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ بن چکے ہیں۔“(۱) یورپی لباس،ذبیحہٴ اہلِ کتاب کی اجازت کا فتویٰ اور تعدد ِازدواج کی ممانعت کا فتوی اِسی مصلحتِ عامہ پرمبنی تھا۔”اِس فتوی نے مصر میںآ زادیٴ نسواں کی تحریک کو آگے بڑھانے میں بڑی مدددی۔بعض اسلامی ممالک میں تعدد ِازدواج پر پابندی عائد کرنے کے لیے جو قوانین وضع کیے گئے،اُن کی اساس محمد عبدہ کے اِسی فتوے پر تھی۔(۲)

            اُن کا یہ بھی خیال تھا کہ تمدنی امور چوں کی مصالحِ مرسلہ کے تحت آتے ہیں، اس لیے”اُن کو مذہب سے کلی طور پر علیحدہ کر دینا چاہیے اور اُنہیں کسی ایسے ضابطے کا لازمی جزو نہیں بنانا چا ہیے ،جسے مقدس اور نا قابلِ تغیر قرار دیا گیا ہو۔“وہ کہتے ہیں کہ اِس باب میں”انسانی رفاہیتِ عامہ کو ہمیشہ رہنما اصول کے طور پر مقدم رکھنا چا ہیے۔“

            ۲-دوسرا مسئلہ”تلفیق“ہے ۔”اِس اصول کے مطابق مفتی کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ ضرورت پڑنے پر وہ دوسرے مذاہب کے مطابق فتوی دے سکے۔…وہ اِسے صرف مذاہبِ اربعہ تک محدود نہیں رکھنا چا ہتے تھے؛ بلکہ تمام مذاہب ِفقہ،نیز اُن فقہا کے اصول کو جن کا کوئی اسکول نہیں ہے ،مدون کر کے ایک مربوط نظام کی شکل دینا چا ہتے تھے۔“

            شیخ محمد عبدہ کے اِس عام اِجازتِ اِجتہاد پر تبصرہ کرتے ہوئے مقالہ نگار-شیخ کے بہ کثرت خیالات کو سراہنے کے باوجود-اِس کو ضرر رساں قرار دیتے ہیں،وہ لکھتے ہیں:

            ” یہ حقیقت ہے کہ اِجتہاد کا دروازہ کھولنے میں بڑے خطرات مضمر ہیں۔اگر ایک دفعہ روایتی اسلام کو ترک کر دیا گیا اور اِجتہاد کے اِنفرادی حق کو تسلیم کر لیا گیا تویہ معلوم کرنا دشوار ہو گا کہ کون سی بات اسلامی ہے اور کون سی بات غیر اسلامی ۔“

            پھر آگے مقالہ نگار نے مضرتیں شمار کرائی ہیں:

            ”در اصل اِجتہاد کا دروازہ کھول کر شیخ محمد عبدہ نے اسلامی فلسفے اور قانون میں ہر طرح کے جدید میلانات

(۱)تاریخ الاستاذ الامام ۲ :۴۹۸۔        (۲)سید رشید رضا:تفسیر المنار ۴ :۳۵۰۔

کے سرایت کرنے کی راہ ہموار کر دی۔یہی وجہ ہے کہ(شیخ محمد عبدہ نے تواجتماعی روابط اور شہری و تجارتی معاہدات وغیرہ امور میں کہا تھا کہ یہ کام لوگوں پر چھوڑا گیا ہے کہ وہ قرآن و سنت کے عمومی اصولوں کو جدید حالات پر منطبق کریں؛لیکن ) اُن کے بعض پیروٴوں نے سیکولرزم یعنی غیر دینی معاشرے کے قیام کی دعوت دی۔اِس سلسلے میں شیخ علی عبدالرزاق (۱۸۸۸تا۱۹۶۶)کا نام قابلِ ذکر ہے،جنہوں نے اپنی مشہور تالیف ”الاسلام واصول المحکم“میں اِس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ فقہِ اسلامی کو شہری زندگی کے ضابطے کی حیثیت سے بالکل ترک کر دیا جائے تاکہ مسلمان”مذاہبِ فقہ کے وسیع دواوین“کے بوجھ سے آزاد ہو کر ایک نئے اور ترقی پذیرمعاشرے کی تشکیل کر سکیں، جس کی بنیاد عقل،حکمت اور متمدن اقوام کے تجربوں پر رکھی گیٴ ہو۔“

            علی عبدالرزاق کی اِس اِنتہائی روش کو شیخ کے اصل رُجحانات کے ساتھ منطبق کرتے ہوئے مقالہ نگار لکھتے ہیں:

            ”یہاں اِس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ خلافت کی منسوخی،دین ومملکت کی تفریق اور فقہِ اسلامی کو بالکلیہ ترک کر دینے کے بارے میں علی عبدالرزاق کے خیالات شیخ محمد عبدہ کے لیے یقیناً قابلِ قبول ہوتے۔“وجہ اِس کی یہ ہے کہ شیخ محمدعبدہ ”لا ادریت“کے بھی شکار تھے،جیسا کہ اُن کے قریبی دوست کرومر نے بھی لکھا ہے۔ (۱)

            نا مناسب نہ ہو گا کہ عصر نو میں اعتزال جدید”تشکیلِ جدید“کے غیر مشتہر رجحانات- جو اب مشتہر ہوتے جارہے ہیں-کے رُخ ِزیبا سے بھی پردہ اُٹھایا جائے ۔درج ذیل نوعیتیں ملا حظہ ہوں:

۱-سماج (سوشل سائنس )کے سیکولر رشتوں کے ساتھ مذہب کی ہم آہنگی

اسلامی فکر کی تشکیل جدید ،ہرماہر سماجیات کا ہدف

            دور ِحاضر میں سماجی علوم کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔اگر اصل حقیقت پر نظر کیجیے،تو”مذہب یا مذہبی فکر کا مطالعہ علم سماجیات کا موضوع نہیں ہے۔ماہرینِ سماجیات اِلہامی صحیفوں کے متن کا مطا لعہ نہیں کرتے۔اِس کے برعکس وہ اُس مذہب کا مطا لعہ کرتے ہیں، جس کا چلن عوام میں ہو تا ہے۔دیکھا یہ جا تا ہے کہ متعلقہ عوام کا سماجی رویہ کیا ہے۔… عام زندگی میں“ اسلام کے ماننے والوں ”کے رجحانات کیا ہیں؟اور اِس طور پر بدلتے حالات کے ساتھ اسلامی فکر کی تشکیل جدید ہرماہر سماجیات کا ہدف ہوا کرتا ہے۔“(۲)

(۱)محمود الحق :”شیخ محمد عبدہ کے مجتہدانہ کارنامے“ اسلامی فکر کی تشکیلِ نو اِقبال کی نظر میں“ ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جد ید “ص۳۷۷-۳۸۶۔

(۲)عبدالرفیق سید:” فکراسلامی کی تشکیلِ نو“: ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید “ ص۴۱۸،۴۱۹۔

             ماہرِ سماجیات عبدالرفیق سیداپنے مضمون” فکراسلامی کی تشکیلِ نو“میں اِسی نقطہٴ نظر کو ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”میں وہ اسباب معلوم کرنے کی کوشش کروں گا، جن کی وجہ سے اسلام اور مسلمان جدیدیت کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔“

            واضح رہے کہ مقالہ نگار نے جو سبب ذکر کیا ہے،وہ مسلمانوں کا من حیث الجماعت جدیدیت کا قبول نہ کرنا ہے۔اور حل اِزالہ سبب پیش کیاہے،یعنی مسلمان جدیدت کو قبول کر لیں۔بہر حال،وہ لکھتے ہیں:

            ”آخر میں، میں اِس سے بھی بحث کروں گا کہ مسلمانوں کے لیے یہ کیوں ضروری ہے کہ ایسی صورتِ حال میں جب کہ بدلتے ہوئے سماجی، اِقتصادی حالات کے تقاضوں کی وجہ سے سماجی رویّوں میں پہلے ہی تبدیلی آ چکی ہے،وہ مذہبی فکر میں تبدیلی آنے کا اِنتظار نہ کریں؛بل کہ اِس سے پہلے وہ بھی اپنے رویّوں میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں(اورجدیدت قبول کر لینے کے لیے اپنے ذہن کو سازگار کر لیں)۔“

            وہ مزید کہتے ہیں:”مذہبی فکر کی تشکیل جدید “(یعنی جدیدیت سے مطابقت )کے مسئلے پرجو کچھ کہا جا سکتا ہے، وہ پیٹر برجر(۱)کے بہ قول یہ ہے کہ:”تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ساری دنیا میں مذہبی معقولات کی معقولیت نہ صرف چند دانشوروں اور معدودے چند افراد کی نظر میں؛بلکہ سارے معاشروں کے عام لوگوں کی نظر میں بھی ختم ہو گئی ہے اور آج کے معاشروں میں ایسے افراد کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے، جو زندگی میں مذہبی باتوں کا سہارا نہیں لیتے۔“

نتیجہٴ گفتگو-الف:سماجی اِقتضا اورمذہب کی رضاکارانہ حیثیت:

            حسبِ صراحت مقالہ نگار،اِس کا مطلب یہ ہوا کہ”مذہب کی حیثیت روز بہ روز ”نجی“ اور ”شخصی“ہوتی جارہی ہے اور سیاسی اور معاشی معاملات میں اِس کا اثرنہ صرف تقریباً معدوم ہو گیا ہے ؛بلکہ سمجھا یہ جانے لگا ہے کہ مذہب کا اُن سے سرے سے کچھ تعلق ہی نہیں ہے؛چناں چہ وہ تمام لوگ جوبدلتی ہوئی مذہبی فکر میں دلچسپی رکھتے ہیں،اُنہیں بہ قول برجر اِس حقیقت کا سامنا کرنا پڑے گا کہ”فرقہ وارانہ“”دستوری“اور”عائد کردہ“مذہب کی روحانی،ذاتی اور رضاکارانہ نوعیت ہی کی آج کی دنیا میں زیادہ اہمیت ہو گئی ہے۔“(۲)

(۱): امریکی ماہر سماجیات ۱۹۹۲تا۲۰۱۷ء:یہ سوشیو لوجسٹ ہونے کے ساتھ پروٹسٹنٹ تھیولوجسٹ بھی ہے۔چناں چہ یہ اپنی کتاب”سوشیولوجی آف ریلیجین“’سماجی مذہب‘کی وجہ سے بھی شہرت کا حامل ہے۔چناں چہ مذہب پر کام کرنے والے ماہرینِ سماجیات کی صفِ اول میں اعلی مقام کا حامل ہے۔(۲)عبدالرفیق سید:” فکراسلامی کی تشکیلِ نو“: ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید “ ص۴۲۰،۴۲۱۔

ب-نفسیاتی بے اطمینانی کے لیے مذہب،تمدنی و جماعتی زندگی کے لیے سیکولرحل :

            وہ آگے بتاتے ہیں کہ ماہرینِ سماجیات کہتے ہیں کہ ”عصری معاشروں میں جدیدیت کے بڑھنے کی وجہ سے زندگی کے ،اور خاص طور پر جماعتی زندگی کے بعض مسائل کا حل سیکولر اور سائنٹیفک اصولوں ہی کے پیشِ نظر رکھ کر تلاش کیا جا سکتا ہے،مذہب کی بنیاد پر نہیں؛کیوں کہ جہاں تک ایک فرد کی نفسیاتی بے اِطمینانی کا تعلق ہے،تو اُس میں مذہب کا بہر حال اہم حصہ ہو گا اور اِس سے آدمی کو اپنے نجی مسائل کے حل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔…(لیکن)اگر کسی مذہب اور مذہبی فکر میں سماجی،معاشی اور سیاسی افکارکے بارے میں یہ خیال کیا جا تا ہے کہ اُن پر مذہبی اقدار کے دائرے ہی میں رہ کرغور کیا جا نا چا ہیے،تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ آج ضرورت ہے اِس بات کی کہ اب تک(مذہب کے نام پر)جو کچھ بھی مانا جا تا رہا ہے اُس پر از سرِ نو غور کیا جائے اور اُس کی نئی تعبیر و تشکیل کی جائے۔“(۱)

۲- ”جدیدیت “کے تقاضوں کے مطابق اسلام کو ڈھالنا:

             غیروں نے یہ اعتراض پیش کیا کہ اسلام میں”بنیادی طور پر یہ صلاحیت ہی نہیں کہ اُسے ”جدیدیت “

کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جا سکے“،اس لیے ” فکرِاسلامی کی تشکیلِ نو“کے مقالہ نگار نے یہ سفارش کی ہے کہ ”اصل میں اگراسلام میں تبدیلی آنی ہے،تو جدیدیت کے حا میوں پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ مذہب کو سمجھیں اور جدیدیت کے پس منظر میں(سمجھیں)۔“

 الف-مطابقت کے معیارات:

            اسلام کو”جدیدت “کے مطابق کرنے کی تجویزیں یہ سُجھائی گئیں کہ :”’جدیدیت‘ کی بنیادی خصوصیات اور روحِ اسلام میں بڑی مناسبت ہے۔۔“من جملہ اور خصائص کے ”عقلیت پسندی“ اور”سائنس“کی اہمیت اور حرکت و عمل ہے۔اِن باتوں کے لیے مفتی محمد عبدہ کا یہ قول کہ :”اسلام سے حقیقی انکار یعنی حقیقی کفر تودر اصل عقلی استدلال سے انکار کرنا ہے۔“ یعنی مغربیوں کے اصول پر عقلی استدلال کا انکار ،اسلام کا انکار ہے ۔اوررفاعہ الطحطاوی(۱۸۷۳ء)کا یہ قول کہ”مسلمانوں کا جدید سائنس کو قبول کرلینا در اصل اُس سرمائے کا قبول کرنا ہے

(۱)عبدالرفیق سید:” فکراسلامی کی تشکیلِ نو“: ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید “ ص۴۲۲۔

جوپہلے اُنہی کا تھا،کیوں کہ یورپ کی ترقی اسلامی اسپین ہی کی کامیوبیوں کی مرہونِ منت ہے۔“ اور اسلام اور جدید تہذیب میں مشترک قدروں کی سعی پر مبنی رشید رضا کا یہ قول کہ :دونوں میں سب سے مشترک بات عمل ہی ہے۔عام مفہوم کے اعتبار سے اِصطلاحِ ”جہاد‘ ‘کے معنی ہی ”مثبت عمل“کے ہیں۔“یہ اقوال مغربی عقلیت، سائنٹیسزم کے لیے سہارابن گئے۔ (۱)

            خیال رہے کہ”مثبت عمل“کا جو مفہوم مغربی مفکروں کے یہاں ہے ،اُس کی رو سے تواسلام ہی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔

ب- ”جدیدیت “عالم گیر وباء ہے ،اِ س لیے قابلِ قبول بھی۔ مقالہ نگار نے ”اسلام کی تشکیل ِجدید“کا مقصد ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :

            ”مسلمانوں کے سماجی رویے میں جدید دور کے تقاضوں سے جو عدمِ مطابقت پیدا ہوتی جا رہی ہے اُسے دور کیا جائے،کیوں کہ اِس کی وجہ سے ایسی دنیا میں جہاں مقابلہ دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے-وہ پس ماندہ ہو کر مایوسیوں میں مبتلا ہو تے جا رہے ہیں۔اِس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آخر کار جس حد تک یہ تبدیلیاں مسلمانوں کے مزاج کا حصہ بنتی جائیں گی،اسلامی فکر کی” تشکیل ِجدید“اور بھی ضروری ہوتی جائے گی۔…“ورنہ”جدیدیت“کے تیزدھارے اُن لوگوں کو ہر طرف سے گھیر لیں گے جوہوا کا رُخ نہیں پہچانتے۔“(۲)

            گویا مرض کی وباء اگر خطہ کے وسیع رقبہ کو یا کثیر افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لے،تو وباء کو صحت سمجھ کر خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کر لینا چا ہیے۔“

ج-صالح فکر اور کج فکری میں مساوات

            ایک مضمون نگار تشکیلِ جدید کے موانع اور محرکات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ”اُن اسباب کی تلاش کے ساتھ جن کی وجہ سے ( تشکیلِ جدیدکی)یہ آواز بار بار اُٹھ کر دب جاتی ہے ،اُن محرکات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے، جن کی وجہ سے ڈیڑھ صدی کے اندر عالمِ اسلام میں اور خود ہندوستان میں بار بار یہ آواز سنائی دی اور متعدد

(۱)عبدالرفیق سید:” فکراسلامی کی تشکیلِ نو“: ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جد ید “ ص۴۳۱۔

(۲)عبدالرفیق سید:” فکراسلامی کی تشکیلِ نو“: ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید “ ،ص۴۳۳، ۴۳۴۔

 شخصیتوں نے’اسلامی قانون اور اسلامی تاریخ کی تدوین ِجدید‘ ،’علم کلام کی نئی تعبیر‘ اور ’جدید تہذیب ‘کی روشنی میں اسلامی افکار وتصورات پر نظر ثانی‘ وغیرہ وغیرہ کے ناموں سے اپنے تصورات کو ایک تحریک بنانے کی کوشش کی ؛مگر اُن کو اِس میں کامیابی نہیں ہوئی۔“

            کوشش کرنے والوں کے تذکرہ کے ضمن میں مقالہ نگار مرحوم نے سر سید،علامہ شبلی نعمانی،مولوی چراغ علی،جسٹس سید امیر علی( نیچری،رافضی)،مفتی محمد عبدہ،سید رشید رضا،ڈاکٹر سر محمد اقبال(۱۸۷۷تا۱۹۳۸ء)،علامہ سید سلیمان ندوی(۱۸۸۴-۱۹۵۳ء )،وزیر تعلیم ہندجناب ابوالکلام آزاد اورعلامہ مودودی (۱۹۰۳تا۱۹۷۹ء )کے نام ذکر کیے ہیں۔جس تناظر میں فکر اسلامی کی تشکیلِ جدیدکا تعارف کرایا جا رہا ہے اور مضمون نگارموصوف نے جس طور پر اِن حضرات کے نام شمار کرائے ہیں،اُس میں اگرچہ علامہ سید سلیمان ندوی  کے نام کے ساتھ اِنصاف نہیں ہوا،اُن کے فکری ادوار کے بعض مراحل اعتزال زدہ ضرور ہیں اور علامہ شبلی کی مدافعت میں بھی اُن کے قلم سے بار بار نا صواب خیالات کا اِظہار ہوتارہا ہے (جس کا اِظہارراقم کی بعض تحریروں میں کیا جا چکا ہے)اور اِسی تناسب سے متعدد مسائل کے حوالہ سے علم کلام کے اصولوں میں خلط،عقل کے صحیح اصول اور اہلِ حق متکلمین کے درست موقف سے تجاوز بھی رہا ؛لیکن بعد کے ادوار کو بھی نظر میں رکھیے،توحاشاو کلا اہلِ زیغ کی درجہ بندی میں علامہ سید سلیمان ندوی  نہیں آتے۔اِسی طرح مولانا عبدالباری ندوی(۱۸۸۸تا۱۹۷۶ء )کانام بھی شامل کرنا غلط ہے۔ جہاں تک مولانا رحمة الله کیرانوی(۱۸۱۸-۱۹۹۱ء )کی بات ہے،تواُن کا ردِّ نصاریٰ پر جوکچھ کام ہے وہ صحیح اصولوں پر مبنی ہے، اُن کا نام ”تشکیل جدید “ملبسین میں شامل کرناصریح نا انصافی اور خطائے عظیم ہے۔ مولانا رحمة الله کیرانوی اورمولانا عبدالباری ندویکانام اہلِ حق کے نمائندہ متکلمین اور مدافعِ اسلام کی حیثیت سے لینا چا ہیے، نہ کہ مجوزہ ”تشکیلِ جدید“کے سعی کرنے والوں میں،جن کے پیشِ نظر اہلِ حق کے صحیح اصولوں سے انحراف ہو یا اِلتباس کو فروغ دینا ہو۔

 د-اہلِ حق اصولِ صحیحہ کے حاملین کو پس انداز کرنا:

            افسوس کہ ایک مضمون نگار موصوف ہی نہیں؛بل کہ دیگر مفکرین بھی کم و بیش اِسی طرح لکھتے رہے ہیں،یعنی خلط سے کام لیتے رہے ہیں۔اور ایک صحیح تذکرہ اپنی صحیح حیثیت میں کرنا اپنے حق میں ممنوع قرار دیتے رہے ہیں۔میری مراد ” علم کلام جدید “کے مدونِ اول الامام مولانا محمد قاسم نانوتوی(۱۸۳۳تا۱۸۸۰ء) اور درست عقلی کلامی اصولوں کے مکتشف ِاعظم حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی(۱۸۶۳تا۱۹۴۳ء )سے ہے۔کیوں؟اس لیے کہ انہوں نے جدید افکار و مسائل کے شریعت کے ساتھ مزاحمت کے موقع پریہ اصول پیشِ نظر رکھا ہے کہ” جہاں مسئلہٴ عقلیہ قطعی ہووہاں عقائد کی عدمِ مخالفت ثابت کردی اور جہاں قطعی نہ ہو وہاں اُن (معترضین)سے برہان کا مطالبہ کیا اور جہاں نصِ قطعی غیر محتمل التاویل کے خلاف ہو ،اُس کے بطلان کا دعویٰ کرکے دلیل سے اِبطال کردیا۔ علم کلام خواہ قدیم ہو یا جدید،اصول ہر جگہ یہی ہے۔اِن حضرات کا نام نہ لینے کی وجہ یہی ہے کہ صحیح اصولوں سے سروکارنہیں اور جب کبھی یہ نام لیے جائیں گے ، یا تو محض رسماً یامحض علمی کام کی حیثیت سے۔

            یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ مغربی” تصور علم کے مطابق علم اِرتقائی ہوتا ہے،یعنی علم کوئی مستقل بالذات سچائی نہیں؛بل کہ حالات اور زمانوں کے بدلنے کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔“”حق ایک سے زائد بھی ممکن ہو سکتے ہیں۔“”علم کے اِرتقائی ہونے کی وجہ سے بالآخرمنطقی نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی بھی قدر حقیقی نہیں رہی؛بلکہ ہر قدر اور خیراضافی ہے جو وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے؛چناں چہ اِس کے ساتھ ہی پسِ جدیدیت کی تحریک پیدا ہوئی، جس نے حق کے وجود کا ہی انکار کر دیا،کیوں کہ حق کی تلاش نا ممکن ہے۔اُن کے نزدیک جب حق کا اِدراک ناممکن ہے تو کوشش کیوں کی جائے؟…اِرتقائی تصورِعلم کی وجہ سے بد کردار(بد عقیدہ )عالم کا جواز پیدا ہوا ،یعنی ایسے عالم بھی قابلِ قدر قرار پائے ،جن کا طُرہّٴ امتیاز فقط اُن کا علم تھا،چاہے اُن کا کردار جس نوعیت کا ہی ہو۔کیوں کہ اقدار تو سب کی سب برابر درجے کی ہیں،اصل چیز فقط علمی کار گزاری ہے۔اِسی وجہ سے کانٹ اور آئنسٹائن کی ذاتی زندگی انتہائی نجس اور غلیظ ہونے کے باوجوداِن کا نام مغربی فکر و فلسفہ میں نہایت احترام سے لیا جاتا ہے۔ “(۱)

ہ- حق اور باطل میں فرق ملحوظ نہ رکھنے والوں کی مدح سرائی:

             اصل بات وہی ہے جس کا تذکرہ بار بار کیا جا چکا کہ اِس قسم کے تجزیوں میں جو کچھ کمی یا خوبی ظاہر کی جاتی ہے،وہ عصریات سے موافقت اورصحیح اصولوں میں اِلتباس پیدا کرنے کے لیے کی جا تی ہے۔چناں چہ اِسی مقالہ میں اِلتباسات کی مثالیں بھری پڑی ہیں،مثلاً کہا گیا ہے کہ :سر سید اورمولوی چراغ علی ” کی کوششیں ا پنی داخلی کمزوریوں کی وجہ سے زیادہ کامیاب نہ ہو سکیں“،” جسٹس امیر علی(۲) نے یورپ میں بیٹھ کر اسلام کی اِس حیثیت سے بڑی بیش بہا

(۱)سفر الحوالی -محمد زکریا رفیق:”سیکولرزم“ص۳۷۲۔

(۲)یہ بزرگ علامہ شبلی کے معاصر،ذرا متقدم ہیں اور اِ ن کا کام بھی شبلی سے پہلے کا ہے،رافضی اور جدید معتزلی ہیں۔

خدمت انجام دیں“، ”علامہ شبلی نعمانی نے ایک نئے علم کلام کی ضرورت کو سب سے پہلے محسوس کیا اور خود اِس موضوع پر دو کتابیں لکھیں اور ندوہ کے مقاصد میں اِسے داخل کرایا۔“(۱)

            یہ سب لکھا اور علامہ شبلی کی کتابوں میں پائے جانے والے فاسد و باطل اصولوں کا اور تلبیسی روش کاذکر نہیں کیا۔علامہ نے نئے جس علم ِکلام کی ضرورت کا احساس کیا اور اُسے مدون بھی کیا،وہ اعتزالی علم کلام تھا۔مضمون نگار نے اِس تذکرہ کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔

 و-”تشکیلِ جدید“میں رُکاوٹوں کے ازالہ کی فکر اور اِلتباسات کا فروغ:

            ”تشکیل جدید“ کی نا کامی کے اسباب کی نشاندہی کرتے ہوئے مضمون نگارموصوف مرحوم نے یہ چار محرکات لکھے ہیں:۱-مرعوبیت۔۲-ترقی پسندی۔۳-برسرِ عام طبقے کا دباوٴ۴-اِباحیت پسندی۔(۲)۔اور لکھا ہے کہ : تدوینِ علم کلام کے وقت اِن چار محرکات” کا دباوٴ ہمارے ذہن پر نہ ہو۔“(۳)

            بات یہ ہے کہ اگر اِن باتوں کا نفسیاتی تجزیہ کیجیے،تو معلوم ہو کہ یہ چاروں باتیں وہ ہیں جو در حقیقت ”تشکیلِ جدید“ کے لیے لازم ہیں۔تاریخ میں اب تک جب بھی اعتزال یا ”تشکیل جدید “کی کاوش ہوئی ہے، اِن چار باتوں کے زیرِ اثر ہوئی ہے اور مصنف علامہ شبلی نے ”الکلام “اور ”علم الکلام“وغیرہ اپنی تصانیف اِن چار محرکات کے دباوٴ میں ہی منصہٴ شہود پر لائے ہیں،نیز مقالہ نگار خود بھی ”تشکیل جدید“ کی جو کچھ سفارش کررہے ہیں ،اُسی دباوٴ کے تحت کر رہے ہیں،چناں چہ اُنہوں نے علم کلام کے دائرہٴ کارپر گفتگو کرتے ہوئے علامہ شبلی کے اعتزال زدہ اور نیچریت زدہ افکارو طریقہٴ کار سے استفادہ کیا ہے اور ”تشکیل جدید“کے لیے وہی حدود و قیود ذکر کیے ہیں،جنہیں مصنفِ ”الکلام “نے معیار بنایا ہے ۔ اصل یہ ہے کہ خود ”تشکیل جدید“ اپنی حقیقت کے لحاظ سے فاسد طریقہٴ کار پر مبنی ایک باطل تصور ہے۔

            اِس طرح مقالہ نگار کا ”تشکیل جدید “کی سفارش کرنا اور امورِ اربعہ کے دباوٴ سے بچنے کی بھی سفارش کرنا دونوں باتیں ایک دوسرے کی متعارض ہیں۔

(۱)مولانامجیب ا لله ندوی ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید-محرکات اور ضرورت “،ضیاء الحسن فاروقی،مشیر الحق:”فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید “ص۸۱-۸۴۔

(۲)حوالہ مذکورص۸۳تا۹۰۔(۳)ص۹۵۔

ز-تشکیل جدیدمیں عقل کے صحیح اصولوں کا اِنہدام:

            علم کلام میں ”تشکیل جدید“کی سعی سے یہ عوارض پیش آنے ضروری ہیں:

  •             وجوداصلی ،موجوداصلی،وجود عارضی،موجود عارضی کے اصلی اور عارضی استدلال کے بجائے علمیات کو فروغ دینا یعنی مابعد الطبیعیاتی حقیقت تک رسائی کے اصول کو چھوڑ کر مظاہرکے استدلالی رجحان سے تمسک حاصل کرنا۔

  • موجودِ عارضی اور موجودِ اصلی کے قطعی اِستدلال کو خیر باد کہنا۔ خدا تعالی کا وجود اور اُس کی توحید کو شعور ِانسانی سے وابستہ کرنا۔

  •             قوانینِ فطرت سے لَو لگاتے ہوئے شعور کی بے داری کو اُن کا اسیر بنا دینا۔(۱)

  •              ممکنات واضافیات کے موضوعات سے پہلو بچا کر نہ معلوم کتنے احکام و عقائد کو دب کر قبول کرنا اور غیروں کے لیے اعتراضات کے بے شمار مواقع پیدا کر دینا۔

  •             اِس سے فساد یہ پیدا ہوا کہ نہ معلوم کتنے ہی احکام و عقائد کویا تو جدید علوم کے معتقد جدیدیوں کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا کہ وہ اُنہیں جو رُخ چاہیں دیں ، جن چیزوں کو چاہیں،اہلِ اسلام سے اِضطراراً منوا لیں یا اُن پر تھوپ دیں۔

  •             اِس فاسد رجحان کا نتیجہ یہ ہوا کہ قوانینِ فطرت یعنی لا آف نیچر کی تا بعیت ایسی گلے پڑی کہ خدا تعالی کی ایک اہم صفت عموم قدرت کی نفی تک لے گئی۔

  •            اِس کے اثرات یہ ظاہر ہوئے کہ نئی مغربی خدا پرستی ”ڈی اِزم “کے تصورکو اسلامی عقائد و احکام میں داخلہ کی راہ مل گئی۔

  •             مسئلہ قدر کی ماہیت بدل گئی ،خدا کے خالقِ خیر کے ساتھ خالقِ شر ہونے کے عقیدے سے گریز کی راہیں نکال لی گئیں۔

  •             خدا کی مشیت اور رضا کے فرق کو مٹا کراُس پر’ وحی مفطور‘کا تسلط تھوپا گیا ۔

(۱)ضیاء الحسن فاروقی،مشیر الحق:”فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید “مضمون محمد عبد الحق الانصای: ”علم کلام کا ایک تنقیدی جائزہ “ص۱۷۷،۱۷۸ ۔

۳-”’تشکیلِ جدید“ اور فلسفہٴ مغرب:

            ایک مضمون نگارجناب سیدوحید الدین لکھتے ہیں”جن مفکرین نے وقت کی نزاکت کو محسوس کیا اور اسلامی فکر کی تشکیلِ جدیدکے مسئلے کو عصری فلسفہ اور جدید سائنس کے رجحانات کی روشنی میں سوچا اور متعلقہ مسائل کا نئے سرے سے تعین کیا“ایسے لوگوں نے اپنا طریقہٴ کار الگ الگ نہج پر وضع کیا۔بعض نے فلسفہٴ مغرب کا غائر مطالعہ کیا تھا اور اُن کو اِس کااچھی طرح احساس تھا کہ کانٹ(۱۷۲۴تا۱۸۰۴ء)کے رائج کردہ اصول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔”کانٹ کی تنقیدِ عملِ خالص نے فہمِ انسانی کے حدود اور اُس کے ساتھ خالص عقلی بنیادوں پرما بعدالطبعیات کی تشکیل کو خارج از اِمکان قرار دیا تھا۔اور ما ورا کی طرف اپنا راستہ شعورِاخلاقی کے توسط سے حاصل کر نے کی کوشش کی تھی ۔ “

            اِس وضاحت کے ساتھ وہ نتیجہ پیش کرتے ہیں کہ اِس لیے مغربی فکر کا غائر مطا لعہ کرنے والوں نے یہ محسوس کر لیا کہ عصری تحقیقات سے مطابقت کے بغیر اسلامی فکرکی تشکیل بھی ممکن نہیں۔(۱)اور اِسی بناپر، کلامی گفتگو میں مسلمان مفکروں کی جانب سے دو پہلواختیار کیے گئے :

            ۱-فکری اِقدام۔۲-الٰہیات کی تشکیل۔

            فکری اقدام پر مبنی طریقہٴ کار میں بحث کی گئی ہے کہ ۱-:”مذہب کیا ہے؟۲-عقل و وجدان کیا ایک دوسرے سے مغائر ہیں؟یا ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں؟۳-کیا مذہبی تاثر(Feeling)صرف شخصی و اِضافی اہمیت رکھتا ہے؟یا اُس کی معروضی و قومی(Cognitive)وعلمی اہمیت کا بھی حامل ہے؟“

            اِن سوالات کی توجیہات میں زیادہ تر مغربی مفکرین کے خیالات کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔اور اِسی اعتبار سے اِن مفکروں کا خیال ہے کہ:

            ” دورِ حاضر میں- جہاں فکر جدید کے مقاصد و عوامل سے اسلامی فکر کا راستہ ہموار نہیں ہو سکا- ا ِس بات کی شدید ضرورت ہے کہ موجودہ زمانے کے طرزِ فکر سے آ گاہی پیدا کی جائے۔اور جن نتائج تک موجودہ علم نے رسائی حاصل کی ہے اُن سے پورا استفادہ کرتے ہوئے اور ساتھ ہی اسلامی فکر کی روایات کا(بہ زعم خود) پوری طرح لحاظ رکھتے ہوئے مذہبی فلسفے کی تشکیل کے لیے راہ ہموار کی جائے۔“

(۱)سیدوحید الدین:”اسلامی فکر کی تشکیلِ نو اِقبال کی نظر میں“ ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جد ید “ ،ص۳۵۸۔

            اِس وجہ سے یہ مفکرین ”اِس بات کے طالب ہیں کہ اسلامی فکر کا از سرِ نو جائزہ لیا جا ئے۔“ (۱)

            یعنی وہی کام کیا جائے جس کی داغ بیل سر سید احمد خاں نے ڈالی تھی۔(۲)

            اِس سلسلے میں” اسلامی فکر کی تشکیلِ نو اِقبال کی نظر میں“کے نام سے لکھے گئے اپنے مقالہ میں سیدوحید الدین ایک اصو ل موضوعہ یہ درج فرماتے ہیں کہ:”اسلامی فکر کو چا ہیے کہ …یہ بات کبھی نہ بھولے کہ فلسفیانہ فکر میں کوئی قطعیت نہیں ہو تی اور علم کی ترقی کے ساتھ فکر کے نئے راستے کھلتے ہیں۔“(۳)

             اِن وجوہ سے جدید مفکروں نے عصریات کی موافقت ضروری سمجھی اور علم کی ترقی کے ساتھ فکر کی بھی ترقی ہوتی ہے،اِس مفروضے کا سہارا لیا اور نئے علم کلام کے درست اصولوں کوپامال کیا۔اِس حوالے سے بعض اِقتباسات پیشِ خدمت ہیں۔ جنا ب وحید الدین احمد خاں(۱۹۲۵-۲۰۲۱ء ) ”علم کلام“کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:

             ”قرآن میں کہا گیا ہے کہ ا لله تدبیرِ امر کر رہا ہے اور تفصیلِ آیات بھی۔(۴)‘تدبیرِ امر سے مراد کائناتی اِنتظام ہے ،جس کے خارجی پہلوٴوں کے علم کا نام سائنس ہے۔تفصیلِ آیات سے مراد وحی ہے جس کا آخری اورمکمل متن قرآن کی صورت میں ہمارے پاس محفوظ ہے۔علم کلام اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے یہ ہے کہ اِلہامی علم اور کائناتی علم کی وحدت کو سمجھا جائے،نا معلوم کائنات کو معلوم کائنات کی مدد سے قابلِ فہم بنایا جائے۔ “

            آگے لکھتے ہیں: ”اِس حیثیت سے دیکھیے ،تواسلامی علم کلام کا کوئی قدیم و جدید نہیں۔یہ متکلمینِ اسلام کی ایک غلطی تھی جس نے علم کلام میں قدیم و جدید کی تقسیم پیدا کی۔“(۵)خیال رہے کہ مفکر جنا ب وحید الدین احمدخاں نے مذکورہ بالامغربی مفروضہ کی نگرانی میں جو تجزیہ پیش کیاہے،اُس میں سخت غلطی کھائی ہے؛خودبھی مغالطہ میں پڑے،دوسروں کو بھی مغالطہ دینے کی کوشش کی۔جس طریقہٴ کار کا نام اُنہوں نے ’علم کلام ‘رکھا ، وہ علم کلام نہیں،نہ قدیم، نہ جدید ۔البتہ اگر اِس کو علم کلام کا نام دینا ہی ہے،تو نیچری علم کلام کہیے،جس کا موضوع اور غرض دونوں فاسد اور بنیادیں بھی فاسد ۔اہلِ حق متکلمین کے عقلی اصول محکم ہیں،اُن کے علم اور عقل کے سامنے اِن کو ثبات نہیں۔

(۱)سیدوحید الدین:” اسلامی فکر کی تشکیلِ نو اِقبال کی نظر میں“ ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جد ید “ ص۳۵۹۔

(۲)دیکھیے:ڈاکٹر سید عابد حسین:علی گڑھ میگزین ۱۹۵۳-تا-۱۹۵۵ء”سید کا خواب اور اُس کی تعبیر“ص۶،۷۔

(۳)سیدوحید الدین:” اسلامی فکر کی تشکیلِ نو اِقبال کی نظر میں“ ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جد ید “ص۳۵۹،۳۶۰۔

(۴)رعد:۲۔(۵)وحید الدین خاں”فکر اسلامی کی تشکیلِ جد ید “ ص۲۲۲تا۲۲۵۔

 وہ نا معلوم کائنات کو معلوم کائنات کے استقرائی طریقہ کار میں محدود نہیں کرتے۔اُنہوں نے جس طرح قدیم اعتزالی علمِ کلام کی بنیادوں کو منہدم کیا ہے،اُسی طرح نیچریت زدہ” تشکیلِ جدید“کی بنیادوں کو بھی ڈھایاہے۔نا معلوم کائنات کو معلوم کائنات کی مدد سے قابلِ فہم بنانا،در اصل علم کلام کی خدمت نہیں، ”نیچریت “ کی بنا کو مضبوط کرناہے ۔

            آگے مقالہ نگار معتزلہ کی ”عقلیت “کو نیز رد کرتے ہوئے ،نیچریت کے ساتھ ظاہریت اختیار کر لیتے ہیں،کہتے ہیں:”علمِ کلام حقیقتاً قرآنی عقلیات کومرتب کرنے کا نام تھا؛مگرعباسی دور کے متکلمین نے اِس کو انسان کی وضع کردہ فلسفیانہ عقلیات پر ڈھالنے کے ہم معنی سمجھ لیا۔یہی وہ غلطی ہے جس نے علم کلام میں قدیم و جدید کے تصورات پیدا کیے ،کیوں کہ فلسفیانہ عقلیات قیاسی ہونے کی وجہ سے تغیر پذیر تھیں،جب کہ قرآنی یا کائناتی عقلیات میں تغیر و تبدل کا کوئی سوال نہیں۔“

            یہ وہی لا آف نیچر کا غلو آمیز اتباع و اعتقاد ہے،جس کے فریب کا پردہ”الانتباہات “کے انتباہ ِدوم میں چاک کر دیا گیا ہے۔

             یہاں قابلِ توجہ ایک اور امر ہے ،وہ یہ کہ مقالہ نگار نے معتزلہ کی خطا کے اِظہار کی آڑ میں مطلق لفظ ”متکلمین “ استعمال کر کے مغالطہ دیا ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ فلسفیانہ عقلیات کی قیاسی بنیادوں پر ڈھالنے کی روش معتزلہ نے اختیار کی تھی،لہذا’ معتزلہ‘نام کی صراحت ہونی چاہیے تھی اور بتانا چا ہیے تھا کہ اہلِ حق متکلمین کا طرز اِس سے الگ ہے۔

            اِس کے علاوہ قابلِ توجہ یہ فقرہ بھی ہے:”قرآنی یا کائناتی عقلیات میں تغیر وتبدل کا کوئی سوال نہیں۔“نیزموصوف پہلے یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ:”نا معلوم کائنات کو معلوم کائنات کی مدد سے قابلِ فہم بنایا جائے۔ “

             اِن دونوں فقروں سے جو نتیجہ نکلتاہے، ”تشکیلِ جدید“اور جدید نیچریت اِسی کا نام ہے۔ بہر حال،یہ مغالطہ دہی موصوف خاں صاحب کے ہاں کثرت سے ہے،جس کے نمونے چند دفعات میں پیش کی گئی تجاویزمیں ملاحظہ فرمائیے۔

 ۴-حق کے وجود ہی کاانکار اور سائنس اسلام کی تھیالوجی:

            دفعہ نمبر ۱،کے تحت وحید الدین احمدخاں کہتے ہیں :

            ۱-”تحقیق و تجربے کے جدید طریقوں کے ظہور میں آنے کے ابتدائی زمانے میں مشاہداتی استدلال پر زور دیا گیا؛مگرآئنسٹائن کے بعد علم انسانی کا جو دور شروع ہوا ہے،اُس میں زیادہ سے زیادہ یہ بات واضح ہوتی چلی جا رہی ہے کہ” حقیقت اپنی آخری صورت میں انسان کے لیے نا قابلِ مشاہدہ ہے۔اب یہ بات تقریباً مان لی گئی ہے کہ انسان کی محدود صلاحیتوں کی وجہ سے مشاہداتی اِستدلال اُس کے لیے ممکن نہیں۔“

            یہ وہی رجحان ہے جسے راقم چند صفحات قبل ذکر کر چکا ہے کہ جدیدیت کا مرحلہ عبور کر کے پس جدیدت کی طرف چھلانگ لگانے کے وقت مغرب نے حق کی تلاش نا ممکن کہہ کرحق کے وجود کا ہی انکار کر دیاہے۔

            ایک طرف تو یہ ہے،دوسری طرف جناب مفکر وحید الدین احمد خاں نمبر ۳ کے تحت قرآن کی سائنسی تطبیق کی سفارش کرتے ہوئے سائنس کوموجودہ زمانے میں اسلام کی تھیالوجی بتاتے ہیں اور ساڑھے تین سو سال پہلے کی گلیلیو کا خیالِ باطل اسلام پر تھوپنے کی فکربھی کرتے ہیں،وہ کہتے ہیں:

            ”تیسرا کام آیات آفاق(حٰم سجدہ ۵۳ )کو جدید دریافتوں کی مدد سے ترتیب دینا ہے۔…“وہ کہتے ہیں:قرآن نے کائنات کی بے شمار نشانیوں کے حوالے دیے ہیں،یہ حوالے اِشاراتی زبان میں ہیں،قدیم زمانے میں ایسی معلومات حاصل نہ تھیں، جن سے اِن اِشارات کو تفصیلی انداز میں سمجھا جا سکے۔اب سائنس کے اِرتقا نے یہ مواد بڑی حد تک جمع کر دیا ہے۔شاید یہ کہنا مبالغہ نہ ہو کہ سائنس موجودہ زمانے میں اسلام کی تھیالوجی بن چکی ہے، تاہم اِس کو مدون کرنے کا کام ابھی باقی ہے۔ضرورت ہے کہ خدا کی یہ نشانیاں جو طبیعی دنیا میں چھپی ہوئی ہیں،جدید دریافتوں کی مدد سے اِن کو مفصل شکل میں مرتب کیا جا ئے۔“ 

            یہ عین اُس تجویزکی کاپی پیسٹ ہے جو گلیلیو(۱۵۶۴-۱۶۴۲)نے پیش کی تھی ۔(۱)

            یہی نہیں؛بلکہ جدیدنفسیات -جس میں انسانی برتاوٴ (Behaviour)کے ترغیبی وصف ” اِنفرادیت“ (Individualism)اور مادی لذات کا تحفظ پیشِ نظر رکھا گیا ہے،مقالہ نگار اِس جدیدنفسیات ”کی روشنی میں قرآن کے اِشارات کواگر پوری طرح نہیں تو بڑی حد تک مفصل “کرنے کے بھی درپے ہیں۔اِس کاوش سے کیا ہوگا !یہی کہ اِڈ،اِیگو،سُپر اِیگو کی نفسیات کوشہوات و لذات، فسق و فجور پر آمادہ کیا جا ئے، ہر قسم کی خواہشات کی تکمیل کے لیے بے روک ٹوک کھلی چھوٹ دی جائے ،کیوں کہ اُس کی نفسیات کا اِقتضا یہی آزادی ہے،اِسی آزادی کے لیے نفس امارہ ،لوامہ اور مطمئنہ کے قرآنی اِشارات کے ساتھ تطبیق اسلام کی تھیالوجی کا درجہ اِختیار کرے ۔

(۱)دیکھیے راقم کی کتاب”منہاجِ علم و فکر :فکر نانوتوی اور جدید چیلنجز“ص۲۴۸،۲۴۹،حجة الاسلام اکیڈمی دارالعلوم وقف دیوبند،سن اِشاعت ۲۰۱۸ء ۔

 یہ سگمنڈ فرائڈ (۱۸۵۶-۱۹۲۹) کا نظریہ جنس پرستی ہے۔اِسی نظریہ سے ۱۹۳۰ء میں فرانس میں جدید آرٹ کا رُجحان پیدا ہواجس میں لا شعوری جنسی تقاضوں کے اِظہار کی فنی کوشش ورائی ادب(Surrealism) کے نام سے ظہور میں آئی۔

             نمبر ۵-کے تحت موصوف لکھتے ہیں:”اصولاً میں اِس کے حق میں نہیں ہوں کہ سماجی موضوعات کو علم کلام میں داخل کیا جا ئے،اِس کی وجہ سماجی علوم کی نوعیت ہے۔سماجی علوم تمام کے تمام قیاسی علوم ہیں اور اغلباً وہ ہمیشہ قیاسی رہیں گے۔اگر ہم علم کلام میں اُن کو استعمال کریں،تو دوبارہ نئی شکل میں ہم وہی غلطی کریں گے، جو عباسی دور کے متکلمین(یعنی معتزلہ)نے کی تھی۔“ (۱)

            یہاں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر ”سماجی علوم تمام کے تمام قیاسی علوم ہیں“،تو سائنسی علوم کو قیاسی کہنے میں کیا رکاوٹ ہے،وہ کس دلیل سے قطعی ہو گئے۔غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جس سائنس کے ساتھ اِنطباق کی سفارش ہے ،اُس کا اصل مداریقیناً ”یکسانیتِ فطرت“پرہے جو ایک اِستقرائی ظنی قاعدہ ہے۔ اِس حوالے سے ’کچھ‘سے ’کل‘کی طرف جست (زقند -Leap)-جو سائنسی قوانین کی اصل ہے-قیاس ہی تو ہے۔موصوف کی دفعہ نمبر ۱ کودوبارہ پڑھیے،اُس کے بعد اُن کی یہ سفارش ملاحظہ فرمائیے کہ:”…مقاصد کے اعتبار سے اِس کو علم کلام کا سب سے بڑا جزو ہو نا چا ہیے۔“ گویا” سائنٹیفک انداز میں اسلام کا تعارفی لٹریچر تیار کرنا۔“علم کلام کا سب سے بڑی خدمت ہے۔

            در حقیقت مقالہ نگارکی تحریروں میں یہ اِلتباسات اِس لیے ہیں کہ انسان کے دنیوی فوائد اُن کے پیشِ نظر ہیں۔اُن کا عقیدہ ”انسان پرستی“ ہے،اگر انسان کسی بات کو صحیح عقیدے کی تبدیلی کے ساتھ باطل طریقے سے بھی سمجھے ،توبھی رعایت کی جانی چا ہیے،کیوں کہ :

            ”آج کا انسان اسلام کو سمجھنا چا ہتا ہے؛مگر ایسی کتا بوں کے ذریعے جن میں اسلام کو اِس اُسلوب میں پیش کیا گیا ہوجس کو موجودہ زمانے میں سائنٹیفک اُسلوب کہا جا تا ہے۔آج کا انسان عقلیاتی اُسلوب سے زیادہ سائنٹیفک اُسلوب کا دلدادہ ہے۔…سائنٹیفک اُسلوب سے مراد…ایسا سادہ اور ”مثبت “اُسلوب ہے(جس میں عقل کے صحیح اصولوں اور اہلِ حق کے اصولوں کو ترک کرنا گواراکیا گیا ہو، Positivismکے مغربی منہج کو برتا گیا ہو، یعنی خالص حق کے اِظہار اور مذہبی تصلب سے گریز کیا گیا ہو،سادہ اور ”مثبت “سے یہی مراد ہے)

(۱)وحید الدین خاں”فکر اسلامی کی تشکیلِ جد ید “ ۱۹۷۷ص۲۲۲تا۲۲۵۔

            جس میں زبان و بیان دونوں اعتبار سے ”حقیقت نگاری “(یعنی Romanticism کے رد عمل میں ظاہر ہونے والی Realism کو برتا گیا ہو اورما بعدلطبیعاتی عقلی و برہانی حقائق ودلائل سے اِجتناب)کو ملحوظ رکھا گیا ہو۔“(۱)

۵- مسلمانوں کے علم کلام کا قیاس عیسائی علم کلام پر:

            ”تشکیلِ جدید “کی سفاش کرنے والے ایک مضمون نگار لکھتے ہیں:

            ”موجودہ زمانے میں جب سے یورپ میں مذہبی اور معاشی اصلاحوں کا دور دورہ

شروع ہوااور علوم و فلسفہ عیسائیت پر حاوی ہوئے،تو یوروپین قوموں کے مسائلِ زندگی اور اُن کی نئی قدریں مذہب کی رہنمائی میں نہیں؛بل کہ معاشرتی اور سیاسی مسائل کی حیثیت سے پیش کی جانے لگیں۔ “(۲)

            یہیں سے مسلمانوں کے دو طبقے ظہور میں آئے:

            ۱-ایک وہ جس نے یہ چا ہا کہ علمائے اسلام بھی پادریوں کا وہی طریقہ اختیار کر لیں، جو اُنہوں نے سائنس اور علومِ جدیدہ سے وابستہ ہونے کے باب میں اختیار کیا؛چناں چہ اِس طبقے کو قدیم معتزلہ کا اعتزال اور جدید دور کی نیچریت راس آئی۔ سر سید ، شبلی،مفتی محمد عبدہ وغیرہ کے متبعین کے توسط سے اِس وقت یہی علم کلام عصری اداروں میں رائج ہے اور علوم جدیدہ کے اثرات قبول کرنے والے اہلِ علم میں روزافزوں ہے۔

            ۲-دوسرا وہ طبقہ جس نے پادریوں کی اِس روش سے نہ صرف یہ کہ بے زاری کا اِظہار کیا؛بلکہ خود علم کلام سے بھی متنفر ہو گیا۔اِس طبقے پر برٹرنڈ رسل کی ”فلسفہ مغرب کی تاریخ “اور “ لنگوسٹک فلسفہ“کا بہت زیادہ اثر ہے۔ اِس نے سائنس اور علوم جدیدہ کے سامنے پادریوں کے سرنگوں ہو جا نے کا سبب یونانی عقلیات کو قرار دیا ۔

            اِسی اثنا میں ایک روش اور ظہور پذیر ہوئی جس کے تحت ایک طبقے نے اسلامی متکلمین کوہدف ِملامت بناتے ہوئے عقلی علوم سے یہ کہہ کر سخت تنفر کا اِظہار کیا کہ قدیم عقلی اصول عصری تحدیات سے دفاع میں عاجز ہیں،اِن کی طرف توجہ کرنے سے سوائے جمود ،تقلید،بے دلیل تعصب ،کچھ ہاتھ نہیں آتا۔اِس طبقے نے مقابلتاًسائنس کی عظمت کو سراہا۔پھر اِس میں دو طبقے ہوئے۔

(۱)وحید الدین خاں”فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید “ ص۲۲۶

(۱)سید مقبول احمد:”روایت اور تجدد“ ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید “ ص۲۳۱۔

            ۱-ایک نے سائنس کوعقلی و کلامی نقطہٴ نظر سے جانچنے کی زحمت تو اُٹھائی نہیں؛بل کہ اُس کے غلبے اور اثر سے ایسا متاثر ہو ا اُس طرف سے آئی ہو ئی چیز کوجو بہ ظنِ غالب اسلام سے مماثل ہو سکے،مماثل و مطابق بنا بناکر پیش کرنے اورقبول کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔

            ۲-دوسرا طبقہ سائنسی نظریات اور علوم ِجدیدہ کے مسائل کا وسیع مطالعہ کرنے کے لیے ان میں گھُسا اور کد و کاوش کی؛پھر اِس میں دو طبقے ہوئے ۔

            #ایک نے سائنسی نظریات اور علوم جدیدہ کے مسائل میں گھسنے کے بعدتجدد پسندی اختیار کر لینے میں اور”تشکیل جدید“کے پیغام کے نشر میں اپنی عافیت سمجھی۔اِس وقت اِس طبقے کے افراد کی بھر مار ہے اور یہ کام ،وہ بڑے پیمانے پر کر رہا ہے۔

            #دوسرے نے امراض کو پہچانا اور بیان کیا۔اگر یہ طبقہ اِسی پر قناعت کرتا،یا صحیح علاج پیش کرتا،تو یہ ایک بہترین بات ہوتی؛لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ا،س طبقے نے علاج بھی تجویز کرنا شروع کر دیا ۔اور وہی پیچیدگی سامنے آئی جو اِس صورتِ حال کا منطقی اثر تھا،کہ چوں کہ علاج کے لیے علاج کے اصولوں پر دسترس ضروری ہوتی ہے،اِس پہلو کو لے کر یعنی صحیح اصولوں پر مبنی علاج کے نقطہٴ نظر سے دو طبقے ظہور پذیر ہوئے :

            الف-ایک وہ جو امراض کے معالجہ کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا،اس لیے کہ علاج کے لیے جو سب سے ضروری چیز تھی،یعنی عقل کے صحیح اصولوں سے واقفیت ۔ اِس طبقے نے نہ تو:۱-اُن اصولوں کے تفصیلی علم حاصل کرنے اور برتنے کا سلیقہ سیکھا،۲-نہ اُس مواد (مثلاً الامام محمد قاسم نانوتوی  و حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی تصنیفات)کی طرف رجوع کیا اور نہ ہی اُن اصولوں سے مناسبت پیدا کی۔

            ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں عصری عقلی و کلامی اِلتباسات سے وابستہ تھیں اور اِنہی سے اِسے بُعد و بے اِلتفاتی تھی؛چناں چہ اِس طبقہ نے قرآن و حدیث ،روایت اور نقل کا نام لے کر اپنی ذہانت سے جواب دینے کا راستہ اِختیار کیا ؛لیکن اِس راہ میں بار بار ڈگمگایا، لڑکھڑایا گرا،لیکن صحیح نتیجہ پیش کر پانے سے قاصر رہا، اوراِلتباسات پیدا کرنے کا سبب بنا،کچھ مفید چیزوں کی نفی کی ،کچھ مقصود و محمود چیزوں کو رد کیا اور ستم یہ کہ اصطلاحات ،مقدمات مغرب ہی سے مستعار لے کر جواب دینے کی فکر میں لگا رہا ۔ما بعدالطبیعات کا زور شور سے مغرب کو منکر بتایا ؛لیکن ما بعدالطبیعاتی حقائق کی عقلی دلیل پیش نہیں کر سکا۔

            ب-دوسرا طبقہ اِجمالی طور پرجانتا سب کچھ ہے؛لیکن اِن کے برتنے میں اصولوں کا پابند نہیں۔ نصوص سے بھی اور فنونِ عقلیہ میں بھی اپنی ذہانت سے استدلال کا عادی ہے۔جدید محاورے،جدید اصطلاحات،طرزِ استدلال، مسائل کے ساتھ اسلامیات کے دفاع و تطبیق میں بعض مرتبہ اصولوں کو جاری کیے بغیر خلط سے کام لیتا ہے۔

            یہ سب ،صحیح عقلی اصولوں سے بے اِلتفاتی یا کم اِلتفاتی کایا غیر سنجیدہ اِلتفات کا نتیجہ ہے،حالاں کہ بہ قول الامام محمد قاسم نانوتوی :”عقل اگر رہبر نہیں،تو بات کس کی مانی جائے۔“

             اوربہ قول حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی :اسلام کے اصول عقلی ہیں اور فروع کا خلاف عقل نہ ہونا ضروری ہے۔ ایسی صورت میں علم کلام کے عقلی اصولوں سے آزادی اختیار کرنا،جو نتائج پیدا کرتا ہے ،اُس کا تجزیہ کیا جا چکا۔ (۱)

             عقل کے حوالہ سے اِفراط و تفریط دونوں مہلک ہیں۔اِفراط کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک نے عقل کی اہمیت کو تسلیم کیا تو اعتزال ِجدید اور مغربی نیچریت پر مبنی علم ِکلام کی طرح ڈالی۔ تفریط کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے نے اعتزال و نیچریت سے اُکتا کرایک طرف ظاہریت اختیار کرلی،تو دوسری طرف نیچریت کو پورے طور پر چھوڑنے پر قادر بھی نہ ہوسکا؛بل کہ زبانی طور پر انکار کرتا رہا؛مگر پوشیدہ راہوں سے اُس کے آہستہ سرایت کرنے والے اور دائمی طور پر برقرار رہنے والے اثرات کو قبول بھی کرتا گیا۔یہاں تک کہ دلائل ،اصطلاحات اور لسانی ادب کے حوالے اُسی کے بعض مسائل و افکارکا مبلغ بن جانے سے بھی مجتنب نہ ہو سکا۔

            عقل کے حوالے سے بزعم خود ایک اثراجتہادی ظاہر ہوا ،وہ یہ کہ علم کلام کی اہمیت بھی محسوس کی گئی ،عقلی اصولوں کی اہمیت بھی محسوس کی گئی؛لیکن نئے دور کی نوخیز طبائع نے قرآن سے اصول خود ہی نکالنے کی فکر شروع کردی۔

            بہر بات عیسائیوں نے جوطرزاختیار کیا کہ” یوروپین قوموں کے مسائلِ زندگی اور اُن کی نئی قدریں مذہب کی رہنمائی میں نہیں؛بل کہ معاشرتی اور سیاسی مسائل کی حیثیت سے پیش کی جانے لگیں۔ “ مسلمان پورے طور پر اِس طرز کو کیوں نہیں اختیار کر لیتے، مضمون نگارسید مقبول احمد کویہ شکایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ:” ہم علوم و فنون کے میدان میں ابھی تک مذہب کی بندشوں سے آزاد نہیں اور ہمارا طرزِ فکراپنے عقائد یا معاشرتی اور اِقتصادی معاملات کے سلسلے میں قدامت پسندانہ اور دقیا نوسی ہے۔

(۱)الامام محمد قاسم نانوتوی:مذاہب کا تقابلی جائزہ ص۴۷ ۔مجمع الفکر القاسمی الدولی دیوبند۔سن اِشاعت ۲۰۲۲ء

جہاں تک اسلام اور مسلمانوں کا تعلق ہے،بہت کم ایسے مسائل ِزندگی ہیں جن پر ہم مذہب کے دائرے سے ہٹ کر آزادانہ رائے قائم کر سکتے ہیں۔ہم اپنے اکثر معاملات…آزاد خیالی کو مذہب کی روشنی میں دیکھنے کے عادی ہیں۔“(۱)

            یعنی یہ باتیں مقالہ نگار کی نظرمیں عیب ہیں اورتکلیف کا باعث ہیں۔یوروپ کی نشاة ِثانیہ جس کا اصلی مطلب ”وحی پر مبنی اور نقلی علوم کو بے اعتبار سمجھنا اور عقلیت اور انسان پرستی اختیار کرنا۔“جس کا لازمی نتیجہ تھا”جدید نظریات ورُجحانات کا فروغ اور مذہبی پابندیوں سے آزادی“کو آئیڈیل بنا کر وہی نشاة ثانیہ اسلام میں بھی چاہتے ہیں،چناں چہ لکھتے ہیں:

            ” اگر مسلمان…آزادیٴ خیال پر پہلے کی طرح قائم رہتے،تو یہ نا ممکن تھا کہ اُنہوں نے بارہویں صدی تک جو ترقی علوم و فنون میں حاصل کی تھی وہ اور اسلامی دنیا کی اِقتصادی ترقی اُنہیں نشاة ِثانیہ کی طرف نہ لے جاتی اور وہ نشاةِ ثانیہ جواُسی دور میں یورپ میں نمودار ہوا بہت ممکن تھا کہ اسلامی دنیا میں نشو و نما پاتا۔(۲)

۶-اسلام کے ساتھ سیکولر عقلیت کی طمع:

            ”دینی مدارس کا نصابِ تعلیم اور فکر اسلامی“کو موضوع بناکر ایک مفکر لکھتے ہیں: ”دسویں صدی عیسوی میں جب عملاً اجتہاد کا دروازہ بند ہو گیا،توعلم و فقہ دونوں پر جمود طاری ہو گیا،خاص طور پرعلومِ فکری کا نشاط ختم ہو گیا۔اور مسلم معاشرے کی فضا میں گُھٹن چھا گئی۔اِس کا اثر یہ ہوا کہ مذہبی فکر اور دینیاتی علم کا اثر بڑھتا رہا،صورتِ حال کم و بیش وہی ہو گئی جو عہدِ وسطی میں عیسائی دینیات کی یورپ میں تھی۔رومن کیتھولک کلیسا جان بوجھ کرعیسائی دینیات کو سیکولرعقلیت سے دور رکھتا تھا۔“(۳)گویا عیسائیوں نے جب بھی دینیات کو سیکولرعقلیت سے دور رکھا، غلط کیا۔

مذہبی فکر کا رشتہ سیکولر علوم سے :

             ” اسلام میں مذہبی فکر کی تشکیلِ نو “کے مضمون نگار ڈاکٹر عبدالرفیق سید مذہبی فکراور سیکولر عقلیت و سیکولر علوم کی باہمی نسبت کا تجزیہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں:”یہ بات اہم ہے کہ مذہبی فکر ،خواہ کسی مذہب و معاشرے سے اُس کا تعلق ہو،اُسی وقت تک نشیط اورتخلیقی رہتا ہے جب تک اُس کا رشتہ سیکولر علوم سے قائم رہتا ہے۔

(۱)سید مقبول احمد:”روایت اور تجدد“ ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جدکچھ ید “ ص۲۳۱۔

(۱)سید مقبول احمد:”روایت اور تجدد“ ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید “ ص۲۳۱۔

(۲)ڈاکٹر عبدالرفیق سید: ” اسلام میں مذہبی فکر کی تشکیلِ نو “ ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جد ید “ ص۲۳۱۔

…ہم مذہب کے سیکولر رول کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔…لیکن فکر و فلسفے کے نام پر نراج و انتشار کوبڑ ھاوا دینے والی طاقتوں اور رجحانوں نے ایسی صورتِ حال پیداکر دی تھی کی سیاسی اِستحکام اور معاشرتی اتحاد کوشدید خطرہ پیدا ہو گیا تھا ،اِسی لیے قرعہٴ فال اِس بات کے حق میں پڑا کہ مذہبی فکر کو سیکولر فکر و فلسفے سے الگ تھلگ رکھا جائے۔…نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے ایک بڑے حلقے میں جس کی اولین وفاداری مذہبی احکام و عقائد سے تھی سیکولر عقلیت کو مکروہ و ملعون تک قرار دے دیاگیا۔“(۱)

            اسلامی مزاج اور مسلمانوں کے اِجتماعی ضمیر کی دینی حمیت وتصلب کی وجہ سے دین میں سیکولر عقلیت کے اِستحکام کی سبیل نہ بن سکی اور وہ اسلامی فکر کی ”تشکیلِ جدید“ کے لیے مسلسل مزاحمت و رُکاوٹ پیدا کرتی رہی۔ مگر”گزشتہ چند دہوں میں اسلامی دنیاکی پوری سماجی اِقتصادی اورسیاسی صورتِ حال ڈرامائی انداز میں بالکل مختلف ہو گئی ہے۔“اِس بناپر اسلامی فکر کی ”تشکیل جدید“ کے علم برداروں کو یہ طمع ہو چلی ہے کہ ”گویا اب اصلاح کے لیے (یعنی دین کو سیکولر عقلیت کے مطابق بنانے کا)وقت سازگار ہے ،اگراِس وقت نہایت ہوشیاری سے ضروری اِصلاحات لائی جائیں ،تومسلم قوم خود بھی اسلامی فکر کی ”تشکیل جدید کے لیے تیار ہو جا ئے گی۔“(۲)

۷-”تشکیل ِجدید“ اتحاد بین المذاہب کاپیش خیمہ :

            بات کسی حد پر رہنے والی نہیں ،یعنی ”فکر اسلامی کی تشکیل ِجدید“کی کوئی حد بندی نہیں ہے۔بہ کثرت مفکرین ہیں جو ”اتحاد بین المذاہب“کو بھی ”فکر اسلامی کی تشکیل ِجدید“کا تقاضا قرار دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ:”مسیحیوں اور مسلمانوں کے تعلقات میں اِستواری پیدا کی جائے،کیوں کہ ”تشکیل ِجدید“کا وہ اہم پہلو جسے ”اتحاد بین المذاہب“کہا جا سکتا ہے،اِس وقت بہت ضروری ہے۔آج کے اِس اعلیٰ فنی دور میں- جب کہ حدود و فاصلے کوئی معنی نہیں رکھتے -اہلِ مذاہب میں تفریق کی بھلا کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔…ضرورت ہے(کہ)دنیا کے عظیم مذاہب اسلام و مسیحیت باہمی اِختلافات کو بھول کر لا دینی کے اثر کو ختم کرنے کے لیے باہم متحد ہو جائیں۔… “(۳)اب اسلامی یونیورسٹیوں میں اِس کے لیے شعبے کھولے جا رہے ہیں ،اِس کی حرص دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔

(۱)ڈاکٹر عبدالرفیق سید: ” اسلام میں مذہبی فکر کی تشکیلِ نو “”فکر اسلامی کی تشکیلِ جد ید “ ص۲۳۱۔

(۲)ضیاء الحسن فاروقی:”دینی مدارس کا نصابِ تعلیم اور فکر اسلامی“ ”فکر اسلامی کی تشکیلِ جد ید “ ص۴۳۵۔

(۳)غیاث الدین اڈلفی:”فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید اور اتحاد بین المذاہب“”فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید “ ص۴۳۸،۴۳۹۔

 ۸-”تشکیل ِجدید“ الحاد کاپیش خیمہ:

            یہ باتیں اِس غرض سے بیان کی گئی ہیں کہ یہ معلوم ہو سکے کہ” امتِ اسلامیہ مغرب اور اُس کے نظاموں سے کس خوف ناک حد تک متاثر ہو چکی ہے ۔“(۱)

             قابلِ غور یہ ہے کہ مسلمانوں کے اِنحراف کی ابتدا(اُن کے زعم کے مطابق)اسلامی فقہ کے جمود سے چھُٹکارا پا نے کے لیے تھی، جو جدید زندگی کے مسائل کو حل کرنے میں نا کا فی تھی۔مسلمانوں کو وہم تھا کہ اُن کی پس ماندگی کا سبب تنظیمی و اِدارتی سطح کی کمزوری ہے اور مغربی ضابطوں کی نقالی اِس پس ماندگی کو ختم کر دے گی۔اِس بنیاد پر اسلام کے دو بڑے بازوٴوں ”ترکی اور مصر “میں اصلاحی تحریک کے نام سے تحریک شروع ہوئی۔“(۲)شیخ محمد عبدہ سیکولر نہ تھے؛لیکن بلا شک و شبہہ ایک ایسا حلقہ بناتے تھے، جس کے ذریعہ یو رپی سیکولرزم اور عالم اسلام کا ملاپ ہوتا تھا،اِسی وجہ سے یہودی صلیبی منصوبہ بندی کر نے والوں نے اُن کے افکار کو بابرکت سمجھا اور اُن کو ایک پل بنا کر عالمِ اسلام میں تعلیم و تربیت کے سیکو لرزم تک پہنچا یا۔اُنہوں نے دین کو اِجتماعی زندگی سے الگ کر دیا،شریعت پر عمل کو باطل قرار دیا،جاہلی در آمد قوانین کو جاری کیا اور مغربی اِجتماعی نظریات کو عالم اسلام میں داخل کیا اور یہ سب کچھ اصلاح کے نام پر ہوا۔“(۳)

             ”جدید دور میں اِلحاد کا پھیلاوٴ یا کم از کم تشکیک او رلا ادریت مفکرین اور پڑھے لکھے لوگوں میں بالکل واضح ہے۔…“(۴)”اِس تحریک کو کھڑا کرنے والوں میں ایک اِسمٰعیل احمدادہم تھا۔وہ ترکی میں سیکولرزم کے اعلان کے بعد مصر آیا،اُس نے مصر والوں میں اِلحادی افکار کی نشر و اِشاعت شروع کر دی۔اُس نے ایک چھوٹا رسالہ لکھا جس کا عنوان تھا ،”میں ملحد کیوں ہوں؟“یہ اسکندریہ سے چھپا۔اُس رسالہ میں لکھا ہوا ہے:” ہم نے امریکہ کی جمعیتِ نشرِ اِلحاد میں شامل ہونے کا فیصل کیا۔اِس ساری جد و جہد کا نتیجہ مصر میں ”مجلة العصور “کی شکل میں ظاہر ہوا۔میرا دوست عظیم مقالہ نگار اسماعیل مظہر ۱۹۲۸ ء میں مصر سے ایک مجلہ نکالتا تھا ،جو اِلحادی دعوت اور فکر کی نشر میں ایک معتدل تحریک کا نمائندہ تھا۔ “(۵)

(۱)سفرالحوالی:”سیکولرزم“ ص۴۰۶۔(۲)سفرالحوالی:ایضاً ص۴۲۹۔

(۳)سفرالحوالی :ایضاًص۴۳۸۔(۴)سفرالحوالی :ایضاًص۴۵۹۔(۵)سفرالحوالی :ایضاًص۴۵۹۔