تیسری قسط:
عبد المتین اشاعتی کانڑگاوٴں
(گزشتہ قسط میں عہد عالم گیر میں ہندوٴوں اور مسلموں کی طرف سے بغاوت اور اس کے واضح اسباب ، نیز اورنگ زیب عالم گیر کی دینی غیرت وحمیت اور اسلام وانصاف پسندی کو جاننے کی کوشش کی گئی، اب اس قسط میں مزید مشہور ہندو راجاوٴں پر اورنگ زیب عالم گیررحمہ اللہ کی نوازشوں اور راجاوٴں کی اطاعتوں، اور مسلم بادشاہوں کی اچھی صفتوں کا ذکر کیا جارہا ہے! …ع۔م)
راجہ کرت سنگھ پر عالم گیر کی نوازش:
راجہ کرت سنگھ جب تک دہلی دربار کا مطیع وفرماں بردار تھا اُس کی عزت افزائی میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا گیا۔ دربارِ شاہی سے اُسے خطابات بھی ملے اور انعامات بھی، لیکن یک بیک بغاوت کا اعلان کیا۔ خراج (ٹیکس) دینے سے انکار کردیا اور جواب دیا:
”بادشاہ بادشاہوں سے نہ خراج لیتے ہیں نہ دیتے ہیں، جب ہم نے عالم گیر کوخراج معاف کردیا ہے تو وہ ہم سے کیوں خراج طلب کرتا ہے؟!“
اس سرکشی اور بغاوت کا جواب ظاہر ہے تلوار ہی سے دیا جاسکتا تھا، آخر کار مقابلہ ہوا، تو راجہ کرت سنگھ قلعہ محصور ہوا، پھر صلح کا سفید جھنڈا بلند کیا۔ عالم گیر کا حکم تھا کہ اگر باغیوں کی طرف سے ندامت اور اطاعت کا اظہار ہو، تو جنگ بندی کردی جائے اور مناسب شرطوں پر صلح کرلی جائے۔ چنانچہ یرغمال کا سوال اُٹھا، اس زمانے میں ہندو مسلم فرماں رواوٴں کے ہاں یہ قاعدہ تھا کہ اگر کوئی محکوم بغاوت کے بعد اطاعت کا وعدہ کرتا تھا، تو بطورِ یرغمال اسے اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو فاتح کے دربار میں رکھنا پڑتا تھا، تاکہ اگر وہ دوبارہ بغاوت کرے، تو جوابی حملہ کرنے سے پہلے اُسے قتل کردیا جائے، یہ اتنی عام بات تھی کہ اس پر نہ مسلمانوں کو اعتراض ہوتا تھا، نہ ہندوٴوں کو؛ البتہ بغاوت کا اطمینان ہونے پر یرغمال واپس کردیا جاتا تھا۔
راجہ کرت سنگھ یرغمال لے کر جب دربارِ شاہی میں حاضر ہوا، تو بغاوت کی وجہ پوچھنے پر گویا ہوا:
”جہاں پناہ! جب اپنی نادانی اور حماقت پر غور کرتا ہوں اور شہنشاہ کا لطف وکرم دیکھتا ہوں، تو جی چاہتا ہے زمین پھٹے اور میں اس میں سما جاوٴں!“
عالم گیر نے کرت سنگھ سے کہا: ”اچھا ہم تمہارا راج تمہیں واپس کرتے ہیں!“(لیکن ہمارے اطمینان کے لیے کہ آئندہ بغاوت نہیں ہوگی، تمہاری طرف سے تمہارا بیٹا یا کوئی عزیز یرغمال چاہیے) … تو کرت سنگھ بولا : لڑکا بیمار ہے، اس لیے تندرست لڑکی کو بطورِ یرغمال لایا ہوں، بادشاہ بولا: نہیں یہ نہیں ہوگا، ہم یرغمال کی پابندیوں سے تمہیں آزاد کرتے ہیں، لیکن اب تم لڑکی کو لے آئے ہو، تو اب چند روز تک وہ ہماری بیٹی کی طرح محل میں رہے گی، پھر جب تم جاوٴ تو اپنے ساتھ لیتے جانا۔
راج کماری ”شوبھا“ سے عالم گیر بولے: ”کیوں بیٹی کیا چند روز مہمان کی حیثیت سے ہمارے ہاں رہوگی؟“
شوبھا بولی:”جہاں پناہ نے مجھے بیٹی کہا ہے، کہیں بیٹی بھی باپ کے گھر مہمان بن کر رہتی ہے۔ بھلا اپنے باپ کے گھر میں رہنے سے انکار کرسکتی ہوں؟!“
بات دل کو لگتی ہے!:
راج کماری ”شوبھا “ نے محل کی شاہی کنیز ”گُل اندام“ کے ساتھ رہتے ہوئے اسلام کے بارے میں بہت سی معلومات لی، اور محل میں غلام باندیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کو دیکھ کر متأثر بھی ہوئی۔
دنیا کی تاریخ میں صرف مسلمان ہی ایک ایسی قوم ہے جو بیسیوں غلام بادشاہوں کی فہرست فخر کے ساتھ پیش کرسکتی ہے، مثلاً:
(۱) سلطان قطب الدین ایبک (قطب مینار دہلی انہی کی طرف منسوب ہے)، یہ سلطان شہاب الدین غوری کے ایک معمولی غلام تھے۔
(۲) سلطان شمس الدین التمش (رضیہ سلطانہ انہی کی صاحب زادی ہیں)۔
(۳) بلبن۔
(۴) بختیار خلجی؛ فاتحِ بنگال وبہار۔
(۵) محمود غزنوی جو خود بھی غلام زادہ تھا۔ اس کا ”سوم ناتھ مندر“ کو ڈھانا شوبھا کو یاد آگیا، تو گل اندام بولی:
”محمود غزنوی اورہمارے جہاں پناہ نے صرف ان مندروں کو ڈھایا، جہاں ان کی حکومت کے خلاف سازشیں ہوتی تھیں، جو دشمنوں اور باغیوں کے خفیہ اڈے تھے، جہاں ان بادشاہوں کی حکومت کا چراغ گل کرنے کی تدبیروں پر غور کیا جاتا تھا، … اس کا ثبوت یہ ہے کہ مسلمان بادشاہ اگر مندروں کے دشمن ہوتے، تو آج اس دیس میں کوئی مندر کہیں دور دور تک دکھائی نہ دیتا، … ہمارے جہاں پناہ ان مندروں کو جاگیریں عطا کرتے ہیں جہاں صرف پوجا ہوتی ہے، اور انہیں ڈھادیتے ہیں جو دشمنوں اور باغیوں کا اڈہ بنے ہوئے ہیں۔“
راج کماری شوبھا بولی: ”بات دل کو لگتی ہے!“
راج کماری ”شوبھا“ کا تأثُّر :
راج کماری شوبھا کو مسلم بادشاہوں کی دو صفات بہت اچھی لگیں:
(۱) کنیزوں اور غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک، غلاموں کو سربلند کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔
(۲)غیر مسلموں اور مفتوح قوموں کے ساتھ بہت اچھا رویہ رکھا۔مسلمانوں نے خود سے کسی قوم کو نہیں چھیڑا، اور جب انہیں چھیڑا گیا، تو وہ بے شک میدانِ جنگ میں اُترے۔
سندھ اور خیبر پر حملہ کی وجہ:
سوال: مسلمانوں نے ہندوستان پر (سندھ اور خیبر) دو طرف سے حملہ کیا، اس کا پس ِمنظر کیا تھا؟
جواب: (الف): سندھ پر حملے کا پس ِمنظر یہ ہے کہ ”لنکا“ میں کچھ مسلمان تاجر رہتے تھے، ان میں سے ایک کا انتقال ہوگیا، اس کا مال اور اس کے متعلقین راجہ نے بغداد روانہ کردیئے۔ سندھ کے پاس بحری ڈاکوٴوں نے ڈاکہ ڈالا، اور مال ودولت کے ساتھ اس مرحوم تاجر کی لڑکی کو بھی اڑا لے گئے، اس کی خبر بغداد پہنچی تو سندھ کے راجہ داہر سے بغداد کی حکومت نے استدعا کی کہ وہ ڈاکوٴوں کی سرکوبی کرے اور مسلمان تاجر کا مال اور اس کے افرادِ خاندان واپس دلائے، راجہ داہر قوت کے نشے میں مست تھا، اس نے مداخلت کرنے سے صاف انکار کردیا، در حقیقت وہ ان ڈاکوٴوں کا سب سے بڑا سرپرست تھا، آخر جب کوئی چارہٴ کار نہ رہا، تو مسلمانوں نے سندھ پر حملہ کیا اور اُسے فتح کرلیا۔ (تاریخ سندھ)
(ب): خیبر پر حملے کا پس منظر یہ ہے کہ راجہ لاہور جس کی حکومت پشاور تک تھی، اپنی حکومت پر قانع نہ رہ سکا، جب اُسے یہ معلوم ہوا کہ سبکتگین ایک نرم خو بادشاہ ہے، اس نے خود افغانستان پر چڑھائی کردی، سبکتگین کا لڑکا محمود غزنوی تھا، وہ بھی باپ کے ساتھ میدانِ جنگ میں پہنچا، پشاور سے پَرے لڑائی ہوئی، راجہ لاہور کو شکست ہوئی اور سبکتگین جیت گیا۔ (تاریخ فرشتہ)
سبکتگین نے راجہ کو معاف کردیا، خراج دینے کا وعدہ کیا، لیکن کچھ دنوں بعد پھر تیاری کرکے افغانستان پر حملہ کیا، اس مرتبہ محمود غزنوی سے لڑائی ہوئی، راجہ شکست کھاگیا، سلطان نے پھر اُسے معاف کردیا، راجہ نے اطاعت اور فوج دینے کا وعدہ کیا، راجہ نے استدعا کی کہ دو آدمی اس کے ساتھ بھیج دیں، اُن کے ساتھ خراج بھیج دوں گا، اور یرغمال کے طور پر اپنے دو آدمی سلطان کے پاس چھوڑ دیئے، بعد میں سلطان نے اعتماد کی خاطر دونوں یرغمالیوں کو چھوڑ دیا، کہ اس حسنِ سلوک کا اچھا اثر پڑے گا، جب وہ دونوں لاہور پہنچ گئے، تو اپنے آدمیوں کی واپسی کی خوشی میں راجہ نے سلطان کے دونوں آدمی قتل کردیئے۔ چنانچہ سلطان نے دوبارہ علی الاعلان حملہ کیا، اور صرف پنجاب پر قبضہ کرکے باقی ہندوستان کو آزاد چھوڑدیا۔
”ستی“ کے معاملے میں مداخلت:
راج کماری شوبھا (حقیقتِ واقعہ) سن کر بہت متأثر ہوئی اور بولی:
”گل اندام واقعی مسلمان جہاں بھی جاتے ہیں، رحمت بن کر جاتے ہیں، اور یہ بھی سچ ہے کہ وہ غیر مسلموں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں۔ اور خاص طور پر ان کے مذہبی معاملات میں تو بالکل دخل نہیں دیتے، انہوں نے نہ صرف ”ستی“ کے معاملے میں مداخلت کی ہے وہ بھی انسانیت دوستی کے جذبے سے اور اس مداخلت میں بھی تشدُّد سے کام نہیں لیتے۔“
راج کماری (گل اندام سے مخاطب ہوکر): تم نہیں جانتیں ہندوسماج میں ایک بیوہ عورت کس ذلت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتی ہے، ایسی زندگی سے موت لاکھ درجے بھلی!“
آب دیدہ آنکھوں کے ساتھ محل سے رخصتی:
آخر کار راج کماری کی ”کرت پور“ واپسی کا وقت آپہنچا۔بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر رحمہ اللہ کے محل سے رخصتی کے وقت شہزادی ”زیب النساء“ خود راج کماری ”شوبھا“ کو رخصت کرنے چند قدم محل سے باہر آئی۔ رخصت ہوتے وقت شوبھا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا کہ اب یہ نعمت کہاں حاصل ہوگی! شاہی محل کے رہن سہن کے آدابِ معاشرت، اصولِ حیات اور روز مرہ کی زندگی میں اس نے جو دل کشی پائی تھی، وہ اب کہاں دیکھنے کو ملے گی! یہی وجہ تھی کہ جاتے وقت خود بخود اس کی آنکھیں آنسوٴوں سے چھلک رہی تھیں۔
جاری……………