بس !میں صرف مسلمان عوام کو اور ساری دنیا کے انسانوں کو فلسطین کی طرف لے جانا چاہتا ہوں ، جہاں روزانہ بے گناہوں کا قتل عام ہوتا ہے ، خواتین کو سرِعام گولیاں مار دی جاتی ہیں ، پر امن مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ میں نماز اداکرنے سے روک دیا جاتا ہے ، غریب مسلمانوں کا ؛جو اپنے آباواجدادکے وقت سے فلسطین میں رہ رہے ہیں اور جن کی کئی نسلیں فلسطین کی سرزمیں میں مدفون ہیں، ان کے گھر وں کو مسمار کیا جاتا ہے اور ان کو بے گھر و آسرا کھلے آسمان تلے ہجرت کرنے یا خیموں تک محدود کردیا جاتا ہے اور جو کوئی اپنی مظلومیت پر آواز بلند کرتا ہے تو اس پر دہشت گرداور انتہاپسند ہونے کا ٹھپہ لگاکر یا تو مار دیا جاتا ہے یا سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جاتا ہے ، حتی کہ ان کے معصوم بچوں تک کو گرفتار کرلیاجاتا ہے ۔
جی ہاں! فلسطین میںیہ کوئی نئی بات نہیں۔ بین الاقوامی ریڈ کریسنٹ کی رپورٹ کے مطابق صرف اکتوبر کے مہینے میں (Red Crescent) ادارہ اسرائیل فوجیوں کے حملوںمیں چھبیس سو افراد زخمی ہوئے ،جن کو ربڑ اور اصلی گولیوں سے نشانہ بنایا گیا ، ایک اور رپورٹ کے مطابق دو مہینوں میں ایک ہزار بچے گرفتار ہوئے اس کے علاوہ روزانہ فلسطینی شہید ہورہے ہیں ، اسرائیلی بربریت کا یہ عالم ہے کہ ان کی شیلنگ سے ایک آٹھ ماہ کی بچی بھی شہید ہوئی ۔ ابھی یہ ظلم کم نہیں ہوئے تھے کہ اسرائیل نے اب ایک اور قانون تیار کیا ہے ،جس کی رو سے چودہ سال سے کم عمر کے بچوں کو گرفتار کرنا اور ان کو قید کرنا قانونی قرار دیا ہے، جو کھلے عام انسانی حقوق کی پامالی ہے ۔ حال ہی میں فلسطینی کی جانب (Palestinian Prisoners Society ) ادارے ، فلسطینی پریز ینرز سوسائٹی سے ایک رپورٹ شایع ہوئی ہے، جس میں ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جیلوں میں ۴۰۰؍ فلسطینی بچے موجود ہیں جن کی عمر ۱۳ سے ۱۷ سال تک ہے اور ان بچوں کو اسرائیلی فوجیوں نے فلسطین کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا ہے ۔
اب ذرا امریکہ کی طرف دیکھیں۔ جو اپنے آپ کو دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں عالمی چمپین اور انسانی حقوق کا علم بردار سمجھتا ہے ، فلسطین میں اسرائیلی مظالم میں برابر کے شریک ہیں ، بش کے زمانہ میں امریکہ اسرائیل کے درمیان ۱۰؍سال کا معاہدہ ہوا تھا،جس میں امریکہ ہر سال۳؍بلین ڈالرفوجی امداد کی مد میں اسرائیل کو دے گا ، جو ۲۰۰۷ء تا ۲۰۱۷ء تک تھا ۔ ابھی حال ہی میں یہ معاہدہ ختم ہونے سے پہلے اسرائیلی وزیر اعظم کے دورۂ امریکہ کے دوران مزید دس سالہ معاہدہ طے پایا ہے، جس میں امریکہ ہر سال ۳ بلین سے بڑھا کر ۵ بلین ڈالر اسرائیل کو فوجی امداد کی مد میں ادا کرے گا۔ جو ۲۰۱۸ء سے ۲۰۲۸ء تک ہوگا ۔ میری امریکہ سے گزارش ہے کہ امریکہ اسرائیل جیسے دہشت گرد کو مشرقِ وسطیٰ میں رکھ کر ہر سال امریکی عوام کے ٹیکس سے ڈالر بھیجنے کے بجائے اسرائیلیوں کو امریکہ میں ہی بسالے ، امریکہ میں ایک اور اسٹیٹ کا اضافہ ہوگا اور اسرائیل وہاں خوش بھی ہوںگے اور کسی دشمن کا خوف بھی نہیں ہوگا۔ اورنہ ہی فلسطینی حماس کے حملے ہوںگے ، اسرائیلی وہاں خوشی سے رہیںگے امریکہ کی پریشانی بھی کم ہوگی ، ادھر فلسطینی اپنے وطن میں خوشی سے رہیں گے؛ بل کہ مشرق ِوسطیٰ کی امن وسلامتی بھی بحال ہو گی؛ کیوں کہ یہ ان کے مفاد میں نہیں ہے ۔ افسوس ہے ان انسانی حقوق کے علم برداروں پر اور ان مسلم ممالک خصوصاً عرب ممالک پر جنہوں نے پیرس کے سانحہ پر توآسمان سر پر اٹھالیا؛مگر کبھی فلسطین کے شہدا کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار نہیں کی اور نہ ہی فیس بک اور بلڈنگوں پر فلسطین کا پرچم لہرایا ۔سوائے کچھ ممالک کے ، بل کہ حد تو یہ ہے کہ بعض مسلمانوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اسرائیل فلسطین جنگ ہو تو میں اسرائیل کا ساتھ دوںگا جب مسلمان حکمرانوں کا یہ عالم ہو اور وہ اپنی تمام تر طاقتوں کے باوجود مٹھی بھر دشمن کے سامنے غلام بن کررہیںگے تو دشمن ہمارے ہی وسائل سے ہمیں قتل کریںگے ۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کو یہ جرأت بھی مسلم حکمرانوں کی وجہ سے حاصل ہوئی،جنھوںنے اپنے اقتدار اورمفاد کی خاطر اسلام دشمنوں کو گلے لگا یا اور ان کو بسانے اور طاقت ور بنانے میں مدد فراہم کی ، افسوس ہے مسلمانوں پر جو ایک چھوٹے سے علاقہ اورقبلہ اول کو دشمنوں کے شر سے نہیں بچاسکا اور اپنوں کے مارے جانے پر خوشی اور کافروں کے مرنے پر غم زدہ ہوتے ہیں ، افسوس ہے عرب ملکوں اور حکمرانوں پر ، عرب والے اگر صرف عرب ہونے کے ناطے بھی جمع ہوجائیں، تو فلسطین سے اسرائیل کا ناجائز وجود ختم ہوجائے گا ؛مگر عربوں نے اپنے ضمیر کے ساتھ انسانیت اور دین وایمان کو بھی فروخت کردیا ہے سوائے کچھ لوگوں کے ؛جو دشمن کے سامنے میدان عمل میں ڈٹے ہوئے ہیں ۔
کس طرح فلسطین پر قبضہ کیا گیایہ جاننے کے بعد عالمی قانون کے اعتبا ر سے فلسطین اور القدس پر مسلمانوں کا حق کیسے بنتا ہے اس کو بھی جانتے چلیں۔