۱- بچے کی اصل تربیت وہ ہوتی ہے جو بچپن میں گھر میں کی جاتی ہے۔
اس لیے اسلام تربیت کے بارے میں کیا کہتا ہے ؟ اسے جانتے ہیں:
بچے مستقبل میں قوم کے معمار ہوتے ہیں؛ اگر اْنھیں صحیح تربیت دی جائے تو اس کا مطلب ہے ایک اچھے اور مضبوط معاشرے کے لیے ایک صحیح بنیاد ڈال دی گئی۔بچوں کی اچھی تربیت سے ایک مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے، اس لیے کہ ایک اچھا پودا ہی مستقبل میں تناور درخت بن سکتا ہے۔
بچپن میں ہی اسلامی تربیت ضروری ہے:
بچپن کی تربیت نقش علی الحجرکی طرح ہوتی ہے۔بچپن میں ہی اگر بچے کی صحیح دینی واخلاقی تربیت اور اصلاح کی جائے توبڑے ہونے کے بعد بھی وہ ان پر عمل پیرا رہے گا۔ اس کے برخلاف اگر درست طریقے سے ان کی تربیت نہ کی گئی تو بلوغت کے بعد ان سے بھلائی کی زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی، نیزبلوغت کے بعد وہ جن برے اخلاق واعمال کا مرتکب ہوگا، اس کے ذمے دار اور قصور وار والدین ہی ہوں گے، جنہوں نے ابتدا سے ہی ان کی صحیح رہنمائی نہیں کی۔
دینی تربیت ہی دنیا و آخرت میں نیک نامی کا باعث ہوگی:
نیز! اولاد کی اچھی اور دینی تربیت دنیا میں والدین کے لیے نیک نامی کا باعث اور آخرت میں کامیابی کا سبب ہے؛ جب کہ نافرمان وبے تربیت اولاد دنیا میں بھی والدین کے لیے وبالِ جان ہو گی اور آخرت میں بھی رسوائی کا سبب بنے گی۔
تربیت کا اصل مقصد پاکیزہ معاشرے کا قیام:
لفظِ ”تربیت“ ایک وسیع مفہوم رکھنے والا لفظ ہے،اس لفظ کے تحت افراد کی تربیت، خاندان کی تربیت، معاشرے اور سوسائٹی کی تربیت، پھر ان قسموں میں بہت سی ذیلی اقسام داخل ہیں۔ ان سب اقسام کی تربیت کا اصل مقصد وغرض‘ عمدہ، پاکیزہ، بااخلاق اور باکردار معاشرے کا قیام ہے۔ تربیت ِ اولاد بھی اُنہیں اقسام میں سے ایک اہم قسم ہے۔
تربیت کی تعریف:
آسان الفاظ میں ”تربیت“ کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ”برے اخلاق وعادات اور غلط ماحول کو اچھے اخلاق وعادات اور ایک صالح،پاکیزہ ماحول سے تبدیل کرنے کا نام ”تربیت“ ہے۔“
تربیت کی قسمیں:
تربیت کی اجمالاً2قسمیں ہیں:
(1)ظاہری تربیت۔
(2)باطنی تربیت۔
ظاہری تربیت :
ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست وبرخاست، میل جول،اس کے دوست واحباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا،اس کے تعلیمی کوائف کی جانکاری اور بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش کی نگرانی وغیرہ امور شامل ہیں۔یہ تمام امور اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہیں اور باطنی تربیت سے مراد، ان کے عقیدے اور اخلاق کی اصلاح ودرستگی ہے۔
والدین کے ذمے ظاہری وباطنی دونوں تربیت ضروری ہے:
اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت والدین کے ذمے فرض ہے۔ ماں باپ کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے حد رحمت وشفقت کا فطری جذبہ اور احساس پایا جاتا ہے؛ یہی پدری ومادری فطری جذبات واحساسات ہی ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال، تربیت اور ان کی ضروریات کی کفالت پر اُنھیں اُبھارتے ہیں۔ماں باپ کے دل میں یہ جذبات راسخ ہوں اور ساتھ ساتھ اپنی دینی ذمے داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمے داریاں احسن طریقہ سے اخلاص کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔
تربیت اور قرآن:
قرآن مجید اور احادیث ِنبویہ میں اولاد کی تربیت کے بارے میں واضح ارشادات موجود ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاوٴ ،جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔“(التحریم6)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر وتشریح میں فرمایا:
”ان (اپنی ا ولاد)کو تعلیم دو اور ان کو ادب سکھاوٴ۔“
مرد پر اپنے بیوی ،بچوں کو فرائض ِشرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم فرض ہے:
فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو فرائض ِشرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم دے اور اس پر عمل کرانے کے لیے کوشش کرے۔
تربیت اور احادیثِ مبارکہ:
اولاد کی تربیت کی اہمیت کا اندازہ ان احادیث سے بھی ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے:
# کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھے آداب سکھادے۔(بخاری)
یعنی اچھی تربیت کرنا اور اچھے آداب سکھانا اولاد کے لیے سب سے بہترین عطیہ ہے۔
# حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! والدین کے حقوق تو ہم نے جان لیے، اولاد کے کیا حقوق ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وہ یہ ہے کہ اس کا نام اچھا رکھے اور اس کی اچھی تربیت کرے۔ (سننِ بیہقی)
# یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ انسان جن کا ذمے داراوررکھوالا ہے،انھیں ضائع کردے، ان کی تربیت نہ کرے۔
یہ بھی ضائع کرنا ہے کہ بچوں کو یونہی چھوڑدے کہ وہ بھٹکتے پھریں، صحیح راستے سے ہٹ جائیں، ان کے عقائد واخلاق برباد ہوجائیں،نیز اسلام کی نظر میں ناواقفیت کوئی عذر نہیں۔بچوں کی تربیت کے سلسلے میں جن امور کا جاننا ضروری ہے، اس میں کوتاہی کرنا قیامت کی باز پرس سے نہیں بچا سکتا۔
حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
”اپنی اولاد کوادب سکھلاوٴ، قیامت والے دن تم سے تمہاری اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گاکہ تم نے اسے کیا ادب سکھلایا؟ اور کس علم کی تعلیم دی۔“(شعب الایمان للبیہقی)۔
بچوں کی حوصلہ افزائی:
بچہ نرم گیلی مٹی کی طرح ہوتا ہے۔ ہم اس سے جس طرح پیش آئیں گے، اس کی شکل ویسی ہی بن جائیگی۔بچہ اگر کوئی اچھا کام کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے اس کی تعریف سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اور اس پر اُسے شاباش اورکوئی ایسا تحفہ وغیرہ دینا چاہیے، جس سے بچہ خوش ہوجائے اور آئندہ بھی اچھے کام کا جذبہ اور شوق اس کے دل میں پیدا ہوجائے۔
آج مسلمان معاشرے میں سب سے زیادہ تربیت ہی سے غفلت برتی جارہی ہے۔ اور اسلامی تربیت کے لیے گھر کے ماحول کو اسلامی بنانا یہ والدین کی سب سے بڑی ذمے داری ہے۔
آئیے ظاہری تربیت کے بعد اب باطنی اورفکری تربیت کیسے دیں ؟ اس پر روشنی ڈالتے ہیں:
باطنی تربیت کیسے کریں؟
بچوں کو ضرورت سے زیادہ پیار دینے کا انجام:
والدین چاہیں تو وہ بچوں کی بہترین تربیت اور کردار سازی کرکے ایک صالح، پاکیزہ او رصحت مند سماج کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔مگر افسوس کہ آج ہم اپنے بچوں کو صحیح تربیت نہیں دے پا رہے ہیں،جس کی وجہ سے پورے سماج پر بُرا اثر پڑ رہا ہے۔ابتدا میں بچوں کو لاڈ پیار میں بگاڑدیتے ہیں،ان کو کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں۔اس کی ہرجائز اور ناجائز خواہش کی تکمیل ضروری سمجھتے ہیں، اس کی غلط حرکتوں پر تنبیہ تک نہیں کرتے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہی بچے بڑے ہوکر نافرمان اور با غی ہوجاتے ہیں۔برے کام کے عادی بن جاتے ہیں، والدین کی نافرمانی کرتے ہیں،ان کا کہا ماننا تو درکنار،ان کے ساتھ بے ادبی سے پیش آتے ہیں۔
والدین کی ناقص تربیت کا ہولناک انجام ہوتا ہے:
والدین کی ناقص تربیت کے نتیجے میں بچوں میں طرح طرح کی برائیاں جنم لیتی ہیں اور جب یہ برائیاں ان کی عادت بن جاتی ہیں تو بڑے ہوکر یہی حرکتیں کرتے ہیں۔والدین جب ٹوکتے ہیں تو ان کو روایت پرست،قدامت پرست اور دقیانوس جیسے القاب سے نوازا جاتا ہے۔آج ہمارا معاشرہ مختلف قسم کی برائیوں میں ملوث ہے۔گرل فرینڈ اوربوائے فرینڈ کی نئی روش نے کتنے والدین کی نیندیں حرام کردی ہیں؟غیر محرم سے ملنا،اس کے ساتھ دوستی کرنا، سیرو تفریح کرنا اور زندگی سے لطف اندوز ہونا ،آج کے نوجوانوں کی شناخت بن گئی ہے۔برائیوں کو فیشن کا نام دیا جارہا ہے او ربڑے شوق سے فیشن اور جدیدیت کے نام پر برائیوں اور بے حیائیوں کو گلے لگایا جارہا ہے۔
موبائل اور نیٹ کا غلط استعمال اور اس کے بد ترین اثرات:
موبائل اور انٹر نیٹ سائنس دانوں کی دریافت کردہ خدا کی نعمت ہے،مگر آج ہمارے بچے اس کا استعمال برائیوں اور بے حیائیوں کو فروغ دینے کے لیے کر رہے ہیں۔موبائل اور انٹر نیٹ کے بے جا استعمال نے نوجوانوں کے بگڑنے کی رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔”ماڈرن“ مسلم گھرانوں کی لڑکیاں فیشن کے نام پر اب ایسا لباس زیب تن کر تی ہیں، جس سے باحیا آنکھیں شرماجائیں۔سماج اتنی تیزی کے ساتھ بگڑ رہا ہے کہ عظمت و احترام کے رشتے مٹتے جارہے ہیں۔بیٹی کو باپ تک سے شرم نہیں ہوتی،بھائی کوبہن سے شرم نہیں ہوتی، تو خاندان کے دوسرے افراد یا پھر عام لوگوں کے ادب و احترام کا کیا پوچھنا؟!! نوجوانو ں کا ایک بڑا طبقہ شام سے رات تک سڑکوں پر ہڑبونگ کرتے نظر آتا ہے۔شریف لوگ نگاہیں نیچی کرکے چپ چاپ گذر جاتے ہیں۔کیسی تربیت ہے ہمارے گھر کی آپ ذرا اندازہ لگائیں؟ !!گھر سے لڑکے اور لڑکیاں اسکول کالج اور کوچنگ کے لیے نکلتے ہیں او راپنے بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کے ساتھ رنگ ریلیاں منانے پارکوں اور ہوٹلوں میں نکل جاتے ہیں ۔اخبارات میں آئے دن اس طرح کی خبریں چھَپتی رہتی ہیں کہ فلاں لڑکی، فلاں لڑکے کے ساتھ فرار ہوگئی…فلاں مفرور لڑکی فلاں اسٹیشن پر پکڑی گئی وغیرہ۔
تربیت میں اگر کہیں سختی کی ضرورت ہے، تو سختی بھی کرنی ضروری ہے:
ما ں باپ کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے بچے اور بچیوں کی ذہنی و فکری تربیت کریں؛ جہاں پیار و محبت اور شفقت کی ضرورت ہو وہاں پیار و محبت سے پیش آئیں؛اگر کہیں تنبیہ کی ضرورت ہو تو اس سے بھی دریغ نہ کریں۔حضرت لقمان حکیم کا قول ہے کہ باپ کی مار اولاد کے لیے ایسی ہے؛ جیسے کھیتی کے لیے بارش۔
بچوں کے قرآن کی تعلیم کی فکر کریں:
لہٰذا بچوں کو شروع سے اچھی عادت واطوار کا خوگر بناییے،ان کو کلمہ اور دعائیں سکھایئے،نبیوں اور رسولوں کے نام یاد کرایئے، قرآن کی تعلیم دلوایئے،نماز کی ترغیب دیجیے؛یہ وہ بنیادی چیزیں ہیں جس کے جانے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا۔اسکول و کالج میں پڑھنے والے آج کتنے بچے بچیاں ایسے ملتے ہیں، جن کا کلمہ تک درست نہیں ہوتا،وہ اپنے نبی ٴآخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار سے نابلد ہوتے ہیں۔