پہلی قسط:
عبد المتین اشاعتی کانڑگاؤں
(ہندوستان بلکہ اسلام کی تاریخ میں بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر رحمہ اللہ چوں کہ کامیاب وکامران حکم ران گزرے ہیں، تقریباً ۵۰؍ سالہ زرین عہد تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے، لیکن اپنے پیش روؤں کے مقابلے اسلام پسند اور مذہبی ہونے کے ناطے تاریخ کے قاتلوں ؛ متعصب ومستشرق انگریز مؤرخوں نے آپ کی شبیہ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا، تاکہ ہندو مسلم بھائی چارہ میں دراڑ پیدا کی جاسکے، اور ایک حد تک وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے، ابھی چند دنوں پہلے ’’اورنگ زیب عالم گیر‘‘ اور ’’شیواجی/ سیواجی‘‘ پر موازنہ ومقابلہ کرتے ہوئے بہت سے پیغام ویڈیو اور رسائل کی شکل میں واٹس ایپ یونیورسٹی میں دیکھنے اور پڑھنے کو ملے، نیز مہاراشٹر وہریانہ وِدھان سبھا الیکشن کے موقع پر، شہر ’’اورنگ آباد‘‘ میں ’’ہندوتوا‘‘ کی علم بردار سیاسی جماعت کے ایک رہنما کی جوشیلی تقریر میں ’’رضا کاروں‘‘ کاتذکرہ ہوا، خاص کر خلد آباد شہر میں مدفون ’’حضرت اورنگ زیب عالم گیر رحمہ اللہ‘‘ کی طرف اشارہ کرکے ہندو مسلم لوگوں کے مابین نفرت بھڑکانے کی کوشش کی گئی، جس سے صرف مسلمانوں ہی کے جذبات مجروح نہیں ہوئے، بلکہ امن پسند ہندو عوام بھی متأثر ہوئے، اسی دوران اورنگ زیب عالم گیر رحمہ اللہ پر لکھی گئی چند کتابیں ہاتھ لگیں، تو مناسب معلوم ہوا کہ ان کتابوں میں’’اورنگ زیب عالم گیر‘‘ کے متعلق جو تحریریں ہیں، انہیں مثبت انداز میں بطورِ تلخیص، اقتباس ومستفاد تخیلات وتعلیقات قارئین کی نذر کیا جائے، تاکہ تاریخ بھی تازہ ہوجائے اور معلومات میں بھی اضافہ ہو۔…ع ۔م)
………………………………………………
آہ جولاگاہِ عالم گیر یعنی وہ حصار
دوش پر اپنے اُٹھائے سیکڑوں صدیوں کا بار
زندگی سے تھا کبھی معمور، اب سُنسان ہے
یہ خموشی اس کے ہنگاموں کا گورستان ہے
اپنے سُکانِ کہن کی خاک کا دِل دادہ ہے
کوہ کے سر پر مثالِ پاسباں استادہ ہے
(علامہ اقبال، بانگِ درا)
وہ (اور نگ زیب عالم گیر) طوفان کی طرح اُٹھا اور بہت جلد اُس نے ہندوستان جیسے وسیع وعریض ملک کو اپنے دامنِ شوکت وجلال سے وابستہ کرلیا، بے شک اُس کے آباء واجداد اِس ملک پر حکومت کرتے آئے تھے، لیکن اِسی دبدبے اور طنطنہ سے ؟ بے شک وہ ہندوستان کا پہلا مسلمان بادشاہ نہ تھا، لیکن کیا اس سے پہلے اور اس کے بعد کسی مسلمان بادشاہ نے شانِ اسلام اور روایاتِ اسلامی کا اس طرح تحفُّظ کیا تھا کہ اپنی جان کی بازی لگادی ہو؟ ہر طرح کے عیش وآرام سے بے پرواہ ہوکر اسی ایک مقصد کے حصول میں سرگرم کار رہا ہو؟ تاریخ کا جواب نفی میں ہے!
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ’’سیواجی‘‘ نے عالم گیر کا مقابلہ کیا، اور عالم گیر نے مرہٹوں کی شکست وریخت میں عمرِ عزیز کے ۲۵؍ سال صرف کردیئے، وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔
عالم گیر کو صرف ’’سیوا/شیواجی‘‘ کا مقابلہ نہیں کرنا پڑا،عالم گیر کے مقابلے میں ہر اسلام دشمن طاقت صف آرا تھی، علانیہ بھی اور خفیہ بھی!
عالم گیر کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ ہار مان لیتا، لیکن وہ عالم گیر تھا جو مسلسل ۵۰؍ سال تک اسلام دشمن قوتوں کا پامردی کے ساتھ مقابلہ کرتا رہا، اور بالآخر انہیں شکست دے کر اس نے دم لیا، سچ تو یہ ہے کہ وہ ’’اسلام کے ترکش کا آخری تیر تھا‘‘! (۱)
اپنوں اور غیروں سے،
دشمنوں اور دوستوں سے،
عزیزوں اور ساتھیوں سے،
بھائیوں اور عزیز از جاں باپ سے بھی اُسے لڑنا پڑا،
بیک وقت اتنے سارے محاذوں پر کوئی لڑ نہیں سکتا، سوائے اُس کے؛
جس کے دل میں شعلۂ ایمانی جل رہا ہو،
اور جو مذہب ودین کی خاطر مرمٹنے کے لیے تیار ہو،
جس کا سینہ اخلاص کی دولتِ بے مایہ اور نورِ الٰہی سے سرشار ہو،
خدا کی ذاتِ اقدس واعلیٰ پر مکمل بھروسہ رکھتا ہو،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت واطاعت پر پوری طرح سے کاربند وعمل پیرا ہو،
جس کا مقصد عظیم الشان ہو،
جس کے پیشِ نظر ’’الإسلام یعلو ولا یُعلٰی علیہ‘‘ (اسلام ہی سر بلند رہے گا) کا ضابطہ ہو،
جوآیتِ کریمہ ’’وأنتم الأعلون إن کنتم مؤمنین‘‘ (تم ہی سربلند رہوگے بشرطیکہ مؤمن کامل ہوں) میں موجود شرط وجزاء سے اچھی طرح واقف ہو،
جو ’’اجعلني علی خزائن الأرض ‘‘ (مجھے ملک کی پیداواروں پر مامور کردیجیے) کی تفسیر وتشریح کو سمجھ کر اس پر عمل کرتا ہو،
جو ’’ إني حفیظ علیم‘‘(میں دیانت بھی رکھتا ہوں، علم بھی رکھتا ہوں)جیسی صفات سے متصف ہونے کی بنا پر زمامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لینے کی درخواست کرسکتا ہو،
جسے ’’وکذلک مکنا لیوسف في الأرض‘‘ (اسی طرح ہم نے یوسف کو سرزمین مصر میں جگہ دی) کا مصداق بناکر، بابرکت سرزمین متحدہ ہندوستان کی سلطنت وبادشاہت عطا کی گئی ہو،
جو ’’وإنک لعلٰی خلق عظیم‘‘ (بے شک آپ اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں) کا پَر تو بن کر، کافروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آتا ہو، انہیں بڑے عہدوں سے نوازتا ہو،
جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ میں یہودیوں کے ساتھ حلف برداری کے عہد وپیمان کو سامنے رکھ کر، کافروں اور مشرکوں کو بڑے اور اہم عہدوں سے نوازتا ہو،
جو دینِ اسلام کی حفاظت کی خاطر فرقۂ ضالہ ومضلہ کے ہاتھوں کھلونا بنے ’’دارا شکوہ‘‘ جیسے بھائی پر چڑھائی کا حوصلہ رکھتا ہو،
جو ایمان وعقائد، عبادات ومعاملات اور معاشرت میں اسلامی طرزِ زندگی کے لیے متقن وجید علماء ومفتیان کی نگرانی میں ’’فتاویٰ عالم گیری‘‘ کی شکل میں اسلامی وفقہی ’’انسائیکلو پیڈیا‘‘ کی ترتیب دیتا ہو،
جو شاہی افواج پر بار بار جنگ گریز پا (گوریلا وار) برپا کرنے ، جان ومال کا نقصان کرنے، قصبوں اور دیہاتوں میں لوٹ مچاکر تباہ وبرباد کردینے والے ’’شیواجی‘‘ کی کارستانیوں اور غداریوں کے باوجود ، اُس کے ساتھ عفو ودرگزر کا معاملہ کرتا ہو،
جو حاجیوں کے مقدس قافلے پر ’’شیواجی‘‘ کے ہونے والے داماد ’’رانا نیتوسنگھ‘‘ کے حملے سے طیش وجلال میں آکر ’’راجہ جے سنگھ‘‘ کو لشکر کشی کے لیے بھیجتا ہو، اور جب اُسے گرفتار کرکے لایا جاتا ہے، تو اُس کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑتا ہو، اس کے لیے معافی کا پروانہ لکھتا ہو،
جو اپنے حد درجہ عفو وکرم اور اسلام کے اعلیٰ اخلاق کے سہارے ’’رانا نیتو سنگھ‘‘ جیسے کٹر دشمنِ اسلام کو دامنِ اسلام میں پناہ لینے پر مجبور پاتا ہو،
جس نے ملک کے ہر گوشے اور چپے میں امن وامان کا اعلان کررکھا ہو،
جہاں غریبوں اور فقیروں کی بلا امتیازِ مذہب وملت خبر گیری وخیر خواہی کی جاتی ہو،
مسافروں کی سہولت کے لیے جگہ جگہ سرائے اور مسافر خانے بنوائے جاتے ہو،
غور کیجیے! کیا آج کل کے چور اچکے حکم ران اپنی رعایا کو اتنی مراعات وسہولیات دیتے ہیں،نہیں، بالکل نہیں!
تو آخر کیوں ایک انصاف پرور ، عدل گُستر حکم ران کے ساتھ اتنی بے انصافی کی جاتی ہے کہ اُسے ’’رضا کار‘‘ کا طعنہ دیا جاتاہے، مذہبی شدت پسند کہا جاتا ہے، مندروں کو ڈھانے والا اور تلوار کے زور پر مذہب تبدیل کرانے والا گردانا جاتا ہے۔
غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں میں اورنگ زیب عالم گیر کے بارے میں یہ بے بنیاد غلط فہمی جو پھیلائی جاتی ہے، اس میں اولاً تو متعصب مؤرخوں کا قصور ہے، اور ثانیاً ہمارا اپنا قصور ہے، کہ آزادی کے بعد سے خاص کر یہ زہر پھیلایا جاتا رہا، اسکولی نصابوں میں پڑھایا جاتا رہا،ہمارے اکابر علما بلکہ انصاف پسند غیر مسلموں نے بھی ’’اورنگ زیب ‘‘پر معتبر تحریریں لکھیں، لیکن ہم نے اُن تحریروں کو غیروں تک پہنچانے کی کما حقہٗ کوشش نہیں کی، آپ کے مثبت وصحیح کردار کو لوگوں کے سامنے پیش نہیں کیا، جس کی وجہ سے وقفہ وقفہ سے ’’اورنگ زیب‘‘ رحمہ اللہ کے خلاف آوازیں اُٹھتی رہتی ہیں۔
آئندہ سطروں میں اکابراور غیروں کی لکھی گئی کتابوں سے یہی بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اورنگ زیب عالم گیر رحمہ اللہ نے ملک ہندوستان کو دنیا کا طاقت ور عظیم اور متحدہ ملک (اَکھنڈ بھارت) بنانے میں اہم کردار ادا کیا،غور کیجیے ! اپنے ۵۰؍ سالہ دورِ حکومت میں اتنے جاہ وجلال، طُمطُراق، شان وشوکت، ولولہ، غلغلہ اور طنطنہ کے ساتھ حکومت کرنے والا بادشاہ اگر حقیقت میں متعصب اور کٹر ہوتا،تو آج شاید باید ہندوستان میں کوئی غیر مسلم نظر نہ آتا، یہ تو صرف ۵۰؍ سال ہیں، ورنہ ۸؍ سو سال تک حکومت کرنے والے مسلمان بادشاہ کیا نہیں کرسکتے تھے؟!(۲)
تنبیہ: جہاں غیرمسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک کا تذکرہ اور مثبت پہلو ہے وہاں عبارت خط کشیدہ ہے۔
سورت شہر کا تقدُّس،حج کی تمنا، راجہ جے سنگھ پر نوازش:
سورت بندرگاہ سے زائرینِ حج کے قافلے دیارِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم اور سرزمینِ حجاز کی طرف کسبِ سعادت ورحمت کے لیے جاتے تھے، حاجیوں کی خاطر مدارات کا اہتمام حکومت کی طرف سے ہوتا تھا، انہیں ذرا بھی تکلیف پہنچنے نہیں دی جاتی تھی۔
خود (اورنگ زیب) عالم گیر بھی ایک عرصے سے حج کا ارادہ کررہے تھے، اسی بندرگاہ سے روانہ ہونے والے تھے، لیکن ہر سال یہ ارادہ نئی نئی شورشوں اور بغاوتوں کے باعث ملتوی کردینا پڑتا تھا، اور خدا کے بھروسے پر آئندہ سال کی نیت کرلی جاتی تھی۔
آج دربار میں جیسے ہی ’’شیواجی‘‘ کے ہونے والے داماد ’’رانا نیتوسنگھ‘‘ کے سورت بندرگاہ پر حاجیوں کے قافلے پر حملے کی خبر پہنچی، عالم گیر کا جلال عروج پر پہنچ گیا، جے سنگھ(۳) (معتمد ،سپہ سالار ومصاحب) کو بلا بھیجا، اور اس سے کہا: شیواجی کے حوصلے اب بہت بلند ہوگئے ہیں، جے سنگھ بولا: جہاں پناہ! جے سنگھ تیر قضا بن کر اُس جگہ پہنچے گا جہاں یہ لُٹیرا رُوپوش ہوگا۔لیکن جہاں پناہ! اُس کے ساتھ کون ہیں؟ اُن کی قومیت کیا ہے؟ کیا وہ ہندو عوام ہیں؟ اورنگ زیب بولے:’’شیواجی کی سرپرستی ہندو عوام کی طرف سے نہیں، وہ تو شاہ پرست ہیں، اُن کی وفاداری شک وشبہ سے بالاتر ہے۔‘‘
عالم گیر نے ’’شیواجی‘‘ کی مہم جے سنگھ کے سپرد کی اور اپنے خاص آدمی خان جہاں کو مخاطب کرکے کہا: دیکھا تم نے خان جہاں؟ خان جہاں بولا: جے سنگھ کی وفاداری ہم سب کے لیے ایک سبق آموز مثال ہے۔
راجہ جے سنگھ مذہب وعقیدے میں پکا اور کٹر ہندو تھا، لیکن اس میں انسانیت دوستی، شرافتِ نفسی، عالی ظرفی، وفاداری اور آقا پرستی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
مغل بادشاہوں نے بہت سے راجواڑوں اور ریاستوں کے فرماں رواؤں پر احسانات کیے تھے، انہیں کہیں سے کہیں پہنچا دیا تھا، خود ان کی قوت وعظمت میں اضافہ کا سبب بنے تھے، لیکن ان میں سے اکثر ابن الوقت ؛ طاقت دوست تھے،روپئے کے پرستار تھے، اُن کا نہ دین تھا نہ ایمان، لیکن جے سنگھ نمک حلال آقا پرستوں میں سے تھا، کہ مغلیہ خاندان نے اس کے آباء واجداد کے ساتھ حسنِ سلوک کیا تھا، وہ دنیا کی ہر چیز سے حتی کہ زن وفرزند تک سے دست بردار ہوسکتا تھا، لیکن اپنے آقا کا دامن چھوڑدے یہ ناممکن تھا۔
جے سنگھ جتنا بڑا سپاہی تھا اتنا ہی بڑا موقع شناس، دور بین اور مدبر بھی تھا، اس نے بہت سے معرکے سر کیے تھے، اور بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے تھے، ہر معرکے پر اس نے اپنے آقا (اورنگ زیب عالم گیر) سے خراجِ تحسین وصول کیا تھا، اور ہر کارنامے پر اُس نے دشمنوں تک سے داد حاصل کی تھی، وہ صاف دل ، صاف طبع اور صاف مزاج شخص تھا، کھَرا اور بے باک۔(جب شیواجی کی مہم اس کے نام لکھنے کا فرمان صادر ہوا، تو اس کی مسرت نشاط وسُرور کا اندازہ کرنا مشکل تھا)۔(۴)
اس مضمون میں درج ذیل کتاب سے استفادہ کیا گیا، جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
(۱) ملخص، مقتبس ومستفاد از: اورنگ زیب عالم گیر …مصنف: رئیس احمد جعفری… مطبع: مکتبہ جدید پریس لاہور… اشاعت: ۱۴؍ اگست ۲۰۱۳ء… پی ڈی ایف: بشکریہ معرفت ڈاٹ کام(Marfat.com)
(۲) راقم السطور۔
(۳) جے سنگھ راجپوتانا کی مشہور ریاست’’جے پور‘‘ کا فرماں رواتھا، جے سنگھ کا قلعہ مسلم تہذیب کی پوری عکاسی کے ساتھ آج بھی موجود ہے، اور اسی قلعہ کے ایک گوشے میں ایک چھوٹی مسجد بھی جے سنگھ کی بنائی ہوئی موجود ہے، میں نے اس قلعہ کو پچشم خود دیکھا ہے۔
(مصنف: اورنگ زیب عالم گیر)
(۴) (اورنگ زیب عالم گیر