اسرا ،معراج اور مسجد ِاقصیٰ
مولانا افتخار احمد قاسمی# بستوی#
اللہ رب العزت نے قرآن کریم کے پندرہویں پارے کی سورة الکہف کی پہلی آیت میں ارشاد فرمایا ہے:
﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْریٰ بِعَبْدِہ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ اٰیَاتِنَا اِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ﴾(الاسراء:۱)
حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمة اللہ علیہ(ولادت:۱۸۵۱ء بریلی۔وفات:۱۹۲۰ء دہلی) نے ترجمہ کیا ہے:”پاک ذات ہے جو لے گیا اپنے بندے کو راتوں رات مسجد ِحرام سے مسجد ِاقصی تک،جس کو گھیر رکھا ہے ہماری برکت نے، تاکہ دکھلائیں اس کو کچھ اپنی قدرت کے نمونے، وہی ہے سننے والا دیکھنے والا۔“(اسراء:۱)
مولانا شبیر احمد عثمانی رحمة اللہ علیہ(ولادت:۱۱/۱۰/۱۸۸۷ء بجنور۔وفات:۱۳/ ۱۲/۱۹۴۹ء بہاولپور پاکستان) نے فوائد میں لکھا ہے کہ: ” یعنی اس کی ذات نقص و قصور اور ہر قسم کے ضعف و عجز سے پاک ہے۔جو بات ہمارے خیال میں بے انتہا عجیب معلوم ہواور ہماری ناقص عقلیں اسے بے حد مستبعد سمجھیں، خدا کی قدرت و مشیت کے سامنے وہ کچھ بھی مشکل نہیں۔“
آگے تحریر فرماتے ہیں کہ: ” یعنی صرف ایک رات کے محدود حصے میں اپنے مخصوص ترین اور مقرب ترین بندے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو حرمِ مکہ سے بیت المقدس تک لے گیا۔ اس سفر کی غرض کیا تھی؟آگے﴿ لِنُرِیَہُ مِنْ اٰیَاتِنَا ﴾میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔“
حاصل یہ ہے کہ خود اس سفر میں یا” بیت المقدس “سے آگے، کہیں اور لے جا کر، اپنی قدرت کے عظیم الشان نشان اور حکیمانہ انتظامات کے عجیب و غریب نمونے دکھلانے منظور تھے۔
سورہٴ نجم میں ان آیات کا کچھ ذکر کیا ہے ،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ” سدرة المنتہی “تک تشریف لے گئے اور نہایت عظیم الشان آیات کا مشاہدہ فرمایا۔﴿ وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَةً اُخْریٰ﴾آیت نمبر ۱۳/ سے آیت نمبر ۱۸/ تک سورة النجم ۱۵۸/ میں اسی کا ذکر ہے۔
علمائے کرام کی اصطلاح میں مکہ سے بیت المقدس تک کے سفر کو ”اِسْرَاء“ اور وہاں سے اوپر سدرة المنتہی تک کی سیاحت کو” مِعْرَاج“ کہتے ہیں اور بسا اوقات دونوں سفر کے مجموعے کو ایک ہی لفظ” اسراء“ یا ”معراج“ سے تعبیر کر دیا جاتا ہے۔
معراج کی احادیث ۳۰/ صحابہ سے منقول ہیں، جس میں ”معراج“ و” اسراء“ کے واقعات بسط و تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔جمہور سلف و خلف کا عقیدہ ہے کہ حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ بیداری میں” بجسدہ الشریف “معراج ہوئی۔
صرف دو تین صحابہ سے منقول ہے کہ واقعہٴ اسراء و معراج کو منام کی حالت میں بہ طور ایک عجیب و غریب خواب کے مانتے تھے؛چناں چہ اسی سورت میں آگے چل کر جو لفظ﴿ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِیْ﴾ آیت ۱۷/ سورة الاسراء ۶۰ ا/ پر آتا ہے، اس سے یہ حضرات استدلال کرتے ہیں۔
سلف میں سے کسی کا قول نہیں کہ معراج حالت بیداری میں محض روحانی طور پر ہوئی ہو ،جیسا کہ بعض حکما و صوفیا کے مذاق پر تجویز کیا جا سکتا ہے۔
روح المعانی میں ہے: ” ولیس معنی الإسراء بالروح الذَّہاب بلفظہ کالانسلاخ الذي ذہب إلیہ الصوفیة والحکماء فإنہ وإن کان خارقا للعادة ومحلا للتعجب أیضا إلا انہ أمر لا تعرفہ العرب ولم یذہب إلیہ أحد من السلف۔“
بے شک ابن قیم رحمة اللہ علیہ نے زاد المعاد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ کے مسلک کی اس طرح توجیہ کی ہے۔لیکن اس پر کوئی نقل پیش نہیں کی ۔محض ظن و تخمین سے کام لیا ہے۔
ابن اسحاق رحمة اللہ علیہ وغیرہ نے جو الفاظ ان بزرگوں کے نقل کیے ہیں ان میں کہیں حالتِ بیداری کی تصریح نہیں۔
بہرحال قرآن کریم نے جس قدر اہتمام اور ممتاز درخشاں عنوان سے واقعہ اسراء کو ذکر کیا اور جس قدر جدّ و مستعددی سے مخالفین اس کے انکار وتکذیب پر تیار ہو کر میدان میں نکلے حتی کہ بعض موافقین کے قدم بھی لغزش کھانے لگے۔یہ اس کی دلیل ہے کہ واقعہ کی نوعیت محض ایک عجیب و غریب خواب یا سیرِ روحانی کی نہ تھی۔ روحانی سیر انکشاف کے رنگ میں آپ کے جو د عاوی ابتدا ئے بعثت سے رہے ہیں، دعوائے اسراء کفار کے لیے کچھ ان سے بڑھ کر تعجب خیز و حیرت انگیز نہ تھا ،جو خصوصی طور پر اس کو تکذیب و تردید اور استہزا و تمسخر کا نشانہ بناتے اور لوگوں کو دعوت دیتے کہ آؤ! مدعیٴ نبوت کی ایک بالکل انوکھی بات سنو۔ نہ آپ کو خاص اس واقعے کے اظہار پر اس قدر متفکرو مشوش ہونے کی ضرورت تھی جو بعض روایاتِ صحیحہ میں مذکور ہے۔ بعض احادیث میں صاف لفظ میں ہے:
”ثم أصبحت بمکة یا ثم أتیت بمکة“ پھر صبح کے وقت میں مکہ پہنچ گیا۔
اگر معراج محض کوئی روحانی کیفیت تھی تو آپ مکہ سے غائب ہی کہاں ہوئے اور شداد ابن اوس وغیرہ کی روایت کے موافق بعض صحابہ کا یہ دریافت کرنا کیا معنی رکھتا ہے کہ” رات میں قیام گاہ پر تلاش کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تشریف لے گئے تھے؟“
ہمارے نزدیک﴿ اَسْریٰ بِعَبْدِہ ﴾کہ یہ معنی لینا کہ خود اپنے بندے کو خواب میں یا محض روحانی طور پر مکہ سے بیت المقدس لے گیا ،اس کے مشابہ ہے کہ کوئی شخص ﴿فَاَسْرِ بِعِبَادِیْ﴾کے یہ معنی لینے لگے کہ” اے موسیٰ! میرے بندوں یعنی بنی اسرائیل کو خواب میں یا محض روحانی طور پر لے کر مصر سے نکل جاؤ۔“یا سورہٴ کہف میں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات کے لیے جانا اور ان کے ہمراہ سفر کرنا جس کے لیے کئی جگہ﴿ فَانْطَلَقَا﴾ کا لفظ آیا ہے اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ یہ سب کچھ محض خواب میں یابہ طور روحانی سیر کے واقع ہوا تھا۔ باقی لفظ ”رُوٴْیَا“جو قرآن میں آیا اس کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرما چکے ہیں: ”رُؤْیَا عَیْنٍ اُرِیَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ“مفسرین نے کلام ِعرب سے اس کے شواہد پیش کیے ہیں” رؤیا“ کا لفظ گاہے بگاہے مطلق روٴیت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، لہٰذا ا س سے مراد اگر یہی اسرا ء کا واقعہ ہے تو مطلق نظارہ کے معنی لیے جائیں، جو ظاہری آنکھوں سے ہوا تاکہ ظاہرِ نصوص اور جمہورکے عقیدے کی مخالفت نہ ہو۔
ہاں” شریک“ کی روایت میں بعض الفاظ ضرور ایسے آئے ہیں، جن سے اسراء کا بحالتِ نوم واقع ہونا معلوم ہوتا ہے، مگر محدثین کا اتفاق ہے کہ ”شریک“ کا حافظہ خراب تھا، اس لیے بڑے بڑے حفاظ ِحدیث کے مقابلے میں ان کی روایت قابلِ استناد نہیں ہو سکتی۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ نے فتح الباری کے اواخر میں حدیث” شریک“ کے اغلاط شمار کرائے ہیں اور یہ بھی بتلایا ہے کہ ان کی روایت کا مطلب ایسا لیا جا سکتا ہے کہ جو عام احادیث کے خلاف نہ ہو۔ اس قسم کی تفاصیل ہم یہاں درج نہیں کر سکتے۔
شرحِ مسلم میں یہ مباحث پوری شرح و بسط کے ساتھ درج کیے ہیں۔یہاں صرف یہ بتلانا ہے کہ مذہبِ راجح یہی ہے کہ معراج و اسرا کا واقعہ حالتِ بیداری میں بجسدہ الشریف واقع ہوا۔ہاں اگر اس سے پہلے یا بعد خواب میں بھی اس طرح کے واقعات دکھلائے گئے ہوں، تو انکار کرنے کی ضرورت نہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ایک شب میں اتنی لمبی مسافت زمین و آسمان کی کیسے طے ہوگئی؟ یا ”کرہٴ نار“ و”زمہریر“ میں سے کیسے گزرے ہوں گے؟ یا اہلِ یورپ کے خیال کے موافق جب آسمانوں کا وجود ہی نہیں تو ایک آسمان سے دوسرے اور تیسرے پر اس شان سے تشریف لے جانا جو روایت میں مذکور ہے کیسے قابل تسلیم ہوگا؟ لیکن آج تک کوئی دلیل اس کی پیش نہیں کی گئی کہ آسمان واقع میں کوئی شی موجود نہیں ۔ اگر ان لوگوں کا یہ دعویٰ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ یہ نیلگوں چیز جو ہم کو نظر آتی ہے فی الحقیقت آسمان نہیں ہے، تب بھی اس کا کیا ثبوت ہے؟ اس نیلگوں رنگ کے اوپر آسمانوں کا وجود نہیں ہو سکتا۔ رہا ایک رات میں اتنا طویل سفر طے کرنا تو تمام حکما تسلیم کرتے ہیں کہ سرعتِ حرکت کے لیے کوئی حد نہیں ہے۔ اب سے ۱۰۰/ برس پیشتر تو کسی کو یہ بھی یقین نہیں آسکتا تھا کہ ۳۰۰/ میل فی گھنٹہ چلنے والی موٹر تیار ہو جائے گی یا ۱۰/ ہزار فٹ کی بلندی تک ہم ہوائی جہاز کے ذریعے پرواز کر سکیں گے۔” اسٹیم“ اور”قوتِ کہربائیہ“ کے یہ کرشمے کس نے دیکھے تھے؟”کرہٴ نار“ تو آج کل ایک لفظ بے معنی ہے۔ ہاں اوپر جا کر ہوا سخت برودت وغیرہ کا مقابلہ کرنے والے آلات طیاروں میں لگا دیے گئے ہیں ،جو اڑنے والوں کی زمہریر سے حفاظت کرتے ہیں۔ یہ تو مخلوق کی بنائی ہوئی مشینوں کا حال تھا۔ خالق کے بلاواسطہ پیدا کی ہوئی مشینوں کو دیکھتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ زمین یا سورج ۲۴/ گھنٹے میں کتنی مسافت طے کرتے ہیں؟روشنی کی شعاع ایک منٹ میں کہاں سے کہاں پہنچتی ہے؟ بادل کی بجلی مشرق میں چمکتی ہے اور مغرب میں گرتی ہے اور اس سرعتِ سیر و سفر میں پہاڑ بھی سامنے آجاتے ہیں توپرِ کاہ کے برابر حقیقت نہیں سمجھتی ،جس خدا نے یہ چیزیں پیدا کیں کیا وہ قادر مطلق اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے براق میں ایسی برق رفتار ی کی کلیں اور حفاظت و آسائش کے سامان نہ رکھ سکتا تھا، جن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بڑی راحت و تکریم کے ساتھ چشم زدن میں ایک مقام سے دوسرے مقام کو منتقل ہو سکیں۔
اور تنگ خیالی سے حق تعالیٰ کی لامحدود قوت کو اپنے وہم و تخمین کی چہار دیواری میں محصور کرنا چاہتے ہیں، کچھ اپنی گستاخیاں اور عقلی ترک تازیوں پر شرمائیں۔ شیخ سعدی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
نہ ہر جائے مرکب تواناں تاختن
کہ جاہا سپر باید انداختن
مذکورالصدرآیت میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک کے سفر کا ذکر ہے۔
مسجد اقصیٰ وہی مسجد ہے ،جو اہلِ ایمان کا قبلہٴ اول اور مسجد ِحرام اور مسجد ِنبوی کے بعد مسلمانوں کے لیے تیسرا سب سے مقدس مقام ہے۔ اسی مسجد کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے جناتوں سے تعمیر کروا یا تھا۔یہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے لیے آسمانوں پر خداوند ذوالجلال کی دعوت پر اللہ رب العزت سے ملاقات کے لیے جاتے ہوئے ۳۱۵/ نبیوں اورکم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار رسولوں کی امامت فرمائی اور یہیں سے قبة الصخرہ کے اوپر سے آسمانوں پر جہاں تک خدا کو منظور تھا آپ تشریف لے گئے۔۱۶/ یا ۱۷/ مہینے تک اسی مسجد ِاقصیٰ کی طرف رخ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو نمازیں پڑھائیں۔ ان ہی مذہبی و تاریخی حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کی تاریخی و مذہبی میراث ہے۔
مسجد ِاقصیٰ سرزمین فلسطین میں واقع ہے، جسے سرزمین انبیا بھی کہا جاتا ہے۔ جنگِ عظیم سے قبل یہودی بڑی تعداد میں جرمنی میںآ باد تھے ۔جب ہٹلر اُن کا قتل عام کر کے باقی ماندہ کو وہاں سے نکال رہا تھا تو دنیا کا کوئی ملک انہیں پناہ دینے کو تیار نہیں تھا۔ اس کی وجہ اس قوم کی دغا بازی و مکاری ،دھوکہ دہی ، جعل سازی اور بے وفائی تھی ۔ ناشکری تو اس قوم کی گویا گھٹی میں پڑی تھی، حتیٰ کہ برطانیہ کو یہ خطرہ معلوم ہوا کہ کہیں یہ مکار و دغا باز قوم برطانیہ (یو کے) میںآ کر نہ آباد ہو جائے، تو اس نے اس سے نجات پانے اور امتِ مسلمہ کی وحدت کی چادر کو پارہ پارہ کرنے کے مقصد سے ”ایک پنتھ دو کاج “کے مصداق فلسطین میں انہیں بسانے کا فیصلہ کیا۔
دھیرے دھیرے یہودی قوم نے اپنے ماضی کی روشنی میں اپنی عادات و مکاریوں سے باز نہ آتے ہوئے اپنی فطرتِ ثانیہ کا مظاہرہ شروع کر دیا اور فلسطینیوں کی زمین پر ظالمانہ قبضہ شروع کر دیا۔آخرش ساری دوا دوش کا نتیجہ یہ نکلا کہ اقوامِ متحدہ (یو این او )نے عرب کے سینے میں اسرائیلی خنجر گھونپ کر فلسطین کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ اس طرح اسرائیل نامی نا پاک ملک کا ظالمانہ وجود سرزمینِ فلسطین پر ہو گیا۔
ارضِ فلسطین کے اکثر حصے پر قابض ہونے کے بعد اسرائیل نے آگ و خون کا سلسلہ شروع کیا جو تاہنوز جاری ہے۔اسرائیل نے ۱۹۵۶ء میں مصر کی نہر سوئز پر اپنا دعویٰ کیا۔۱۹۶۷ء میں عربوں کے خون سے ہولی کھیلی اور القدس کو مجازاً نہیں ،بل کہ حقیقتاًاپنے ظلم و جبر کی چکی میں پیس دیا۔اور فلسطینی عوام کو ظلم و بربریت کی آگ میں جھونک دیا اور آج جب ۷/ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو فلسطین کی جاں باز تنظیم” حماس “نے ستر سال سے ہونے والے ظلم کے جواب میں اسرائیل پر دس منٹ میں ۵/ ہزار میزائل برسادیے ،تاکہ اپنی زمین کی بازیابی ہوسکے تو ع
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کا نظارہ سامنے آیا اور ظالم اسرائیل کا ساتھ دینے کے لیے امریکہ ، فرانس اور برطانیہ خم ٹھونک کر آگے آگئے اور ظلم و ستم کی حد کردی ، حماس مجاہدین کا مقابلہ کرنے کے بجائے بے قصور نہتے شہریوں کو نشانہ بنانے لگے ،جن کے نتیجے میں اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینی مسلمانوں کی تعداد۱۳۳۰۰/( تیرہ ہزار تین سو) تک پہنچ گئی، جن میں۵۵۰۰/( ساڑھے پانچ ہزار) تو معصوم اور بے گناہ بچے شامل ہیں۔ خواتین شہدا کی تعداد۳۵۰۰/(ساڑھے تین ہزار )کے قریب پہنچ گئی ہے۔
اسرائیل کی موجودہ جنگ میں شامل تمام اتحادی امریکہ ، فرانس اور برطانیہ عالمی قانون کی بھی دھجیاں اڑانے میں لگے ہیں، بم برسارہے ہیں، طبی عملہ کو جان سے ماردے رہے ہیں، طبی عملہ کے مقتول افرادکی تعداد ۲۰۱/( دوسو ایک) تک جا پہنچی ہے ۔ ڈاکٹر ، نرس ، پیرا میڈک دفاعی نوجوان ۲۲/ کی تعداد میں شہید ہو چکے ہیں۔ عالمی قانون میں صحافت کو آزادی حاصل ہے اور صحافیوں کو آزادی سے خبریں نشر کرنے اور اخبارور سائل اور شوسل میڈیا میں صحیح خبروں کے شائع کرنے کی مکمل آزادی ہے، لیکن دہرا معیار اپنانے والے اسرائیل وامریکہ نے حماس کی اس جنگ میں صحافیوں تک کو نہیں بخشا۔ تادمِ تحریر جنگ کے ۴۵/ دن بیت گئے ہیں اور اب تک ۶۰/ کے قریب صحافی بھی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ۶۰۰۰/ سے زیادہ افراد تو لا پتہ ہیں، زخمیوں کی تعداد تو ۳۰/ ہزار سے متجاوز ہے۔ ۲۶۲/ اسکول تباہ ہوچکے ہیں، اور تراسی مساجد کو کلی یا جزوی طور پر بھاری نقصان پہنچا ہے۔ غزہ پٹی کی تقریباً تمام عمارتیں تہس نہس کردی گئی ہیں، عالمی قانون کی دہائی دینے والے اور طبی امداد کا راگ الاپنے والے ممالک آج اپنا دوغلہ پن اور دوہرا معیار آشکارا کر چکے ہیں، اور عدل و انصاف کا صرف نام لینے والے اسلام کے حقیقی عدل و انصاف اور ظاہری و باطنی مساوات کے سامنے کھوکھلے نظر آرہے ہیں۔ اسی لیے عین جنگ کے موقع پر بھی لوگ اسلام قبول کرکے اسلام کی سچائی کو عملاً ثابت کررہے ہیں۔