حفاظت ایمان کا دوسرا طریقہ:
مولانا نظام الدین قاسمی(استاذ جامعہ اکل کوا)
”اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”جب مال غنیمت کو دولت قرار دیا جانے لگے اور جب امانت (کے مال )کو مال ِغنیمت شمار کیا جانے لگے،اور جب زکوٰةکو تا وان سمجھا جانے لگے اور جب علم، دین کے علاوہ کسی اور غرض سے سیکھاجانے لگے اورجب ماں کی نافرمانی کی جانے لگے اوردوستوں کو قریب اور باپ کو دور کیا جانے لگے اور جب مسجد میں شور و غل مچایا جانے لگے اور قوم وجماعت کی سرداری اس قوم وجماعت کے فاسق شخص کرنے لگیں اور جب قوم وجماعت کے زعیم وسربراہ اس قوم وجماعت کے کمینہ اور رذیل شخص ہونے لگیں اور آدمی کی تعظیم اس کے شر اور فتنہ کے ڈر سے کی جانے لگے اور جب لوگوں میں گانے والیوں اور سازوباجوں کا دور دورہ ہو جائے اور جب شرابیں پی جانے لگیں اور اس امت کے پچھلے لوگ اگلے لوگوں کو برا کہنے لگیں اور ان پر لعنت بھیجنے لگیں تو اس وقت تم ان چیزوں کے جلدہی ظاہر ہونے کا انتظارکرو!
سرخ (یعنی تیز وتند اور شدید ترین طوفان )آندھی کا،زلزلہ کا،زمین کے دھنس جانے کا،صورتوں کے مسخ وتبدیل ہوجانے کا اور پتھروں کے برسنے کا(نیزان چیزوں کے علاوہ قیامت کی دیگر تمام بڑی نشانیوں اور)علامتوں کا انتظار کرو، جو اس طرف پے در پے وقوع پزیر ہوں گی ؛جیسے( موتیوں )کی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور اس کے دانے پے درپے گرنے لگیں۔“
اسلاف پر زبانِ طعن دراز کرنا:
فائدہ : محدث عظیم حضرت ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”جب اس امت کے پچھلے لوگ اگلے لوگوں کو برا بھلا کہنے لگیں۔“میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ برائی اسی امت کے ساتھ مخصوص ہے،گزشتہ ا متوں کے لوگوں میں اس برائی کا چلن نہیں تھا ، چناں چہ مسلمانوں میں سے رافضی لوگ اس برائی میں مبتلا ہیں کہ وہ ان گزرے ہوئے اکابر یعنی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین تک کے بارے میں زبان ِلعن دراز کرتے ہیں جن کے حق میں اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں:
”والسابقون الاولون من المہاجرین والانصار والذین اتبعوہم باحسان رضی اللہ عنہم“
”جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے )پہلے (ایمان لائے )مہاجرین میں سے بھی اورانصارمیں بھی اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی،خدا ان سب سے خوش ہے۔“
اور ایک آیت میں یہ فرمایا کہ :”لقد رضی اللہ عن المئومنین اذیبایعونک تحت الشجرتة“
”(اے محمد)جب مومن آپ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہوا۔“
کس قدر بد نصیبی اور شقاوت کی بات ہے کہ ،جن بندگانِ خاص سے اللہ راضی و خوش ہو، ان سے ناراضگی وناخوشی ظاہر کی جائے اور ان کے خلاف ہفوات بکے جائیں۔ان بندگان ِخاص کے مناقب وفضائل سے قرآن وحدیث بھرے ہوئے ہیں۔وہ پاک نفوس ایسی عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے سب سے پہلے خدا کے دین کو قبول کیا،قبول ِایمان میں سبقت حاصل کی ،نہایت سخت اور صبر آزماحالات میں خدا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد وحمایت کی ۔اللہ کے دین کا پرچم سر بلند کرنے کے لیے اپنی جانوں کی بازیاں لگائیں ،جہاد کے ذریعہ اسلام کی شوکت بڑھائی، بڑے بڑے شہر اور ملک فتح کیے، کسی واسطہ کے بغیر سیدالامام علیہ الصلوٰة والسلام سے دین کا علم حاصل کیا،شریعت کے احکام ومسائل سیکھیں۔دین کی بنیاد یعنی قرآن ِکریم کو سب سے زیادہ جانا اور سمجھا،اور مقدس ہستیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن ِکریم کے ذریعہ امت کے تمام لوگوں کو یہ تلقین فرمائی کہ ان کے حق میں یو گویاہوں ۔
”ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان“”اے پرور دگار !ہمیں بخش دے اورہمارے ان بھائیوں کو بخش دے، جنہوں نے قبول ِایمان میں ہم پر سبقت حاصل کی ہے ۔“
لیکن ان (رافضیوں )کے وہ لوگ کہ جو یاتو ایمان کی روشنی کھو چکے ہیں،یا دیوانے ہوگئے ہیں، ان مقدس ہستیوں اور امت کے سب سے افضل لوگوں کے بارے میں صرف زبان ِلعن وطعن دراز کرنے ہی پر اکتفا نہیں کرتے؛ بلکہ محض اپنے گندے خیالات ونظریات اور سڑے ہوئے فہم کی وجہ سے یہ کہہ کر ان پاک نفسوں کی طرف کفر کی بھی نسبت کرتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے بلا استحقاق خلافت پر قبضہ کیا؛کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے اصل مستحق علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔خدا ان عقل کے اندھوں کو چشم ِبصیرت دے !آخر وہ کیوں نہیں سمجھتے کہ اس امت کے اگلے پچھلے تمام لوگوں نے اس بات کو غلط اور باطل قرار دیا ہے اور قرآن وسنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے، جس سے یہ صراحت ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت ِاول حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حق تھا، نیز صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان سے اختلاف کیا یاانہوں نے نعوذ باللہ کسی بری غرض کے تحت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مخالفت کی؛ بل کہ ان کا اختلاف ان کے اجتہادی رائے کے تحت تھا،زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ (حضرت امیر معاویہ وغیرہ) خطا ئے اجتہادی میں مبتلا ہو گئے تھے ،لیکن اس کی وجہ سے بھی ان پر لعن وطعن کرنا، اور ان کے حق میں گستاخانہ باتیں منہ سے نکالنا نہایت نارو ا؛بل کہ صریح زیادتی ہے۔
ابن عسا کر رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ مرفوع روایت نقل کی ہے کہ:
”(آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)میرے(بعض)صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین (اگر)ذلت یعنی لغزش کا شکار ہوں گے (تو)اللہ تعالیٰ ان کو میری صحبت اور میرے ساتھ تعلق رکھنے کی برکت سے بخش دے گا ۔“
اس بات کو اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہم لوگ اکثر و بیشتر صغیرہ کبیرہ گنا ہوں کا ارتاب کرتے رہتے ہیں، لیکن اس کے با وجود اپنے پروردگار کی رحمت اورآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے امیدوار رہتے ہیں۔ توکیا وہ لوگ جو اس امت کے سب سے افضل اور سب سے بڑے لوگوں کے زمرہ سے تعلق رکھتے ہیں،اس بات کے مستحق نہیں ہیں کہ ان کے حق میں یہ نیک گمان رکھا جائے کہ اگر ان سے کوئی لغزش ہوئی بھی ہوگی تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کے درجہ کی عظمت اور ان کے شرف صحابیت کی برکت سے در گزر فرمائے گا ؟
مرتبہٴ صحابیت کے تقدس وشرف کو داغدار کرنے والے نادانو!سوچو کہ تم اپنی زبان کو کن مقدس ہستیوں کی شان میں گستا خی کرکے گنداکررہے ہو،اور تمہارایہ طرز ِعمل رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدر تکلیف پہنچارہا ہوگا؟کیا تم اس بات سے بے خبر ہو کہ نیک بخت وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے خود کے عیوب ان کو دوسروں کی عیب جوئی سے باز رکھیں!کیا تم اس فرمان ِرسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے منکر ہوئے کہ اپنے مرے ہوئے لوگوں کو برائی کے ساتھ یاد نہ کرو۔کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی نہیں ہے کہ جب تمہارے سامنے میرے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا ذکر ہو تو اپنی زبان کو قابو میں رکھو ؟اگر تم ذرا بھی ایمان وعقل کا دعویٰ رکھتے ہو تو سنو کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
”ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہماکی محبت ایمان کی ایک شاخ ہے اور ان دونوں سے بغض وعداوت کفر ہے،اہل ِعرب کی محبت ایمان کی ایک شاخ ہے اوران سے بغض وعداوت کفر ہے۔ جس نے میرے صحابہ کو برے الفاظ سے یاد کیا وہ اللہ کی لعنت کا مستو جب ہوا اور جس نے ان کے بارے میں میرے حکم کی پا سداری کی،میں قیامت کے دن اس کی پاسداری کروں گا۔“
اے خدا!بس تو ہی ان لوگوں کو عقل ِسلیم اور چشم ِبصیرت عطا کر کے راہ ِہدایت دکھا سکتا ہے، جو جہالت ونادانی اور تعصب کی وجہ سے تیرے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور ساتھیوں کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور ان کے حق میں زبان ِلعن وطعن دراز کرکے خود کو دوزخ کی آگ کا ایندھن بنا تے ہیں۔
دور حاضر کا سب سے خطرناک فتنہ:
دور حاضر میں سب سے زیادہ بڑھ کر جس چیز نے ایمان کو نقصان پہنچایا اور دین و ایمان کی جڑیں کھوکھلی کیں ہیں،وہ حضرات ِسلف کی بلند شان میں بے ادبی اور بے باکی کے ساتھ زبان اور قلم کا بے دریغ استعمال ہے۔
دین ِمتین کے اس سر سبز و شاداب باغیچہ کی سب سے اول باغبانی کرنے والے، یہی حضرات ِسلف تھے۔حق تو یہ تھا کہ جن مقدس نفوس نے جان جو کھوں میں ڈال کر،اہل وعیال اور مال ومتاع قربان کر کے چمنستان اسلام کی آبیاری کی،خون وپسینہ سے اس کی سینچائی کی،دل وجان سے ان کا ممنون احسان ہوا جاتا،ہر ہر موئے بدن سے ان کے لیے دعائے خیر نکلتی،ان کی تعلیمات پر بصدق دل عمل کیا جاتا،ان کی عظمت وجلالت شان کا پر چارچار دانگ عالم میں کیا جاتا۔
مگر افسوس صدافسوس !بعض سیدھے سادھے مسلمان غیر مسلم مستشرقین اور ان مغربی مصنفین کے قلم اور تحریر سے زہر آلود ہو کر اسلافِ امت سے بدگمان بلکہ کینہ پرور،بل کہ بدزبان ہوگئے،وہ مشترقین جن کا کامیاب حربہ یہ ہے کہ براہ ِراست مذہب اسلام کی مخالفت کی بجائے مسلمانوں کے دلوں سے ان اولین پیشواوئں یعنی حضرات ِسلف صالحین رحمہم اللہ کی عظمت ومحبت کو نکال باہر کیا جائے۔ جب ان کے دلوں میں اسلام کے لہلہاتے چمن کی اول آبیاری کرنے والوں کے خلاف بدگمانی پیدا ہو جائے گی، تو خود بخود ان کے مضبوط ایمان میں تذبذب اور ان کے عقائد ونظریات میں شکوک و شبہات اور ان کی تعلیمات پر عمل میں کاہلی اور سستی پیدا ہو جائے گی۔
چناچہ شیطانِ لعین نے جو مسلمان کے ایمان کا ہر وقت دشمن رہتا ہے، اپنے اس مشن میں کامیابی کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ابلیس کے آلہٴ کار،مغرب سے متاثر ،جدت پسند اہل قلم نت نئی تحریر ات کے ذریعے جو بظاہر بڑی پر کشش اور مسجع ومقفٰی نظر آتی ہیں․․․․․بظاہر عقل وقیاس کے معیار پر پوری اترتی ہوئی نظر آتی ہیں،ان اکابرامت قدس اللہ اسرارہم پر رکیک حملے کرتے ہیں۔
چناں چہ وہ مسلمان جو ہر قسم کی تحریک کو بہت جلد مطالعہ میں لانے کی کوشش کرتے ہیں اور جو حضرات اپنے دل میں ذاتی مطالعہ اور تحقیق کا جزبہ رکھتے ہیں،جب ایسی تحریروں کو پڑھتے ہیں تو چوں کہ کسی کے علمی کمال اور اس کے بیان کردہ مواد اور مضامین کو شریعت کی کسوٹی میں پرکھنے کی صلاحیت ان میں ہوتی نہیں ،اس لیے غیر شعوری طور پر ان سے متاثر ہو کر اپنے اکابر رحمہم اللہ سے بدگمان ہو جاتے ہیں اور جن حضرات کے قلوب میں اپنے اکابر کا ادب واحترام ہوتابھی ہے تو ان کو تحریر وتقریر کے ذریعے اس بات کی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ خود اپنی عقل ودانش کو استعمال کرتے ہوئے تحقیقی میدان میں اتریں،خود تحقیق کریں،خود مطالعہ کریں اپنی عقل کی کسوٹی پر خود حق وباطل کو پرکھیں اور اس حالت کا انجام بھی بالکل ظاہر ہے بقول حضرت عارف رومی
تو نہ دیدی گہے سلیمان را
چہ شناسی زبان مرغاں را
جب تم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ہی نہیں دیکھا تو پر ندوں کی زبان خاک سمجھوگے۔
ایسے حضرات!خوب غور فرمالیں کہ اس تحقیق کے لبادہ میں آیا وہ واقعی تحقیق(یعنی حق کے راستہ کی تلاش)کی طرف ہی گامزن ہیں یا حضرات ِسلف صالحین رحمہم اللہ کے طریق ِمستقیم سے ہٹ کر کسی ضلالت وگمراہی اور تباہی وبربادی کی طرف محو ِسفر ہیں۔
حضرات ِصحابہ ۔نجوم ِہدایت:
ایک حدیث میں حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا،اور آپ ﷺاکثر (وحی کے انتظار میں)آسمان کی طرف دیکھا کرتے تھے اور پھر فرمایا کہ ستارے آسمان کے لیے امن وسلامتی کا باعث ہیں،جس وقت یہ ستارے جاتے رہیں گے ،تو آسمان کے لیے وہ چیز آجائے گی جو موعودومقدر ہے ۔میں اپنے صحابہ کے امن وسلامتی کا باعث ہوں،جب میں چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ پر وہ چیز آجائے گی جو موعود مقدر ہے اور میرے صحابہ میری امت کے لیے امن وسلامتی کا باعث ہیں ۔جب میرے صحابہ (اس دنیا سے )رخصت ہو جائیں گے تو میری امت پر وہ چیز آپڑے جو کچھ مقدر ہے۔
سلف صالحین کی جماعت وہ مقدس جماعت ہے جن کے واسطے سے ہم تک دین وایمان کی صورت میں دنیاوآخرت کی سب سے بڑی نعمت پہنچی،یہی وہ نفوس ِقدسیہ ہیں، جن کی دعوت وتبلیغ کی برکت سے ہم ہمیشہ ہمیشہ کی ہلاکت اور بربادی سے بچ کر ابدالآباد کی کامیابی وکامرانی کے مورد بن گئے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص تم پر احسان کرے تو تم اگر احسان کا بدلہ احسان کے ذریعہ چکا سکتے ہو تو چکا دو اور اگر اس احسان کا بدلہ نہ دے سکو، تو پھر اس کے لیے اتنی دعا کرواتنی دعا کرو کہ تمہیں یقین ہو جائے کہ تم نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے۔لہذا ہمیں اپنے اسلاف کی خدمات کی قدر کرنی چا ہیے اور انہیں ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا چاہیے۔